" مجھے نہیں لگتا وفا کہ میں نے ذندگی میں کبھی کوئی نیکی کی ہے، پھر بھی اللہ نے مجھے ایک ایسی ہمسفر کا ساتھ دیا، جس کی خواہش کسی بھی مرد کو ہو سکتی ہے۔"
ایان گھمبیر لہجے میں بول رہا تھا۔
" اور آپکےجیسے ہمسفر کی خواہش بھی تو ہر لڑکی کی ہوتی ہے نا ایان۔"
وفا نے پلکوں کی چلمن اٹھا کر نظر بھر کے اپنے محرم کو دیکھا۔
" ایان کہتی ہوئے زیادہ اچھی لگتی ہو۔"
ایان اسے حصار سے آزاد کرتے ہوئے بولا تو وفا سر جھکائے مسکرا دی۔
" میرے کپڑے نکال دو پلیز۔"
ایان جائے نماز سے اٹھ کر بیڈ پر آبیٹھا اور سائڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا لیا۔
وفا نے سر ہلایا اور جائے نماز انکی مخصوص جگہ پر رکھ کر الماری کی سمت بڑھی۔
وائٹ لائننگ شرٹ کے ساتھ براون جینز نکال کر بیڈ پر رکھی، اور دراز سے خوبصورت رسٹ واچ نکال کر صوفے پر رکھی اور ناشتے کے لیے کمرے سے نکل آئی۔
"السلام علیکم۔"
وفا خوشگواریت سے بولی تو رائنہ مسکرا کے سر ہلا گئی۔
وفا ناشتہ ٹیبل پر سیٹ کرنے لگیں۔
ایان کمرے سے نکل کر وفا کو دیکھتا ٹی وی لاونج میں آ گیا۔
ایل ای ڈی آن کی اور نیوز چینل پر آ کر روک دیا۔
وفا نے گہری نظروں سے اسے دیکھا، وائٹ شرٹ میں بہت چج رہا تھا، ہوش و حواس میں وجاہت کا شاہکار لگ رہا تھا، ہلکی بڑھی مونچھوں تلے عنابی لب ساکت تھے، البتہ صبیح چہرے پر سکون واضح دکھ رہا تھا۔
" آج کی تازہ ترین خبر۔"
ایان کے چینل سرچنگ کرتے ہاتھ رک گیے۔
" آج کی تازہ ترین خبر سے آگاہ کرتے چلیں، شہروز نائک نے بزنس وومین اور انکی اہلیہ ساریہ نائک پر بری طرح تشدد کیا۔"
وفا کے مسکراتے لب سکڑ گیے، ناشتہ لگاتے ہاتھ رک گیے، وہ پرہشانی سے لاونج میں آگئی۔
"ساریہ نائک کا کہنا ہے کہ اس تشدد کی وجہ، ان کی عربوں مالیت کی وہ کمپنی ہے جو وہ اپنی سابقہ بیٹی وفا ملک کے نام کر چکی ہیں۔"
اینکر اپنے مخصوص انداز میں بولتی جا رہی تھی۔
" شہروز نائک نے اسی کمپنی کے لیے ساریہ نائک سے شادی کی تھی، اور جب ساریہ نائک وہ کمپنی اپنی بیٹی کودے چکیں توشہروز نائک نے انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گھر سے نکال دیا۔"
وفا کی رنگت متغیر ہونے لگی تھی۔
ایان نے لب سختی سے بھینچ لیے۔
" بالاج نائک کا کہنا ہے ایان ملک نے وفا سے شادی صرف نائک کمپنی ہتھیانے کے لیے کی ہے، اور آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا ہے۔"
اینکر بول رہی تھی، ایان نے مٹھیان بھینچ لیں، جبڑے سختی سے بھینچے وہ غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر ریا تھا۔
اکاش ملک اس کے پاس آ کھڑے ہوئے۔
" مجھے لگتا ہے، تمہیں کانفرنس میٹنگ ارینج کر لینی چاہیے، پبلک کو سچائی سے آگاہ کردو۔"
اکاش ملک صوفے کی پشت پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔
وفا کی آنکھوں میں نمی بڑھنے لگی تو وہ کمرے میں ا گئی، بیڈ پر بیٹھے وہ بے حد پریشان ہوگئی تھی۔
ایان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو وہ ہاتھ گود میں رکھے کارپیٹ کو گھور رہی تھی۔
ایان اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔
وفا نے چپ چاپ اسکے کندھے پر سر رکھ دیا۔
ایان نے اسکا رخسار آہستگی سے تھپتھپایا۔
" پریشان مت ہو، میں ہونا۔"
ایان نے اسکے چہرہ اپنے چہرے کے سامنے کیا۔
وفا نے جھلملاتی آنکھیں بند کیں اور ایان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ لیا۔
بند آنکھوں سے موتی پھسل گیے تھے۔
" یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے ایان۔"
وفا گلوگیر لہجے میں بولی۔
" کوئی کسی کے لیکھوں کی وجہ نہیں ہوتا، شہروز نائک کی اصلیت کھل گئی ہے۔"
ایان بے حد نرمی سے بول رہا تھا
" میری ماما ہرٹ ہوئی ہیں۔"
وفا مدھم لہجے میں بولتی سر جھکا گئی۔
" اللہ پر یقین ہے نا میری جان، تو اسے قائم رکھو۔"
ایان نے اسکے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھرا۔
" چلو ناشتہ کر کے تمہاری مام سے مل لیتے ہیں۔"
ایان نے نرمی سے کہا تو وفا مسکرا دی۔
" آپ بہت اچھے ہیں ایان۔"
وفا اسکے کندھے پر سر رکھ گئی۔
" کیونکہ میری جان بہت اچھی ہیں۔"
ایان اسکے سر سے سر ٹکراتے ہوئے بولا تو وہ مسکرا دی۔
" مسکراتی رہا کریں۔"
ایان اسے بازو کے حصار میں لیے اور کمرے سے باہر لے آیا۔
ایان نے ناشتہ پلیٙٹ میں نکالا اور دونوں کھانے لگے۔
" ڈیڈ ہم وفا کی مام سے ملنے جا رہے ہیں۔"
ایان کا لہجہ اکاش ملک کے ساتھ کافہ بہتر ہو گیا تھا، انکے طنز بھی قدرے کم ہونے لگے تھے۔
ایان نے جولی کو کال کی اور ساریہ نائک سے ملنے کا کہا۔
وفا تیار ہو کر ایان کے پاس آبیٹھی۔
" چلیں مسز۔"
ایان نرمی سے بولا اور دونوں باہر کی سمت بڑھے۔
" بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔'
ایان لو دیتے لہجے میں بولا، وفا نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
لائٹ بلیو شرٹ اور کیپری کے ساتھ آنچل سر پر لیے وہ پروقار لگ رہی تھی، یورپین ماحول اسے مکمل طور پر خود میں ڈھال نہیں سکا۔
" جب شوہر تعریف کرتا ہے، تو لڑکی شرما جاتی ہے، دوپٹہ منہ میں لے کر چبا جاتی ہے۔"
ایان اسے فقط مسکراتا دیکھ کر بولا۔
وفا نے مبہم سی مسکراہٹ لیے اسے دیکھ کر سر جھٹک۔
" شرماو نا پلیز وفا۔"
ایان گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا۔
وفا اسکی بچگانہ ضد پر حیران تھی۔
گاڑی روڈ پر ڈالتے وہ پھر سے وفا کو ستانے کے موڈ میں تھا، وفا کی سنجیدگی کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیام سعید کو کام کرتے ایک سال ہونے کو تھا، انکی سٹڈی مکمل ہونے والی تھی۔
" خیام کیا سوچا ہے تم دونوں نے۔"
لقمان ساریہ اسر خیام کی طرف دیکھ کر خیام سے مخاطب ہوا۔
" ہم شادی کرنے والے ہیں۔"
خیام ساریہ کی جانب دیکھ کر بولا، ساریہ نے مسکراتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔
" ساریہ میری شہزادی ہے، اس نے تمہیں پسند کیا ہے، میری بیٹی کو ہمیشہ مسکراتا رکھنا۔"
لقمان نائک تنبیہی لہجے میں بولے تو خیام سعید سر اثبات میں ہلاتے ہوئے مسکرا دیا۔
لقمان نائک آفس چلے گئے۔
" سچ میں شادی کرنے والے ہیں۔"
ساریہ خیام کے بازو پر سر رکھے بولی تھی۔
" کیا کروں، محبت ہو گئی ہے تم سے۔"
خیام نے سر اسکے سر پر رکھ لیا۔
" مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔"
ساریہ اسکی سمت دیکھتے ہوئے بھوری آنکھیں میچ کر بولی۔
" میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔"
خیام سعید گلابی گداز رخسار پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
" یو نو خیام، مجھے تم میں ڈیڈ دکھتے ہیں۔"
ساریہ ٹرانس میں بولی تھی، خیام دھیرے سے ہنس دیا۔
(گلاب سا لڑکا)
وہ سرخ گلاب سالڑکا
مجھ میں خوشبو سابستا ہے
اپنی خوشبو سےمیری سانسیں مہکاتا ہے
اپنی بےلوث چاہت سےمجھےہر رنگ میں رنگتا ہے
رنگ وہ اپنی چاہت کےمجھی پر نچھاورکرتا ہے
مجھے صندل کر دیتا ہے
رگوں میں خوں بن کر بہتا ہے
مجھے احساس ہوتا ہے
وہ کہیں مجھ میں ہی رہتاہے
وہ مجھے ہر پل مہکائے رکھتا ہے
وہ اک گلاب سا لڑکا
ہاں مجھی میں ہی بستا ہے
( از ثمرین کرن)
ساریہ آہستگی سے پڑھتی چلی گئی۔
خیام حیرت کی تصویر بنا تھا۔
" یہ لفظ نہیں ہیں خیام، میرے احساس ہیں۔"
ساریہ اسکے بازو پر سر رکھ گئی۔
" مجھے تمہارے جزبست اور احساسات کی قدر ہے ساریہ۔"
خیام نے اسے اپنے حصار میں لیا۔
" میرے لیے ایک شعر۔۔۔۔۔۔"
ساریہ نے اسکی تراشیدہ شیو پر انگلی پھیری۔
"کوئی بھی اور نشہ میرے کام کا ہی نہیں
تمھاری اپنی مہک ہی مجھے ستاتی ہے"
(ثمرین کرن)
خیام صوفے سے ٹیک لگا گیا۔
" رئیلی۔"
ساریہ نے پلکوں کی گھنی چلمن اٹھا کر خیام سعید کے چہرے کو دیکھا۔
" ییس مائی لو۔"
خیام نے اسکے بھورے بال بکھیر دیے۔
ساریہ یک ٹک آنکھوں میں دیوانگی لیے اسے تک رہی تھی۔
" ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔"
خیام نے اسکی ناک کھینچی۔
چوم لیتی ہوں میں تری آنکھیں
رات ملتے ہو جب بھی خوابوں میں
(ثمرین کرن)
خیام نے مسکرا کر اسے دیکھا۔
" اتنی محبت کرو گی تو ٹوٹ جاو گی۔"
خیام اسے دیوانہ وار اظہار کرتے دیکھ کر بولا۔
" مجھے اپنے خیام پر یقین ہے۔"
ساریہ نے سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔
خیام نے فکر مندی سے اسے دیکھا۔
۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج نائک پیلس پر روشنی کی بوچھاڑ کرتا جا رہا تھا، !ائک پیلس کے مکین بمشکل اٹھے اور جمائیاں لیتے ٹیبل پر آبیٹھے۔
" مارننگ ڈیڈ۔"
شزا خوشگواریت سے بولی۔
" مارننگ۔"
شہروز نائک کے لب جند لمحوں کو مسکراہٹ میں ڈھلے اور واپس اپنی اصلی جگہ پر آگیے۔
ناشتہ ٹیبل پر لگ چکا تھا، ملازمین چلے گیے۔
" کیا پلان ہے، نائک کمپنی واپس کیسے لائی جائے۔"
شہروز نائک نے دونوں کی سمت دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔
" میرے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔"
بالاج شدید بے زاری سے بولا۔
" تم سے تو یہی امید تھی۔"
شہروز نے سر جھٹکا۔
" میرے پاس پلان یے۔"
شزا چمچ منہ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
بالاج نے شہروز نائک کو اشارہ کیا
" میں نے کہا تھا نا وہ پلانر ہے۔"
شہروز نائک نے فقط گھوری پر اکتفا کیا۔
" وفا ملک کو کڈنیپ کر لیتے پیں۔"
شزا نے کہا تو بالاج نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
" میڈیا اور پولیس کا سیدھا شک ہم پر جائے گا۔"
بالاج نے اسکی بات کاٹی۔
" اسکے لیے ہم میڈیا سے میٹنگ ارینج کر کے نائک کمپنی سے مکمل لاپرواہی کا اظہار کریں گے۔"
شزا نے سنجیدگی سے کہا۔
" پھر۔"
شہروز نائک نے اسے دیکھا۔
" پھر وفا ملک کیڈنیپ کی جائے گی، اس وقت پم گھر سے بلکل نہیں نکلیں گے، اسکے کڈ نیپ ہوتے ہی ملک فیملی سے ہمدردی کا اظہار کرنے جائیں۔گے۔"
شزا نائک سنجیدگی سے بولی۔
" میں اس سے پیپرز پر سائن کروا لوں گی، اور اسے کسی دوسرے ملک بیچ دیا جائے گا، واپس آئی تو ہمارے لیے خطرہ بنے گی۔"
شزا نائک بے لچک لہجے میں بولی تو بالاج اور شہروز کی نظریں ٹکرائیں۔
" میں نے کہا تھا، اسکا دماغ بہت شاطر ہے۔"
شہروز نائک نے نظروں ہی نظروں میں جتایا۔
" ہونہہ۔"
بالاج نے سر جھٹکا اور اٹھ کےسٹڈی کی طرف چلا گیا۔
شہروز نائک ناشتہ کر کے وہیں آگیے۔
" آفس نہیں جاو گے۔؟"
شہرعز نائک اسکے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
"اونہہ۔۔۔"
بالاج نے سر نفی میں ہلایا اور بئیر کی بوتل کا ڈھکن کھولا۔
شہروز نائک کا دل للچا سا گیا۔
بالاج نے دو پیگ بنائے اور ایک شہروز کی طرف بڑھا دیا۔
" شزا پر ٹرسٹ کرنا چاہیے یا نہیں۔"
بالاج موبائل پر میل کھولتے ہوئے بولا۔
" کر لینا چاہیے۔"
شہروز نائک غٹا غٹ بئیر چڑھا رہا تھا، بالاج نے کن اکھیوں سے دیکھا۔
شیریں جہاں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ تھی، بالاج کا خون کھول گیا، وہ گلاس پر گرفت مضبوط کیے ضبط کر گیا۔
شہرعز نائک بولتا جا رہا تھا اور بئیر کی بوتل ختم کردی، بالاج نے دوسری بوتل رکھ دی۔
شہروز کو دیکھتے منظر تحلیل ہونے لگا۔
" بالاج یہ دیکھو میرے پرنس کے ٹوائیز۔"
پانچ فٹ لمبا قد، گہری نیلی آنکھیں، سفید دودھیا رنگت، سنہری بھورے بال لیے شیریں جہاں بے حد حسین تھی۔
" میرے لیے مام۔"
چھ سالہ بالاج حیرانگی سے بولتا ماں کےگلے جا لگا۔
" ییس مامز پرنس۔"
شیریں نے اسکے بھورے بال ہیشانی سے ہٹائے۔
" لو یو مام۔"
بالاج نازک دوشیزہ کے گلے جا لگا۔
" لو یو ٹو۔۔۔"
شیریں جہاں کے نازک گداز خوبصورتی سے تراشیدہ لب ہلے تھے۔
منظر بدلتا بیڈ روم میں آ گیا۔
" مام ویک اپ۔"
بالاج سوئی ہوئی ماں کا ہاتھ ہلا رہا تھا، جس کے گلابی لبوں سے سفید جھاگ بہہ کر مخروطی گردن سے ہوتی ہوئی بستر پر گر رہی تھی۔
" مام۔"
چھ سالہ بچہ غصے سے چلایا تھا، سوئی ماں ٹس سے مس نہ ہوئی۔
" میں آپ سے ناراض ہوجاوں گا۔"
بالاج نے ماں کا سفید مرمریں ہاتھ غصے سے جھٹکا ہی تھا، جب کچھ لوگ کمرے میں داخل ہوئے اور اسکی ماں کو لے گئے۔
" مام۔"
وہ چیختا چلاتا انکے ہیچھے بھاگا پر بے سود۔
اسکی مام پھر کبھی پلٹ کر نہیں آئیں۔
بیڈ روم ،سٹڈی میں بدل گیا۔
شہروز نائک دو بوتلیں چڑھا کر نشے سے دھت ہو رہا تھ،لیکن وہ اب بھی ہوش میں تھا۔
بالاج نے تیسری بوتل پٹخنے کے انداز میں رکھی تھی۔
شہروز نائک نے سر نفی میں ہلا دیا۔
بالاج لب بھینچتے سٹڈی سے نکل گیا۔
اسکا رخ ہاسپٹل کی جانب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔