بالاج نائک شہروز نائک سے حقیقت اگلوانے کا پلان بنا چکا تھا، اسکی پسندیدہ وائن سٹاک اور بیئر منگوا لی تھی۔
پیلس کا سٹڈی روم ان کا آفس تھا، بالاج ساری سیٹنگ کیے باہر نکل آیا۔
لاونج سے آتی ٹی وی کی آواز سن کر اسکےقدم بے اختیار لاونج کی طرف بڑھ گیے، شہروز نائک نیوز سن رہا تھا۔
بالاج صوفے کی پشت پر ہاتھ رکھے نیوز سننے لگا، سیاہ شرٹ کے بازو کہنیوں تک فولڈ کیے ہوئے تھا، چہرے پر غصے کے تاثرات ابھرنے لگے تھے۔
لب بھینچے وہ ضبط کرتا صوفے پر شہروز لے سامنے بیٹھتے ہوئے ریموڈ سے ایل ای ڈی آف کر دی۔
" ہو گیے سارے کام۔"
بالاج تلملا کر بولا۔
شیروز نائک غصے سے پاگل ہونے کو تھا، انگلیاں مسلتے، سرخی ہوتی آنکھوں سے بیٹھا تھا، غصے کی شدت سے نتھنے پھڑپھڑا رہے تھے۔
" اسکی اتنی ہمت۔۔۔۔"
شہروز نائک چبا چبا کر بولتا ہوا سائڈ ٹیبل پر رکھے گلدان کو ہاتھ مار کر زمین بوس کیا۔
چھناکے کی آواز پر شزا بھاگتی ہوئی لاونج میں آئی۔
شہروز اور بالاج نائک کی نظر اس پر نہیں پڑی تھی، وہ انہی قدموں سے بنا آہٹ کیے پلٹ کر پلر کی اوٹ سے جا لگی۔
" پہلے ہی اس ساریہ کا قصہ تمام کیا ہوتا، تو آج کمپنی اس وفا ملک کے نام نہ ہوتی۔"
بالاج نائک سخت غصے میں لگ رہا تھا، عربوں مالیت کی دولت ہاتھ سے نکل گئی تھی۔
شزا کے دل میں خوف سا ابھرا، وہ مزید پیچھے سرک گئی۔
پورچ میں گاڑیاں رکنے کی آواز آئی۔
ساریہ مسرور سی گاڑی سے نکلی، دن بھر وفا کے ساتھ گزار کر اسے وہی سکون میسر ہوا تھا، جو خیام سعید کی سنگت میں ملا کرتا تھا۔
وہ دروازے سے گزر کر کاریڈور سے ہوتی لاونج میں آئی تو شہروز نائک اور بالاج کے متغیر چہرے دیکھ کر سمجھ گئی۔
" تم نے کمپنی وفا ملک کے نام کیوں کی۔؟"
شہروز نائک ہر لحاظ بالائے طاق رکھ چکا تھا، آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہیں تھیں، ریاضتیں ڈوب جانے کا غم، دولت ہاتھ سے نکل جانے کا غم اسے پاگل کیے دے رہا تھا۔
" وہ میری کمپنی تھی۔"
ساریہ نائک چبا چبا کر یاد دلانے کے سے انداز میں دونوں پر طنزیا نظر ڈال کر بولی۔
" ساریہ نائک تم اس کمپنی کے بل بوتے پر زندہ تھی۔"
شہروز نائک بھوکے بھیڑیے کی طرح ساریہ پر جھپٹا، ایک ہاتھ سے اسکے بھورے بال جکڑے اور دوسری ہاتھ میں اسکا سفید چہرہ رخساروں سے بھینچ لیا۔
شزا نائک اوٹ سے نکل کر سامنے آگئی۔
بالاج نائک سرخ چہرہ لیے نفرت سے شزا کو دیکھتا ساریہ کی طرف متوجہ ہوا۔
ملازمین لاونج کے باہر جم سے گئے۔
کسی کے سرسراتے ہاتھوں نے پولیس کا نمبر ڈائل کیا اور لرزتی آواز میں صورتحال سے آگاہ کر دیا۔
ساریہ کی بھوری آنکھوں سے پانی شہروز نائک کی مضبوط گرفت پر گرنے لگا۔
ساریہ نے ہمت جٹا کر دھکا دیا، پر شہروز نائک ٹس سے مس نا ہوا۔
" تم کیا سمجھتی تھی، اتنی آسانی سے سب کر لو گی۔"
شہروز نائک اسے بالوں سے گھسیٹتے دروازے پر لے آیا۔
" تمہاری اوقات پہلے ہی مجھ پر کھل گئی تھی شہروز نائک۔"
ساریہ بہتی آنکھوں سے نفرت بھرے لہجے میں پھنکاری۔
شہروز نائک کا ہاتھ گھوما اور زناٹے دارتھپڑ پینتالیس سالہ ساریہ نائک کے رخسار پر چھپ کر رہ گیا، وہ توازن برقرار نا رکھ سکی اسر سیڑھیوں سے پھسل کر بیرونی روش پر اوندھے منہ گرگئی۔
پیشانی پر گہری رگڑ سے خون رسنے لگا تھا۔
شزا اور بالاج نائک دروازے میں کھڑے تھے، گویا ملازمین کی بات چل رہی ہے۔
ساریہ نے رخ موڑ کر شزا کو دیکھا، ہاتھ سینے پر باندھے وہ سخت تاثرات لیے ساریہ کو دیکھ رہی تھی۔
شہروز نائک کے قدم پہلی سیڑھی سے اترے ہی تھے جب پولیس کا سائرن سنائی دیا۔
شہروز نائک اسے ٹھوکر رسید کرتا اندر چلا گیا۔
" آپ نے اچھا نہیں کیا مام۔"
شزا تنفر سے کہتی پلٹ گئی۔
پولیس کی گاڑیاں گیٹ پر رک گئیں تھیں۔
کک نے عجلت میں اسے اٹھایا۔
" یہ گھر آپ کے لیے محفوظ نہیں ہے ساریہ میم۔"
ایلف فکر مندی سے بولتی ہوئی اسکا چہرہ صاف کرگئی۔
ساریہ کے چہرے پر خوف لہرا رہا تھا، زندگی کے پچیس سال ضائع لگ رہےتھے۔
" تم فکر مت کرو، میں سنبھال لوں گی۔"
ساریہ نے اسے اندر بھیجا اور پولیس کی گاڑی کودیکھتی گہری سانس لے کر رہ گئی۔
ہولیس کو سچائی سے آگاہ کیا اور سیکورٹی کی اپیل کرتی وہ ڈرائیور لے ساتھ، لقمان اورفن ہاوس چلی گئی۔
اورفن ہاوس کی سیڑھیاں چڑھتے اسنے ایک نظر اطراف میں گھومتے بچوں پر ڈالی اور دوسری منزل میں بنے آفس میں چلی آئی۔
زخموں سے ٹیسیں اٹھ رہیں تھیں، کوکھ سے جنی اولاد کی لاپروائی گھائل کر گئی تھی۔
" خیام کاش آپ واپس نہ جاتے۔۔۔۔!!!"
ساریہ نائک کرسی کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موندر شدت تکلیف سے بولی۔
" اولاد کے اندازو اطوار اور سوچ پر نسل کی گہری چھاپ ہوتی ہے، شہروز نائک کی نسل بھی اس جیسی نکلی۔"
ساریہ نائک کرب سے سوچ سکی، شزا کی آنکھوں میں امنڈتی بیگانگی ساریہ کو چھلنی کر گئی تھی۔
" آپکی بیٹی آپکی طرح محبت کا پیکر ہے خیام، پر آپ تو بیچ سفر میں چھوڑ گیے تھے، اور وفا نے بیچ سفر میں ڈوبی اس ماں کو ڈھونڈ نکالا۔"
ساریہ نائک کے گرد کئی مناظر کے دھندلکے سے دکھائی دینے لگے تھے۔
" ہیرے کو کھو کر پتھروں کی پجاری بنی رہی۔۔۔"
ساریہ نائک سر پاتھوں میں گرائے بلک رہی تھی، ہیشانی پر لگی چوٹ سے خون رس رہا تھا، تن کی چوٹ تب اثر کرتی ہے جب من پر کوئی چوٹ نا ہو، ساریہ نائک کے تن سے زیادہ من ہر چوٹیں آئیں تھیں۔
" خیام دیکھو، آج میں کتنی تنہا ہو گئی ہو، تمہیں کھو کر میں نے سب کھو دیا تھا، آج سہارے کو ایک کندھا بھی میسر نہیں ہے۔"
ساریہ نائک نے سر ٹیبل پر گرا لیا، اندھیرے کمرے میں بیٹھی عورت زندگی کے نقصانات کی فہرست بنائے ماتم کرتی دکھائی دے رہی تھی۔
ضد میں کیے گئے فیصلے زندگی غلط راہ پر دھکیل دیتے ہیں۔
ساریہ نائک اس بات کی قائل ہو چکی تھی، ضد میں لیا گیا فیصلہ اسے پچھتاوں کے گہرے سمندر میں دھکیل گیا ہے، جس میں وہ غوطہ زن ہوتی اندر سے ٹوٹتی جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہروز نائک سیڑھیوں کی طرف بڑھ تھا جب شزا نائک کی آواز نے اسکے قدم جکڑ لیے۔
" ایم سوری ڈیڈ۔"
شزا مضطرب سی ہاتھ مسلتی ہوئی بولی، کمرے کی سمت بڑھتا بالاج نائک ایڑھیوں کے بل گھوما۔
" جانتا ہوں، تمہیں ساریہ نائک استعمال کر رہی تھی۔"
شہروز نائک بے لچک لہجے میں بولا۔
" ییس ڈیڈ۔"
شزا منمنائی۔
" ڈرامہ کر رہی ہے ڈیڈ۔"
بالاج نائک سخت تاثرات لیے اسکی طرف بڑھا۔
" بالاج۔"
شہروز نائک نے سختی سے کہا تو بالاج وہیں رک گیا۔
" ڈیڈ یہ جھوٹی ہے، ایان ملک پر حملہ اس نے خود کروایا تھا۔"
بالاج شزا نائک کو گھورتے پھنکارا۔
" شزا جاو اپنے کمرے میں۔"
شہروز نائک نے لہجے کو نرم کیا اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں اتر آیا۔
شزاسر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
" ڈیڈ آپ شزا پر کیسے یقین کر سکتے ہیں۔"
بالاج ناراضگی سے تیز لہجے میں بولا۔
" کیونکہ اس کح پاس دوہرا شاطرانہ دماغ ہے، جو نائک کمپنی کو واپس لا سکتا ہے۔"
شہروز نائک معنی خیزی سے بولتے مونچ-وں کو بل دینے لگا۔
" وہ ایک پلانر ہے۔"
بالاج استہزایہ بولتا ہاتھ کمر پر دھرے رخ بدل گیا۔
" ہم اسے وفا ملک کے خلاف استعمال کریں گے بالاج، وہ کمپبی واپس لا سکتی ہے، تم سے بہتر دماغ ہے اس کے پاس۔"
شہروز نائک نے طنز کیا۔
" ڈیڈ۔"
بالاج تیکھے لہجے میں بولا، عزت افزائی ہضم نہیں کر پایا تھا۔
" جاو سو جاو۔"
شہروز تنبیہہ کرتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔
" کل آپ کی اصلیت کھول لوں گا، شہروز نائک، اگر آپ واقعی میری ماں کے قاتل نکلے تو بہت بری موت مریں گے۔"
بالاج گہری سوچ سوچتا ہاتھ کا پنچ بنائے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا سخت تاثرات لیے کمرے میں چکا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں آتے ہی اس نے لیپ ٹاپ کھولا اور فلیش ڈرائیو میں کاپیڈ شیریں جہاں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بالاج نائک کو میل کر دی۔
" اب دیکھتی ہوں، بالاج نائک اور شہروز نائک کا بانڈ کیسے نہیں ٹوٹتا۔"
شزا نے تنفر سے سر جھٹکا اور ساریہ نائک کا چیس پیس کوئین گرا دیا۔
" نائک کمپنی تو واپس آ ہی جائے گی، ساتھ میں چینز آف ہوٹل بھی۔"
سوچتے ہوئے کھڑکی میں آگئی۔
" پھر شزا نائک ہو گی، نمبر ون بزنس وویمن آف کیلگری۔"
گلابی گداز لبوں پر مسکراہٹ سجائے بولی۔
" ویل سب کو انکی جگہ پہنچاوں گی، ڈیڈ سوچ رہے ہونگے مجھے یوزڈ کر سکتے ہیں، مام کے اگینسٹ۔"
شزا استہزایہ ہنستی ہوئی ریلنگ پر ہاتھ رکھے طنزاً مسکرائی۔
" آئی کین یوز ایوری ون۔۔۔"
بائیس سال کی لڑکی کا دل محبت کے سپنے بننے کی جگہ، دولت کے سپنے بن رہا تھا، محبوب کو پانے کی جگہ دولت پانے کی کوششیں ہو رہیں تھیں، اسکا محبوب دولت ہی بن گئی تھی۔
سچ ہے وراثت انسان کی شخصیت پر گہری چھاپ چھوڑتی ہے، دولت کا حرص شہروز نائک سے وراثت میں ملا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کی آنکھ کھلی تو فضا "اللہ اکبر" کی صداوں سے گونج رہی تھی، کتنے ہی لمحے وہ اس صدا کے سحر میں کھوئی رہی اور پھر گردن موڑ کر ایان کی سمت دیکھا۔
وہ گہری نیند میں تھا، چہرے پر مبہم دی مسکراہٹ تھی، گویا کوئی خواب بند آبکھوں کے پردے ہیچھے جھلملاتا ہوا بصارت کے روبرو تھا۔
ہلکی بڑھی شیو اسکے وجیہہ چہرے کو دلکشی بخش رہی تھی، وفا نے گہری نظروں سے دیکھا اور اسکی جانب کھسکی۔
" مسٹر ملک۔"
وفا کہنی کے بل تھوڑا اوپر ہوئی، آواز مد لہجہ شیریں۔
ایان کی آنکھوں میں حرکت یوئی۔
" مجھے آپ کی امامت میں نماز پڑھنی ہے۔"
وفا مسکراتے ہوئے مدھم لہجے میں بولی اور اسکی کشادہ ہیشانی پر بکھرے بال ہٹادیے۔
ایان نے بند آنکھوں سے اسکا ہاتھ تھاما اور کروٹ بدل لی۔
وفا مزءد جھک کر سونے یقین کرنے لگی تھی، جب ایان نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں، وفا گھبرا کے پیچھے ہٹی۔
" سوئے ہوئے شوہر کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔"
ایان خوابیدگی کی سی کیفیت میں جمائی روکتا کہنی کے بل سر اونچا کر گیا، وفا نے ہاتھ کھینچ لیا۔
" ایسی بات نہیں ہے۔"
وفا نے شرم سے رخ موڑا اور بیڈ سے اترنے لگی۔
" اچھا پھر کیسی بات ہے۔"
ایان نے اسکا بازو تھام لیا۔
" آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔"
وفا نے ہاتھ چھڑوانے کی سعی کی۔
" میں کیا سمجھ رہا ہوں۔"
ایان اسکی کیفیت سے محظوظ ہو رہا تھا۔
وفا نے ہاتھ چھڑوایا اور واش روم میں گھس گئی، ایان تکیہ پر اوندھے منہ گر کے مسکرا دیا۔
" پاگل لڑکی۔"
دروازے کی جانب رخ کیے اس نے بند یوتیں آنکھین کھولیں۔
وفا گیلے چہرے کےچساتھ واش روم سے برآمد ہوئی، ہانی کی بوندیں اسکی ٹھوڑی سے ٹپک رہیں تھیں۔
تولیے سے چہرہ تھتھپایا اور دوپٹی چہرے کے گرد لپیٹ لیا، ایان اسے دیکھتا بازو چڑھاتا واش روم میں چلا گیا۔
وفا نے دو جائے نماز بچھائے اور ایان کء منتظر کھڑی ہو گئی، چند ساعتوں میں دو محرم ایک دوسرے کی معیت میں رب کے حضور سر بسجود تھے۔
نماز سے فراغت پا کر ہاتھ دعا کو بلند ہوئے، دل میں رب کو پکارتے ایک دوسرے کی خیرت کے مطلوب تھے۔
وفا نے ہاتھ منہ پر پھیرے اور مسکراتی نظر ایان کے صبیح چہرے پر ڈالی، سفید شلوار قمیض اور سر پر سگید ٹوپی لیے وہ اسے دنیا کا خوب صورت مرد لگ رہا تھا۔
کئی لمحے بے خبری کی نظر ہو گیے، ایان نے ہاتھ چہرے پر پھیرے تو وفا کی محویت ٹوٹی۔
" اب خوش۔"
ایان نے مسکراتے ہوئے پیار بھری نظر وفا کے چہرے پر ڈالی اور اسے بازو کے حصار میں لیے لب اسکی پیشانی پر رکھ دیے۔
وفا نے آنکھیں سر اسکے شانے پر رکھ لیا۔
" مجھے خوشی ہوتی ہے، مسٹر ملک جب آپ میری خواہش کا مان رکھتے ہیں۔"
وفا نظریں جھکائے جائے نماز پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی۔
" جان جاناں، تمہاری خواہش میری زمہ داری ہیں۔"
ایان نے محبت سے کہا تھا۔
وفا نے نظریں اٹھا کر اسکے چہرے کو دیکھا، جہاں محبت کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔
" آپکا ساتھ ہی میری حیات ہے۔"
وفا نے مدھم لہجے میں کہتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔
اسکے پاس اسکا رب بھی تھا، اور محرم بھی، وہ سکون کی وادی میں اتر گئی تھی۔
" مجھے نہیں لگتا وفا کہ میں نے ذندگی میں کبھی کوئی نیکی کی ہے، پھر بھی اللہ نے مجھے ایک ایسی ہمسفر کا ساتھ دیا، جس کی خواہش کسی بھی مرد کو ہو سکتی ہے۔"
ایان گھمبیر لہجے میں بول رہا تھا۔