وفا اٹھی تو بیڈ کی دوسری طرف ایان بے خبر سو رہا تھا، وفا نے ہاتھ بڑھا کر اسکے پیشانی ہر آئے بال ہٹائے اور گردن موڑے اسکے نقش ازبر کرنے لگی۔
یہ وہ ایان ملک بلکل نہیں تھا، جس سے وہ پاکستان میں ملی تھی، بات بات پر حکم دینے والا، گو کہ باقیوں کے ساتھ اسکا رویہ اب بھی ویسا ہی تھا۔
ایان نے لروٹ بدلی تو وفا کی محویت ٹوٹی، وہ کمبل ہٹاتی بیڈ سے اتر کر ننگے پیر کھڑکی کی جانب بڑھی، پردہ ہٹای تو ملگجے سے اندھیرے نے بصارت کا استقبال کیا۔
وفا پردہ واپس گرائے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
وضو کیا اور فجر کی نماز ادا کی، تین دن سے دل میں بیٹھے خوف اور بے چینی سے وہ پریشان ہو چکی تھی۔
ساریہ نائک کے متعلق فیصلہ لینے ہمت پانے کے لیے اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور بہت دیر تک دعا مانگی اور شکر ادا کرتی رہی۔
دل کے نہاں خانوں میں سکون اترنے لگا تھا۔
بے شک سپنے رب کے سامنے رکھے گیے مسئلوں کی پریشانی اسی وقت دل سے نکل جاتی ہے، اس نے ہمیشہ کی طرح ساریہ نائک کا فیصلہ اللہ پر چھوڑا اور درود و سلام کا ورد کرتی اٹھ گئی۔
ایان ابھی تک سو رہا تھا، وفا نے مسکراتی نظر اسکے صبیح چہرے پر ڈالی اور چار قل پڑھ کر پھونک دیے۔
نکاح کی طاقت بڑی پرزور ہوتی ہے،دو اجنبیوں کو ایک دوسرے کے لیے جان سے عزیز تر کر دینے والی طاقت ہوتی ہے، وفا کے دل میں ایان ملک کی عزت اور محبت میں اضافہ ہونے لگا تھا۔
بے شک مرد ایک مضبوط سائبان ہے۔
وفا ٹھوڑی گھٹنوں پر رکھے اسے پلک جھپکائے بنا دیکھ رہی تھی، جب ایان نے کروٹ بدل کر آنکھیں کھولیں، وفا نے گھبرا کر نظروں کا رخ بدلا۔
" کونسےمنتر پھونک رہی ہیں مسز۔"
ایان تکیے پر سر رکھتا نیند کے خمار میں شرارت سے بولا۔
وفا کے ہونٹ ساکت ہو گیے۔
ایان نے آنکھیں بند کیں اور دوبارہ سو گیا۔
وفا نے گہرا سانس خارج کیا اور اٹھ کے باہر آگئی، دروازہ کھلتے ہی ناشتے کی خوشبو نے اسکا استقبال کیا۔
وفا کچن کی طرف آ گئی۔
" میں ہیلپ کروا دوں۔؟"۔
وفا نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
رائنہ مسکرا دیں۔
" نہیں تم بیٹھو، میں بنا لیتی ہوں۔" مسکراتے ہوئے بولتیں وہ شیلف کی طرف بڑھ گئیں۔
" کیسی طبعیت ہے اب۔"
کام کرتے ہوئے وفا سے مخاطب تھیں۔
" اللہ کا کرم ہے۔"
وفا مسکرائی تھی، وال کلاک نے الارم بجانا شروع کر دیا تھا، سات بج گیے تھے۔
مسٹر اکاش ملک آفس کے لیے تیار ہو کر کمرے سے نکل آئے۔
" السلام وعلیکم۔"
وفا نے مخاطب کیا تو اکاش ملک نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔
" ایان آفس نہیں جائے گا۔؟"
وہ وفا سے پوچھ رہے تھے۔
" پتہ نہیں۔"
وفا نے کندھے اچکا دیے۔
" جگا لو اسے بھی، تین دن ہو گیے ہیں۔ شاید آج چلا جائے۔"
رائنہ ملک نرمی سے بولیں تو وفآ سر ہلاتی کمرے میں آگئی۔
" مسٹر ملک۔۔۔"
وفا نے آہستگی سے آواز دی۔
" آپ آفس جائیں گے۔؟"
وفا نے زرا زور سے پکارا۔
کھڑکی سے پردے ہٹانے کو سوچتی وہ کھڑکی کی طرف بڑھی ہی تھی کہ اس دن کا واقعہ سوچ کر ہی لرز گئی اور پلٹ آئی۔
" مسٹر ملک۔"
وفا نے خفگی سے پکارا۔
وہ ٹس سے مس نا ہوا تو وفا نے ہاتھ بڑھا کے تکیہ کھینچ لیا۔
ایان نے تکیہ واپس کھینچا تو وفا بیڈ پر آ گری۔
ایان قہقہہ لگاتا اٹھ بیٹھا۔
" اتنی سی ہمت ہے اور پنگے بڑے بڑے لے رہی ہو۔"
ایان ہنستے ہوئے بولا۔
" تو آپ جاگ رہے تھے۔"
وفا خفگی سے بولتی سیدھی ہوئی۔
" کوئل سی آواز میں کوئی مسٹر ملک پکارے تو کیسے آنکھ نہیں کھلے گی۔"
ایان تکیہ اسکے منہ پر پھینکتا ہوا بیڈ سےاتر گیا۔
وفا نے تکیہ واپس رکھا اور سر جھٹک کر بیڈ شیٹ درست کی اور کمبل ٹھیک کر کے رکھ دیا۔
" میرے کپڑے۔؟"
ایان کو بولتے ہوئے یاد آیا انکے کپڑے اپارٹمنٹ میں پڑے ہیں۔
" آو ناشتہ کریں۔"
ایان اسے بیٹھے دیکھ بولا اور کمرے سے نکل گیا۔
وفا نے اسکی تقلید کی۔
عنائیہ اور اکاش ملک ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ دونوں بھی آ بیٹھے۔
عینا کے اندر آتے قدم لمحوں میں زنجیر ہوئے، جزبات ہر قابو پاتی وہ آگے بڑھ آئی، سلگھتی نگاہ وفا پر ڈالی اور مارننگ وش کیا۔
” آو ناشتہ کرو عینا۔"
عنائیہ خوشگواریت سے بولی تو عینا سکون سے بیٹھ گئی۔
ایان نے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نا کیا اور وفا کو ناشتہ سرو کیا، خود بھی اسی پلیٹ میں کھانے لگا۔
عینا کی برداشت کی حد ختم ہو گئی۔
"آنٹی پلیٹیں ختم ہو گئیں ہیں کیا۔"
عینا نے ایان کو دیکھ کر طنز کیا۔
" ہاں۔۔۔۔جیسے تمہارے گھر کھاناختم ہو گیا ہے۔"
ایان نے رکھائی سے کہا۔
" آنٹی دیکھا آپ نے۔"
عینا تقریباً چلائی۔
" ایان۔۔۔"
رائنہ نے ڈپٹا، ایان پر کوئی اثر نا ہوا۔
" میں تمہاری چیزیں بھجوا دوں گا، اوکے۔"
ایان ناشتے سے فارغ ہو کر بولا اور ٹشو سے ہاتھ صاف کرنے لگا۔
وفا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
" اللہ حافظ۔"
ایان نے کہتے ہوئے وفا کا گال تھپتھپایا اور گاڑی کی چابی لے کر نکل گیا۔
عینا کی نظروں میں مرچیں بھر گئیں۔
" ایان تو زن مرید نکل رہا ہے۔"
عینا نے طنز کیا تھا، جس کا کسی نے اثر نہیں لیا، وفا رائنہ کے ساتھ برتن سمیٹنے لگی، اکاش ملک اور عنائیہ بھی چلے گیےتو عینا
نے بھی رخت سفر باندھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج کا وقت پورا ہوا تو وہ اپنے گھر کی راہ پر گامزن ہوتا، فضا پر شفق چھوڑنے لگا، کیلگری کا نیلا آسمان صاف تھا، مصروف زندگی میں کبھی کسی نے سر اٹھا کر آسمان کی خوبصورتی کو محسوس ہی نہیں کیا تھا۔
ساریہ نائک آفس سے نکلی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی باہر چلی آئی، گارڈز ریڈی ہو گیے، اور آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔
ساریہ نائک بیٹھ گئی، جولی کو وہ آج آفس سے ہی چھٹی دے چکی تھی۔
شام کی نارنجی زرد کرنیں نائک ہیلس کی تکونوں سے ٹکراتیں ماحول پر سوگواری چھڑک رہیں تھیں، ساریہ نائک نے تھکن سے نائک پیلس کو دیکھا۔
"اونچے گھر، لمبی گاڑیاں سے زندگی زندگی نہیں رہتی، فقط کلاس کا بھرم رکھنے کو کوشش بن کر رہ جاتی ہے۔"
ساریہ نائک سوچ سکی اور اتر کر اندر چلی آئی۔
کمرے میں شہروز نائک راکنگ چئیر پر کھڑکی کی سمت دیکھتا جھول رہا تھا۔
ساریہ اسے نظر انداز کرتی چینج کتنے چلی گئی۔
" تم آج اس لڑکی سے ملنے گئی تھی۔"
شہروز نائک پوچھ رہا تھا، ساریہ نائک کح بسل سنوارتے ہاتھ تھمے اس نے آئینے سے اسکی پشت کو گھورا۔
" وہ میری بیٹی ہے۔"
ساریہ نے جتایا اور بال سنوانے لگی۔
" اس دن تو تم نے اسے رد کر دیا تھا۔"
شہروز نائک کرسی سے اٹھ کر اسکی سمت مڑا۔
" یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے شہروز نائک، مجھے کب اور کس سے ملنا ہے، یہ تم طے نہیں کرسکتے، اور نہ ہی میں تمہیں اپنی عمل کی جوابدہ ہوں۔"
ساریہ نائک اٹھتے ہوئے بولی اور کمرے سے نکل آئی۔
کھانے کی میز پر کھانا چن دیا گیا تھا، ساریہ نے اپنی کرسی سنبھالی، شزا ساریہ کے چہرے پر چھائی بلا کی سنجیدگی نوٹ کر چکی تھی۔
بالاج نے نظر اٹھا کے ساریہ کو دیکھا اور اپنے کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا، شہروز نائک نے بھی اپنی کرسی سنبھال لی۔
شزا نائک کھانا کھا کر جلد ہی اٹھ گئی، اسے کچھ ضروری کام تھا۔
" تم وفا ملک کو جائداد میں حصی دو گی۔۔!؟"
شہروز نائک نے تنقیدی نظروں سے ساریہ کو دیکھا۔
ساریہ کا ہاتھ رک گیا۔
" اس بارے میں نہیں سوچا، اگر دیا بھی تو اپنی جائداد سے دوں گی، تم بے فکر رہو۔"
ساریہ آخر میں طنزیا ہوئی تھی۔
" مام وہ آپ کے دشمن کی بیوی ہے۔"
بالاج نے مداخلت کی تھی۔
" تو۔۔۔"
ساریہ نائک نے سنجیدگی سے ابرو اچکایا۔
" یہ بات آپ کو بھولنی نہیں چاہیے۔"
بالاج نائک ساریہ کے انداز پر تلملایا۔
" یاد دہانی کا شکریہ۔"
ساریہ رکھائی سے بولی تو شہروز اور بالاج کی نظریں آپس میں ٹکرائیں۔
ساریہ کھانا ختم کر کے اٹھ گئی۔
" مام باہر چلیں، واک کے لیے۔"
شزا نے بچگانہ انداز میں ضد کی۔
ساریہ نے سر اثبات میں ہلایا اور اس کے ساتھ باہر آگئی، اسے خود کھلی فضا کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔
" مام ایک بات پوچھوں۔"
بلیک جینز شرٹ زیب تن کیے، بال کھول کر شانوں پر ڈالے شزا نے ساریہ نے سنجیدہ چہرے کو دیکھا۔
" ہمممم۔"
ساریہ ہاتھ سینے پر باندھے چل رہی تھی، رات کی تاریکی ہر شے کو تاریکی کے گہرے سیاہ رنگ میں ڈبو چکی تھی۔
" ڈیڈ اتنے روڈ کیوں ہیں، انکا رویہ آپکے ساتھ کبھی نارمل نہیں ہوا۔؟"
شزا نے منہ بنا کر استفسار کیا۔
ساریہ نے گہرا سانس خارج کیا۔
" اسے فیملی سے نہیں دولت سے محبت ہے، وہی دولت جس کی زیادتی احساسات کا قتل کر دیتی ہے۔"
ساریہ کو وفا کی بات من و عن یاد آئی۔
" پھر آپ نے ان سے شادی کیوں کی۔؟"
شزا نے برا سا منہ بنایا۔
" ڈیڈ نے میری ضد کے آگے ہار مانی اور مجھے انکی ضد کے آگے ہار ماننی پڑی۔"
ساریہ نرمی سے بولتی سورج کے آگے بادلوں کو دیکھنے لگی، جن کے اطراف سے سفید روشنی نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔
" یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اچھے نہیں ہیں، بالاج کی مام کا قتل کر چکے ہیں پھر بھی۔"
شزا نے سختی سے لب بھینچے۔
ساریہ نے چونک کے سر اٹھایا اور ساکن نگاہوں سے اسے دیکھا۔
" تمہیں یہ سب کس نے بتایا۔؟"
ساریہ نے بھنویں سکیڑے پوچھا۔
" آپ کو پتہ تھا ناں۔"
شزا اپنی بات پر قائم تھی۔
" تم جانتی ہو، یہ بات شہروز کے کانوں ےک پہنچ گئی تو تمہارا قتل کرتے ہوئے یہ تک نہیں سوچے گا تم اسکی بیٹی ہو۔"
ساریہ نے سختی سے کہتے ہوئے اسکا بازو چھوڑا۔
" آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔"
شزا نے تیز لہجے میں کہا۔
" مجھے بعد میں پتہ چلا، جب تم اس دنیا میں آ چکی تھی، اور یہ بات ابھی تک شہروز کو نہیں پتہ کہ میں اس راز سے آشنا ہوں۔"
ساریہ پریشانی سے بولی۔
" مجھے کیوں پیار نہیں کرتے بالاج کی طرح۔"
شزا روہانسی ہوئی۔
" تمہیں یہ سب کس نے بتایا۔؟"
ساریہ اسے بازووں سے تھامے اسکا سوال نظر انداز کر گئی۔
" آپ کو فون پر کہتے سنا تھا، کہ شیریں جہاں کا قتل شہروز نے کیا ہے۔"
شزا انکے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولی۔
" تب مجھے پتہ نہیں تھا، شیریں جہاں کون ہیں۔"
شزا بال پیچھے جھٹکتے ہوئے نفرت سے بولی۔
" مام مجھے نفرت ہے ڈیڈ سے صرف اسلیے کہ وہ مجھے ٹائم نہیں دیتے، پیار نہیں کرتے۔"
شزا نفرت بھرے لہجے میں تنک کر بولی۔
ساریہ سر تھام کر رہ گئی۔
" تم اس راز کوراز ہی رکھو گی۔"
ساریہ نے تنبیہہ کی۔
" یہ تو وقت بتائے گا مام۔"
شزا نے سینے پر ہاتھ باندھے۔
" وہ تمہارا قتل کردے گا شزا۔"
ساریہ شزا کی ضد سے پریشان تھی۔
" وہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔"
شزا نے افسردگی سے کہا اور چلنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔