لقمان نائک خیام سعید کی جانچ پڑتال کر چکے تھے، ساریہ نائک کی ضد پر آج خیام کو آفس بلوایا تھا۔
خیام اندر داخل ہوا تو پر تعیش آفس میں سربراہی پر شان سے براجمان تھے۔
" آپ نے بلایا سر۔"
خیام صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
" ساریہ نے تمہارے لیے کمپنی میں اچھی پوسٹ کی ضد کی ہے، اسلیے تم کل سے آفس جوائن کر لو۔"
لقمان نائک مسکرا کر بولے تو خیام کے عنابی لب مسکرا دیے۔
" شکریہ انکل۔"
خیام نے مسکراتے ہوئے کہا اور اجازت لیے آفس سے نکل آیا۔
یونی پہنچ کر پہلی بار ساریہ کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں۔
ایک جگہ اسے گارڈز نظر آئے تو وہ لمبے لمبح ڈگ بھرتا اسی سمت چلا آیا۔
ساریہ نائک کچھ لڑکیوں کے ساتھ باتیں کر رہی تھی، اسکے حسین مکھڑے پر چھایا غرور و تمکنت اسکے حسن کو چار چاند لگا رہا تھا۔
" ساریہ۔"
خیام ہاتھ جیبوں میں گھسائے بولا تو ساریی نائک لمحوں میں پلٹی، بھورے ریشمی بال سرک کر آگے گر گیے۔
وہ چہرے پر خوشی کے تاثرات لیے اسکی طرف چلی آئی۔
" ییس۔"
ساریہ مسکراتے ہوئے بولی اور خیام کے ساتھ چلنے لگی، بلیو چیک شرٹ میں ملبوس بلیک جینز پہنے اوپری دو بٹن کھولے، بیگ کندھے پر لٹکائے وہ بے حد وجیہہ لگ رہا تھا۔
" آپ نے میری جاب کی بات کی۔؟"
وہ نرم لہجے میں پوچھنے لگا۔
" ییس، میں ایکسپیرینس جاب سٹارٹ کرنے والی تھی،تو آپ کے لیے بھی ڈیڈ سے کہہ دیا,"
ساریہ ہاتھ سینے پر باندھے اسکے ساتھ چلنے لگی، لائننگ والی براون لانگ شرٹ کے ساتھ بلیک جینز زہب تن کیے، میک اپ سے عاری حسین مکھڑا لیے وہ کسی کے دل میں بھی تہلکہ مچا سلتی تھی ، خیام سعید کے دل میں ہل چل کی شرعات ہونے لگی تھی۔
" رئیلی تھینکس فار دیٹ۔"
خیام ممنون لہجے میں بولا، خیام سعید حسن پرست نہیں تھا، لیکن ساریہ کے حسن اور پرواہ کے آگے اسکی عقل مندی گھٹنے ٹیکنے لگی تھی، پر وہ بے خبر تھا۔
کبھی کبھی کچھ لوگ زندگی سے ایسے منسلک ہوجاتے ہیں، کہ خود جینے والا بھی بے خبر رہتا ہے، جب تک بات اسکے علم میں آتی ہے پانی سر اونچا ہوجاتا ہے اور منہ زور ریلے اسے بہا کر ایسی جگہ لے جاتے ہیں، جہاں سواۓ انتظار اور ہجر کے کڑے لمحات کے کچھ نہیں ہوتا،جہاں آگے کا سفر اسے خود اپنی ہمت سے طے کرنا ہوتا ہے۔
کچھ کم ہمت لوگ ساری عمر ادھر ہی سسک سسک کر گزار دہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ قدم با قدم خود کو گھسیٹتے ہجر کے گڑھے سے نکل وصل تک پہنچ جاتے ہیں، اس سفر میں اکثر عمریں بیت جایا کرتی ہیں۔ کچھ لوگ امر ہو جاتے ہیں اور محبت پر فتح پا لیتے ہیں اور کچھ لوگ وقت کے ساتھ چھوٹ جانے کبھی قسمت کی ستم ظریفی سے وصل کے داٸرے سے پھسل پھر ہجر کے گڑھے میں گر جاتے ہیں۔ ان کی مسافتیں اور ریاضتیں دھری رہ جاتی ہیں۔
خیام کی سعید کی ریاضتیں وقت اور محبت کے ہاتھ میں تھیں۔
محبت نگری کے باسی کی زندگی کی ڈور محبت کی دیوی کے ہاتھ میں ہوتی ہے، انسان تو بس ایک ایسی کٹھ پتلی ہے جس کی خوشیاں دیوی کے مسکرانے پر برستیں ہیں، محبوب کی قربتیں دیوی کے رحم پر میسر ہوتیں ہیں، کبھی جو دیوی سنجیدہ ہوئی کئی محبت کرنے والے ہجر کے گہرے گڈھوں میں جا گرتے ہیں۔
محبت ایک خوبصورت سراب ہے، جس کی حقیقت بہت بھیانک ثابت ہوتی ہے۔
اکیسویں صدی کی محبت مسکراہٹ سے شروع ہو کر بدعاوں پر ختم ہو جاتی ہے۔
" خیام آپ کو مجھے شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
ساریہ نائک نے ناراضگی کا واضح اظہار کیا۔
خیام مسکرا کر رہ گیا۔
ساریہ نائک اس بدلاو پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
محبوب کی توجہ سے بڑھ کر کوئی انعام قیمتی نہیں ہو سکتا۔
۔
اگلے دن
نائک سافٹ وئیر کمپنی۔
۔
خیام ساریہ کے ہمراہ یونی سے سیدھا آفس آ گیا، لقمان نائک بیٹی کو چہکتا دیکھ خوش ہو گیے۔
دونوں کا بیشتر وقت ساتھ میں بیتنے لگا۔
محبت نے اپنی جگہ بنائی اور محبت کا بیج بو دیا۔
خیام انہماک سے کام کر رہا تھا، جبکہ ساریہ ہاتھ ٹھوڑی تلے ٹکائے اسے محویت سے دیکھ رہی تھی۔
خیام نے سر اٹھایا تو اسے تکتا پا کر ابرو اچکا دیے، ساریہ نائک نفی میں سر ہلاتی نظریں جھکا گئی۔
نائک کمپنی ایک پیچیدہ سافٹ وئیر بنا رہی تھی، جس کے لیے بہت سے سافٹ سئیر انجینیرز اپنی کارکردگی دکھا رہے تھے، خیام سعید کے لیے ایک شاندار موقع تھا، وہ بہت توجہ سے سب سیکھ ریا تھا۔
جبکہ ساریہ مرضی کی مالک تھی، وہ آفس صرف خیام سعید کے لیے آتی تھی۔
" خیام لنچ کرنے چلیں۔"
ساریہ نے توجہ سے کام کرتے خیام کو پکارا۔
" ابھی بہت کام پڑا ہے ساریہ۔"
خیام سنجیدگی سے بولا تو ساریہ ناراضگی سے پلٹ گئی۔
خیام نے ہیشانی مسلی اور اٹھ کے پیچھے بھاگا۔
" ساریہ۔"
خیام نے ہانک لگائی، ساریہ ان سنی کرتی چلتی جا رہی تھی، ریڈ شرٹ اور بلیک پیروں کو چھوتی سکرٹ پہنے، ریشمی آبشار کی مانند پھسلتے سلکی بال کمر ڈھانپے ہوئے تھے، سٹائلش بیک کندھے پر ڈالے اور تیزی سے جا رہی تھی، خیام سعید نے بھاگ کے اسکے دودھیا بازو کو تھاما اور اسکا رخ اہنی طرف موڑا۔
ساریہ گھومتی ہوئی اسکی طرف پلٹی اور ہاتھ اسکے سینے پر رکھ کر پیچھے کو دھکا دیا۔
" جاو اپنا کام کرو۔"
خفگی سے منہ پھلائے ساریہ پلٹ گئی۔
خیام نے دوبارہ اسکی کلائی تھامی اور اسکے سامنے رک کر ایک ہاتھ سے کان پکڑا۔
" سوری سویٹ ہارٹ۔"
خیام ایک آنکھ دبا کر بولا، وقت رک سا گیا تھا۔
ساریہ نے سر اثبات میں ہلایا اور اسے بازو سے پکڑتی اپنے ساتھ لے گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالاج نائک سنائیپر سے ملا اور اسے قتل کر دیا۔
اسکا فون اور دوسری چیزیں اٹھا کر لے آیا۔
شہروز نائک ابھی تک آفس میں موجود تھے۔
" ڈیڈ اس کا کام تمام کر دیا ہے۔"
بالاج آفس سے اٹیچ واش روم کی طرف بڑھا، گلوز اتار کے ہاتھ دھوئے اور گلوز ڑسٹ بن کی نظر کرتا باہر آگیا۔
" گڈ۔"
شہروز نائک نے گہرا سانس خارج کیا، مصیبت کا رخ موڑ دیا تھا۔
بالاج نے لیپ ٹاپ آن کیا تو ای میل دیکھ کر کھول لی۔
ای میل کسی ان نوں آئی ڈی سے بنی تھی۔
" مسٹر بالاج نائک،
دا اونر آف بالاج ہوٹل چینز۔
کیا آپ جانتے ہیں، آپ کی مام صبیحہ نائک کی موت کیسے ہوئی۔"
" ایک ویل ایجوکیٹد عورت نے پراپرٹی اپنے شوہر کے نام کرتے ہوئے تھمب پرنٹ کا استعمال کیوں کیا۔؟"
بالاج نائک کی بھنویں تن گئیں۔
اس سے قبل کے بالاج نائک میل کے متعلق استفسار کرتا اس نے اس بات کی تصدیق کرنے کا سوچا۔
" ڈیڈ ہوٹلز کے پیپرز کہاں ہیں۔؟"
بالاج نے نارمل لہجے میں پوچھا۔
ایک اور میل کا بلنک شو ہوا تھا۔
بالاج نے اوپن کیا تو پیپرز کی تصویر پر سائن کہ جگہ تھمب پرنٹ ہر مارک کیا گیا تھا۔
" کیوں۔؟"
شہروز نائک نے بضنویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
" سیو کرنے ہیں ڈیڈ۔"
بالاج نے لہجے کو نارمل رکھا اور شہروز کے چہرے کے اتار چڑھاو کا جائزہ لیا۔
" ڈیڈ میری مام نے سوسائڈ کیوں کیا۔؟"
بالاج سنجیدگی سے ہاتھ ٹھوڑی تلے رکھا اور شہروز نائک کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کیں۔
" تمہیں یہ سوال کیوں سوجھ رہے ہیں۔"
شہروز نائک نے اسے ٹوکا۔
" ڈیڈ۔۔۔ کیا میں ہوچھ نہیں سکتا۔"
بالاج الٹا خفگی سے بولا تو شہروز نائک نے گہرا سانس خارج کیا۔
" ہمارے بزنس سرکل میں ایک بہت خوبصورت لڑکی تھی، تمہاری مام مجھ پر شک کرتیں تھیں، ایک دن اسی شک کی بنیاد پر ہمارا جھگڑا ہو گیا، میں باہر چلا گیا، جب واپس آیا تو تماری مام خود کشی کر چکی تھیں۔"
شہروز نائک نارمل لہجے میں بولا، گویا کہانی سنا رہا ہو۔
بالاج خاموش ہو گیا۔
شک جو دل میں گھر کر چکا تھا، مزید جگہ گھیر گیا۔
بالاج نے ایک پلان بنایا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی سوچ لیے اسے رات پر چھوڑ دیا۔
،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک ہاوس سے نکلتے ہی گارڈز چانکنے ہو گیے، ساریہ گاڑی میں بیٹھ گئی، گاگلز کے ہیچھے بھوری آنکھیں بہنے کو بے تاب تھیں ،ممتا تڑپ کر رہ گئی تھی۔
سوختہ جزباتوں میں تلاطم برپا ہونے لگا تھا، بے قراری و بے چینی گھر کر کرنے لگی تھی۔
ساریہ نے ضبط سے لب بھینچ لیے، اس دن کی سختی کی اتنی سزا تو بنتی تھی۔
ساریہ نائک نے گہرا سانس لے کر خود کو کمپوز کیا۔
اسکا رخ اپنی کمپنی کی جانب تھا۔
آفس میں آ کر گہرا سانس خارج کیا اور کرسی پر بیٹھ کر کہنیاں میز پر ٹکائے ٹھوڑی ہاتھوں پر رکھ لی۔
" میری ضد میری بیٹی کو مجھ سے دور لے گئی۔"
ساریہ نائک سخت پچھتاوے کا شکار ہو گئی۔
" میری محبت کی اکلوتی نشانی میں نے اپنی بے جا ضد میں گنوا دی، اب پلٹی تو پھر ٹھکرا دی، ساریہ تمہاری ضد تمہیں تنہا کر گئی۔"
سر کرسی کی پشت پر رکھے، آنکھیں موندے اس نے بے بسی سے کہا۔
" ایم سوری خیام، کاش میں آپکی مجبوری سمجھ جاتی، آج میکانکی زندگی نہ جی رہی ہوتی۔"
سوچوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔
ساریہ نائک کو پچیس سال بعد خود س ملنے کا خیال آیا تھا۔
" شہروز نائک جیسے لالچی خود غرض قاتل انسان کے ساتھ رہنا، جس سے پل پل موت کا خوف آتا ہے، آسان نہیں ہے۔"
ساریہ نائک کرسی چھوڑ کے کھڑکی کے پاس آگئی۔
" مجھے اب اپنی محبت کی اکلوتی نشانی کی پرواہ کرنی چاہیے۔"
ساریہ نائک نے سنجیدگی سے سوچتے ہوئے فیصلہ لیا تھا۔
" نائک کمپنی وفا کے نام کر دیتی ہوں۔"
ساریہ نے خود سے عہد باندھا اور لائیر کو کال کر کے پیپرز بنوانے کا کہا۔
گرے لائننگ شرٹ اور گرے ڈریس پینٹ میں ملبوس ساریہ نائک بھورے بالوں کے ساتھ نوجوانی کی دہلیض پار کر رہی تھی، دو آتشہ حسن پوری طرح مانند نہیں پڑا تھا۔
سفید بے داغ چہرے پر اب بھی حسن کا راج تھا، گلابی لبوں کی کشش اب بھی باقی تھی، جبکہ بھوری آنکھوں میں وہ شوخی، وہ دھنک کے رنگ اور چمک مفقود تھی، آنکھیں بے تاثر سردمہری لیے ہوئے اندر کی جانب دھنسی جا رہیں تھیں۔
سفید مرمریں گداز ہاتھوں میں جھریاں پڑنے کو تھیں، مخروطی انگلیوں کی خوبصورتی میں فرق پڑا تھا، ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست کیے اس نے گہراچسانس خارج کیا۔
وفا ملک سے برتی عمر بھر کی لاپرواہی کے ازالے میں نائک کمپنی جا رہی تھی۔
" آپ جانتی ہیں، دولت ہاتھوں کی میل ہے، اور یہ میل آپ کے دل کے گرد موٹی پرت چڑھا چکی ہے، تب ہی آپ احساس سے عاری ہو چکی ہیں، آپ کو فرق نہیں پڑتا، تو میں بھی آپ ہی کی بیٹی ہوں۔"
وفا کی بات اسکے دل پر لگی تھی، جب تک وہ وفا سے احتراز برت رہی تھی، ضمیر بھی چپ چاپ تھا، زرا جو ممتا نے سر اٹھایا، دل ، دماغ، ضمیر اور ممتا نے اسے جھجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔
ساریہ نائک عمیق سوچوں میں غرق تھی، جب انٹر کام کی چنگھاڑ نے اسکا ارتکاز توڑا، ساریہ آہستگی سے انٹرکام کی طرف بڑھی اوریسیور کان سے لگا لیا۔
"میم لائیر ایڈیسن ویٹنگ فار یو۔"
جولی نے اطلاع دی۔
" ہممم بھیجو اندر۔"
ساریہ نائک نے کہا اور اپنی سیٹ سنبھال لی، چہرے پر سنجیدہ تاثرات لیے نائک کمپنی کی اونر لگ رہی تھی۔
" گڈ مارننگ میم۔"
بلیک تھری پیس سوٹ میں ملبوس گلابی رنگت کا حامل لائیر اندر داخل ہوتے ہوئے بولا۔
" مارننگ۔"
ساریہ پیشہ وارانہ انداز میں بولی۔
" ہیو آ سیٹ۔"
انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کیے ساریہ نائک سنجیدہ سی بولی۔
" مجھے نائک کمپنی کے پیپرز چاہیے، وفا ملک کے نام سے، یی کمپنی میں اپنی بیٹی کے نسم کر رہی ہوں۔"
ساریہ نارمل لہجے میں سنجیدگی سے بولی۔
" اوکے میں جلد ہی پیپرز ریڈی کرتا ہوں۔"
لائیر ایڈیسن پیشہ وارانہ مسلراہٹ گلابی لبوؑں کی زینت بنائے شائستگی سے بولا اور فائل لیے اٹھ گیا۔
" ایڈیسن۔"
ساریہ نے پلارا تو دروازے کی ناب گھماتے ایڈیدن کے ہاتھ رکے اور وہ سرعت سے پلٹا۔
" یاد رہے، کمپنی وفا ملک کے نام ہونے تک کدی کو کان و کان خبر نا ہونے پائے۔"
ساریہ انگلی اٹھا کر تحکم سے بولی۔
ایڈیسن سر اثبات میں ہلاتا آفس سے نکل گیا۔
ساریہ نے گہرا سانس خارج کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔