سورج کی مدھم سی کرنیں سرمٸ بادلوں سے راستہ بناتیں ہوٸیں، کیلگری کی بلند و بالا گلاس کی عمارتوں سے ٹکرا رہیں تھیں،
” ناٸک سافٹ وٸیر کمپنی کی دس منزلہ عمارت میں وہ ساتویں فلور پر اپنے آفس میں بیٹھا، کام میں مصروف تھا، جب ٹیبل پر رکھا اسکا سمارٹ فون تھرتھرایا۔
اس نے ایک نظر فون پر ڈالی اور کیبورڈ پر انگلیوں کی حرکت جاری رکھا، فون تھرتھراہٹ کے ساتھ بند ہوگیا، اسکی انگلیوں کی حرکت میں تیزی آگٸ۔
سمارٹ فون پھر سے تھرتھرانے لگا تھا۔
اس نے کی بورڈ سے انگلیاں ہٹاٸیں اور ہاتھ بڑھا کر فون اٹھا لیا، انگوٹھے سے سلاٸڈ کرکے کال ریسیو کی اور فون کان سے لگالیا۔
” کال کیوں ریسیو نہیں کر رہے تھے۔“
مقابل کی آواز میں خفگی کا عنصر نمایاں تھا۔
” اٹس ورکنگ آورز، یو نو ویری ویل۔“
ایان نے جتاتے ہوۓ کہا کہ اسنے اسے ڈسٹرب کر دیا ہے۔
” اچھا، بتاٶ، مسٸلہ حل ہوا تمہارا؟“
ثاقب اسکی بات کا اثرلیے بنا بولا۔
”نہیں اسکی حالت ایسی تھی،میں گھر نہیں لے جاپایا۔“
ایان اٹھ کے ونڈو کے پاس آگیا۔
” اب کہاں ہے وہ۔؟“
ثاقب نے سرسری سا پوچھا۔
” آٸی ڈونٹ نو۔“
ایان نے لاپرواہی سے کہا۔
” مطلب۔۔۔؟“
ثاقب کو سمجھنے میں مشکل ہوٸی۔
” وہ خود دار لڑکی ہے، مدد لینے سے انکارکر دیا، اور میرےپاس اتنا فضول وقت نہیں کہ اسکی منتیں کرتا پھرتا۔“
ایان بے زاریت سے بولا۔
” کینیڈا اسکے لیے نٸ جگہ ہے، تمہیں اپنے ایٹیٹیوڈکو ایک طرف رکھ کر سوچنا چاہیے تھا۔“
ثاقب خفا ہوا پرلہجے کو نرم رکھا، جانتا تھا، زرا جولہجہ تیز ہوا، ایان فون کاٹ دے گا۔
” اسے بھی سوچنا چاہیے تھا، ایسا نا ہو، میں اس مسٸلے کو حل کرتا پھروں، وہ میرے لیے نٸے مسٸلے کھڑے کر دے۔“
ایان نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
”وہ بے ضرر سی لڑکی ہے، اور سمجھدارہے۔“
ثاقب نے نرمی سے کہا۔
ایان نے کال کاٹی اور جیبوں میں ہاتھ گھساۓ کچھ سوچنے لگا تھا۔
” ہاۓ ینگ مین۔“
بلیک جینز اور واٸٹ شرٹ میں بال پونی میں قیدکیے، نیلی آنکھوں میں چمک لیے عینا خوشگواریت سے اسکی طرف بڑھی۔
ایان نے مڑ کر اسے دیکھا اور اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔
عینا ٹیبل کے دوسری جانب رکھی کرسی کھینچتی بیٹھ گٸ۔
” تم اس وقت یہاں۔۔؟“
ایان نے اسے دیکھے بنا کہا، اور دوبارہ اپنے پراجیکٹ کی طرف متوجہ ہوا۔
” تمہیں دیکھنے کا دل چاہ رہا تھا۔”
دونوں کہنیاں ٹیبل پر رکھے، ہاتھ جوڑ کر ان پر ٹھوڑی رکھے ، وہ ایان کو انہماک سے دیکھتی مخمور لہجے میں بولی۔
ایان نے سنجیدگی سے دیکھا، گویا کہہ رہا ہو ” رٸیلی۔“
” آف کورس رٸیلی۔“
عینا مسکراٸی تھی، نیلی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں۔
” اب دیکھ لیا ہے تو جاٶ۔“
ایان نارمل لہجے میں بولا۔
” تم زہر اگلنا بند نہیں کر سکتے۔“
عینا کا موڈ خراب ہو گیا تھا، وہ ناراض نظریں ایان کے وجیہہ چہرے پر ڈالتی اٹھ گٸ۔
ایان نے دیکھا تک نہیں، وہ خفگی سے پیرپٹختی دروازہ دھکیلتی نکل گٸ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیند پوری ہوٸی تو وہ انگڑاٸی لیتی اٹھ بیٹھی، دوپٹہ کندھے پر رکھے، اپارٹمنٹ سے ملحقہ چھوٹی سی بالکونی میں آگٸ، جس کے ساتھ ساتھ خوبصورت بیل اوپر چڑھی ہوٸی تھی، جو ننھے ننھے گلابی پھولوں سے لدی ہوٸی تھی۔
وفا کی نظر اپارٹمنٹ کی بلندی سےہوتی انکے پیچھے چھپی سورج کی مانند سی کرنوں پر گٸ۔
دن کے گیارہ بج رہے تھے، لیکن سرمٸ بادلوں نے آسمان کو ڈھکاہوا تھا، ننھے بادل سورج کی کرنوں کو اپنے عقب میں چھپانے پر ناکام ہورہے تھے، تب ہی کرنیں بادلوں سے چھن چھن کر آرہیں تھیں۔
وفا نے اپنے حلیے پر نظر دوڑاٸی، کل سے وہ اسی سوٹ میں تھی، اوراب بھی اسکے پاس پہننے کو کوٸی کپڑا نہیں تھا۔
”مجھے مارکیٹ جانا چاہیے، اور جاب بھی ڈھونڈنی چاہیے۔“
وفا لکڑی کی خستہ حال سی باڑ پر ہاتھ رکھ کر سوچ سکی۔
” اماں نے وبال مچایا ہو گا، لوگ مجھے بدکردار کہہ رہے ہونگے۔“
اس نے ادسی سے گہری سان اندر کھینچی اور پھر باہر چھوڑ دی۔
” چلو اچھا ہے، میرے گناہ کم ہوجاٸیں گے“
استہزایہ ہنسی اسکے لبوں پر چند ثانیے کو آٸی اور پلٹ گٸ، وہ خود کو خود ہی تسلی دیتی تھی، خود کے لیے خود ہی کندھا میسر کرتی تھی، تب ہی وہ تنہا جیتی آ رہی تھی۔
خود کے لیے خود ہی میسر ہوجانا بہت بڑی ہے۔
اکلوتا بیگ لیے وہ اپارٹمنٹ سے نکل آٸی، پاکستانی چھبیس لاکھ کینیڈین ڈالرز میں بہت کم پڑ گیا تھا، اسے فکرلاحق ہو گٸ تھی، کہیں جاب ملنے سے پہلے ختم نا ہو جاٸیں۔
اپارٹمنٹ لاک کیے اس نے دوپٹہ سر پر رکھا اور نکل آٸی، اپارٹمنٹ کی اس بلڈنگ کے باہر چھوٹا سا لان تھا، جس میں درخت کے نیچے پتھر کا سنگی بینچ رکھا ہوا تھا۔
لوگ اسے عجیب نظروں سےدیکھ رہے تھے، لیکن اس نے پرواہ نہیں کی۔
اسے کچھ پتہ نہیں تھا، مارکیٹ کہاں ہے، اسے کہاں جانا چاہیے؟
” تم پاکستانی ہو؟“
عمر رسیدہ شخص نے اسے پیچھے سے پکارا تو وہ یکلخت کو مڑی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
خزاں رسیدہ سے جھتیوں زدہ چہرے پر مسکراہٹ عود آٸی تھی۔
” میں بھی پاکستانی ہوں، ہوں نہیں بلکہ تھا۔“
انکے چہرے پر اداسیوں کے کٸ رنگ بکھر گیے تھے۔
وفا نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔
” مجھے مارکیٹ تک جانا ہے۔؟“
وفا نے ہچکچاتے ہوۓ پوچھا اور امید بھری نظر جھریوں زدہ چہرے پر ڈالی۔
” میں چلوں تمہارے ساتھ۔؟“
وہ گویا پوچھ رہے تھے۔
” جی ضرور۔“
وفا مسکرا کے انہیں دیکھتی انکے ساتھ آہستگی سے قدم اٹھانے لگی۔
” میرا نام ظہیر ہے، میں پنجاب کے چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھتا ہوں۔“
ظہیرصاحب اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔
وفا نے سر کو خم دیا۔
اپارٹمنٹس کی حدود سے نکل کروہ لوگ چھوٹی سی مارکیٹ میں داخل ہو گیے، ہر طرف سکون تھا، بھگدڑ نہیں تھی۔
” یہ رہی مارکیٹ۔“
ظہیر صاحب نے پہنچتے ہوۓ مسکرا کر کہا۔
” آپ۔۔۔۔؟“
وفا نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔
” میں یہاں گروسری سٹور تک جا رہاہوں۔“
ظہیر صاحب نےمسکرا کرکہا اور مڑ گیے، وفا کو خیام کی یاد آگٸ۔
وہ سر جھٹکتی اپنی مطلوبہ دکان کی طرف بڑھی اور خریداری کرنے لگی۔
شاپنگ سے فارغ ہو کر وہ واپسی کے لیے پلٹ رہی تھی، جب ایک گروسری سٹور کے باہر ” نیڈز آ سیل گرل“ کا لیبل دیکھا۔
” قدم بے اختیار اندر کی جانب بڑھ گیے۔
ظہیر صاحب نے مسکرا کر دیکھا، وفا نے جوابی مسکراہٹ دی اور لیبل کے بارے میں پوچھا۔
” یہ میرا گروسری سٹور ہے۔“
انہوں نے مسکرا کر بازو پھیلاۓ تھے۔
” مجھے جاب چاہیے تھی۔“
وفا سادگی سے بولی تھی۔
تھوڑی بہت فارمیلٹی کے بعد انہوں نے اسے صبح آنے کا کہہ دیا۔
وفا کو ایک بوجھ سرکتا محسوس ہوا تھا۔
” یہ پریشانی تو ختم ہوٸی۔“
وہ پرسکون انداز میں چلتی ہوٸی واپس آگٸ، اس نے ظہیر صاحب کے ساتھ آتے ہر راستے کو بغور دیکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” سنا ہے وفا نے چھپ کر شادی کر لی۔“
سامنے والی ہمساٸی نے مزے لیتے ہوۓ پوچھا۔
” چچ۔۔۔چچ۔۔۔۔۔اب فرح کا رشتہ کون لے گا۔؟“
ہمساٸی نے بڑے افسوس سے کہا۔
” میری فرح لاکھوں میں ایک ہے، اس بدکردار، بد بخت جیسی نہیں ہے۔“
ثمینہ چمک کر بولی تھی۔
” وفا کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا، سمجھدارنے یہ گل کھلا دیا تو فرح سے کیا مشکل ہے، اسکے تو ویسے ہی لچھن سب کو دکھتےہیں۔“
ہمساٸی نے منہ بناتے سچاٸی کا تمانچہ مارا۔
” اے تیرے منہ میں خاک، تیری دو جوان لونڈیاں، دن بھر دفتروں کی دھکے کھاتیں ہیں، ہم بھی جانتے ہیں کتنی دودھ سے دھلیں ہیں۔“
ثمینہ کڑے تیور لیے ان کی طرف بڑھیں۔
” خبردار جو میری بچیوں کو بیچ میں گھسیٹا، وہ عزت کے نام کا بخوبی پاس رکھتیں ہیں، تیری فری کی طرح دن بھر، کھڑکی سے لٹک کر محلے کے لڑکے نہیں تاڑتیں۔“
ہمساٸی تنک کر بولتی، گیٹ کی طرف بڑھی۔
” جانتی ہوں تجھ جیسی عورتوں کو، بے شرم بے حیا۔“
ثمینہ کے توسر پہ لگی تلووں بجھی۔
” وہ تو بے حیا بے غیرت ماں کی بیٹی تھی، تب ہی یہ گل کھلا گٸ، میری فرح تو خاندانی ماں کی بیٹی ہے۔“
ثمینہ بلند آواز میں سینہ ٹھوک کر بول رہیں تھیں۔
” جیتنا ظلم تم نے اس بن ماں کی بچی پر ڈھایا، اس نے بلکل ٹھیک کیا۔“
ہمساٸی گیٹ میں کھڑی بلند آواز میں ہاتھ نچا نچا کر بولی۔
” تجھ جیسی ڈاٸن کے ساتھ ایساہی ہونا تھا۔“
ہمساٸی کے نتھنے غصے سے پھڑ پھڑا رہے تھے۔
ثمینہ تو بازو ٹانگتی گیٹ کی سمت بڑھی۔
” اتنی ہمدردی تھی تو لے جاتی نا اپنے اس نکھٹو کے لیے۔“
ثمینہ دانت پیستے ہوۓ بولی، ارد گرد عورتوں کی بھیڑ لگنے لگی تھی۔
” بنا لیتی میں بہو، پر تجھ جیسی لالچن عورت سے کون رشتہ جوڑے۔“
ہمساٸی نے دوپٹہ کانوں پیچھے اڑستے ہوۓ گرج کر کہا۔
زوہیب وہاں آیا تو تماشہ دیکھ کر کھول گیا، ماں کو بازو سے تھام کر اندر لے گیا۔
” اس کے ظلموں نے وفا کو اس قدم کے لیے مجبور کیا، ورنہ اتنی سمجھدار لڑکی ایسی حرکت کیوں کرتی۔“
اب وہ محلے ولیوں سے باتیں کر رہی تھی۔
ثمینہ اندر بیٹھی کڑھ رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واٸٹ شرٹ بلیک ڈریس پینٹ میں ملبوس وہ آٸینے کے سامنے کھڑا ٹاٸی باندھ رہا تھا، ٹاٸی کی ناٹ ٹاٸٹ کی اور جھک کے پرفیوم اٹھایا اور خود پر سپرے کرتا، شیشے پر اپنی تیاری دیکھتا کوٹ بازو پر رکھتا، بیگ لیے باہر آگیا۔
ناشتے کی ٹیبل پر ڈیڈ، مام اور عناٸیہ بیٹھی ہوٸی تھی، ایان نے کوٹ کرسی کی پشت پر دھرا اور بیگ زمین پر رکھے بیٹھ گیا۔
” مارننگ۔“
سنجیدگی سے کہا، گویا احسان عظیم کیا تھا۔
اس کے ڈیڈ اس سے عموماً خفا رہتے تھے، اپنا بزنس چھوڑ کر جاب کرنا انہیں سخت ناگوار تھا، پر ایان کی ضد انہیں چپ رہنے پر مجبور کر گٸ۔
” آج شاٸنہ آٸیں گی، رشتے کی بات کرنے۔“
مام نے اس کے اعصاب پر پہلے کا گرایا گیا بمب ایک دفع پھر گرادیا۔
وہ جی بھر کے بدمزہ ہوا۔
” مام، رشتہ لڑکے والے لے کر جاتے ہیں، آپ کو خالہ کو بتانا چاہیے۔“
ایان طنزاً بولا۔
” جب تم ضد پر اڑے رہو گےتو انہیں خود ہی آنا پڑے گا۔“
مام کڑے تیوروں سے بولیں تھیں۔
” میں ہزار بار کہہ چکا ہوں، مجھے نہیں پسند سارہ۔“
ایان نے ایک دفعہ پھر صاف گوٸی سے کام لیا۔
” تو کون سی شہزادی پسند ہے موصوف کو۔“
اب کی بار طنز ڈیڈ کی طرف سے اچھالا گیا۔
” عینا کا آپشن اب بھی باقی ہے، بگ برو۔“
عناٸیہ جلادینے والے انداز میں بگ برو کوکھینچ کر بولی۔
” تم سے مشورہ نہیں مانگا، اور ہاں۔“
وہ اٹھتے ہوۓ خاصی ناراضگی سے بولا۔
” مجھے اپنی پسند کی لڑکی چاہیے، کیونکہ لاٸف میری ہے۔“
وہ بیگ اٹھاتا تن فن کرتا چلا گیا۔
” اب میں شاٸنہ کو کیا جواب دوں، بچپن کی منگ کو چھوڑ کر اپنی پسند کے راگ الاپتہ پھر رہا ہے۔“
مام یعنی راٸنہ کافی خفا لگ رہیں تھیں۔
” بچپن میں رشتہ طے نہیں کرنا چاہیے تھے مام، آپ بھاٸی کی نیچر کو جانتی تو تھیں۔“
شاٸنہ سنجیدگی سے بولی۔
” اکڑتا تو ایسے ہے، گویا کینڈین گورنمنٹ تک اسکے باپ کی ہے۔“
اکاش ملک طنزاً سر جھٹکتے ہوۓ بولے اور ناشتہ ختم کر کے اٹھ گیے۔
عناٸیہ نے بھی یونی کے لیے رخت سفر باندھا