سیاہ شرٹ اور براون جینز پہنے بیگ کندھے پر لٹکائے، خیام سعید بے نیازی سے قدم اٹھاتا یونی کی طرف بڑھ رہا تھا، جب ساریہ نائک کی تین گاڑیاں یونی کے سامنے رکیں۔
گارڈ نے مستعدی سے دروازہ کھولا اور وہ شان سے نکل کر گیٹ کی طرف بڑھی۔
دو گارڈز اس سے چند قدم کے فاصلے پر چل رہے تھے۔
ساریہ نائک نے رخ موڑ کر اسے دیکھا اور مسکراہٹ لیے خیام کی طرف بڑھی۔
" گڈ مارننگ۔"
ساریہ نائک خوشدلی سے مسکرائی۔
خیام سعید کے سامنے اسکا غرور، گھمنڈ شان و شوکت سب مفقود ہو جاتا تھا۔
" مارننگ۔"
خیام جیبوں میں ہاتھ گھسائے مسکرا کر بولا، سیاہ بال پف سے نکل کر بکھر رہے تھے۔
" لکنگ ہینڈسم۔"
ساریہ نائک اسے سر تا پیر ستائشی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی وارفتگی سے بولی۔
" آپ سے زیادہ نہیں۔"
خیام سعید نے ترچھی نظروں سے اسکے حسین مکھڑے کو دیکھا۔
ساریہ نائک جھوم اٹھی تھی، خیام سعید پگھلنے لگا تھا۔
" ایک ریکویسٹ ہے۔"
ساریہ نے خیام کے صبیح چہرے کو دیکھا۔
" لائیک سیرئسلی، ساریہ نائک ریکویسٹ کر رہی ہے۔"
خیام سعید ابرو اچکاتے ہوئے حیرت کا اظہار کر گیا۔
ساریہ نے مسکرا کے سر جھکایا اور اسکے وجیہہ سراپے کو نظر بھر کر دیکھا۔
" ڈیڈ نے ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے۔"
ساریہ نائک اعتماد سے بولی۔
خیام نے ناسمجھی سے ساریہ کو دیکھا۔
" وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔"
ساریہ نے عجلت بھرے انداز میں وجہ دی۔
یونی کے لڑکے خیام سعید کی قسمت پر رشک کررہے تھے، ساریہ نائک جیسی امیر اور حسین ترین لڑکی ہر خواب کی ملکہ تھی، کئی دلوں کی سلطنت پر پوری شان سے براجمان تھی، لیکن وہ خیام سعید کے دل کی سلطنت کی اکلوتی ملکہ بننا چاہتی تھی۔
" قتل تو نہیں کروانا مجھے۔"
خیام ہنستے ہوئے بولا تھا، ساریہ نے برا سا منہ بنایا۔
وہ کلاس تک پہنچ چکے تھے۔
فرسٹ رو خالی تھی، خیام کے بیٹھتے ہی ساتھ والی نشست ساریہ نائک نے سنبھال لی۔
پیچھے بیٹھی لڑکیوں نے کوفت سے ساریہ نائک کے سنہری بھورے بالوں کو دیکھا، جبکہ لڑکوں کی نظروں کی کوفت اور حسد خیام سعید کے لیے تھا۔
" میں نے کہا تھا خیام سعید پھسل جائے گا، تم ساریہ کو بھول جاو۔"
ڈینیل نے جوزف کی طرف دیکھا، جس کی نیلی آنکھوں میں چنگاریاں بھری ہوئیں تھیں۔
" اپنا منہ بند رکھو۔"
جوزف بھنا بیٹھا تھا۔
لیکچر ختم ہوا تو کلاس خالی ہو گئی، خیام سعید پرسکون سا بیٹھا، مین پوائنٹس مارک کرنے لگا۔
" جواب نہیں دیا تم نے، چلو گے نا۔"
ساریہ نائک اسکے چہرے کے تاثرات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔
" سوچ کہ بتاوں گا۔"
خیام نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
" پلیزززززز۔"
ساریہ منت بھرے لہجے میں بولی، آدھے گھنٹے کی سر توڑ کوشش کرنے کے بعد خیام نے جانے کی ہامی بھر لی۔
" میں تمہیں ہاسٹل سے پک کر لوں گی۔"
ساریہ مسکرا کر بولی اور خیام کے نوٹس پڑھنے لگی۔
دن سبک روی سے گزر گیا۔
خیام سکائپ پر گھر بات کر رہا تھا، جب اسے گاڑی کا تیز ہارن سنائی دیا، وہ کھڑی تک آیا تو ساریہ نائک گاڑی کے پاس کھڑی تھی، فل ریڈ میکسی میں اسکا نوخیز حسن دو آتشہ لگ رہا تھا۔
خیام نے یاد آنے پر لیپ ٹاپ بند کیا اور چینج کیے باہر آگیا۔
" ہائے۔"
ساریہ جو سفید گاڑی سے ٹیک لگائے اسکی منتظر تھی، مسکرا کر بولی۔
" سوری فار لیٹ۔"
خیام خجل سا بولا اور دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔
گاڑیاں سڑک پر فراٹے بھرتی بیرون کیلگری کی طرف بڑھنے لگیں۔
نائک ولاء کے گرد پھیلے سبزے کے قالین کو دیکھا، جو رات کے سمے گاڑیوں کی روشنی سے عجب خوب صورت لگ رہا تھا۔
گاڑیاں پورچ میں جا رکیں، خیام سعید کی آنکھیں خیرا یو گئیں۔
وہ ساریہ کی تقلید میں لیونگ روم میں آگیا۔
سفید بے داغ پینڈڈ لیونگ روم حد سے زیادہ خوبصورت تھا، سفید پوشش صوفے جن کی لکڑی پر خوبصورت گولڈن ڈیزائن نقش تھا۔
کھڑکی کے آگے سٹائلش پردے خوبصورتی سے بندھے ہوئے تھے۔
لیونگ روم میں لقمان نائک انکا منتظر تھا۔
حال احوال کے بعد لقمان نائک نے اسے کھانے کی دعوت دی۔
ڈائننگ ٹیبل انواع و اقسام کے کھانوں سے چنا گیا تھا، ساریہ نائک کی خوشی دیدنی تھی، جسے لقمان نائک محسوس کر چکے تھے۔
کھانے سے فراغت پا کر ساریہ اور لقمان نائک کی سنگت میں لاونج میں آگیا۔
" تم جانتے ہو، میری بیٹی تمہیں پسند کرتی ہے۔"
لقمان نائک سنجیدگی سے بولے تھے، ساریہ نائک سر جھکائے اپنے ناخن کھرچ رہی تھی۔
خیام نے ایک نظر اس کے جھکے سر اور آبشاری بالوں پر ڈالی اور لقمان نائک کی طرف دیکھا۔
" لیکن میں انہیں صرف دوست مانتا ہوں۔"
خیام سنجیدگی سے لقمان نائک سے مخاطب تھا۔
" ہماری کلاس اور سٹیٹس میں بہت فرق ہے، جسے میں تا عمر ختم نہیں کر سکتا۔"
خیام صاف گوئی سے بولا تھا۔
" تم میری پرنسس کی خوشی ہو، میرے بعد یہ بزنس اور جائداد اسی کی ہے۔"
لقمان نائک اسے لالچ دے کر پرکھ رہے تھے۔
" میں ایسا شارٹ کٹ نہیں چاہتا، اپنی محنت سے اپنے مقام تک پہنچوں گا۔"
خیام نے سر نفی میں ہلایا۔
" تا عمر بھی محنت کی چکی میں پستے رہو تب بھی اتنا کچھ نہیں بنا پاو گے۔"
لقمان نائک نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
" اپنی محنت سے جہاں تک بھی پہنچ پایا، مطمئن رہوں گا۔"
خیام نارمل لہجے میں بولا تھا۔
" تو تمہیں واقعی میری جائداد کا لالچ نہیں ہے۔"
لقمان نائک نے تنقیدی نظروں سے اسے دیکھا۔
" آپ کی دولت پر نظر رکھنے کی بجائے میں اپنے مستقبل پر نظر رکھوں تو ہی کامیاب ہو پاوں گا۔"
" ٹھیک ہے۔"
لقمان نائک نے سر اثبات میں ہلا دیا۔
خیام سعید کو ڈرائیور اسکے ہاسٹل چھوڑ گیا۔
" تم نے ایک اچھے انسان کا انتخاب کیا ہے، کچھ دن مجھے اسے پرکھنے دو، پھر فیصلہ لوں گا۔"
لقمان ناٙک نے ساریہ کا رخسار تھتھپایا۔
" ڈیڈ۔۔۔۔آئی لو ہم۔"
ساریہ اتری شکل لیے بولتی لقمان نائک کے کندھے پر سر رکھ گئی۔
لقمان نائک گہری سوچ میں ڈوب گیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" ایم سوری مجھے نیوز نہیں سننی چاہیے تھی۔"
ایان افسوس سے اسکے اترے چہرے کو دیکھ کر معذرت خواہ لہجے میں بولا۔
" نہیں آہ ایسا مت بولیں۔"
وفا نے مسکرانے کی سعی کی پر ناکام رہی تھی۔
ڈور بیل چنگھاڑنے لگی تھی، ایان اسے دیکھتا ہوا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
دروازہ کھولا تو حیرت نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا، وہ ایک طرف ہٹ گیا اور اپنی فیملی کو اندر آنے کا راستہ دیا۔
وفا نے ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑیں اور کھڑی ہو گئی۔
عنائیہ بشاشت سے اس کے رخسار سے رخسار مس گئی، شائنہ اسے دیکھ کر رہ گئی، وفا کا دل لرز گیا تھا ، وہ اوپن کچن کی :رف بڑھ گئی۔
وفا نے چائے کے نیچے آنچ بند کی اور دوبارہ چائے بنانی لگی۔
" کیسے ہو۔؟"
اکاش ملک نرمی سے بولے۔
" ایان نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھاتے ہوئے کندھے اچکا کر انہیں دیکھا۔
" اس تبدیلی کی وجہ۔۔۔؟"
ایان نہایت سنجیدگی سے بولا، تو اکاش ملک نے خفا نظر رائنہ پر ڈالی۔
" ہم لوگ تم دونوں کو لینے آئے ہیں۔"
رائنہ نرمی سے بولی۔
" کیوں،۔۔۔۔۔ مڈل کلاس لڑکی کی کلاس بدل گئی ہے اس لیے۔"
ایان تیز لہجے میں بولتا ان دونوں کی طرف طنزیا نظریں ڈال گیا۔
اکاش ملک کی رگیں تننے لگیں تھیں، ایان کی تیز فطرت سے وہ خائف ہو جاتے تھے۔
وفا نے چائے سرو کی۔
" ہم نہیں جائیں گے۔"
ایان نے دو ٹوک لہجے میں صاف گوئی سے کام لیا۔
وفا نے اسے گھوری سے نوازا۔
" تم بہت نقصان اٹھاو گے۔"
اکاش ملک کھڑے ہو گیے، رائنہ اور عنائیہ نے انکی تقلید کی۔
" یہ آپکا مسئلہ نہیں ہے ڈیڈ۔"
ایان سنجیدگی سے بولا تھا۔
" مسٹر ملک۔۔۔۔"
وفا خفگی سے بولی۔
" اگر تم ساریہ نائک کی بیٹی نا ہوتی تو کبھی تمہیں لینے نا آتے۔"
ایان نے تیزگی سے کہا۔
" کیا فرق پڑتا ہے، وہ آئے ہیں یہی کافی ہے۔"
وفا نے نارضگی سے اسے دیکھا۔
اکاش ملک سر جھٹکتے چلے گیے۔
رائنہ اور عنائی دروازے تک پہنچیں تھیں، وفا جھک کے ڈش اٹھانے لگی تھی، جب سنائیپر رائفل کی گولی لاونج کی گلاس ونڈو کے گلاس کو چور کرتی اسکے اوپر سے گزر کر دیوار میں جا لگی۔
وفا چیختی کانوں پر ہاتھ دھرے جھک گئی، رائنہ اور عنائیہ پلٹیں تھیں، اکاش ملک بھاگ کر واپس آئے۔
ایان نے وفا کو ونڈو سے کھینچ لیا۔
گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی تھی، وہ شیلف کی آڑ میں بیٹھ گیے، شیلف کے اوپر سے برتنوں سے گولیاں ٹکراتیں ہوئیں انہیں چور چور کرتیں گزر رہیں تھیں، وفا ایان کے آغوش میں سہمی ہوئی تھی، وفا نے آنکھیں سختی سے میچیں ہوئیں تھیں، اکاش ملک نے عنائیہ اور رائنہ کو اپارٹمنٹ سے باہر کھینچ لیا اور پولیس کو کال کی۔
گولیاں برس رہیں تھیں، لاونج کے صوفے چھلنی چھلنی ہو گیے تھے، دھماکے سے ایک ای ڈی زمین بوس ہو گئی، وفا بری طرح گھبرا چکی تھی، آخری گولی لاونج کے ویز سے ٹکرائی اور گوکیوں کا سلسلہ رک گیا، ایک دم سکوت چھا گیا، ایان نے وفا کے سفید پٰڑتے چہرے کو تھتھپایا۔
" وفا۔"
ایان نے اسکا رخسار تھپتھپایا، وفا نے بمشکل آنکھیں کھول کر اسے دیکھا، اور اسکے کندھے پر سر رکھ کہ آنکھیں میچ لیں، اور اسکی شرٹ کو مٹھی میں لے لیا۔
گولیوں کی بوچھاڑ کو سلسلہ شروع ہو گیا، شاید برسٹ کھول دیا گیا تھا، پولیس کا سائرن فضا میں گونجنے لگا تھا، ایان نے وفا پر گرفت مضبوط کر دی، ہر چیز تیز رفتار گولیوں نے تہس نہس کر دی تھی، ایان کے کمرے کی کھڑکی ٹوٹنے کی آواز آئی تھی، دونوں کھڑکیوں سے گولیاں برس رہیں تھیں۔
کچن شیلف کھوکھلی ہو رہیں تھیں، وفا بری طرح ڈر گئی ۔
سامنے کی سفید دیوار گولیوں سے بھر چکی تھی۔
برسٹ کی گولیاں ختم ہو چکیں تھیں ، پولیس بھاگتی ہوئی اندر آئی تھی۔
ایان اپنی جگہ سے ایک انچ نہ ہلا۔
" کم فاسٹ۔"
پولیس کے باوردی آفیسر نے ہاتھ دیا تو ایان عجلت میں وفا کو لیے پولیس کے ساتھ باہر بھاگا۔
" ایان تم دونوں ٹھیک ہو۔۔؟"
رائنہ ملک تر آنکھوں سے بولی۔
ایان نے سراثبات میں ہلایا، اور سہمی ہوئی وفا کی جانب دیکھا۔
پولیس کی سیکورٹی میں وہ ملک ہاوس آگیے۔
ملک ہاوس کے اطراف میں ہولیس تعینات ہو گئی تھی۔
سنائیپر برسٹ سیٹ کے کے بھاگ گیا تھا، پولیس کو اپارٹمنٹ کی چھت سے ہتھیاروں کے سوا کچھ نا ملا۔
ایان بے حد پریشان ہو گیا تھا۔
" وفا تم ٹھیک تو ہو نا۔"
ایان صوفے پر بیٹھی وفا کی طرف متوجہ ہوا، جس کے چہرے پر ہوائیاں اڑی ہوئیں تھیں۔
" اب سیف ہو تم دونوں۔"
اکاش ملک قدرے نرمی سے بولے، پولیس چھان بین میں مصروف تھی۔
ایان اسے کمرے میں لے گیا، سلیپنگ پلز دی اور اسے لیٹا دیا۔
" مسٹر ملک ۔۔۔۔کھڑکی۔"
وفا گھبرا کے اٹھ بیٹھی تو ایان پلٹا۔
" کچھ نہیں ہوگا، میں پردے گرا دیتا ہوں، باہر پولیس کھڑی ہے۔"
ایان نے نرمی سے کہا اورکھڑکی کے آگے دبیز پردے گرا دیے۔
" میں آپ کے پاس ہی ہوں، آپ سو جائیں۔"
ایان اسکے پاس بیٹھ گیا، وفا کو تسلی سی ہوئی گو کہ دل میں خوف کنڈلی مارے بیٹھ گیا تھا، چند لمحوں میں وہ بے خبر ہو گئی۔
ایان نے اسکے چہرے سے بال ہٹائے اور لب اسکی پیشانی پر رکھ دیے۔
" تمہاری حفاظت میرے زمے ہے، وفا۔"
ایان نے محبت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور کمبل ٹھیک کر کے لاٙئٹ آف کردی۔