" کل ڈنر ر انوائٹ کر لو۔"
لقمان نائک نرمی سے بولے تھے۔
" اوکے ڈیڈ۔"
ساریہ لقمان نائک کے گلے لگتی ہوئی اٹھ گئی۔
" آپ آفس نہیں جائیں گے ڈیڈ۔"
ساریہ نے پلٹ کر دیکھا۔
" بس جا ہی رہا ہوں۔"
لقمان نائک کوٹ درست کرتے اٹھے، پی اے فائلز اور بیگ لیے انکے پیچھے ہو لیا۔
ساریہ نائک بل کھاتی سنگ مرر کی سیڑھیوں پر قدم دھرتی اپنی خواب گاہ میں آگئی، کمرہ سفید اور ہلکے گلابی رنگ کے امتزاج سے سجا ہوا تھا، خوبصورت بیڈ کی سفید پوششنگ اور اوپر تلک لگے سفید پھولوں کے ساتھ، خوبصورت گلابی نیٹ بیڈ کے اطراف میں چوکور گررہی تھی، جسے فلوقت خوبصورتی سے باندھ دیا گیا تھا، دائیں دیوار کے ساتھ، قد آدم شیشے کے ساتھ سنگھار کی اشیاء کے لیے میز رکھ گئی تھی، جس پر بریبڈڈ اشیاء ایک سلیقے سے چنی ہوئیں تھیں۔
قد آدم کھڑکی قدرت کے خوبصورت مناظر کی جانب کھلتی تھی، جس کے آگے گلابی امتزسج کے دبیز پردے گرے ہوئے تھے، کھڑکی سے نکلتے ہی محل کے پیچھے سبزے کا خوب صورت قالین بصارت کو تازگی بخشتا تھا۔
کمرے میں آو تو بائیں دیوار کے ساتھ دیوار گیر الماری اور سامنے انتہائی خوبصورت اور پرکشش صوفے رکھے ہوئے تھے، فرش پر انتہائی نرم، روئی سے متشابہ قالین بچھا ہوا تھا، کمرہ کسی شہزادی کی خواب گاہ تھا، ساریہ نائک " نائک ولاء" کی اکلوتی شہزادی تھی۔
بیگ صوفے پر ڈالے اس نے موبائل بیڈ پر پھینکا اور دھپ سے بیڈ پر گر گئی، سب ہی مشاغل شہزادی کے سامنے اہمیت کھو چکے تھے۔
شہزادی محبت کے مشغلے کی چاہت کرنے لگی تھی، محبوب سے ڈھیروں باتیں اور اسکی سنگت میں وقت بتانے کی خواہش سر اٹھانے لگی تھی، شہزادی کے گداز گلابی لبوں پر تبسم نے ڈیرے جما لیے، گلابی و سپید رنگت کھلنے لگی تھی۔
نشہ جو بھی اوائل وقت میں لطف خوب سے ہمکنار کرتا ہے، شہزادی ساریہ بھی لطف و سرور کی کئی منازل طے کرتی چلی گئی اور محبت کے جال میں قید ہو گئی تھی۔
وہی محبت جو چار دن کی شفاف چاندنی کا عکس دکھا کر اندھیری راتوں کے آنگن میں پٹخ دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچن شیلف کے قریب کھڑی وفا کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے، کھڑکی سے آتی روشنی سے صبح کا اندازہ ہو رہا تھا،وفا نے گردن گھما کر سفید دیوار پر نصب سفید کلاک کو دیکھا جس کا پینڈولم حرکت کر رہا تھا، ناشتہ ٹیبل پر چنا اور آہستگی سے ایان کر کمرے کا دروازہ کھولا، سفید کمبل گردن تک اوڑھے ایک بازو اوپر رکھ کر تھامے ہوئے تھا، گویا کمبل بھاگ جائے گا۔
وفا نے محویت سے اسے دیکھا، اسکے وجیہہ چہرے پر ہلکی بڑھی شیو خوب جچ رہی تھی، عنابی لب ساکن تھے، ہر وقت غصے کا بوجھ اٹھاتی ننھی سی ناک کے نتھنے سانس کی آمدو رفت سے معمولی سی حرکت کر رہے تھے۔
" ایان۔۔۔۔"
وفا نے آہستگی سے پکارا، دھڑکنیں شور مچاتی اتھل پتھل ہونے لگیں، وفا نے گہرا سانس لیا اور شور مچاتی دھڑکنوں کو ڈپٹ کر کھڑکی کی طرف بڑھ گئی، دھوپ کا اندر آنے کا امکان نہیں تھا، البتہ کمرے میں چھایا ملگجا سا اندھیرا چھٹ گیا تھا۔
" مسٹر ملک۔"
وفا نے جھک کر زور سے پکارا۔
ایان نے دائیں کھول کر اسے جھکے پاکر مسکرایا۔
وفا سیدھی ہو گئی۔
ایان مندی مندی آنکھوں سے اٹھ بیٹھا۔
" مارننگ وائف۔"
ایان بالوں میں ہاتھ پھیرتا نیند کے خمار میں بولا۔
" مارننگ، ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔"
وفا نے ہاتھ مسلتے ہوئے کہا، ایان کی وارفتگی بھری نظریں اسے گھبراہٹ میں مبتلا کر رہیں تھیں۔
ایان پلکیں جھپکائے بنا اسے تکے گیا، ریڈ شرٹ اور وائٹ جینز پہنے، بھورے بال شانوں پر چھوڑے، میک اپ سے عاری و بے نیاز سپید چہرہ لیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
وفا کمرے سے نکل آئی، ھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں تھیں، جسم مںں سنسی خیز لہر دوڑ گئی۔
اس نے ٹیبل سے پانی کا جگ اٹھایا اور کپکپاتے ہاتھوں سے گلاس میں انڈیلا اور ایک ہی سانس میں پی گئی۔
محبت کے پہلے وار نے اسے بری طرح گھبراہٹ میں مبتلا کر ڈالا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ایان دھلا دھلایا چہرہ لیے ٹیبل پر آ بیٹھا۔
" پاکستانی ڈشز۔"
ایان دل سے مسکرایا تھا، سوئی ہوئی بھوک انگڑائی لیتی چمک اٹھی تھی۔
وفا سر جھکائے مسکرا دی۔
ایان نے ناشتہ نکالا اور کھانا شروع کیا۔
" کسی فائیو سٹار میں شیف رہی ہو کیا۔؟"
ایان نوالہ چباتے ہوئے اسے دیکھ کر بولا۔
وفا نے ناسمجھی سے بھنویں سکیڑیں۔
" مطلب اتنا ٹیسٹ تو ہوٹلز کے شیف کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔"
ایان نے توصیفی انداز میں کہا۔
وفا مسکرا دی۔
" مسٹر ملک وہ ۔۔۔میں۔۔۔ کہہ۔۔۔ رہی تھی کہ۔۔"
وفا کو جانے کیوں ایان کی موجودگی سے گھبراہٹ ہورہی تھی، ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ رہیں تھیں۔
" بولو۔"
ایان نے نوالہ لیتے ہوئے نارمل لہجے میں کہا۔
" میں گروسری سٹور چلی جاؤں۔؟"
اجازت طلب نظروں سے ایان کی جھکی آنکھوں کو دیکھا، جونہی ایان ملک کی نظریں اٹھیں، وفا نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں۔
" یہ تم آج گھبرا کیوں رہی ہو۔۔۔۔؟"
ایان پانی انڈیلتے ہوئے بغور اسے دیکھ کر بولا۔
وفا کی زبان تالو سے جا چپکی۔
" جاب کے لیے مت جانا، ویسے کہیں بھی جانے کے لیے میری اجازت کی ضرورت نہیں ہے، تم اپنی زندگی میں آزاد ہو جو چاہو کرو۔"
ایان اسے خاموش پا کر سنجیدگی سے بولا۔
وفا نے ممنونیت سے اسے دیکھا۔
" جاب نہیں کروں گی تو کیا کروں گی۔؟"
وہ روہانسی ہوئی تھی۔
" تم ساریہ نائک کی بیٹی اور ایان ملک کی بیوی ہو، کسی نے جاب کرتے دیکھ لیا تو دوبارہ ہر چینل کی زینت بن جاو گی۔"
ایان سنجیدہ لہجے میں نرمی سے سمجھا رہا تھا۔
" ابھی کچھ دن تک میڈیا تمہیں پریشان کرے گا، گھر ہی رہو تو بہتر ہے۔"
ایان ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولا۔
" چائے بنا دوں یا کافی۔؟"
وفا برتن سمیٹتے ہوئے نظریں جھکائے بولی۔
" کافی پی لی تو پھر سے سڑیل بن جاوں گا، چائے ہی ٹھیک ہے سویٹ تو رہوں گا۔"
ایان شرارت سے بولا، وفا مسکرا کر رہ گئی اور چائے بنانے لگی، ہیلپر کو اس نے چھٹی دے دی۔
ایان لاونج میں جا بیٹھا اور ایل ای ڈی آن کر لی۔
سکرین پر ساریہ نائک اور اسکی فیملی تھی۔
" میم کیا وفا خیام واقعی آپکی بیٹی ہے۔"
رپوٹرز دھڑا دھڑ سوال پوچھ رہے تھے۔
" اگر وہ آپ کی بیٹی ہےتو اب تک کہاں تھی۔۔؟"
" اسکا سر نیم نائک کیوں نہیں ہے۔؟"
" کیا وفا خیام نائک خاندان سےتعلق نہیں رکھتی۔"
" وفا خیام جائز ہے یا ناجائز۔۔؟"
" وہ ایان ملک کی بیوی کب بنی،؟"
" آپ کی بیٹی نے آپکے حریف سے شادی کیوں کی۔؟"
ساریہ نائک کے چہرے پر کرخت تاثرات ابھرنے لگے۔
" وفا نائک خاندان سے تعلق نہیں رکھتی، وہ میرے پہلے شوہر خیام سعید اور میری بیٹی ہے، اور وفا بلکل جائز اولاد ہے، اور وہ اپنے باپ خیام کے پاس پاکستان میں رہائش پزیر تھی، ایان ملک سے شادی لب اور کیوں کی، یہ اسکا اپنا فیصلہ تھا، وفا کا ہمارے بزنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
ساریہ نائک نہایت کرختگی سے ایک ہی بار میں ہر سوال کا جواب دیتی پلٹ گئی تھی۔
وفا ایان کے ساتھ صوفے پر ٹک گئی، ساریہ نائک کے تاثرات اسے بری طرح ہرٹ کر گئے تھے۔
ایان نے اسکے چہرے پر مایوسی اور دکھ کے سیاہ رنگ کو پھیلتے دیکھا تو اسکے ہاتھ پر اپنا مضبوط ہاتھ دھر لیا۔
" تمہاری مام نے تمہیں قبول کر لیا ہے، اس بات کا اعتراف وہ سر عام کر چکی ہے۔"
ایان نرمی سے بولتا اسکی طرف کھسکا۔
" دکھاوے کے رنگوں کو میں بخوبی پہچانتی ہوں مسٹر ملک۔"
وفا کرب سے بولی تھی، آنسو آنکھو سے لڑھک گئے تھے۔
" یہ اعتراف ایک ماں کا نہیں تھا، یہ ایک بزنس وومین کا اپنا امیج کلئیر کرنے کا اعتراف تھا۔"
وفا نے آنکھوں کی منڈیر جھلماتے آنسو لیے اسے دیکھا۔
ایان نے اسکی آنکھوں سے آنسو صاف کر ڈالے۔
" اسے فرق نہیں پڑا تو تم کیوں خود کو ہلکان کر رہی ہو۔"
ایان نے اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیا۔
" کیونکہ میں ترسی ہوں ان کے لیے۔"
وفا گلوگیر لہجے میں بولی تھی۔
ایان کو سخت افسوس ہوا، اسے نیوز نہیں سننی چاہیے تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیارہ بجے کا وقت تھا، سورج کے آگے بادل ڈیرہ جمائے ہوئے تھے، سورج کی تیز کرنیں بادلوں کو دوہرے رنگ سے رنگ رے رہیں تھیں، سرمئ دکھتے بادلوں میں سورج کا زرد گھل کر شاندار لگ رہا تھا۔
شاپنگ مال کی دسویں منزل پر بنے شانداز آفس میں بالاج نائک اور شہروز نائک ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
" کیا کیا اس لڑکی کا۔"
شہروز نائک نے ریڈ وائن بوتل کا ڈھکن کھول کر شیشے کے گلاس میں انڈیلی۔
" وہ گھر سے ہی نہیں نکلی رات کے بعد۔"
بالاج نائک نے مایوسی سے کہا۔
" تو گھر پر ہی اٹیک کروا دو، ساریہ کے کسی دشمن کا نام لگا دو۔"
شہروز نائک وائن گلاس اٹھائے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بے لچک لہجے میں بولا تھا۔
" ٹھیک ہے ڈیڈ، بٹ اس دفع کوئی مسئلہ نہ ہو جائے۔"
بالاج نے شہروز نائک کی طرف دیکھا۔
" بے فکر رہو، اسے بھی میں سنبھال لوں گا، کچھ نہیں کرسکے گی وہ۔"
شہروز نائک نے سپ لیتے ہوئے کہا۔
بالاج نائک نے سیریل کلر کو اڈریس دیا اور اٹیک کرنے کا کہا۔
" ڈیڈ دس از ڈن۔"
بالاج نائک کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بولا اور سگھار سلگھا لیا۔
" اس کمپنی کے لیے ساریہ نائک سے شادی کی ہے، کیسے اسکے حصے دار بننے دوں۔"
شہروز نائک آخری گھونٹ حلق میں اتارتے ہوئے بولا۔
" تو پہلے ہی اسکا قصہ ختم کر دیتے۔"
بالاج نائک ناگواری سے بولا۔
" اونہہ۔۔۔۔۔جب تک وہ خود کسی کے نام نہیں کرے گی کمپنی کسی کی نہیں ہوگی، اسکے مرنے پر کمپنی لقمان اورفن ہاوس کی دسترس میں چلی جائے گی۔"
شہروز نائک مزید وائن گلاس میں انڈیل چکا تھا۔
" تمہاری ماں نے دیکھو ایک بار کی دھمکی سے ہوٹلز چین میرے نام کر دی۔"
شہروز نائک فاتحانہ ہنسا تھا، وائن کا نشہ چڑھنے لگا تھا۔
بالاج نائک کے لبوں کی مسکراہٹ سمٹی۔
" کہیں آپ نے میری مام کو خود تو نہیں مار دیا۔؟"
بالاج نے سنجیدگی سے باپ کو دیکھا۔
" اونہہ۔۔۔۔۔وہ تو میری محبت تھی، مجھ سے خفا ہو کر خود کشی کر لی,"
شہروز نائک نے سرخ ہوتی آنکھوں سے بیٹے کو دیکھا، شہروز نائک مکمل نشے میں نہیں تھا، جو سچ بات کہہ جاتا۔
بالاج نائک نے سر ہلا دیا، گو کہ دل میں شک کی گرہ پڑ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کسی دھویں کی طرح پھیلتی گہری ہوتی جا رہی تھی، وہ اپنے کمرے میں چیس بورڈ پر بیٹھی چالیں چل رہی تھی، جب اچانک دروازہ کھلا۔
اسکے چہرے پر ناگواری کے تاثرات عود آئے۔
" تمہاری ہمت کیسے ہوئی بالاج نائک کے خلاف سازش رچنے کی۔"
شہروز نائک نے اسکے بھورے بال مٹھی میں جکڑے وہ کراہ کر لب بھینچ گئی۔
" مسٹر شہروز نائک، یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے۔"
عینا کی باس شہروز نائک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے خوفی سے گویا ہوئی۔
" تمہارے جیسی بہت چیونٹیاں مسل کر یہاں تک پہنچا ہوں، بھلائی چاہتی ہو تو اپنی اوقات میں رہو۔"
شہروز نائک نے جھٹکے سے اسکے بال چھوڑے تھے۔
" یہ تو وقت بتائے گا، اوقات میں کون جاتا ہے۔"
وہ پھنکاری تھی۔
" یہ آخری وارننگ ہے، ورنہ میرے کیے گیے قتلوں میں ایک اور قتل کا اضافہ ہو جائے گا۔"
شہروز نائک کے لہجے میں سفاکی تھی۔
وہ چپ رہ گئی۔
شہروز نائک نے چیس بورڈ الٹ دیا اور کمرے سے نکل گیا۔
" تو شہروز نائک کے کچے چٹھے بھی کھولنے ہی پڑیں گے۔"
باس نے سیاہ گھوڑے نما چیس ٹائٹین پر پاوں رکھا اور ٹھوکر رسید کر دی۔
چیس پیس گھومتا ہوا دیوار سے ٹکرایا اور دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔