وفا نے سر اٹھا کر نگاہ آسمان پر دوڑائی اور بوجھل قدموں سے خود کو گھسیٹتی اپارٹمنٹ تک لے آئی، بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی، فائل بیڈ پر دھری ہوئی تھی۔
وفا نے گہری سانس ہوا کے سپرد کی اور فائل اٹھا کے بیگ میں رکھی، الماری سے طے شدہ کپڑے نکال کر کیری بیگ میں رکھے، اپنا سامان سمیٹا اور اپارٹمنٹ پر آخری طائرانہ نگاہ ڈالتی بیگ گھسیٹتی باہر آگئی۔
قدموں کی رفتار قدرے آہستہ تھی، گویا مسافر نے راستے کا چناو بمشکل کیا تھا۔
سپید چہرے پر تاثرات نا پید تھے، بال ہوا کے دوش پر اٹھکیلیاں کرتے پھر رہے تھے، اشارے سے ٹیکسی روکی اور سامان رکھ کر سر سیٹ کی پشت سے لگائے بیٹھ گئی، زندگی کا واحد فیصلہ دل کی مرضی سے لیا تھا۔
رات کی گہرائی بڑھتی جا رہی تھی، ٹیکسی سے نکل کر نظر بلند و بالا عمارت پر گئی، بیگ گھسیٹتی گیٹ کی جانب قدم بڑھا گئی، گیٹ کیپر نے پہچان کر گیٹ کھول دیا، دھڑکتے دل کے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی تھی، دروازے پر رک کر خود کو کمپوز کیا اور بیل پر ہاتھ رکھ دیا۔
دروازہ کھلا تھا، ایان ایک طرف ہٹ گیا۔
وفا بیگ گھسیٹتی اندر آ گئی۔
" اچھا فیصلہ لیا ہے۔"
ایان مسکرایا تھا، جبکہ وہ مسکرا بھی نا سکی اور بیگ گھسیٹتی ایان کے سامنے والے روم میں چلی گئی۔
" اگر تم نے مجھ پر اعتبار کر ہی لیا ہے وفا، میں تمہارے اعتبار مزید جیت کر اس فاصلے کو سمیٹ لوں گا۔"
" اعتبار کی جیت، سب سے بڑی ہوتی ہے۔"
ایان گہری سوچ میں گم اپنے کمرے میں آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہری نیند کے آغوش میں اسے کچھ گرنے کی آواز آئی، عادت سے مجبور وہ آنکھیں مسلتی باہر چلی آئی، اوپن کچن میں شیلف کے قریب ایان ملک کھانا بنا رہا تھا، شیلف پر برتن پھیلائے وہ مصروف لگ رہا تھا، وفا نے حیرت سے اسکی پشت کو دیکھا، ایان زمین بوس ہوئے جگ کو اٹھانے کے لیے مڑا تو نظر حیران سی وفا سے ٹکرائیں۔
" گڈ مارننگ مسز ایان۔"
ایان جھک کے جگ اٹھاتے ہوئے خوشگواریت سے کہا، وفا نے وال کلاک پر نظر دوڑائی دن کے گیارہ بج رہے تھے۔
" اف میں اتنی دیر سوتی رہی۔"
وفا نے پیشانی پر ہاتھ مارا اور ایان کی طرف بڑھی۔
" میں بناتی ہوں۔"
وفا نے اسے ہٹانا چاہا تو ایان نے اسے شانوں سے تھامے کرسی پر بٹھا دیا۔
" آج ناشتہ میں بناوں گا۔"
ایان نے مسکرا کر اطلاع دی، وفا اسکی خوشگواریت پر حیران تھی۔
" کیا ہمارے فیصلے کسی کے لبوں پر مسکراہٹ کا باعث بنتے ہیں۔؟"
وفا ہاتھ ٹھوڑی لے ٹکائے اسے کام کرتے دیکھنے لگی، وہ پورے انہماک سے ناشتہ بنا رہا تھا۔
" آپ آفس نہیں گئے آج۔۔۔۔؟"
وفا نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
" نہیں۔۔۔آج ایک ضروری کام نبٹانا ہے۔"
ایان ملک مڑ کر اسے بتاتے ہوئے ناشتہ انڈہ پلیٹ میں نکالنے لگا اور ڈش لیے ٹیطل کی طرف بڑھا۔
وفا نے مسکرا کر اسکی کوشش سراہا۔
" پہلی بار بنایا ہے۔"
ایان انڈے کی ٹوٹی ہوئی حالت دیکھ کر خجل سا بولا۔
" یہ بات معنی نہیں رکھتی، آپ نے کسی کو اہمیت دی ہے یہ اہم ہے۔"
وفا ناشتہ سرو کرتے ہوئے سادگی سے بولی، ایان نے مسکراتی نظروں سے اسکے سنجیدہ چہرے کو دیکھا۔
"میں اس سنجیدگی کو مسکراہٹوں میں بدل دوں گا وفا۔"
انہماک سے دیکھتے سوچ سکا۔
وفا رغبت سے ناشتہ کر رہی تھی، ایان اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوا۔
ناشتے سے فراغت پا کر دونوں چائے کے مگ تھامے ٹیرس پر آگئے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چھو کر گزر ریے تھے، سورج کی چمکتی کرنیں میٹھی میٹھی دھوپ برسا رہیں تھیں، وفا !ے اپنے ساتھ کھڑے اس خوبرو مرد کو دیکھا۔
سفید شلووار قمیض پہنے وہ بے حد وجیہہ لگ رہا تھا۔
" آپ نے یہ فیصلہ کیوں لیا۔؟"
ایان نے اسکے ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے بالوں کو بغور دیکھا۔
" آپ نے کہا تھا، زندگی کے لیے دوراہا بناٶ، لیکن مجھے لگتا ہے دوراہے بے بس کر دیتے ہیں، میں نے منزل کی سمت جاتے اس راستے پر موڑ لے لیا ہے، اس منزل کو خیر باد کہہ کر زندگی کے لیے نئی منزل کا رسک لے لیا ہے۔"
وفا مدھم لہجے میں کھوئے کھوئے لہجے میں بولی۔
ایان نے اسے نظر بھر کر دیکھا اور چائے کے ہلکے ہلکے سپ لینے لگا۔
" میں تمہاری منزل تک پہنچا دوں گا، پھر چاہے وہ جس راستے پر ہو۔۔"
ایان ملک کے لہجے میں ٹہراٶ تھا۔
" ریڈی ہو جاٶ، کہیں جانا ہے۔"
ایان پلٹ کر کمرے میں چلا گیا۔
" چھوڑ دیا زندگی خود کو تیرے آسرے۔"
وفا نے گہرا سانس خارج کیا اور آسمان کی سمت دیکھ کر مسکرائی۔
" تیری رحمت کا یقین مجھے مایوس نہیں ہونے دیتا، تیرے سہارے کا یقین مجھے گرنے نہیں دیتا، ایک در بند ہونے پر دوسرے در کا دروازہ کھول دیتا ہے، ایان ملک جیسے ہمسفر کا ساتھ شاید میری زندگی بھر کے صبر کا انعام ہے۔"
اپنی بات پر خود ہی مسکرا دی اور پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
ایان بلیک پلین شرٹ اور بلیک نیرو جینز پہنے، بٹن بند کرنے لگا، شرٹ کے اوپری بند کیے اور ٹائی لگا کے کوٹ کی طرف بڑھا، پرفیوم سپرے کیا اور بال سیٹ کر کے واچ لگاتا باہر آگیا۔
سرخ و سپید رنگت پر خوشگواریت کے رنگ محسوس ہو رہے تھے، وفا براون شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس کمرے سے نکلی، ایان نے مسکرا کر دیکھا اور دونوں ایک دوسرے کی معیت میں قدم اٹھاتے اپارٹمنٹ کی پارکنگ میں آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہروز نائک کی سفارشات اور رشوت خوری کام کر گئی، بالاج نائک کو رہا کر دیا گیا، شہروز، بالاج ،شزا اور ساریہ نائک لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے۔
" جانتے ہیں یہ سب کس نے کیا ہے ڈیڈ۔۔۔۔؟"
بالاج شدید تنفر بھرے لہجے میں بولا تھا، شدید غصے میں کھوک رہا تھا۔
" ایکسکیوزمی میم۔"
جولی نے ساریہ نائک کو مخاطب کیا تو بالاج کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔
ساریہ نے سوالیہ انداز میں جولی کی سمت دیکھا۔
" مسٹر ایان ملک آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔"
عینا اندر آتی دکھائی دی۔
" مارننگ سر۔"
عینا کہتی ہوئی بالاج نائک کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
" بھیجو۔۔۔۔"
ساریہ نائک اچنبھے سے بولی تھی، شہروز اور بالاج نائک کی تنقیدی نگاہیں ساریہ پر تھیں۔
ایان وفا کے ہمراہ اندر آتا دکھائی دیا، اسکے ہاتھ میں وہی فائل تھی۔
انکے مقابل صوفے پر بیٹھتے ایان ملک نے وفا کا ہاتھ دبایا، وفا بہت گھبرائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔
" فرمائیے۔"
ساریہ نائک پیشہ وارانہ لہجے میں رکھائی سے بولی۔
ایان نے فائل اسکی سمت بڑھا دی، بالاج نائک ،شہروز نائک اور شزا وفا کو پہچان گئے تھے۔
" کیا بکواس ہے یہ۔۔۔۔؟"
ساریہ نائک چلائی تھی۔
" یہ حقیقت ہے، میں وفا خیام ہوں۔"
وفا مضبوط لہجے میں بولی تھی، ماں کو سامنے دیکھ دل بے قرار ہو گیا تھا۔
ساریہ کئی لمحے اسے تکتی رہی تھی۔
" ویل تمہارے باپ نے تمہیں پراپرٹی میں حصہ لینے کے لیے بھیجا ہوگا۔"
ساریہ کا لہجہ جزبات سے عاری تھا۔
" وہ ڈیڑھ سال پہلے دار فانی سے کوچ کر گئے ہیں، میں نے اپنی محنت کے بل پر آپ کو ڈھونڈا ہے۔"
وفا کی آنکھوں سے موتی پھسل کر گریبان میں جزب ہوگئے۔
شہروز بالاج اور شزا صورتحال کو سمجھنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
" مجھے تم سے کوئی غرض کوئی واسطہ نہیں ہے، تمہارا باپ محض میری زندگی کی ایک غلطی تھا،وفا خیام۔"
ساریہ نائک بے لچک لہجے میں بولی تھی۔
وفا نے چونک کر دیکھا تھا، اسکا وہ بیس سالہ خواب چکنا چور ہو کر بکھر گیا تھا، جس میں وہ اپنی ماں کو بے قرار سی دیکھے گی، اور اسکے آغوش میں چھپ جائے گی۔
" بے وفائی کی نشانی کا نام وفا رکھ دیا، ویلڈن ساریہ نائک۔"
وفا استہزایہ انداز میں بھیگی آنکھوں سے بولتی اٹھ کھڑی ہوئی، ایان بھی اسکے ہمراہ اٹھ گیا تھا۔
" بیس سال میں جس امید کی ڈوری کو تھامے جیتی آئی ہوں، آپ اس ڈوری کا کاٹتے لمحے بھر کو نا سوچا، کسی کی زندگی ایک امید میں محصور ہوتی ہے۔"
وفا نے سختی سے کہا تھا، ساریہ نائک کھڑی ہو گئی تھی۔
" تم جا سکتی ہو۔۔۔۔ دوبارہ آنے کی زحمت مت کرنا، میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔"
ساریہ نائک کہہ کر پلٹ گئی تھی۔
" آپ جانتی ہیں، دولت ہاتھوں کی میل ہے، اور یہ میل آپ کے دل کے گرد موٹی پرت چڑھا چکی ہے، تب ہی آپ احساس سے عاری ہو چکی ہیں، آپ فرق نہیں پڑتا، تو میں بھی آپ ہی کی بیٹی ہوں۔"
وفا سرد لہجے میں بولتی چلی گئی، ایان تیز قدموں سے اسکے پیچھے آیا تھا۔
" یہ مام کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔؟"
بالاج ششدر سا بولا، شزا نائک ساریہ کے پیچھے چلی گئی۔
" اور ایان ملک۔۔۔۔۔؟"
بالاج نائک شہروز کی طرف دیکھ کر بولا جو گہری سوچ میں گم تھا۔
" وہ ایان ملک کی وائف ہے سر۔"
عینا جو وفا کی حقیقت سے ششدر تھی، بالاج نائک سے مخاطب ہوئی۔
" اوہ۔۔۔۔۔۔"
بالاج نے لب سکیڑے۔
" تم جاو۔"
شہروز نائک نے سنجیدگی سے حکم دیا۔
عینا لاونج سے نکل گئی۔
" یہ لڑکی بزنس کے لیے خطرہ ہے، نائک کمپنی کی ایک اور حصے دار۔۔۔۔۔۔"
شہروز نائک سگھار سلگھاتے ہوئے ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بولے۔
" راستے سے ہٹا دیا جائے۔"
بالاج نائک نے شہروز کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
" بلکل۔۔۔۔۔"
شہروز نائک نے ہنکارا بھرا۔
" آپ کو پتہ ہے مجھے اریسٹ کس نے کروایا، اور ملک ایان پر حملہ کس نے کروایا۔؟"
بالاج لب بھینچ کر بولا۔
شہروز نے اسکے کرخت ہوتے چہرے کو دیکھا۔
جو نام اس نے بتایا شہروز نائک کے ہوش اڑانے کو کافی تھا، پیلس کے چار مکین ہی آپس میں دشمن بنے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا نے سر سیٹ سے ٹکائے آنکھیں موند لیں۔
وقت اسکی سوچ سے زیادہ بے رحم ثابت ہوا تھا، ایک لمبے انتظار کا شیشہ چکنا چور ہو گیا تھا، وہ جیت کر بھی ہار گئ تھی، ساریہ نائک سے اسے ایسی سرمہری کی امید نہیں تھی۔
ایان نے افسردگی سے اسکے چہرے پر چھائے کرب کو دیکھا، اسکے لب خاموش تھے، کوئی واویلہ ، کوئی شکوہ نہیں تھا۔
اپارٹمنٹ کی پارکنگ میں گاڑی رکی تو وفا ہوش کی دنیا میں لوٹی ، ضبط سے اسکی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں۔
ایان خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا، وفا صوفے پرگر سی گئی۔
" وفا۔۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے۔"
ایان اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولنے لگا تھا۔
" مسٹر ملک، میں اتنی کمزور نہیں ہوں کہ خود کو سننھالنے کے لیے تسلیوں یا دلیلوں کا سہارا لوں۔"
وفا سنجیدگی سے بولی تھی۔
" جو ہوا وہی میرے حق میں بہتر ہے، میں اپنے رب کے رضا پر راضی ہوں۔"
وفا نے نرمی سے ایان کے چہرے کو دیکھا۔
" تم واقعی بہت بہادر ہو۔"
ایان متاثر کن لہجے میں نرمی سے اسکے رخسار پر ہاتھ رک کے بولا ۔
وفا نے چپ چاپ اسکے کندھے پر سر رکھ لیا۔
ایان نے اسکے بالوں پر لب رکھ دیے۔
" میں تمہاری ہر کمی کو پورا کر دوں گا وفا۔"
ایان کو اس لمحے وہ مضبوطی کے خول میں ٹوٹی ہوئی لگ رہی تھی۔
وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔
" لوگ محبت کا سوال رقم کرتے یہ تک نہیں سوچتے اسکا جواب کیا ہوگا، کچھ لوگ جواب تک پہنچ جائیں تو نتیجہ دیکھے بغیر پلٹ جاتے ہیں، اور ہم جیسے محبت کے نتیجے۔"
وہ استہزایہ انداز میں سر جھٹک گئی۔
" ساری عمر اس نتیجے کے سوال کی تلاش میں گزار دیتے ہیں۔"
وفا نے پیر صوفے پر رکھ کر گھٹنوں پرسر رکھ لیا۔
" تم اسلیے محبت سے خفا ہو، کہ تمہیں اسکا نے نتیجہ خوفزدہ کرتا ہے۔؟"
ایان نے رخ اسکی طرف موڑ کر اسکے شانے سے پھسل کر آگے جھکے سرکے بالوں کو دیکھا۔
وفا نے کچھ نہیں کہا۔
" وفا نتیجے وہاں ہوتے ہیں جہاں سوال، امتحان ختم ہوتے ہیں، لیکن محبت تو ختم ہی نہیں ہوتی، اگر واقعی محبت ہو، تب بھی کوئی مجبوری اسے نتیجے تک نہیں لاتی۔"
ایان مدھم لہجے میں بول رہا تھا۔
وہ اس وقت کنگ آف ایٹیٹیوڈ نہیں لگ رہا تھا۔