پولیس تمام تر ثبوت لیے” ناٸک پیلس“ پہنچ چکی تھی، گیٹ سے پیلس تک پولیس سفید گاڑیاں ایک قطار سے کھڑی تھیں۔
” وی ہیو اریسٹ وارنٹ آف مسٹر بالاج ناٸک۔“
We Have Areest warrent of Mr Balaj Naiq.
سرخ و سید رنگت کے حامل پولیس مین نے وارنٹ شہروز ناٸک کی آنکھوں کےسامنے لہرایا۔
بالاج نے لب بھینچے اپنے باپ کو دیکھا۔
” دیکھ لیے اپنے بیوی کے کارنامے۔“
بالاج دبی آواز میں چبا چبا کر بولا تھا۔
پولیس آفیسر نے ہتھکڑی اسکے ہاتھوں میں پہناٸی اور گاڑی میں بٹھا دیا۔
گیٹ کے پار میڈیا کا جم غفیر ناٸک خاندان کی عزت کو خوب اچھال رہا تھا۔
پولیس کی گاڑیاں اسی ترتیب سے ساٸرن بجاتیں پیلس سے نکل گٸیں۔
ساریہ ناٸک اور شزا ناٸک خاموش تماشاٸی بنیں دیکھتی رہیں تھیں۔
ہاتھوں کی میل خون سفید کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
” یہ تم نے اچھا نہیں کیاساریہ ناٸک۔“
شہروز ناٸک ساریہ پر دھاڑے۔
” ڈیڈ اس میں مام کی کیا غلطی، بالاج کو سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے تھا۔“
شزا ناگواری سے بولتی مڑ گٸ تھی، ساریہ بنا کچھ کہے گاڑی میں بیٹھ گٸ، اسکا رخ آفس کی جانب تھا۔
شہروز ناٸک مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ماننگ ماٸی سن۔“
راٸنہ خوشگواریت سے بولتی ہوٸی ، ہاتھ میں فریش جوس تھامے اندر داخل ہوٸیں۔
ایان مبہم سا مسکرا دیا۔
” وفا نہیں آٸی مام۔“
ایان کے لہجے میں بے چینی تھی۔
راٸنہ کا دمکتا چہرہ مانند پڑ گیا۔
” نہیں۔“
راٸنہ نے سنجیدہ چہرے سے جواب دیا اور جوس گلاس میں انڈیلنے لگیں۔
” مام ابھی مجھے فریش ہونا ہے۔“
ایان نے گلاس دیکھتے ہوٸے کہا۔
” وفا آتی ہے تو میں پی لوں گا۔“
ایان قدرے نرمی سے گویا ہوا، راٸنہ کی پیشانی پر تین لکیریں ابھریں تھیں، وہ گلاس ڈش میں رکھتیں کمرے سے چلی گٸیں۔
” ایک تو محترمہ کے پاس موباٸل نہیں ہے۔“
ایان نے وفت سے اپنے ساٸڈ ٹیبل پر رکھے فون کو دیکھا، جو فی الوقت بے کار شے معلوم پڑ رہا تھا۔
آٹھ بجے کے قریب وفا دروازہ ناک کرتی اندر داخل ہوٸی۔
ایان کے صبیح چہرے پر بے زاری اور کوفت واضح جھلک رہی تھی۔
” ٹاٸم دیکھا ہے تم نے۔؟“
ایان تیز لہجے میں بولا۔
وفا دروازے میں ہی رک گٸ۔
” پچھلے دو گھنٹے سے میں ناشتے کے انتظار میں بیٹھا ہوں، مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے۔“
ایان اسے جتاتے ہوٸے بولا۔
” پہلے آپ کو ناشتہ میں کرواتی تھی۔“
وفا کو علی الصبح عزت افزاٸی بری لگی۔
” لیکن اب تمہارا فرض ہے۔“
ایان کہاں چپ ہونے والا تھا۔
” فرض نہیں ہے، ڈیوٹی ہے، سیلری پر ڈیوٹی نبھاٸی جاتی ہے فرض نہیں۔“
وفا سادگی سے گویا ہوٸی اور اسکی جانب چلی آٸی۔
” ناشتے میں کیا لیں گے۔؟“
وفا سنجیدہ مگر سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوٸے بولی۔
” تمہارا سر۔۔۔۔“
ایان رکھاٸی سے بولا۔
” وہ تو آپ سارا دن کھاتے ہیں، ابھی مینیو چینج کر لیں۔“
وفا مسکراہٹ ضبط کرتے ہوٸے ہاتھ سینے پر باندھ کر بولی، ایان نے جھٹ سے سر اٹھایا، وفا کے لبوں پردھیمی سی مسکراہٹ مچل رہی تھی۔
ایان کے عنابی لب بے اختیار مسکراہٹ میں ڈھل گٸے۔
” مجھے واش روم تک لے چلو۔“
اسکی بات نظر انداز کر کے ہلکے پھلکے لہجے میں بولا۔
ایان نے بازو اسکے کندھے کے گرد حاٸل کیا اور لڑکھڑا کر چلنے لگا۔
” مسٹر ملک۔۔۔۔اگر آپ گر گٸے تو میری ہڈیوں کا کچومر نکل جانا ہے۔“
وفا اسے وزن پر چوٹ کرتے ہوٸے بولی۔
ایان نے گھوری سے نوازا۔
” مجھے تو کوٸی سنبھالنے والا بھی نہیں ہے۔“
وفا نے اسے سٹک تھماٸی اور واش رومکے دروازے تک چھوڑ دیا۔
” تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے، تمہیں سنبھالنے والا کوٸی نہیں۔“
ایان سٹک اور دیوار کے سہار کھڑا تھا۔
” کیونکہ یہی حقیقت ہے۔“
وفا نے سادگی سے بولتے ہوٸے کندھے اچکاۓ، اسے خود حیرانی ہو رہی تھی، وہ کبھی کسی سے اتنا فرینک نہیں ہوٸی تھی۔
” حقیقت کو پرے رکھ کر سوچ کے دیکھو۔“
ایان نے دیوار سے ٹیک لگا لی۔
” مجھے خواب دیکھ کر وہم پالنے کا شوق نہیں ہے۔“
وفا نے سنجیدگی سے کہا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے اندر جانے کا کہا۔
” جا رہا ہوں۔“
ایان اسے گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔
وفا مسکرادی۔
تھوڑی دیر بعد وہ واش روم کے دروازے سے برآمد ہوا تو چہرہ پانی سے تر تھا۔
وفا نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیا، وہ اس کے بہت قریب تھی، دل دھڑکنوں کو اتھل پتھل کر رہا تھا۔
وفا نے اسے احتیاط سے بیڈ پربٹھایا اور تولیہ اسے تھمایا۔
ایان نے چہرہ خشک کیا اور واپس تھما دیا۔
” چہرے پر آٸنٹمنٹ لگا دو۔“
ہمیشہ کی طرح حکمیہ لہجہ۔
” آنکھیں بند کر لیں پھر۔۔۔۔“
وفا ٹیوب لے کر جھکی تھی۔
” ٹیوب لگانی ہے، منہ پر سپرے نہیں کرنی۔“
ایان برا سا منہ بنا کر بولا۔
وفا سیدھی ہو گٸ۔
” آنکھیں کھول کے آپ نے کس چیزکا دیدار کرنا ہے۔“
وفا چڑکر بولی تھی، وہ ایان کے تکنے پر گھبرا جاتی تھی۔
” تمہارا۔۔۔۔“
ایان مزے سے بولا تھا۔
وفا نے ہاتھ بڑھا کر اسکی آنکھیں بند کر دیں، ایان کے لبوں پر مسکراہٹ ٹہر گٸ۔
” ایک لڑکی
میری آنکھوں سے ڈرتی ہے۔
جو ڈرتی نہیں زمانے سے۔
ایان نے آہستگی سے کہا، وفا نے بنا تاثر دیے اپنا کام مکمل کیا اور ہاتھ ہٹا لیا۔
ایان نےگہری نظروں سے اسے دیکھا۔
” ناشتے میں اپنا سرپیش کروں یا آپ کچھ اور کھانا پسند کریں گے۔“
وفا سنجیدہ ہوٸی۔
” پہلے بینڈیج چینج کرو۔“
ایان نے دوبارہ حکم دیا، وفا فرسٹ ایڈ کٹ اٹھا لاٸی اور بیڈ پ اسکےہمراہ بیٹھ گٸ۔
” آہ۔“
ایان کراہا تو وفا نے پٹی چھوڑ دی۔
” درد ہوا۔“
وفا بے چارگی سے بولی۔
” نہیں بہت مزہ آیا۔“
ایان تنک کر بولتا، آنکھیں میچ گیا۔
وفا نے جیسے تیسے کر کے پٹی اتاری اور دوسری پٹی باندھ دی۔
” ٹوسٹڈ سلاٸس ود فراٸڈ ایگ اینڈ فریش جوس۔“
ایان اسے فارغ ہوتے دیکھ کر بولا۔
وفا ناشتہ بنانے چلی گٸ۔
ایان نے گہرا سانس خارج کیا، وہ وفا کو اسکے خول سے نکال رہا تھا۔
عجب پاگل سی لڑکی ہے
خوابوں سےڈرتی ہے
ایان سر نفی میں ہلاتے ہوٸے سوچ سکا اورکچھ سوچ کر ہاتھوں پر آٸنٹمنٹ لگا لی۔
وفا ناشتے کی ڈش تھامے اندر آٸی، اسکے ساتھ عینا اور عناٸیہ بھی تھیں۔
ایان کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
” کیسی طبعیت ہے۔؟“
عینا کرسی پر بیٹھتے ہوٸے بولی۔
” بہت بہتر ہوں، مسز ایان کی بدولت۔“
ایان تپا دینے والے انداز میں بولا۔
بیڈ پر ناشتہ نکالتی وفا کے ہاتھ لمحے بھر کو تھمے۔
ایان نے شرارتی مسکراہٹ لبوں پر سجاۓ اسے دیکھ کر بھنویں اچکاٸیں۔
وفا نے فقط گھوری سے نوازا، عینا اسکا یہ روپ دیکھ کر حسد کی ان دیکھی آگ میں جھلس رہی تھی، جبکہ عناٸیہ حیرانگی ملی خوشی میں تھی، اسکا نک چڑا بھاٸی بدل رہا تھا۔
” اوہ۔۔۔۔ویری گڈ۔“
عینا زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پر سجاٸے بولی۔
وفا نے اسے سرو کیا۔
” میرے ہاتھوں پر آٸنٹمنٹ لگی ہے، تم کھلا دو۔“
ایان اسے ہاتھ دکھاتے ہوٸے بولا۔
وفا اسے ناشتہ کروانے لگی، عینا مزید ضبط کا صبر نہ آزما سکی اور پیر پٹختی کمرے سے نکل گٸ، عناٸیہ مسکرا دی۔
” بہت اچھے لگ رہے ہیں، شرافت سے پیش آتے ہوٸے۔“
عناٸیہ ہنستے ہوٸے بولی تھی۔
ایان نے محض کندھے اچکاٸے تو عناٸیہ چلی گٸ۔
وفا کا آخری نوالہ لے جاتا ہاتھ ایان نے تھام لیا اور واپس اسکے منہ کی طرف موڑ لیا۔
” کھاٶ ۔“
ایان نے حکم دیا تھا، وفا نے کھالیا۔
” یہ سب ٹھیک نہیں ہے، آپ کی فیملی پر برا اثر پڑے گا۔“
وفا سنجیدہ ہوٸی تھی۔
” مجھے فرق نہیں پڑتا۔“
ایان نے کندھے اچکاٸے، آج وہ روز کی نسبت قدرے نارمل تھا۔
اس نے لانچنگ ڈیٹ بڑھا لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کیسا لگا سرپراٸز۔“
وہ مسکراتے ہوٸے بولی تھی، شیشے کے اس پار بیٹھے بالاج ناٸک نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
” پولیس تم نے بلواٸی تھی۔“
بالاج سنجیدگی سے اسے دیکھ کر بولا۔
” نو نو نو۔۔۔۔۔“
وہ ہنستے ہوٸے ماٸک پر جھکی تھی۔
” میں نے تو بس ایان پر حملہ کروایا تھا، نام تمہارا آ گیا۔۔۔۔چچ۔۔۔چچ۔“
وہ اداکاری کرتی ہوٸی ماٸک سے ہٹ کر ہنسنے لگی۔
گلاس کے اس پار بیٹھے بالاج ناٸک کی تیورٕی چڑھ گٸ، وہ غصے سے سرخ انگارہ ہو رہا تھا۔
“ تمہاری اتنی ہمت۔۔۔۔“
وہ ٹیبل پر ہاتھ پٹختے ہوٸے زور سے دھاڑا، لڑکی لمحےبھر کو سنجیدہ ہوٸٕی۔
” تم نے کہا تھا، تم کیا کرسکتی ہو۔۔۔؟“
اب دیکھ لیا، میں کیا کرسکتی ہوں۔“
بال جھٹکتی وہ چبا چبا کر رکھاٸی سے بولی تھی، اسکی آنکھیں سرخ ہونے لگیں تھیں۔
” تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔“
بالاج ناٸک بیٹھتے ہوٸے شدید غصے سے بولا تھا۔
” اوہ۔۔۔۔رٸیلی۔“
وہ کرسی سے ٹیک لگا کر بولی تھی، اسکے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی۔
” مسٹر بالاج ناٸک ہم بھی دماغ رکھتے ہیں، ایک تیر سے دو شکار کھیلنے آتے ہیں۔“
وہ مخروطی سفید انگلیوں سے ماٸک تھامے دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے کنپٹی بجاتے ہوۓ بولی۔
” ابھی تو شروعات ہے، آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا۔“
وہ مزے سے بولتی اٹھی اور سفید ماربل پر ہاٸی ہیل کی ٹک ٹک کی آواز پیدا کرتی، مغرور چال چلتی نکل گٸ، اسکے بال پونی میں قید ہوٸے کمر پر جھولتے جا رہے تھے۔
بالاج ناٸک نے سختی سے پنچ دیوار میں مارا۔
ہاتھ کی پشت سے ماس چھل کر سفید دیوار سے چپک گیا تھا، خون رگڑ سے بہنےلگا تھا۔
کبھی غرور میں کہےگٸے چند لفظ کسی کی ہستی ہلا کر رکھ دیتے ہیں، کسی کی انا کا جھنجھوڑ کر جگادیتے ہیں، کسی کی ضد کو للکار دیتے ہیں، پھر مقابل جب پھنکارتا ہوا پیٹھ میں چھرا گھونپتا ہے تو غرور منہ کے بل گر کر مٹی میں مل کر رہ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” عینا۔“
اس نے کچھ سوچتے ہوٸے بالاج کی اسسٹنٹ عینا کا نمبر ڈاٸل کیا۔
” ییس میم“
عینا پہنچانتے ہوٸے بولی۔
” بالاج کے باہر آنے تک، تم مجھے اسسٹ کرو گی۔“
اپنے سنہری بال انگلی پر لپیٹتے ہوٸے حکمیہ لہجے میں بولی۔
” میں تمہیں ڈبل سیلری پے کروں گی۔“
عجب مغرورانہ انداز میں بولی تھی۔
” سو گیم از ماٸن۔“
وہ ہنستےہوٸے خود سے مخاطب ہوٸی، چہرے پر وہی شاطرانہ مسراہٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایان بہت جلدی ریکوور کر رہا تھا۔
لیپ ٹاپ گود میں رکھے وہ سنجیدگی س کام کر رہا تھا، وفا کھڑکی کے پاس بیٹھی انہماک سے باہر دیکھ رہی تھی، ایان کام کرتے کرتے ایک نگاہ اس پر بھی ڈال لیتا تھا۔
” کیا ڈھونڈتی رہتی ہو۔؟“
ایان لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسکی طرف دیکھتے ہوٸے بولا۔
وفا نے چونک کر اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلا دیا۔
” تو پھر اتنے غور سے کیا دیکھ رہی تھی۔“
ایان صبح سے کام میں بزی تھا، اب وہ بحث کے موڈ میں لگ رہا تھا۔
” کچھ نہیں جیمز کے پاس جانے کا وقت نہیں مل رہا۔“
وفا پریشانی سے بولی تھی۔
” میری طبعیت سنبھل جاٸے تو وعدہ ہے تمہیں تمہاری منزل تک چھوڑ آٶں گا۔“
ایان تسلی دیتے لہجے میں بولا تھا، وفا نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
” اگر میری منزل کا کنارہ گہری کھاٸی ہوا تو۔۔۔۔۔۔۔؟“
وفا ہاتھ ٹھوڑی تلے جماتے ہوٸے بولی۔
” تو واپس لے آٶں گا، بے فکر رہو، کبھی خود کو اکیلا نہیں پاٶ گی، ایان ملک ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوگا۔“
ایان نے نرمی سے کہا تھا۔
اسکے لیپ ٹاپ کی جگمگاتی سکرین بجھ گٸ تھی۔
وفا نے سر جھکا لیا۔
ایان کٸ لمحے اسےتکتا رہا، جینز اور لانگ شرٹ پہنے، سٹالر گلے میں ڈالے، بال اونچی پنی میں قید کیے، سفید چہرے پر بلا کی سنجیدگی لیے، وہ اسے بہت حسین لگی۔
” مجھے تمہارے اس یقین پر حیرت ہوتی ہے وفا، جس کے بل بوتے پر تم یہاں تک آٸی ہو، پر اب وہ یقین کیوں ڈگمگا رہا ہے۔“
ایان نے الجھ کر اسے دیکھا۔
” کیونکہ میں منزل کے بہت قریب ہوں، ایک طرف چند قدموں پر منزل ہے اوردوسری جانب بیس سال کا انتظار، انتظار جیت گیا تو وفا خیام زندگی بھر کی سافر بن کر رہ جاٸے گی۔“
وفا بے حد سنجیدہ لگ رہی تھی۔
” کبھی کبھی زندگی دوراہے پر لا کر بے بس کرتی ہے وفا، لیکن تمہاری زندگی کا ایک ہی راستہ تمہیں بے بس کر دےگا، زندگی کے لیے دوراہا بناٶ۔“
ایان سمجھانے والے انداز میں نرمی سے بول رہا تھا، اسکا گھبیر لہجا کمرے کی گہری خاماشی میں فسوں خیز لگ رہا تھا۔
” جس دوراہے کی آپ بات کر رہے ہیں مسٹر ملک، وہ پرخار جھاڑیوں سے مزین ہے، مجھ میں مزید کانٹے چننے کی سکت نہیں ہے۔“
وفاسر جھکاٸے ہوٸے بولی۔