چینج کر کے وہ وفا سے بات کنا چاہتا تھا، پر نمبر موجود نہیں تھا، تھکاوٹ بھی شدید تھی، بیڈ پر لیٹا اور چند ہی لمحوں بعد نیند کی دیوی نے اس پر نیند کا منتر پھونکا اور وہ گہری نیند میں اتر گیا۔
اکاش ملک نے دروازہ کھولا تو وہ سو چکا تھا، وہ سر نفی میں ہلاتے پلٹ گٸے۔
” ضد نہیں چھوڑنی اس لڑکے نے۔“
اکاش ملک بڑبڑاتے ہوۓ اپنے کمرے میں آ گٸے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا مسرور لگ ہی تھی، تبسم کی اس سے دوستی ہونے لگی تھی، تب ہی اسکے ہونٹوں پر مچل رہی تھی۔
چاہے جانے کا احساس بہت خوبصورت ہوتا ہے، ایان ملک جیسے خوبرو مرد کا دل اسکی سنجیدگی میں اٹک رہا تھا۔
”مجھے محبت نہیں کرنی ہے۔“
اس نے لبوں پر مچلتی مسکراہٹ سنجیدگی میں بدلی۔
” مجھے محبت کے کسی باب کا سرورق نہیں بننا، نا کسی کہانی کی مثال بننا ہے۔“
وفا نے دیوار سے ٹیک لگا کر آسمان پر امنڈتے بادلوں کو دیکھا۔
لکڑی کی باڑ کے ساتھ لگی بیل کے اوپری پتوں پر زردی سی بکھری تھی، برفباری اسکے لیے نقصان دہ ثابت ہوٸی تھی۔
” مجھے اس بیل کے پتوں کی طرح زرد نہیں ہونا، میرے پاس تو پہلے ہی کندھا میسر نہیں، تو کیوں خود کو روگ لگاٶں۔“
اس نے سنجیدگی کی چادر پھر سے اوڑھ لی تھی۔
” مجھے محبت کے اس سوال کو رقم نہیں کرنا، جسکا جواب لکھنے کی ہمت نا کرپاٶں، اور وہ ادھورا سوال مجھے زندگی بھر کچوکے لگاتا رہے۔“
وفا سرزنش کر رہی تھی، اسکا دل اسکے قابو میں تھا، اسکی مانتا تھا۔
جو دل کی لگامیں کھینچ کر رکھتے ہیں، کٸ پریشانیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
وفا کو جب لگا کہ وہ ایان کے احساس کو کچل چکی ہے، وہ کمرے میں چلی آٸی۔
تنہایوں کے بعد اچانک سے رشتے مل جاٸیں تو کھو دینے کا ڈر دل میں کنڈلی مار کو یوں بیٹھ جاتا ہے، کہ اس رشتے کی لذت اور خوبصورتی اس ڈر کے پیچھے دب کر رہ جاتی ہے۔
وفا کے دل میں بھی وہی ڈر بیٹھ چکا تھا۔
انسان کسی کے چلے جانے سے دکھی نہیں ہوتا، اب دل کی ادایسیاں اسے بے چین کرتی ہیں، اور وہ اس بے چینی کے خوف سے کسی کو جانے نہیں دیتا، عموماًیہی خوف عزت نفس کو کچل کر رکھ دیتا ہے۔
وفا اس مرحلے پر پہنچنا ہی نہیں چاہتی تھی، جہاں اسےعزت نفس کو روند کر جاتےہوٶں کو روکنا پڑے۔
you are similare to such that guy i want to marry , may be its the reason.
ایان کی آواز اسکی سماعت میں گونجی تھی۔
وفا نے سر جھٹکا اور آکر بستر پر لیٹ گٸ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح اسکی آنکھ کھلی تو باہر ملگجا سا اندھیرا تھا، دن نکلنے میں وقت باقی تھا، وفا نے نماز پڑھنے کاسوچا اور واش روم میں چلی گٸ۔
وضو کیا اور کپڑا بچھا کر نماز کی نیت باندھ لی۔
اللہ سے گڑگڑا کر مدد مانگی اور پرسکون ہو کر اٹھ گٸ۔
اپنے لیے ناشتہ تیار کرنے لگی، کھانا وہ عموماً باہر ہی کھایا کرتی تھی۔
ناشتہ بنایا اور رغبت سے کھانے لگی۔
اسکے ناشتے کی خوشبو پورے اپارٹمنٹ میں پھیل گٸ تھی۔
ناشتے سے فراغت پاٸی اور باہر نکل آٸی، اس کا دل پرسکون تھا۔
گزے لمحات کی پریشانیاں وہ زیادہ دیر خود پر سوار نہیں رکھتی تھی۔
اپارٹمنٹ کے لان میں چہل قدمی کرنے لگی، سوچوں کا محور انجانے میں ایان کی زات تھی۔
” عجیب انسان ہے۔“
کل کی دعوت یاد کرتی ہوٸی مسکرا دی۔
” دھیمی دھیمی مسکراہٹیں۔“۔
ظہیر صاحب شرارت سے ہنسے تو وفا انکے انداز پر کھل کر مسکراٸی تھی۔
” کل ایان نے دعوت دی تھی، آٸس کریم پارٹی تھی، ڈھیر ساری آٸس کریمز منگوا لیں۔۔۔۔“
وہ خوشی سے بتا رہی تھی، ظہیر صاحب نے پہلی بار اسکے چہرے پر کھلتے رنگ دیکھے تھے۔
” اللہ تمہیں یونہی خوش رکھے۔“
ظہیر صاحب نے اسکے سر ہاتھ رکھا اور چہل قدمی کرتے اپارٹمنٹس سے بہت دور نکل آۓ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر مٸ بادل ناٸک پیلس کے تکونی چھتوں کے اوپر تیر رہےتھے، سفیدپیلس کی تکونی چھتیں مرون کلر سے رنگی گٸیں تھیں، پیلس کو چار چاند لگا رہیں تھیں۔
ناٸک پیلس ایلیٹ کلاس کالونی میں وسیع رقبے پر محیط تھا، جس کے گرد وسیع و عریض لان اور رنگ برنگے درخت تھے۔
پیلس کے اندر سے ہر چیز سے آراستہ تھا، ناشتے کی ٹیبل پر ساریہ ناٸک، بالاج ناٸک شہروز ناٸک اور ان کی بیٹی شزا ناٸک ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھے تھے۔
” ملک سافٹ وٸیر کمپنی۔“ لانچ آ نیوماٸیکروسافٹ۔“
نیوز پیپر کھولتے ہی بالاج کی نظر بولڈ حروف پر گٸ،
یہ اسی ایان ملک کی کمپنی ہے نا۔“
بالاج نے نیو پیپر ساریہ کی طرف بڑھایا، ساریہ نے نیوز پڑھی اور لب بھینچ لیے، ان کے سافٹ وٸیر سے بہتر سافٹ وٸیر ان ہی کی ٹیکنالوجی پر بنایا اور ان سے پہلے لانچ کرنے کا عندیہ دے دیا۔
ساریہ نے نیوز پیپر ٹیبل پر پٹخا۔
” مجھے تو اس سے بدلہ لینا ہی ہے۔“
بالاج ناٸک اپنی بے عزتی بھولا نہیں تھا۔
” بھاری نقصان کے لیے تیار رہیں مس ناٸک۔“
شہروز ناٸک نے طنز کیا تھا۔
” میں پھر بھی لانچ کروں گی۔“
ساریہ ناشتہ کیے بنا ٹیبل سے اٹھ گٸ۔
” مام۔۔۔۔جسٹ ریلیکس۔“
شزا ناٸک نے پیچھے سے ہانک لگاٸی جبکہ ساریہ ہیل سے ٹک ٹک کرتی چلی گٸ، اسکی اسسٹنٹ نے بھی جانے میں ہی عافیت جانی۔
عینا بالاج کے پاس مٶدب انداز میں کھڑی تھی۔
” ڈیڈ چیٸرز۔“
بالاج نے ہنستے ہوۓ جوس کا گلاس شہروز ناٸک کے گلاس سے مس کیا۔
شزا ناٸک ناگواری سےدیکھتی اٹھ گٸ، وہ ساریہ ناٸک کا پرتو تھی اور انجینرنگ کالج میں زیر تعلیم تھی۔
” آپ کو اسے کمپنی سے نہیں نکالنا چاہیے تھا مام۔“
شزا ناٸک ساریہ سے مخاطب تھی، بلیو جینز پر سکن ٹاپ پہنے، سنہری بال لیے وہ بے حد حسین تھی۔
” بالاج ہنگامہ کھڑا دیتا، تم اسے جانتی ہی ہو۔“
ساریہ ناٸک پریشان لگ رہیں تھیں۔
” وہ آپ کی اس ہار پر جشن منا رہے ہیں۔“
شزا لب بھینچے بولی تھی۔
ساریہ نے سر ہلا دیا۔
” دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔؟“
ساریہ نے باو سینے پر باندھے اور لان کے پیچھے ابھرتے سورج کو دیکھا۔
” اوکے باۓ۔“
شزا ناٸک رخسار اسکے رخسار سے مس کرتی باہر نکل گٸ۔
چند لمحے بعد وہ اپنی سیاہ مرسڈیز میں گیٹ سے نکل رہی تھی، اس کے پیچھے سیاہ پراڈو میں دو گارڈز اسکے ہمراہ نکلے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا نے گروسری سٹوری کے دیوار گیر کلاک کر نظر دوڑاٸی اور ظہیر صاحب سے اجازت لیتی نکل آٸی۔
اسنے شاپ سے کوٸنز خریدے اور فون کی طرف بڑھی کوٸنز ڈالے اور ایان کا نمبر ڈاٸل کیا۔
” ہیلو۔“
ایان گھمبیر آواز گونجی۔
” میں وفا بات کر رہی ہوں۔“
وفا نے نارمل لہجے میں کہا۔
” میں جیمز سے ملنے جا رہی تھی، آپ نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔“
وفا نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔
” اوکے دس منٹ میں پہنچ رہا ہوں۔“
ایان نے مصروفیت سے کہا اور کال کاٹ دی۔
وفا نے ٹیکسی لی اور مطلوبہ جگہ پہنچ گٸ۔
اسی سنگی بینچ پر بیٹھی وہ ایان ملک کی منتظر تھی، دس منٹ بعد ایان کی گاڑی اسکے قریب آ کر رکی۔
وفا اسے دیکھ کر مسکراٸی، ایان نے جواباً مسکراہٹ اچھالی اور گاڑی سے نکل کر اسکی طرف آیا۔
” موباٸل کہاں ہے، لینڈ لاٸن سے کال کیوں کی۔؟“
ایان ملک سیاہ کالی آنکھوں سے گاگلز ہٹا کر سنجیدہ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا۔
” میں موباٸل نہیں رکھتی۔“
وفا سادگی سے بولی اور اسکے ساتھ چلنے لگی۔
ایان نے رک کر اسے حیران کن نظروں سے دیکھا۔
” سیرٸسلی۔“
ایان کے چہرے پر حیران کن تاثرات تھے۔
” موباٸل رکھ کر کس سے بات کروں میں۔؟“
وفا اسکی طرف دیکھتی خجل ہوتی ہوٸی کندھے اچکا کر بولی۔
” اٹس امیزنگ، اکیسویں صدی کی لڑکی کے پاس موباٸل نہیں ہے، ونڈرفل رٸیلٹی۔“
ایان سر اثبات میں ہلاتے ہوۓ نارمل لہجے میں بولا۔
وفا نے خفا نظر اس پر ڈالی، ایان ہنس دیا۔
” موباٸل صرف بات کرنے کی چیز نہیں ہے، فیس بک، انسٹا گرام، سنیپ چیٹ، ٹوٸیٹر ، لاٸکی، وی میٹ اور آجکل تو ٹک ٹاک کی دھوم مچی ہوٸی ہے، اور تم اس سب سے انجان ہو۔“
ایان بے یقین تھا، اور آج تو وہ کافی خوشگوار موڈ میں لگ رہا تھا۔
وفا ہاتھ سینے پر باندھے سر جھکاۓ چلتی رہی۔
” تمہارا وقت گزر کیسے جاتا ہے۔؟“
ایان نے اسکے جھکے سر اور آبشار کی مانند سرکتے سنہری بھورے بالوں کودیکھا۔
” جاب اور پھر گھر کا کام، کبھی کسی دوسری مصروفیت نے وقت ہی نہیں لیا۔“
وفا سادگی سے بولی۔
ایان نے حیرت و کشمکش کے سے تاثرات سے اسے دیکھا اور چپ ہو گیا۔
” شاید اسی لیے تم سب سے الگ ہو۔“
ایان متاثر کن لہجے میں بولا۔
وہ عمارت کے گلاس ڈور پر پہنچ چکے تھے۔
” تمہارا ہر روپ مجھے نٸے سرے سے حیران کرتا ہے وفا۔“
ایان سنجیدگی سے بولتا ہوا گلاس ڈور دھکیلتا اندر آگیا۔
وفا نے اسکی تقلید کی تھی۔
جیمز انتہاٸی پریشان لگ رہا تھا، اسکی سپید رنگت پر چھاٸی بے زاری مفقود تھی۔
ایان کرسی کھینچ کر ٹانگ پر ٹانگ چڑھاۓ بیٹھ گیا، جیمز کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھی، سفید بال پیشانی پر بکھرے ہوٸے تھے، وہ شاید کل سے محنت کر رہا تھا، وفا کو اس وقت کو دو ہزار ڈالرز کا مستحق لگا تھا۔
” آٸی نیڈ سم مور ٹاٸم۔“
جیمز ے چارگی سے ایان کی طرف دیکھتے ہوٸے بولا۔
” وی وانٹ رزلٹ، ٹیک یو ٹاٸم یو وانٹ۔“
ایان اٹھتے ہوۓ گہری سنجیدگی سے بولا تھا، چند لمحے قبل کی خوشگواریت کہیں غاٸب ہو گٸ تھی۔
وفا نے افسردہ نظر اس پر ڈالی، اسے جیمز تھکا تھکا لگ رہا تھا، فا کو اس پر بہت ترس آیا۔
” اگر تمہیں رزلٹ مل گیا تو تم کیا کرو گی۔؟“
ایان نے اسکی افسردہ شکل پر نظریں ٹکاٸیں۔
” وقت ضاٸع کیے بنا اس پر عمل کرنا شروع کر دوں گی۔“
وفا سامنے دیکھتے ہوۓ بولی۔
” اور کچھ بھی نا ملا تو۔۔۔۔۔؟“
ایان نے اسکے چہرے پر مایوسیوں کے ساٸے منڈلاتے دیکھے۔
” پتہ نہیں۔“
وفا نے دھیمے لہجے میں کہا۔
” آپ کوٸی سافٹ وٸیر لانچ کرنے والے ہیں۔“
وفا نے بات بدل ڈالی۔
” ہمممم۔“
ایان نے فقط ہمم پر اکتفا کیا۔
اسے اپارٹمنٹ ڈراپ کر کے وہ واپس آفس چلا گیا۔
وفا نے دور جاتی اسکی گاڑی کو بنا پلک جھپکاٸے دیکھا۔
” میرا ہمدرد، میرا ہمراز۔“
وفا آہستگی سے بڑبڑاٸی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے لگی اور اپارٹمنٹ میں چلی آٸی۔
کیلگری کا موسم یکدم سے اچھا ہو گیا تھا یا اسے لگنے لگا تھا، وہ کچھ طے نہیں کر پا رہی تھی، نیلے آسمان پر بادل امنڈے آ رہے تھے، کچھ اونچے اور کچھ نیچے ہی تیر ہے تھے، انکے پیچھے آسمان شفاف نیلا نظر کو بہت بھا رہا تھا۔
وفا نے مسکراہٹ لبوں پر سجاٸی اور ہاتھ باڑ پر رکھ کر بیل کی طرف جھکی اور زرد پتے توڑ کر نیچے پھینک دیے، تار کول کی سیاہ سڑک پر پتے بکھر چکے تھے، ہلکی پھلکی ہوا سے ادھر ادھر اڑنے لگے تھے، وفا ترو تازہ دکھتی بیل کو دیکھ کر مسکرا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔