کچن میں شیلف کے قریب کھڑی کھانا بنا رہی تھی، جب گیٹ کسی کی زور دار ٹھوکر سے کھلتا عقبی دیوار سے جالگا۔
” امی۔“
شعیب کی دھاڑپر سہم وہ سی گٸ، دل تھرتھرانےلگا، گویا، پسلیوں کا شکنجہ ٹوٹ جاۓ گا۔
” کیا ہوا شیبی۔؟“
ثمینہ برآمدے سے دوڑتی ہوٸی صحن میں آٸی۔
زوہیب دوڑ کے کمرے سے نکلا، فرح بھاگتی ہوٸی سیڑھیوں سے نیچے اتری۔
وہ متغیر ہوتی حالت سے کچن کی کھڑکی کی طرف بڑھی، پسینے کی ننھی بوندیں پیشانی پر چمکنے لگی۔
” یااللہ اب کوٸی مسٸلہ نا ہو جاۓ۔“
کانپتی ٹانگوں، کپکپاتے وجود، اور خشک ہوتے حلق سے دل میں پکارنے لگی۔
سہمی صورت لیے وہ صحن میں شعیب کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھنے لگی۔
” دکانیں کس نے بیچی ہیں۔؟“
شعیب پھنکارا تھا، سامنے والی ہمساٸیاں چھت پر چڑھ آٸیں، اور ساتھ والی دیوار سے لپک گٸیں۔
وفا کا دل اچھل کے حلق میں آگیا، جان گویا نکلنے کے پرتول رہی تھی۔
” کیا مطلب دکانیں بیچ دیں، ایسے کیسے دکانیں بک سکتی ہیں۔“
ثمینہ دوپٹے کا پلو سر رکھتے بھنویں سکیڑتے ہوۓ بولی۔
اس کی نظریں برآمدے میں لگے کلاک پر جا ٹکیں۔
شام کے سات بج رہے تھے، نو بجے اسکی فلاٸیٹ تھی۔
” دکانیں ابا نےاس لاڈلی کے نام کر دیں تھیں، ہمیں بتاۓ بغیر۔۔۔۔“
شعیب ہاتھ سے کچن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ غیض سے بولا۔
” یہ کیا بک رہا ہے۔؟“
ثمینہ کا ہاتھ چھاتی پہ آگرا، گویا جمع پونجی لٹ گٸ ہو جیسے۔۔۔۔
” وفا۔۔۔۔!!!!“
ثمینہ کی چیخ نما پکار پر وہ کانپ کہ رہ گٸ۔
” جج۔۔۔جی۔۔۔۔ام۔۔ماں۔“
پریشانی و ہکلاہٹ سے کانپتی ٹانگیں گھسیٹتی برآمدے کی دہلیض پہ آگٸ۔
فق ہوتی رنگت لیے وہ خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیرتے ہوۓ ثمینہ کی طرف دیکھنے لگی۔
” دکانیں تیرے نام ہیں۔؟“
ثمینہ کڑے تیور لیے اسکی طرف بڑھی، اس کی رہی سہی جان بھی نکل گٸ، امیدکا ٹمٹماتا دیا، بدقسمتی کی ہوا سے پھڑپھڑانے لگا تھا۔
” نن۔۔۔۔نہیں اماں۔“
ڈر سے ہلکاتے ہوۓ بولتے وفا نے ہاتھ مسلے تھے، ارد گرد ہمساۓ چھت پر آن مفت کے تماشے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
” بکواس کر رہی ہے، یہ دیکھ، تیرے ساٸن۔“
شعیب نے اسکےبھورے بال مٹھی میں جکڑے اور کاغزات اسکی آنکھوں کے سامنے لہراۓ۔
” مم۔۔۔مجھے نہیں پتہ بھاٸی۔“
وفا درد کی شدت کو ضبط کرتے آہستگی سے بے ربطگی میں منمناٸی۔
” تجھے سب پتہ ہے، مجھے پتہ تھا، یہ کوٸی نا کوٸی گل کھلاۓ گی۔“
اسے صحن میں دھکا دے کر گراۓ، وہ ثمینہ سے مخاطب ہوا۔
پکے صحن پر اوندھے منہ گرنے سے، پیشانی پر رگڑ آگٸ تھی، جس میں ننھی سرخ بوندیں نمودار ہونے لگیں۔
زوہیب نے پیپرز تھام کر دیکھے اور تلملاتا ہوا وفا کی جانب بڑھا۔
” اس دکان کو بیچ کر میں نے بزنس شروع کرنا تھا۔“
زوہیب اسے ٹھوکر رسید کرتا ہوا، اسکے پاس پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔
وفا ہتھیلیوں کے بل پیچھے سرکنے لگی۔
” مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔“
آنکھوں سے موتیوں کی لڑیاں گر گر کر بے وقعت ہو رہیں تھیں۔
” کہاں ہیں پیسے۔۔۔؟“
زوہیب نے اسکے جبڑے بھینچ ڈالے۔
” ارے منحوس ماری، تجھے اس دن کو پالا تھا۔“
ثمینہ جوتی اتار کر اسکے سر میں مارنے لگی۔
” اللہ جی مدد فرما۔“
وہ منہ ہاتھوں میں چھپاۓ سسکنے لگی تھی۔
زوہیب نے کھینچ کے دو تھپڑ رسید کیے تھے، اسکا نچلا ہونٹ پھٹ گیا، ناک سے سرخ ننھی بوندیں قطار میں بہنے لگیں۔
” یہ ایسے نہیں مانے گی زیبی۔“
شعیب سٹور سے ڈنڈا اٹھالایا۔
” امی ی ی ی ۔۔۔“
سر گھٹنوں میں چھپاۓ وہ بے بسی سے چیخ دی۔
فرح دیوار کے ساتھ رکھے تخت پر بیٹھی، پیرجھلاتی تماشہ دیکھتی محظوظ ہو رہی تھی۔
شعیب کا ڈنڈا لہراتا ہاتھ کسی مضبوط ہاتھ نے تھام لیا۔
وفا نے آنسوٶں سے تر چہرہ اوپر کیا تو ایان شعیب کے سامنے تن کر کھڑا تھا۔
تماشائيوں کے چہروں پر حیرانگی کے تاثرات تھے، ہوتے بھی کیونکر نہ، تماشے میں ایک کردار کا اضافہ جو ہوا تھا۔
”تم کون ہو۔؟“
شعیب نے جھٹکے سے ڈنڈا کھینچا اور کڑے تیوروں سے ایان کو گھورا۔
نیوی بلیو، فور سوٹ میں ملبوس، سرخ و سپید رنگت لیے، بال سیٹ کیے وہ شکل اور حلیے سے امیر زادہ لگ رہا تھا۔
” وفا کا ہزبینڈ۔“
ایان نے سخت لہجے میں آنکھوں میں جتاتے تاثرات لیے بتایا۔
” مجھے پتہ تھا، یہ انگریزوں کا گند، گل کھلاۓ گا۔“
ثمینہ بیگم سینہ پیٹتیں ہوٸیں بلند آواز میں بولیں۔
ایان نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
” کم آن۔“
وفا کی طرف سخت نظروں سے دیکھتے ایان نے ہاتھ بڑھایا، ثاقب جیبوں میں ہاتھ ڈالے، تماشائی بنا رہا۔
وفا نے زخمی ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور اٹھ کھڑی ہوٸی۔
” کیا ثبوت ہے تمہارے پاس؟ اور کب کی اس نے شادی۔؟“
زوہیب آگے بڑ کر بولا۔
” دس سال پہلے۔“
ایان نے کوفت سے دیکھتے ہوۓ کہا، اور ثاقب کو ثبوت لانے کا اشارہ کیا۔
ثاقب نے گاڑی میں رکھی فاٸل نکالی اور پیپر نکال کر ایان کی طرف بڑھاۓ۔
” یہ رہا ثبوت۔“
ایان نے چند سیکنڈ کو ثبوت زوہیب کے ہاتھ میں دیا اور واپس چھین کر ثاقب کی طرف بڑھا دیا۔
” وی آر گیٹنگ لیٹ۔“
ایان نےوفا کی طرف دیکھتے ہوۓ کلاٸی پر بندھی قیمتی گھڑی کے ڈال پر انگلی رکھ کر دباؤ ڈالا۔
وفا لڑکھڑاتی اندر کی جانب بھاگی۔
ثمینہ کے بین جاری و ساری تھی۔
” ہمیں لوٹ کے کھا گٸ، میرے بچوں کے حق پر ڈاکہ ڈال گٸ۔“
ثمینہ بیگم تخت پر فرح کے ہمراہ بیٹھتے ہوۓ بلند آواز میں پیٹ رہیں تھیں۔
” بد چلن ماں کی بد چلن بیٹی، بدکردار کو چھوٹ دے کر اپنے سر پر مٹی ڈلوا لی۔“
” میں نا کہتی تھی، مت دے اتنی آزادی۔“
وفا کو کوس رہیں تھیں۔
وفا ہینڈ بیگ بغل میں دباۓ، دوپٹہ کندھے پر رکھے، لڑکھڑاتے قدموں سے بھاگتی ہوٸی ایان کی طرف بڑھی۔
ایان کے رعب و دبدبے کو دیکھ، شعیب اور زوہیب چپ ہو گیے۔
ایان نے اسکا بازو تھاما اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
محلے کو باتیں کرنے کو ایک موضوع مل گیا تھا۔
دھجیاں اڑانے کو کردار مل گیا تھا۔
وفا بیگ بغل میں دباۓ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گٸ۔
ہر نظر میں اسکے لیےتمسخر تھا، وہ جانتی تھی، اب اسکی پیشانی پر بدکردار کا ٹیگ لگ چکا ہے، دل چند لمحے کو بیٹھ سا گیا تھا۔
احتیاط سے بیگ کھولا، ٹکٹ، پاسپورٹ اور ویزہ دیکھ اسکے نیل نیل ہوۓ چہرےسکون بکھر گیا۔
ہلکی سی مسکراہٹ لیے اس نے کچھ پالینے کی خوشی سے چیزیں بیگ میں رکھیں اور زپ بند کر کے بیگ گود میں دھر لیا۔
ایان فرنٹ مرر سے اسے دیکھ رہا تھا۔
” یہ آپ کی فیملی تھی، اتنی اجڈ گنوار فیملی۔“
ایان نے تنفر سے کہا، اس کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
” آپ کس کے لیے کینیڈا جا رہی ہیں۔؟“
ایان نےاس کے نیل نیل چہرے کو نظروں میں بھرا۔
” جن کا میں نے بیس برس انتظار کیا ہے۔“
وفا کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولی۔
ایان نے حیرت سے بھنویں سکیڑ کے اسے دیکھا۔
” کسی لڑکے کے لیے گھر چھوڑ دینا اچھی بات نہیں، پر آپ کی نفسیاتی فیملی کو دیکھ کر آپ کا فیصلہ ٹھیک لگ رہا ہے۔“
ایان سنجیدگی سے ڈرائيو کرتے ہوۓ بولا۔
وفا نے رخ موڑ کر بھاگتی دوڑتی دنیا کو دیکھا، لب خاموش تھے، اس نے ایان کو کوٸی جواب نہیں دیا۔
” میں تو آپکو، بہادر اور نڈر سمجھا تھا، آپ تو دبو ٹاٸپ نکلیں۔“
ثاقب نے گردن گھما کے اسے دیکھا۔
” مصلحت کے تحت دبنا پڑتا ہے ثاقب سر۔“
وہ دکھ سے گویا ہوٸی۔
ایان نے ایک طرف گاڑی روکی اور اسے کلینک کے اندر جانے کا کہا۔
وفا نے چادر سے چہرہ ڈھانپا اور ایان کے ہمراہ کلنک کے اندر چلی گٸ۔
ایان سبک روی سے اسکے پیچھے آیا۔
” ہری اپ ڈاکٹر۔“
ڈاکٹر جو آہستگی سے اسکے زخموں کا جاٸزہ لے رہا تھا، سر اثبات میں ہلاتے ہوۓ فرسٹ ایڈ کٹ کی طرف بڑھا۔
روٸی سے زخم صاف کرنے لگا، وفا کے سپید چہرے پر درد کی لہریں اٹھنے لگیں۔
ایان سینے پر ہاتھ باندھے سنجیدگی سےاس عجیب لڑکی کو دیکھ رہا تھا، جو کہیں بہت باہمت لگتی تو کہیں ڈری سہمی چڑیاجیسی۔
فارغ ہوتے ہی ایان نے بل پے کیا، وفا کا بیگ کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا، وہ تیز قدموں سے لڑکھڑاتی چال لیے ایان کے پیچھے پیچھے چلتی جا رہی تھی۔
نو بجنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک ڈریس پینٹ کوٹ میں ملبوس، چہرے پر سنجیدگی لیے وہ آفس ڈور دھکیلتا اندر داخل ہوا، اسسٹنٹ اسکا بیگ لیے اسکے پیچھے تیز قدموں سے چلتی آ رہی تھی۔
” عینا، آج کی کیا مصروفیات ہیں۔“
وہ رسٹ واچ دیکھتا اپنی کرسی پر بیٹھا اور ٹیبل پر رکھی فاٸلوں کی طرف متوجہ ہوا۔
” سر،آج لیک پر ہوٹل کی اوپننگ سرمنی ہے۔“
عینا نے ٹیب سے اسکا شیڈول دیکھ کر کہا، اور مٶدب انداز میں اسکے نیۓ حکم کی منتظر تھی۔
” ہمم۔“
سر اثبات میں ہلا کر وہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیلگری کے خوبصورت ایر پورٹ پر ایان کے پیچھے پیچھے چلتی آرہی تھی، ایان کے جوتے چمکتے فرش پر آواز پیدا کر رہے تھے، وہ گاگلز لگاۓ اس دنیا سے میل کھا رہا تھا، جبکہ وفا اس دنیا باسی نہیں لگ رہی تھی، وہ ان فٹ تھی۔
وفا نے نظروں کا زاویہ بدلا، گو کہ اسکی زندگی میں اسکی کوٸی جگہ نہیں تھی۔
” میں آپ کو گھر لے جاتا پر۔۔۔۔“
ایان ایرپورٹ ایگزٹ پر کھڑا اسے سنجیدگی سے دیکھ کر بولا۔
” آپ نے یہاں تک ساتھ دیا کافی ہے،وفا اپنی منزل اور راستے تلاش کرنا جانتی ہے۔“
وفا سادگی سے بولی تھی۔
” آپ پہلی دفعہ آٸیں ہیں۔۔۔۔۔؟“
ایان نے گویا یاد دلایا تھا۔
” مجھے کسی پر انحصار کرنے کی عادت نہیں ہے، میں اپنے راستے کے کانٹے خود چننا جانتی ہوں، کیونکہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں، کوٸی کسی کو منزل تلاش کر کے نہیں دیتا، نا اس کے راستے کے کانٹے چن سکتا ہے۔“
وفا نرمی سے بولی اور قدم اٹھاتی آگے بڑھ گٸ۔
ایان نے الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا، اور ڈرائيور کی طرف بڑھ گیا۔
” وفا۔۔۔۔!!!!“
ایان نے عادت کے خلاف جا کر پکارا۔
” یہاں آپ کو رہنے کو جگہ مل سکتی ہے؟“
ایان نے ایک کارڈ اسکی طرف بڑھایا، اورمڑ کے اپنی کار کی طرف بڑھ گیا، اسے ہمدردی ہوٸی تھی، پر کیوں؟ وہ خود بھی نہیں سمجھ پایا۔
وفا نے کارڈ دیکھا اور ایک نظر دور ہوتی کارپر ڈالی اور سرمٸ بادلوں سے ڈھکے آسمان کی سمت نگاہیں دوڑاتے اس نے امید کے دیے آنکھوں میں سجاۓ کیلگری کی زمین پر اپنے قدم بڑھاۓ۔
” یااللہ میری بیس سالہ تلاش ختم کر دے۔“
وفا نے ہاتھ سینے پر باندھے ، اور سست قدم اٹھاتی فٹ پاتھ پر آہستہ آہستہ چلنے لگی، اسے کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی، کیلگری کی بلند و بالا عمارتیں، پرتعیش ماحول ، سکون کچھ بھی اپنی اور کھینچ نہیں پایا، گویا کیلگری کی خوبصورتی اسکے لیے کوٸی معنی نہیں رکھتی تھی۔
” میری سفید سیاہ زندگی میں رنگینیاں کب اہمیت رکھتیں ہیں۔“
ایک دوسرے سے ملے لب، بنا حرکت میں آۓ بولے تھے۔
کارڈ دکھاۓ وہ اس ایڈریس کی جانب بڑھی، جو ایرپورٹ سے کافی دور تھا، پر وہ چلتی رہی تھی۔
وہ نہایت خوبصورت اپارٹمنٹس ایریا تھا، جو پٸنگ گیسٹ کے طور پر ملتے تھے۔
وفا نے قریبی اے ٹی ایم سے کچھ پیسے نکالے اور اپارٹمنٹس کے آفسز کی طرف بڑھی، اتنے لمبے سفر سے اسکی ٹانگیں گویا بری طرح تھک گٸیں تھیں۔
تھرڈ کلاس اپارٹمنٹ کی کیز لے کر وہ ورکر کے ساتھ اپارٹمنٹ میں چلی آٸی، تھرڈ فلور پر اسکا مطلوبہ اپارٹمنٹ تھا۔
ایک کمرے، واش روم اور چھوٹے سے کچن کا اپارٹمنٹ صاف ستھرا اور اسکے لیے کافی تھا۔
سنگل بیڈ پر بیگ رکھتے اسنے ارد گرد نگاہ دوڑاٸی تھی۔
دیار غیر میں آکر اسکے کچھ بھی پرایا نہیں لگ رہا تھا، ناپاکستان میں رہ کر کبھی کچھ اپنا لگا تھا۔
اس اپناٸیت کی چاہ میں سب چھوڑ کر ادھر چلی آٸی تھی، اپنی تلاش کو منزل دینے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔