آزر بہت پریشان اپنے کمرے میں سر پکڑ کر بیٹھا تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے سوچ سوچ کر اس کا برا حال تھا کہ اچانک اس کا موبائل بجا وہ یکدم ہوش میں آیا اور اپنے موبائل اسکرین کی طرف دیکھنے لگا۔
جب اس نے اسکرین پر دیکھا تو اس کا خون اور کھولنے لگ پڑا اور غصہ بھی اور بڑھ گیا اس نے دیکھا کہ آئمہ اسے کال کرہی ہے موبائل مسلسل بجی جارہا تھا۔
آزر نے غصے میں آکر کال کاٹ دی۔۔۔
" یہی کرنا تھا تو محبت کیوں کی اگر دل توڑنا ہی تھا تو پھر دل کو خود کی طرف کھینچا ہی کیوں اسے کیوں اپنی طرف مائل کیا اگر وفا کر نہیں سکتے تھے تو کم از کم بے وفائی ہی نا کرتے"
آئمہ نے جب دیکھا تو اس کی روح تک کانپ اٹھی۔
آئمہ نے آزر کی طرف میسج کیا جس پر آئمہ نے روتے ہوئے لکھا کی " آزر اگر تم نے میری بات نا سنی تو میں خود کو ختم کردو گی۔
اتنا لکھ کر آئمہ نے وہ میسج آزر کی طرف سینڈ کردیا۔
جب آزر نے میسج پڑھا تو اس نے فوراً آئمہ کو کال کی۔
آئمہ نے جلدی سے کال اٹھائ اور روتے ہوئے کہا: آزر!
آزر نے کہا: کیا؟ اب کیا چاہتی ہو تم مجھ سے بولو سب کچھ تو چھین لیا تم نے مجھ سے میرا مان توڑ دیا تم نے اب کیا چاہتی ہو تم؟؟؟ آزر یہ کہتے کہتے رو پڑا۔
آزر کا یوں اس طرح رونے کی آواز سن کر آئمہ کو یوں لگا جیسے اس کے جسم سے جان نکل رہی ہو۔
آئمہ نے چیختے ہوئے کہا: مان توڑ دیا میں نے آپکا کیا اتنا کمزور مان تھا آپکا مجھ پر جو ایک پل میں ہی ٹوٹ گیا؟؟؟
آزر نے کہا: تم بے وفا ہو
آئمہ کا دل پھٹنے کو آرہا تھا۔
آئمہ نے تڑپتے ہوئے کہا؛ ممم میں بے وفا ہو من میں بے وفا ہو کتنی آسانی سے کہہ دیا تم نے کہ میں بے وفا ہو مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ آپ مجھ سے کہہ رہے ہے۔
آزر نے روتے ہوئے اور چیخ کر کہا: ہاں میں ہی کہہ رہا ہو کہ تم بے وفا ہو کتنے مان سے میں تمہیں اپنے ماں باپ سے لڑ جھگڑ کر اس اس گھر میں بیاہ کر لایا تھا لیکن تم نے سب ختم کردیا مجھے میرے ماں باپ اور بھائ کی نظروں میں گرا دیا ارے تم نے ایک بار بھی نہیں سوچا ایک بار تو سوچ لیتی۔۔
آئمہ نے کہا: آزر اتنا سب کچھ تم نے کیسے کہہ دیا کیسے؟؟
کیا یہ تھی تمہاری محبت کیا یہ تھی تمہاری وفا کیا یہ تھی بولو۔؟؟؟
آزر نے چیختے ہوئے نہایت غصے سے کہا: میرے سگے بھائ کو بھی تم نے نہیں چھوڑا تو تم کس چیز کی وفا تلاش کرتی ہو مجھ میں؟؟؟ تم جیسی لڑکیاں کسی ایک مرد کیساتھ رہ ہی نہیں سکتی تم ایک بدکردار اور دھوکے باز لڑکی ہو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرو گا انشاءاللہ کل تک تمہیں مجھ سے اور مجھے تم سے چھٹکارا مل جائے گا جا آئمہ اب تو جی لے اپنی زندگی۔ یہ کہہ کر آزر نے فون کاٹ دیا اور آئمہ کا نمبر بھی بلوک کردیا تاکہ آئمہ اسے دوبارہ کال نا کرے۔
یہ الفاظ آئمہ کا دل چیرنے کے لئے کافی تھے آئمہ اپنی پھٹی آنکھوں سے اپنے موبائل کی طرف دیکھ رہی تھی
آزر کے یہ الفاظ کسی سوئی کی نوک کی طرح اس کے کانوں میں چب رہی تھیں۔
آئمہ اپنے حواس کھو بیٹھی تھی اس کے جینے کا مقصد اب ختم ہوچکا تھا۔
وہ اپنی آنکھیں حیرت سے کھولتی آگے بڑھی اور پھنکے پر اپنا دوپٹا باندھنا شروع کردیا۔
واہ محبت کیا وفا نبھائ تو نے سب غلطی ہی تیری ہے اگر تو نا ہوتا تو سب ٹھیک تھا محبت نام ہی نا ہوتی اس دنیا میں تو سب ٹھیک تھا لیکن شاید محبت نام ہی بے وفائی کا ہے یہ ایک جان لیوا چیز ہے جس نے ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی جان لی ہے اور لیتا آرہا ہے۔ واہ محبت تیری وفا۔۔۔
آئمہ اپنی بے جان زندگی ختم کرنا چاہتی تھی آزر کے الفاظ اسے اس کی زندگی ختم کرنے کے لئے طاقت دے رہی آئمہ نے
دوپٹا باندھا کہ اچانک کمرے میں اسکی ماں آئمہ کے لئے کھانا لے کر آئ۔
آئمہ کی ماں نے آئمہ کی طرف دیکھا تو اس کے ہاتھ سے کھانے کے برتن گر گئے اور چیختے ہوئے آئمہ کی طرف بھاگی اور آئمہ کو ایک سائیڈ پر دھکا دیا اور چیختے ہوئے کہا: یہ کیا کرہی تھی تم؟؟؟؟
آئمہ نے اپنی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور اپنے چہرے پر دونوں ہاتھوں سے تھپڑ مارتے ہوئے چیخ کر کہا: مرنے کیوں نہیں دیا آپ نے مجھے کیوں مرنے نہیں دیا؟؟؟؟
آئمہ کی ماں نے آئمہ کو پکڑا اور روتے ہوئے کہا: آئمہ میرے بچے کیا ہوا تمہیں یہ کیا کرہی تھی تم؟؟؟
آئمہ نے کہا: اپنی جان چھڑا رہی تھی زندگی سے خوب جی لیا میں نے ہاہاہا!
اس کی ماں کی تو جیسے جان نکل گئ ہو اس نے چیخ کر کہا: یہ کیا بکواس کرہی ہو تم ہوش میں تو ہو کیا ہوا۔؟؟؟
آئمہ کی ماں بہت بری طرح سے رو پڑی۔
آئمہ نے روتے ہوئے کہا: آپ کیوں رو رہی ہے مت روئے ایسا کرے آپ میرا گلہ دبا دے تاکہ روز روز کے رونے سے بہتر ہے بندہ ایک بار ہی رو لے۔
یہ کہہ کر آئمہ نےپاگلوں کی طرح اپنی ماں کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گلے پر رکھتے ہوئے کہا: مار دے مجھے پلیز مار دے مجھے۔
یہ دیکھ کر آئمہ کی ماں نے آئمہ کے منہ کہ اوپر تھپڑ مارا اور کہا: بس آئمہ ہوش میں آؤ!!!
آئمہ کی ماں نے آئمہ کو گلے سے لگایا اور روتے ہوئے کہا: نہیں میرا بچہ ایسا نہیں کرتے میرے بچے ایسا کبھی مت کرنا ہوش میں آؤ کچھ نہیں ہوا کچھ بھی نہیں۔
آئمہ کسی بچی کی طرح اپنے ماں کی گود پر سر رکھ کر اپنی ماں کی باتیں سن رہی تھی تب جا اسے ہوش آئ تھی۔
آئمہ کی ماں نے آئمہ کو سلایا اور پھر کچھ دیر بعد وہ وہاں سے چلی گئ۔
آئمہ کی ماں ابھی بھی رو رہی تھی اور اللہ سے رو رو کر دعا کرہی تھی کہ اللہ اسکی بیٹی کو صبر دے اور اسکی زندگی آسان کردے
کچھ دیر بعد آئمہ کا والد بھی آفس سے گھر آیا وہ بھی آئمہ کے بارے ہی ہو ھ رہا تھا مگر آئمہ کی ماں نے آئمہ کے والد کو جھوٹی تسلی دی کہ آئمہ تھیک ہے اور وہ سورہی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکے شوہر کی طبیعت خراب ہو۔
یوں پھر صبح ہوگئ آزر اپنے کمرے میں ہی پڑا تھا اصل میں آزر زمین پر لیٹا ہوا تھا ساری رات وہ زمین پر لیٹ کر رو رہا تھا پھر جا کہی اسکی آنکھ لگ گئ جب۔
عثمان آزر کے کمرے میں آیا اس نے آزر کو زمین پر لیٹا دیکھا تو اسے کافی حیرت ہوئ وہ آگے بڑھا اور آزر کو اٹھانے لگ پڑا آزر عثمان کے اٹھانے کی وجہ سے جاگ گیا اور آئمہ کا نام لیتے ہوئے اٹھ گیا جب اس نے سامنے دیکھا تو سامنے اس کا بھائ عثمان کھڑا تھا اس نے عثمان کی طرف اپنی آنکھیں پھاڑ کر دیکھا اور کہا: آئمہ آئمہ کہاں ہے؟؟؟
عثمان نے آزر کو دیکھا اور کہا: ابھی تک تم اس بے وفا لڑکی کو نہیں بھولے جس نے تمہارا یہ حال کیا؟؟؟
آزر نے عثمان کی طرف دیکھا اور کہا: آپ آپ یہاں کیا کرہے ہے؟؟؟
عثمان نے کہا: میں تمہیں دیکھنے آیا تھا دیکھوں آزر اسے بھوک جاؤ وہ تمہارے لائق تھی ہی نہیں تم میرے بھائ ہو بہت لاڈ سے پالا ہے ہم نے تمہیں ہم تمہارا بھلا ہی سوچے گے دیکھوں آزر زندگی انسان کو ایک بار پھر جینے کا موقع دیتی ہے اور شاید اس بار زندگی تمہیں موقع دے رہی ہے میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتا اسی لئے میرے ساتھ ساتھ امی ابو کا بھی یہی کہنا ہے کہ تم آئمہ کو چھوڑ دو اور دوسری شادی کرلو اسی میں ہی تمہاری بھلائی ہے۔۔۔
آزر نے کہا: میں نے تو آئمہ کو کب کا چھوڑ دیا بس آج جاکر وکیل سے ببب بات کرکے میں اسے طلاق دے دونگا اور جیسا آپ لوگوں نے کہا ویسا ہی ہوگا۔
یہ سن کر عثمان نے خوشی سے آزر کو گلے سے لگا اور کہا: مجھے تم پر فخر ہے اللہ تعالیٰ تمہیں خوش رکھے آمین۔
عثمان ساتھ ہی ساتھ زہریلی سی مسکراہٹیں بکھیرے ہنس رہا تھا۔
ابھی عثمان وہاں سے جانے ہی لگا کہ آزر نے عثمان کو روکا اور کہا: بھائ مجھے معاف کردے اس لڑکی کی خاطر میں نے اپنے باپ جیسے بھائ پر ہاتھ تک اٹھایا پلیز مجھے معاف کردے۔
یہ کہتے کہتے آزر رو پڑا عثمان نے کہا: کوئ بات نہیں آزر کوئ بات نہیں انسان کہی بار غلطی کرجاتے ہیں ایک بار تم سے بھی ہوگئ تو کوئ مسئلہ نہیں میں نے تو تمہیں کب کا معاف کردیا تھا بس اب تم اپنی زندگی جیو خوشی سے۔
یہ سن کر آزر نے ایک بار پھر عثمان کو روتے ہوئے گلے سے لگالیا۔۔۔۔۔
جب کے عثمان چھپ چھپ کر اپنی زہریلی سی مسکراہٹ لئے ہنس رہا تھا۔۔۔۔۔
کافی دیر بعد آزر اپنے کمرے سے باہر نکلا آزر کو دیکھ کر اس کے ماں باپ نے آزر کو آواز دی اور کہا: آزر بیٹا یہاں آؤ ہمارے پاس۔
آزر نے اپنے ماں باپ کی طرف دیکھا اور ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔
آزر کی والدہ نے آزر کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا: آزر بیٹا یہ کیا حال کرلیا ہے تم نے خود کا۔ وہ آزر کو اس طرح سے دیکھ کر پریشان ہوگئ تھی کیونکہ آزر کی آنکھیں سجی ہوئ تھی اور آنکھیں کافی لال بھی تھی دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ساری رات روتا رہا ہو۔
"آزر میں نے پوچھا ہے کچھ؟؟؟
آزر کی ماں نے پھر سے آزر کو کہا۔
آزر نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: کچھ نہیں!
کیا مطلب کچھ نہیں حالت دیکھوں اپنی بیٹا ہم نے تمہیں پہلے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔
اس بار آزر کے والد نے یہ کہا تھا۔
آزر نے کہا: جی ابو وہ رات کو نیند نہیں آئ تھی۔
بیٹا ہم جانتے ہیں کہ تمہیں نیند کیوں نہیں آئ بیٹا ہم تمہارے ماں باپ ہے ہم تمہیں تم سے بہتر جانتے ہیں بیٹا اس بے وفا لڑکی کے پیچھے یوں ہارے ہوئے عاشق جیسی شکل مت بناؤ وہ لڑکی تمہارے لائک ہی نہیں تھی اس لڑکی نے کیسے ہم سب کو توڑ کر رکھ دیا ہے ہم سب ایک چھت کے نیچے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور یہ سب ہم برداشت نہیں کرسکتے ہم تم دونوں بھائیوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں خدا کے لئے آزر اپنی زندگی پر ترس کھاؤ۔
یہ کہتے کہتے آزر کی ماں روپڑی تھی۔
آزر نے اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھا اور فوراً جاکر اپنی ماں کے قدموں میں گر گیا اور کہا: امی پلیز مت روئے آ آ آ آپ لوگ جیسا کہو گے میں ویسا ہی کرو گا پلیز ایسے مت روئے غلطی ساری میری ہے میں اس بدکردار لڑکی کو اس گھر کے کر ہی نا آتا تو سب ٹھیک تھا میں نے ہی آپ سب سے لڑ جھگڑ کر یہ شادی کی تھی مگر اب مجھے صلہ مل چکا ہے۔۔۔
آزر کی والدہ نے کہا: چھوڑ دو اسے۔!
آزر نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: میں نے تو کب کا چھوڑ دیا اسے کب کا چھوڑ دیا امی اب بس اسے کاغزی طور پر بھی فارغ کردو گا آپ لوگ پلیز فکر مت کرے۔
یہ سن کر آزر کی ماں نے آزر کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور کہا: مجھے بہت خوشی ہوگی میرے بیٹے۔
آزر نے نیچے منہ کرتے ہوئے کہا: جی امی اب بس آج جاکر میں وکیل سے بات کرکے آئمہ کو طلاق دے دونگا اور طلاق کے کاغذات اس کے گھر پہنچا دوں گا۔
یہ کہہ کر وہ غصے سے وہاں سے اٹھا اور پھر اپنی گاڑی لے کر وہ سیدھا وکیل کے پاس گیا وہاں پہنچ کر اس نے وکیل کو طلاق دینے کی وجہ وغیرہ سب بتائ اور یوں پھر وکیل نے کاغذات تیار کروا لئے جب وکیل نے کاغذات پر آزر کو دستخط کرنے کو کہا تو آزر کو یک دم ایک جھٹکا سا لگا اس کا دل ابھی بھی اسے یہ سب کرنے سے جیسے روک رہا ہو مگر آزر نے اپنے دل پر پتھر رکھتے ہوئے ان پیپرز پر دستخط کرلئے جونہی آزر نے دستخط کئے اس نے وکیل سے کہا: ااا آپ پلیز یہ پیپرز آئمہ تک جلدی پہنچوا دیجئے گا شکریہ۔ آزر کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے یہ کہہ کر آزر وہاں سے روتا ہوا چلا گیا اس سے اور برداشت نہیں ہو پارہا تھا اسی لئے وہ وہاں سے چلا گیا۔
تھوڑی دیر تک وکیل نے کاغذ دیکھے اور پھر اس نے وہ کاغزات آئمہ کے گھر پھجوا دئے۔
آئمہ کے گھر کی گھنٹی بار بار بج رہی تھی گھر کے نوکر نے گیٹ کھول کر دیکھا تو ایک ڈاکیا ہاتھ میں لفافہ پکڑے کھڑا تھا اس نے وہ لفافہ گھر کے نوکر کو پکڑاتے ہوئے کہا: جی اس میں کچھ کاغزات ہیں یہ اندر جاکر کسی گھر کے بڑے کو دے دیجئے گا شکریہ۔
یہ کہہ کر اس نے وہ کاغزات نوکر کو پکڑائے اور پھر وہ وہاں سے چلا گیا
اس نوکر نے ویسا ہی کیا وہ کاغزات لے کر اندر گیا۔
سامنے آئمہ کا والد بیٹھا ہوا تھا اس نے وہ کاغزات آئمہ کے والد کو پکڑتے ہوئے کہا: صاحب جی یہ کچھ کاغزات ہے اس میں ایک ڈاکیا دے کر گیا تھا۔
آئمہ کے والد نے وہ کاغزات اس سے پکڑے اور کہا: ہممم اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ۔
یہ سن کر نوکر وہاں سے چلا گیا آئمہ کے والد نے لفافہ کھول کر دیکھا اور جونہی اس نے اندر کے کاغزات دیکھے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی اسے ایک زور دار جھٹکا لگا کچھ ہی دیر بعد وہاں آئمہ کی والدہ بھی آن پہنچی اس نے اپنے شوہر کا یہ حال دیکھا اور پریشانی سے کہا: ارے اکرم جی یہ کیا ہوا آپکو سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔
آئمہ کے والد نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا کپکپاتے ہوئے کہا: یییی یہ کاغزات۔۔۔
ارے کیا ہوا آپ بتادے۔۔۔۔ کیا ہے ان کاغزات میں۔
ائمہ کی والدہ نے وہ کاغزات اکرم کے ہاتھوں سے پکڑے اور کاغزات دیکھ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں وہ ڈرتے ہوئے کہتی ہے کہ: نننن نہیں ایسا نہیں ہوسکتا آزر ایسا نہیں کرسکتا۔
شور کی آواز سن کر آئمہ بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئ اس نے اپنے ماں باپ کو دکھی کہ عالم میں دیکھا تو وہ بھی سب جاننے کے لئے آگے بڑھی جب وہ اپنے ماں باپ کے پاس جاکر پوچھنے لگی تو اس کی ماں نے آئمہ کو دیکھ کر فوراً ہی وہ کاغزات اپنے پیچھے کرکے چھپا لئے۔
آئمہ نے اپنی ماں کی یہ حرکت دیکھی تو اس نے حیرانگی سے پوچھا: امی جی کیا ہوا یہ آپ کیا چھپا رہی ہے مجھ سے کیا ہوا امی۔۔۔
کککک کچھ نہیں بیٹا۔ اس کی ماں نے رکتے ہوئے کہا آئمہ کو سب ڈر لگنے لگ پڑا تھا اس نے زبردستی سگے بڑھ کر وہ کاغزات اپنی ماں کے ہاتھوں سے چھین لئے جب اس نے وہ کاغزات دیکھے تو اسے یوں لگا جیسے اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئ ہو۔
نننن نہیں امی یییی کیا ہے ایسا نہیں ہوسکتا آزر مجھے نہیں چھوڑ سکتا یہ سب کیا ہے امی۔۔۔۔۔۔
وہ چیخی اس سے اور برداشت نہیں ہورہا تھا اس کا بلیڈ پریشر بہت بڑھ چکا تھا اور اوپر سے وہ پریگننٹ بھی تھی۔
ااااااااززرررررر!!!!!
تم ایسا کیسے کرسکتے ہو ننننن نہیں امی ابو میں مرجاؤ گی۔
اس کی ماں روتے ہوئے آگے بڑھی اور اپنی بیٹی کو سنبھالنے لگی مگر تب تک آئمہ مکمل بے ہوش ہوکر زمین پر گر گئ۔
اس کا بلیڈ پریشر بہت بڑھ چکا تھا جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوکر گر گئ اور گری بھی بہت بری طرح سے۔۔۔۔۔
اپنی بیٹی کا یہ حال دیکھ کر اس کے ماں باپ کی تو جیسے جان نکل گئ ہو وہ تڑپتے ہوئے آگے بڑھے اور اسے بڑی مشکلوں سے اٹھا کر اسے گاڑی میں بٹھایا اور اسے فوراً ہسپتال لے گئے۔۔۔۔۔۔
تقریباً دو گھنٹے گزر چکے تھے آئمہ کا ابھی بھی چیک اپ ہورہا تھا اس کے ماں باپ باہر کھڑے اللہ کے آگے رو رو کر دعائیں کرہے تھے کیونکہ آئمہ کی طبیعت اس وقت بہت نازک تھی اچانک ایک ڈاکٹر کمرے سے باہر نکلی اور آئمہ کے والدین کے پاس گئ آئمہ کے والدین نے فوراً ڈاکٹر کو دیکھا اور اس سے پوچھا: جججج جی ڈاکٹر صاحبہ آئمہ کیسی ہے؟؟؟؟؟
ڈاکٹر نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،؛ جی آئمہ اب خطرے سے باہر ہے۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔؟؟؟؟
مگر! مگر کیا؟؟؟؟
آئمہ کے ماں باپ نے فوراً کہا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے ایک لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کہا: دیکھئے ہم نے ماں کو تو بچالیا مگر ہم بچے کو نہیں بچا سکے کیونکہ آئمہ پیٹ کے بھار نیچے گری تھی اور زیادہ بی پی ہائی ہونے کی وجہ سے بھی بےبی کو کافی پریشانی سے گزرنا پڑا لیکن اتنا سب اس سے برداشت نہیں ہوا اور وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا سوری۔۔۔۔۔
یہ سن کر اس کے ماں باپ کافی حیران ہوئے اور وہ آئمہ کے صبر کے لئے دعا مانگ رہے تھے۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر بھی وہاں سے چلی گئ جبکہ آئمہ اندر کمرے میں بے ہوش پڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"افففف یہ کیسی محبت تھی جس میں اعتبار ہی نہیں تھا جس میں اعتبار ہی نا ہو وہ محبت کیسی۔۔۔۔
ہائے محبت کاش تو نا ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔