علی نے کہا: اب تو خود سوچ کہ پولیس کہ پاس تمہیں جانے کی ضرورت ہے یا مجھے ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔
عثمان کافی حیران اور پریشان ہوگیا اس نے بڑی حیرانگی سے علی کی طرف دیکھا اور کہا: دیکھوں میں تمہیں کچھ نہیں کہو گا مگر پلیز تتتت تم میری ریکارڈنگ کسی کو مت سنانا۔
عثمان کی حالت نازک پڑگئ۔
علی کافی مسکرایا اور کہا: ٹھیک ہے نہیں بتاؤ گا لیکن ایک شرط پر!
عثمان نے حیرانگی سے پوچھا: کککک کیسی شرط؟؟؟
علی نے ہنستے ہوئے کہا: دیکھو تم تو جانتے ہی ہو کہ میں نے نوکری چھوڑ دی ہے اور اب مجھے گھر چلانے کے لئے پیسوں کی بھی ضرورت ہے تو اسی لئے تمہیں مجھے کل 10 لاکھ روپے دینے ہونگے؟
عثمان نے کہا: ٹھیک ہے مجھے منظور ہے مگر تم وعدہ کرو کے کسی کو کچھ نہیں بتاؤ گے؟؟؟
علی نے کہا: ہاں ہاں وعدہ نہیں نہیں بتاؤ گا۔
عثمان نے ایک لمبی سانس خارج کرتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے تم کل آفس آجانا میرے روم پر وہاں سے آکر تم مجھے سے 10 لاکھ روپے کا چیک لے لینا۔
علی نے کہا: ہمممم ٹھیک ہے کل ملتے ہے خدا حافظ۔
یہ کہہ کر وہ واپس اپنے گھر کے اندر مسکراتا ہوا چلا گیا۔
عثمان وہی کھڑا اسے دیکھتے رہ گیا تھوڑی دیر بعد عثمان بھی وہاں سے چلا گیا۔
عثمان سیدھا ہسپتال واپس گیا عثمان کو دیکھ کر اس کے باپ نے اس سے کہا: ہاں عثمان کچھ کچھ پتا چلا اس کا؟؟؟
عثمان نے ایک نگاہ سب کی طرف پھیری اس کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔
عثمان کی والدہ نے کہا: عثمان کچھ پوچھا ہے تم سے کہاں ہے وہ جس نے میرے بیٹے کا یہ حال کیا؟؟؟
پاس کھڑی آئمہ بھی عثمان کو ہی دیکھ رہی تھی۔
عثمان نے گھبراتے ہوئے کہا: وہ امی علی نہیں ملا میں اس کککک کے گھر گیا تھا مگر وہ وہاں ننن نہیں تھا!
اس کے والد نے کہا: ہممم لگتا ہے بھاگ گیا حرام زادہ۔
عثمان کی والدہ نے کہا: تو پھر تم پولیس اسٹیشن گئے جاکر رپورٹ درج کروائی؟؟؟
عثمان نے کہا: نننن نہیں امی!
عثمان کے والد نے حیرانگی سے پوچھا: کیوں کیوں نہیں گئے؟؟؟
عثمان نے کہا: ابو میں صرف اس علی کے گھر ہی گیا تھا پولیس اسٹیشن کافی دور تھا اسی لئے نہیں گیا اور ویسے بھی پولیس نے کونسا ہمیں فوراً ہی پکڑ کر لا دینا ہے علی کو؟؟؟
عثمان کے والد نے حیرانگی سے کہا: تو چار پیسے دے کر رپورٹ لکھوا دیتے پولیس کو رشوت ہی دے دینی تھی تاکہ وہ ہمارا کام جلدی کردیتے۔
عثمان نے کہا: ابو چھوڑے کل کروا دے گے ابھی ہمیں آزر کی فکر کرنی چاہئے۔
یہ سن کر آئمہ کو بھی غصہ آگیا اس نے جاکر عثمان کو نہایت غصے سے کہا: کیوں چھوڑ دے ہم جس نے آزر کو اس حال تک پہنچایا اسے کیسے چھوڑ دے آزر بھائ ہی ہینا تمہارا؟؟؟
عثمان کی والدہ نے آئمہ سے کہا: آئمہ ہوش میں آؤ تمہارے بھائ کا بڑا بھائ ہے یہ کیسے بات کرہی ہو تم اس سے؟؟؟
آئمہ نے اپنی ساس کی طرف دیکھا اور کہا: میں سہی بات کرہی ہو اب خدانخواستہ آزر کو کچھ ہوگیا تو ہم کیا کرے گے ہمارے پاس ابھی موقع تھا کہ ٹائم پر جاکر رپورٹ درج کروالیتے اب نجانے وہ علی کہاں پہنچ گیا ہوگا؟؟؟
عثمان کے والد نے کہا: آئمہ ٹھیک کہہ رہی ہے ہمیں ٹائم پر ہی رپورٹ درج کروالینی چاہئے تھی۔
ابھی وہ سب باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک ڈاکٹر آپریشن وارڈ سے باہر نکلا۔
آئمہ اور اس کی ساس اور سسر ڈاکٹر کے پاس گئے اور کہا: ڈاکٹر صاحب کیسا ہے میرا بیٹا؟؟؟
ڈاکٹر نے کہا: دیکھئے آپ سب ہمت سے کام لے وہ ابھی بے ہوش ہے انہیں گولی کافی نزدیک سے لگی تھی اور زخم کافی گہرا ہے آپ سب دعا کرے۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
ائمہ سے اور انتظار نا ہوا وہ پاگلوں کی طرح آپریشن وارڈ میں داخل ہوئی اور ازر کے قریب گئ۔
آزر کو بوتل لگی ہوئ تھی اور پیٹ پر کافی پٹیاں لگی ہوئ تھی اور وہ بے ہوش تھا آزر کا یہ حال دیکھ کر آئمہ کی حالت کافی خراب ہوگئ وہ روتے ہوئے آزر کے قریب گئ اور جاکر آزر کے بالوں میں ہاتھ مارتے ہوئے کہا: آزر آزر اٹھو دیکھو میں آئ ہو آئمہ تمہاری محبت پلیز آنکھیں کھولو آزر
تم نے تو کہا تھا کہ تم میری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے اور اب تم ہی مجھے اتنا رلارہے ہو آزر خدا کے لئے اپنی آنکھیں کھولو پلیز۔
رو رو کر اس کا برا حال تھا مگر آزر نے کوئ جواب نا دیا وہ ویسے کے ویسے پڑا تھا آئمہ کا دل پھٹنے کو آرہا تھا اس نے چیختے ہوئے کہا: آزر کیا یہی ہے تمہاری محبت کیا اسے کہتے ہے محبت تم مجھے جواب کیوں نہیں دے رہے ہو اپنی آنکھیں کھولو آزر میں مرجاؤ گی قسم سے اپنی آنکھیں کھولو۔
شور کی آواز سن کر ڈاکٹرز بھی اندر آگئے انہوں نے آئمہ سے کہا: دیکھئے آپ پلیز باہر جائے ایسے تو انہیں اور تکلیف ہوگی patient disturb ہورہا ہے پلیز جائے یہاں سے۔
آئمہ نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور چیختے ہوئے کہا: آزر میری باتوں سے disturb نہیں ہوتا آزر مجھ سے محبت کرتا ہے۔
آئمہ کی ساس آگے بڑھی اور آئمہ کو سنبھالتے ہوئے کہا: آئمہ میری بیٹی دیکھو آزر ٹھیک ہو جائے گا ہا چلو میرے ساتھ باہر۔
یہ کہہ کر اس نے بڑی مشکلوں سے آئمہ کو باہر نکالا آئمہ کی بری حالت تھی اس کے منہ سے آزر کے علاوہ کوئ لفظ نکل ہی نہیں رہا تھا۔
اس کی ساس نے اسے پانی پلایا تھوڑی دیر بعد آئمہ نے عشاء کی نماز ادا کی اور اللہ سے رو رو کر آزر کی زندگی کے لئے دعا کی اس کے صحت کے لئے دعا کی آئمہ کافی دکھی تھی۔
سب آزر کے لئے دعا کرہے تھے۔
جب صبح ہوئی تو عثمان جلدی سے تیار ہوا عثمان نے اپنی گاڑی نکالی اور سیدھا آفس چلا گیا جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ سامنے علی بیٹھا اس کا انتظار کرہا تھا علی نے عثمان کی طرف دیکھا اور کہا: اوووو آگئے آپ سر جی ہاہاہا۔
عثمان نے کہا: اپنی بکواس بند کرو۔
علی نے کہا: اووپس سوری سر جی آئے بیٹھے پلیز۔
علی اصل میں اس جگہ پر بیٹھا ہوا تھا جہاں پر عثمان بیٹھتا تھا عثمان کو نا چاہتے ہوئے بھی guest seat پر بیٹھنا پڑا۔
علی نے کہا: تم وہاں بیٹھے ہوئے زیادہ اچھے لگ رہے ہو ہاہاہا۔
علی مسلسل مسکرا رہا تھا۔
عثمان نے خود پر بڑی مشکلوں سے کنٹرول کیا ہوا تھا۔
عثمان نے کہا: دیکھو یہ میرا آفس ہے اور یہاں کوئ بھی آسکتا ہے تو پلیز تم اپنا منہ بند رکھو۔
علی نے کہا: اوووو اچھا اچھا ٹھیک ہے اب کام کی بات کرتے ہیں ٹھیک ہے۔
عثمان نے کہا: کوئ ضرورت نہیں ہے میرا وقت ضائع کرنے کی۔
عثمان نے جلدی سے اپنے بیگ سے 10 لاکھ روپے کا چیک نکالا اور اس پر اپنے دستخط کرکے وہ چیک علی کو دے دیا اور کہا: یہ لو جس کام کے لئے تم آئے تھے اب جاؤ یہاں سے۔
علی نے جلدی سے وہ چیک پکڑا اور کہا: واہ 10 لاکھ۔
عثمان نے غصے سے کہا: میں نے کہا جاؤ یہاں سے۔
ی نے کہا: جی جی ٹھیک ہے خدا حافظ۔
علی جانے ہی لگا تھا کہ عثمان نے اسے روکتے ہوئے کہا: سنو اب تم اپنا منہ بند رکھنا اور میری ریکارڈنگ بھی ڈلیٹ کردو پلیز۔
علی نے کہا: ہاں ہاں ٹھیک ہے کردو گا خدا حافظ۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
عثمان نے سکھ کا سانس لیا اور واپس اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ گیا۔
علی بہت خوش تھا اب وہ ان دس لاکھ روپے کے ساتھ خوب ایاشیاں کرنا چاہتا تھا اور ویسا ہی وہ کررہا تھا وہ گھومنے کے لئے ملک سے دو دن بعد باہر چلا گیا۔
دوسری طرف آزر اور اس کے گھر والے کافی پریشان تھے آزر کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا ڈاکٹر بھی مسلسل علاج کررہے تھے۔
آئمہ رو رو کر اللہ سے دعا کررہی تھی۔
پھر ایک دن آئمہ آزر کے پاس گئ جب وہاں کوئ ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔
آئمہ آزر کے قریب روتے ہوئے گئ آئمہ نے آزر کی حالت سر سے پاؤں تک دیکھی اس کا دل پھٹنے کو آرہا تھا۔
آئمہ آزر کے قریب جاکر بیٹھ گئ اور آزر کا ہاتھ پکڑ کر روتے ہوئے کہا؛اااا آزر آزر دیکھو میں آئ ہو تمہاری محبت دیکھو آنکھیں کھولو پلیز۔
لیکن آزر ویسے کا ویسا پڑا تھا۔
آئمہ نے پھر سے روتے ہوئے کہا: آزر مجھ سے تمہاری یہ حالت نہیں دیکھی جارہی ہے پلیز خدا کے لئے اپنی آنکھیں کھولو پلیز۔
مگر آزر بلکل بھی نہیں ہلا تھا۔
آئمہ آزر کے اور قریب گئ اپنا منہ آزر کے منہ کے پاس لے کر گئ اور اپنا ہاتھ اس کے منہ پر پھیرتے ہوئے پھر سے روتے ہوئے کہا: آزر آنکھیں کھولو پلیز۔
آئمہ کا رو رو کر برا حال تھا جب آئمہ کی آنکھوں سے نکلتے ہوئے آنسو آزر کے گالوں پر گرے تو آزر نے اپنا ہاتھ ہلکا سا ہلایا آئمہ نے جب یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں ایک نیا چمک ابھر آئی۔
آئمہ نے آزر کی طرف دیکھا اور کہا: آزر آزر کوشش کرو پلیز تم یہ کرسکتے ہو اٹھو آزر میں تمہارے ساتھ ہو۔
ایک منٹ تک تو آزر نے کوئ جواب نہیں دیا پھر اچانک آزر نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی یہ دیکھ کر آئمہ خوشی سے پاگل ہورہی تھی۔
آئمہ نے اونچی اونچی ڈاکٹرز کو آواز دی شور کی آواز سن کر ڈاکٹرز سمیت آئمہ کے ساس سسر بھی اندر آگئے آئمہ نے ڈاکٹرز کو کہا: ڈاکٹر دیکھئے آزر کو ہوش آرہا ہے دیکھئے۔
ڈاکٹر آگے بڑھا اور اس نے آزر کی آنکھیں کھول کر دیکھا۔
آزر کو واقعی ہوش آرہا تھا سب بہت خوش ہوئے ڈاکٹر نے جلدی سے آزر کو تھوڑا سا ہلایا جس کی وجہ سے آزر نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دی یہ دیکھ کر سب لوگ بہت بہت خوش ہوئے آزر نے سب کی طرف دیکھا آئمہ آزر کے قریب گئ اور روتے ہوئے کہا: آزر دیکھو تم ٹھیک ہوگئے اللہ نے ہماری دعا سن لی ازر۔
آزر نے آئمہ کی طرف دیکھا۔
آزر اب مکمل طور پر ہوش میں آچکا تھا۔
ڈاکٹر نے کہا: آزر کیا تم ٹھیک ہو؟؟؟
آزر نے آہستہ سی آواز نکالتے ہوئے کہا: ہاں میں ٹھیک ہو۔
یہ سن کر آزر کے ماں باپ آگے بڑھے اور آزر کی ماں نے آزر کا ماتھا چومتے ہوئے کہا: شکر ہے میرے مالک کا میرا بچہ سہی ہوگیا۔
آزر نے کہا: مجھے کیا ہوا تھا؟؟؟
آئمہ نے کہا: کچھ نہیں ہوا تھا کچھ نہیں۔
آزر نے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: تم رو کیوں رہی ہو میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ رونا مت کیوں رو رہی ہو۔
یہ سن کر آئمہ مسکرائ اور اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا: اچھا نہیں رو گی۔
اس وقت آئمہ اور باقی سب اتنے خوش تھے کہ اللہ سے دعا کرتے ہی نہیں تھکتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد عثمان بھی وہاں پر آگیا عثمان نے آزر کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا: ارے واہ میرے بھائی کیسے ہو؟؟؟
آزر نے مسکراتے ہوئے کہا: ہاں میں ٹھیک ہو۔
عثمان نے ڈاکٹر سے کہا: کیا اب ہم اپنے آزر کو گھر لے جاسکتے ہیں؟؟؟
ڈاکٹر نے کہا: جی جی ضرور مگر گھر لے جانے سے پہلے آزر کے کچھ ٹیسٹ کروانے ہونگے جو کہ ضروری ہے۔
عثمان نے کہا: ٹھیک ہے پلیز جلدی کردے ڈاکٹر نے سب کو باہر بھیجا اور کہا: دیکھئے آپ سب باہر جائے کچھ دیر کے لئے جب ٹیسٹ ہوجائے گے تو سب آجائیے گا۔
آزر ۔ے باہر جاکر ظہر کی نماز ادا کی اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا: یااللہ تیرا شکر ہے تو نے آزر کی جان بخشی تو نے اسے ندگی دی میں تیری شکر گزار ہو۔
وہ بہت خوش تھی۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر واپس باہر آیا اور سب کو کہا: جی ٹیسٹ بلکل ٹھیک ہے آزر کے اور زخم بھی اب بھر چکا ہے اب آپ لوگ آزر کو گھر لے جاسکتے ہے۔
یہ سن کر سب کے اندر خوشی کی لہر دوڑ اٹھی انہوں نے دیکھا کہ آزر خود چل کر ان کی طرف آرہا ہے۔
یہ دیکھ کر عثمان اور اس کے والد نے جلدی سے آگے بڑھ کر آزر کو سنبھالا۔
آزر نے کہا: میں ٹھیک ہو۔
آزر کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ سب آزر کو سہارا دیتے ہوئے گھر لے گئے گھر جاکر آزر نے کہا: میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں۔
یہ سن کر عثمان اور اس کے والد نے آزر کو اس کے کمرے میں چھوڑا آزر کی ماں نے آزر کو ہلدی والا دودھ پلایا
تھوڑی دیر تک وہ سب آزر کیساتھ ہی رہے پھر جب آزر کی آنکھ لگ گئ تو وہ سب بھی وہاں سے چلے گئے مگر آئمہ وہی آزر کے پاس تھی سب بہت خوش تھے۔
اللہ نے اتنی جلدی اچانک ہی آزر کو تندرست کیا اسے اس کے پیروں پر کھڑا کیا اور اسے بولنے کی بھی طاقت دی یہ سب اللہ کی قدرت تھی دیکھتے ہی دیکھتے آزر بلکل ٹھیک ہوگیا تھا آئمہ روز آزر کے پیروں کی مالش کرتی تھی جس کی وجہ سے آزر اپنے پیروں پر ٹھیک کھڑا ہوگیا تھا آزر نے ایک دن آئمہ سے کہا: اگر تم نا ہوتی تو میرا کیا ہوتا۔
آئمہ نے مسکراتے ہوئے کہا: کیوں میں نے ایسا کیا کیا ہے؟
آزر نے کہا: میری مالش میرا اتنا خیال رکھا تم نے یہ سب کچھ کرنے کے باوجود تم پوچھ رہی تھی کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔
آئمہ نے کہا: یہ کوئ بڑی بات نہیں ہے تم میرے شوہر ہو میری محبت ہو اور یہ سب کچھ کرنا میرا فرض ہے۔
آزر نے کہا؛ میں بہت خوش ہو۔
آئمہ نے کہا: بس آزر اب کل ہم دونوں مل کر پولیس اسٹیشن جائے گے۔
آزر نے حیرانگی سے کہا؛ کیو؟؟؟
آئمہ نے کہا: جس نے تمہارا یہ حال کیا تھا وہ یوں ہی آزاد پھر رہا ہے اس کو پکڑنا ہے۔
آزر نے کہا: رہنے دو!
آئمہ نے حیرانگی سے آزر کی طرف دیکھا اور کہا: کیوں ایسے کیسے میں اسے چھوڑو گی نہیں۔
آزر نے کہا: میں نے اسے معاف کیا ویسے بھی سب میں بلکل ٹھیک تمہارے سامنے کھڑا ہو اب کیا ضرورت ہے جانے کی۔
آئمہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ آزر نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا: بس آئمہ رہنے دو۔
آئمہ کو غصّہ تو بہت آرہا تھا مگر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی آخر تھک ہار کر اس نے آزر کا کہا مان لیا۔
کچھ دن بعد علی باہر سے واپس آگیا اس کے پاس جتنے پیسے تھے وہ سب اس نے اپنی ایاشیوں میں اڑا دئے تھے اب اس کے پاس گھر چلانے کے لئے بلکل بھی پیسے نہیں تھے
اس کے گھر میں راشن پانی سب ختم ہوچکا تھا۔
اس کا بے حال تھا آخر تھک ہار کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ عثمان سے پیسے مانگے گا اسے دھمکی دے کر کیونکہ ابھی تک اس نے عثمان کی وہ ریکارڈنگ ڈلیٹ نہیں کی تھی۔
اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ کل عثمان کے پاس جائے گا پیسوں کے لئے۔
رات ہوگئ تھی آئمہ کچن میں تھی آزر کے لئے سوپ بنارہی تھی کہ اچانک اسے چکر آگئے اور اس کے ہاتھوں سے سوپ کا برتن گر کے ٹوٹ گیا آئمہ کو چکر کیساتھ ساتھ الٹی بھی آرہی تھی وہ جلدی سے لڑکھڑاتی ہوئی واش روم گئی اور الٹیاں کرنی شروع کردی شور کی آواز سن کر آزر اور باقی گھر والے وہاں پر آگئے انہوں نے جلدی سے آئمہ کی حالت دیکھی آزر نے آگے بڑھ کر آئمہ کو سنبھالا۔
آزر کی ماں نے آزر سے کہا: مجھے لگتا ہے آئمہ کو ہسپتال لے کر جانا چاہئے۔
آزر نے کہا: ٹھیک ہے امی چلتے ہیں۔
آزر نے جلدی سے آئمہ کو گاڑی میں بٹھایا اور سیدھا اسے ہسپتال لے گیا آزر کیساتھ ساتھ اس کے والدین بھی گئے تھے۔
ہسپتال پہنچ کر ڈاکٹر نے آئمہ کو چیک کیا مکلم چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے سب کو اندر آنے کو کہا؛ سب اندر آئے ڈاکٹر نے سب کو مسکراتے ہوئے کہا: مبارک ہو آپکی بہو ماں بننے والی ہے۔
یہ سن کر آزر نے خوشی سے آئمہ کی طرف دیکھا آئمہ بھی یہ سن کر مسکرا رہی تھی جبکہ آزر کے ماں باپ کی تو خوشی کی کوئ انتہا ہی باقی نا رہی آزر نے ڈاکٹر سے کہا: کیا واقعی؟؟؟
ڈاکٹر نے کہا: جی جی بلکل آپ باپ بننے والے ہے۔
یہ سن کر آزر کی آنکھوں سے خوشی کہ انسو نکلنا شروع ہوگئے آزر کے ماں باپ بھی بہت خوش تھے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نے انہیں دوائیاں لکھ کر دی اور دوائیاں لے کر وہ سب وہاں سے چلے گئے سب بہت خوش تھے۔۔۔۔
سب لوگ ہسپتال سے گھر واپس آئے سب کے چہروں پر ایک نئ خوشی تھی۔
آزر بھی بہت خوش تھا آخر کار اسکی خواہش پوری ہونے جارہی تھی جبکہ آئمہ بھی آزر کی خوشی میں خوش تھی۔
سب آئمہ کو اندر لے کر گئے۔
آئمہ کی ساس نے آئمہ کو صوفے پر بٹھایا اور باقی سب بھی وہی پر صوفوں پر بیٹھ گئے۔
آئمہ کی ساس کچن سے مٹھائ کا ڈبہ لے کر آئ اور سب کا منہ میٹھا کیا اور کہا: آج میں بہت خوش ہو آخر کا مجھے بھی اس گھر میں اپنا پوتا یا پھر پوتی کھیلنے کو ملے گے جو مجھے پیار سے دادو دادو بلائے گے۔
اس کے چہرے پر ایک نئی خوشی جگمگا رہی تھی۔
آئمہ نیچے منہ کرکے بیٹھی تھی وہ کافی خوش نظر آرہی تھی ۔
آزر بھی آئمہ کیساتھ ہی بیٹھا تھا جو کہ خوشی سے اپنی ماں کی باتیں سن رہا تھا۔
آئمہ کے سسر نے کہا: بھائ اب تو میں دادا بننے والا ہووووو۔
وہ اصل میں کافی خوش تھا اور پتا نہیں کیا کیا کہی جارہا تھا۔
اچانک ہی وہاں پر عثمان بھی آگیا عثمان نے حیرانگی سے سب کی طرف دیکھا اور کہا: ارے سب یہاں پر اور یہ مٹھائی کس خوشی میں۔
عثمان کو دیکھ کر آئمہ نے اپنا سر اور جھکا لیا کیونکہ وہ عثمان کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس خوشی کہ موقع پر۔
عثمان کی ماں نے کہا: ارے بیٹا آج بہت ہی خوشی کی خبر ملی ہے ہمیں۔
عثمان نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: خوشی کی خبر مگر کیسی؟؟؟
اس کی والدہ نے مٹھائی کے ڈبے میں سے ایک لڈو اٹھایا اور عثمان کو کھلاتے ہوئے کہا: مبارک ہو تم تایا بننے والے ہو۔۔۔
یہ سن کر عثمان کو حیرت کا جھٹکا لگا اس نے اپنی پھٹی آنکھوں سے آئمہ کی طرف دیکھا۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا مگر وہی سچ تھا۔
کیا وہ کوئ خواب دیکھ رہا تھا؟؟؟
مگر نہیں وہی حقیقت ہی تھی۔
عثمان کا یہ رویہ دیکھ کر سب حیران ہوگئے۔
آزر نے عثمان کو دیکھا اور عثمان کے پاس جاکر کہا: بھائ کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟؟؟
عثمان نے آزر کی طرف دیکھا اور بڑی مشکلوں سے کہا: ہا ہاں میں میں ٹھیک ہو مبارک ہو تمہیں۔
عثمان نے بڑی مشکلوں سے خود کو سنبھالا۔
آزر نے کہا: مگر آپ کو یہ اچانک کیا ہوا۔
اب تو آئمہ بھی عثمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
عثمان نے آئمہ کی طرف دیکھا آئمہ نے پھر سے غصے سے اپنی نگاہیں نیچے کرلی۔
عثمان نے بڑی مشکلوں سے اپنے چہرے پر مسکراہٹ بھکیری اور کیا: مبارک ہو آزر میں بہت خوش ہو۔
پھر جا سب کو سکون ملا۔
عثمان نے کہا: اچھا میں چلتا ہو مجھے آرام کی ضرورت ہے۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
آزر اور اس کے ماں باپ نے زیادہ توجہ نا دی اور بھر واپس جاکر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔
آئمہ کی ساس نے آئمہ کو کہا: بیٹا اب سے تمہیں کسی بھی قسم کے کام کو کرنے کی کوئ ضرورت نہیں ہے گھر میں بہت سے نوکر ہے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو نوکروں سے کہہ دینا۔
آئمہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی کہ اس کی ساس نے آئمہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا: بس جو میں نے کہہ دیا سو کہہ دیا۔
آئمہ نے پھر سے اپنی نگاہیں نیچے کرلی۔
تھوڑی دیر تک وہ سب باتیں کرتے رہے پھر وہ سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے آزر کمرے میں جاکر بھی آئمہ کیساتھ بیڈ پر لیٹ کر بھی کافی دیر تک باتیں کرتا رہا تھا بچے کے بارے میں کہ جب بچہ آئے گے وہ اس کا یہ نام رکھے اس سے وہ کروائے گا یہی باتیں کرتے کرتے اسکی آنکھ لگ گئ آئمہ نے آزر کے اوپر کمبل کیا اور خود بھی لیٹ کر سوگئی۔
مگر!
دوسری طرف عثمان کی نیند تو شاید کوسوں دور تھی اس کا دل یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ جو اس نے سنا اور دیکھا کیا وہ سچ تھا۔
مگر نہیں وہ سب حقیقت تھا۔
اسے لگ رہا تھا کہ آئمہ کے پیٹ میں جو بچہ تھا وہ اس کا تھا وہ آزر کا نہیں تھا۔
اسے یہ بات ستائ جارہی تھی۔
اسے ڈر تھا کہ اگر آزر نے ڈی این اے کروا لیا تو کیا ہوگا۔
اس کا راز فاش ہوجائے گا۔
اففففف یہی سوچ سوچ کر اس کا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
اسے لگ رہا تھا کہ آئمہ کے پیٹ میں جو بچہ تھا وہ آزر کا نہیں تھا بلکہ اس کا تھا۔
یہی سوچتے سوچتے رات کے تین بج چکے تھے کے اچانک اسے کچن سے شور کی آواز آئ۔
وہ اپنے بستر سے اٹھا اور دروازہ کھول کر کچن کی طرف گیا اس نے دیکھا کہ سامنے آئمہ فرج سے پانی کی بوتل لے کر گلاس میں بھر کر پی رہی تھی آئمہ کا منہ دوسری طرف تھا۔
عثمان آئمہ کے ٹھیک پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا۔
آئمہ کو شک ہوا کہ اس کے پیچھے کوئ کھڑا ہے اس نے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے عثمان تھا عثمان کو دیکھ کر اس کا میٹر گھوم گیا اس سے پہلے کے اسے اور غصہ اجاتا وہ وہاں سے جانے لگی کہ اچانک عثمان اس کے راستے میں کھڑا ہوگیا۔
آئمہ کو غصہ آگیا اس نے عثمان کی طرف دیکھا اور غصے سے کہا: اس سے پہلے کہ میں شور مچا کر سب کو اکھٹا کرو میرے راستے سے دفع ہوجاو۔
عثمان نے کہا: ہوجاو گا دفع پہلے میری ایک بات تو سنو پلیز!
آئمہ نے مزید غصے سے کہا: مجھے تمہاری کوئ بھی بات نہیں سننی دفع ہو جاؤ۔
وہ ایک پرت ہوکر جانے لگی کہ عثمان نے آئمہ کا بازو پکڑ لیا اور کہا: مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے آخر بات ہمارے بچے کی ہے!!!!
یہ سن کر آئمہ نے زور سے اپنا بازو چھڑایا اور آنکھیں پھاڑ کر عثمان کی طرف نہایت غصے سے دیکھتے ہوئے کہا؛ ہمارے بچے کی؟؟؟؟ کونسے بچے کی بولوووو کونسے بچے کی؟؟؟؟
عثمان نے کہا: وہی بچہ جو تمہارے کوک میں پل رہا ہے وہ ہمارا بچہ ہے میرا بچہ ہے!!!!!
بس عثمان نے ابھی اتنا ہی کہا کہ آئمہ سے اور برداشت نا ہوا اور اس نے ایک سہی بناکر عثمان کے منہ پر تھپڑ دے مارا اور اپنی لال سرخ آنکھیں پھاڑ کر عثمان کی طرف دیکھا اور کہا: بسسس بہت سن لی میں نے تمہاری بکواس بسسسس اب اگر آئندہ تم نے ایسی کوئ بھی بات کی تو اس بار تو میں نے تمہیں تھپڑ مارا ہے اگلی بار گولی مارو گی سمجھ آئی۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے سیدھا سیڑھیاں چڑھنے لگ پڑی اور اوپر اپنے کمرے کے جانب بڑھنے لگ پڑی عثمان نے پیچھے سے آئمہ کو آواز بھی دی اور کہا: تم حقیقت نہیں بدل سکتی سمجھ آئی نہیں بدل سکتی۔۔۔۔۔
صبح کے 8 بج چکے تھے اور آئمہ ابھی تک سو رہی تھی رات کو وہ کافی دیر تک عثمان کی پریشانی لے لے کر نہیں سو پائی تھی۔
آزر پہلے ہی اٹھ چکا تھا اور آفس کے لئے تیار ہورہا تھا۔
آئمہ کافی گہری نیند میں سو رہی تھی پھر آزر کو آئمہ کو اٹھانا مناسب نہیں لگا اور ویسے بھی آئمہ پریگننٹ تھی اور اسے آرام کی ہی ضرورت تھی۔
یو پھر آزر جلدی جلدی تیار ہوا اور پھر سب کیساتھ ناشتہ کرکے آفس کے لئے نکل گیا عثمان بھی ساری رات سو نہیں پایا تھا کیونکہ وہ بھی کافی پریشان تھا اسے پکا پتا تھا کہ آئمہ کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ اس کا ہے۔
بس یہی سوچ سوچ کر اس کا دماغ ماؤف ہورہا تھا۔
وہ کمرے میں ہی تھا اس کی والدہ کو فکر ہوئی کیونکہ وہ ناشتہ کے ٹیبل پر بھی نہیں۔ آیا تھا۔
اس نے دروازہ کھولا اور دیکھا کہ عثمان سو رہا ہے اس نے عثمان کو جگانا مناسب نا سمجھا اور پھر واپس چلی گئ کیونکہ وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ عثمان اور آزر ہفتے میں کم از کم ایک بار چھٹی کرلیا کرے گھر والو کو بھی ٹائم دے دیا کرے۔
اور ہر ماں ہی ایسا ہی سوچتی ہے۔
عثمان کی ماں اوپر آزر کے کمرے میں آئمہ کو بھی دیکھنے گئ اور آئمہ بھی سو رہی تھی آئمہ کو سوتے دیکھ کر وہ نیچے آگئ۔
کیونکہ آئمہ کو آرام کی ہی ضرورت تھی۔
دن کے 11 بج چکے تھے پھر جا آئمہ کی آنکھ کھلی اس نے اس پاس دیکھا مگر وہاں کوئ نہیں تھا پھر اس نے اپنی آنکھیں کھولتے ہوئے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں گیارہ بجے پڑے تھے وہ کبھی اتنا لیٹ نہیں اٹھی تھی اور اس بات سے وہ کافی حیران بھی ہوئی۔
اور اسے اس بات پر دکھ بھی ہورہا تھا کہ آزر کو وہ ناشتہ بھی نا بناکر دے سکی اور وہ چلا گیا۔
یہی سوچتے سوچتے وہ اپنے بیڈ سے اتری اور واش چلی گئی ہاتھ منہ دھو کر وہ نیچے آگئی نیچے جاکر وہ اپنی ساس کے کمرے میں گئی اس کی ساس کمرے میں ہی موجود تھی آئمہ اپنی ساس کے قریب گئ۔
آئمہ کی ساس نے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: ارے بیٹا تم اٹھ گئی؟؟؟
آئمہ نے کہا: جی امی!
اس کی ساس نے کہا: اچھا طبیعت کیسی ہے اب تمہاری؟؟؟
آئمہ نے کہا: جی ٹھیک ہو۔ امی کیا آزر چلا گیا افس؟؟؟
اس کی ساس نے کہا: ہاں وہ تو کب کا چلا گیا تم سو رہی تھی نا شاید اس نے جگانا مناسب نہیں سمجھا۔
آئمہ نے کہا: اوووو ہووو امی کچھ نہیں ہونا تھا مجھے میری نماز بھی رہ گئ۔
اس کی ساس نے کہا: اوووو چلو کوئ بات نہیں اگر مجھے پتا ہوتا تو میں اٹھا دیتی تمہیں چلو میں آئندہ خیال رکھو گی تم چلو میرے ساتھ اب میں تمہیں ایک صحت مند ناشتہ بناکر دیتی ہو۔
آئمہ نے منع کرنے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہی۔
عثمان اپنے کمرے میں ہی سو رہا تھا کہ اچانک اس کے فون کی بیل بجی بیل کی آواز سن کر اس کی آنکھ کھل گئی اس نے بڑی مشکلوں سے نیند میں فون اٹھایا اور بغیر دیکھے فون کی کال اٹھا لی۔
ہاں کہا ہو تم"
عثمان نے کہا: کون ہو تم؟؟؟
میں ہو علی"
عثمان اٹھی کر بیٹھ گیا علی کا نام سن کر جیسے اس کی نیند دور ہوگئی ہو۔
عثمان نے کہا: ہاں بولو کیسے کال کی؟؟؟
علی نے کہا: تم آج آفس نہیں آئے کیوں؟؟؟
عثمان نے کہا: جی خیریت ہی ہے بس آج زرا میری طبیعت خراب ہے کیوں کیا ہو؟؟؟
علی نے غصے سے کہا: میں یہاں صبح سے تمہارے دفتر میں۔ بیٹھا تمہارا انتظار کرہا ہو اور تم آرام فرما رہے ہو۔
یہ سن کر عثمان نے حیرانگی سے پوچھا: کیوں تم میرے دفتر میں کیا کرہے ہو بولو۔
علی نے ایک لمبا سانس خارج کیا اور کہا: ہاں مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔۔۔
یہ سن کر عثمان کو بھی غصّہ آگیا اور اس نے کہا: کیا مطلب پیسوں کی ضرورت ہے تمہیں میں نے تمہیں تمہارے پیسے دے دئے ہیں اب کونسے پیسے لینے تم میرے دفتر میں بیٹھے ہو؟؟؟
علی نے غصے سے جواب دیا: اوووو لگتا ہے تم کچھ بھول رہے ہو۔
عثمان نے کہا: دیکھو میں نے تمہیں تمہارے پیسے دے دئے تھے اب میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کوئ پیسے نہیں ہے۔
علی نے کہا: تمہارے پاس بہت پیسہ ہے مگر تم دینا نہیں چاہتے مگر فکر مت کرو مجھے لینے آتے ہیں پیسے۔
یہ سن کر عثمان کا بھی میٹر گھوم گیا اس نے کہا: کیوں کیا کر لو گے تم میری ریکارڈنگ سب کو سنا دو گے تو سنا دو تمہیں کیا لگتا ہے تم جو کہوں گے ویسا ہی ہوگا۔
یہ سن کر علی نے اپنے دانتوں کو غصے سے بھینچا اور کہا: تمہاری اتنی ہمت رکو زرا اب دیکھنا میں تمہارا کیا حال کرو گا۔
یہ کہہ کر علی نے فون کاٹ دیا۔
عثمان نے غصے میں آکر ناجانے علی کو کیا کیا کہہ دیا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا لیکن اب اسے ڈر لگنے لگ پڑا تھا وہ جلدی سے اٹھا اپنی شرٹ پہنی اور جلدی سے باہر نکلا اپنی گاڑی نکالی اور سیدھا اپنے آفس کی طرف روانہ ہوگیا جب وہ اپنے آفس پہنچا تو وہاں کوئی موجود نہیں تھا اب اسے ڈر لگ رہا تھا پتا نہیں علی کہاں چلا گیا تھا۔
سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹنے کو آرہا تھا۔
وہ دل ہی دل میں خود کو ہی گالیاں دے رہا تھا اس نے اپنا فون نکالا اور ناچاہتے ہوئے بھی علی کو کال کی مگر علی کا موبائل بند تھا اس نے پھر سے کال کی مگر علی کا نمبر بند تھا یہ دیکھ کر اس کے پسینے چھوٹنے لگ پڑے تھے۔۔۔۔
ابھی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اچانک اس کا موبائل پھر سے بجنے لگ پڑا اس نے جھپٹ سے کال اٹھائ۔
ہیلو عثمان کہاں ہو تم؟؟؟ عثمان کے والد نے کہا۔
عثمان نے کہا: جی جی ابو میں آفس ہو!!
عثمان کے والد نے کہا: ابھی اور اسی وقت گھر آؤ جلدی۔
عثمان نے ڈرتے ہوئے کہا: کیوں ابو سب خیریت ہے؟؟؟؟؟
عثمان کے والد نے کہا: تم گھر آؤ جلدی بس سب پتا چل جائے گا جلدی آؤ۔
یہ کہہ کر عثمان کے والد نے کال کاٹ دی عثمان کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔
عثمان نے کچھ دیر سوچا پھر وہ وہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا جب وہ گھر کے اندر داخل ہوا توووووووووووووووووووووووووووو؟؟؟؟؟؟؟؟؟!!!!!!!