وہ دن آئمہ کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا اسے تو خود کی بھی ہوش نا تھی۔
عثمان آئمہ کیساتھ ریپ کرکے نیچے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گیا جبکہ آئمہ وہی اپنے بیڈ پر بےجان پڑی تھی۔
وہ بے ہوش تھی۔
عثمان کافی پریشان ہوگیا جزبات میں آکر اس نے اتنی جلدی زبردستی آئمہ کے ساتھ ریپ کیا اب اسے اس بات کی فکر تھی کہ کسی وقت بھی اس کے ماں باپ اور آزر گھر پر آسکتے ہیں یہ سوچ سوچ کر اس کا دماغ ماؤف ہورہا تھا
اچانک گھر کے مین گیٹ پر بیل بجی بیل کی آواز سن کر عثمان کے رونگٹے گھڑے ہوگئے باہر سے دروازہ گھر کے نوکر نے کھولا عثمان نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا باہر اس کے والدین اندر آرہے تھے یہ دیکھ وہ ڈر گیا۔
عثمان کے والدین گھر کے اندر داخل ہوئے اپنے ماں کو دیکھ کر عثمان بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آیا اور جاکر اپنے ماں
باپ سے سلام کیا اور کہا: ارے امی ابو آپ لوگ آگئے؟؟؟
عثمان کی والدہ نے کہا: تمہارے سامنے ہی کھڑے ہے بیٹا۔
عثمان نے کہا: ہاں سوری۔
عثمان کے والد نے عثمان کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا: کیا ہوا تمہیں کیوں اتنا پسینہ آرہا ہے طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟؟؟
عثمان نے کہا: اوووو نہیں ابو کچھ نہیں ہوا وہ میں کمرے میں exercise کرہا تھا اسی لئے پسینہ آگیا۔
ابھی وہ باتیں کرہی رہے تھے کہ عثمان کے والد کے نمبر سے آزر کی کال آئ عثمان کی والدہ نے پوچھا: کس کی کال ہے؟
اس نے کہا: آزر کی کال ہے۔
آزر کا نام سن کر عثمان گھبرا گیا۔
اس کے والد نے کال اٹھائ اور کہا: ہاں آزر بیٹا!
آزر نے کہا: جی ابو آپ اور امی گھر آگئے ہیں؟؟؟
اس کے والد نے کہا: ہاں بیٹا آگئے ہیں کیوں کیا ہوا؟.
آزر نے کہا: ابو وہ ہمارے گارڈ جو تھے نا سلیم انکل ان کی death ہوگئ ہے۔
عثمان کے والد نے کہا: اوووو وہ کیسے؟؟؟
آزر نے کہا: ابو ان کی طبیعت کافی خراب تھی شوگر کافی بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے انکی وفات ہوگئ میں آج ان کے گھر ہی آیا تھا ان کے علاج کے پیسے دینے مگر تب تک کافی دیر ہوگئ تھی۔
اس کے والد نے کہا: اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔
پاس کھڑے آزر کی ماں اور اس کے بھائ عثمان کو بھی خبر ہوگئ تھی۔
آزر نے کہا: ابو میں آج گھر نہیں آ پاؤ گا مجھے ہی اب ان کے دفن کا بندو بست کرنا ہے آپ ایسا کرے کہ آئمہ کو بتادے وہ میری کال نہیں اٹھارہی ہے۔
اس کے والد نے کہا: اچھا بیٹا ٹھیک ہے ہم بھی کل آئے گے افسوس کے لئے تم وہاں پر سب سنبھال لینا یہ بہت اچھی بات ہے ہمیں اس کا اجر ملے گا۔
آزر نے کہا: اچھا ابو میں کال رکھتا ہو جنازہ کے جانے کا وقت ہوگیا ہے ٹھیک ہے اللہ حافظ۔
اس کے والد نے بھی اللہ حافظ کہتے ہوئے کال کاٹ دی۔
آزر کی والدہ نے کہا: کتنے نیک انسان تھے وہ اللہ ان کو جنت نصیب فرمائے آمین۔
عثمان نے کہا: امین۔
عثمان نے کی والدہ نے کہا: اچھا میں جاکر آئمہ کو بھی اطلاع کردیتی ہو کہ آزر آج نہیں ا پائے گا۔
یہ سن کر عثمان نے فوراً کہا: نہیں امی وہ وہ آئمہ سو رہی ہوگی اتنی دیر ہوگئی ہے اور ویسے بھی وہ اتنی دور سے سفر کرکے آئ ہے میں نے خود اسے اوپر سوتے ہوئے دیکھا ہے آپ ایسا کرے کل بتا دیجئے گا۔
یہ سن کر اس کی ماں نے کہا: اوووو اچھا یہ بھی ٹھیک ہے۔
یوں پھر کسی طرح عثمان نے اپنے ماں باپ کو روکے رکھا اور پھر وہ سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلیں گئے کیونکہ رات بہت ہوگئ تھی۔
صبح پھر جب آئمہ نے اپنی آنکھ کھولیں تو اسے یوں لگا جیسے اس میں جان ہی نا ہو وہ بڑی مشکلوں سے اٹھی اور کمرے کو دیکھنے لگی پھر اچانک اسے کل رات والا سارا واقع یاد آگیا اس کیساتھ جو کچھ بھی ہوا اسے سب یاد آگیا تھا سب کچھ یاد آنے کے بعد وہ پھر سے رونے لگ پڑی کیونکہ اب اسکی عزت خاک میں مل چکی تھی اس کا دل پھٹنے کو آرہا تھا آنکھوں سے آنسو تھے جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے رو رو کر اس کا برا حال تھا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سب اس کیساتھ ہوا کیسے؟؟؟
کیا اس نے کوئ برا خواب دیکھ لیا تھا؟؟؟
مگر اس کیساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ حقیقت ہی تھا تھوڑی دیر بعد اسے یوں لگا جیسے کوئ کمرے میں آرہا ہو اس نے جلدی سے اپنی آنکھیں پونچھی اور دروازے کی جانب دیکھنے لگ پڑی سامنے والا منظر دیکھ کر وہ اپنا غصّہ نا روک پائ کیونکہ سامنے وہی درندہ کھڑا تھا جس نے اس کی عزت کو دھول سمجھ کر اڑا دیا تھا سامنے عثمان کھڑا تھا اسے دیکھ کر وہ خود کو نا روک سکی وہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس گئ اور اس کا گریبان پکڑ کر اپنی لال سرخ آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے کہا: کیوں کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا کیا ملا تمہیں ایسا کرکے بولو میری عزت کیساتھ کھیل کر کیا ملا تمہیں میری نہیں تو کم از کم اپنے بھائی کی ہی عزت کا ماں رکھ لیتے کیوں کیا تم نے ایسا کیوووووں! یہ کہہ کر وہ رونے لگ پڑی عثمان نے اپنا گریبان چھڑایا اور ہنستے ہوئے کہا؛ اگر تم میری بات پہلے ہی مان جاتی تو مجھے زبردستی نا کرنی پڑتی تمہارے ساتھ اب انجام دیکھ لیا نا تم نے ہا ہا ہا! یہ کہہ کر وہ پھر سی کہکہا لگانے لگ پڑا۔
آئمہ نے کہا: تم انسان نہیں ہو تم درندے ہو درندے ہو تم تم نے اپنے بھائ کا ہی گھر اپنے ہاتھوں سے اجاڑ دیا تم نے ایک بار ہی نا سوچا کہ تمہارے بھائ پر کیا گزرے گی یہ جان کر۔
یہ سن کر عثمان نے کہا: بھائ کا احساس ہے ہی تو یہاں پر آیا ہو میں یہی بتانے کے لئے کہ تم اپنا منہ مت کھولنا اگر کھول دیا تو وہی ہوگا جو تم نے کہا اسی لئے تمہاری بہتری اسی میں ہی ہے کہ تم اپنا منہ بند رکھو اور اگر تم نے یہ بات کسی سے کی تو میں تو صاف مقر جاو گا اور پھر جو بھی الزام لگے گا تم پر ہی لگے گا آئ سمجھ۔
یہ کہہ کر اس نے آئمہ کو ایک طرف دھکیلا اور خود وہاں سے ہنستے ہوئے نکل گیا جبکہ آئمہ چیخ چیخ کر رو رو کر اللہ سے انصاف مانگ رہی تھی۔۔۔۔
آئمہ اپنے کمرے میں ہی تھی اور ناجانے کب سے رو رہی تھی
رو رو کر اس کی آنکھیں سوج گئ تھی۔
تبھی اچانک اسے آزر کی کال آئ اس نے کال اٹھائ۔
آزر نے کہا: آئمہ یار کہاں ہو تم کال کیوں نہیں اٹھارہی ہو سب ٹھیک تو ہے نا۔؟؟؟
آزر کافی پریشان ہوگیا تھا۔
آئمہ نے اس بڑی مشکلوں سے کہا: ہاں میں ٹھیک ہو!
آزر نے کہا: تو پھر تم کل رات سے کال کیوں نہیں اٹھارہی ہو؟؟؟
آئمہ نے کہا: وہ کل میں آتے ہی سوگئ تھی اسی لئے شاید۔
آزر نے کہا: آئمہ سب ٹھیک ہے نا اگر کچھ ہوا ہے تو بتادو پلیز۔؟؟؟
آئمہ نے کہا: نہیں کچھ نہیں ہوا۔
وہ بتانا تو چاہتی تھی مگر عثمان کی دھمکیوں سے ڈر گئ تھی وہ آزر کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔
آئمہ نے کہا: تم کل آئے کیوں نہیں تھے؟؟؟
آزر نے کہا: یار بری خبر ہے وہ اصل میں کل میں سلیم انکل کو ہی ان کے علاج کے پیسے دینے گیا تھا مگر ان کی تب تک death ہوگئ تھی۔
آئمہ نے کہا: اوووو اچھا اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
آزر نے کہا: ہاں تم ایسا کرو کہ عثمان اور امی لوگوں کیساتھ آجاؤ یہاں پر افسوس کے لئے۔
عثمان کا نام سن کر ہی آئمہ کا خون کھولنے لگ پڑا۔
آئمہ نے فوراً غصے سے کہا: نہیں تم آجاؤ ہمیں لے نے۔
آزر نے کہا: ارے کیا ہوگیا میں میں کیسے آسکتا ہو میں تو یہاں سب کچھ سنبھال رہا ہو تم عثمان لوگوں کیساتھ ہی آجاؤ۔
آئمہ نے کہا: نہیں میں ڈرائیور کیساتھ آجاؤ گی۔
آزر نے کہا: آئمہ دیکھوں عثمان امی ابو آرہے ہیں یہاں پر جب وہ سب یہاں پر ہی آرہے ہیں تو تم بھی ان سب کیساتھ ہی آجاؤ لازمی اکیلے ہی آنا ہے؟؟؟
آئمہ نے بڑی مشکلوں سے کہا: ہممم ٹھیک ہے۔
آزر نے کہا: اچھا چلو ٹھیک ہے میں آپ لوگوں کا انتظار کرہا ہوں۔
یہ سن کر آئمہ نے کال کاٹ دی۔
آئمہ نے جلدی سے اٹھ کر منہ دھویا منہ دھو کر جب وہ نیچے کپڑے بدل کر گئ تو سامنے آزر کی ماں یعنی کہ آئمہ کی ساس کھڑی تھی آئمہ کی ساس نے آئمہ کو دیکھا اور کہا: ارے آئمہ بیٹا کہاں تھی تم اور کیا ہوا تمہیں تمہاری آنکھیں کیوں سوجی ہوئ ہیں کیا ہوا بیٹا؟؟؟
آئمہ نے کہا: نہیں امی رات کو نیند دیر سے آئ تھی شاید اسی وجہ سے!
اس کی ساس نے کہا: مگر عثمان تو کہہ رہا تھا کہ تم جلدی ہی سوگئ تھی۔
یہ سن کر آئمہ سے سمجھ گئ کہ عثمان نے ایسا کیوں کہا۔
آئمہ نے کہا: جی سو تو جلدی گئ تھی مگر پھر رات کو دوبارہ آنکھ کھل گئی تھی پھر نیند دیر سے آئ تھی۔
اس کی ساس نے کہا: اچھا چھوڑو کیا تمہیں آزر نے بتادیا کہ وہ رات کو کیوں نہیں آیا تھا؟؟؟
آئمہ نے کہا: جی ابھی کچھ دیر پہلے ہی بات ہوئ تھی وہ کہہ رہے تھے کہ میں بھی آپ لوگوں کیساتھ افسوس کے لئے جاؤ۔
اس کی ساس نے کہا: ہاں ٹھیک ہے چلو بس چلتے ہیں باہر عثمان اور اس کے ابو ہمارا ہی انتظار کرہے ہیں۔
یہ سن کر آئمہ نے اپنے سر پر اچھی طرح سے دوپٹہ لیا اور پھر اپنی ساس کیساتھ باہر چلی گئ گاڑی کہ پیچھے والی سیٹ پر آئمہ اور اس کی ساس بیٹھ گئ جبکہ آگے عثمان اور اس کا والد بیٹھے ہوئے تھے۔
عثمان نے آئمہ کی طرف دیکھا جبکہ آئمہ اس کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی تھی وہ کھڑکی کی طرف منہ کرکے ہی بیٹھی ہوئی تھی عثمان نے آئمہ کا یہ انداز دیکھ کر ایک زہریلی سی مسکراہٹ لی اور پھر وہ سب وہاں سے چلے گئے۔
جب وہ سب وہاں پہنچے تو آئمہ سب سے پہلے گاڑی سے باہر نکلی اس کا اندر اس آدمی کیساتھ دم گھوٹ رہا تھا۔
پھر وہ سب گھر کہ اندر داخل ہوئے سامنے آزر کھڑا تھا جو کہ گھر کے کونے پر کھڑا دیگے بنوا رہا تھا اندر کافی لوگ تھے آئمہ اور اس کی ساس سسر آزر سے ملے پھر آزر انہیں سلیم صاحب کی فیملی سے ملوانے کے گیا سلیم صاحب کی دو بیٹیاں تھی اور ایک بیوی تھی وہ تینوں ماں بیٹیاں کافی دیر سے رو رہی تھی آزر کی ماں اور آئمہ نے انہیں چپ کروایا۔
شام تک وہ سب وہی پر ہی رہے پھر وہ سب واپس گھر چلے گئے گاڑیاں دو ہوگئ تھی ایک آزر کی اور دوسری عثمان کی تو پھر یوں ہوا کہ آزر اور آئمہ ایک گاڑی پر ہوگئے اور عثمان اور اس کے ماں باپ دوسری گاڑی پر جاتے وقت آئمہ اور آزر سارے راستے باتیں کرتے رہے آئمہ اس بات سے بہت خوش تھی کہ اس کا شہر کافی نیک انسان ہے کیونکہ سلیم انکل کے گھر پر سب کچھ آزر نے ہی سنبھالا تھا۔
آزر نے بھی آئمہ سے کافی پوچھا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے اس کی آنکھیں کیوں سوجی ہوئ ہے مگر آئمہ نے وہی کہا جو اس نے اپنی ساس سے کہا تھا۔
گھر پہنچ کر ان سب نے مل کر کھانا کھایا مگر کھانے میں عثمان نہیں تھا کیونکہ عثمان اپنے ماں باپ کو گھر چھوڑ کر ایک کام کے سلسلے میں باہر چلا گیا۔
سب نے کھانا کھایا اور کھاتے وقت بہت باتیں کی پھر سب واپس اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
عثمان اصل میں علی کے فلیٹ گیا تھا۔
علی نے اسے اندر بٹھایا اور اسے چائے لاکر دی عثمان نے بغیر وقت ضائع کئے علی سے کہا: آئمہ کو جانتے ہو تم؟؟؟
آئمہ کا نام سن کر علی کو جھٹکا لگا اور کہا: نہیں نن نہیں میں نہیں جانتا۔
عثمان نے ہنستے ہوئے کہا: میں سب جانتا ہو کہ تم آئمہ سے محبت کرتے ہو۔
علی نے گھبراتے ہوئے کہا: ممم مگر آپکو کیسے پتا چلا؟؟؟
عثمان نے کہا: بس میں تمہارا boss ہو اسی لئے پتا چل گیا مجھے۔
علی نے کہ پسینے چھوٹ رہے تھے اسے دال میں کچھ کالا لگ رہا تھا اس نے کہا: ایک منٹ سر میں واش روم ہوکر آتا ہو۔
عثمان نے کہا: ٹھیک ہے جاؤ۔
علی واش روم گیا اور اپنا موبائل on کرکے موبائل کی recording on کردی اور موبائل اپنے جیب میں ڈال کر واپس آکر عثمان کے پاس بیٹھ گیا۔
اب عثمان جو بھی کہے گا علی کے پاس اس کی recording ہورہی تھی۔۔۔۔