"یہ سب کیسے ہوگیا کیوں ہوگیا میری تو کوئ غلطی نہیں تھی پھر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا بس اتنی ہی محبت تھی آپکو مجھ سے"
آئمہ کی آنکھیں رو رو کر سوجن کا شکار ہوگئ تھی۔۔
وہ اب چاہ کر بھی آزر کو حاصل نہیں کرسکتی تھی
اب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آزر کی زندگی سے جاچکی تھی۔
اس نے طلاق کے کاغذات پر دستخط کردیے تھے۔۔۔۔
"آئمہ تو ایک مضبوط لڑکی تھی وہ تو نا کسی سے ڈرتی تھی اور ناجائز لڑتی بھی نہیں تھی تو پھر یوں اس طرح اچانک کیسے ٹوٹ گئ وہ"
میں بتاؤ! یہ سب کچھ محبت نے کیا ہے! اگر محبت ہی نا ہوتی تو اس کا یہ حال نا ہوتا"
آئمہ کا والد کاغزات جمع کروا چکا تھا اب آزر کے گھر والوں کا اور آئمہ کے گھر والوں کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں رہا تھا سب ختم ہوچکا تھا۔۔۔
اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ کر آئمہ کے والدین ہر وقت اسے سمجھاتے رہتے تھے کہ وہ خود کو سنبھالے۔۔۔
مگر آئمہ جتنی کوشش کرتی ساری کوششیں بے کار تھی۔
ہروقت اپنے کمرے میں ہی بند رہتی تھی نا کچھ ٹھیک سے کھاتی تھی نا پیتی تھی۔۔۔
ایک دن آئمہ کی والدہ آئمہ کے پاس گئ اور کہنے لگی: بیٹا میں کچھ کہنا چاہتی ہوں تم سے!
آئمہ نے اپنی ماں کی گود میں سر رکھا اور کہا: آپ اجازت مت لیا کرے اور پوچھ لیا کرے جو پوچھنا ہو۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: بیٹا اب ایسا کب تک چلے گا! ساری زندگی کیا ایسے ہی گزارنا چاہتی ہوں؟؟؟
آئمہ نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا: پتا نہیں!
اس کی والدہ نے کہا: کیا پتا نہیں تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تمہیں اس طرح سے دیکھ کر ہم پر کیا گزرتی ہیں۔۔۔
آئمہ اٹھ کر بیٹھ گئ اور اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: تو پھر کیا کرو میں؟؟؟
آئمہ کی والدہ نے کہا: تم اپنی پڑھائ continue کرلو کسی نا کسی طرح خود کو مصروف رکھو جیسے پہلے تھی۔۔۔۔
آئمہ نے کہا: ٹھیک ہے میں کسی اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لو گی۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: کیوں پہلے والی یونیورسٹی میں کیا ہے؟؟؟
آئمہ نے کہا: ننن نہیں اس یونیورسٹی سے میرا اب کوئ لینا دینا نہیں رہا اب وہ یونیورسٹی میرے لئے کسی دردناک جگہ سے کم نہیں ہے۔۔۔
آئمہ کی ماں سمجھ گئ کہ اسکی بیٹی کیا کہنا چاہتی ہے۔۔۔
اسکی ماں نے کہا: اچھا اچھا ٹھیک ہے بیٹا تمہارا جو دل چاہے تم وہ کرو لیکن خود کو بدل دو۔۔۔
آئمہ نے سر ہلایا۔
یہ دیکھ کر آئمہ کی ماں نے آئمہ کے ماتھے کا بوسہ کرتے ہوئے کہا: میرا بچا فکر مت کرو یاد رکھو اللہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے اس سے کوئ بھی بات چھپی نہیں رہتی وہ ہمیشہ انصاف دیتا ہے تمہیں بھی انصاف ملے گا اللہ پر بھروسہ رکھوں۔ میں ابھی جاکر تمہارے پاپا سے بات کرتی ہو نئ یونیورسٹی کی تم صبح تیار رہنا تمہارے پاپا تمہارا ایڈمیشن کروا لائے گے۔
آئمہ نے اپنے ماں کو لگاتے ہوئے کہا: آپ سب بہت اچھے ہیں بہت اچھے۔۔۔
یہ سن کر اسکی ماں کو بھی کافی خوشی ہوئ وہ آئمہ کو پیار کرتے ہوئے کچھ دیر بعد وہاں سے چلی گئ۔۔۔
تقریباً 3 مہینے ہوگئے تھے آئمہ اب بلکل بدل گئ تھی وہ اب یونیورسٹی بھی جاتی تھی اور اپنی دوستوں کیساتھ بھی ہوتی تھی۔۔۔
آئمہ کو اس طرح دیکھ کر اسکے ماں باپ کافی خوش تھے۔۔۔
اب انہیں فکر تھی تو صرف آئمہ کی دوسری شادی کی کیونکہ اب انکی عمر بھی ڈھلتی جارہی تھی اور اب انہیں اپنی بیٹی کی شادی کی فکر تھی۔۔۔
آئمہ لکھ کہتی تھی کہ ابھی وہ پڑھ رہی ہے شادی کبھی نا کبھی تو ہو ہی جائے گی جب پڑھائ مکمل ہوجائے گی تو شادی بھی کرلے گی۔۔۔
یہی کہہ کر ہمیشہ وہ اپنے ماں باپ کو روک لیتی تھی۔۔۔
"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
"امی جلدی کرے بہت لیٹ ہوگئ ہے ابھی ہمیں وہاں جاکر ماموں لوگوں کو سرپرائز بھی کرنا ہے ہم لیٹ ہو جائے گے فلائٹ نکل جائے گی چلے...
وہ کافی excited تھا کیونکہ وہ پاکستان 10 سال بعد لوٹ رہا تھا اپنی ماں کیساتھ۔۔۔
"ارے بابا بس میں تیار ہو ہی گئ چلو چلتے ہے۔۔۔
اسکی ماں نے جلدی میں کہا۔
جب وہ ایئرپورٹ پہنچے تو جلدی سے سامان وغیرہ رکھوایا اور جہاز میں بیٹھ گئے۔۔۔
وہ اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا تھا اور کہنے لگا: امی میں بہت خوش ہو ناجانے وہ لوگ کیسے ہوگے پتا نہیں آئمہ کتنی بڑی ہوگئ ہوگی بچپن میں تو ہم بہت کھیلا کرتے تھے۔۔
اسکی ماں ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے کہنے لگی: ہاں بھئی بہت شرارتیں کرتے تھے تم دونوں۔
یہ سن کر وہ دونوں ماں بیٹا مسکرا دیے۔۔۔
جب وہ اپنے ملک پہنچے تو انکو ایسا لگا جیسے وہ اپنے گھر آگئے ہو انہوں نے گاڑی پہلے سے ہی بک کروائی ہوئ تھی اصل میں وہ گھر پہنچ کر سب کو سرپرائز دینا چاہتے تھے۔
راستے میں وہ ایک بار پھر اپنی ماں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا: امی آپکو ماموں کہ گھر کا راستہ ابھی تک یاد ہے۔۔۔
اسکی ماں نے مسکراتے ہوئے کہا: جی بیٹا اچھی طرح سے یاد ہے میرا بچپن گزرا ہے اس گھر میں کیسے یاد نہیں ہوگا۔
یہ سن کر وہ مسکرایا اور کہا: ویسے امی آپ یاداشت کی پکی ہے۔۔۔
تھوڑی دیر تک وہ دونوں گھر تک پہنچ گئے سامان پکڑ کر وہ دونوں گھر کے باہر کھڑے ہوئے دونوں ماں بیٹا بڑے دھیان سے گھر کو دیکھ رہے تھے کیونکہ گھر بدلتے وقت کیساتھ ساتھ ہی کافی بدل گیا تھا گھر کی بیل بجی گارڈ نے دروازہ کھولا۔
سب کچھ جان کر گارڈ نے انہیں اندر آنے کا کہا انہوں نے گارڈ کو سمجھا دیا تھا کہ وہ اندر جاکر اکرم لوگوں سرپرائز دینا چاہتے ہے گارڈ سب سمجھ گیا ااس نے ایک نوکر کو بلایا جس نے ان کا سامان پکڑ لیا اور نوکر کہ پیچھے پیچھے وہ دونوں اندر پہنچے۔
رات کا وقت تھا آئمہ کی والدہ اور والد کھانا کھا رہے تھے آئمہ اپنا کھانا کھاکر کمرے میں پہلے ہی چلی گئ تھی۔۔۔
"السلام و علیکم بھائ جان!
اندر آتے ہی وہ ان کے پاس گئ اور اونچی آواز میں سلام کیا آئمہ کے ماں باپ نے حیرانگی سے پیچھے مڑ کر دیکھا جونہی انہوں نے پیچھے دیکھا انکی خوشی کا کوئ ٹھکانا ہی نا رہا۔۔۔
آئمہ کے والد نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا: یا میرے خدا میں کہی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔۔
اسکی آنکھوں میں خوشی کہ آنسوں نکل رہے تھے۔۔۔
وہ آگے بڑھا اور اپنی بہن کو گلے سے لگا اور کہا: میری بہن میری جان کیسی ہو؟؟؟؟
وہ لوگ بھی بہت خوش تھے۔۔۔
تھکن تو بہت تھی مگر آپ لوگو کو دیکھ کر ساری تھکن اتر گئ بھائ جان۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے انہیں بٹھایا اور چائے پانی کا بندو بست کیا سب اکھٹے بیٹھے پرانی باتیں تازہ کررہے تھے۔
آج کافی عرصے بعد آئمہ کے ماں باپ کے چہرے پر خوشی تھی۔۔
وہ سب بہت خوش تھے۔۔۔
اصل میں آئمہ کے والد اکرم کی ایک بہن بھی تھی جو اس سے عمر میں چھوٹی تھی اکرم کی بہن کا نام ارفہ تھا یہ دونوں بہن بھائ اکلوتے ہی تھے جب ارفہ کالج میں پڑھتی تھی تو ایک دن اس کے ماں باپ کا کار ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ دونوں وفات پاگئے تھے۔وہ دن ان دونوں بہن بھائیوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا ارفہ اور اکرم دونوں کا باپ کافی امیر تھا اسی لئے انکی ساری جائیداد اکرم اور ارفہ کے نام ہوگئ تھی اکرم نے اپنی زمہ داری خوب نبھائ یونیورسٹی سے فارغ ہوکر اس نے اپنے والد کی فیکٹری سنبھالنی شروع کردی اور اپنی بہن کو خوب پڑھایا۔
یہ دونوں بہن بھائ آپس میں بہت محبت بھی کرتے تھے۔
پھر ایک دن اکرم کے ہی ایک دوست کو اسکی بہن ارفہ پسند آگئ تھی اکرم کا دوست بھی کافی امیر تھا دو دو فیکٹریوں کا مالک تھا اور عمر میں بھی ارفہ کے جتنا ہی تھا اس نے اس حوالے سے اکرم سے بات کی تھی اکرم بھی اس رشتے سے کافی خوش تھا مگر وہ پھر بھی اپنی بہن سے پوچھنا چاہتا تھا۔
پھر ایک دن اس نے اپنی بہن سے اس حوالے کہ متعلق پوچھا اس کی بہن نے کہا: بھائ آپکی جیسی مرضی میں آپکی خوشی میں خوش ہو۔
بہن کی اس بات سے اکرم کافی خوش ہوا یوں پھر اسکی بہن کی شادی اکرم کے دوست نعیم کیساتھ کردی گئ۔
شادی کے کچھ ہی عرصے بعد ارفہ کو اور نعیم کو اللہ تعالیٰ نے ایک پیارے سے بیٹے سے نوازا تھا۔
جس کا نام انہوں نے کیف رکھا تھا۔
ایک دن کیف کی سالگرہ تھی یہ کیف کی پہلی سالگرہ تھی سب مہمان گھر آئے ہوئے تھے مگر کیف کا والد گھر نہیں تھا۔
سب اسکا ہی انتظار کررہے تھے کہ اچانک ارفہ کو کسی کا فون آیا ارفہ نے کال اٹھائ اور کہا: ہیلو۔
آگے سے کوئ شخص تھا جو کہ جلدی جلدی میں کہہ رہا تھا: ہیلو جی وہ آپ کے شوہر نعیم کی فیکٹری میں آگ لگ ہے جس کے باعث انکی وفات ہوگئ ہے وہ پوری طرح سے جھلس گئے ہے ہم انہیں ہسپتال لے کر ہی آئے تھے مگر تب تک وہ اس دنیا سے جا چکے تھے ہم انکی لاش کو پٹیاں کروا کر آپکی طرف ہی آرہے ہے پلیز آپ ہمت کرے اچھا خدا حافظ۔۔۔۔
یہ سب کچھ سننے کے بعد اس کے ہاتھوں میں اتنی جان نہیں رہی تھی کہ وہ فون پکڑ سکے وہ تھر تھر کانپ رہی تھی یہ اچانک اس کیساتھ کیا ہوگیا۔
زندگی بھی ایک کھیل ہے کبھی ہسانتی ہے کبھی رولاتی ہے یہی سن سن کر انسان ایک دن اس دنیا سے بغیر بتائے چلا جاتا ہے اور کسی کو خبر بھی نہیں ملتی مشکل کی اس گھڑی میں بھی اکرم نے اپنی بہن کا ساتھ نا چھوڑا نعیم کی وفات کہ بعد اکرم اپنی بہن ارفہ اور اس کے بیٹے کیف کو اپنے گھر لے آیا اور کیف کو پڑھایا لکھایا۔
اپنے شوہر کی اچانک موت کا صدمہ آج بھی ارفہ کو نہیں بھولتا جب کیف 5 برس کا ہوا تو اکرم نے بھی شادی کرلی تھی شادی کے ایک سال بعد ہی انہیں آئمہ ملی۔۔۔
زندگی سہی چل رہی تھی وقت گزرتا گیا آئمہ بھی بڑی ہوتی گئ کیف اور آئمہ کی عمر میں 6 سال کا فرق تھا جب کیف 15 سال کا ہوا تب اسکی ماں چاہتی تھی کہ وہ اور بھی اچھا پڑھے کیونکہ اس کے شوہر کی آخری خواہش تھی کہ اسکا بیٹا باہر جاکر اچھی تعلیم حاصل کرے اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کرے اسی امید پر وہ ایک دن اپنا وطن چھوڑ کر دوبئ چلی گئ اور ویسے بھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی وجہ سے اکرم کی فیملی میں رکاوٹ آئے اس نے اپنے بھائ کو بڑی مشکلوں سے منایا اور پھر وہ باہر چلی گئ باہر جاکر کیف نے دل لگا کر پڑھائ کی اور ہر امتحان میں اللہ نے اسے کامیاب کیا۔۔۔
کیف اور آئمہ شروع سے ہی کافی کھیلتے رہتے تھے اور کافی اچھے دوست بھی تھے۔۔۔ مگر اسکی ماں اپنے شوہر کی آخری خواہش پوری کرنا چاہتی تھی آج کیف ایک بہت بڑے بزنس کا مالک ہے اور خوب مزے سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔۔۔
"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""
اکرم نے کیف کی طرف دیکھا اور کہا: ارے واہ کیف تم تو بہت بڑے ہوگئے ہو ماشاءاللہ۔
یہ سن کر کیف نے مسکراتے ہوئے کہا: جی ماموں وہ تو ہے۔۔۔
کیف کی کامیابی سن کر اکرم بہت خوش تھا اس کے والد کی جو آخری خواہش تھی وہ کیف نے پوری کردی تھی۔۔۔
اچانک ارفہ نے کہا: ارے بھائ پنکی کہا ہے ہماری۔۔۔
یہ سن کر اکرم نے مسکراتے ہوئے کہا: ہاہاہا وہ اپنے کمرے میں ہے۔۔۔
شور کی آواز سن کر آئمہ اپنے کمرے سے باہر آئ اس نے جب سامنے اپنی پھوپھو کو دیکھا تو اس کی خوشی کا کوئ ٹھکانا ہی نا رہا وہ فوراً ہی اپنی پھو پھو کو پہچان گئ اور وہ بھاگتی ہوئی جاکر اپنی پھوپھو سے ملی۔
واہ بھائ آئمہ تو بہت ہی خوبصورت ہوگئ ہے۔۔۔۔
کیف نے آئمہ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا وہ اس قدر خوبصورت تھی کہ اسکے دل میں اتر گئ تھی آئمہ نے کیف کی طرف دیکھا اور اسے سلام کیا۔
کیف نے کافی دیر بعد اپنے پلکیں جھپکیں اور رکتے ہوئے کہا: ججج جی واعلیکم السلام۔۔۔
آئمہ کیا تمہیں کیف یاد ہے؟؟؟
ارفہ نے آئمہ سے کہا؟
جی تھوڑا تھوڑا! آئمہ اس وقت سات سال کی تھی اور کیف 15 سال کا تھا اسی لئے اسے کافی کچھ بھول گیا تھا۔۔۔
کیف ابھی بھی آئمہ کو ہی دیکھ رہا تھا۔
کافی عرصہ بعد ہی سب ملے تھے اور کافی دیر تک گپ شپ کرتے رہے تھے۔
آئمہ کے بارے میں وہ سب کچھ بھی نہیں جانتے تھے کہ آئمہ کیساتھ کیا ہوا کیا نہیں۔۔۔۔
"""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""""