مجھے یقین نہیں آرہا ہے آزر کے کل ہماری شادی ہے افففف میں بہت خوش ہو۔ آئمہ بہت خوش تھی کیونکہ اس کی شادی اسکی پسند کی ہورہی تھی اور وہ خوشی سے جھوم رہی تھی اور تقریباً 2 گھنٹے سے فون پر آزر کو کہہ رہی تھی کے کل ہماری شادی ہے میں بہت خوش ہو۔
جبکہ آزر بھی بہت خوش تھا یہ دونوں ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔
اصل میں آئمہ اور آزر ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے یہ اور ایک ہی کلاس کے اسٹوڈنٹس تھے سب سے پہلے آزر نے آئمہ کو پرپوز کیا تھا کیونکہ اسے آئمہ پہلے دن سے ہی بہت پسند تھی اور وہ موقع کی تلاش میں ہی رہتا تھا کہ کب وہ آئمہ کو پرپوز کرے اور آخر کار اسے موقع تب ملا جب آئمہ کلاس میں اکیلی تھی اور وہ بھی اکیلا تھا آزر نے جب سے آئمہ کو دیکھا تھا وہ تب سے ہی اپنے بیگ میں ایک گلاب کا پھول رکھتا تھا تاکہ جب اسے موقع ملے وہ اس پھول سے آئمہ کو پرپوز کرے اور آخر وہ دن آ ہی گیا آزر کو بہت گھبراہٹ ہورہی تھی اور اسے بہت ڈر بھی لگ رہا تھا مگر دوستوں کی اسپورٹ کی وجہ سے آزر نے ہمت کی وہ آئمہ کے پاس گیا آئمہ اپنا سر جھکائے کتاب پڑ رہی تھی آزر اس کے قریب گیا آزر نے گلاب کا پھول اپنے پیٹھ پیچھے چھپایا ہوا تھا آزر نے بڑی مشکل سے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: excuse me آئمہ نے اپنا سر اٹھایا اور آزر کی طرف دیکھنے لگی اور کہا: Yes۔
آزر نے کہا: جی کیا آپ میری بات سنے گی۔
آئمہ نے کہا: جی بولئے۔
آزر نے کہا: وہ وہ وہ میں۔۔۔
آئمہ نے کہا: ارے وہ میں کیا کہیے جو کہنا ہے؟؟؟
آزر نے پھول آئمہ کی طرف کیا اور کہا: I love you میری بات کا برا مت مانیے گا مگر یہی سچ ہے کہ میں آپ سے بہت محبت کرتا ہو قسم سے جب سے آپکو دیکھا ہے میں خود کو روک نہیں پایا اور آج موقع ملتے ہی آپکو بتا دیا پلیز مجھے غلط مت سمجھئے گا۔
آئمہ نے کہا: اوووو پھول تو بہت اچھا ہے۔
اس نے پھول پکڑ لیا اور کہا: مجھے بھی اسی موقع کا ہی انتظار تھا کیونکہ میں چاہتی تھی کہ آپ خود آکر مجھے پرپوز کرے اور میری دوستوں نے مجھے پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کے آل مجھے پرپوز کرنے آرہے ہے کیونکہ میں نے اپنی دوستوں کو آپکی جاسوسی کے لئے رکھا ہوا تھا by the way I love you too.
یہ سن کر آزر کو یوں لگا جیسے وہ کوئ خواب دیکھ رہا ہو مگر وہ سب حقیقت تھی وہ بہت خوش ہوا اس نے کہا: ارے واہ مطلب آپ بھی o my god مجھے یقین نہیں ہورہا۔
آئمہ نے کہا: میں نے بھی جب سے آپکو دیکھا ہے میرے دل میں جیسے اب آپکی ہی دنیا ہے آپ نے اپنی جگہ بنا لی ہے میرے دل میں۔
آزر نے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: آپ مانے یا نا مانے لیکن یہی محبت ہے۔
اتنے میں آزر کے دوست اور آئمہ کی دوست جو کہ کب سے باہر کھڑے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے وہ سب کلاس کے اندر ہنستے ہوئے آئے۔
آزر اور آئمہ نے چونک کر ان سب کی طرف دیکھا۔
آزر کے دوستوں نے کہا: ارے واہ آزر صاحب آخر آپکی پریشانی بھی حل ہو ہی گئ۔
یہ سن کر سب ہنسنے لگ پڑے سب بہت خوش تھے۔
یوں پھر ایک سال گزر گیا آزر اور آئمہ ہر وقت فون پر بات کرتے رہتے تھے ایک دن آزر نے آئمہ سے کہا: آئمہ آئمہ بہت دن ہوگئے اب میں کل اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیج رہا ہو رشتے کے لئے۔
یہ سن کر آئمہ حیران ہوئ اور کہا: ارے اچانک سے ہی ابھی رہنے دو ہمیں تیاریاں بھی تو کرنی ہے۔
آزر نے ہنستے ہوئے کہا: ارے میں کونسا برات لے کر آرہا ہو جو تیاریاں کرنی ہے۔
آئمہ بھی مسکرا دی اور کہا: اچھا چلو ٹھیک ہے میں اپنے parents کو بتا دو گی۔
یہ سن کر آزر بہت خوش ہوا تھوڑی دیر بعد آئمہ نے کھانے کے ٹیبل پر اپنے والدین کو سب کچھ بتا دیا۔
آئمہ کے والدین نے کہا: بیٹا تمہاری خوشی میں ہی ہماری خوشی ہے ہم راضی ہے۔
یہ سن کر آئمہ بہت خوش ہوئ اور کہا: موم ڈیڈ آپ دونوں بہت اچھے ہیں میں بہت lucky ہو۔
آئمہ کے والدین نے کہا: تم ہماری اکلوتی اولاد ہو اور تم ہی ہماری سب کچھ ہو۔
یہ سن کر آئمہ نے کہا: thank you mom thank you dad یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں گئ اور آزر کو فون کرکے اسے سب کچھ بتایا اور کہا: تم کل اپنے والدین کیساتھ آسکتے ہو۔
آزر بہت خوش ہوا اور کہا: میں آرہا ہو کل۔
یہ سن کر آئمہ نے کل کاٹ دی آزر نے بھی جاکر سب کچھ اپنے والدین کو کہا آزر کے والدین بھی بہت خوش ہوئے اور کہا: ٹھیک ہے بیٹا مگر؟؟؟
یہ سن کر آزر نے کہا: مگر کیا امی؟
اس کے والدین نے کہا: آزر بیٹا تمہارا ابھی بڑا بھائ بھی ہے ہم ایسا کرتے ہیں کل آئمہ کے گھر جاکر انہیں ایک سال کا تاہم دے اتے ہیں۔
یہ سن کر آزر نے کہا: نہیں امی ایسے نہیں چلے گا بھائ کی شادی مجھ سے پہلے کیسے ہوسکتی ہے اب اسکی بیوی مرگئ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کے میں ایسے ہی بیٹھا رہو۔
اس کے والدین نے کہا: بیٹا مگر!
یہ سن کر آزر نے بات کاٹتے ہوئے کہا: اگر مگر کچھ نہیں بس جو ہونا ہے وہی ہوگا اور ویسے بھی بھائ شادی نہیں کرنا چاہتے آپ بس میری شادی کا سوچے۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا آزر کے والد نے کہا: ٹھیک ہی کہہ رہا ہے ہمیں اسکی شادی پہلے ہی کردیں چاہئے عثمان کی شادی بھی ہو ہی جائے گی اللہ کرے گا۔
یہ سن کر آزر کی والدہ بھی راضی ہوگئ۔
یوں پھر کل آزر اور اس کے والدین آئمہ کے گھر گئے انہیں آئمہ بہت پسند آئ اور اس کے والدین بھی آزر مسلسل آئمہ کی طرف دیکھ رہا تھا اور اسے آنکھ مار رہا تھا آئمہ اشاروں سے اسے روک رہی تھی یوں پھر شادی کی ڈیٹ بھی فکس ہوگئ دونوں بہت خوش تھے۔
لیکن ابھی انکی خوشیوں کو نظر لگنا باقی تھی۔
آئمہ بہت خوش تھی وہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی رات کا وقت تھا اور وہ چاند کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ایک ہفتے تک میں آزر کی دلہن بنوں گی اور وہ میرا دولہا ہائے اللہ کتنا مزہ آئے گا۔
ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کے اچانک اس کا موبائل بجنے لگ پڑا وہ اچانک سے سوچوں کی دنیا سے نکلی اور موبائل
کی طرف دیکھا موبائل پر کسی unknown نمبر سے کال آرہی تھی اس نے سوچا کہ شاید کوئ دوست ہوگی جو کہ مبارکباد دینے کے لئے unknown نمبر سے کال کرہی ہے اس نے کال اٹھائ اور کہا: ہیلو!!!
آگے سے کسی کی سسکیوں کی آواز آرہی تھی اور کوئ مردانہ آواز معلوم ہورہی تھی۔
آئمہ نے حیرانگی سے کہا: ہیلو کون ہے؟؟؟
آگے سے آواز آئ: اوووو بھول گئ تم مجھے اتنی جلدی بھول گئ۔
یہ سن کر آئمہ کافی حیران رہ گئ اس نے کہا: کون ہو تم بولو؟؟؟
اس شخص نے کہا: میں ہو علی جسے تم نے دھوکا دیا ہے وہ۔
یہ سن کر آئمہ کو تو جیسے جھٹکا لگ گیا ہو وہ کانپتے ہوئے بولی: علی تم تم نے مجھے کیسے کال کی اور کیوں کی؟؟؟
یہ سن کر علی نے کہا: اچھا سوال ہے بہت اچھا سوال ہے تو سنو پھر جواب یہ تو تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں تم سے محبت کرتا ہو تو تم ایسے کیسے آزر سے شادی کرسکتی ہو بولو آخر کیا کمی ہے مجھ میں بولو۔
یہ سن کر آئمہ نے غصے سے کہا: دیکھوں علی تم اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دو گی۔
یہ سن کر علی نے کہا: کردو تم نے جو کرنا ہے کرلو مگر میں باز نہیں آؤ گا میں تمہیں حاصل کرکے رہو گا چاہے میری جان بھی کیوں نہ چلی جائے محبت کی ہے میں نے اور اپنی آخری دم تک نبھاؤں گا بھی۔
یہ سن کر آئمہ نے کہا: دیکھو علی میرے دل میں تمہارے لئے ایسا کچھ نہیں ہے جیسے تم سوچ رہے ہو میں نے پہلے دن سے ہی آزر کو چاہا ہے اور میں اس سے بہت محبت کرتی ہو محبت میں زبردستی نہیں ہوتی اور اب تو میں اور آزر ایک ہونے والے ہیں۔
یہ سن کر علی نے چیختے ہوئے کہا: میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دو گا یہ یاد رکھنا تم۔
یہ کہہ کر علی نے فون کاٹ دیا۔
اصل میں علی بھی آئمہ کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اور وہ آئمہ کو دیوانوں کی طرح چاہتا تھا حتٰی کی اس نے آئمہ کو کئ دفعہ پرپوز بھی کیا تھا مگر آئمہ نے ہر بار اسے نظر انداز کیا کیونکہ وہ آزر کو چاہتی تھی۔
جب علی کو پتا چلا کہ وہ آزر سے محبت کرتی ہے تو اس کا دل پوری طرح سے ٹوٹ گیا اس نے آزر کو کئ بار سمجھایا بھی کہ وہ آئمہ سے دور رہے حتٰی کہ ایک بار ان کی یونیورسٹی میں خوب لڑائ بھی ہوئ تھی اس وجہ سے اور اس دن آئمہ یونیورسٹی پر نہیں تھی تب سے لے کر اب تک وہ آئمہ کو مناتا ہے مگر وہ اس کو ہر بار reject کرتی تھی
پھر ایک دن علی کو پتا چلا کہ آزر اور آئمہ کی شادی ہونے والی ہے تو اس سے رہا نا گیا اس نے ایک لگ سم سے آئمہ کو کال کی مگر اس کال میں بھی اسے کوئ فائدہ نظر نہ آیا۔
علی کی پرابلم یہ تھی کہ وہ اتنے مال والا بندہ نہیں تھا بلکہ وہ تو ایک ہوسٹل میں رہتا تھا اور سیکنڈ ٹائم کی نوکری بھی کرتا تھا تب جا اس کا راشن پورا ہوتا تھا علی اپنے گھر والوں سے اپنی خوشی اور مرضی سے دور رہتا تھا علی کی فیملی اول میں گاؤں کی رہنے والی تھی اور ان کی فیملی میں آئے دن لڑائیاں ہوتی رہتی تھی آخر تنگ آکر علی نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی فیملی کو چھوڑ کر چلا جائے بڑی مشکلوں سے اس نے اپنی fsc مکمل کی پھر ایک دن وہ وہاں سے بھاگ کر اپنے ایک دوست کے ہوسٹل میں آگیا وہی پھر اس نے اپنا کاروبار بھی شروع کردیا اب وہ پڑھتا بھی تھا اور نوکری بھی کرتا تھا علی کی فیملی کو بھی یہ سب معلوم تھا مگر وہ شہر تک کا سفر نہیں کرسکتے تھے کیونکہ علی کی فیملی میں زیادہ تر عورتیں ہی تھی ایک بار علی کی والدہ نے علی کے نمبر پر کال کر کے گھر واپس آنے کا کہا تھا مگر علی نے کہا کہ وہ وہاں پر بہت خوش ہے اور انہیں کہا کہ وہ علی کی کوئی فکر نا کرے اسے اس کے حال پر چھوڑ دے یوں پھر علی اپنی فیملی سے ایک الگ زندگی گزار رہا تھا لیکن جب سے اس نے آئمہ کو یونیورسٹی میں دیکھا تھا اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی تھی مگر وہ بیچارے کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ نا ہی وہ اتنا امیر تھا نا ہی اس کا کوئ خاندان تھا سب کی نظروں میں۔
بہرحال آئمہ بہت پریشان تھی اس نے پریشانی کے عالم میں آزر کو کال کی اور اسے سب کچھ بتا دیا آزر کو بہت غصّہ آیا آزر نے کہا: اس کی اتنی ہمت کے اس نے تمہیں black male کیا میں اسے زندہ نہیں چھوڑو گا۔
یہ سن کر آئمہ نے کہا: ہوش میں آؤ یار اگر اسے زندہ نہیں چھوڑو گے تو پھر کیا ہماری شادی ہوجائے گی میں نے اسے پولیس کا ڈراوا دیا ہے اور ویسے بھی مڈل کلاس لوگ پولیس کا نام سن کر اپنی آئ پر سجاتے ہیں۔
یہ سن کر آزر مسکرا دیا۔
یوں پھر ایک ہفتہ بھی گزر گیا اور آزر اور آئمہ کی شادی دھوم دھام سے ہوگئ سب بہت خوش تھے تھوڑی دیر تک رخصتی بھی ہوگئ اور یوں پھر آئمہ اپنے گھر کی ہوگئ۔
جبکہ علی بیچارا کچھ نا کرسکا۔
آئمہ اپنے کمرے میں بیٹھی دلہن بنی آزر کا انتظار کرہی تھی تھوڑی دیر تک آزر بھی وہاں آگیا آزر جا کر بیڈ پر آئمہ کیساتھ بیٹھ گیا اور آئمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ماشاءاللہ تم تو بہت خوبصورت ہو ایسا لگ رہا ہے جیسے چاند زمین پر آگیا ہو۔ جبکہ آئمہ نے شرماتے ہوئے اپنا سنہرا منہ نیچے کو کرلیا۔
آزر نے آئمہ کا ہاتھ پکڑا اور اس کے ہاتھ میں ایک ڈائمنڈ رنگ پہنائی اور کہا: ارے واہ اب یہ رنگ (ring) بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔
جبکہ آئمہ مسلسل شرمارہی تھی۔
آزر نے آئمہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا: آئمہ مجھ سے وعدہ کرو کے تم مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔
یہ سن کر آئمہ نے کہا: نہیں میں وعدہ کرتی ہو چاہے کچھ بھی ہوجائے میں آپکو کبھی نہیں چھوڑو گی۔
یہ سن کر آزر مسکرا دیا۔ آزر نے آئمہ کے ماتھے پر بوسہ کیا۔
جبکہ آئمہ نے مکمل طور پر اپنا وجود آزر کے حوالے کردیا۔
یہی ان کی محبت تھی۔
مگر آگے بہت کچھ ہونا باقی تھا