وہ بچوں کے سکول کے پاس ہی تھی کہ اسے ياد آيا وہ اپنا پرس تو لانا ہی بھول گئ ہے۔
پچھلے کچھ دن لگا کر يشر نے اسے گاڑی چلانا سيکھا ديا تھا تاکہ کبھی ايمرجنسی ميں وہ صرف ڈرائيور پر ڈيپينڈ نہ کرے۔
ايک ہفتے ميں ہی وہ کافی اچھی گاڑی چلانا سيکھ گئ تھی۔ ہميشہ کی طرح يشر کو اسے سيکھا تے ہوۓ بے حد مزہ آيا۔
"آئ وش ميں آپ کا ٹيچر ہوتا آپ کو کچھ بھی سيکھا کر اس وقت بہت خوشی ہوتی ہے جب آپ نہ صرف جلدی پک کرتی ہيں بلکہ اتنا اچھا رزلٹ شو کرتی ہيں" يشر اسے فخر سے ديکھتے ہوۓ بولا۔
اور آج وہ خود گاڑی چلا کر بچوں کو اسکول لينے جا رہی تھی اور وہاں سے اسے انہيں ساتھ لے جا کر کچھ شاپنگ کرنی تھی۔
مگر اب وہ گھر سے اتنی دور آگئ تھی کہ واپس جانے ميں ٹائم لگ جاتا۔
دماغ ميں کوئ ترکيب سوچتے يکدم اسے ياد آيا کہ يشر کا آفس بچوں کے اسکول کے پاس ہے۔ اس نے گاڑی يشر کے آفس کی جانب بڑھا دی۔
"يشر ہيں آفس ميں" عزہ جوں ہی اس کے آفس ميں آئ سب سے مل کر يشر کی سيکرٹری کے پاس آکر اس سے پوچھا وہ خونکہ نئ نئ اپائنٹ ہوئ تھی لہذا وہ يہ نہيں جانتی تھی کہ عزہ يشر کی وائف ہے۔
"پليز ميڈم آپ ويٹ کريں سر اندر ميٹنگ ميں بزی ہيں" اس نے اپنے پيشہ ورانہ انداز ميں عزہ کو ہاتھ کے اشارے سے سامنے رکھے صوفے پر بيٹھنے کا کہا۔
"پليز آپ ان سے کہيں عزہ ہے اور ارجنٹ ملنا ہے صرف دو منٹ کے ليۓ ميری بات سن ليں۔" اس نے ہاتھ ميں پہنی گھڑی ديکھتے ہوۓ لجاجت سے کہا۔ نجانے ميٹنگ کب اوور ہونی تھی۔
"آپ کی کيا کوئ اپائنٹمنٹ تھی" سيکرٹری کی بات پر اسکی بھنويں تن گئيں۔
"مجھے کسی اپائنٹمنٹ کی ضرورت نہيں" کہتے ساتھ ہی اس نے موبائل نکال کر يشر کو کال کی جو اس نے دو بيلوں کے بعد کاٹ ديا۔
عزہ حيرت کے صدمے سے دوچار ہوئ۔
"ميٹنگ کس کے ساتھ ہے" اس نے سامنے بيٹھی لڑکی سے پوچھا۔
"ميم ربا ہمدانی سے ہے ۔ آپ پليز بيٹھ جائيں" يہ نام سنتے ہی عزہ کے تو تن بدن ميں گويا آگ لگ گئ۔ اب کی بار کچھ کہے بغير وہ سيدھا يشر کے روم کے دروازے کی جانب بڑھی۔ جبکہ يشر کی سييکرٹری ارے ارے کرتی رہ گئ۔
ايک جھٹکے سے دروازہ کھول کر وہ اندر تھی۔ جہاں سامنے ٹيبل کے اس طرف يشر تھا اور ٹيبل کے اس طرف ربا تھی۔ ٹيبل پر ليپ ٹاپ کھلا ہوا تھا جس ميں سے وہ يشر کو کچھ تصويريں دکھا رہی تھی۔
دروازے کی آواز پر ان دونوں نے جوں ہی سامنے ديکھا يشر، عزہ کو ديکھتا خوشگوار حيرت سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔
"سر آئم سوری يہ ميم اندر آگئيں۔ ميں نے انہيں روکا بھی تھا مگر يہ کچھ سن ہی نہيں رہيں تھيں اور۔۔۔۔" يشر کی سيکرٹری جو عزہ کی اس حرکت پر صفائياں دے رہی تھی اس ڈر سے کہ اس کی جاب کہيں اس بات پر نہ چلی جاۓ يشر کے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روکنے پر خاموش ہوگئ۔
"اٹس اوکے انہيں تو ميرے آفس ميں کہيں بھی آنے کا پورا اختيار ہے کيونکہ يہ ميری مسز ہيں" يشر نے عزہ کو ديکھتے ہوۓ مسکرا کر اپنی سيکرٹری کو کہا۔
جبکہ عزہ کينہ توز نظروں سے ربا کو گھور رہی تھی۔ جس کی نگاہيں يشر پر تھيں۔
"آپ پليز اپنی سيٹ پر جائيں مس حجاب" يشر سيکرٹری کو واپس بھيجتا ہوا اب عزہ کی جانب ديکھنے لگا۔
"بتا تو ديتيں آپ آنے سے پہلے مگر آپ کا آنا پليزينٹ سرپرائز ہے" يشر کی مسکراتی نظريں ہميشہ کی طرح اس کا طواف کر رہيں تھيں۔
"آپ کو فون کيا تھا مگر آپ شايد زيادہ بزی تھے کہ کال اٹينڈ نہيں کی۔ ہاۓ ربا ہاؤ آر يو" يشر کو گھورتی وہ ربا کی جانب متوجہ ہوئ جس کی ٹکٹکی يشر پر بری طرح بندھی ہوئ تھی۔
"اوہ ہاۓ" وہ جيسے نيند سے جاگی تھی۔ عزہ کا دل کيا آج واقعی وہ ان کا گہ دبا دے جو ٹائٹ جينز پر اتنا ہی ٹائٹ ہائ نيک پہنے يشر کے سامنے بيٹھی تھی۔
"پليز بيٹھيں عزہ" وہ جو ابھی تک کھڑی تھی يشر نے اسے بيٹھنے کا کہا۔
"نہيں بيٹھ نہيں سکتی ميں ابھی بچوں کو پک کرنے سکول جارہی تھی وہاں سے شاٹنگ پر جانا تھا مگر آدھے راستے ميں ياد آيا کہ بيگ تو پکڑا ہی نہيں اب آپکے کريڈٹ کارڈز چاہئيں" وہ يشر کے قريب جا کر ساری بات بتاتے ہوۓ بولی۔
"اتنی سی بات يہ ليں" يشر اس کے مان بھرے انداز پر گويا نثار ہی تو ہو گيا تھا۔
جلدی سے سيٹ پر بيٹھتے اپنے ليپ ٹاپ بيگ ميں سے کارڈز نکالنے لگا۔
"ارے آپ رہنے ديں ميں نکال ليتی ہوں" اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے وہ يشر کی سيٹ کے پيچھے سے آکر ٹيبل کے پاس نيچے رکھے ليپ ٹاپ بيگ ميں سے کارڈز نکالنے لگی۔
يشر اسکے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھنے کا مقصد سمجھ گيا تھا جو ربا کو يہ جتانا چاہتی تھی کہ وہ يشر کی مجبوب بيوی ہے۔
"سوری ٹو ڈسٹرب يو پليز کيری آن يور ميٹنگ" ايک مرتبہ پھر يشر کے کندھوں پر اپنے ہاتھ کا دباؤ ڈال کر وہ ان سے مخاطب ہوتی يشر کے روم سے باہر آگئ۔
مگر اب دھيان سارا ان دونوں کی جانب لگا ہوا تھا۔
کچھ اپنی حماقتيں بھی ياد آئيں کہ آخر کيوں وہ يشر اور اپنے درميان دوری برقرار رکھے ہوۓ۔
اگر يشر اس سے دلبرداشتہ ہو کر کسی اور لڑکی کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے تو اس سب ميں قصوروار کون ہوگا۔
وہ اپنی غلطيوں کو تسليم کر رہی تھی۔ مگر اب مسئلہ يہ تھا کہ اپنی انا کی ديوار اتنی اونچی کر چکی تھی کہ اس کو گرانے يا اسے پار کرکے دوسری جانب اب وہ کيسے آتی۔
انہی سوچوں ميں اس نے بچوں کو پک کرکے نجانے کيا خريدہ اسے خود بھی کچھ سمجھ نہيں آ رہی تھی۔ دل اور دماغ دونوں يشر کے آفس ميں لگۓ ہوۓ تھے۔
شام ميں جب يشر گھر آيا تب بھی اسے سمجھ نہيں آئ کہ کيسے ربا کے بارے ميں اس سے استفسار کرے۔ بچے جوش و خروش سے يشر کو اپنی شاپنگ دکھا رہے تھے۔
عزہ چاۓ بنا کر لائ ايک کپ يشر کے قريب رکھا جو اب شلوار قميض اور شال کندھوں پر لئيۓ بچوں کی کہانياں سن رہا تھا۔
عزہ کو شلوار قميض آدميوں کو پہنی کبھی اتنی اچھی نہيں لگتی تھی جتنی اسے يشر کو پہنی ہوئ ديکھ کر لگتی تھی۔
اس کا درازقد کچھ اور دراز لگتا تھا اور چوڑے شانوں کے گرد لپٹی شال اسے اور بھی زيادہ خوبرو بناتی تھی۔ وہ بھی اپنا کپ ليۓ خاموشی سے يشر کے ساتھ ہی تھوڑا فاصلہ رکھ کر اسی کے صوفے پر بيٹھ گئ۔
يشر اس کی گم صم کيفيت نوٹ کر چکا تھا مگر اس سے پوچھا نہيں وہ چاہتا تھا عزہ خود بتاۓ کہ کيا ہوا ہے۔
"ربا کے ساتھ آپ کوئ پراجيکٹ کر رہے ہيں يا ويسے ہی وہ آپکے آفس آئ تھی" عزہ نے يشر سے سوال کرتے سرسری انداز اپنايا تھا مگر يشر اپنا بے ساختہ قہقہہ نہ روک سکا۔ آخر بلی تھيلے سے باہر آ ہی گئ تھی۔
"ميں نے کوئ اتنی ہنسنے کی بات نہيں کی" يشر کے قہقہے پر عزہ نے برا مناتے ہوۓ کہا۔
بچے اب اپنی اپنی کلرنگ بکس کی جانب متوجہ ہوچکے تھے جو عزہ نے انہيں آج دلائيں تھيں۔
"آپ کو آخر اسبے چاری سے اتنی ان سيکيورٹی کيوں ہے" چاۓ کا سپ ليتے يہ بات کہہ کر گويا يشر نے عزہ کے غصے کو ہوا دی تھی۔
"بيچاری۔۔۔۔کہاں سے بيچاری نظر آتی ہے وہ آپ کو اس بری طرح آپکو گھورتی رہتی ہے جيسے کبھی کوئ اچھی شکل کا بندہ نہيں ديکھا۔" عزہ ک ربا کے ليۓ بےچاری کا يہ لفظ وہ بھی يشر کے منہ سے ہضم نہيں ہو رہا تھا۔
"آپ کو تو خوش ہونا چاہئيے کہ وہ آپکے شوہر کی خوبصورتی سے اتنی متاثر ہے" يشر کے شرارتی لہجے نے عزہ کو مزيد پتنگے لگاۓ۔
"اور آپ کس حد تک اس کی خوبصورتی سے متاثر ہيں" اس نے بھنويں سکيڑ کر يشر کو گھورا جس کی محبت پاش نظريں اسی کے گرد تھيں۔ اس نے آہستہ سے عزہ کا صوفے پر دھرا ہاتھ تھاما۔
"آپ سے نظر ہی نہيں ہٹتی کے کسی اور کی خوبصورتی نظر آۓ" سر جھکاۓ عزہ کے ہاتھ کو ديکھتا اسکی انگليوں کو سہلاتا ہوا آنچ ديتے لہجے ميں بولا۔
عزہ کا دل زور سے دھڑکا اس سے پہلے کے وہ ہميشہ کی طرح وہاں سے بھاگتی يا کچھ کہتی يشر کا موبائل بجنے لگا۔ اس نے عزہ کا ہاتھ چھوڑتے فون کان سے لگايا
"اسلام عليکم ممی، کيسی ہيں آپ" يشر کے ممی کہنے سے وہ سمجھ گئ کہ کس کا فون ہے۔
وہ خاموشی سے اپنی چاۓ ختم کرنے لگی۔
"جی ممی سب ٹھيک ہيں آپکی بہو پاس ہی بيٹھی ہے" اس نے عزہ کی جانب ديکھتے ہوۓ کہا۔
"ياد ہے ممی ڈونٹ وری اس ويک اينڈ پر ہم آپکے پاس ہی ہوں گے اور شادی اٹينڈ کرکے ہی واپس آئيں گے۔"يشر نے انہيں يقين دلاتے ايک دو اور ادھر ادھر کی باتيں کيں اور فون رکھ ديا۔
"فزا کی شادی ہے نيکسٹ ويک" يشر، عزہ سے مخاطب ہوا۔
"جی مجھے لاسٹ ويک اينڈ ممی نے بتايا تھا آج اسی ليۓ بچوں کی شاپنگ کروائ تھی۔" عزہ نے اسے شاپنگ کا اصل مقصد بتايا۔
"اور آپکی شاپنگ" يشر نے چاۓ کے آخری گھونٹ ليتے عزہ سے سوال کيا۔
"اتنے سارے کپڑے ہيں جو شادی پر ممی نے ليۓ تھے۔ انہی ميں سے پہن لوں گی" عزہ نے اپنی جان بچائ۔
وہ ويسے بھی کپڑوں کا ڈھير اکٹھا کرنے کی اتنی شوفين نہيں تھی۔
"اگر ميں آپکے ليۓ کچھ ڈريسز لے لوں تو آپ پہنيں گی" يشر نے مان سے سوال کيا۔
"کيا ضرورت ہے" اس نے ٹالنا چاہا۔
"ميری خواہش ہے" يشر نے پھر سے بڑے مان سے کہا۔ ايک ان کہا رشتہ ان کے مابين بن چکا تھا۔
"آپ کی چوائس پر مجھے بھروسہ نہيں" اس نے ايک ادا سے کہا۔
"ہاہاہا آپ بھی ميری ہی چوائس ہيں" يشر نے اس کی بات کا مزہ ليتے ہوۓ اسے کچھ ياد کروانا چاہا۔
"ہر دفعہ بندے کی قسمت اچھی نہيں ہوتی کہ اسے کوئ اچھی چيز مل جاۓ" عزہ کے ناز يشر کے حواسوں پر چھانے لگ گۓ تھے اب۔
"بھروسہ تو کرکے ديکھيں" يشر نے اسے کنوينس کرنا چاہا۔
"چليں ديکھتے ہيںکہ آپکے پسند کردہ ڈريسز کيسے ہوں گے۔ ليکن اگر مجھے پسند نہ آۓ تو ميں پہنوں گی نہين پہلے بتا رہی ہوں" اس پر گويا احسان کرتے عزہ نے يشر کو اجازت دی
"اوکے ڈن"يشر نے اس کی بات مانتے ہوۓ کہا
__________________________--
جمعہ کی رات ميں وہ لوگ باۓ روڈ اسلام آباد کی جانب نکلے جہاں انہوں نے يشر کے ماموں کی بيٹی فزا کی شادی ميں شرکت کرنی تھی۔
بچوں کے اسکول سے انہوں نے تين چار دن کی چھٹياں لے ليں تھيں۔ کيونکہ شادی کے فنکشن اتوار کی رات سے شروی ہو رہے تھے۔
بچے اتنے لمبے سفر کے ليۓ بہت ايکسائيٹڈ ہو رہے تھے۔
عزہ نے کھانے پينے کا کچھ سامان رکھ ليا تھا۔
نوکروں کو ہدايات دے کر اور گھر کی حفاظت کا کہتے وہ نو بجے رات ميں گھر سے نکل پڑے۔
موٹروے کے راستے انہوں نے جانا تھا۔ عزہ يشر کے ساتھ آگۓ جبکہ بچے پيچھے بيٹھے ہوۓ تھے۔
يشر آفس سے سيدھا عزہ کے ليۓ شاپنگ کرنے چلا گيا تھا۔ اس نے کيا کچھ ليا تھا عزہ بے خبر تھی اس نے کچھ بھی اسے نہيں دکھايا تھا سارے شاپنگ بيگز اسی طرح گاڑی ميں رکھ دئيۓ تھے۔
عزہ دل ميں ہول رہی تھی کہ نجانے کيا لے آيا ہے۔
بچے کچھ دير بعد سوگۓ تھے۔
"بچوں کو ديکھ کر تو مجھے بھی نيند آ رہی ہے" عزہ بچوں کے اوپر کمبل ديتے ہوۓ بولی دسمبر کی سرد راتيں تھيں۔
حالانکہ گاڑی ميں ہيٹر آن تھا پھر بھی لگ رہا تھا نجانے کہاں کہاں سے سرد ہوائيں آ رہی تھيں۔
"خبردار اگر آپ سوئيں، آپ کو پتہ ہے اس طرح سب کا گاڑی ميں سو جانا خاص طور پہ فرنٹ سيٹ پر بيٹھے ہوۓ بندے کا ڈرائيور کے ساتھ سونا بہت خطرے کا باعث ہوتا ہے۔ اگر آپ کو ديکھ کر مجھ پر بھی غنودگی طاری ہوگئ" يشر نے عزہ کو ڈرانا چاہا۔ مقصد صرف اس کو جگا کر رکھنا اور اس کے ساتھ کو محسوس کرکے اس سفر کو يادگار بنانا تھا۔
"اچھا اب ڈرائيں تو مت جو تھوڑی بہت نيند آرہی تھی وہ بھی بالکل اڑ گئ ہے" عزہ نے دہل کر اسے ٹوکا۔ يشر دل ميں اس کی معصوميت پر مسکرايا۔
عزہ نے ہاتھ بڑھا کر اسٹيريو آن کيا کہ گانے سن کر وہ تھوڑا فريش ہو جاۓ گی۔
Troyne Wells
کے گانے نے دونوں کو کچھ لمحے ساکت کيا
You light me up
You set the sun
You bring the crowd down to one
I dream of you in the morning
Until the day is done
And then again
When evening comes
All my life
I've waited for this moment now
In your eyes
Finally I know I am found
So good to feel this way
Can't find the words to say
But I'll show you how
All my life
I've waited for this moment now
You are the spring
You are the fall
My big debut, My curtain call
The world is covered in beauty
And through the cracks in the wall
I see your light behind it all
There's nothing I'd rather do
Than be here right with you
This moment, this moment, this moment now
"اينڈ آئم ويٹنگ فار مائ مومنٹ" يشر کی سرگوشی عزہ کی دھڑکنوں کو درہم بھرم کرگئ اس نے خاموشی سے رخ کھڑکی کی جانب کر ليا جہاں اندھيرے ميں وہ کيا کھوج رہی تھی يشر جاننے سے قاصر تھا۔
کچھ دير بعد بچے اٹھ گۓ تو انہوں نے بھوک بھوک کا شور مچا ديا۔
عزہ نے اپنے پاس ہی کھانے پينے کی چيزوں کا لفافہ رکھا ہوا تھا۔ اس ميں سے سينڈوچز نکال کر بچوں کو پکڑاۓ۔
"ميں نے بھی صبح سے کچذ نہيں کھايا۔" يشر نے سارے جہاں کی بے چارگی اپنے لہجے ميں سميٹتے ہوۓ کہا۔
"تو کھا ليں ميں نے کب منع کيا ہے" عزہ نے اس کی بات پر حيرانگی سے کہا۔
"اب ڈرائيو کروں کہ کھاؤں اور يہاں ميں سائيڈ پر روک بھی نہيں سکتا" يشر کی بات پر اس نے کچھ ناسمجھی سے اس کی جانب ديکھا۔
"تو اس بات کا کھانے سے کيا تعلق" اس نے مزيد حيران ہو کر يشر سے پوچھا۔
" تو اس کا يہ مقصد کے آپ مجھے کھلا ديں" يشر کی بات پر اس کی آنکھيں حيرت کی زيادتی سے کھل گئيں۔
"جی نہيں ايک ہاتھ ميں پکڑيں اور بائٹس ليتے جائيں" اس نے شدت سے يشر کی بات ميں چھپی خواہش کی نفی کرتے ہوۓ کہا۔
"يار ميرا کوئ احساس نہيں"يشر نے اسے جذباتی کرنا چاہا۔
"ميں نے کب کہا ہے کہ نہيں کھائيں" اس نے پھر سے اسکی بات کی نفی کی۔
"عزہ" اب کی بار يشر نے افسردگی سے بس اتنا ہی کہا۔
"اچھاکھلاتی ہوں مگر آپ نے تنگ نہيں کرنا اچھے بچوں کی طرح کھا لينا ہے" عزہ اس کی اموشنل بليک ملنگ ميں پوری طرح پھنس گئ تھی۔
"بالکل نہيں کروں گا" يشر نے سنجيدگی سے کہا
اس کے سامنے ديکھنے کی وجہ سے عزہ اسکی نظروں ميں چھپی شرارت بھانپ نہيں سکی۔
کچھ نوالے تو يشر نے شرافت سے کھاۓ جبکہ عزہ کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
آخری بائٹ پر يشر نے اسکی فنگر کی بائٹ بھی لی۔
عزہ نے زوردار چيخ ماری۔
يشر اور بچے ہنسنے لگ گۓ۔
"بہت خراب ہيں آپ آئندہ کبھی آپکی باتوں ميں نہيں آؤں گی۔ يہ کوئ شرافت سے کھايا ہے آپ نے" عزہ نے اپنی انگلی سہلاتے غصے سے يشر کو گھورا۔
"سارا شرافت سے ہی کھاياتھا بس آخر ميں آپکی انگلی ہی ميرے دانتوں ميں پھنس گئ" يشر کہاں ہارنے والوں ميں سے تھا ايک سے ايک دليل نکالتا تھا۔
"ہاں انگلی نہ ہوگئ بوٹی ہوگئ جو آپکے دانتوں ميں پھنس گئ" عزہ نے منہ پھلاتے ہوۓ کہا۔
"اچھا دکھائيں کہاں لگی ہے" يشر نے ہنستے ہوۓ اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا۔
"اب ان حرکتوں سے کچھ نہيں ہوگا نہ آپکی ڈرائيونگ کو" عزہ نے اس کے ايک ہاتھ سے ڈرائيونگ کرتے ہاتھ کو ديکھ کر اس پر چوٹ کی۔
باقی تمام راستہ عزہ نے غصے ميں ہی گزارا۔
____________________
بچے وہاں دادا دادی کے پاس ہہنچ کر بے تحاشا خوش تھے۔ عزہ بھی سب کے بيچ خوش اور مطمئن تھی۔ سب نے اتنا پيار اور عزہ دی تھی کہ وہ اللہ کا شکر کرتے نہيں تھکتی تھی۔
مہندی والے دن يشر نے اسے شادی پر پہننے والے کپڑے دکھاۓ جو اس نے عزہ کے ليۓ خريدے تھے۔
مہندی کے ليۓ اس نے چٹا پٹی کا غرارہ جس کے ساتھ پرپل شرٹ اور اورنج دوپٹہ گوٹے کے خوبصورت کام سے سجا تھا۔
بارات کے ليۓ خوبصورت سا ڈل گولڈکا فراک تھا جس پر ميروں پٹی لگی ہوئ تھی۔ ميرون ہی چوڑی دار پاجامے کے ساتھ۔
جبکہ وليمے کے ليۓ يشر نے پيچ کلر کی ساڑھی لی تھی۔
باقی ڈريسز تو عزہ کو اچھے لگے تھے مگڑ مہندی والا بہت شوخ لگ رہا تھا۔
"يہ بہت لاؤڈ کلر ہے" اس نے کسی قدر پريشانی سے يشر کو کہا۔ کيونکہ يشر نے اسے کوئ اور سوٹ رکھنے بھی نہيں ديا تھا۔
"کوئ لاؤڈ نہيں ہے۔ اپنی مرضی کريں اگر پھر کسی نے ماسی کہا تو مجھے سے آکر نہيں لڑنا" يشر نے ہری جھنڈی دکھائ۔
عزہ کشمکش ميں تھی۔
شام ميں جب يشر عزہ کو مہندی کے فنکشن کے ليۓ گھر سے نکلنے کے ليۓ کمرے ميں بلانے آيا تو شيشے کے سامنے اسی لباس ميں کھڑی عزہ نظر آئ جو يشر اس کے ليۓ لے کر آيا تھا۔
کچھ لمجوں کے لئيۓ تو يشر اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔
سفيد کرتے شلوار پر پرپل ويسٹ کوٹ پہنے يشر بھی کم خوبصورت نہيں لگ رہا تھا مگر عزہ تو اس وقت حقيقت ميں يشر کے ہوش اڑا رہی تھی
ڈريسنگ کے شيشے سے وہ باسانی ان کا خوبصورت روپ ديکھ سکتا تھا جو فرنچ ناٹ بناے ايک جانب جھومر لگاۓ ہلکے سے ميک اپ ميں اپنے نيکلس کا لاک بند کرنے کے جتن کر رہی تھی۔
يشر بے آواز قدموں سے چلتا اس کے پيچھے کھڑا ہوا۔
"اف کيا مصيبت ہے چھوڑو پرے اس نيکلس کو" وہ جو سر نيچے کئيے نيکلس کے لاک سے نبرد آزما تھی اب تنگ آکر اسے اتارنے والی تھی کہ دو ہاتھ اسکے ہاتھوں پر آکر ٹھہرے اس نے ڈر کر شيشے کی جانب ديکھا تو يشر کا عکس ديکھ کر جہاں مطمئن ہوئ وہاں شرم سے اس کے گال بھی دہک اٹھے۔
يشر کی جذبے لٹاتی آنکھيں اسے بہت کچھ سمجھا رہيں تھيں۔
"چھوڑيں ميں بند کر ديتا ہوں۔۔۔۔بند کردوں" اسے پہلے پيشکش کرتے آخر ميں اس نے ہميشہ کی طرح پيش قدمی کرنے سے پہلے اجازت لی۔
"جی" عزہ نے خاموشی سے نظريں جھکاتے اجازت دی۔
يشر کے ہاتھوں کا لمس اس کے پوری جسم ميں کپکپی لے آيا۔
شکر تھا کہ يشر نے شرافت سے لاک لگايا اور پيچھے ہٹ گيا۔
مگر عزہ کو نکلنے کا راستہ نہيں دے رہا تھا کيونکہ وہ اسکی جانب ديکھنے سے گريز کر رہی تھی۔
جس طرف وہ ہوتی يشر بھی اسی جانب ہو جاتا۔
آخر تنگ آکر سر اٹھا کر اسے خفگی سے ايک گھوری سے نوازا۔
يشر مسکرايا۔وہی جان ليوا مسکراہٹ جو عزہ کو اپنی جانب کھينچتی تھی۔
"اب ميری عزہ لگی ہيں نا۔۔مجھے ڈرانے والی۔۔۔مجھ سے ڈرنے اور شرمانے والی عزہ کچھ اتنی خاص نہيں لگتی" يشر کی بات پر مسکراہٹ عزہ کے ہونٹوں پر بکھری۔
"اتنے آپ ڈرنے والے" عزہ نے ہنستے ہوۓ کہا۔
اور اسکی پيروی کرتی کمرے سے باہے آگئ۔
جب وہ لوگ مہندی کے فنکشن ميں پہنچے لڑکے والے آچکے تھے۔
فريحہ بيگم نے عزہ کو اپنے سب رشتے داروں سے ملايا۔
"ارے عزہ تم يہاں۔۔۔اس دن بھی ريسٹورنٹ ميں ہميں ديکھ کر چلی گئيں تھيں" عزہ اور يشر جو اسٹيج سے تھوڑی دور کھڑے مہندی کی رسم کی تصويريں کھينچ رہے تھے۔ کسی کی آواز پر چونک کر مڑے۔
عزہ تو اپنے سامنے کھڑی ہستی کو ديکھ کر ششدر رہ گئ ليکن يشر اس لڑکی کو نہيں جانتا تھا جو عزہ سے مخاطب تھی مگر لگتا تھا کافی شناسا ہے جو بڑی بے تکلفی سے اس سے مخاطب تھی