"اسلام عليکم!" آج بہت دن بعد ہادی بھی سکول گيا تھا۔ عزہ گھر کے کاموں سے ابھی فارغ ہی ہوئ تھی کہ يشر کی کال آگئ۔
لنچ کی تياری کرتے مصروف سے انداز ميں اس نے کال ريسيو کی۔ بچوں نے آج چکن چاؤمن کی فرمائش کی تھی۔
موبائل کندھے سے لگاۓ سبزياں کاٹتے وہ يشر سے بات کر رہی تھی۔
"وعليکم سلام۔خيريت" يشر بہت کم اس وقت کال کرتا تھا لہذا اس کا حيران ہونا جائز تھا۔
"جی خيريت ہے وہ آج رات ايک بزنس ڈنر ہے اور سب کی وائفز بھی آئيں گی تو اگر آپ بھی چليں تو اچھا ہو گا۔ سعد اور ہادی کو امی ابا کے پاس چھوڑ ديں گے۔ واپسی پر ليتے ہوۓ گھر آ جائيں گے۔ کيا کہتی ہيں آپ؟" اسے تفصيل سے بتاتا وہ اس سے استفسار کر رہا تھا۔
"ميری شکل کی بری حالت ہے ابھی تو ہادی کی وجہ سے ايک مرتبہ بھی پارلر نہيں جا سکی اب اس وقت لنچ بنانا ہے پھر بچے کا ہوم ورک سب اس ميں کہاں ٹائم ملے گا پارلر جا کر حليہ درست کرنے کا" عزہ نے اس کی بات سن کر اپنا مسئلہ بتايا۔
"ڈونٹ وری اس کا انتظام ہو جاۓ گا آپ بس چلنے کی سوچيں" اس نے عزہ کو تسلی دلائ۔
"بالکل بھی نہيں اس شکل کے ساتھ تو ميں بالکل نہيں جاؤں گی۔ چاہے جتنی مرضی آپ کو مس ورلڈ لگوں۔ ہر مرتبہ جان بوجھ کر باہر مجھے اجاڑ حليے ميں لے جاتے ہيں تاکہ ہر کوئ آپکی ہی خوبصورتی کو ديکھتا رہے اور خاص طور سے لڑکياں آپ کو ديکھ کر آہيں بھريں کہ ايسے بندے کے پلے کيسی ماسی بندھ گئ ہے" عزہ نے غصے سے کہا۔
ابھی کل رات کی ہی تو بات تھی جب بچوں کی فرمائش پر وہ سب باہر سوپ پينے چلے گۓ۔
يشر ہميشہ کی طرح عزہ کو حليہ ٹھيک کرنے کا موقع دئيۓ بغير لے گيا جو جينز کرتے اور شرگ ميں براؤن اسکارف لپيٹے اتنی بھی بری نہيں لگ رہی تھی۔
مگر يشر ہميشہ کی طرح کھدر کی براؤن شلوار قميض ميں ڈيشنگ لگ رہا تھا۔
ان کے پاس سے گزرتی لڑکيوں کے کمنٹ کتنی دير تک عزہ کو رنج و غم ميں مبتلا کر گۓ جبکہ يشر نے خوب انجواۓ کيا۔
"يار بچے کتنے کيوٹ ہيں فادر پر گۓ ہيں ماں تو عجيب جلول سی ماسی ٹائپ لگ رہی ہے۔" اس کے بعد عزہ سارے راستے يشر سے لڑتی آئ کہ خبردار جو وہ اسے آئندہ اس حليۓ ميں يہ کہہ کر لے کر گيا کہ آپ ہميں تو بہت پياری لگتی ہيں۔
"ہاہاہاہا نہيں آپ تو ميری مس يونيورس ہيں" يشر نے بھی اس کی بات کو خوب انجواۓ کرتے محبت سے چور لہجے ميں کہا۔ اس کا گھمبير لہجہ عزہ کی ہتھيلی ميں پسينہ لے آيا۔
"اچھا بس اب جھوٹ بولتے جائيں۔ پتہ نہيں کب آپکی ناک لمبی ہوگی۔ ہم نے تو بچپن ميں سنا تھا جھوٹ بولنے والوں کی ناک لمبی ہو جاتی ہے آپ کی تو وہيں کی وہيں ہے ايک انچ نہيں ہلی اپنی جگہ سے" عزہ کی جلی کٹی باتوں نے يشر کا موڈ فريش کر ديا تھا۔
"سوچيں اگر ميری ناک لمبی ہوگئ تو بھی لوگ يہی کہيں گۓ کہ لمبی ناک والے بندے کی بيوی" يشر نے اسے چڑايا۔
"ايسی باتيں کريں گۓ تو واقعی نہيں جاؤں گی۔" اس نےاب کی بار دھمکی دی۔
"اچھا يار کچھ نہيں کہتا بس کپڑے ريڈی کريں بافی کا انتظام ميں کرواتا ہوں" اس نے ہنستے ہوۓ کہا۔
"اوکے" عزہ نے حيران ہوتے فون بند کيا۔
عزہ کی حيرت تب ختم ہوئ جب شام ميں ايک مشہور سيلون کی ورکر کو يشر نے عزہ کے ليۓ سرويسز کروانے کے ليۓ بھيجا۔
گھر پر بچوں کو ديکھتے اس نے آرام سے فيشل بھی لے ليا اور باقی کی کچھ اور سروسز بھی لے ليں۔
اب عزہ کو فنکشن ميں جانے کی کوئ ٹينشن نہيں تھی۔ يشر کی اتنی کئير کا سوچتے اس لڑکی کے جاتے ہی اس نے يشر کے نمبر پر تھينک يو کا ميسج کيا۔
کچھ سيکنڈز ميں ہی ريپلائ آگيا۔
"اينی ٹائم مائ لائف" يشر اس کے گريز کے باوجود اپنی فيلنگز کو عزہ پر ضرور آشکار کرتا تھا۔ کبھی اس کی تعريف کی صورت اور کبھی اس کا خيال رکھ کر اور اسکی جذبے لٹاتی آنکھيں تو ہمہ وقت اس کا طواف کرتی رہتيں۔
عزہ کو اب اس کی محبت کو اگنور کرنا مشکل لگنے لگ گيا تھا۔
_____________________
رات آٹھ بجے جب وہ آيا عزہ بچوں کو ريڈی کرکے خود بھی تيار تھی۔ آف وائٹ گھٹنوں تک آتے سٹائلش سے فراک ميں جس کے دامن اور گلے تر فيروری پٹی کے اوپر خوبصورت سا کام ہوا تھا،ساتھ ميں سيدھا ٹراؤذر پہنے اسکارف ہميشہ کی طرح سر پر لپيٹے دھپٹے کو خوبصورتی سے ليۓ ہلکے سے ميک اپ ميں بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔
يشر کے ليۓ اس نے بليک ڈنر سوٹ کے ساتھ آف وائٹ شرٹ اور فيروزی پلين ٹائ نکالی تھی۔
يشر اسے سراہتی نظروں سے ديکھتا تيار ہونے چل پڑا۔
کچھ دير بعد وہ سب گاڑی ميں بيٹھے عزہ کے امی ابو کے گھر بچوں کو چھوڑنے جا رہے تھے۔
بچوں کو چھوڑ کر اب يشر کا رخ رائل پام کی جانب تھا جہاں ڈنر کا اہتمام تھا۔
يشر نے بچوں کے اترتے ہی ہلکی آواز ميں گانے لگا ديۓ۔
Kevin Daniel
کی خوبصورت آواز نے گويا اس لمحے يشر کی دھڑکنوں کا ساتھ ديا
I don’t know why my heart feels this way when I’m with
You
All is quiet, all is clam and I fill safe when I’m with you
All my war is fade away
Wont you stay, stay with me
Wont you stay, stay with me
Years goes by still you standing by my side
Lover did I ever told you enough
You are the one I was dreaming of
All the time, all the time…
Wont you stay, stay with me
Wont you stay, stay with me
Cause I’ve been waiting oh for you
I’ve been waiting for you
Oh for you….
I’ve ever told you clear enough
You are the one I was dreaming of
All this time, all this time…
وہ اس لمحے واقعی اسے نہيں بتا سکتا تھا کہ اس کا يشر کے ساتھ ہونا اس کے ليۓ اس لمحے کسی نعمت، کسی خوش کن احساس اور ايسے خواب سے کم نہيں تھا جس سے جاگنے کا انسان کا کبھی دل نہيں چاہتا۔
وہ اس کے ليۓ کيا تھی وہ اسے کبھی بتا نہيں سکتا تھا۔
گاڑی رائل پام کے پارکنگ ايريا ميں کھڑی کرکے وہ عزہ کو لے کر اس حصے کی جانب آيا جہاں رنگ ونور کا سيلاب امڈا ہوا تھا۔
ميوزک کا خاص ارينجمنٹ کيا گيا تھا۔ شہر کے بڑے بڑے برنس ميں اپنی بيگمات کے ساتھ موجود تھے۔
يشر کو عزہ کا سراپا وہاں موجود ہر شخص کی بيوی سے کہيں زيادہ تفاخر ميں مبتلا کر گيا جو اپنی خوبصورتی کو مکمل کپڑوں ميں چھپاۓ ہوۓ ان سب ميں ممتاز لگ رہی تھی۔
ورنہ وہاں موجود ہر عورت کسی مرد کو شرم سے نظر جھکانے پر مجبور کررہی تھی تو کسی کی نظر ان کو ديکھ کر پھٹی جا رہی تھی۔
عزہ خود بھی کچھ جزبز ہو رہی تھی۔ يہاں آکر کہاں سے کوئ کہہ سکتا تھا کہ يہ ايک اسلامی معاشرہ تھا۔
کم از کم عزہ کو تو ايسا ہی لگا کہ وہ يورپ کی کسی گيدرنگ ميں آگئ ہے۔
ہاں بہت کم ايسی خواتين اور بھی تھيں جو ذرا بہتر حليے ميں تھيں مگر آستينوں اور دوپٹے سے وہ بھی آزاد تھيں۔
يشر عزہ کو لے کر اس فنکشن کے ميزبانوں سے ملا رہاتھا۔
"ہاۓ سو آپ يشر ہيں" عزہ کے عقب سے ايک آواز ابھری اور وہ آواز والی اب اس کے سامنے موجود تھی۔
"ہاۓ ربا ہمدانی آئ گيس؟" يشر نے کچھ دن پہلے ہی اس کا انٹرويو ايک ميگ ميں ديکھا تھا ماڈل اور بزنس ومن تھی۔
"او يس! کيسے ہيں ابھی کل ہی پاپا آپ کا ذکر کررہے تھے۔ سو گليڈ ٹو سی يو ہير" يشر کو ديکھ کر وہ جس طرح کھلی پڑی جا رہی تھی عزہ کوايک آنکھ نہيں بھا رہی تھی۔
"ہمم اندھی نظر نہيں آ رہا کہ اس بندے کی بيوی بھی ساتھ کھڑی ہے بچھی چلی جا رہی ہے" اس نے نخوت سے سوچا۔
"تھينکس۔ ميٹ مائ وائف عزہ" يشر بھی اس کے چہرے پر چھائ بے تحاشا خوشی اور بے باک نظريں ديکھ کر جزبز ہو رہا تھا۔ لہذا فورا اسکی توحہ عزہ کی جانب دلائ۔
"اوہ آپ ميريڈ ہيں" جس لہجے ميں اس نے کہا عزہ کو بے اختيار ہنسی آئ۔
"نائس ٹو ميٹ يو" عزہ کی جانب ہاتھ بڑھاتے جو زبردستی کی مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئ تھی عزہ کا دل کيا اسکی ہاتھ کی جگہ اس کا گلہ دبا دے۔
يہ اسکی يشر کے ساتھ شادی کے بعد پہلا ايسا موقع تھا جب کوئ لڑکی اتنی ڈھٹائ سے اس کے سامنے يشر کو لائن مار رہی تھی۔
عزہ نے ايک ہلکی سی مسکراہٹ سے بادل نخواستہ اس کا ہاتھ تھاما۔
مگر ايسے رويے کے بعد بھی وہ يشر کے ساتھ چپکی جا رہی تھی۔ باتوں سے بات نکال رہی تھی۔
اور عزہ غصے سے دل ميں پيچ وتاب کھا رہی تھی۔
يکدم اس کے دل ميں جانے کيا سمائ پہلے تو يشر کے بازو ميں اپنا ہاتھ حمائل کرکے اس کے کچھ اور نزديک ہوئ۔
ربا سے بات کرتے يشر کی سب حسيات عزہ کی جانب ہی تھيں۔ دل ميں حيران ہوا۔
پھر عزہ جو اب بالکل اس کے پہلو کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ يکدم ہاتھ بڑھا کر اسکے کالر سے جيسے کوئ ناديدہ گرد جھاڑنے لگی۔ پھر وہ ہاتھ يشر کے سينے پر دھرا۔
اب کی بار يشر نے بھنويں اچکا کر عزہ کی جانب اپنی چمکدار مگر شرارت سے بھر پور آنکھوں کا رخ کيا جيسے پوچھ رہا ہو" خيريت ہے مارنے کا ارادہ ہے کيا"
"آپکے کالر پر ميرا بال لگا تھا وہ ہٹا رہی تھی "اس کی آنکھوں کا مفہوم جانتے ہوۓ بھی انہيں نظر انداز کرکے اس نے يشر کو ديکھ کر معصوم بن کر کہا۔
اور اسکے جواب پر يشر اسے سراہے بغير نہ رہ سکا جو اسکے قريب کبھی نہيں آئ تھی اس کا بال يشر کے کالر پر کہاں سے آگيا تھا۔
"اف يو ڈونٹ مائنڈ مجھے تھوڑی دير بيٹھنا ہے اب ميں کھڑے ہو کر تھک گئ ہوں" عزہ نے ايسے ناز سے اسے ديکھتے ہوۓ اور ربا کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے کہا کہ يشر کا دل کيا ان حرکتوں پر واقعی اسے آسکر دے جو ربا سے جيلس ہو کر وہ کچھ کر رہی تھی جسے وہ اکيلے ميں بھی يشر کے ساتھ کرنے کا سوچ نہيں سکتی تھی۔
"اوکے ڈئير، ايکسکيوزمی ربا" يشر کو آخر اس پيسٹری سے معذرت کرنی پڑی۔ يہ نام پيسٹری بھی عزہ نے اس کے ليۓ سوخا تھا۔
"اب آپکی ناک لمبی ہونے کا ويٹ کرنا پڑے گا" يشر اسے ايک ٹيبل کے پاس لے آيا اور کرسی کھينچ کر اسے بٹھانے لگا پھر ساتھ والی کرسی پر خود بيٹھتے ہوۓ بولا۔
عزہ نے گويا اس کی بات سنی ہی نہين۔ ادھر ادھر لوگوں کو ديکھنے لگی۔
وہ جو کچھ دير پہلے يشر کے ساتھ ايسے پيش آرہی تھی جيسے وہ دونوں بہت محبت کرنے والا کپل ہوں اب ساتھ بيٹھے يشر کی بولتی آنکھوں سے نظريں چرا رہی تھی۔
کيوں، کيسے اور کس ليۓ وہ يہ سب کر گئ تھی اب بھی اس کا جواب خود کو بھی نہيں دے پا رہی تھی۔
بس اتنا جانتی تھی کہ اسے يشر کا کسی لڑکی سے اتنا بے تکلف انداز پسند نہيں آيا تھا۔
"ميں پوچھ سکتا ہوں يہ کچھ دير پہلے کيا ہوا تھا"
"اف يہ تو بال کی کھال نکالنے بيٹھ گۓ ہيں" يشر کے سوال پر وہ نادم کيا ہوتا بلکہ وہ تو چڑ گئ۔
"کچھ نہيں آپ کو ايک نامحرم لڑکی سے بچا رہی تھی" شرمندہ ہوۓ بغير وہ اپنے مخصوص خود اعتمادی بھرے انداز سے بولی۔
"ہا ہا ہا اور يہ جو محرم سے خود کو بچانے کی کوشش ہے اس کا کيا؟" يشر کے سوال پر وہ جواب تو کيا ديتی يکدم موبائل نکال کر کان سے لگايا۔
"ہيلو جی امی بس نکل رہے ہيں اب"
"چليں اب بچے امی کو پريشان کر رہے ہيں" فون بند کرتے اس نے يشر کی جانب ديکھا اور پھر اس کی کھوجتی آنکھوں سے نظريں چرا کر آنکھيں جھکا گئ۔ جو ٹکٹکی باندھے نجانے اس کے چہرے پر کيا تلاش کر رہاتھا۔
کھانا کچھ دير پہلے ہی وہ کھا چکے تھے سو اب زيادہ دير رکنے کا کوئ جواز نہيں تھا۔
يشر گاڑی کی چابياں اٹھاۓ خاموشی سے اٹھ کر چلنے لگا اور وہ اسکی پيروی کرتی پيچھے آئ۔
"ارے آپ جا رہےہيں" جس لمحے وہ دونوں اس ڈنر کے ميزبانوں سے اجازت لے رہے تھے ربا پھر سے ان کی جانب آئ اور عزہ يشر کی جانب کھسکی۔
"جی بچے نانو کے گھر ويٹ کر رہے ہيں ہمارا" اب کی بار عزہ نے اس کی جانب سپاٹ لہجے ميں ديکھتے ہوۓ کہا۔
"اوہ نائس آپ کے بچے بھی ہيں۔ اچھا يشر ميں کچھ دنوں تک آپکے آفس آؤں گی مجھے کچھ اسپورٹس آئٹمز چاہئيں تو ميں مل کر ہی انکی کوانٹٹی بتاؤں گی" عزہ کو يکدم نظرانداز کرتی وہ پھر يشر سے مخاطب ہوئ۔
"اوکے ڈئير سی يو سون" يشر کی جانب اپنا ہاتھ بڑھاتی وہ مسکرا کر بولی۔
يشر حقيقت ميں گھبرا کيا تھا۔
عزہ نے شرر بار نگاہوں سے اسکی جانب ديکھا مگر چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوۓاس کاہاتھ تھاما۔
"نائس ٹاکنگ ٹو يو ڈئير۔ بٹ ان فارچونيٹلی يشر ڈزنٹ لائک دس کائنڈ آف فرينکنيس ود ان نون گرلز ہوپ يو ڈونٹ مائنڈ، شيل وی گو ناؤ" بڑے اعتماد سے وہ ربا کو اس کی جيثيت باور کراگئ تھی۔ يشر اس کے اسی اعتماد کا تو ديوانہ تھا۔ آخری جملہ يشر سے کہتے وہ يشر کے ساتھ آگے قدم بڑھا چکی تھی۔
"اف کس قدر ڈھيٹ لڑکی تھی۔ چپکی چلی جارہی تھی" جيسے ہی يشر نے گاڑی آگے بڑھائ عزہ کے تبصرے شروع ہوۓ۔
"خير چپک وہ تو نہيں رہی تھی" يشر کی دھيمی مگر جتاتی مسکراہٹ نے عزہ کو جو سمجھانا چاہا وہ بڑی اچھی طرح سمجھ گئ۔
"ہاں تو بيوی ہوں آپ کی" وہ اس وقت جو جيلسی محسوس کر رہی تھی باقی تمام احساسات پر يہ ايک احساس غالب آچکا تھا۔اور وہ نہيں جانتی تھی کہ وہ يشر کے سامنے حماقتيں کرکے وہ احساسات بھی عياں کر رہی ہے جن کو وہ خود سے بھی ماننے ميں تامل کا شکار تھی۔
"بيوی ی ی ی۔۔۔۔۔۔"يشر نے کسی قدر حيرت کا اظہار کيا۔ اب کی بار عزہ کو کچھ احساس ہوا اپنی حماقت کا تو خاموش ہوگئ۔
"ميرا تو خيال ہے ربا سے اب روز ہی ملنا چاہئيے کم از کم اس کی مہربانی سے بہت سے راز کھل رہے ہيں" اب کی بار يشر نے اسے چڑايا عزہ اب بھی خاموش رہی۔
"يہ ميں کيا کرنے چلی تھی" اسے اپنی کچھ دير پہلے کی حرکتيں سوچ کر خود پر غصہ آيا۔
جب کہ يشر اسکی باتيں اب تک انجواۓ کرتے زيرلب مسکرا رہا تھا۔
عزہ کے امی ابو کے گھر کے آگے گاڑی روکتے يشر نے يکدم عزہ کا گود ميں پڑا موبائل پکڑا۔
عزہ نے حيرت سے اس کی جانب ديکھا۔ يشر نے کال لوگ کھولتے عزہ کے سامنے کيا جہاں لاسٹ کال ميں يشر کی صبح والی کال تھی۔
يعنی وہاں سے اٹھتے ہوۓ عزہ نے ماں کے فون والا جھوٹ بولا تھا۔
"آپ کی ناک اب کتنی لمبی ہونی چاہيۓ" يشر اسے چڑاتے ہوۓ ہونٹوں ميں مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔
"ہر وقت ميری کھوج ميں نہ رہا کريں" عزہ سچ ميں
چڑ گئ يا اپنا آپ کھلنے پر غصہ ہوئ۔
يشر ہنستا ہوا گاڑی سے باہر نکلا۔وہ جان گيا تھا کہ عزہ اس کی محبت ميں اب بندھنے لگی تھی۔
_____________________-