"اسلام عليکم ہادی کی مدر بات کر رہی ہيں" وہ جو ابھی دوپہر کا کھانا بنا کے فارع ہی ہوئ تھی۔ گھڑی پر وفت ديکھا تو بارہ بجے تھے مطمئن ہو کر باہر لان ميں چلی گئ تھوڑی دير بعد اٹھ کر روٹياں بنا لينی تھيں تاکہ بچوں کے آنے سے پہلے کھانا ريڈی ہو۔
بچے ايک بجے آجاتے تھے۔
آج تو ويسے بھی بچوں کو يشر نے لے کر آنا تھا کيونکہ ڈرائيور چھٹی پر گيا ہوا تھا۔
وہ چاۓ کا کپ اٹھاۓ لان ميں پڑی کرسيوں پر آ کر بيٹھ گئ دو دن بعد آج دھوپ نکلی تھی تو اس نے سوچا تھوڑا دھوپ سے لطف اٹھايا جاۓ۔
ابھی وہ بيٹھ کر موبائل کھول کر بچوں کی تصويريں ديکھ ہی رہی تھی کہ بچوں کے اسکول سے فون آگيا۔
"جی ميں ہادی کی مدر ہوں" دل ميں ڈر جاگا۔
"ميں اس کی کلاس ٹيچر بول رہی ہوں۔ ہادی سلائيڈ سے گر گيا تھا اور کافی سيريس انجری آئ ہے اس کے سر ميں ہم نے ہاسپٹل بھيج ديا ہے پليز آپ لوگ بھی آجائيں" اس کی بات پر عزہ کو لگا اس کے پيروں تلے سے زمين کھسک گئ ہے۔ جلدی سے ہاسپٹل کا نام پوچھ کر اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوۓ يشر کو کال کی۔
"ہيلو کيسی ہيں عزہ مجھے ياد ہے ميں نے آج بچوں کو لينا ہے ميں بس نکل رہا ہوں" اس کا نمبر ديکھ کر وہ يہی سمجھا کہ عزہ نے اسے ياددہانی کے ليۓ فون کيا ہے کہ اس نے بچوں کو لينا ہے۔
"ميں نے آپ کو اسی ليۓ کال نہيں کی ہادی ہاسپٹل ميں ہے۔۔۔" اور پھر اس نے روتے ہوۓ اسے ساری بات بتائ۔
يشر بھی پريشان ہوگيا۔
"اوکے آپ سعد کو لے کر ہاسپٹل پہنچيں ميں يہيں سے ہاسپٹل نکل رہا ہوں۔ ميں چوکيدار سے کہتا ہوں وہ آپکو کيب کروا دے گا۔" يشر نے فوراّّ فون بند کرکے چوکيدار کو فون کيا۔
عزہ سعد کو سکول سے پک کرکے اسی کيب پر ہاسپٹل پہنچی يشر اس سے رابطے ميں رہا۔
ہاسپٹل کے باہر ہی وہ اسے کھڑا نظر آگيا۔
نجاے کيسے مگر عزہ کو اس لمحے وہ اسے اپنا سب سے بڑا غمگسار لگا۔
يشر نے کيب والے کو پيسے دئيے۔ عزہ تب تک سائيڈ پر سعد کا ہاتھ پکڑے کھڑی اپنے آنسو ضبط کرتی رہی۔
جيسے ہی يشر مڑ کر اسکے قريب آيا وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
"کيسا ہے ہادی آپ نے ديکھا ہے اسے" يشر اس سے پہلے پہنچ کر ہادی کو ديکھ چکا تھا۔
"کيا ہوگيا ہے عزہ اتنا چھوٹا دل ہے۔ کچھ نہيں ہوا ٹھيک ہے بس کچھ ٹانکے لگے ہيں بٹ ڈونٹ وری ٹھيک ہو جاۓ گا انشاللہ" ايک ہاتھ سے سعد کا ہاتھ اپنے ہاتھ ميں لے کر دوسرے ہاتھ سے عزہ کے گرد اپنا بازو لپيٹے اسے حوصلہ ديتے وہ دونوں کو ليۓ اندر کی جانب بڑھا۔
عزہ کو واقعی اس وقت جذباتی سہارے کی ضرورت تھی۔
يشر اسے ليۓ ہادی کے روم ميں آيا جہاں جہاں ہادی دوائيوں کے زير اثر سو رہا تھا اس کا سر پٹيوں ميں جکڑا ہوا تھا۔
عزہ اسکے بيڈ کی جانب بے اختيار ہو کر بڑھی۔ اسکے چہرے پر آہستہ سے ہاتھ پھيرتے اسکے بازو اور باقی جسم ٹٹولتے بس بے آواز آنسو بہاتی جا رہی تھی۔
يشر نے سعد کی جانب ديکھا جو ماں اور ہادی کو ديکھ کر روہانسا ہو رہا تھا۔
يشر نے آگے بڑھ کر عزہ کو کندھوں سے تھام کر اس کا رخ اپنی جانب کيا۔
عزہ نڈھال سی اسکے کندھے ميں منہ چھپاۓ اپنی سسکيوں کی آواز چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
وہ نہيں جانتی تھی کہ اسکے آنسو نہ صرف کسی کا کندھا بھگو رہےہيں بلکہ اس کے يہ آنسو يشر کے دل پر گر رہے تھے۔
"بس کريں عزہ اس طرح تو آپ اپنی طبيعت خراب کر ليں گی۔ سعد کو ديکھيں وہ پريشان ہو رہا ہے اس طرح سے آپ کو روتے ديکھ کر۔" يشر اسکے گرد بازو لپيٹے اسے حوصلہ دے رہا تھا۔
"مائيں تو بہت مضبوط ہوتی ہيں آپ اتنی کمزور دل کی کيسے ہيں۔۔ہاں۔۔۔بی بريو ميری عزہ تو بہت پاورفل ہے۔۔ہے نا" اس کا محبتوں سے چور لہجہ عزہ کی تکليف کو کم کر رہا تھا۔
وہ اسے نہيں بتا سکی کہ آج تمہارے ساتھ نے نہ صرف اسے حوصلہ ديا تھا بلکہ ايسا لگا تھا آج وہ اور اس کے بچے واقعی اس دنيا ميں اکيلے نہيں ہيں۔ يشر کسی آہنی ديوار کی طرح ان سب کو سنبھالے ہوۓ تھا تو پھر وہ اسکے سہارے کمزور کيوں نہ پڑتی جب وہ اسے سنبھالنے والا تھا تو اسے بہادر ہو کر کيا کرنا تھا۔
آج اسے ماں کی کہی بات سمجھ آگئ تھی کہ ايک مرد کے بنا عورت اس معاشرے ميں ايک قدم نہيں اٹھا سکتی۔
جس وقت وہ ہاسپٹل پہنچی ڈاکٹروں سے بات، ہادی کا ٹريٹمنٹ سب کچھ وہ خود کروا چکا تھا۔
اور اب اسے اور سعد کو سنبھال رہا تھا۔ يہ پہلا موقع تھا جب عزہ کے دل نے اسکے خلوص اور محبت کو مان کر اسکے بارے ميں مثبت انداز سے سوچا تھا۔ ہاں اس کی محبت کو ماننے ميں اب بھی وہ ہچکچا رہی تھی۔
"ممی کيوں ايسے روتی جا رہی ہيں" سعد انکے پاس آکر کھڑا ہوتے يشر کا ہاتھ تھام کر بولا۔
عزہ نے يشر سے الگ ہوکر اپنے آنسو صاف کيۓ۔
"کچھ نہيں بيٹا بھائ کو چوٹ لگی ہے نا تو ممی پريشان ہوگئيں تھيں۔ بٹ ناؤشی از اوکے۔بابا نے ممی کو سمجھايا ہے کہ بھائ ٹھيک ہے اسے کچھ نہين ہوا۔ چلو اب ميرا بيٹا بتاۓ اس نے کيا کھانا ہے" يشر نے عزہ کے وجود سے اپنے ہاتھ پيچھے کرتے سعد کو گود ميں اٹھا کر بہلايا۔
"برگر کھانا ہے يا پزا" اس نے خود ہی سعد کو دو آپشنز دي
"برگر" سعد نے تھوڑا سا سوچ کر کہا۔
"اوکے گريٹ۔ عزہ آپ کيا لوگی" اب اس نے عزہ سے پوچھا۔
"کچھ نہيں ابھی دل نہين کر رہا" اس نے بھيگی آواز ميں کہا۔
"پھر وہی بات۔۔ڈانٹ کھاؤ گی اب آپ ميرے سے" يشر نے کسی قدر خفگی سے کہا۔
"ميں منگوا رہا ہوں آپکے ليۓ بھی چپ کرکے کھانا ہے نہيں تو ايک ڈرپ آپ کو لگوا دوں گا۔ شکل ديکھو اپنی کس قدر پيل ہوگئ ہے ہادی کو ديکھنے کےبعد" يشر کا فکرمند انداز اسکی دھڑکنيں بڑھا رہا تھا۔
کچھ دير بعد کھانے سے فارغ ہوۓ تو ہادی کو بھی ہوش آگيا۔
ماں کو ديکھ کر وہ بھی کچھ ريليکس ہوا اور گھر جانے کی ضد کرنے لگا۔
ڈاکٹرز نے ايک رات رکنے کو کہا کيونکہ ابھی اس کو ڈرپس لگانی تھيں۔ جو کہ دوائ کی صورت ميں نہيں دی جا سکتی تھيں۔
يشر نے عطيہ بيگم اور فرحان صاحب کو فون کرکے سعد کو لے جانے کا کہا بھيجنا تو وہ عزہ کو بھی چاہتا تھا مگر عزہ وہاں سے ايک سيکنڈ کے ليۓ ہلنے کو تيار نہيں تھی۔
عطيہ بيگم اور فرحان صاحب کجھ دير کيليۓ آۓ، تھوڑی دير بيٹھے پھر سعد کو لے کر چلے گۓ کہ اسے بہت نيند آ رہی تھی۔
بچوں کے کچھ کپڑے عطيہ بيگم کے پاس پڑے تھے لہذا انہيں کوئ مسئلہ نہيں تھا وہ سعد کو لے کر جاچکے تھے۔
انکے جاتے ہی ہادی يشر سے باتوں ميں مصروف ہو گيا تو عزہ نے اٹھ کر کمرے کے ساتھ بنے اٹيچڈ باتھ سے وضو کيا اور ايک کپڑا بچھا کر مغرب کی نماز پڑھنے کھڑی ہوگئ۔ کچھ نوافل پڑھے۔
اس کے نماز ختم کرنے تک ہادی ايک مرتبہ پھر غنودگی ميں جاچکا تھا۔
يشر بھی ہاسپٹل ميں تعمير کردہ مسجد ميں نماز پڑھنے جا چکا تھا۔
واپس آيا تو اس کے ہاتھ ميں چاۓ کے دو مگ تھے۔
ايک کپ اسے تھماتے وہ اسکے قريب ہی صوفے پر بيٹھ گيا۔
"آپ گھر جا کر چينج کر آتے" عزہ نے اسے آفس کے کپڑوں ميں ديکھتے ہوۓ کہا۔ بليک ڈريس پينٹ اور اسکائ بليو اور سفيد پٹيوں والی شرٹ پہنے لائٹ بلو ہی ٹائ لگاۓ شرٹ کی بازوئيں فولڈ کيۓ ہوۓ تھا۔
"کوئ بات نہيں آپ کو يہاں اکيلا چھوڑ کر نہيں جا سکتا۔ ميں نے رب نواز کو کہا ہے وہ ابھی اپنی بائيک پر کپڑے دے جاۓ گا" اس کا پرواہ کرتا لہجہ عزہ کو لمحہ بہ لمحہ اس کی جانب کھينچ رہا تھا مگر وہ اپنی نام نہاد غلط فہميوں سے نکلنا نہيں چاہ رہی تھی۔
"سحر کی نيکسٹ منتھ شادی ہے"
"جی مجھے کل ہی اس نے کال کرکے بتايا تھا وہ تو اب آفس چھوڑ چکی ہے نا؟" عزہ نے بتاتے استقسار بھی کيا۔
"ہاں جاب چھوڑ دی ہے" يشر نے اسکی بات کی تائيد کی۔
"تو اب آپ سيکرٹری کا کيا کريں گے" عزہ نے ايسے ہی پوچھ ليا۔
"آپ مجھے جوائن کر ليں نا" يشر جو سامنے ديکھتا چاۓ پی رہا تھا گردن موڑ کر مسکراتے ہوۓ عزہ کو ديکھنے لگا۔
"ہاں تاکہ پھر کہيں نہ گھر ميں سکون ملتا ہے نا آفس ميں" نا جانے کس جذبے کے تحت وہ کہہ گئ۔
يشر نے بے اختيار قہقہہ لگايا۔
"نہيں ايسا نہيں ہوگا بنکہ آپ کے قريب رہنے کا زيادہ موقع ملے گا" يشر کی بات پر اس نے چاۓ ختم کرتے ہی وہاں سے اٹھنے ميں عافيت جانی اور خوامخواہ ہادی کے بيڈ کے فريب آکر اسکی دوائيوں کے نام چيک کرنے لگی۔
کچھ دير بعد جب وہ عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئ۔ عطيہ بيگم نے ہادی کے ليۓ يخنی اور ان دونوں کے ليۓ کھانا بھجوا ديا تھا۔ ہاسپٹل ان کے گھر کے قريب ہی تھا لہذا انہوں نے چيزيں تيار کرکے يشر کو فون کر ديا وہ جا کرو چيزيں لے آيا۔ تب تک اس کا چوکيدار بھی يشر کے کپڑے لے آيا تھا۔
يشر نے چينج کرکے پہلے ہادی کو يخنی پلائ پھر اس کو سٹوری سنانے لگا۔
عزہ اتنی دير ميں ہادی کی صحت يابی کے لئيے کوئ وظيفہ پڑھنے لگی۔ اسٹوری سنتے ای ہادی دوائيوں کی وجہ سے سو گيا۔
"عزہ کچھ کھا ليں" يشر نے کھانا نکالتے ہوۓ کہا۔ اسکے وظيفہ بھی پورا ہی ہونے والا تھا وہ ہاتھ کے اشارے سے يشر کو شروع کرنے کا کہنے لگی۔
"آپ آئيں گی تو شروع کروں گا" وہ بھی اپنے نام کا ايک تھا۔
ايک اور بيڈ جو اٹينڈينٹ کے ليۓ موجود تھا وہاں بيٹھا وہ عزہ کو ديکھ رہا تھا۔
جو صوفے پر بيٹھی شال کو نماز کے سٹائل ميں اپنے گرد لپيٹے ايک ہاتھ پر گن رہی تھی اور دوسرے ہاتھ ميں موبائل کھولے اس ميں سے کوئ آيات پڑھ رہی تھی۔
مائيں کتنی پياری لگتی ہيں اپنی اولاد کے ليۓ فکر ميں حلقان ہوتيں۔
جب کبھی وہ بھی کسی تکليف سے گزرتا تھا تو فريحہ بيگم بھی اس وقت صرف ايک ماں بن جاتی تھيں۔ دنيا کا ہر ضروری کام چھوڑ چھاڑ وہ صرف اپنی اولاد کے ليۓ فکر مند ہوتی تھيں۔
ماں کوئ بھی ہو اپنی اولاد کے ليۓ محسوسات ہر ماں کے ايک جيسے ہوتے ہيں۔ محبت اور فکرميں گندھے ہوۓ۔
جيسے ہی وہ وظيفہ ختم کرکے اٹھی پہلے ہادی کی جانب گئ پہلے اس پر پھونک ماری۔
پھر يشر کی جانب آکر ناراضگی بھری نگاہ اس پر ڈالی۔
"ابا ہميشہ کہتے ہيں جب کھانا سامنے پڑا ہو تو اسے انتظار نہيں کرواتے" اس نے کسی استانی کے سے لہجے ميں يشر کو کہا۔ اس کے سامنے بيٹھتے ہوۓ پليٹ ميں پہلے يشر کو سالن ڈال کر ديا پھر اپنے ليۓ نکالا۔
"آپ ميرے ليۓ کب ايسے فکر مند ہو کر پڑھ کر کچھ پھونکيں گی۔" يشر نے اسکی پہلی بات ان سنی کرتے اپنا ہی راگ الاپا۔
"اللہ نہ کريں۔ کتنی فضول باتيں کرتے ہيں آپ" جس طرح دہل کر اس نے يشر کو ٹوکا۔ يشر کا دل کيا اسے دل ميں چھپا لے۔ اس کاگريز اسے ہر بار اور بھی عزہ کی جانب کھينچتا تھا۔
ابھی گريز تھا تو وہ اسکی محبت ميں ہر گزرتے دن پہلے سے زيادہ مبتلا ہو رہا تھا جو اگر وہ بھی اس محبت ميں مبتلا ہو جاۓ پھر تو عشق کے مراحل ہی طے ہوں گے۔ يشر يہ سب بس سوچ سکا۔ ابھی کہنے کا وقت نہيں آيا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد يشر اسے بيڈ پر ليٹنے کے ليۓ زور دينے لگا۔
"مجھے ابھی نيند نہيں آ رہی آپ ليٹ جائيں صبح کے تھکے ہوۓ ہيں ميں يہاں صوفے پر ايزی ہوں" اس نے يشر کو سمجھانا چاہا مگر وہ کچھ سننے پر تيار نہيں تھا۔
"آپ بھی تھکی ہوئ ہيں بلکہ رو رو کر اور بھی تھک گئ ہيں۔ چليں شاباش ليٹيں آکر" وہ بيڈ کے قريب کھڑا اسے زبردستی بيڈ پر ليٹے کے ليۓ اصرار کر رہاتھا۔
"اف کس قدر ضدی ہيں آپ۔۔۔ممی سے آپکو ٹھيک کرنے کا طريقہ پوچھوں گی۔" عزہ اسکی ضد کے آگے زچ ہوتے ہوۓ بولی۔
"ماؤں اور بيوؤں کے قابو کرنے کے طريفے الگ الگ ہوتے ہيں۔ اور وہ کيا ہوتے ہيں اس پر پھر کبھی فرصت ميں آپ کو کلاس دوں گا ابھی تو ليٹيں" اس نے معنی خيزی سے کہتے اسے دوبارہ بيڈ پر آنے کا اشارہ کيا۔
"تو آپ کہاں ليٹيں گے" عزہ بيڈ پر بيٹھی اب اس کے ليۓ فکر مند تھی۔
"ميں بھی ليٹ جاؤں گا ابھی آفس کا تھوڑا سا کام کرنا ہے پھر ليٹ جاؤں گا" اس نے اپنے ليپ ٹاپ کی جانب اشارہ کيا جو اس نے اپنے کسی ورکر سے ہاسپٹل ہی منگوا ليا تھا۔
عزہ اب کی بار خاموشی سے ليٹ گئ۔ وہ واقعی اعصابی طور پر اتنی تھکی ہوئ تھی کہ ليٹتے ساتھ ہی سو گئ۔
يشر جو صوفے پر بيٹھا کام شروع کر چکا تھا نظر ليپ ٹاپ سے ہٹاتا عزہ کو ديکھا جوسردی سے سمٹی ہوئ تھی۔
يشر نے اٹھ کر اس پر کمبل ديا پھر پيچھے ہٹتے اس کے صبيح چہرے کو ديکھا۔
"نجانے آپ کب مجھے اپنا مانيں گی" خود سے مخاطب ہوتا وہ جھکا اور اپنے لب اسکی پيشانی پر رکھ دئيے۔
"ويٹںگ فار يو ڈيسپريٹلی" سرگوشی کرتا وہ واپس صوفے پر بيٹھ کر اپنا کام کرنے لگا۔ مگر دھيان اب کام ميں کہاں لگ رہا تھا وہ تو اس سوۓ ہوۓ وجود ميں تھا جو اس کے حواسوں پر چھا رہا تھا۔
وہ يکدم ليپ ٹاپ بند کرکے کھڑکی ميں آ کھڑا ہوا جہاں ہر طرف جامد خاموشی تھی يا اس کو محسوس ہورہی تھی۔
مڑ کر واپس آيا ہادی کے بيڈ کے قريب رکھی کرسی پر بيٹھا۔ ٹانگيں بيڈ پر جما کر نيم دراز سا ہوگيا آنکھيں موند ليں۔
______________________
صبح جس وقت عزہ کی آنکھ کھلی يشر کو ہادی کے بيڈ کے سامنے پڑی کرسی پر سويا ہوا پايا۔ نجانے کيوں مگر دل اسکی اچھائ کو ماننے کے ليۓ ضد باندھ گيا تھا۔
عزہ اٹھ کر يشر کے قريب گئ۔ اسے ساری رات پتہ نہيں چلا کب کب ہادی اٹھا ہے۔ يشر نے ساری رات اسکے قريب اسی ليۓ گزاری تھی کہ اسکی ايک آواز پر وہ اٹھ جاۓ اور عزہ کی نيند خراب نہ ہو۔
يہ کيسا رشتہ وہ نبھا رہا تھا اب تک ايک مرتبہ بھی صلے کی چاہ نہيں کی تھی۔ وہ تو بس بے لوث محبت ان تينوں کو دے رہا تھا۔ کيا ابھی بھی اس کے خلوص ميں کسی شک کی گنجائش تھی۔ اب ايک نئ جنگ عزہ کے اندر چھڑ چکی تھی۔
يشر پر اعتماد کرنے اسے اپنا سب کچھ ماننے کی۔ وہ اپنی سوچوں سے گھبرا کر بے اختيار اسے آواز دے بيٹھی۔
جس نے عزہ کی ايک آواز پر جھٹ سے آنکھيں کھول ديں۔
"ميری نيند پوری ہوگئ ہے آپ بيڈ پر جا کر ليٹ جائيں کچھ دير" اس نے رسانيت سے اسے کہا جس کی خوابيدہ آنکھيں عزہ کادل اور ہی لے ميں دھڑکا گئيں تھيں۔
"اگر ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوئ ضرورت پڑے يا کوئ ميڈيسن لانی ہو تو آپ نے خود نہيں جانا مجھے اٹھا لينا ہے۔" يشر نے کرسی سے اٹھتے اسے تنبيہہ کی۔
"ٹھيک ہے" اس نے ہامی بھری۔
جس وقت ڈاکٹر راؤنڈ پر آيا اس نے ہادی کی کنڈيشن ديکھتے انہيں ہادی کو ڈسچارج کرنے کی اجازت دے دی۔
عزہ نے شکر کيا۔
ہادی کو لے کر پہلے وہ عطيہ بيگم اور فرحان صاحب کی جانب گے۔ انہيں ہادی سے ملوا کر سعد کو بھی ساتھ ليۓ وہ واپس گھر پہنچے۔
کچھ دنوں ميں عزہ اور يشر کی مکمل توجہ سے ہادی جلد ہی صحتياب ہو گيا۔
اس کے ٹھيک ہوتے اور ٹانکے کھلتے ہی يشر نے داتا دربار جا کر ديگيں ديں۔
____________________________