"اب تم کيا چاہتی ہو" سحر جو نہ صرف اسکی بہت اچھی دوست تھی بلکہ اسکے ہر دکھ درد سے واقف تھی۔
"ميں تو کنفيوز ہو کر رہ گئ ہوں۔ انہوں نے بات ہی ايسے کی کہ نہ ميں کوئ اور سوال نکال سکی اور نہ کچھ اور کہہ سکی" اس نے افسوس سے کہا۔
"تو تمہارے خيال ميں وہ لمبے سے عشقيا ڈائيلاگز بولتے۔اپنی محبت کے واسطے ديتے اپنی عشق کی داستان سنا کر پھر تمہيں پرپوز کرتے" سحر نے اسے بھرپور لتاڑا۔
"نہيں پاگل مگر آخر وہ کس وجہ سے پھر مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہيں۔ جنہوں نے کبھی آفس کی باتوں کے علاوہ مجھ سے بات تک نہيں کی۔ کبھی ايک غير ارادی نظر کے علاوہ دوسری نظر مجھ پر نہيں ڈالی انہوں نے اتنا بڑا فيصلہ کيسے کر ليا چلو ميں کنواری ہوتی تو کوئ بات بھی تھی ميرے دو بچوں کو وہ قبول کرنے پہ تيار ہيں تو کيا يہ سب باتيں الجھانے کے ليۓ کافی نہيں۔" اس نے اب کی بار تفصيل سے اپنی سوچوں کو شيئر کيا۔
"تو ميری جان اسکے ليۓ تم ان سے شادی کرلو سب پتہ چل جاۓ گا۔ بے وقوف وہ کوئ ٹين ايجر ہيں جو تمہارے پيچھے پيچھے گانے گاتے تمہيں اپنی محبت کا يقين دلائيں گے۔ بہت سے لوگ اتنے پريکٹيکل اور کلچرڈ ہوتے ہيں کہ ہر ايک کے سامنے خود کو ايکسپوز نہيں کرتے اور تمہارا اور ان کا تو ابھی کوئ رشتہ ہی نہيں بنا۔ ديکھو تم خود چاہتی تھيں کہ تم ايسی جگہ شادی کروگی جہاں کوئ تمہيں تمہارے بچوں کے ساتھ قبول کرے اب جب وہ تيار ہيں تو تمہيں کيا اعتراض ہے" سحر نے اسے رسان سے سمجھايا۔
"اف تم ميری بات نہيں سمجھ رہی۔ بلکہ کوئ بھی نہيں سمجھ رہا۔ ايسا لگتا ہے انہيں کسی نے خواب ميں کہا جاؤ اس لڑکی سے شادی کرلو اور وہ رشتہ ليۓ ميرے گھر آگۓ۔ اگر انکے دل ميں ايسی کوئ بات تھی تو مجھے کيوں نہيں محسوس ہوئ"
"تم اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی پاگل کردوگی۔ يہ شکر نہيں کرتيں کہ اگر کسی بندے کو تم بالفرض پسند آبھی گئ ہو تو وہ مہذب طريقے سے تمہارے گھر رشتہ لے آيا ہے۔ اگر وہ تمہيں پہلے اپنی پسند کا بتاتے تو مجھے يقين ہے کہ اگر اب تم انکے بارے ميں سوچ بھی رہی ہو تو تب تم نے سيدھا انکے منہ پر انکار مارنا تھا۔
دوسری بات يہ کہ اللہ نے جن کے نصيب جہاں لکھے ہوتے ہيں وہ وہاں پہنچ کر رہتے ہيں۔ اب انہيں ايک رات ميں تمہارا خيال آيا يا دس راتوں ميں يہ بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
ميری مانو سب اللہ پر چھوڑ کر اس رشتے کے ليۓ ہامی بھر لو۔ انکل آنٹی جتنا تمہارے ليۓ پريشان ہيں تم اس بات کو سيريس نہيں لے رہی ہو۔ اپنا نہ صحيح اپنے بچوں کا سوچو اکيلی رہ گئيں تو کيسے ان کا سہارا بنو گی۔
ابھی تو تم جاب پر ہوتی ہو تو آنٹی انکل انہيں سنبھالتے ہيں کل کو جاب کرو گی يا انہيں ديکھوگی۔"
"اب ميں غيروں کے پيسوں پر اپنے بچوں کو پالوں گی"
"تمہاری منفی سوچ تمہيں نہيں مگر تمہارے بچوں کو ضرور نقصان پہنچاۓ گی۔
عقل بند لڑکی! جب وہ منہ سے کہہ رہے ہيں کہ وہ تم سب کی ذمہ داری اٹھائيں گے تو تمہيں کيا پرابلم ہے" سحر کا دل کيا يا تو اپنا يا عزہ کا سر ديوار ميں مار دے جس کی سوئ نجانے کہاں اٹکی ہوئ تھی۔
"يار تم گھر جا کر استخارہ کرو اگر وہ تمہارے ليۓ اور تمہارے بچوں کے ليۓ صحيح نہ ہوۓ تو يقيناّّ اللہ تمہاری رہنمائ فرمائيں گے۔ سب کچھ اللہ پر چھوڑ کر صرف يہ سوچز يہ موقع تمہيں دوبارہ نہيں ملے گا۔ جہاں کوئ خلوص سے تمہاری ذمہ دارياں نبھانے کا خواہشمند ہے" سحر کی بات اسکے دل کو لگی۔
___________________________
"آخر اب تم ہميں کوئ جواب دوگی يا پھر ہم اپنا فيصلہ کريں" عطيہ بيگم جو کچھ دير پہلے ہی فرحان صاحب کے ساتھ جا کر يشر کے گھر اس سے ملنے گئيں تھيں۔ واپس آکر عزہ کے سر ہو گئيں۔
"مجھ سے پوچھ کر گئيں تھيں آپ۔" وہ ناراضگی سے بولی۔
"تو تم نے کيا ساتھ جانا تھا" وہ بھی اسی کی ماں تھيں اسے ہينڈل کرنا آتا تھا۔
"کيا ہوگيا ہے آپکو يہ تھوڑی کہا ہے" وہ دونوں اس وقت لاؤنج ميں آمنے سامنے بيٹھيں بحث و تکرار کر رہيں تھيں۔ فرحان صاحب دونوں بچوں کو لے کر قريبی پارک گۓ ہوۓ تھے۔ دونوں جڑواں تھے اور چھ سال کے تھے۔ سکول جاتے تھے۔
"تو پھر کيا کہنا چاہ رہی ہو۔ ديکھو عزہ تمہاری احمقانہ باتوں ميں پڑھ کر اب ميں اتنا اچھا رشتہ نہيں چھوڑ سکتی ويسے بھی ميں رات کو استخارہ کرکے ہی آج اسے ديکھنے گئ تھی۔ اور اسے ديکھنے اور ملنے کے بعد مجھے جتنا اطمينان ہوا ہے تو مجھے يقين آگيا ہے کہ يہ لڑکا تمہارے اور بچوں کے ليۓ بہت اچھا ثابت ہوگا۔ جتنی محبت سے وہ آج دونوں بچوں کا ذکر کر رہا تھا ميں تمہيں بتا نہيں سکتی" وہ تو بس اسکی تعريف ميں زمين و آسمان کے قلابے ملا رہيں تھيں۔ عزہ کو تو ايسا ہی لگا۔
اس نے کوئ توجہ نہ دی۔
"جن بچوں کے ليۓ تم نے يہ شرط رکھی تھی ميں انہی کا واسطہ ديتی ہوں کہ تم اب اس رشتے سے انکار رہ کرو" انہوں نے اب کی بار يہ آخری حربہ استعمال کيا۔
"کيا ہوگيا ہے امی ايسے تو مت کہيں" اب کی بار وہ تڑپ اٹھی۔
"ٹھيک ہے آپ انہيں ہاں کہہ ديں مگر سعد اور ہادی اسی دن ميرے ساتھ يہاں سے جائيں گے جس دن ميں رخصت ہوں گی مجھے کچھ دن بعد انہيں ساتھ لے جانے والی کہانی مت سنائيۓ گا۔ اور کوئ ہنگامہ نہ ادھر سے ہوگا نہ انکی جانب سے بہت سادگی سے نکاح ہوگا۔" اس نے انکی بات مانتے اپنی کچھ اور شرطيں رکھيں۔
اور اسکے ہاں کرتے تو ايسے لگا دونوں طرف کی پارٹياں اسی انتظار ميں تھيں پندرہ دن کے اندر اندر سب تيارياں مکمل ہوگئيں۔
يشر نے کچھ بھی جہيز کے نام پر لينے سے صاف انکار کرديا تھا۔
نکاح ميں عزہ کی جانب سے کوئ خاص مہمان نہيں تھے۔ جبکہ يشر کی جانب سے بھی انکے گھروں کے سربراہان ہی آۓ تھے۔
عزہ نے بہت ہلکے سے کام والی آف واٹ شرٹ اور ٹراؤزر پہن رکھا تھا جس کے بارڈر پر پلم پٹی لگی ہوئ تھی۔ زيور کے نام پر گلے ميں چين اور کانوں ميں چھوٹے سے ٹاپس تھے۔ ہاتھوں ميں يشر کی امی نے کڑے پہناۓ تھے۔ سحر نے ہی اسے تھوڑا بہت تيار کيا تھا مگر وہ اتنی سی تياری کے ساتھ بھی بے حد خوبصورت لگ رہی تھی۔
جبکہ يشر نے آف وائٹ شلوار قميض کے اوپر بليک واسکٹ پہنی ہوئ تھی۔
نہ کوئ مہندی ہوئ تھی اور نہ ہی کوئ اور ہنگامہ۔ نکاح کرتے ساتھ ہی رخصتی ہوگئ تھی۔ عزہ صرف آنے والے وقت کی سوچ ميں تھی۔ ايک اطمينان يہ تھا کہ بچے اسکے ساتھ جا رہے تھے۔
اور اسی گاڑی ميں تھے جس ميں عزہ تھی۔
"ممی آج آپ کتنی کيوٹ لگ رہی ہيں فيری کے جيسے ہے نا ہادی" وہ دونوں بار بار ماں کو حيرت سے ديکھ رہے تھے اور خوش بھی ہو رہے تھے۔
يشر بابا سے انکی بہت دوستی ہوگئ تھی۔ نانو نے انہيں بتايا تھا کہ اب وہ انکے بابا ہيں اور وہ اب انکے ساتھ، انکے گھر رہيں گے۔
عزہ نہيں جانتی تھی کہ ماں نے بچوں کی کيا برين واشنگ کی ہے۔
جيسے ہی وہ لوگ يشر کے گھر پہنچے تو اس کا شاندار گھر ديکھ کر ايکسائيٹڈ ہوۓ جا رہے تھے۔
عزہ نے جيسے ہی گاڑی سے اتر کر اندر قدم رکھا پھولوں کی پتيوں سے اسکا استقبال کيا۔
جس پر اس نے دل ميں ناگواری محسوس کی۔
فيحا آپا اور بھابھی اسے بہت پيار سے تھامے لاؤنج ميں لے کر آئيں۔
جبکہ بچے دونوں يشر کے ساتھ ساتھ تھے۔
"اچھا مجھے يہ بتائيں کہ رات کو آپ ميں سے کون کون دودھ پيتا ہے۔" وہ دونوں کو اپنی ايک ايک ٹانگ پر بٹھاۓ عزہ کے سامنے والے صوفے پر بيٹھا تھا۔
سب دونوں بچوں کی باتوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ سب نے انہيں بہت پيار ديا تھا۔
اور اتنے ہی پيار سے قبول کيا تھا مگر عزہ کو يہ خلوص دکھائ نہيں دے رہا تھا۔ اسے ايسا لگ رہا تھا کہ يشر اسکے بچوں کو سيڑھی بنا کر اس تک پہنچے گا۔ اور وہ اسے اس سازش ميں کامياب نہيں ہونے دينا چاہتی تھی۔ وہ يہ تعلق ہميشہ نبھانے کے ليۓ نہيں آئ تھی۔
وہ اسے اب اتنا زچ کرےگی کہ يشر خود ہی کوئ اور راہ نکالے۔
جبکہ يشر اسکے ارادوں سے بے نياز بچوں کی باتوں ميں مگن تھا۔
"ہم دونوں پيتے ہيں اور آپکو پتہ ہے يشر بابا ممی کہتی ہيں کہ دودھ پيوگے تو سب سے زيادہ پاورفل ہوجاؤگے اتنے جتنا سپائيڈر مين" سعد نے بڑے جوش سے بتايا۔
"واؤ آپکی ممی تو بالکل ٹھيک کہتی ہيں" اس نے سعد کی ممی کی سوچ کو سراہا جبکہ وہ اسے يشر بابا بلانے پر حيرت زدہ رہ گئ۔
"چلو بھئ بچو اب ليٹنے کی تياری کرو کل پھر ريسيپشن کی تياری کرنی ہے" فريحہ بيگم نے سب کو وقت کی نزاکت کا احساس دلايا۔
"دادو ہمارا روم کون سا ہے" عزہ کو تو آج شاکس پر شاکس مل رہے تھے اس کے بچوں کو کب اور کس نے ان نۓ رشتوں کے بارے ميں بريف کيا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ پھر سب سے پہلا شک يشر پر ہی گيا۔
اور يہ بچے روم کی بات کيوں کر رہے ہيں وہ تو کبھی ميرے بغير نہيں سوۓ تو يہ روم کا کس نے کہا ان سے۔۔۔اسے لگا وہ پہلے دن بلکہ اپنی شادی کی اس پہلی رات ہی پاگل ہو جاۓ گی۔
"ارے ميری جان آؤ ميں تمہيں تمہارا روم دکھاتی ہوں تمہارے يشر بابا نے بہت خوبصورت ڈيکوريٹ کروايا ہے تم لوگوں کے ليۓ۔" فريحہ بيگم يشر کے قريب جاتے ان دونوں کے ہاتھ تھامے ايک کمرے کی جانب چل پڑيں۔
"آؤ عزہ" فريحہ آپا اور تحريم بھابھی اسے تھام کر يشر کے روم ميں لے آئيں۔
جہازی سائز بيڈ کمرے کے وسط ميں تھا۔ اسکے بالکل سامنے ديوار مين ايل ای ڈی نسب تھی جس کے نيچے بليک کلر کی بہت خوبصورت بک ريک بنايا گيا تھا۔
بيڈ کے بائيں جانب چھوٹی سی راہداری تھی جس ميں المارياں بنی ہوئيں تھيں يہيں ايک چھوٹا سا ڈريسنگ روم اور آخر ميں واش روم کا دروازہ تھا۔
کمرے ميں کوئ اضافی سامان اور فرنيچر نہيں تھا۔
بيڈ کے سائيڈ ٹيبلز کے ساتھ ايک کونے ميں ديوار کے ساتھ بہت خوبصورت ليمپ تھا۔ کمرے ميں کھڑکی کی جگہ گلاس کا سلائيڈنگ ڈور تھا جو پچھلی جانب لان ميں کھلتا تھا۔ دروازے کے آگے کچھ جگہ چھوڑ کر خوبصورت سا گارڈن سوئنگ تھا جس کے سامنے سے دو اسٹيپس اتر کر لان ميں جانے کا راستہ تھا۔
کمرے ميں کوئ خاص ڈيکوريشن نہيں کی گئ تھی۔ صرف بيڈ کے سائيڈ ٹيبلز پر دو بکے رکھے گۓ تھے۔
فيحا اور تحريم نے اسے بيڈ پر بٹھايا۔
"ہم ايزی ہو کر ٹانگيں اوپر کرکے بيٹھو۔ ميں کچھ کھانے کو بھيجتی ہوں" وہ سر ہلا کر تکيے کے ساتھ ٹيک لگا کر ٹانگيں اوپر کرکے بيٹھ گئ۔
پہلے دل ميں آيا بچوں کے بارے ميں ان سے بات کرے پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگئ۔
وہ دونوں اسے بيسٹ وشز ديتی کمرے سے باہر چلی گئيں۔
"کس مصيبت ميں پھنس گئ ہوں۔ پتہ نہيں ميرے بچے کيا کر رہے ہوں گے۔ کتنے چالاک نکلے سر کيسے ميرے بچوں کو اپنا گرويدہ بنا ديا۔ ہمم۔۔۔۔ميں بھی کوئ اتنی بچی نہيں کہ ان کا مقصد نہ سمجھ سکوں۔ سوچا ہوگا کچھ دن اچھا بن کر مجھے قابو کر ليں گے اور پھر ميرے بچوں کو دھتکار ديں گے۔ ميں تو مر کر بھی انہيں ايسے کسی ارادے ميں کامياب نہ ہونے دوں۔" وہ اپنے ہی تانے بانے بننے ميں لگی ہوئ تھی جو سب غلط فہميوں پر مشتمل تھے۔
کچھ دير بعد کمرے کا دروازہ کھلا تو وہ سيدھی ہو کر بيٹھ گئ اور آنکھيں ذرا جھکا ليں۔ جو بھی تھا يشر سے اس رشتے کے حوالے سے پہلی مرتبہ سامنا ہو رہا تھا۔ وہ جو ايک دوسرے سے گنے چنے الفاظ بولتے تھے اب ايک مضبوط رشتے ميں بندھ گۓ تھے جوپوری عالم کو اس دنيا ميں لانے کا سبب بنا تھا۔ يہ وہ پہلا رشتہ تھا جو اس دنيا ميں اللہ نے اتارا تھا حضرت آدم اور اماں حوا کی صورت باقی ہر رشتہ اس رشتے کے بعد اترا تھا۔
اسی ليۓ اللہ نے اس رشتے ميں اتنا گداز رکھا ہے کہ نکاح کے تين بول بولتے ہی محبت کا ايک انوکھا سا احساس دل ميں اتر جاتا ہے۔
مگر اس وقت يہ احساس صرف يشر کے دل ميں تھا۔ عزہ اپنی پراگندہ سوچوں کے سبب اس رشتے کے حوالے سے کچھ بھی نہيں محسوس کر پا رہی تھی۔ يا کرنا نہين چاہتی تھی يہ وہی بہتر جانتی تھی۔
"اسلام عليکم" يشر نے بيڈ پر بيٹھتے سلام کيا۔ مگر وہ اسکے پاس اور سامنے نہيں ٹانگيں لٹکاۓ کہنياں گھٹنوں پر رکھے ہاتھوں پر چہرہ ٹکاۓ زمين کی جانب ديکھ رہا تھا جيسے کچھ بولنے کے ليۓ الفاظ ترتيب دے رہا ہو
"وعليکم سلام ميرے بچے کہاں ہيں" اس نے سپاٹ لہجے ميں جواب ديا۔ اسکی بات پر يشر نے کچھ حيرت سے اسکی جانب ديکھا اور پھر زيرلب مسکرايا۔ يہ پہلی استحقاق بھری نظر تھی جو اس نے عزہ کے تنے ہوۓ نقوش پر ڈالی۔
وہ واقعی نہيں جانتا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت ہے کيونکہ پہلے کبھی اس نے اسے ديکھا ہی نہين تھا۔ اور آج جب محرم بن کر ديکھا تھا تو وہ اسے دنيا کی سب سے خوبصورت لڑکی لگی تھی۔
جب فيحا اور فريحہ بيگم نے اس دن واپس آکر عزہ کی خوبصورتی کی تعريف کی تھی تب اس نے کندھے اچکا دئيۓ تھے جيسے وہ اسے جانتا ہی نہ ہو۔
وہ واقعی اسکے خدوخال اور نقوش سے انجان تھا۔
"آپکے لہجے سے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ بہت سی غلط فہمياں دل ميں پال کر بيٹھی ہيں" اب کی بار رخ اسکی جانب کرکے ايک ہاتھ بيڈ پر رکھ کر ٹانگ بھی موڑ کر اوپر کی۔
"ايسی کوئ بات نہيں" عزہ نے فوراّّ نظريں جھکا کر اسکی بات کی نفی کی اس ڈر سے کے کہيں وہ اسکے دل کی بات اس کی نظروں سے نہ جان لے۔
"بچے دودھ پی کر ادھر ہمارے ساتھ ہی سوئيں گے۔ عزہ ميں ابھی آپکو کسی چيز کے ليۓ فورس نہين کروں گا۔ ميں جانتا ہوں کہ ايک تلخ تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتے ہوۓ بندہ انسيکيور ہو جاتا ہے۔ لہذا آپ جتنا وقت لينا چاہيں لے ليں مجھے کوئ اعتراض نہيں۔ اس دن جب آپ آفس ميں مجھ سے اس رشتے کے حوالے سے پوچھنے آئيں تھيں۔ تو ميں کچھ تسلی بخش جواب اسی ليۓ نہيں دے سکا کہ ميرے نزديک ايک مضبوط رشتے ميں بندھنے کے بعد ہی ميں آپ کو اس رشتے کو جوڑنے کا اصل مقصد بتا سکتا تھا۔
ميرے خيال ميں آج بالکل درست موقع ہے آپکے سوال کا جواب دينے کا کہ ايک دو بچوں کی ماں ميں مجھے کيا نظر آيا۔" نظريں جھکاۓ عزہ کے ہاتھوں پر نظريں ٹکاۓ بولتا ہوا عزہ کو کچھ لمحوں کے ليۓ ساکت ضرور کر گيا تھا۔
"ميرے نزديک مردانگی عورت کو توڑنے ميں نہيں بلکہ محبت کا مان دے کر جوڑنے ميں ہے۔ بس اسی ايک سوچ کے تحت آپکو اپنايا ہے۔ ميں اپنی ساری زندگی آپکے ان دکھوں کا مداوا کرنے ميں صرف کرنا چاہتا ہوں جو ميری صنف کے کسی مرد نے آپکو دئيے ہيں۔ کيا آپ مجھے اس سب کا موقع ديں گی؟" آخری سوال پر اس نے جس طرح نظريں اٹھا کر اسکا چہرہ جانچا تھا۔ اس کا يہ انداز عزہ کا دل بے حد زور سے دھڑکا گيا ۔
"مجھے کچھ وقت چاہئيے ہوگا" بہت دقت سے وہ يہ چند الفاظ ادا کرسکی۔ اس وقت تو اسکی پگھلاتی نظروں کے سامنے ٹھہرنا ہی اسے دنيا کا سب سے مشکل کام لگ رہا تھا کہاں وہ کچھ کہنے کی ہمت کرتی۔
"ضرور۔۔ميں انتظار کروں گا" اس نے مسکراتے ہوۓ اپنی خوبصورت مسکراہٹ سے کہا۔
"ميں بچوں کو چيک کرتا ہوں آپ چينج کرليں" کہتے ساتھ ہی وہ اٹھا۔ پھر يکدم رک کر مڑا
"ايک منٹ ايک منٹ۔۔۔" اپنی واسکٹ کی جيب ميں ہاتھ ڈالتے ہوۓ وہ بولا۔ عزہ بھی اٹھتے اٹھتے واپس بيٹھ گئ اور اچھنبے سے اسے ديکھا۔
"يہ آپکے ليۓ ايک چھوٹا سا گفٹ ليا تھا۔ مناسب سمجھيں تو پہن ليں" ايک خوبصورت سا کيس اسکی جانب بڑھاتے ہوۓ وہ اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ ديکھنے لگا۔
عزہ نے جھجھکتے ہوۓ وہ کيس پکڑا۔
"تھينکس" کہہ کر وہ پکڑ کر کھڑی ہوئ۔
"اس سائيڈ پر ڈريسنگ روم ہے آپ چينج کرليں" اسکے کہتے ساتھ ہی وہ اس روم کی جانب بڑھی۔
اندر آکر دروازہ لاک کرکے اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے کيس کھولا جس ميں ڈائمنڈ کا خوبصورت سا پينڈينٹ والا نيکلس تھا۔
عزہ نے اسے بند کرکے وہاں موجود الماری ميں رکھ ديا۔ اور کپڑے چينج کرکے باہر آگئ۔ جہاں بچے اور يشر اسکے منتظر تھے۔
"ممی آپ بہت پياری لگ رہيں تھيں آپ نے چينج کيوں کيا" سعد جو بے حد ذہين تھا عزہ کو پہلے والے حليے ميں ديکھ کر يکدم بولا۔
"بيٹے وہ فنکشن کے ليۓ ہوتا ہے۔ اب وہ ختم ہوگيا اسی ليۓ ممی نے بھی چينج کرليا۔ آپ کو کس نے کپڑے چينج کرواۓ ہيں" اس نے تحمل سے بتاتے ہوۓ انہيں سليپنگ سوٹ ميں ديکھتے ہوۓ پوچھا۔
"بابا نے" ہادی جھٹ سے بولا۔ وہ جو بچوں کو ديکھ کر يشر کو بھلاے بيٹھی تھی يکدم نظر يشر پر پڑی جو بيڈ کے ساتھ ٹيک لگاۓ بچوں کے قريب بيٹھا انکی باتيں سن رہا تھا۔
"چليں اب جلدی سے ليٹيں بہت ٹائم ہو گيا ہے۔" اس نے بچوں کو لٹاتے ہوۓ کہا۔ بيڈ اتنا بڑا تھا کہ وہ چاروں آرام سے سو سکتے تھے۔
يشر اٹھ کر کپڑے چينج کرنے چلا گيا۔ ٹراؤذر اور شرٹ ميں واپس آکر اس نے نائٹ بلب آن کيا اور ہادی کے سائيڈ پر جہاں جگہ خالی تھی ليٹ گيا۔
"ممی کتنا مزہ آ رہا ہے نا آج آپ ميں سعد اورہمارے ساتھ بابا بھی ہيں۔ جيسے فرقان کے بابا اسکے ساتھ ہوتے ہيں۔ اب ميرے بابابھی ميرے پاس ہيں" وہ دونوں جو بيڈ کے کناروں پر ليٹے تھے۔ ہادی کی بات سن کر ششدر رہ گۓ۔ ايک اسکی محرومی کو سمجھتے ہوۓ اور دوسرا وجود عزہ کا يہ سوچ کر کہ انہيں ہر طرح کا پيار دينے کے بعد بھی وہ اس محرومی کو محسوس کرتے ہيں۔
"اب بابا ہميشہ آپکے پاس رہيں گے" يشر نے ہاتھ بڑھا کر ہادی کے بالوں ميں پھيرتے ہوۓ اسے پيار کيا۔
جو يشر کے اوپر ہاتھ رکھ کر آنکھيں موند گيا۔ جبکہ سعد ہميشہ کی طرح ماں کے اوپر ہاتھ رکھ کر سوچکا تھا۔
مگر عزہ کی آنکھوں سے نيند کوسوں دور تھی۔ اسے کبھی پتہ ہی نہيں چلا تھا کہ اسکے بچے کس محرومی کو محسوس کرتے ہيں۔انہی سوچوں ميں آخر نيند کی ديوی اس پر مہربان ہو ہی گئ۔
_______________________