وہ نہيں جانتا تھا کيسے مگر اگلے دن ڈيڈی نے آکر ممی کو اس رشتے کے ليۓ منا ليا تھا۔ اور اسی شام وہ لوگ عزہ کے گھر رشتہ لے کر بھی پہنچ گۓ۔ انہيں يشر ہی چھوڑنے گيا تھا کيونکہ انکے گھر کا راستہ وہی جانتا تھا۔ ممی اگر بہت خوش نہيں تھيں تو بہت ناراض بھی نہيں تھيں۔
شہاب صاحب نے انہيں صرف اتنا کہا تھا " يشر اتنا بڑا ہوچکا ہے کہ اگر وہ اس لڑکی سے خود نکاح کر لے تو ميں اور تم اسے کچھ نہيں کہہ سکتے نابالغ نہيں ہے وہ۔ کيا تمہارے ليۓ يہ کافی نہيں کہ اس نے صرف ہميں اپنی پسند بتا کر اسے ديکھ کر آنے اور رشتے کی بات کہنے کا کہا ہے۔ تم اور ميں جانتے ہيں کہ اس نے آج تک اور لڑکوں کی طرح کبھی کسی غلط کام ميں دلچسپی نہيں لی وہ ايسے ماحول سے بھی پڑھ کر واپس ہمارے پاس آگيا جہاں لڑکے جب اتنی چھوٹی عمر ميں جاتے ہيں تو وہاں کی بے حيائ ديکھ کر ويسے ہی ان کی آنکھيں پھٹ جاتی ہيں۔ اس نے وہاں بھی صاف ستھری زندگی گزاری ہے۔ تو اب بھی وہ کسی غلط لڑکی کے پيچھے نہيں لگا۔ وہ کسی طوائف کو پسند کرکے اس سے شادی کر ليتا تو کيا تم کچھ کر سکتيں تھيں تب۔ اس نے تو پھر ايک شريف اور عزت دار لڑکی سے شادی کی خواہش ظاہر کی ہے۔ دل بڑا کرو اور اسکے فيصلے کو سراہو" بس ان باتوں کے بعد وہ خاموشی سے چل پڑيں۔
انکے گھر کے آگے اتار کر يشر کچھ دير بعد آنے کا کہہ کر چلا گيا۔اب اسے عزہ کی ٹينشن شروع ہوگئ تھی نہ جانے اس کا کيا ری ايکشن ہوگا
ان کے درميان تو کبھی بے تکلفانہ گفتگو نہيں ہوئ تھی۔ تو پھر يہ شادی جيسی بات۔۔۔۔يشر نے سب اللہ پر چھوڑ ديا۔ جس نے اسکے دل ميں يہ خيال ڈالا تھا
__________________-
"عزہ بيٹا تمہارے باس کے والدين اور بہن آۓ ہيں۔" عطيہ بيگم گھبرائ ہوئيں عزہ کے کمرے ميں پہنچيں جہاں وہ کچھ دير پہلے ہی آفس سے واپس آکر بچوں کے ساتھ ليپ ٹاپ پر کارٹون مووی لگا کر بيٹھی تھی۔
"ميرے باس کے۔۔۔کوئ اور ہوگا امی وہ کيوں آئيں گے بھلا يہاں" اس نے ہنستے ہوۓ انہيں ٹالا۔
"تمہارے باس کا نام يشر نہيں" اب کے عطيہ بيگم کو اپنی بات ان سنی کيۓ جانے پر غصہ آيا۔
"وہ تو ہے مگر وہ يہاں کيوں آۓ ہيں۔ سر بھی ہيں کيا ساتھ" اب کی بار وہ حيرانگی اور پريشانی سے بيڈ سے اٹھی اور ماں کے پاس کھڑی ہوئ۔
"نہيں تمہارا باس تو نہيں ہے تم آکر مل لو اور چاۓ پانی کا بھی کوئ بندوبست کرو۔" وہ لوگ بہت امير نہيں تو بہت غريب بھی نہيں تھے۔ اچھا رہن سہن تھا۔
عزہ الجھی ہو ئ تيزی سے کجن کی جانب آئ۔ گلاسوں ميں جوس نکالا اور ڈرائنگ روم کی جانب بڑھی۔
اسکے اندر داخل ہو کر سلام کرنے پر ان تيوں کی نظريں اسکی جانب اٹھيں اور حقيقت ميں ساکت رہ گئيں۔
پنک اور موو کلر کے سوٹ ميں موو ہی کلر کی شال سر پر لپيٹے وہ ٹرے ہاتھوں ميں ليۓ اپنی خوبصورتی سے انہيں متاثر کرگئ تھی۔ دو بچوں کی ماں کے حساب سے تو وہ اسے تھوڑا ايج کا سمجھے تھے مگر اسکا کامنی سراپا۔۔۔وہ تينوں ايک دوسرے کی جانب ديکھ کر اسے اوکے کرچکے تھے۔
عزہ انہيں سلام کرکے جوس کے گلاس پکڑا کر واپس جاچکی تھی۔
اسکے باہر جاتے ہی فيحا نے انہيں اپنی آمد کا مقصد بتايا اور يہ کہ فيحا کچھ دن پہلے يشر کے آفس گئ تھی اور وہيں وہ اسے بہت پسند آئ۔
"آنٹی ہم جانتے ہيں کہ عزہ کے دو بچے ہيں مگر ہميں اور يشر کوکوئ اعتراض نہيں ہے ہم انہيں بھی اپنے بچوں کی طرح رکھيں گے۔ بس آپ ہمارے يشر کے بارے ميں ضرور سوچۓ گا۔ آپ لوگ بھی جب چاہے ہمارے گھر آکر يشر کو ديکھيں اسکے بارے ميں پتہ کروائيں۔ مگر ہم اس اميد کے ساتھ آۓ ہيں کہ جواب ہميں ہاں ميں ہی ملے۔" فيحا نے جس خوبصورتی سے بات کی تھی شہاب صاحب بھی قائل ہوگۓ تھے۔ يشر کی براہ راست پسند کے بارے ميں نہ بتا کر اس نے ان سب کی عزت رکھی تھی۔ کيونکہ کوئ بھی ماں باپ يہ پسند نہيں کرتے کہ کوئ انکی بيٹی کے ليۓ رشتہ لينے آۓ اور يہ کہے کہ ہمارا بيٹا آپکی بيٹی کو پسند کرتا ہے۔ عزت دار لوگوں ميں يہ بات معيوب سمجھی جاتی ہے۔
عطيہ بيگم اور فرحان صاحب تو انکا عنديہ سن کر ششدر ہی رہ گے۔ وہ سوچ بھی نہيں سکتے تھے کہ اتنے اچھے اور اونچے گھرانے سے عزہ کا رشتہ آۓ گا۔
کچھ دير بعد جب وہ لوگ چاۓ پی کر اٹھے تب يشر انہيں لينے آگيا۔
عزہ اب تک انکے آنے کے مقصد سے انجان تھی۔ وہ لوگ بھی عام ادھر ادھر کی باتيں کرتے رہے۔ سعد اور ہادی سے بھی يشر کے گھر والے ملے۔
يشر کی گاڑی جيسے ہی باہر آئ عزہ کے والد اسے خود اندر لانے گۓ۔
اندر آکر ماحول تو اسے خوشگوار ہی لگا۔
اس نے عطيہ بيگم سے جھک کر سلام ليا ۔ وہ لوگ اتنے خوبرو اور مہذب لڑکے کو ديکھ کر بہت خوش ہوۓ۔
يشر نے سلام کے بعد عزہ پر نظر نہيں ڈالی جبکہ سعد اور ہادی سے وہ دوستی کرنے ميں مصروف تھا۔
عزہ جيسے ہی چاۓ کے ليۓ اٹھنے لگی۔ يشر نے سہولت سے انکار کرکے اٹھنے کا ارادہ کيا۔ اور پھر ان سے مل کر وہ لوگ واپسی کے ليۓ نکل آۓ۔
________________________________
"يہ لوگ کيوں آۓ تھے" اپنے ماں باپ کے چہروں کی چمک ديکھ کر اسکے دل ميں جو خدشہ پيدا ہوا تھا وہ اسے بڑے زوروشور سے جھٹلا رہی تھی۔
بچوں کو واپس کمرے ميں بھيج کر وہ انکے ساتھ لائنج ميں آتے ہوۓ تفتيشی انداز ميں بولی۔
"اللہ نے ہماری سن لی۔ وہ لوگ تمہارا رشتہ يشر کے ليۓ لے کر آۓ تھے۔ اسکی بہن کچھ دن پہلے تمہارے آفس آئ تھی نا بس وہيں تمہيں ديکھ کر اس نے تمہيں پسند کرليا اور انہيں خاص طور پر لڑکے کو بچوں پر بھی کوئ اعتراض نہيں۔"
وہ حيرت کی تصوير بنی اپنے شک کو حقيقت کا روپ دھارے سن اور ديکھ رہی تھی۔
کب اور کس وقت اسکی بہن آئ تھی۔ وہ تو اسی ايک بات ميں اٹک گئ تھی۔
"ديکھو عزہ تم نے کچھ دن پہلے ہی کہا تھا نا کہ اگر کوئ تمہيں بچوں سميت قبول کرے گا تو تم انکار نہيں کروگی ديکھو انہيں اب کوئ اعتراض نہيں تو تم نے بھی کوئ اعتراض نہيں اٹھانا۔ ہم کل پرسوں انکی طرف جا کر ہاں ميں جواب دے ديں گے۔ آگے ہی بہت دير ہوگئ ہے۔ اب ہم۔۔۔"
"پليز امی بس کريں مجھے کچھ سوچنے ديں" وہ جو کب سے انہيں سنی جارہی تھی آخر پھٹ پڑی وہ جو يہ سوچے بيٹھی تھی کہ اس کی ايسی شرط رکھنے کے بعد کوئ اسے قبول نہيں کرے گا بے خبر تھی کہ اللہ تو ايسی ايسی جگہ سے رستے نکال ديتا ہے جہاں انسان کی سوچ بھی نہيں جا سکتی۔
وہ اپنے غصے اور جھنجھلاہٹ کو کنٹرول کرتی وہاں سے تيزی سے نکل کر اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔
"عزہ۔۔عزہ"
"ارے مت چھيڑو ابھی اسے۔۔ذرا سوچنے دو۔" فرحان صاحب نے عطيہ بيگم کو ٹوکا جو عزہ کو آوازيں دے رہی تھيں۔
"اب کچھ اور ہی نہ الٹا کام کردے" وہ اسکے تيز مزاج سے واقف تھيں۔
"کچھ نہيں ہوتا اللہ بہتر کرے گا پريشان نہ ہو" انہوں نے عطيہ بيگم کو تسلی دی۔
________________
اگلے دن جيسے ہی وہ آفس پہنچی سحر سے يشر کی موجودگی کی تصديق کی۔
"سر سے کہو مجھے انہيں ضروری يہ فائل دکھانی ہے اگر وہ فری ہيں تو ميں چلی جاؤں انکے روم ميں" سنجيدگی سے اس نے سحر سے کہہ کر اندر جانے کا بہانا ڈھونڈا۔
ريزيگنيشن ليٹر ساتھ لائ تھی اور اسے يشر کو دينے سے پہلے وہ اسکی طبيعت اچھی طرح صاف کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ جس نے عزہ کے ارادوں پر پانی پھير ديا تھا۔
"ہيلو سر عزہ کوئ فائل دکھانا چاہتی ہے آپ فری ہيں تو اسے بھيج دوں" دوسری جانب کی بات سن کر اس نے اوکے کرکے فون بند کر ديا۔
"جاؤ" سحر کے کہتے ساتھ ہی عزہ تيزی سے اندر کی جانب بڑھی۔
ناک کرکے اجازت ملتے ہی وہ اندر آئ۔ شرر بار نگاہوں سے اسکی جانب ديکھا۔ جو بظاہر کام کرتا ليپ ٹاپ کی جانب متوجہ تھا۔
وہ جانتا تو تھا کہ عزہ کچھ نہ کچھ کہے گی مگر صبح آتے ساتھ ہی وہ اسکے روم ميں پہنچ جاۓ گی يہ وہ نہيں جانتا تھا۔
"بيٹھيں پليز" وہ جو اسکی ٹيبل کے پاس آکر کھڑی ہوئ تھی۔ يشر نے اسے اپنی جگہ پر جمے ديکھ کر کہا۔
"ميں يہاں بيٹھنے نہيں آئ بلکہ اپنا ريزائن دينے آئ ہوں مگر پہلے يہ پوچھنا ضروری سمجھوں گی کہ ايک دو بچوں کی ماں سے عشق کرنے کی حماقت آپ کيوں کر کر بيٹھے ہيں۔ اور کيا سوچ کر مدر ٹريسا بننے چلے ہيں۔"
اسکی بات پر يشر نے مسکراتے ہوۓ ليپ ٹاپ بند کرکے شايد پہلی مرتبہ اسے ديکھا مگر ابھی بھی سرسری نظر ڈالی کيونکہ اسکے نزديک ابھی وہ اسے ديکھنے کا حق نہيں رکھتا تھا لہذا اپنی نامحرم نظروں سے اسکے چہرے کو آلودہ نہيں کرنا چاہتا تھا۔
بس ايک نظر اسکے غصيلے چہرے پر ڈال کر ہٹا لی اور پيپر ويٹ کو گھمانے لگا۔
"اول تو ميں لڑکی نہيں جو مدر ٹريسا بن جاؤں گا۔ دوسری بات آپکو کس نے کہا مجھے آپ سے عشق ہوا ہے"
اسکی بات نے عزہ کو ايک لمحے کے ليۓ خفت زدہ کر ديا تھا۔
"تو پھر آپکی بہن نے يہ جھوٹ کيوں بولا ميں نے تو انہيں کبھی آفس آتے نہيں ديکھا۔ تو پھر يہ پرپوزل کس نے بھيجا کيا خواب ميں انہوں نے مجھے ديکھا تھا" اسکی طنزيہ بات پر وہ جو سنجيدہ ہوچکا تھا پھر سے زيرلب مسکرايا۔
"نہيں ابھی وہ اتنی اللہ والی نہيں ہوئيں کہ خواب ميں ايسی چيزيں ديکھيں۔ ہاں يہ پرپوزل ميں نے ہی بھيجا ہے مگر کسی بھی غلط غرض کے بغير۔ بس ميں اتنا جانتا ہوں کہ ميں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ہاں يا ناں کا حق آپ رکھتی ہيں۔ کين آئ سی يور ريزيگنيشن ليٹر" نظريں اس سے ملاۓ بغير وہ ايسے بات کر رہا تھا جيسے اس سے کسی پروجيکٹ کو ڈسکس کر رہا ہو۔ وہ جو اسکے چودہ طبق روشن کرنے آئ تھی جو يہ سوچے بيٹھی تھی کہ وہ اسکے پيار ميں شايد گوڈے گوڈے ڈوبا ہوا ہوگا اور وہ اسے اچھی خاصی سنا کر اسکا عشق کا بھوت اتارے گی ايسی کسی سچويشن کا سامنا نہ ہونے پر اچھا خاصا جھنجلا گئ۔
اسی جھنجھلاہٹ ميں ريزيگنيشن اسکی جانب بڑھايا۔ اس نے تھامتے ہوۓ کھول کر پڑھا پھر ٹيبل کی دراز ميں ڈال ديا۔
"اگر ويسا ہو جاتا ہے جيسا ميں نے سوچا ہے تو اوبويسلی ميں آپکو جاب تو کرنے نہيں دوں گا ۔دوسری صورت ميں آپ يہاں جاب جاری رکھ سکتی ہيں جب تک آپ چاہئيں۔ فيصلہ آپکے ہاتھ ميں ہے" اس نے ٹھنڈے مگر نرم لہجے ميں کہا۔
عزہ کوئ بھی جواب دئيے بنا خاموشی سے چلی گئ۔
يشر نے بھی خاموشی سے ليپ ٹاپ دوبارہ آن کيا