جيسے ہی وہ گھر آيا فيحا آپا کی آواز کچن سے آتی سنائ دی۔ وہ کچن کی ہی جانب بڑھ گيا جہاں ممی اور آپا باتيں کر رہيں تھيں۔
"اسلام عليکم آج تو بڑے بڑے لوگ آۓ ہوۓ ہيں۔ آپ بھی تبھی آتی ہيں جب ممی آتی ہيں ويسے تو آپکو اپنا بھائ ياد نہيں آتا" اسکے سلام پر مسکراتے ہوۓ جواب ديتيں وہ يشر کی جانب بڑھيں جس نے بڑھ کر انہيں اپنے بازوؤں کے حصار ميں ليتے اپنے ساتھ لگاتے ماتھے پر عقيدت سے پيار کيا۔
"اور تم تو جيسے فيصل آباد کے دن رات چکر لگاتے ہو" انہوں نے بھی ناراضگی سے کہا۔ وہ شادی ہو کر فيصل آباد جا چکيں تھيں۔ شادی کو سات سال گزر چکے تھے مگر اولاد کی نعمت سے محروم تھيں۔
يشر کے والدين بڑے بيٹے کے ساتھ اسلام آباد رہتے تھے جبکہ يشر شروع سے اکيلے رہنے کا عادی تھا۔ چھوٹی عمر ميں باہر چلا گيا وہاں سے پڑھ کر واپس آيا تو لاہور ميں اپنے دوست کے ساتھ مل کر بزنس شروع کيا جسے اب وہ اکيلا ہی چلاتا تھا اسکا دوست سبطين امريکن امبيسی ميں جاب شروع کر چکا تھا۔
ويک اينڈز پر وہ اسلام آباد کا چکر ضرور لگاتا تھا۔
وہ تين بہن بھائ تھے۔
واسع بھائ سب سے بڑے تھے انکی شادی کو دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا تحريم انکی بيوی اور ڈاکٹر بھی تھيں جبکہ انکے دو پيارے سے بچے ايشال اور شايان سب کو بہت عزيز تھے۔
انکے بعد فيحاکی باری تھی جن کی شادی زبير سے سات سال پہلے ہوئ تھی۔ زبير کچھ عرصہ پہلے آسٹيرليا چلا گيا تھا آفس کی طرف سے فيحا آپا بھی آتی جاتی رہتی تھيں۔
اور يشر سب سے چھوٹا تھا اسی ليۓ بھی سب کو بہت عزیز تھا۔ نخرے اور لاڈ بھی وہ سب سے خوب اٹھواتا تھا مگر بہت سعادت مند تھا جس کی وجہ سے شہاب صاحب اور فريحہ بيگم اسکی ہر بات مانتے تھے۔
"ممی اب جلدی سے اسکی شادی کروا بھی ديں" فريحہ بيگم جو کل ہی يشر کے پاس آئيں تھيں۔ اس وقت اسکی پسند کے انڈے کوفتے بناتے ہوۓ ان دونوں کا پيار بھی ديکھ رہيں تھيں۔
"ايک تو يہ جن لوگوں کی شادياں ہو جاتيں ہيں نا ان کو دوسروں کی آزادی بہت کھلتی ہے" يشر نے چڑ کر کہا وہ ہر بار يہی بات جو دہراتی تھيں۔
"تو کس عمر ميں شادی کروگے انتيس سال کے تو ہو چکے ہو اور اس عمر ميں واسع بھائ دو بچوں کے ابا بن چکے تھے" اس نے يشر کو ياد کروايا۔
"ضروری ہے جو حماقت انہوں نے کی ميں بھی وہ کروں" وہ ٹيبل پر بيٹھا پانی پيتا ہوا ہنستے ہوۓ بولا۔
"شرم تو نہيں آتی بڑے بھائ کے بارے ميں ايسے کہتے ہوۓ" آپا نے ہنسی روکتے ہوۓ اسکے کندھے پر دھپ ماری۔
"جب انہيں شرم نہيں آئ ايسا کارنامہ کرتے ہوۓ تو ميں کيوں کروں" اس نے حيران ہونے کی ايکٹنگ کی۔
"ممی کتنی زبان چلنے لگ گئ ہے اسکی بس اب آپ اسکی شادی والا کام کرکے ہی جائيں" انہوں نے فريحہ بيگم کو اکسايا۔
"ميری معصوم سی ممی کو مت ورغلائيں" اس نے اٹھ کر فريحہ بيگم کے کندھوں پر بازو پھيلاتے ہوۓ کہا۔
"ميں تو اس مرتبہ واقعی يہی سوچ کر آئ ہوں" انہوں نے يشر کے چہرے پر پيار سے ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
"چلو آپ دونوں کيا پليننگ کرکے آئ ہيں" اس نے فورا خفگی سے کہا۔
"بالکل" دونوں يک زبان ہوئيں۔ ايک شبيہہ يشر کی آنکھوں کے سامنے لہرائ۔
"چليں ابھی تو کھانا کھلائيں پھر اس ايشو پر بھی بات کرتے ہيں" يشر کے اس موضوع پر بات بڑھانے نے دونوں کو حيران کيا۔
"ممی سچ ميں يہ اپنے يشر نے ہی کہا ہے نا جو اس موضوع سے ہی بدکتا ہے۔۔ اس کا مطلب ہے کوئ لڑکی وڑکی کا چکر ہے" فيحا آپا نے پہلے حيران ہوتے اور پھر شرارت سے يشر کو ديکھتے ہوۓ کہا۔
"بہت عقلمند بنا ديا ہے آپکو زبير بھائ نے" اس نے انہيں ايک مرتبہ پھر چڑايا اور مسکراتے ہوۓ کچن سے باہر چلا گيا۔
جبکہ وہ دونوں کھانا لگانے ميں مصروف ہوگئيں۔
_________________________
وہ جو کھانا کھانے کے بعد فيحا آپا کو اپنے ساتھ واک پر کچھ بتانے کا کہہ کر لے کر آيا تھا۔ اب اسے سمجھ ہی نہيں آ رہی تھی کہ کيسے بات شروع کرے۔ اتنا تو وہ جانتا تھا کہ اسے اپنی بات شئير کرنے کے بعد شديد مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا مگر وہ اپنے فيصنلے سے ايک انچ ہٹنا نہيں چاہتا تھا۔
کينٹ کی سڑکوں پر آپا کے ساتھ واک کرتے وہ دماغ ميں الفاظ جوڑ رہا تھا۔
"اب بتا بھی چکو يشر سچ ميں کريوسيٹی کے مارے برا حال ہے کہ ميرے بھائ کو کون پسند آگيا ہے" فيحا آپا کے کہنے پر وہ جيسے اپنی سوچوں سے يکدم باہر آيا۔
"پسند نہيں کہہ سکتے مگر ہاں ميں اس سے شادی کرنے کا خواہش مند ہوں۔" يشر نے بات کا آغاز کيا۔
"ميری ہميشہ سے يہی خواہش رہی ہے کہ ميں کسی ايسی لڑکی کے ساتھ شادی کروں جس کی زندگی ميں ميرے ہونے سے اسکی ذات حقيقت ميں مکمل ہو۔ مجھے کبھی بھی کسی پری چہرہ اور مس ورلڈ ٹائپ لڑکی کی تلاش نہيں تھی۔ ہاں مگر ايسی لڑکی کی تلاش ضرور تھی جس کے ليۓ ميں ايک بھر پور سہارا ثابت ہوں۔ چاہے وہ جتنے بھی عام نقوش کی ہو ۔ عام سی صورت کی ہو مجھے اس سے فرق نہيں پڑتا۔" اسکی بات نے فيحا آپا کو الجھا ديا تھا۔
"کہنا کيا چاہ رہے ہو" وہ آخر پوچھ بيٹھيں۔
"آپا ہمارے نبيوں، اصحاب اور وليوں کی زندگياں صرف پڑھنے اور ان سے متاثر ہونے کے ليۓ نہيں ہيں بلکہ وہ اسی ليۓ ہيں کہ ہم بھی ان پر عمل کريں۔" مہندی رنگ کی کھدر کی شلوار قميض پہنے کالی گرم شال کندھوں کے گرد لپيٹے ہاتھ پيچھے باندھے سامنے ديکھتے وہ ان سے مخاطب تھا۔
"ديکھو يشر تمہيں جو کہنا ہے سيدھے سيدھے بتاؤ يہ گھما پھرا کر بات مت کرو ميں پريشان ہو رہی ہوں اتنا تو سمجھ گئ ہوں کہ تمہاری پسند بہت ٹيڑھی ہے۔ اب کس حد تک ہے يہ تم مجھے بتاؤگے"آپا کی بات پر اس نے مسکراتی نظروں سے انہيں ديکھا۔ وہ ہميشہ سے انکے بہت کلوز رہا تھا اپنی ہر پريشانی، زندگی ميں لينے والا ہر نيا قدم وہ انکے علم ميں لاۓ بغير نہيں اٹھاتا تھا۔
وہ جہاں کہيں بھی ہوتيں وہ ضرور ان سے ہر بات شئير کرتا تھا تو يہ کيسے ہو سکتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا فيصلہ کرنے سے پہلے انہيں نہ بتاتا۔
وہ بہت دنوں سے ان سے بات کرنے کا سوچ رہا تھا مگروقت نہيں مل پا رہا تھا۔ اور اب جب وہ خود اسکے پاس آگئيں تو وہ يہ موقع گناوان نہيں چاہتا تھا۔
"ميں جس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں وہ ميرے آفس ميں ہی کام کرتی ہے۔ ڈيوارسڈ ہے آئ تھنک مگر يہ کنفرم ہے کہ دو بچوں کی ماں ہے۔ مگر ايج ميں مجھ سے چھوٹی ہے۔ بہت کانفيڈنٹ اور کمپيٹينٹ۔۔۔"
"ايک منٹ ايک منٹ۔۔۔تم۔۔تم پاگل ہو کيا يا يہ کوئ مذاق ہے" آپا نے رک کراس کو فوراّ ٹوکتے ہوۓ کہااور غصے سے اسے ديکھتے ہوۓ بوليں۔
"اس ميں پاگل پن کی کيا بات ہے۔ کيا جو لڑکياں دو بچوں بلکہ کئ بچوں کے باپ سے شادی کرتی ہيں وہ پاگل ہوتی ہيں۔ ہمارے معاشرے ميں ايسی مثاليں بھری پڑی ہيں جس ميں باقاعدہ کنواری لڑکيوں کو فورس کيا جاتا ہے کچھ غربت کے باعث ايسا کرتی ہيں کہ انکے پيچھے بہنوں کی ايک قطار ہوتی ہے۔ يا پھر کچھ رشتے کے انتظار ميں جہيز نہ ہونے کی وجہ سے اتنی ايج کی ہو جاتی ہيں جن کے پاس اور کوئ آپشن نہيں ہوتی يا پھر وہ جو اپنی بہنوں کے مرنے کے بعد انکی نشانی کو سنبھال سکتی ہيں۔ جب وہ سب پاگل نہيں تو ايک مرد جو کنوارا ہے مگر وہ ايک دو بچوں کی ماں سے شادی کرکے اسکی زندگی اور بچوں کو سہارا دينا چاہتا ہے وہ کيوں اور کہاں سے پاگل ہے۔" وہ جب بولنے پر آيا تو پھر بولتا چلا گيا۔ فيحا لاجواب ہوگئ اسکے پاس واقعی ان سوالوں کا کوئ جواب نہيں تھا۔
"يشر ميں تمہاری کسی بات کو غلط نہيں کہوں گی مگر يہ سب ٹھيک نہيں۔ تم خود سوچو ہم لوگوں کو کيا کہيں گے اور اول تو ميرا اپنا دل اس بات کو نہيں مان رہا" فيحا نے نفی ميں سر ہلاتے گويا اسے اپنا فيصلہ سنايا۔
"يہی بات ہميں اپنی خوشی سے زيادہ يہ غم ہوتا ہے کہ لوگ کيا کہيں گے اور ہم لوگوں کو کيا منہ دکھائيں گے۔ ہماری يہی باتيں ہميں اپنے مذہب سے دور لے آئ ہيں۔ ہم يہ کيوں نہيں سوچتے کہ ہم کيوں اچھائ ميں پہل نہ کريں ہم دنيا کا کيوں انتظار کريں۔" يشر نے انہيں ديکھتے تاسف سے سر ہلايا۔
"کيا وہ بہت خوبصورت ہے" فيحا نے اب تفتيشی انداز ميں پوچھا۔ وہ انکے سوال پر مسکرايا آخر تھيں تو بہن يہی سمجھيں کہ کوئ ساحرہ ہے جس نے انکے بھائ کو پھنسايا ہے۔
"مجھے صرف اتنا پتہ ہے کہ اللہ نے اسے مکمل انسان بنايا ہے۔ وہ اتنی اچھی ہے کہ دل خودبخود اسکی عزت کرنے کو چاہتا ہے اور اس سے آگے ميں نے اسکو خوبصورتی والے پيراميٹر سے نہيں ديکھا۔ميں نہيں جانتا کہ اسکی ناک چھوٹی ہے يا موٹی، اسکی آنکھيں بڑی ہيں يا نارمل ان کا رنگ کيا ہے۔ ميں نے کبھی اسے غور سے ديکھا ہی نہيں بس ايک کشش ہے جو اسکی جانب کھينچتی ہے مگر حد بندی ايسی رکھتی ہے کہ مجھے اسکی جانب ديکھنے نہيں ديتی۔ آپ لوگ ديکھ ليجيۓ گا نہ اب" اس نے اپنی نرم نظروں سے انہيں ديکھتے ہوۓ سچائ سے بتايا۔ يہ تو وہ جانتی تھيں کہ ان کا بھائ کوئ دل پھينک اور آوارہ مزاج کا نہيں۔ وہ شروع سے ہی ڈفرنٹ تھا۔ چھوٹے ہوتے سے اپنی پاکٹ منی کا ايک حصہ ان بچوں کے لئيے رکھتا تھا جو سڑکوں پر چيزيں بيچتے تھے۔ اسی طرح اب جب وہ خود کمانے کے فابل ہوا تھا تو اپنی کمائ کا ايک حصہ چيريٹی ہومز ميں بھجواتا تھا۔
مگر وہ يہ نہيں جانتی تھيں کہ وہ يہ سب کام کرتے اس حد تک چلا جاۓ گا کہ اپنی زندگی کو اس طرح سے گزارنے کی بات کرے گا۔
"يشر" وہ بے بسی سے بس اتنا ہی کہہ سکيں۔
"پليز آپا آپ نے تو مجھے ہر جگہ ہر مقام پر سپورٹ کيا ہے اسی ليۓ ميں نے آپکو سب سے پہلے اپنا فيصلہ سنايا ہے۔ آئ نو آپ ميری بہت اچھی آپا ہيں نہ صرف آپ ميری بات اور مقصد کو سمجھيں گی بلکہ باقيوں کو بھی منائيں گی۔ ميں کسی بھی ان ميريڈ لڑکی کے ساتھ عام سی زندگی گزار دوں تو ميں نے بھی اوروں کی طرح اس دنيا ميں آکر ايسا کيا کيا جو ميری آئندہ کی زندگی کو سنوار دے گا۔ ميں عام لوگوں کی طرح زندگی نہيں گزارنا چاہتا۔ ہم اسی وجہ سے اپنے معاشرے ميں کوئ تبديلی نہيں لا پاتے کہ ہم يہی سوچتے ہيں کہ لوگ کيا کہيں گے۔ ميری زندگی کا مقصد لوگوں کی باتوں پر چلنا نہيں مجھے يہ سوچنا ہے کہ کيا ميں ان راستوں پر چل رہا ہوں جن کا ميرے اللہ نے کہا ہے۔ ہم ساری زندگی صرف لوگوں کو خوش کرنے ميں گزار ديتے ہي۔ ايک لمحے کے ليۓ يہ نہيں سوچتے کہ ہم ايسا کيا کريں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جاۓ۔ ميں اپنی زندگی کو ايک مقصد دينا چاہتا ہوں۔اور کيا ہی اچھا ہو اگر ميری زندگی کسی کی عمر بھر کا سہارا بن جاۓ۔" اس نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ انہين منانا چاہا۔
"تم ويسے بھی تو اسکی مدد کر سکتے ہو۔ اتنا بڑا اسٹيپ لينا ضروری ہے" انہوں نے پھے سے اسے سمجھانا چاہا۔
"آپ کی بات بالکل ٹھيک ہے۔ مگر اسکے گھر ميں اسکے پيرنٹس کے علاوہ اور کوئ نہيں ہے۔ اور وہ بھی کتنا عرصہ اسکے ساتھ رہ پائيں گے پھر وہ اکيلی اس معاشرے ميں کيسے سروائيو کرے گی۔" يشر تو لگتا تھا انکی ہر بات کا جواب پہلے سے سوچ چکا ہے۔
"يہ تمہارا آخری فيصلہ ہے" انہوں نے پھر بے يقينی سے اس سے پوچھا۔
"جی" اس نے بھی انکی کيفيت سمجھتے ہوۓ مسکرا کر کہا۔
"ٹھيک ہے ميں تمہاری سچائ ديکھتے تمہاری مدد کرنے کا وعدہ کرتی ہوں مگر پہلے تم يہ کلئير کرو کہ يہ سب وقتی ہمدردی نہيں۔کيونکہ کل کو يہ نہ ہو تمہيں اس نيکی پر پچھتاوا ہو۔ تمہارا تو کچھ نہيں جاۓ گا وہ لڑکی اور اسکے بچے رل جائيں گے" انہوں نے جانچتی نظروں سے اسے ديکھتے پوچھا۔
"يہ ايک دو لمحے کا فيصلہ نہيں ميں نہيں جانتا کہ کيسے مگر اسکے آفس جوائن کرنے کے کچھ ہی دنوں بعد جب ايک دفعہ آپ نے مجھ سے فون پر شادی کرنے کی بات کی تھی ميرے سامنے اسکا سراپا آيا اور پھر يہ خيال اتنا مضبوط ہوتا چلا گيا کہ ميں نے ہر لحاظ سے خود کو اس فيصلے کے فائدے اور نقصان بتاۓ اور پھر بھی جب دل نے يہی ايک فيصلہ سنايا تو ميں نے اللہ سے مدد مانگی کہ اگر ميرا اسے اپنانا اسکے ليۓ نقصان کا باعث ہے تو ميرا دل اسکی جانب سے پھير دے مگر اللہ بھی شايد مجھ سے بھلائ کروانا چاہتا ہے۔ ميں اس کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس اچھے کام کے ليۓ چنا۔ ميں کوئ بہت اچھا مسلمان نہيں مگر ميں نے ہميشہ کوشش کی ہے کہ کوئ ايسا کام نہ کروں جس سے اللہ کی ناراضگی مول لوں۔ اميد ہے اس سب کے بعد آپکو ميری سچائ اور اس فيصلے کی مضبوطی پر يقين آ جاۓ گا" اس کا دھيما مگر پر اثر لہجہ انہيں اس پر يقين کرنے پر مجبور کرگيا۔
"ميں دعا کروں گی کہ اللہ نے اگر اتنی پياری سوچ تمہارے دل ميں ڈالی ہے تو تمام عمر اسے نبھانے کی توفيق دے" انہوں نے مسکراتے ہوۓ فخر سے اسکی جانب ديکھتے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں ميں مضبوطی سے تھامتے اس کا ساتھ دينے کا يقين دلايا۔
"تھينک يو" اس نے دوسرے ہاتھ سے انہيں اپنے قريب کرتے انکے ماتھ پر بوسہ ديا اور واپسی کے ليۓ قدم بڑھا دئيے۔
____________________-
"تم بھی پاگل ہوگئ ہو کيا اسکے ساتھ۔يہ کبھی نہيں ہو سکتا" جس کاڈر تھا وہی ہوا فريحہ بيگم تو يشر کی خواہش سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ گئيں۔
"ممی پليز ہميں تو اسکی اتنی اچھی سوچ پر فخر کرنا چاہئيے" فيحا نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
"اب تم بھی اسی کی زبان بولو۔اسی ليۓ وہ اپنی ہر بات تمہيں بتاتا ہے کہ تم بے وقوف بن جاتی ہو۔ اور ہے کون وہ کل ہی ميں اسکے آفس جا کر دماغ ٹھکانے لگاتی ہوں اس لڑکی کا۔ غضب خدا کا ميرا معصوم بچہ ہی ملا تھا اس دو بچوں کی ماں کو پھنسانے کے ليۓ۔ شرم نہيں آئ اسے" وہ تو کچھ سننے کو تيار نہيں تھيں۔
"پليز ممی کسی پر اس طرح الزام مت لگائيں وہ تو جانتی بھی نہيں کہ يشر اسکے بارے ميں کيا سوچے بيٹھا ہے۔ اور آپکو پتہ ہے بغير جانے اس طرح کسی پر الزام لگانا بہتان ہے۔ يہ گناہ مت کريں ممی۔" اس نے کانپ کر ماں کو ديکھتے ہوۓ ٹوکا۔
"ہاں يہ بھی يشر نے تمہيں بتايا ہوگا۔ اس نے کہا اور تم نے يقين کر ليا۔ تم بہت بھولی ہو فيحا يہ آفسوں ميں کام کرنے والی ايسی ہی ہوتی ہيں" انہوں نے فيہا کے قريب بيٹھتے ہوۓ پيار سے اسکے بالوں ميں ہاتھ پھيرتے ہوۓ کہا جو صوفے پر بيٹھی تھی۔
"پليز ممی آپکی بھی ايک بيٹی ہے کسی کی بيٹی کے متعلق ايسے مت کہيں" اس نے پھر خوفزدو نظروں سے ديکھتے انہيں غلط بات بولنے سے منع کيا۔
"آۓ ہاۓ! ميں خود يشر سے بات کرتی ہوں۔ تم دونوں مل کر ميرا دماغ خراب کردو گے" انہوں نے ماتھے پر ہاتھ مارتے فيحا کی باتوں پر زچ ہوتے ہوۓ کہا۔
_______________________