ميں خود کو نہ جانے کيا سمجھ بيٹھا تھا مگر اللہ نے ميری گرفت بہت سخت کی ہے۔ ميں پچھلے چار سال سے ضمير کی عدالت ميں روز پيشياں بھگت رہا ہوں مگر رہائ کی کوئ صورت نظر نہيں آ رہی۔۔ميں" زبير بات کرتے کرتے رکا۔۔
يشر کو ايسا محسوس ہوا وہ اپنے آنسوؤں کو روکنے کے ليۓ رکا ہو جيسے۔
"جس دن ميں نے فيحہ کے بانجھ ہونے کی خبر سنی تھی اسی دن کسی کی تکليف کا احساس بہت شدت سے اٹھا تھا۔ ميں نے وہی سم واپس اپنے فون ميں لگائ جس سے ميں وفا سے بات کرتا تھا۔ جو ميں شادی سے پہلے بند کرچکا تھا۔ وفا کے لاتعداد ميسجز اس ميں آۓ ہوۓ تھے۔
ميں نے اسے کہيں کا نہيں چھوڑا تھا۔
"اس کا آخری ميسج ميں کبھی نہيں بھول سکتا۔
اس نے لکھا تھا 'زبير ميں دعا کرتی ہوں جيسے تمہاری محبت نے مجھے ساری دنيا ميں رسوا کيا ہے تم بھی اپنی محبت کے سامنے رسوا ہو۔ اتنا ذليل و خوار ہو کہ تم معافی مانگنا بھی چاہو تو کبھی تمہيں معافی نہ ملے۔ تم دن رات عذاب مسلسل سے گزرو جيسے ميں گزر رہی ہوں۔ تم اللہ کی عدالت ميں بھی جاؤ تو وہ تم پر رحم نہ کھاۓ۔ ميرے اندر تمہاری اولاد جو پل رہی ہے تم ساری عمر اس کے ليۓ ترسو' اور يشر يہی سب ہو رہا ہے ميرے ساتھ۔ فيحہ سے ميں نے حقيقت ميں محبت کی ہے۔ ميں نے اس سے شادی کے بعد اپنی ڈال ڈال پر پھرنے والی فطرت کو بدل ديا۔ مگر اللہ نے مجھے اسی کے سامنے رسوا کيا ميں فيحہ کی وہ بے اعتبار اور تاسف بھری نظريں نہيں بھول سکتا جو پرسوں رات اسے سب حقيقت بتاتے ہوۓ ميں نے سہی ہيں۔
ميں نے عزہ سے معافی مانگی مجھے نہيں ملی۔ ميں نے فيحہ سے معافی مانگی مجھے نہيں ملی۔ وفا کی ہر بددعا کو اللہ نے سنا وہ سب پوری ہو رہی ہيں۔ نہ ميرے ليۓ زميں ميں کوئ جگہ ہے نا آسمان ميں۔۔ميں بہت بے بس ہوں۔۔يشر مجھے معاف کردو۔۔ميں اپنی اولاد کے ليۓ ترس رہا ہوں مگر ميں جانتا ہوں کے وہ بھی مجھے نہيں ملے گی۔ مجھ جيسے نفس کے غلاموں کے ساتھ يہی ہونا چاہيۓ۔۔
مگر ميں يہ تکليف سہہ نہيں پا رہا۔۔يہ ميرے بس سے باہر ہے۔ مجھ جيسے ہی گناہگار ہوتے ہيں جنہيں اللہ تھوڑی سی بھی تکليف ديتا ہے تو وہ بلبلا اٹھتے ہيں۔ اللہ کے نيک وکار تو وہی ہوتے ہيں جو زيادہ تکليف ميں بھی صابر و شاکر رہتے ہيں۔ ميں نيک و کار مين نہيں ہوں يشر۔۔ميں"زبير کی ہچکياں بندھ چکی تھيں۔ يشر نے اپنی انگلی اور انگوٹھے سے ماتھے کو مسلا۔
ٹھيک ہے وہ گناہگار تھا يا جو بھی تھا يہ ہم انسانوں کا کام نہيں کہ ہم کسی کو اسکی برائ کی بنياد پر جانچيں اور اسے کے اچھے يا برے مسلمان ہونے کے درجے سيٹ کرتے پھريں۔
يہ تو اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے وہ تو کافروں کا دل اپنی جانب موڑ ديتا ہے تو زبير تو پھر مسلمان گھرانے سے تھا۔
يشر اس کے بارے ميں غلط قياس کرکے کيوں گناہ گاروں ميں شمار ہوتا۔
اس کو معاف کرنے نہ کرنے کا اختيار اللہ کے پاس تھا۔ ہم بندے يہ اختيار حاصل کرکے خود کو برتر جاننے لگتے ہيں اور يہی آزمائش بھی ہے۔ اللہ تو ہميں قدم قدم پر آزماتا ہے کہ کب ہم انسان سے فرعون بنتے ہيں۔
يشر انسان ہی رہنا چاہتا تھا۔
"زبير بھائ ميں آپ کو معاف کرنے نہ کرنے والا کون ہوں۔ ہاں آپ نے ميری بہن کی محبت کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ اس بات نے ميرا دل بھی دکھايا۔ مگر بحر حال اگر ميری بہن آپ کو معاف کردے گی تو مجھے آپ سے کوئ مسئلہ نہيں۔ آپ نے يقيناّّ بہت سے لوگوں کے ساتھ بہت برا کيا مگر اللہ کے رحم سے ہميں کبھی مايوس نہين ہونا چاہيۓ۔ ميرا اور آپ کا تعلق بہنوئ اور سالے سے زيادہ انسانيت کا ہے اور اسی انسانيت کے ناطے ميں نے آپ کے احساسات کو سنا ہے۔ اور اسی انسانيت کے ناطے ميں آپ کو يہی مشورہ دوں گا بار بار ان سب سے معافی مانگيں کيونکہ حقوق اللہ تبھی پورے ہو سکتے ہيں جب آپ حقوق العباد کو بھی صحيح سے ادا کرسکيں۔ ميری دعا ہے کہ اللہ آپ کے حق ميں اچھا کرے" يشر کی نرم طبيعت اسے يہ اجازت نہيں ديتی تھی کہ ايک شرمندہ انسان کو وہ اپنے لفظوں سے مزيد کچوکے لگاۓ۔
"بہت شکريہ کيا ميں باہر جانے سے پہلے صرف ايک دفعہ وفا کے بچوں کو ديکھ سکتا ہوں۔۔يہ صرف ايک درخواست ہے۔ ميں تو خود کو ان کا باپ کہلانے کے لائق بھی نہيں سمجھتا کہ ان کی ماں کو ان سے چھيننے کا جرم بھی ميرے کھاتے ميں ہے" زبير نے اپنے آنسوؤں پر بندھ باندھتے بمشکل کہا۔
"ميں عزہ سے پوچھے بغير کچھ نہيں کہہ سکتا کہ بحرحال ان پر سب سے زيادہ حق اسی کا ہے" يشر نے اسے کوئ اميد دلائ بغير کہا۔
"ٹھيک ہے۔۔بہت شکريہ يشر" اس نے تشکر آميز لہجے ميں کہا اور خداحافظ کہہ کر فون رکھ ديا۔ جبکہ يشر فون کند کرکے کسی گہری سوچ ميں ڈوب گيا۔
________________________
عزہ کے سمجھانے پر فيحہ اسی رات واپس فيصل آباد چلی گئ تھی رات کی فلائيٹ سے۔ سب اسے چھوڑنے گۓ تھے۔ وہاں سے يشر انہيں فن لينڈ لے گيا۔ بچے خوب کھيلے اور واپس آکر جلد ہی سو گۓ تھے۔
عزہ جو بيڈ پر بيٹھی کوئ ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی يشر کے کمرے ميں آنے پر بھی اس کی جانب متوجہ نہيں ہوئ۔
"جب آپ کا رئيل ہيرو آپکے پاس آپکے سامنے ہے تو پھر ان رسالوں کی کہانيوں ميں کيا تلاش کرتی ہيں" يشر نے اس کے ہاتھ سے ڈائجسٹ ليتے اسکے سامنے بيٹھتے چاہت سے اسے ديکھا جو کالے کپڑے پہنے کالی ہی شال ليۓ يشر کے دل کی دنيا ميں حشر برپا کر رہی تھی۔
"آپ تو ميرے ہيرو ہيں ہی نہيں ميرا اصل آئيڈيل تو گروو ہے تو پھر آپ کو ديکھ کر ميں نے کيا کرنا ہے" عزہ نے يشر کو اس کے رات کے الفاظ ياد کرواۓ۔
"ہاہاہا! چليں اب مجھ پر ہی گزارا کر ليں۔ ايک کام کريں کافی بنا کر لائيں"يشر کی بات پر عزہ نے منہ بنايا۔
"صبح آفس کا آف ہے سو نو بہانا چليں شاباش"يشر نے اسے بچوں کی طرح ّپچکارا۔
"تو اگر کل آف ہے تو کيا اس وقت کافی پی کر شب شہزادہ بننا ضروری ہے۔۔سوئيں چپ کرکے" اس نے اٹھنے سے انکار کرتے ہوۓ کہا۔
"حد ہے يار ان رومينٹک ہونے کی۔۔کافی کا مگ لے کر ہم باہر لان ميں جائيں گے۔ باتيں کريں گۓ اور کافی انجواۓ کريں گے" يشر نے اپنی پليننگ بتائ۔
"جی بالکل اور پھر نمونيہ کروا کر ہفتہ کمرے کے اندر ہی پڑے رہيں گے" عزہ نے اس کے ارادوں پر بالکل ہی پانی پھير ديا۔
"ميں خود ہی بنا لاتا ہوں" يشر غصے سے اٹھا۔
"اچھا اچھا جارہی ہوں" عزہ اب کی بار جلدی سے اٹھی۔ مقصد صرف اسے تنگ کرنا تھا۔
کافی لے کر وہ دونوں اپنے کمرے کا سلائيڈنگ ڈور کھول کر باہر آۓ جہاں گارڈن سوئنگ تھا۔
يشر اس کا ہاتھ تھام کر اس پر بيٹھ گيا۔
سرد رات ميں چاند کی روشنی ميں ہاتھ ميں کافی کے مگ ليۓ يہاں پر بيٹھنا واقعی ميں بہت رومينٹک لگ رہاتھا۔
عزہ نے دل ہی دل ميں يشر کے آئيڈيا کو سراہا۔
يشر کا ايک ہاتھ عزہ کے شانوں پر تھا حب کہ ايک ہاتھ ميں کافی کا مگ تھا۔
"عزہ آپکے نزديک بدلہ لينے والا اچھا انسان ہے يا معاف کرنے والا"
"معاف کرنے والا۔" اس نے ايک لمحے کا بھی توقف کئيۓ بنا حواب ديا
"عزہ کيا آپ ميری ايک بات مانيں گی۔" گردن موڑ کر عزہ کو ديکھتے اس نے اپنی پرسوچ نگاہيں اس کے چہرے پر جمائيں۔
"سو باتيں کہيں يشر۔۔" اس نے يشر کی جانب ديکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا۔
"عزہ اگر آپکو يہ اختيار ديا جاۓ کہ آپ زبير بھائ سے بدلہ ليں يا انہيں معاف کرديں تو آپ کس بات کو فوقيت ديں گی" عزہ کو معلوم ہوتا کہ يشر نے وہ بات کس مقصد کے تحت پوچھی تھی تو کبھی بھی اس کا جواب نہ ديتی۔
"يشر پليز ميں اس بندے کو ڈسکس نہيں کرنا چاہتی" عزہ نے کاٹ دار لہجے ميں کہا۔
"عزہ آپ کو معلوم ہے ان کی جالت اس وقت ايسے شخص کی سی ہے جسے نہ موت قبول کر رہی ہے نہ زندگی۔ وہ آپ کی ايک معافی کی وجہ سے ہوا ميں معلق ہے اور ميری بيوی ہونے کے ناطے ميرا فرض ہے کہ ميں آپکو سمجھاؤں۔ آگے آپ کی مرضی ہے ميں آپ کو فورس نہيں کروں گا۔" کافی ختم کرتے يشر نے کپ نيچے زمين پر رکھتے اب کی بار اپنا رخ مکمل طور پر عزہ کی جانب کر ليا تھا۔
"کيا آپ نہيں جانتے اس شيطان صفت انسان نے ميری بہن کے ساتھ کيا کيا تھا" عزہ نے حيرت زدہ نظريں يشر کے چہرے پر ڈاليں جو اس کا ايک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں ميں لے چکا تھا اور عزہ کے ہاتھ سے خالی کپ لے کر اپنے کپ کے ساتھ رکھ ديا تھا۔
"عزہ ميں سب جانتا ہوں مگر کيا ہمارا بدلہ لينا اللہ کے انصاف سے نعوذ باللہ بڑھ کر ہے"
"اللہ معاف کرے ميں نے ايسا کب کہا" عزہ جلدی سے بولی جبکہ آنکھوں سے آنسو رواں ہونے کو تيار تھے۔
"تو پھر يہ اختيار بھی اپنے ہاتھ ميں مت ليں۔ وہ ساری زندگی نارسائ کی آگ ميں جلے گا۔ اس نے فيحہ آپا سے جو محبت کی تھی آج وہ ان کے آگے بھی اپنے کئيۓ پر شرمندہ ہے۔ کيا يہ اللہ کی سزا نہيں کہ اس کی محبوب بيوی اسے اولاد نہيں دے سکی۔ بے شک وہ ميری بہن ہيں ميں خود بھی يہ تکليف محسوس کرتا ہوں کے وہ بے اولاد ہيں مگر مجھ سے کہيں زيادہ تکليف وہ شخص محسوس کرتا ہے۔ عزہ ہم اللہ کے انصاف کا مقابلہ نہيں کرسکتے کہ آخر کو ہم اس کے بندے ہيں۔ اللہ نے اسے سزا دی ہے ساری عمر کی سزا۔ اور آپ کو پتہ ہے اللہ قدم قدم پر ہميں آزماتا ہے کبھی اختيار دے کر اور کبھی چھين کر۔ وہ آپکی معافی کے انتظار ميں ہے کيونکہ سب سے زيادہ نقصان اس نے آپ کا کيا ہے۔ آپ جانتی ہيں نہ اللہ اپنے ان بندوں کو کتنا پسند فرماتا ہے جو بدلے کا اختيار رکتھے ہوۓ بھی کسی شخص کو صرف اللہ کی رضا کے ليۓ معاف کرديں۔ اللہ کی سب سے بڑی صفت ہی رحم ہے اور وہ اپنے بندوں ميں بھی يہی صفت ديکھنے کا خواہاں ہے۔ تبھی تو بار بار وہ معاف کرنے اور رحم کرنے کا فرماتا ہے۔
عزہ آپ بہت اچھی ہيں آپ کی اچھائ کے ہم سب معترف ہيں اور ميں اميد کرتا ہوں کہ اسی اچھائ کے سبب آپ اسے معاف کرديں گی" يشر نے اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامتے اپنے ہاتھوں ميں دباتے اسے ہمت اور حوصلہ ديا۔ جو يشر کی باتوں پر شدت گريہ سے رو رہی تھی۔
" اور ميں ايک اور درخواست کرتا ہوں ميں جانتا ہوں جو بات ميں کرنے جا رہا ہوں وہ آپ کے ليۓ قابل قبول نہيں مگر ايک درخواست ہے ماننا نہ ماننا آپکے اختيار ميں ہے ميں زبردستی نہيں کروں گا۔
عزہ ميں نے سوچا ہے کہ ہم بچوں کو فيحہ آپ اور زبير بھائ کو دے ديں" عزہ نے اپنی حيرت زدہ رونے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے يشر کو ديکھا۔
"پليز يشر ميں اتنی اچھی نہيں ہوں۔ ميں وہ سب نہيں بھلا سکتی ميں وفا کے بچوں کو اس بے مہر انسان کے سپرد نہيں کرسکتی" اس نے شدت سے سر نفی ميں ہلاتے ہوۓ کہا۔
"عزہ آپ اس حقيقت سے نظريں نہيں چرا سکتی ہو کو وہ بچے زبير کے بھی ہيں۔ ان کی رگوں ميں اس کا خون بھی دوڑ رہا ہے۔ اور خون کی کشش کبھی نہ کبھی اپنا آپ ضرور منواتی ہے۔ آپ ميرے بارے ميں غلط گمان مت کرنا ميں نے ساری عمر کے ليۓ ان کی ذمہ درای اٹھائ ہے۔ مگر عزہ صرف ايک مرتبہ سوچو اگر انہوں نے بڑے ہو کر آپ کو يہ کہا کہ آپ نے انہيں ان کے باپ کو کيوں نہيں ديا، آپ نے انہيں اپنے سگے رشتے سے دور کيا۔ تو عزہ آپکی ساری رياضتيں ايک پل ميں ختم ہو جائيں گی۔
عزہ ماں باپ جيسے بھی ہوں وہ ماں باپ ہی ہوتے ہيں۔ ميں يا آپ انہيں اپنی محبت کی ايک ايک بوند بھی دے ديں مگر اس محبت کا مقابلہ نہيں کرسکتے جو انہيں اپنے ماں باپ سے ہوگی۔
عزہ ميں نہيں چاہتا کہ آپ کی محبت کو کوئ خودغرضی کا نام دے۔ کل کو يہی بچے يہ کہيں کہ آپ نے صرف اپنی بہن کا بدلہ لينے کے ليۓ يہ سب کيا۔
عزہ رشتوں کو بہت سوچ سمجھ کر برتنا پڑتا ہے يہ قدم قدم پر امتحان ميں ڈالتے ہيں۔
آپ بہت اچھی ہو عزہ اور اللہ اپنے اچھے بندوں کو آزمائشوں کے ليۓ چنتا ہے۔ اور ويسے بھی يہ بچۓ زبير سے زيادہ فيحہ آپا کے ساۓ ميں پليں گۓ۔ کيا آپ کو ان کی اچھائ ميں کوئ شک ہے " يشر نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں ميں ليتے اسکے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوۓ پوچھا۔
"نہيں وہ بہت اچھی ہيں يشر مگر ميں اتنی اچھی نہيں ہوں جتنا آپ مجھے سمجھ رہے ہيں۔ ميں بالکل بھی اچھی نہيں ہوں" وہ اسکے ہاتھوں ميں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
"عزہ آپ ميری سوچ سے بھی کہيں زيادہ اچھی ہو۔ مجھے اميد ہے آپ بہت اچھا فيصلہ کروگی۔ اور آپ کا جو بھی فيصلہ ہو گا مجھے دل و جان سے منظور ہوگا۔ ميں ہر قدم پر آپکے ساتھ ہوں۔"يشر نے اسے خود ميں سميٹتے اسے اپنے ہونے کا يقين دلايا جو بکھرتی چلی جا رہی تھی۔
وہ ساری رات پھر عزہ نے اللہ کے سامنے رو کر گڑگڑا کر اس سے بہترين فيصلے کرنے کی درخواست کرکے گزاری۔
جن بچوں کو اس نے اپنی اولاد کی طرح پالا تھا۔ انہين انہی کے باپ کو دينا اسے دنيا کا مشکل ترين کام لگ رہا تھا۔ مگر جو سگہ رشتہ اللہ نے ان کے ليۓ لکھا تھا وہ اس کا واقعی مقابلہ نہيں کر سکتی تھی۔
اس نے حاجات کے نفل پڑھے۔
اللہ سے اپنے فيصلے پر پرسکون اور ثابت قدم رہنے کی دعا مانگی۔
کيا کيا تکليف دہ لمحے ياد نہ آۓ تھے۔ مگر وہ اللہ کی نظر ميں فرعون نہيں بننا چاہتی تھی۔
يشر نے بالکل صحيح کہا تھا اللہ ہر لمحہ اپنے بندے کو آزماتا ہے۔ آج جب اللہ نے زبير کی معافی کا اختيار اس کے ہاتھ ميں ديا تھا تو وہ برتری کے زعم ميں اپنے کھاتے ميں سفاکيت اور بے رحمی کے ببول نہيں اگانا چاہتی تھی جس کے کانٹے ساری عمر اسکی ذات کو چبھتے رہيں۔
وہ رحمدلی کی راہ کو چن کر عجز کی ہی سطح پر رہنا چاہتی تھی۔ اور بالآخر فيصلہ ہو گيا تھا۔
اللہ نے اس کے دل کو سکون بخش ديا تھا۔
______________________
اگلے دن اس نے يشر کو اپنا فيصلہ سنايا۔ برائ انسان بہت آسانی سے کر جاتا ہے۔ مگر کبھی کبھی نيکی آپکی پوری ذات کو ہلا کر رکھ ديتی ہے۔ عزہ کے ساتھ بھی کچھ ايسا ہی ہو رہاتھا۔
اسی ليئيۓ وہ فيصلہ سناتے بھی اپنے آنسوؤں کو روک نہيں پائ۔ يشر نے ہميشہ کی طرح بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگايا۔
"نيکی کرتے وقت آنسو نہيں بہاتے۔ اسے پوری محبت سے کرتے ہيں۔ کوئ خلش آپکے دل ميں ہے تو اپنا فيصلہ ابھی بھی بدل ليں۔نيکی کو اتنے باوقار انداز ميں ادا کريں کہ اللہ حقيقت ميں آپکو اس کام کے ليۓ چنے جانے پر خوش ہو۔" يشر کا ساتھ ہی تو اس کا اصل حوصلہ تھا۔ اگر وہ اسے اس کی غلطی کی طرف توجہ نہ دلاتا تو زندگی ميں کہيں نہ کہيں وہ زبير کے ساتھ يہ سب رويہ اپنانے پر ضرور پچھتاتی۔
يشر نے اسے پچھتاوں کی آگ ميں سلگنے سے بچا ليا تھا۔ اللہ نے نجانے کس نيکی کے عوض اتنا پاکيزہ دل والا بندہ اس کے نصيب ميں رکھا تھا۔
اپنے آنسو صاف کرتے اس نے يشر کو ديکھ کر فخر سے سوچا۔
اگلے دن انہوں نے فيحہ آپا کو فون کيا کہ وہ دونوں بچوں سميت انکے ہاں آ رہے ہيں۔
کس مقصد کے تحت يہ انہوں نے نہيں بتايا۔
يشر نے اسی رات شہاب صاحب کو فون کرکے تمام حالات سے آگاہ کيا۔ وہ جہاں زبير کی حرکتوں پر غم و غصے کی کيفيت سے گزرے وہيں عزہ اور يشر کے فيصلے پر بے حد خوش ہوۓ۔ انہوں نے بھی اگلے دن فيحہ کی طرف جانے کا فيصلہ کيا۔
اگلے دن دوپہر ميں وہ لوگ زبير اور فيحہ کے سامنے تھے۔
زبير سر جھکاۓ بيٹھا تھا۔
شہاب صاحب اور فريحہ بيگم بھی پہنچ چکی تھيں۔
زبير کے والدين بھی شرمندہ بيٹھے تھے کہ بہرحال انہوں نے اپنے دوست سے زبير کی ہر حقيقت کو چھپايا تھا۔
زبير نے ان سے معافی مانگی۔ جب ان کی بيٹی اس شخص کو معاف کرنے پر راضی تھی پھر وہ کون ہوتے تھے اسے معاف نہ کرنے والے۔ انہوں نے بھی بڑے پن کا ثبوت ديتے زبير کو معاف کر ديا۔
"عزہ ميں تم سے بھی معافی مانگتا ہوں حالانکہ ميں جانتا ہوں کہ ميں يہ کہنے کا بھی حق نہيں رکھتا مگر" عزہ کے سامنے والے صوفے پر بيٹھتے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔
عزہ نے کرب سے آنکھيں بند کيں۔ اللہ نے کيسا بدلہ ليا تھا۔ يہی وہ شخص تھا جو کبھی کروفر سے اسکی بہن کے ليۓ برے الفاظ بولتا اس کے سامنے سے گيا تھا اور آج اتنے سارے لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑے معافی کا طلبگار تھا۔
"ميں نے اپنے بچوں کے صدقے آپ کو معاف کيا۔ حالانکہ يہ ميرے بس ميں نہيں تھا۔ اگر يشر مجھے حوصلہ نہ ديتے۔" عزہ نے ڈبڈبائ ںظروں سے اپنے ساتھ بيٹھے يشر کو ديکھا۔ جس کی مسکراہٹ نے عزہ کا حوصلہ اور بھی بڑھايا۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر فيحہ کے پاس بيٹھی۔
"آپا ميں نے اور يشر نے ايک فيصلہ کيا ہے اور ميں اميد کرتی ہوں آپ ہمارے فيصلے کا مان رکھيں گی۔" اس نے فيحہ کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔
جو سر جھکاۓ بيٹھی تھی۔
"کہو ميری جان" ايک ہاتھ عزہ کے چہرے پر رکھتے وہ اس محبتوں سے گندھی لڑکی سے بولی۔
"ميں وفا کے بچوں کو آپکی عظيم گود کے سپرد کرنا چاہتی ہوں" اس نے ہلکی مسکراہٹ سے فيحہ سے کہا۔
اسے لگا عزہ نے اسے زندگی کی نويد سنا دی ہو۔
"عزہ" وہ حيرت اور خوشی کے باعث بس اتنا ہی کہہ سکی۔
اس کے چہرے پر کھلنے والی چمک نے عزہ کو احساس دلايا کہ يشر نے اس سے کتنی خوبصورت نيکی کروا دی ہے۔ ايک بے اولاد ماں کی ممتا کو سکون بخش ديا ہے۔ اس نے برستی آنکھوں سے اثبات ميں سر ہلايا۔
"ميں ان بچوں کو آپکی ممتا کے ساۓ ميں دينا چاہتی ہوں اور اميد کرتی ہوں کہ آپ انہيں يشر جيسا مرد بنائيں گی۔ عورت کی عزت کرنے والا۔ لوگوں سے محبت کرنے والا۔ دنيا ميں صرف محبتيں بانٹنے والا۔" وہ ہاتھوں ميں چہرہ چھپا کر اتنی شدت سے روئ کہ وہاں بيٹھے ہر شخص کی آنکھيں نم کرگئ۔
فيحہ نے اسے محبت سے سميٹ ليا۔
____________________
شام ميں جب وہ لوگ وہاں سے نکلنے لگے تو شہاب صاحب نے يشر اور عزہ کو اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔
"نہيں ڈيڈی پھر آئيں گے۔ ابھی تو کل آفس ہے" يشر نے سہولت سے انکار کيا۔
"ميں چلی جاؤں" عزہ نے يشر سے انکے ساتھ جانے کا پوچھا۔
يشر نے گھور کر اسے ديکھا۔
"ہاں نا ميری جان تم چلو، ايک دو دن رہ کر چلی جانا تب فزا کی شادی پر بھی تم لوگ زيادہ رہے نہيں تھے" فريحہ بيگم نے عزہ کو اپنے ساتھ جانے کے ليۓ تيار کيا۔
"نہيں ممی ويک اينڈ پر ہم آ جائيں گے نا۔ ابھی واپس چلتے ہيں" يشر کسی صورت عزہ کو ليۓ بغير جانے کو تيار نہ تھا۔ اس کے بغير ايک لمحہ گزارا نہين جاتا تھا کہاں دو تين دن۔
"تم آتے رہنا ويک اينڈ پر عزہ ابھی ہمارے ساتھ جاۓ گی" شہاب صاحب بھی اسے لے جانے پر بضد ہوۓ۔
يشر نے بہت مرتبہ عزہ کو تنبيہی ںظروں سے ديکھا مگر وہ جان بوجھ کر نظر انداز کر گئ۔
اور دل ميں يشر کی اپنے ليۓ يہ بے قراری ديکھ کر محظوظ ہوئ۔
ان کے ساتھ گاڑی ميں بيٹھ کر وہ اسلام آباد کے ليۓ چلی تو گئ۔ مگر پھر خيال آيا يہ شرارت مہنگی نہ پڑ جاۓ اور اس کا خيال بالکل درست تھا۔
اس نے گاڑی ميں بيٹھے بيٹھے لاتعداد ميسجز يشر کو کئيۓ مگر ايک کا بھی جواب نہيں آيا۔
اب حقيقت ميں اس کے ہاتھ پاؤں پھولے اسے اپنے مذاق کے سنگيں ہونے کا احساس ہوا۔ اور يہ احساس دو چند ہوگيا جب يشر نے اسکی کسی کال کو بھی پک نہيں کيا۔
اسی ميں وہ لوگ گھر بھی پہنچ گۓ۔
شہاب صاحب نے اپنے خير يت سے پہنچنے کا بتانے کے ليۓ يشر کو فون کيا تو اس نے اٹھا ليا۔ مگراس کے بعد بھی عزہ کی کوئ کال پک نہيں کی۔
عزہ کے ليۓ وہاں رات گزارنا مشکل ہوگيا۔
اگلے دن اس نے صبح ہی سے واپس جانے کی رٹ لگا لی۔
"ڈيڈی پليز مجھے کسی طرح واپس بھجوا ديں" شہاب صاحب عزہ کے ساتھی بھی ويسے ہی بے تکلف تھے جيسے يشر کو ساتھ تھے۔ وہ بلا جھجھک ان سے بات کرليتی تھی۔
"آرام سے بيٹھی رہو ادھر ہی کچھ دن۔ غضب خدا کا کيسے تمہيں آنکھيں نکال کر يہاں آنے سے روک رہا تھا" انہوں نے عزہ کو ڈپٹتے ہوۓ کہا۔
"ابھی تو صرف آنکھيں نکاليں تھيں ايک دو دن اور رہی تو کچا چبا جائيں گے"
"اچھا ايسی بات ہے تو پھر کچھ دن واقعی آرام سے رہو يہاں تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے پر آجاۓ" انہوں نے عزہ کو ايک اور مشورہ ديا۔
"پليز ڈيڈی بھجوا ديں نا" اس نے لجاجت بھرے انداز سے کہا ۔ آخر انہوں نے رات کی فلائٹ سے اسے بھجوا ديا اور گھر فون کرکے ڈرائيور سے کہہ ديا کے اسے ائير پورٹ سے پک کرلے۔
__________________
يشر کا گھر جانے کو دل نہيں کر رہا تھا۔ عزہ کے بغير تو ويسے بھی گھر بالکل ہی بھائيں بھائيں کرتا تھا۔
لہذا يشر گھر دير سے جانا چاہتا تھا۔ جبکہ ابھی تو صرف آٹھ بجے تھے۔
ابھی وہ يہی سوچ رہا تھا کہ گھر سے کام کرنے والے لڑکے کا فون آگيا۔
"ہيلو بھائ جان آپ گھر کب آئيں گے" اس کے پوچھنے پر يشر کو لگ اس نے اسکی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ ديا ہے۔
"آجاؤں گا يار تمہيں کيا جلدی ہے" اس نے اکتاہٹ سے جواب ديا۔
"نہيں وہ بھائ جی بھابھی بھی نہيں ہيں تو آپکو کھانا کون گرم کرکے دے گا اسی ليۓ ميں نے سوچا پوچھ لوں تاکہ آپکے آنے تک يہيں رکا رہوں" اس کی بات پر يشر نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"ہاۓ يار ايک تو تمہاری يہ بھابھی بھی نا۔۔۔۔خير تم چلے جاؤ ميں دس بجے تک آؤں گا۔ کھانا کھا کر" يشر کچھ کہتے کہتے رک کر بات کا رخ بدلتے اسے جانے کا کہنے لگا۔
"ٹھيک ہے" فون رکھتے وہ دوبارہ سے کچھ پينڈنگ کام کرنے لگا ۔ عزہ سے وہ سخت قسم کا ناراض تھا
جس وقت وہ گھر پہنچا گھر کی سب مين لائٹس بند تھيں۔ لاؤنج کا دروازہ بند کرکے جيسے ہی وہ لاؤنج کے وسط ميں آيا۔ ديوں سے ايک راستہ بنايا گيا تھا جو اسکے کمرے کی جانب جاتا تھا۔
يشر پہلے تو حيران ہوا پھر کسی کے ہونے کا احساس بڑی شدت سے ہوا۔ فضاؤں ميں جس وجود کی خوشبو بھری ہوئ تھی اس نے يشر کو اندر تک سرشار کيا وہ ہلکی سی مسکراٹ ہونٹوں پر سجاۓ اس راستے پر چلتا اپنے کمرے کی جانب آيا دروازے کے آگے گلاب کی پتيوں سے بڑا بڑا سوری لکھا تھا۔
يشر بے اختيار اس سرپرائز پر ہنس پڑا۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو پورا کمرا موبتيوں کی روشنی سے جگر جگر کر رہا تھا۔ بيڈ کے آگے بہت سی موم بتيوں سے دل کی شکل بنائ گئ تھی۔ وہ عزہ سے کبھی بھی اتنی رومينٹک سچويشن کريٹ کرنے کی اميد نہيں رکھتا تھا۔
گلاس وال کے پاس عزہ يشر کو اسی ساڑھی ميں نظر آئ جو اس نے فزا کی شادی پر اس کے ليۓ بہت محبت سے لی تھی۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر عزہ نے مڑ کر يشر کو ديکھا۔
اور يشر اسے اتنے سجے سنورے روپ ميں اپنے ليۓ تيار ديکھ کر ششدر رہ گيا۔
ساری ناراضگی اتنے شاندار استقبال پر ہی ختم ہو چکی تھی۔ مگر صرف دل ميں۔
"اسلام عليکم" اس نے يشر کی جانب مسکرا کر ديکھتے ہوۓ پہل کی۔
"وعليکم سلام۔۔آپ نے تو دو تين دن اور رہنا تھا وہاں کچھ زيادہ جلدی نہيں آگئيں" يشر نے مصنوعی خفگی سے کہا۔
"آپکی ناراضگی رہنے ديتی تو رہتی نا" اس نے بھی منہ پھلايا۔
" ميری ناراضگی کا بڑا خيال آيا آپکو اور اشاروں سے آپ کو جانے سے منع کر رہا تھا" يشر نے اس کے مقابل آتے ہاتھ سينے پر باندھتے اس کے چہرے کے خدوخال کو محبت سے ديکھا۔
"مجھے اشاروں کی زبان سمجھ نہيں آتی" عزہ نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ کہا۔
يشر نے اس کے چہرے پر پيار سے اپنے ہاتھ پھيرتے ہوۓ عزہ کو اپنی ںظروں سے پگھلايا۔
"مجبت کی زبان تو سمجھ آتی ہے نا" يشر کی گمبھير آواز پر اسے لگا اسکا دل اتنی زور زور سے دھڑکاکہ اسے لگا يہ سينے سے باہر آجائيں گا۔
"اس ميں تو ميں بالکل کوری ہوں" عزہ نے اس سے نظريں چراتے ہوۓگويا ہپنی غلطی مانی۔
"آج کے استقبال سے تو نہيں لگ رہا" عزہ اس کا اشارہ سمجھتے ہوۓ مسکرائ۔
"آپ جيسے بندے کی محبتوں نے کچھ تو اثر دکھانا تھا نا۔" اس نے نظريں جھکاتے کہا۔
"ابھی تو ميں نے اپنی مجبتيں نچھاور ہی نہيں کيں" يشر نے اسکی کمر کے گرد اپنا بازو باندھتے عزہ کو محبت سے اپنے ساتھ لگايا۔
"بچوں کے بغير گھر کتنا سونا لگ رہا ہے نا" عزہ نے اسکی بات نظر انداز کرتے کہا۔ يشر کو سمجھ آگئ وہ بات بدلنا چاہ رہی ہے۔
"ڈونٹ وری ہم جلد ہی انتظام کر ليتے ہيں۔" يشر نے شرارت سے اسے ديکھتے ہوۓ کہا۔
جيسے ہی بات عزہ کی سمجھ ميں آئ اس کے چہرے پر لالی بکھری۔
"تھينک يو عزہ ميرا مان رکھنے کے ليۓ" يشر نے سنجيدہ ہوتے پيار سے اپنی شريک سفر کو ديکھا جو حقيقت ميں اسکی شريک سفر تھی۔ جس نے اس سفر کا آغاز ہی يشر کی عزت سب کے سامنے بڑھا کر کی تھی۔ تو باقی کا سفر اس کے ہمرا کتنا خوبصورت گزرناتھا۔
عزہ نے محبت سے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھا۔
"يشر وہ سا بہت مشکل تھا مگر اللہ نے آپکی صورت ميں مجھے جو ہمت دی اس نے مجھ سے يہ نيک کام کروا ليا۔ ميں اسے معاف کرکے واقعی بہت مطمئن ہوگئ ہوں۔ ايک بوجھ سا تھا جو دل سے اتر کيا ہے" عزہ کی بات پر يشر نے محبت سے اسے خود ميں بھينچا۔
" اس کا مطلب ہے اب آپ ہميشہ ميری فرمانبردار رہيں گی۔" يشر نے اس کا موڈ بدلنے کے ليۓ ہنستے ہوۓ موضوع بدلا۔
"عزہ مجھے آج اس رات اپنی نئ زندگی کا آغاز کرنے سے پہلے کچھ کہنا ہے" يشر اسے ليۓ بيڈ پر بيٹھ گيا اور اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں ميں لے کر کہا۔
"پليز کہيں" عزہ نے اسے اجازت دی۔
"ہم محبت سے بھی پہلے اعتماد کا رشتہ بنائيں گے۔ کبھی کوئ غلط گمان ايک دوسرے کے ليۓ دل ميں نہيں لائيں گے۔مجھے آپکی مجبت سے بھی پہلے آپ کا اعتبار چاہئيے"يشر نے سنجيدگی سے کہتے عزہ سے وعدہ ليا۔
"عزہ رشتوں کے ٹوٹنے کی اصل وجہ ہی رشتوں ميں بے اعتباری ہے۔ ہم محبت تو کر ليتے ہيں اعتبار نہيں کرتے جو سب سے زيادہ ضروری ہے" يشر نے اس سے وعدہ ليا۔
"ميں وعدہ کرتی ہوں ميں اب کوئ بات آپ سے چھپانے والی غلطی نہيں کروں گی" عزہ نے مسکراتے ہوۓ يشر کو ديکھتے اپنے ہاتھوں ميں يشر کے ہاتھوں کو دبايا۔
"گڈ گرل اب اتنا سجنے کی وجہ۔۔آپ تو سادگی ميں مجھے گھائل کرگئ ہو۔ اس روپ ميں کيا بالکل ہی ميرے ہوش اڑانے کا ارادہ ہے" يشر کی جذبے چھلکاتی نظريں اب عزہ کا طوف کر رہی تھيں۔
"فزا کی شادی پر تو ميں پہن نہيں سکی تھی۔ تو ميں نے سوچا آپ اتنی مجبت سے لے کر آۓ ہيں کيوں نہ آج آپ کو خوش کردوں" عزہ نے سادگی سے بتايا۔
"مجھے تو خوش کر ديا ہے اب اپنی خير منا لينا۔" يشر نے معنی خيزی سے اسے کہتے ڈريسنگ روم کی جانب قدم بڑھاۓ کچھ دير بعد وہ نائٹ سےٹ پہنے باہر آيا۔
جہاں عزہ اب بھی ويسے ہی بيٹھی تھی۔
"اب اتنی محنت سے جو آپ نے سوری کہا ہے اس کا کچھ تو خراج دينا آپکا حق ہے لائٹس آف کرتا نائٹ بلب آن کرتا يشر اسکی جانب بڑھا۔ اس کے تيور ديکھ کر عزہ کو ہوش آيا۔
"آج کوئ مووی ديکھيں آپکی پسند کی سيريسلی ميں اب چيخيں نہيں ماروں گی" عزہ نے يشر کا دھيان اپنی جانت سے ہٹانے کی ناکام کوشش کی۔
جو عزہ کے گرد اپنی محبت کا حصار کھينچ رہا تھا۔
"ابھی تو ہماری رومانٹيک مووی سے لطف اٹھائيں" يشر کی گھمبير آواز نے عزہ کی حالت غير کی۔
پھر عزہ کے کانوں ميں اس نےاپنے پسنديدہ گانے کے چند اشعار گنگناۓ
If I lay here
If I just lay here
Would you lie with me and just forget the world?
Forget what we're told
Before we get too old
Show me a garden that's bursting into life
All that I am
All that I ever was
Is here in your perfect eyes, they're all I can see
I don't know where
Confused about how as well
Just know that these things will never change for us at all
عزہ کی مسکراہٹ نے اسے سب کچھ بھلا ديا اور اس نے عزہ کو
___________________________
ختم شد