يشر جس وقت کمرے ميں آيا۔ عزہ بچوں کو سلا کر نماز پڑھنے ميں مصروف تھی۔ يشر بيڈ کے کونے پر ٹک کر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
وہ اسے پوچھنا چاہتا تھا کہ اس نے يشر پر اعتماد کيوں نہيں کيا۔ کس برتے پر وہ يہ رشتہ نباہ رہی ہے۔ اس نے يہ سب اس سے کيوں چھپايا کيا وہ اس قابل بھی نہيں کہ وہ اس کے دکھوں کو بانٹ سکے۔ کم تو وہ نہيں کرسکتا مگر بانٹ تو سکتا ہے۔
کيا وہ اس کے گھر کو بس ايک سراۓ سمجھے ہوۓ تھی۔ جہاں وہ رک کر کچھ دير قيام کے ليۓ آئ تھی۔ کيا اس گھر کے مالک سے وہ کوئ رشتہ بنانا چاہتی بھی تھی يا نہيں۔ يہ سب پوچھنا اب اس کے لئيۓ بہت ضروری ہو چکا تھا۔
جيسے ہی وہ نماز ختم کرکے جاء نماز سميٹ کر مڑی اس نے اپنے پيچذے يشر کو بيڈ پر سر جھکاۓ بيٹھے ديکھا۔
ايک پل کے ليۓ وہ ٹھٹھکی پھر آگے بڑھ کر جاء نماز سامنے بنی بک ريک کے نچلے خانے ميں رکھنے لگی۔ يشر نے ذرا سا سر اٹھا کر اس کی جانب ديکھا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے" يشر کے کہنے پر ايک نگاہ اسے ديکھا جو عزہ کی ہی جانب ديکھ رہا تھا۔
"مجھے آپ سے کوئ بات نہيں کرنی۔ سب کچھ تو اس ميڈم سے جان چکے ہيں آپ۔ ميری بہن کی بدنامی کی خوب داستان سنائ ہوگی اس نے آپ کو مگر اس سب ميں آپکے وہ بہنوئ بھی برابر کے شريک ہيں" عزہ نے تلخی سے کہا۔
"عزہ کسی کے بارے ميں برا گمان نہيں کرتے بہت بڑا گناہ ہے اس کا۔ حنا نے صرف مجھے چند حقيقتيں بتائيں ہيں۔ آپ نے تو اس قابل بھی نہيں سمجھا کہ کچھ بھی مجھ سے کبھی ڈسکس کرتيں۔" يشر کے شکوے پر اس نے بے يقين نظروں سے يشر کو ديکھا۔
"کيا صرف جو پيدا کرتی ہے وہ ماں ہوتی ہے۔ کيا پالنے والی کا کوئ رتبہ نہيں۔ ميں جس نے راتيں جاگی ہيں ان بچوں کے ساتھ، اپنی نيند، اپنا آرام اپنی تکليف کچھ نہين ديکھی۔ ان کی ايک آواز پر ان کی جانب دوڑی ہوں، اپنے منہ سے لقمے نکال کر انہيں کھلاۓ ہيں۔ ميں کيسے کہہ دوں کہ يہ ميرے بچے نہيں۔ ميں کيسے۔۔۔۔" عزہ کے آنسوؤں نے اسے اس سے آگے کچھ بولنے نہ ديا۔
"ميں نے کب کہا کہ آپ ايسا نہ کہيں۔ مگر کم ازکم جو تکليف کا بار آپ اٹھاۓ پھر رہی ہيں وہ تو مجھ سے ڈسکس کر ليتيں۔ زبير بھائ نے کيا کيا آپکی بہن کے ساتھ آپ وہاں سے واپس آ کر وہ تو بتا سکتی تھيں مجھے۔ عزہ ميں کون ہوں آپ کی زندگی ميں۔ ميرے رشتے کا تو تعين کر ليں۔ آپ نے مجھ سے بچوں کے ليۓ سچ چھپايا۔ اٹس اوکے۔ وہ سب سننے کے بعد يقين کريں ميری محبت ميں اضافہ ہوا ہے۔ محبت کا کوئ روپ اس محبت کے آگے کچھ نہيں جو آپ نے ان بچوں کے ساتھ کی ہے۔ ميں نے تو انہين آپکے اپنے بچوں کے روپ ميں بھی قبول کر ليا تھا۔ تو آپ کيسے سوچ سکتی ہيں کہ سچ سننے کے بعد ميری ان کے ليۓ محبت ميں کوئ کمی آجاتی۔ جب آپ سے کسی صلے کے بغير محبت کئيۓ جارہا ہوں تو يہ بچے تو مجھے ہر لمحہ محبت کا جواب کہيں زيادہ محبت سے ديتے ہيں۔ ميں ان کو چھوڑنے کے بارے ميں سوچ بھی نہيں سکتا۔
مگر آپ نے تو مجھے کسی قابل سمجھا ہی نہيں۔ ہنسی آ رہی ہے مجھے خود پر اس تعلق پر جو آپکے اور ميرے بيچ ہے۔ شايد لوگ اجنبيوں پر بھی بھروسہ کر ليتے ہيں آپ نے تو اتنے اہم رشتے کو بھی سواليہ نشان بنا دياہے۔"يشر نے بے بسی سے ہنستے ہوۓ اس کے مقابل کھڑے ہوتے اس کے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا۔
"مجھے اب کسی پر اعتبار نہيں۔ ميں نے مرد اور عورت کی محبت کی اتنی کريہہ صورت ديکھی ہے کہ مجھے کسی پر اب اعتبار نہيں آتا۔ مجھے لفظ محبت سے چڑ ہو گئ ہے۔ ميں چاہتے ہوۓ بھی آپکی محبت کو محسوس نہيں کرنا چاہتی تھی۔ ميں خود کو اس رشتے ميں باندھنا ہی نہيں چاہتی تھی جو انسان کو ساری عمر کی کسک دے جاۓ۔" عزہ نے نظريں جھکاۓ آج اپنے دل کے رازوں سے پردہ ہٹاتے يشر کو پہلی مرتبہ اپنے احساسات کا چہرہ دکھايا تھا۔
"عزہ سب لوگ ايک جيسے نہيں ہوتے۔ جيسے سب لڑکياں محبت کے نام پر دھوکہ نہيں کھاتيں۔" يشر نے اسے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں ميں بھرتے ہوۓ اسے جذب سے ديکھتے ہوۓ کہا۔
"پتہ نہيں ميرا کسی پر اعتبار کرنے کو دل مانتا ہی نہيں۔ آپکی جانب ميں کيوں ہر بار ايک آس اور اميد لے کر آنسو بہانے آجاتی ہوں ميں خود نہيں جانتی۔ ميں آپ سے محبت نہيں کرتی۔ ميں کر ہی نہيں سکتی مجھے آپ سے کوئ محبت نہيں۔ سن رہے ہيں نا آپ مجھے بالکل بھی آپ سے محبت نہيں" پھوٹ پھوٹ کر روتے وہ محبت کا انکار کرتے وہ سب کہہ گئ جسے وہ يشر سے اور خود سے بھی چھپا رہی تھی۔ ہميشہ چھپا کر ہی رکھنا چاہتی تھی۔
کب يشر نے اس کے دل کی سرزمين پر اپنی محبتوں کے پھول لگاۓ تھے وہ نہيں جانتی تھی۔ مگر ہر تکليف ميں اس کا سہارا ڈھوندنا محبت نہيں تو اور کيا تھا۔
يہ محبت کی سب سے خالص شکل تھی۔
جو جسم سے بالاتر صرف روح کی پياسی تھی۔
"ہاں ميں نے سن ليا ہے آپ کو مجھ سے محبت نہيں ہے۔۔۔آپ کو واقعی مجھ سے محبت نہيں ہے۔۔۔يشر نے اسکی اداوں پر مسکراتے ہوۓ اسکے ماتھے پر پيار کرتے روتی ہوئ عزہ کو خود ميں سميٹ ليا۔
اور وہ ہميشہ کی طرح اس کا کندھا اور اس کا دل بھگونے لگی۔ کيا اقرار تھا آنسوؤں ميں بھيگا ہوا۔ يشر تو نہال ہی ہوگيا
______________________
اگلے دن وہ يشر سے نگاہيں چرا رہی تھی۔ اپنے انکار ميں چھپی جس محبت کا وہ اقرار کرگئ تھی اب اسے سمجھ نہيں آرہا تھا کہ يشر کا سامنا کيسے کرے۔ جبکہ يشر روزانہ کی طرح نارمل ہی بی ہيو کر رہا تھا۔
عزہ کو بھی اس کے رويے سے کچھ تقويت ملی۔ بچوں کو تيار کرکے يشر کے ساتھ بھيجنے کے بعد وہ گھر کے کاموں ميں مصروف ہوگئ۔
رات کے بعد سے يہ ہوا کہ ان کے درميان جو ايک احنبيت اور سرد مہری کی ديوار جو پھر سے بن گئ تھی وہ ختم ہو چکی تھی۔
عزہ کادل تھوڑا پر سکون تھا کہ اس سکون ميں پھر سے وہی شخص بے سکونی پيدا کرنے چلا آيا۔
فون کی بيل بجی عزہ پاس ہی ميگزين سميٹ رہی تھی ۔ مصروف سے انداز ميں اس نے فون اٹھايا۔
"اسلام عليکم" اس نے قون اٹھاتے کہا۔
"وعليکم سلام۔ عزہ سے بات ہو سکتی ہے" کسی مرد کی آواز اور پھر اسی سے بات کرنے کی خواہش نے عزہ کو کاقی حيران کيا۔
"جی ميں بول رہی ہوں۔۔آپ کون" آواز سنی ہوئ نہيں تھی لہذا وہ پہچان نہيں سکی۔
جبکہ دوسری جانبيہ سنتے ہی خاموشی چھا گئ۔ عزہ کو ايسا لگا فون بند کر ديا گياہے۔
"ہيلو کون ہے اور مجھ سے کيا بات کرنی ہے" اب کی بار وہ پريشان ہوئ۔ جبکہ دوسری جانب ہنوز خاموشی تھی۔ اس سے پہلے کے وہ چڑ کر فون رکھتی کہ دوسری جانب موجود بندے کا نام سن کے سن رہ گئ۔
"ميں۔۔ميں زبير بات کر رہاہوں" اس نے ہچکچاتے اپنا تعارف کروايا۔
"اوہ تو آپ۔۔کيا بات کرنا چاہتے ہيں اورکيا سوچ کر آپ نے مجھ سے بات کرنے کا ارادہ کيا۔ ہے ہی کيا آپکے پاس کہنے کے ليۓ" عزہ کا بس نہيں چل رہا تھا کہ فون ميں سے نکل کر اس شخص کا گريبان پکڑ لے۔ سات سال کوئ اتنا لمبا عرصہ نہيں ہوتا کہ اسے اپنی بہن کی وہ تکليف بھول جاتی جو اس شخص کی بدولت اس نے اٹھائ تھی۔
"عزہ ميں۔۔"
"ميرا نام بھی اپنی گندی اور غليظ زبان پر مت لانا" عزہ کا نام بلانے پر اس نے زبير کو ٹوک کر تنبيہہ کی۔
"ديکھو ميں بہت مجبور تھا" زبير نے اپنی صفائ دينے کا آغاز کيا۔
"آپ سےميں نے پوچھا کہ سات سال پہلے کيا ہوا۔ کون سی ايسی قيامت ٹوٹی کہ آپ نے کسی کے خوابوں کو۔۔کسی کی سچی محبت کو اپنے پيروں تلے روندا۔۔۔اس حد تک اس کا نقصان کيا کہ وہ اپنا ذہنی سکون تک کھو بيٹھی اور بالآخر منوں مٹی تلے چلی۔۔۔چلی گئ" عزہ کے آنسو ايک تواتر سے اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔
وہ تکليف تو وہيں تھی۔ اسی طرح تازہ جيسے ابھی ابھی وفا اسے چھوڑ کر گئ ہو۔
"ميں نے غلطی کی بہت بڑی غلطی۔۔اور يہ غلطی آسيب بن کر مجھے چمٹ گئ۔ ميں نے اسے استعمال کيا تھا۔۔ميں ميں مانتا ہوں کہ ميں اس سے محبت نہين کرتا تھا۔ ميں نے اسے صرف اپنی تسکين پوری کرنے کے ليۓ اپنايا۔ اور جب ميرا دل بھر گيا اور ميرے گھر والوں نے ميری اور اپنی پسند کردہ لڑکی سے ميری شادی کردی تو ميں نے وفا کو چھوڑ ديا کيونکہ مجھے اسکے ساتھ اپنا تعلق بہت عرصہ بنانا ہی نہيں تھا۔
مگر ميں نہيں جانتا تھا کہ اس سب کی سزا اللہ مجھے دے دے گا۔ جب اپنی طاقت کا نشہ دل و دماغ ميں ہو تو انسان يہ بھول جاتا ہے کہ وہ انسان ہی ہے خدا نہيں۔ ميں اسی زعم ميں تھا کہ ميں کبھی اللہ کی پکڑ ميں نہيں آسکتا مگر ميں آگيا۔۔"
"مجھے آپ کی کسی بکواس ميں کوئ انٹرسٹ نہيں آپ نے جو کجھ بھی جس کسی نشے ميں گم ہو کر کيا مجھے اس سے کوئ غرض نہيں نہ مجھے جاننے کا شوق ہے۔ آپ جيسے گھٹيا انسان کے ساتھ جتنا برا ہو اتنا اچھا ہے۔
آپ نے صرف ايک وفا کو برباد نہيں کيا بلکہ آپ نے ميری زندگی، ميرا محبت پر سے اعتماد اور کسی بہت خالص شخص کو ناسمجھنے جيسے بہت سے گناہ کئيے ہيں۔
آپکی اس ہوس نے مجھے محبت کی جانب کبھی بڑھنے ہی نہين ديا۔۔ " وہ دانت پيستے اس کا ايک ايک قصور گنوا رہی تھی۔
"مجھے معاف کرديں" زبير کی آواز ميں نمح گھلی۔
"معاف کردوں ميں معاف کردوں جس کے آپ سب سے بڑے قصوروار تھے وہ تو رہی نہيں ميری معافی کوئ معنی نہيں رکھتی اور نہ ميرا آپ کو معاف کرنے کا کوئ ارادہ ہے۔ آپ جيسے لوگوں کو اتنی عبرتناک سزا ملنی چاہئيۓ کہ کوئ کبھی کسی معصوم کے احساسات کے ساتھ کبھی کھيلنے کا سوچے بھی نہ" عزہ کی آواز ميں تلخياں بھری ہوئيں تھيں۔
"ہاں ميں اسی قابل ہوں کہ ميں اس آگ ميں ساری زندگی جلتا رہوں۔" وہ اقسردگی سے بولا۔
"کيا جو بچے آپکے پاس ہيں وہ ميرے اور وفا کے۔۔۔"
"خبردار ميرے بچوں کا سوچنا بھی نہيں۔ اگر ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی ديکھا تو ميں آنکھيں نوچ لوں گی۔ تم جيسے شخص کی يہی سزا ہے کہ تم ساری زندگی ان کے ليۓ ترسو۔ وہ ميرے اور صرف ميرے بچے ہيں۔ کسی کا ان پر کوئ حق نہيں۔ سمجھے آپ۔ ميرے گھر آنے اور ان سے ملنے کی کوشش بھی مت کرنا۔ ميں اپنے بچوں کے ليۓ ہر حد تک جا سکتی ہوں۔۔۔سنا آپ نے" عزہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے زور سے فون رکھا اور شدت سے رو پڑی۔
______________________
اگلے کچھ دنوں تک وہ اسی خوف ميں مبتلا رہی کہ اگر زبير اس کے گھر آگيا تو۔۔۔
شام ميں وہ بيٹھے چاۓ پی رہے تھے جبکہ بچے باہر لان ميں کھيل رہے تھے۔ کہ عزہ کے موبائل پر فيحہ کا فون آيا۔
"اسلام عليکم آپا کيسی ہيں" عزہ نے محبت بھرے انداز ميں عزہ سے بات کی۔
"وعليکم سلام۔۔ميں ٹھيک ہوں۔۔۔بچے کيسے ہيں" انہوں نے ہميشہ کی طرح بچوں کا سب سے پہلے پوچھا وہ بچوں سے بہت محبپ کرتی تھی۔ جب بھی آتيں بچوں کو بے تحاشا پيار کرتيں۔ ان کے ساتھ وقت گزارتين۔
"الحمداللہ بالکل ٹھيک ہيں" عزہ نے بچوں کی جانب ديکھتے ہوۓ کہا۔ پھر ايک نظر چاۓ پيتے نيوز چينل ديکھتے يشر پر ڈالی۔
"عزہ کيا مجھے تمہارے گھر آنے کی اجازت ہے" فيحہ کی بات سن کر عزہ کچھ لمحے ساکت رہ گئ۔
"آپی يہ آپکا گھر ہے آپ جب مرضی يہاں آنا چاہيں ضرور آئيں ميں اعتراض کرنے والی کون ہوتی ہوں۔ کيا آپ لاہور آئ ہوئ ہيں" اس نے فيحہ کا اعتماد بڑھايا۔
"ہاں مجھے لگا شايد زبير سے تعلق ہونے کی وجہ سے تم۔۔" فيحہ کچھ کہتے ہچکچائ۔
"ميں صرف يہ جانتی ہوں کہ آپ يشر کی بہن ہيں اور اس سے آگے ميں اور کسی تعلق کو نہيں جانتی۔ يشر کے حوالے سے آپ مجھ بہت عزيز ہيں" اسکی بات سنتے يشر جو بظاہر توٹی وی ديکھ رہا تھا ليکن عزہ کی جانب ہی سارا دھيان تھا۔ وہ اس کی بات سن کر حيران ہوا کيا واقعی عزہ نے اسے کوئ خاص مفام دے ديا تھا۔ گوکہ اس دن کے بعد وہ اس سے صحيح سے بات کرنے لگ گئ تھی۔ اس کا پہلے سے زيادہ خيال بھی کرنے لگ گئ تھی مگر اس نے اس رشتے کو ابھی بھی لٹکا کر رکھا ہوا تھا۔
"آپ کہاں ہيں ميں يشر سے کہتی ہوں وہ آپکو لے آتے ہيں"
"نہيں ميں آجاؤں گی بس تم سے اجازت چاہئيے تھے"
"پليز آپا يہ سب کہہ کر مجھے شرمندہ مت کريں" وہ فيحہ کی باتوں سے جان گئ تھی کہ اسے بھی ساری سچائيوں کے بارے ميں پتہ چل گيا ہے۔
خداحافظ کہہ کر اس نے اپنی ناراض نظروں کا رخ يشر کی جانب کيا۔
"آپا آئ ہوئ ہيں اور آپ نے مجھے نہيں بتايا" اس نے يشر سے شکوہ کيا جس کا رخ سامنے بيٹھی عزہ کی جانب ہوا۔
"آپ جس ذہنی اذيت سے گزر رہی ہيں مجھے يہی مناسب لگا کہ آپا کو فی الحال يہاں آنے سے روک دوں" يشر نے دونوں ہاتھوں کی انگلياں آپس ميں ملاتے گھٹنوں پر کہنياں رکھتے نظريں نيچے رکھتے جواب ديا۔
"ميں ايسی گئ گزری ہوں کہ ايک بے قصور سے بدلہ لوں ايسی لگتی ہوں آپ کو" اس نے شکايتی نظروں سے يشر کو ديکھ کر منہ پھلايا وہ عزہ کی بات پر مسکرايا پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے قريب آتے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں ميں ليتے جذب سے اسکی نظروں ميں ديکھا۔
"ميرے معاملے ميں تو آپ اسی قدر ظالم ہيں۔ ميرا بھی کيا قصور ہے فقط يہ کہ آپ سے محبت کا جرم کيا ہے۔ ميں بے قصور بندہ تو آپ کو نظر نہيں آتا نا پوری دنيا کے ليۓ نيک دل ہيں ميرے ليۓ اتنی سخت دل کيوں ہيں" يشر نے مان بھرے انداز ميں عزہ کا دھيان اس کے رويے کی جانب کيا۔
"ہاں نا آپ کا سب سے بڑا قصور يہی ہے کہ آپ نے ايک جذبوں سے عاری لڑکی سے محبت کی۔ اور اس قدر بے لوث کی کے اسے بھی اس جرم ميں شريک کر ليا۔ اسی ليۓ آپکی سزا ہے کہ آپ مجھ سے دور رہ کر بات کيا کريں۔ بہانوں سے ميرے پاس مت آيا کريں" عزہ کے اقرار اور پيار بھری دھمکيوں کو سن کر يشر اپنا بے اختيار قہقہہ روک نہيں سکا۔
"جبکہ ميرا ماننا يہ ہے کہ آپکے اتنی ليٹ اقرار کی سزا يہ ہونی چاہئيے کہ آپ ہر لمحہ ميرے قريب اور ميرے دل کے پاس رہيں" يشر نے اسے اپنے بازوؤں کے گھيرے ميں ليتے اسکے چہرے پر آنے والی بالوں کی لٹوں کو پيچھے کرتے ہوۓ اسکے چہرے پر پيار سے اپنی انگلياں پھيرتے ہوۓ کہا۔
عزہ سے تو يشر کی اتنی قربت کو سہنا مشکل ہو گيا اور اس پر اسکی آنچ ديتی نظروں نے عزہ کا اعتماد ختم کرنے ميں کوئ کسر نہيں چھوڑی۔
"ميں نے کب اقرار کيا ہے؟" اس نے يشر کو گھورنے کی ناکام کوشش کی۔ مگر ايک سيکنڈ سے زيادہ اسکی جذبے لٹاتی آنکھوں ميں نہيں ديکھ سکی۔
" انکار بھی نہيں کيا" يشر نے مسکراتے ہوۓ اسکی پلکوں پر پھونک ماری۔
"اف اتنی ٹھنڈ ہے اس پر پھونکيں مار رہے ہيں" اس نے يشر کے سينے پر ہاتھ رکھ کر فاصلہ پيدا کيا۔
يشر نے اسکی کوشش پر مسکراتے اس کے گرد لپٹے اپنے ہاتھ ہٹاۓ۔
عزہ فوراّ اٹھ کر نماز پڑھنے چل دی۔۔۔۔۔