"وفا کيا پڑھ رہی ہو" عزہ جو کب سے وفا کو موبائل ہاتھ ميں ليۓ مسکراتے ديکھ رہی تھی يکدم پوچھ بيٹھی۔ وہ بہت دنوں سے نوٹ کر رہی تھی کہ وفا کچھ کھوئ کھوئ رہتی ہے اکثر موبائل ہاتھ ميں لے کر مسکراتی ہے۔
جس سے اسے کچھ شک پڑا مگر فی الحال وہ کوئ بھی بات جانے بغير کوئ غلط بات اپنی بہن کے بارے ميں سوچنا نہيں چاہتی تھی۔
"کچھ نہيں" وفا ايک دم اپنی مسکراہٹ سکيڑ کر نظريں چراتے ہوۓ بولی۔
وفا اس سے صرف ايک تين سال بڑی تھی۔ وہ يونيورسٹی جاتی تھی جبکہ عزہ کالج ميں تھی اس کا تھرڈ ائير چل رہا تھا۔
"وفا ميں ہميشہ سے تمہيں اپنا بيسٹ فرينڈ مانتی ہوں اسی ليۓ مجھے کبھی کوئ اور دوست بنانے کی ضرورت نہيں پڑی ميں اميد رکھتی ہوں کہ تم بھی مجھے اپنا بيسٹ فرينڈ مانتی ہو۔ تو وہ بات جو بہت دنوں سے تم مجھے سے چھپا رہی ہو شرافت سے ابھی اور اسی وفت بتا دو۔" عزہ اسکے قريب بيڈ پر بيٹھتے ہوۓ بولی۔ وہ دو ہی تو بہنيں تھيں نہ کوئ اور بھائ تھا اور نہ بہن تھی۔
شروع سے ايک دوسرے کے ليۓ وہ دونوں لازم و ملزوم تھيں۔ مگر کچھ دنوں سے عزہ کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ جو ايک دوسرے سے اپنا ہر دکھ سکھ کرتی تھيں۔ جن کا آپس ميں کچھ جھپا نہيں تھا۔
اب ان کے بيچ فاصلے آرہے تھے اور وفا اس سے بہت کچھ چھپانے لگ گئ تھی۔
يونيورسٹی سے بھی واپس آ کر وہ سارا وقت فون کے ساتھ لگی رہتی۔
سب کے پوچھنے پر يہی کہتی کہ کلاس فيلوز کے ساتھ ڈسکشن کر رہی ہے ۔
اب عزہ کی باتوں پر وہ سوچ ميں پڑھ گئ۔
"تم پليز امی ابا کو کچھ مت بتانا" اس نے ہچکچاتے ہوۓ عزہ سے وعدہ ليا۔
"بے فکر رہو" اب کی بار عزہ کو خطرے کی گھنٹياں سنائ ديں۔
"عزہ ميں۔۔ميرا مطلب ہے کہ مجھے اپنے۔۔۔ميں اپنے کلاس فيلو ميں انٹرسٹڈ ہوں" اس نے گھبراتے ہوۓ بتايا۔ جو شک عزہ کو گھيرے ہوۓ تھا وہ سچ ثابت ہوا تھا۔
"نام کيا ہے" عزہ نے سنجيدگی سے اسے ديکھتے پوچھا۔
جس کا چہرہ ايک اجنبی کے ذکر پر گلنار ہو رہا تھا۔
"زبير، فيصل آباد کا رہنے والا ہے ،عزہ وہ بہت امير ہے يہاں ہاسٹل ميں رہتا ہے۔ يار اس نے اس سب کی پہل کی مجھے تو پتہ ہی نہيں تھا وہ يونيورسٹی کے فرسٹ ڈے سے اب تک مجھ سے محبت کرتا آيا تھا۔ ميں نے اسے بہت منع کيا اس سب کے ليۓ، بہت روڈ بھی ہوئ مگر وہ پھر بھی مجھ سے بہت محبت کرتا ہے" وفا جوش سے اسے ايک ايسی کہانی سنا رہی تھی جسے عزہ سننا بھی نہيں چاہتی تھی ۔
"وفا کيا تمہيں نہيں پتہ ايسی محبتيں سواۓ ٹائم پاس کے اور کچھ نہيں ہوتيں۔ مجھے تو سمجھ نہيں آ رہا کہ تم اتنی بے وقوف کيسے ہو سکتی ہو۔ کسی نے دو محبت کے سچے جھوٹے لفظ بولے اور تم ان پر ايمان لے آئيں" عزہ نے تاسف بھرے انداز ميں اسے ديکھا۔
"عزہ وہ غلط انسان نہيں ہے اور نہ ٹائم پاس کر رہا ہے وہ واقعی ميں مجھ سے بہت محبت کرتا ہے" وفا نے اسکی بات جھٹلاتے ہوۓ کہا۔
"اتنا ہی سچا ہے تو اس سے کہو سيدھے راستے سے تمہارے ليۓ رشتہ بھيجے يہ کالجوں اور يونيورسٹيوں کی مجبتيں سواۓ ذلت اور رسوائ کے اور کچذ نہيں ہوتيں۔ تم بجاے اس حقيقت کو فبول کرنے کے اس کی حوصلہ افزائ کر رہی ہو" عزہ شديد صدمے سے بولی۔
"پليز عزہ ہماری محبت کے ليۓ تم بار بار غلط الفاظ استعمال مت کرو" اب کی بار وفا برا مان کر بولی۔
"مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ کيا تم نہيں جانتيں کہ يہ نامحرم سے کی جانے والی محبتيں دلدل ميں دھکيل ديتی ہيں جہاں واقعی کچھ اچھا برا دکھائ نہيں ديتا۔"
"تم زيادہ ميری اماں مت بنو، آجاۓ گا وہ رشتہ لے کر " وفا نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
"ٹھيک ہے جتنی جلدی وہ رشتہ لے آۓ بہتر ہے۔" عزہ نے بھی دو ٹوک انداز ميں کہا۔
_____________________________
اگلے دن جب وفا يونيورسٹی گئ تو اس کے دماغ ميں وفا کی باتيں گھوم رہيں تھيں وہ غلط تو نہيں کہہ رہی تھی۔
ڈپارٹمنٹ کے گراؤنڈ ميں وہ اسے اکيلے بيٹھا ہوا نظر آگيا۔
"ہيلو کيا ہو رہا ہے" وہ کتابيں نيچے رکھتی اس کے پاس زمين پر بيٹھتے ہوۓ بولی۔
"بس يار يہ سر کے نوٹس کر رہاہوں تم بتاؤ" اس نے کچھ لکھتے سر اٹھاۓ بغير جواب ديا۔
"زبير مجھے تم سے ايک ضروری بات کرنی ہے" وفا نے جھجھکتے ہوۓ کہا۔
"ہاں کہو" زبير نے اسی مصروف انداز ميں کہا۔
"تم اسے چھوڑو پہلے" اس نے جھنجھلا کر اسکی کتابوں کی طرف اشارہ کيا۔
"يہ لو بھئ بند کر ديں اب بتاؤ ميری جان کيوں پريشان ہے" اس نے بند کرکے کسی قدر محبت سے کہا۔
"وہ رات ميں پتہ نہين کيسے عزہ کو سمجھ آگئ کہ ميں کسی ميں انٹرسٹڈ ہوں ميں نے اسے سب بتا ديا۔ اور اس نے مجھے کہا کہ اگر تم سيريس ہو ميرے ليۓ تو ميرا رشتہ لے کر ميڑے پيرنٹس کے پاس جاؤ۔ ديکھو زبير اس نے کچھ غلط تو نہيں کہا نا" ساری بات بتاتے آخر ميں اس نے عزہ کا دفاع کيا۔
مگر زبير کے چہرے کا رنگ بدل چکا تھا۔
"ديکھو ميں يہ نہيں کہتا کہ عزہ نے غلط کہا ہے مگر ابھی تو ہم پڑھ رہے ہيں نا"
"ہاں تو ميں کون سا کہہ رہی ہوں کہ شادی کرليں۔ ابھی منگنی بھی تو ہو سکتی ہے کم از کم ہمارے بارے ميں کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع تو نہيں ملے گا نا۔" زبير کو بھی اس کی بات ميں کوئ برائ نہيں لگی۔ "ٹھيک ہے اس ويک اينڈ پر ميں جاکر اپنے پيرنٹس سے بات کرتا ہوں" اس نے ہامی بھر لی۔
مگر وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ اس کی يہ خواہش اس کے گھر ميں کيا طوفان لے آۓ گی۔
اسے کيک کچھ سننے کو نہيں ملا تھا۔ واپس آکر اس نے سب کچھ تو وفا کو نہيں بتايا مگر اتنا ضرور کہا کہ ميرے گھر والے ابھی اس سب کے ليۓ تيار نہين۔
"تو کيا يہی اينڈ تھا ہماری محبت کا" وفا نے بے يقينی سے اسے ديکھتے ہوۓ کہا۔
"ميں نے يہ کب کہا ہے۔۔ميں تو تم سے اب بھی محبت کرتا ہوں۔ سنو اگر ميں تمہاری محبت کا امتحان لينا چاہوں تو کيا تم تيار ہو جاؤ گی۔" اس نے يکدم کوئ فيصلہ کرتے ہوۓ سوچا۔
"ميں تمہاری محبت ميں کچھ بھی کر سکتی ہوں" حوا کی بيٹی تھی نا کيسے نا ايک مرد کے بہکاوے ميں آتی۔
"ديکھو ميں نے سوچا ہے کہ ہم کورٹ ميرج کرليتے ہيں۔ جب ايک مرتبہ شادی ہو چکی ہو گی تب تو ميرے پيرنٹس کچھ نہين کر سکيں گے نا۔ اور ميرا نہيں خيال کہ اگر ميں رشتہ لے کر اکيلا تمہارے گھر آؤں گا تو تمہارے پيرنٹس بھی کبھی نہيں مانيں گے" زبير نے اسے مشورہ ديا اور حقيقت سے بھی آگاہ کيا۔
وفا کچھ لمحوں کے ليۓ خاموش رہ گئ۔
"ہاں وہ بھی کبھی نہيں مانيں گے" اس نے زبير کی بات کی تائيد کی۔
"ديکھو ہم بالغ ہيں اور اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہيں۔ تم آج کی رات اچھی طرح سوچ لو کيونکہ ہمارے فائنل پيپر ہونے ميں صرف ايک ماہ رہ گيا ہے اور ميں چاہتا ہوں کہ جب يہ ختم ہو تب تک ہمارا رشتہ بھی مضبوط ہو چکا ہو۔ ہم آج کل ميں ہی کورٹ ميرج کر ليں گے۔ اب يہ تم پر ڈيپينڈ کرتا ہے کہ تم ميری محبت ميں کس حد تک سچی ہو اور کہاں تک ميرا ساتھ دے سکتی ہو۔ ميں نے يہ سب تمہارے ليۓ ہی سوچا ہے۔ ميں اس حد تک جانے کااس محبت کی وجہ سے سوچا ہے۔ ميں تو تم سے سچی محبت کرتا ہوں لہذا ميں ہر قدم پر تمہارا ساتھ دينے کے ليے تيارہوں۔ اب تم سوچ کر بتاؤ کہ تم اس محبت ميں کس حد تک جا سکتی ہو۔ رات ميں تمہارا جو بھی جواب ہوگا کل اس فيصلے کی بدولت يا تو ہمارے راستے جدا ہو جائيں گۓ يا پھر ہميشہ کے ليۓ ايک۔ اب فيصلہ تمہيں کرنا ہے۔" زبير نے اپنی باتوں سے ہر طرح سے جکڑ کر اسے اموشنلی بليک ميل کيا۔ وہ ہر قيمت پر اسے حاصل کرنا چاہتا تھا۔
اور ايسا ہی ہوتا ہے جب ہم اللہ کی طے کردہ حدود کو توڑتے ہيں تو ہر حرام کام ہميں حلال لگتا ہے۔
محبتيں اس طرح يونيورسٹی اور کالجوں ميں ڈھونڈنے والی اور ملنے والی نہيں ہوتيں۔ يہ تو صرف ايک تجسس ہوتا ہے جو ہميں ايک دوسرے کی کھوج کے ليۓ اکساتا ہے۔
يہ صرف مخالف صنف کی کشش ہوتی ہے۔ جسے ہم محبت کا نام دے کر کبھی ٹائم پہس کرتے ہيں اور کبھی کسی کی پوری زندگی اس ايک کشش کے حصول کے ليۓ داغدار کر ديتے ہيں۔
محبت صرف وہی ہے جس ميں اللہ حلال راستے کی طرف لے کر جاتا ہے۔ جہاں کوئ چور دروازے نہيں ہوتے۔ محبت کو ڈنکے کی چوٹ پر حاصل کيا جاتا ہے۔
زبير اسے چور دروازے دکھا رہا تھا اور وفا بہت آسانی سے اس کے بہکاوے ميں آگئ اسی ليۓ کہ اس نے بھی اللہ کی طے کردہ حدود کو توڑ کر ايک نامحرم کی جانب قدم بڑھاۓ تو يہ کيسے ممکن تھا کہ وہ سزا کی حقدار نہ ٹھہرتی۔
_____________________________
گھر آکر وہ بہت دير پريشان رہی کبھی ماں باپ کا چيال آتا مگر زبير کی باتوں نے اس طرح اسکی سوچوں کو جکڑ ليا تھا کہ وہ غلط راستے کی جانب جانے پر بے خوف ہو چکی تھی۔ اس فيصلے کے نتيجے کی جانب سے اس نے نگاہيں چرا لی تھيں۔
رات ميں عزہ نے پھر سے اس کی وہی خاموش کيفيت ديکھی تو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
"وفا کيا ہوا ہے زبير نے کی ہے اپنے گھر والوں سے بات" عزہ کی بات پر اس نے چونک کر اسے ديکھا۔
ابھی کل ہی تو اس نے وفا کو موبائل سے زبير کی وہ سب تصويريں دکھائيں تھيں جو وہ وقتاّّ فوقتاّّ بھيجتا رہا تھا۔ شکل وصورت سے وہ تو وہ اچھا تھا۔
"وفا اس کے گھر والے فی الحال نہيں مانے مگر زبير نے کہا ہے کہ وہ انہيں منا لے گا اور اگر ايسا نہ ہوا تو ہم کوئ اور راستہ اختيار کريں گۓ" وفا کے نڈر اور بے خوف لہجے کو ديکھ کر عزہ اندر تک کانپ گئ۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی بہن کو ديکھ رہی تھی يہ وہ وفا تو نہيں تھی۔ يہ اسے کيا ہوگيا تھا۔
"وفا تم پاگل ہوگئ ہو کيا کہہ رہی ہو" اس نے دہل کر اسے ٹوکنا چاہا۔
"اس ميں پاگل ہونے کی کيا بات ہے، عزہ تم نہيں سمجھ سکتی کہ يہ محبت کا احساس کيا ہوتا ہے يقين کرو اپنا آپ بھلا ديتا ہے۔ ميں اور زبير ايک دوسرے کے ليۓ کچھ بھی کر سکتے ہيں" وفا نے جذب کے عالم ميں کہا۔
"مجھے ايسے غلط رشتے کے بارے ميں سمجھنا بھی نہيں ہے۔ جس ميں انسان کی سوچنے سمجھنے اور نتيجے کا پرواہ کرنے کی ہر صلاحيت ختم ہو چکی ہو۔ تم جانتی ہو تم نے کتنے غلط الفاظ استعمال کيۓ ہيں۔ کس حد تک جا سکتے ہو تم دونوں ہاں۔۔۔مجھے وہ بھی بتا دو تاکہ آج مجھے اچھی طرح اندازہ ہوجاۓ کہ ايک شخص کے حصول نے تمہيں اس قدر اندھا کر ديا ہے کہ تمہيں اپنے سگوں کی محبت نظر نہيں آ رہی۔ تم کتنی آسانی سے ہماری عزت کو روند رہی ہو۔ کيا اسی ليۓ ابا نے تم پر اعتماد کرکے تمہيں يونيورسٹی بھيجا تھا۔" عزہ نے تو آج اس کا دماغ ٹھکانے پر لگانے کی قسم کھا لی تھی۔
" تو کيا ميں اپنی مجبت سے دستبردار ہو جاؤں۔ محبت کرنا اور اسے پانا کہاں سے اتنا بڑا جرم ہے؟"
"ہاں محبت کوئ جرم نہيں اگر يہ حلال راستوں سے ہو کر ہماری جانب آۓ۔ چور راستوں سے نہيں" عزہ نے اسے تلخ حقيقت بتانی چاہی جس کی جانب وہ ديکھنے کو تيار نہيں تھی۔
"ہاں تو ہم نکاح کرئيں گۓ نا۔ زبير نے کہا ہے کہ ہم کورٹ ميرج کر ليں گۓ" اس نے اور بھی بے خوفی سے اپنا فيصلہ سنايا۔
عزہ تو کتنے لمحے گنگ ہی رہ گئ اپنی ماں جائ کی باتيں سن کر۔
"تمہارے خيال ميں يہ بہت صحيح طريقہ ہے تمہيں ذرا سا بھی امی ابا کی عزت کا خيال نہيں۔ وفا ماں باپ کو دکھ دينے والی اولاد کبھی خوش نہيں رہتی۔ يہ سب مت کرو اسے سمجھاؤ اور کنوينس کرو اس بات کے ليۓ کہ وہ سيدھے طريقے سے تمہيں اپناۓ اور ماں باپ کی رضا سے اور ان کی دعاؤں کے ساتھ تمہيں رخصت کرے۔ورنہ تم اس کا خيال اپنے دل سے نکال لو۔ وہ اتنا ہی تم سے محبت کرتا ہے تو تمہيں برائ کی جانب کبھی نہيں اکساۓ گا۔ کيا تم نہيں جانتيں تمہارے اس فيصلے سے ہم سب کتنا سفر کريں گے" اس نے دکھ سے کہتے وفا کو پھر سے سمجھانا چاہا۔
"عزہ ميں کسی قيمت پر اسے چھوڑ نہيں سکتی ميں نے اس سے بہت محبت کی ہے" وفا نے اس کی ہر بات ان سنی کرتے وہی بات دہرائ جس نے اسے دل اور دماغ کو جکڑ رکھا تھا۔
"اور ہماری محبتيں کيا وہ کوئ معنی نہيں رکھتيں"
"رکھتی ہيں مگر فی الحال ميرے پاس کوئ اور آپشن نہيں اور ميں اس ايک آپشن کو بھی کھونا نہيں چاہتی" وفا کوئ اور بات سمجھنے کے ليۓ تيار نہيں تھی۔
وفا نے اسے سمجھنے کا ارادہ ترک کيا۔ پھر چپکے سے اس کے موبائل سے زبير کا نمبر ليا۔
اگلے دن اس نے زبير سے ملنے کا فيصلہ کيا۔ ايک اميد کے تحت کے شايد وہ اسے سمجھا سکے۔
اس نے زبير کو فون کرکے بتايا کہ وہ وفا کی بہن ہے اور اس سے ملنا چاہتی ہے۔
زبير نے بغير کسی پس و پيش کے ہامی بھر لی۔
اگلے دن وہ ايک پارک ميں اس سے ملنے گئ۔
"ميں کبھی بھی اس طرح آپ سے نہ ملتی مگر وفا کی کل رات کی پلينگ نے مجھے مجبور کيا کہ ميں آپ سے مل کر آپ کو سمجھاؤں۔ ديکھيں آپ جتنی بھی اس سے محبت کرتے ہيں پليز اسے غلط راستے کی جانب مت اکسائيں۔ ہم انتظار کر ليں گے آپ اپنے پيرنٹس کو منا ليں پھر جب چاہيں رشتہ لے آئيں" وفا نے اس کے خوبرو چہرے پر ايک کے بعد دوسری نگاہ نہيں ڈالی تھی وہ خود اس وقت کالی چادر لپيٹے ہوۓ پارک کے بينچ کے ايک سرے پر بيٹھی تھی اور زبير دوسرے سرے پر تھا۔
"ميرا نہيں خيال کہ آپ کو ايسی کوئ کوشش کرنی چاہئيۓ تھی۔ خير اب آپ نے کر ہی لی ہے تو ميں ايک بات آپ پر واضح کر دوں کہ ہم دونوں بالغ ہيں اور اپنی زندگی کے فيصلے خود کر سکتے ہيں ہميں کسی کے مشورے کی ضرورت نہيں۔ وفا نے سوچ سمجھ کر ہی ميرا ساتھ نبھانے کی ہامی بھری ہے وہ کوئ بچی تو نہيں کہ جسے لالی پاپ کا جھانسا دے کر ميں نے اپنی ہر بات منوا لی ہے۔" زبير نے جس انداز ميں وفا کے بارے ميں بات کی عزہ کا خون کھول اٹھا۔ کيا يہ ہے اس شخص کی محبت جو اتنی بدتميزی سے اپنے محبوب کا ذکر کر رہا ہے۔
"ہاں ميں مانتی ہوں کے وہ بچی نہيں مگر پھر بھی ميری آپ سے ريکوئيسٹ ہے کہ آپ اس سب سے پيچھے ہٹ جائيں۔ ديکھيں آپ کو بہت سی اور لڑکياں مل جائيں گی مگر وفا کو عزت دوبارہ نہيں ملے گی۔" اس نے دو ٹوک بات کی۔
"مگر آپ کی بہن تو نہيں نا ملے گی" اس نے جس خباثت سے مسکراتے ہوۓ کہا عزہ کا دل کيا اس کا منہ توڑ دے۔ کاش وہ يہ سب باتيں ريکارڈ کرکے وفا کو سنا سکتی۔
"آپ کو شرم نہيں آ رہی کہ آپ کسی کی خالص مجبت کو صرف اپنی تسکين کے ليۓ استعمال کر رہے ہيں" اس نے زبير کو شرمندہ کرنا چاہا۔
"ايکسکيوزمی مس ميں کافی باتيں سن چکا ہوں آپکی۔ اپنی بہن تو سنبھالی نہيں گئ مجھے مورد الزام ٹھہرانے آگئيں ہيں۔ ہم وہی کريں گے جو ہميں صحيح لگتا ہے" وہ اس کی جانب غصے سے ديکھتا واپسی کے ليۓ چلا گيا۔
جب کہ عزہ ساکت رہ گئ۔ اسے صرف اس کے لہجے سے حوس کی بھوک محسوس ہوئ۔وہ صرف وفا کو حاصل کرنا چاہتا تھا اسےعزت نہيں دينا چاہتا تھا ۔۔۔