کيسی ہو بھئ تم نے تو ايسا ہم سے ملنا چھوڑا کہ کبھی چچا چچی کو بھی ہم سے ملنے نہيں ديا" وہ لڑکی کوئ پرانے گلے شکوے کھولے بيٹھی تھی۔ اس کے چچا چچی کہنے سے يشر کو اتنا تو سمجھ آگئ کہ يہ عزہ کے تايا کی بيٹی ہے۔ ان کی شادی پر بھی عزہ کے رشتہ داروں ميں سے کوئ نہيں تھا۔
يشر کے پيرنٹس نے بھی کسی قسم کی کھوج نہيں لگائ۔
"جی حنا آپی ميں ٹھيک ہوں" وہ بادل نخواستہ بولی۔ بس نہيں چل رہا تھا يہاں سے غائب ہو جاۓ۔
"تم لڑکی والوں کی طرف سے ہو ميں نے فزا کی ماما سے تمہيں باتيں کرتے ديکھا تھا۔" ان کی بال کی کھال نکالنے کی اس عادت سے وہ شروع سے چڑتی تھی۔
"شادی ہوگئ کيا تمہاری؟" ايک اور سوال۔ عزہ نے مڑ کر يشر کی جانب ديکھا جو انہی کی جانب متوجہ تھا مگر چہرے پر الجھن بھرے تاثرات تھے۔
"جی يہ۔۔۔۔۔" اس سے پہلے کے وہ يشر کا تعارف کرواتی ہادی کسی جانب سے بھاگتا ہواآيا اس کی ٹانگوں سے لپٹا۔
"ممی وہاں فلاورز پڑے ہوۓ ہيں ميں لے لوں" ہادی کو کہيں گجرے پڑے نظر آگۓ تھے وہ انہيں لينے کے ليۓ عزہ سے اجازت لينے آيا۔
"ارے يہ وفا کا بيٹا ہے کيا۔ابھی تک يہ تمہارے پاس ہيں" حنا نے ہادی کو ديکھتے حيرت سے استفسار کيا۔ اور عزہ کا دل کيا ان کا منہ بند کردے۔
"ميرا بيٹا ہے يہ" عزہ ايک ايک لفظ پر زور ديتی انہيں غصے سے گھورتے ہوۓ ہادی کا ہاتھ پکڑے وہاں سے چلی گئ۔
جبکہ پيچھے کھڑا يشر شکتے کی کيفيت ميں تھا۔۔وفا۔۔بچے۔۔اس کی الجھن ميں اضافہ ہوا۔ اس نے جاتی ہوئ عزہ سے نظريں ہٹاتے حنا کی جانب ديکھا مگر تب تک وہ جا چکی تھی اور يشر کے ليۓ بہت سی الجھنيں چھوڑ گئ تھی۔ يہ کيا معمہ تھا وہ کتنی ہی دير ويسے ہی اپنی جگہ کھڑا رہا۔
پھر ايک لمبی سانس کھينچ کر خود کو واپس اس ماحول ميں لانے کی کوشش کی۔
اس کے بعد عزہ جيسے جان بوجھ کر يشر سے کتراتی رہی۔
يشر ابھی سعد کو کھانا کھلا کر فارغ ہوا تھا کہ فيجہ آپا کی کال آگئ۔ وہ مہندی کے فنکشن ميں نہيں آئيں تھيں۔ کيونکہ اسی دن وہ دونوں آسٹريليا سے آۓ تھے۔ اب رات ميں فيصل آباد سے نکل کر انہوں نے اسلام آباد آنا تھا۔
يشر نے خود کھانا نہيں کھايا تھا سب بھوک پياس اسے لگ رہا تھا کہ اڑ گئ ہے۔
"اسلام عليکم کيسی ہيں آپا!" اس نے فون ريسيو کرتے کہا۔ سر شديد دکھ رہا تھا۔
"وعليکم سلام بالکل ٹھيک تم سناؤ کيسا جا رہا ہے فنکشن" ان کی مسکراتی آواز فون سے ابھری۔
"ٹھيک ہے" وہ جس کيفيت کے زير اثر تھا اب اسے کچھ بھی اچھا نہيں لگ رہا تھا۔ ايسی کيا بات تھی جو عزہ نے اس سے چھپائ تھی۔ اتنا تو اسے يقين ہو گيا تھا کہ کوئ بات ہے جو يشر کو نہيں پتہ بلکہ کوئ سچ ہے جس سے وہ ناواقف ہے۔
اگر ايسا نہ ہوتا تو عزہ اس ساری گفتگو کے بعد يشر سے ہر جگہ نگاہيں کيوں چراتی۔ ابھی بھی سعد کو اس نے يشر کے پاس کھانا کھلانے کے ليۓ خود آکر چھوڑنے کی بجاۓ يشر کے ايک کزن کے ساتھ بھجوايا۔
"ہم نکل پڑے ہيں اميد ہے تم لوگوں کے يہاں سےفارغ ہو کر گھر پہنچنے تک پہنچ جائيں گے" وہ ابھی فيحہ سے بات کر ہی رہا تھا کہ اسے سامنے سے عزہ کی وہی کزن کسی کے ساتھ بيٹھی نظر آئ جسے عزہ نے حنا آپی کہا تھا۔
يشر کچھ سوچتے ہوۓ فيحہ کو خداحافظ کہتا ہوا اس کی جانب بڑھا۔
"ايکسکيوزمی مس ميں آپ سے کچھ بات کر سکتا ہوں" يشر کے مخاطب کرنے پر حنا نے يشر کی جانب ديکھ۔ يہ وہی لڑکا تھا جسے اس دن حنا عزہ کے ساتھ ريسٹورنٹ ميں اور اب يہاں بھی ديکھ چکی تھی وہ اٹھ کر اس کے پاس آئ۔
يشر اسے ليۓ ايک کونے ميں آگيا۔
"ميں عزہ کا ہزبينڈ ہوں آپ غالباّّ انکی کزن ہيں" اس نے اپنا تعارف کروايا۔
"آہاں۔۔۔ماشاءاللہ عزہ کی شادی ہوگئ۔ جی ميں اس کے تايا کی بيٹی ہوں لڑکے والوں کی طرف سے آئ ہوں اور آپ" اس نے خوش ہوتے پوچھا۔
"فزا ميری کزن ہے" يشر نے بتايا مگر وہ خوشگواری وہ لہجے ميں نہيں لا سکا جو اسکی شخصيت کا خاصہ تھی۔ اس وقت وہ اتنا الجھا ہوا تھا کہ وہ بامشکل خود کو اس جگہ پر رہنے کے ليۓ آمادہ کر پا رہا تھا۔
"آپ لوگ عزہ کے گھر والوں سے اب نہيں ملتے" يشر آخر اس موضوع کی جانب آيا جس کے ليۓ وہ اس کے پاس آيا تھا۔
"بس عزہ کی وجہ سے ہم نے انہيں چھوڑا ہے۔ کيونکہ وفا کے بعد ايسے حالات پيدا ہوۓ کہ عزہ نے سب کا اپنے گھر آنا بند کروا ديا۔" حنا کی گفتگو ميں بار بار کسی وفا نامی لڑکی کا ذکر اسے الجھا رہا تھا۔
"کيا آپ مجھے اپنا نمبر دے سکتی ہيں مجھے کچھ پوچھنا ہے آپ سے مگر ميں يہاں وہ سب ڈسکس نہيں کرسکتا" يشر کو جگہ کی نزاکت کا احساس ہوا تو اس نے کچھ بھی اور پوچھنے کا ارادہ ملتوی کرکے حنا کا نمبر لينا مناسب سمجھا وہ نہيں چاہتا تھا کہ حقيقت جو بھی يہاں کسی بندے کو پتا چلے اور عزہ کی عزت پر کوئ بات آۓ۔ آخر وہ اس کی بيوی تھی۔
"ہاں ہاں کيوں نہيں۔آپ لوگ کيا يہيں ہوتے ہيں يا لاہور" حنا نے نمبر ديتے ہوۓ پوچھا۔ يشر اس کے نمبر بتانے پر موبائل ميں سيو کرنے لگا۔
"نہيں لاہور ميں يہاں تو ميرے پيرنٹس اور بھائ ہوتا ہے ميں عزہ اور بچے لاہور ميں ہوتے ہيں" يشر نے سنجيدگی سے بتايا۔
"اچھا يہ بچے آپکے پاس ہيں حد ہی کی ہے عزہ نے ان بچوں کو ابھی تک اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے بے وقوف" يشر نے بڑی مشکل سے خود کو کچھ بھی اور پوچھنے سے روکا جبکہ دماغ ميں سوال ابھر کہ "اگر ماں کے ساتھ نہ ہوتے تو کس کے ساتھ ہوتے" مگر فی الوقت وہ خاموش ہی رہا۔
"اور آپ لاہور ميں ہوتی ہيں؟"
"جی ميں بھی لاہور ميں ہوتی ہوں کبھی آئيے گا عزہ کو لے کر ہماری طرف"
شکريہ کہہ کر وہ اس کے پاس سے ہٹ گيا۔
مہندی سے فارغ ہو کر جب وہ واپس گھر جارہے تھے تو گاڑی ميں مہيب خاموشی تھی۔ بچے سے چکے تھے جبکہ عزہ اور يشر اپنے اپنے خيالوں ميں گم تھے۔ عزہ اس سے مکمل طور پر گريز برت رہی تھی اور يہی بات يشر کا دماغ کھولا رہی تھی۔
کيا وہ اس کے ليۓ اب بھی اتنا بے اعتبار ہے کہ وہ اسے وہ حقيقت نہيں بتا رہی جسے وہ دوسرے لوگوں سے اب معلوم کرے گا۔
اس نے تو ابھی تک ہر لمحہ اسے اپنی محبت کا ثبوت ديا تھا ايسی بے لوث محبت جس ميں کوئ کھوٹ اور صلے کی خواہش ہی نہيں تھی کيا پھر بھی۔۔
يشر کو لگ رہا تھا اسکے دماغ کی نسيں پھٹ جائيں گی۔
جبکہ عزہ سوچ رہی تھی کہ کيسے وہ اسے حقيقت بتاۓ وہ تو اس راز پر سے کبھی پردہ اٹھانا ہی نہيں چاہتی تھی مگر يہ آج کيا ہوگيا تھا۔
___________________________
جب وہ گھر آۓ تو زبير کی گاڑی پہلے سے موجود تھی اس کا مطلب تھا وہ لوگ بھی پہنچ چکے ہے۔
زبير جب بھی پاکستان آتا تھا اپنی بليک کرولا ہی استعمال کرتا تھا۔ اس وقت بھی يشر کے گھر کے گيراج ميں ان کی گاڑی کھڑی ہوئ تھی۔
بچے چونکہ سوۓ ہوۓ تھے لہذا يشر نے سعد کو اٹھايا اور عزہ نے ہادی کو۔
گاڑی کا دروازہ لاک کرتے وہ عزہ سے پہلے لاؤنج ميں داخل ہوا۔
"اسلام عليکم تو بالآخر بڑے بڑے لوگ ہمارے گھر آ ہی گۓ۔" زبير کو ديکھ کر يشر کے مزاج پر کچھ دير پہلے جو پژمردگی چھائ ہوئ تھی وہ کسی حد تک کم ہوئ۔
"وعليکم سلام۔مبارک ہو ميرے شہزادے آخرکار آپ نے بھی شدہ والی کيٹگری ميں خود کو شامل کروا ہی ليا" يشر سے بغلگير ہوتے زبير نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
"ايک شہزادہ يہ ہے تمہارا دوسرا کہاں ہے" زبير نے يشر کی گود ميں سوۓ ہوۓ سعد کو پيار کرتے ہوۓ کہا۔
بچوں سے محبت اب ويسے بھی اپنی محرومی کے بعد اس کو زيادہ ہی محسوس ہوتی تھی۔
"وہ اپنی ممی کے پاس ہے" يشر نے پيچھے مڑ کر کہا جہاں عزہ ہادی کو اٹھاۓ اندر داخل ہوئ تھی۔ ابھی وہ اپنے دوپٹے اور غرارے ميں الجھی انہيں سنبھالتے سر نيچۓ کئيۓ داخل ہو رہی تھی۔
"لو آگئ ان کی بيگم" فيحا نے عزہ کو ديکھ کر مسکراتے ہوۓ کہا۔
عزہ نے فيحہ کی آواز پر مسکراتے ہوۓ جيسے ہی سر اٹھايا۔ فيحہ کے ساتھ کھڑے وجود نے اس کو چکرا کر رکھ ديا۔
کم حال زبير کا بھی نہيں تھا۔ وہ بھی خود کو زلزلوں کی زد ميں محسوس کر رہا تھا۔
يشر جو کچھ دير پہلے کسی نامکمل سچ کو جان چکا تھا اگر وہ نہ جان چکا ہوتا تو يقيناّّ عزہ کا اس طرح ٹھٹھکنا محسوس نہ کرتا مگر اس نے نہ صرف عزہ کے چہرے کے نقوش کو تنتے ہوۓ محسوس کيا بلکہ اس کی آنکھوں سے چھلکنے والی حيرانی اور پھر سکتے کو بھی محسوس کيا۔
"آؤ عزہ يہ زبير بھائ ہيں فيحہ آپا کے ہزبينڈ" اس نے اپنے تاثرات پر قابو پاتے عزہ کو مخاطب کيا۔
فيحہ تب تک عزہ کی جانب بڑھ کر اس سے مل رہيں تھيں۔
جبکہ وہ سوچ رہی تھی کہ ايک سچ سے بچ کر وہ يہاں آئ اور اس سے بھی بڑا اور تلخ سچ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
"کاش ميں اس شادی ميں ہی نہ آتی" اس نے خود سے مخاطب ہوتے حسرت سے سوچا۔
"اسلام عليکم بھابھی کيسی ہيں"آخر زبير کو اپنی کيفيت کو چھپاتے عزہ کو خوشگوار لہجہ رکھتے مخاطب کرنا پڑا۔
ان کے درميان کيا سچ تھا يہ صرف وہ دونوں جانتے تھے وہاں موجود کوئ شخص نہيں۔
زبير نے طائرانہ نگاہ لاؤنج ميں ڈالی جہاں شہاب صاحب، فريحہ بيگم، واسع اور تحريم بھی موجود تھے۔
"وعليکم سلام، ميں ہادی کو لٹا کر اور چينج کرکے آتی ہوں" دل پر پتھر رکھتے اس نے ايسے شخص پر سلامتی بھيجی جس سے وہ دنيا ميں سب سے زيادہ نفرت کرتی تھی۔
جس نے محبت جيسے حسين جذبے سے اس کا اعتبار اٹھا ديا تھا اور جس کے دھوکے نے اسے يشر جيسے بندے کی خالص محبت کو محسوس نہيں کرنے ديا تھا۔
کياکيا قصور نہيں تھے اس شخص کے کھاتے ميں پھر وہ کيے نارمل طريقے سے اس کے ساتھ پيش آتی۔
ہادی کو اٹھاۓ سيڑھياں چڑھتے وہ مسلسل يہاں سے چلے جانے کی دعائيں مانگ رہی تھی۔
يشر بھی اس کے پيچھے سعد کو اٹھاۓ آ رہا تھا۔
ہادی کو لٹا کر وہ اپنی جھنجھلاہٹ اور غصہ ان چوڑيوں پر اتار رہی تھی جنہيں کچھ گھنٹے پہلے يشر نے گاڑی ميں مہندی پر جاتے ہوۓ چھو کر ان کی جلترنگ کو محسوس کيا تھا۔
"مجھے چوڑيوں کی آواز کبھی اتنی اچھی نہيں لگی جتنی آج آپکے ہاتھوں ميں بجتی ہوئ لگ رہی ہيں" يشر نے اس کے کان کے قريب سرگوشی کی۔
اب جب وہ يشر کی محبت کو محسوس کرنے لگی تھی اور اپنے دل کو اسکی جانب مائل ہونے پر آمادہ کر رہی تھی تو يہ سب کيا ہوگيا تھا۔
يشر جو سعد کے پاس ہادی کو لٹا چکا تھا اپنی واسکٹ اتارتا، والٹ، موبائل اور گاڑی کی چابی بيڈ سائيڈ ٹيبلز پر رکھتا مسلسل عزہ کو اپنے نظروں کے حصار ميں رکھے اس کی ايک ايک بے زاری اور غصے سے بھرپور جنبش کو ديکھ رہا تھا۔
وہ اس پورے وقت صرف افسوس ميں مبتلا تھا۔کيا کہے وہ اس لڑکی کو جس نے ايک لمحے کے ليۓ بھی اسے اعتماد نہيں بخشا۔
وہ اس لمجے بے بسی کی انتہاؤں پر تھا۔
آہستہ آہستہ چلتا وہ عزہ کے پيچھے جا کر کھڑا ہوا۔
کچھ دير پہلے کے لمحے ياد آۓ جب اسے چھونے اور اپنی محبت کی بارش ميں بھگونے کی خواہش بڑی شدت سے جاگی تھی اور اب۔۔۔۔۔
"خود سے لڑتے رہنے سے بہتر ہے کہ انسان سچ کا سامنا کرے اور اگر اتنی ہمت نہيں تو بہتر ہے کہ کسی کو اس ميں شريک کر لے تاکہ اگلا بندہ آپ کو بہتر مشورے سے نواز سکے۔ مگر آپ نے اپنے گرد جو خودساختہ ديواريں کھڑی کر رکھی ہيں انہيں آپ نے کسی لمحے گرانے کی نہ کوشش کی ہے نہ کرنا چاہتی ہيں" وہ اسے کيا کچھ جتا رہا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
"کہنا کيا چاہ رہے ہيں آپ" اس نے حيران نظروں سے اسے ديکھا
"يہ سوال آپ اپنے آپ سے کريں تو شايد جواب مل جاۓ کہ ميں کيا کہنا چاہتا ہوں اور کس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔ بہت ذہين ہيں آپ بہت اچھے سے سمجھ جائيں گی" يشر يہ کہہ کر وہاں رکا نہيں واش روم کی جانب چلا گيا اسے وہيں سکتے کی کيفيت ميں چھوڑ کر۔
جوں ہی وہ کپڑے چينج کرکے باہے آيا عزہ کو وہيں اسی کيفيت ميں کھڑے ديکھ کر اگنور کرے باہر جانے لگا کہ عزہ کی آواز آئ۔
"کيا ہم کل واپس جا سکتے ہيں" زميں پر کوئ غير مرئ نقطہ ديکھتے وہ يشر سے مخاطب تھی۔
"کيوں" يشر نے بھی سوال اٹھايا۔
"بس مجھے واپس جانا ہے، پليز ميں ابھی کچھ نہيں بتا سکتی بس ايک درخواست کر سکتی ہوں کيونکہ ميں اس وقت آپ پر ڈيپينڈ کرتی ہوں۔ يہاں سے جانا ميں آپکے بغير نہيں کر سکتی۔ کہ يہ ميری مجبوری ہے۔ لہذا آپ سے صرف ريکوئيسٹ ہی کر سکتی ہوں۔ ميں اس وقت بہت تکليف سے گزر رہی ہوں۔ اور آپ کو اسی ليۓ پکارا ہے کہ کہيں ايک موہوم سا احساس ہے، مان ہے کہ آپ مجھے ہميشہ کی طرح بغير کوئ سوال کيۓ ان تکليف دے لمحات ميں سے نکال ليں گے" اپنی بات کہہ کر جيسے ہی اس نے آنکھيں اٹھا کر يشر کی جانب ديکھا اس کے آنسوؤں ميں اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
اپنی تکليف کو ختم کرنے کے ليۓ وہ اسے يہ کس آزمائش ميں ڈالنا چاہتی تھی۔
اس نے بالوں ميں ہاتھ پھيرتے بے بسی سے سوچا۔
پھر آنسو بہاتی عزہ کے قريب آيا جسے اس وقت ايک کندھے کی ضرورت تھی۔
يشر کو اپنے قريب کھڑا محسوس کرکے وہ اسکے بازو سے لگی آنسو بہانے لگی مگر يشر اسکی بد اعتمادی کو محسوس کرکے اسے دلاسا نہ دلا سکا۔
ٹھيک ہے وہ اسکی محبت ميں بہت مجبور تھا مگر اتنا نہيں کہ اپنی محبت کے جواب ميں اس قدر بے اعتمادی کو کھلے دل سے قبول کرتا۔
وہ اپنا فرض نبھا رہا تھا اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔
اگلے دن اس نے اپنی کسی ارجنٹ ميٹنگ کا ايسا بہانہ گھڑا کے کسی نے کچھ نہ کہا اور يوں وہ چاروں شام ميں واپس لاہور کے ليۓ نکل پڑے۔
مگر وہ سفر جو انہوں نے مجبت سے شروع کيا تھا اس کی واپس اتنی تکليف دہ ہوگی وہ دونوں نہيں جانتے تھے۔
_____________________
يشر نے واپس آکر دو تين دن بعد حنا کو ميسج کيا کہ وہ اس سے کہيں باہر ملنا چاہتا ہے وہ اب مزيد خود کو اس سچ کو جاننے سے روک نہيں پا رہا تھا۔
عزہ کو تو واپس آکر ايسی چپ لگی تھی کہ يشر اس سے توقع ہی نہيں کر پا رہا تھا کہ وہ خود اسے کچھ بتاۓ گی۔
مگر وہ کس سے يہ سب پوچھتا۔ اس ميں اتنی ہمت نہيں تھی کہ وہ زبير سے کوئ بات کرتا جو يفيناّّ اس ساری کہانی کا کوئ کردار ضرور تھا۔
آخر وہ اس کی بہن کا شوہر تھا۔ نجانے يشر کک دل يہ کيوں سوچ رہا تھا کہ عزہ کا ايکس ہزبينڈ۔۔۔۔۔مگر وہ اس سے آگۓ کچھ نہيں سوچنا چاہتا تھا۔ اسے اپنا دل بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔
وہ اس قدر الجھ چکا تھا کہ اب جلد از جلد سب حقيقت جاننا چاہتا تھا اور پھر وفا نامی لڑکی کون تھی اور ان بچوں کو حنا نے اس لڑکی کے بچے کيوں سمجھا۔
اب ان سب سوالوں کا جواب اسے اگلے دن ہی ملنا تھا۔ اور يہ رات اس پر بہت بھاری گزر رہی تھی۔
________________________-
اگلے دن شام ميں يشر حنا کے ساتھ وقت طے کرکے بندو خان پہنچ گيا۔
"کيسی ہيں آپ" سلام دعا کرکے يشر نے اسے بيٹھنے کا اشارہ کرتے پوچھا اور پھر خود بھی اس کے سامنے کرسی سنبھالی۔
"ميں ٹھيک ہوں آپ بتائيں" اس نے بھی خوش اخلاقی سے يشر سے پوچھا جبکہ يشر کسی بھی قسم کی خوش اخلاقی کا مظاہرہ نہيں کرسکا۔
"جی ٹھيک۔۔مجھے کچھ باتوں کا پتہ کرنا ہے۔ ميرے پاس اس وقت سواۓ آپ پر اعتماد کرنے اور آپ سے وہ سب پوچھنے کی علاوہ کوئ اور آپشن نہيں، جس نے ميری پچھلے کچھ دنوں سے نينديں تک اڑا دی ہيں۔ميں اميد کرتا ہوں ہمارے درميان جو باتيں ہوں گی وہ کسی اور کو پتہ نہ چليں۔ اور نہ کبھی آپ انہيں غلط انداز ميں استعمال کرکے ميرے اور عزہ کے تعلقات کو خراب کريں گی۔ يہ مت سمجھئيۓ گا کہ ميں کسی شک کے سبب يہ سب پوچھ رہا ہوں۔ ميں صرف الجھا ہوا ہوں اور عزہ شايد کسی سبب مجھے سچ بتانے سے ہچکچا رہی ہے اسی ليۓ مجھے کسی اور کے سہارے کی ضرورت پيش آئ ہے۔"
يشر کی تنبيہہ بھری باتوں کو حنا اچھے سے سمجھ گئ تھی۔
"آپ بے فکر ہو کر پوچھيں يہاں کی کوئ بات کہيں اور نہيں جاۓ گی" اس نے يشر کو يقين دلايا۔
"سب سے پہلے ميں کچھ باتيں بتانا پسند کروں گا۔ ميری اور عزہ کی شادی ميری پسند پر ہوئ۔ کيونکہ ان کے بچوں کو کوئ اور قبول کرنے کو تيار نہ تھا۔ مگر مجھے وہ ہر حال ميں قبول تھيں۔ مجھے نہيں پتہ وہ بد نصيب کون تھا جس نے انہيں چھوڑا۔ ان کے ميری زندگی ميں آنے کے بعد کا ہر لمحہ ميں خود پر رشک کرتا ہوں کہ اللہ نے ميری قسمت ميں اتنی باحيا اور اچھی بيوی لکھی۔ جس نے کبھی ميرے رشتوں کو توڑنے کا نہيں سوچا۔بہر حال۔۔۔"
"سوری يشر ميں آپکی بات کاٹ رہی ہوں پہلے تو ميں آپکی تصحيح کردوں کہ يہ بچے عزہ کے نہيں ہيں اور وہ ان ميريڈ ہے اسکی کوئ پہلے شادی نہيں ہوئ بلکہ آپکے ساتھ اسکی شادی پہلی شادی ہی ہے" حنا کے اتنے واضح الفاظ نے يشر کا دماغ چکرا کر رکھ ديا۔
"مجھے اندازہ ہوگيا ہے کہ اس نے بہت سی حقيقتيں آپ سے چھپائی ہيں اور يہ سب اس نے ان بچوں کی محبت ميں کيا ہے۔ اس نے تو ہم سب کو بھی ان بچوں کے ليۓ چھوڑ ديا تھا۔ وہ بہت محبت کرتی ہے ان سے اور آخر کيوں نہ کرے انکے پہلے دن سے اب تک اس نے انہيں ماں بن کر پالا ہے۔ بہن کی اولاد تو ويسے ہی اتنی پياری ہوتی ہے اور عزہ تو وفا سے شديد محبت کرتی تھی۔ تو اسکے جگر گوشوں سے کيوں نہ محبت کرتی" حنا کے سچ يشر کو ہولا رہے تھے