امی ميں کتنی مرتبہ کہوں کے مجھے شادی نہيں کرنی۔ آخر آپ اور ابا کيوں نہيں سمجھتے۔ کيا اس کے بغير ميری زندگی نہيں گزر سکتی۔" عزہ جو ابھی کھانا کھا کر بچوں کو سلا کر اپنا آفس کا کام کھول کر بيٹھی ہی تھی کہ عطيہ بيگم اسے دودھ دينے آئيں اور ساتھ ہی نۓ آنے والے رشتے کی بات شروع کر بيٹھيں۔ حالانکہ وہ جانتی تھيں کہ ہميشہ کی طرح اس بار بھی انکار ہی آۓ گا مگر پھر بھی وہ ایک آس ليۓ عزہ سے بات شروع کر چکی تھيں۔
"بيٹا يہ بہت ضروری ہے۔ ايک عورت مرد کے بغير اس معاشرے ميں تنہا زندگی نہيں گزار سکتی۔" وہ لاچاری سے اسے ہر دفعہ کی طرح اس مرتبہ بھی سمجھانے بيٹھ گئيں۔
"يہ سب فرسودہ باتيں ہيں آج کی عورت سب کچھ کر سکتی ہے" اس نے ماں کی بات کو اڑايا۔
"عورت ہر دور ميں عورت ہی رہتی ہے۔ يہ چار کتابيں پڑھ کر تم لوگ سمجھتے ہو باہر پھرنے والے ہر گدھ کا مقابلہ کر لوگی۔ تم مجھے اتنا بتاؤ اگر تمہارے ابا نہ ہوں تو کيا تم رات کے دو بجے ان بچوں کو لے کر ہاسپٹلوں اور ميڈيکل سٹورز کے چکر کاٹ سکتی ہو۔ يہ ايک مرد کا آسرا ہی ہے کہ تم ان بچوں کی ذمہ داری آرام سے نبھا رہی ہو۔ نہيں تو ميں ديکھوں چار دن بھی تم نکال نہيں سکتی۔" ماں کی باتيں سن کر وہ جو اپنی طرف سے ليپ ٹاپ پر کام شروع کرچکی تھی ساکت رہ گئ۔ کتنے لمحے وہ کچھ بول ہی نہ پائ۔
کتنا صحيح کہا ہے امی نے ابھی کل رات کی ہی تو بات تھی۔ جب ہادی کی رات ميں طبيعت خراب ہوئ الٹياں اس قدر شروع ہوئيں کہ سنبھالنا مشکل ہو گيا۔
ابا کے ساتھ وہ رات کے دو بجے قريبی ہاسپٹل کی جانب بھاگی۔ يہ ابا ہی تھے جو بھاگ دوڑ کرےک کبھی ڈاکٹروں سے بات کرتے اور کبھی ڈسپنسری سے کوئ دوا لاتے جبکہ وہ تو ايک کونے ميں کھڑی بس روۓ جا رہی تھی۔
ايسا نہيں تھا کہ وہ کوئ دبو سی لڑکی تھی۔ عام لڑکيوں سے کہيں زيادہ ہمت اور حوصلے والی تھی۔ شايد ماں بننے کا احساس ہی انسان کو باہمت بنا ديتا ہے۔اور پھر جو لوگ سنگل پيرنٹ ہوں وہ تو ويسے بھی اپنی اولاد کو زمانے کے سردو گرم سے بچانے کے ليۓ خود طوفان بن جاتے ہيں۔ عزہ بھی ايسی ہی تھی۔ سعد اور ہادی نے اسے جہاں مضبوط بنا ديا تھا وہاں وہ ماں ہونے کے ناطے اندر سے بے حد کمزور بھی تھی۔ اپنی اولاد کی تکليف وہ سہہ نہيں پاتی تھی۔
ابھی تو ابا کا آسرا تھا اور اگر ابا نہ ہوں تو۔۔۔۔۔۔يہ سب سوچ کروہ حقيقت ميں اندر تک کانپ گئ تھی۔
"امی آپ کی بات ٹھيک ہے ميں مانتی ہوں۔ مگر کون ہے جو مجھے ميرے بچوں سميت قبول کرے گا۔ اس حقيقت سے بھی تو آپ نظر نہيں چرا سکتيں نا" اس نے اب ماں کے ليۓ سوچ کے در وا کيۓ۔
"تو ميں نے کہا ہے نا ہم ان کو رکھيں گے۔ ہمارے پاس تمہارے اور ان بچوں کے علاوہ ہے ہی کون" انکے پاس پہلے سے حل موجود تھا۔
"يہ تو بالکل بھی نہيں ہو سکتا۔ آپ کی اپنی طبيعت ٹھيک نہيں رہتی ابا خود ہارٹ پيشنٹ ہيں اور ويسے بھی ميں اپنے بچوں کو رلنے کے ليۓ چھوڑ کر۔ محرومی دے کر خود زندگی کی خوشياں کشيد کرنے چل پڑوں۔ مجھے بتائيں کون ماں ايسی ظالم ہو سکتی ہے۔" وہ انکی بات در کرتے ہوۓ قطيعت سے بولی۔
"تو کيا ہم تمہيں اس طرح اجڑی حالت ميں چھوڑ کر قبر ميں جاليٹيں" عطيہ بيگم آج پھر اسکی ضد کے آگے زچ ہو گئيں تھيں۔ ہر بار اسکی ايک ہی تو رٹ ہوتی تھی۔ شادی نہيں کرنی ميرے بچے کون قبول کرے گا۔
"اللہ نہ کرے آپ پليز يہ مرنے مارنے والی باتيں نہ کيا کريں کتنی دفع کہوں آپکو" وہ ليپ ٹاپ بيڈ پر رکھتی انکے قريب جا بيٹھی۔ سر انکے کندھے پر رکھ کر انکے ہاتھ تھام ليۓ جيسے انہيں کہيں نہيں جانے دے گی۔
"تو ميری جان ہميں مت ستاؤ اور رشتے کے ليۓ ہامی بھر لو" انہوں نے ايک ہاتھ اسکے بالوں پر پھيرتے اسکے سر پر پيار کرتے ہوۓ کہا۔
"ٹھيک ہے ميں مان جاؤں گی اگر کوئ ايسا شخص ہو جو مجھے ميرے بچوں سميت قبول کرے۔ يقين کريں ميں ايک لفظ اعتراض کا کہے بغير ہاں کر دوں گی۔ مگر ميری شادی کرنے کی شرط يہی ہے۔" اس نے بھی کچھ انکی بات منواتے اور کچھ اپنی منواتے ہوۓ کہا۔
"يہ تو پھر نہ ہی کہنے والی بات ہوئ نا" عطيہ بيگم نے اسکی چالاکی سمجھتے ہوۓ کہا۔
"ہو سکتا ہے کوئ ايسا ہو جو يہ شرط مان ہی جاۓ۔ آپ خود ہی تو کہتيں ہيں ہميشہ اچھے کی اميد رکھو تو اللہ بھی اچھا ہی کرے گا۔ اب آپ خود ہی مايوس ہو رہيں ہيں" وہ جانتی تھی کہ ايسا کوئ ہو ہی نہيں سکتا جو ايک دو بچوں کی ماں سے شادی پر تيار ہو اسی ليۓ يہ شرط رکھی تھی۔ وہ بار بار انہيں مايوس بھی نہيں کرنا چاہتی تھی مگر اقرار بھی ايسی شرط کے ساتھ کيا جو پورا ہونے والا نہيں تھا۔
"اللہ کرے ميں تو کہتی ہوں کل کا ملتا آج کوئ ايسا لڑکا ملے تو ميں تو ايک سيکنڈ نہ لگاؤں" انہوں نے حسرت سے کہا۔
"اب ہم بوجھ بن گۓ ہيں نا آپ پر" اس نے انکے کندھے سے سر اٹھاتے خفگی بھرے لہجے ميں کہا۔
"نہيں ميری جان بيٹياں ماں باپ پر کبھی بوجھ نہيں ہوتيں مگر يہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ ساری عمر ماں باپ کی دہليز پر بيٹھی اچھی بھی نہيں لگتيں يہ عجيب سی محبت ہے انہيں دور کرنا بھی نہيں چاہتے مگر کرنا بھی پڑتا ہے۔بس يہ تو اللہ کا نظام ہے۔"انہوں نے اسے سمجھاتے ہوۓ کہا۔
"چلو اب تم کام کرو اپنا ميرے وظيفے کا وفت ہوگيا ہے۔ اللہ ہماری زندگی ميں ہی تمہيں اپنے گھر کا کر دے تو بس سے بڑھ کر ہمارے ليۓ سکون کی بات اور کيا ہوگی" اسکے پاس سے اٹھتے انہوں نے ہادی اور سعد کو پيار کيا اور کمرے سے چلی گئيں۔
حبکہ وہ ساری سوچوں کو جھٹک کر کل کی پريزينٹيشن تيار کرنے لگ گئ۔
اسے يقين تھا کہ ايسا کوئ جی دار نہيں ہوگا جو اسے اسکے بچوں سميت قبول کرے۔
مگر کبھی کبھی ايسا ہوتا ہے نا کہ خدا ہميں بتاتاہے اور دکھاتا ہے کہ ہماری سوچ اور ہمارا يقين اسکے ارادوں کے آگے کچھ بھی نہيں۔ اگر ہم اپنے آنے والے کل کے متعلق سب جان ليں تو غيب اور اسکا علم تو کوئ معانی نہيں رکھتے۔ اللہ ہميں عقل، شعور سمجھ بوجھ سب ديتا ہے مگر کچھ علم وہ ہم سے مخفی رکھتا ہے يہ بتانے کے ليۓ کہ ہم انسان ہيں اسکے بندے اور اسکی حکمت کے آگے سر جھکانے والے۔
_____________________
"ہيلو! سحر عزہ آچکيں ہيں کيا" يشر کی گھمبير آواز ماؤتھ پيس ميں گونجی۔
"جی سر ابھی تھوڑی دير پہلے آئ ہيں" سحر جو کہ يشر کی پی اے تھی تھوڑی دير پہلے ہی اس نے عزہ کو اپنے کيبن ميں جاتے ديکھا تھا۔
"اوکے آپ انہيں کہيں کہ پريزينٹيشن کی فائل لے کر ميرے آفس ميں آئيں" يشر کا اگلا حکم ملتے ہی اس نے جی کہہ کر فون رکھا۔ دوسرے فون سے عزہ کے کيبن کی ايکسٹينشن کا نمبر ملايا۔
"ہيلو"
"سر کہہ رہے ہيں آج جو ميٹنگ ہونی ہے اسکی پريزينٹيشن فائل لے کر فورا انکے آفس ميں پہنچو"
سحر نے اسکی ہيلو کے جواب ميں يشر کا پيغام پہنچايا۔
"ارے يار سانس تو لينے ديتے اور انہيں کيا الہام ہوا ہے کہ ميں آگئ ہوں" وہ جو ابھی ابھی آکر بيٹھی ہی تھی اور اپنی چيزيں ارينج کر رہی تھی يشر کے ملنے والے پيغام پر بد مزہ ہوئ۔
"الہام نہيں ڈئير انکی پی اے کس ليۓ ہے" سحر نے فخريہ اپنی کارکردگی بتائ۔
"تمہيں تو ريلوے ميں ہونا چاہيۓ تھا تيز گام کہيں کی۔ وہاں کا بھی کچھ بھلا ہو جاتا۔" اس نے اپنی فائل نکالتے سحر کی تيزيوں پر طنز کيا۔
"شکريہ اب باقی کی کلاس ميری لنچ بريک ميں لے لينا ابھی تو سر کے پاس پہنچو اس سے پہلے کے وہ تمہارے سر پر پہنچ جائيں" اس نے ہنستے ہوۓ يشر کے غصے سے ڈرايا۔ وہ کام کے معاملے ميں بہت ڈسپلنڈ تھا۔
جس پر اکثر عزہ خود کہتی تھی کہ سر اتنے ڈسپلنڈ نہ ہوتے تو ہم نے کب کا انکا بزنس ڈبو دينا تھا۔
وہ کوئ بہت بوڑھا نہيں تھا۔ بمشکل انتيس سال کا تھا۔ مگر کام کرنا اور لينا خوب جانتا تھا۔ سافٹ سپاکن مگر اصولوں کے معاملے ميں سخت۔ عزہ کو ابھی چھ ماہ ہوۓ تھے يشر کا آفس جوائن کيۓ۔ مگر حقيقت ميں اسے يشر کے انڈر کام کرکے مزہ آتا تھا۔
نہايت چيلنجنگ بندہ تھا۔ اسپورٹس کٹس کا بزنس کرتا تھا۔ سب بڑی بڑی کمپنيوں کو مال سپلائ کرتا تھا۔
کچھ عرصہ ہی ہوا تھا اسے اس فيلڈ ميں آۓ مگر بہت جلدیاعلی پاۓ کے بزنس مينز ميں اس کا شمار ہونے لگا تھا جس کی وجہ اسکی ڈيڈيکيشن تھی۔
اپنے ماتحتوں کے ساتھ وہ بيک وقت دوست اور باس دونوں طرح سے پيش آتا تھا۔
ہلکی سی بيئيرڈ ميں تيکھے نقوش رکھنے والا يشر لڑکياں تو لڑکياں لڑکوں تک کے ليۓ ايک متاثرکن شخصيت کا حامل تھا۔
اپنے ہمراہ کام کرنے والی لڑکيوں کے ساتھ اسکا رويہ ريزورڈ مگر روڈ نہيں ہوتا تھا۔ بہت عزت سے وہ بات کرتا تھا۔
عزہ فائل لے کر اسکے آفس کا ددوازہ ناک کرکے کم ان کی آواز پر اندر بڑھی۔
"پليز عزہ ہيو آسيٹ" وہ جو بڑی سی ٹيبل کے دوسری جانب ڈارک گرے سوٹ ميں وائٹ شرٹ کے اوپر سٹيل گرے ٹائ لگاۓ اپنی چھا جانے والی شخصيت سميت ليپ ٹاپ سامنے رکھے کام کرنے ميں مصروف تھا۔ عزہ کو اندر آنے اور پھر اپنے سامنے بيٹھنے کا کہہ کر موبائل پر کسی سے بات کرنے ميں بھی مصروف تھا۔
عزہ اعتماد سے چلتے ہوۓ اسکے سامنے والی کرسی پر بيٹھ گئ۔
اور پريزينٹيشن والی فائل کھول کر اسکا ميٹيريل پھر سے پڑھنے لگی۔ کيونکہ کبھی کبھی يشر اتنے مشکل سوال کر جاتا تھا کہ اگلا بندہ کنفيوز نہ بھی ہونا چاہے تو ہو جاتا تھا۔
اور عزہ کی تو ايک دو مرتبہ اس سے عزت افزائ ہو چکی تھی۔ اسی ليۓ آج کی پريزينٹيشن اسکے ليۓ بہت امپورٹنٹ تھی۔
فون ختم کرتے ہی اس نے عزہ کی جانب رخ کيا۔جو مسٹرڈاور ڈارک بلو امتزاج کے رنگوں کا کھدر کا سوٹ پہنے سر پر براؤن اسکارف لپيٹے ڈارک بلو کيپ ليۓ ہميشہ کی طرح يشر کو بہت ہی گريس فل اور ڈيسينٹ لگ رہی تھی۔ اس نے کبھی اسے عام لڑکيوں کی طرح فيشن کے پيچھے لگ کر عجيب و غريب کپڑے پہنے نہيں ديکھا تھا۔ وہ اتنی ريزرورڈ رہتی تھی کہ اگلا بندہ خود ہی اس کی عزت کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔
"جی تو پريزينٹيشن دکھائيں" اس نے ہاتھ بڑھا کر عزہ کو وہ فائل پکڑانے کو کہا۔
عزہ نے جلدی سے وہ فائل اسے پکڑائ جو کچھ دير پہلے وہ پڑھ رہی تھی۔
"ميرے ہر ورکر کی الگ الگ کوالٹيز ہيں اور وہ کوالٹيز مجھے بہت پسند بھی ہيں۔ آپکی سب سے اچھی بات يہ ہے کہ آپ نروس ہوتی نہيں کرتی ہيں اور آج بھی ميں ايکسپيکٹ کروں گا کہ ميٹنگ ہال ميں بيٹھے ہوۓ سب لوگوں کو آپ اپنی اچھی سی پريزيںٹيشن سے اتنا مرعوب کريں کہ وہ نروس ہو کر کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہ کريں۔" بظاہر وہ جو فائل کی جانب متوجہ تھا اور مخاطب عزہ سے تھا اسکی ہاتھوں کی لرزش يشر کی تيز نظروں سے چھپی نہيں رہی تھی جو ٹيبل پر رکھے ہوۓ تھے۔
"سر بس فرسٹ ٹائم ہے تو اسی ليۓ تھوڑا سا نروس ہو رہی ہوں" عزہ کو اسکی سب سے زيادہ يہی بات پسند تھی کہ وہ اپنے دھيمے لہجے ميں اتنے طريقے سے تنقيد بھی کر جاتا تھا کہ اگلے بندے کو برا نہ لگے اور ساتھ ميں کوئ ايک آدھ بات تعريف کی کرکے اپنے ورکرز کا مورال ہميشہ بلند کرتا تھا۔
انکی حوصلہ افزائ کرتا تھا۔
"جب بھی آپ کچھ بھی کہيں پريزينٹ کريں ہميشہ يہ سوچ کر مائيک يا روسٹرم سنبھاليں کہ يہاں بيٹھا کوئ شخص آپکے ٹاپک کو آپ سے زيادہ نہيں جانتا۔ غلط بات بھی بول جائيں تو اتنے اعتماد کے ساتھ کے سامنے والے کو اپنے صحيح ہونے پر شبہہ ہو۔
اور اگر آپکا پيپر ورک پورا ہے جيسا کہ آپکی فائل سے نظر آ رہا ہے تو پھر آپکو گھبرانے کی ضرورت ہی نہيں آپ کو جب اپنی تياری پر اعتماد نہيں ہوگا آپ اسے لوگوں تک کيسے پہنچا سکيں گی۔" يشر کی باتوں نے واقعی اس کا اعتماد بحال کيا تھا۔
"جی سر تھينک يو" اس نے ہلکی سی مسکراہٹ ديتے يشر کا شکريہ ادا کيا۔
"آپ ميں بہت سے گٹس ہيں انکو بے اعتمادی کی نظر مت کريں۔" اسکی نظريں ہنوز اسکی فائل کی جانب تھيں۔
پھر اسے بند کرکے عزہ کی جانب بڑھاتے اس نے بيسٹ آف لک کہا اور اسے واپس جانے کا عنديہ ديا۔
ليکن يشر کی باتوں سے اسے اتنا فائدہ ہوا کہ اس نے پريزينٹيشن بہت اچھی دی۔ اور جس کلائنٹ سے انکی ڈيل چل رہی تھی وہ عزہ کی اتنی ڈيٹيلڈ پريزينٹيشن جس ميں اس نے ہر طرح کے فائدے کو ہائلائٹ کيا تھا اور اسکے علاوہ اس کلائنٹ کے باقی کمپنيز کے ساتھ کام کرنے کے بہت سے نقصانات کو بھی ہائلايٹ کيا تھا جو اسے وقتاّ فوقتاّ ملتے رہے تھے اور جو اسے انکے ساتھ کام کرنے ميں نہيں ہو سکتے تھے۔ عزہ کی اس پريزينٹيشن کے بعد وہ يشر کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہو گيا۔
________________________-
"سر اتنے اچھے کلائنٹ کے ملنے پر ايک لنچ تو بنتا ہے نا اور ميم عزہ کے ليۓ تو اسپيشلی۔" ہارون جو انکے آفس کا سا سے زيادہ زندہ دل لڑکا تھا وہ بولا۔ وہ سب اس وقت آفس کے ہال ميں موجود تھے۔ جہاں آج کی پريزينٹيشن کو ہی ڈسکس کيا جا رہا تھا۔
"بالکل کيوں نہيں آپ لوگ آرڈر پليس کريں ميں پے مينٹ کر ديتا ہوں" يشر نے اسکی ہاں ميں ہاں ملاتے سب کی جانب ديکھا۔
"نہيں سر يہاں تو روز ہی بيٹھ کر لنچ کرتے ہيں باہر چل کر کہيں لنچ کروائيں" ہارون کے کہنے پر سب نے ہاں ميں ہاں ملائ سواۓ عزہ کے۔
"اوکے! اس پريزينٹيشن کا زيادہ کريڈٹ تو مس عزہ کو جاتا ہے جہاں يہ کہيں گی ميں آپ سب کی ٹيبلز ريزرو کروا ديتا ہوں" يشر نے عزہ کی جانب ديکھتے ہوۓ کہا۔
"سر يہ تو پھر نہ والی ہی بات ہوئ" سحر کے کہنے پر سب ہنس پڑے سب جانتے تھے کے عزہ آفس کے کسی لنچ اور ڈنر ميں نہيں جاتی تھی۔ لہذا اسکے کچھ کہنے سے پہلے بولی۔
"اب يہ آپ لوگ خود ڈيسائيڈ کريں"يشر سب ان پر ڈالتا ہوا خود اپنے روم کی جانب چل پڑا۔
"بتا ديں نہ ميیم کيوں ہماری بھی ٹريٹ پر لات مار رہی ہيں" ہارون نے بے چارگی سے کہا۔
"اف کہہ ايسے رہے ہيں جيسے آج تک کبھی ہوٹلنگ نہيں کی۔ سوری جو کچھ منگوانا ہے يہيں منگوائيں" وہ اسے ہری جھنڈی دکھاتی اپنے کيبن کی طرف چل پڑی۔
باقی سب کا بھی منہ اتر گيا۔
_______________________