’ بات پکی کر لی ہے نا ؟‘
’ او ر نہیں تو کیا ، بس یوں سمجھو بات جب بنتی ہوئی آتی ہے تو نئے راستے خود بخود کھل جاتے ہیں۔۔۔ کسے خبر تھی کہ زندگی کی شاہراہ پر مخالفت سمت چلنے والا ایک اجنبی یوں آسانی سے ہتّھے چڑھ جائے گا۔‘
’ آپ بھی عجیب آدمی ہیں ہتّھے چڑھنے کی بھی خوب کہی اسے تو ایک خوبصورت تعلیم یافتہ ذہین لڑکی مِل رہی ہے اور پھر اُونچا خاندان بھی ہے۔‘ ہاجرہ نے جواباً کہا۔
’ اُونچا خاندان ۔۔۔۔ خوبصورت اور ذہین لڑکی۔‘ فضا میں اسد کا طنزیہ قہقہہ گُونجا ایک لمحہ کے لئے ہاجرہ سَٹپٹا کر رہ گئی۔ لیکن اس نے خواہ مخواہ بات کو آگے بڑھانا مناسب نہیں سمجھا۔
باہر طوفانی ہوائیں سائیں سائیں کر رہی تھیں اور کھڑکی کے شیشے ہوا سے چُرمُرا رہے تھے۔
’ یہ کھڑکی تم نے کیوں کھول دی ؟‘
’ کھڑکی میں نے نہیں کھولی وہ خود بہ خود ہوا کے دباؤ سے کھُل گئی ہے شاید طوفان آنے والا ہے۔‘
’ طوفان ۔۔۔ وہ تو کبھی کا آ چکا اب اِس گھر میں اور کونسا طوفان آنے والا ہے؟‘
’ ایسا کیوں سوچتے ہیں آپ دُنیا میں کیا نہیں ہوتا جس چیز نے آپ کی رات کی نیند چھِین لی ہے ۔۔۔۔۔ اب تو آپ اس دیوار کو بھی پھاند آئے ہیں۔‘
’ ہر چور دیوار پھاندنے کے بعد یہی سمجھتا ہے کہ مالِ غنیمت اس کے ہاتھ آگیا ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔‘
’ آپ یوں بد دل نہ ہوئیے۔ اِس بار کامیابی ہمارے قدم چُومے گی۔‘
’ دھوکہ اور فریب ہماری کامیابی ہے تو اس سے زیادہ کمینہ پَن اور کیا ہو سکتا ہے ‘۔۔۔۔
’ تو پھر آپ چاہتے کیا ہیں؟ کب تک یہ گھر خوشی کے شادیانوں کے لئے ترستا رہے گا ، کبھی آپ نے سنجیدگی سے اِس پہلو پر بھی غور کیا ہے۔ آپ ہمّت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ میں سمجھتی ہوں اگر یہ لڑکا بھی ہاتھ سے چلا گیا تو مشکل ہو جائے گی۔‘
گو وہ دونوں قریب بیٹھے ایک پیچیدہ مسئلہ کا حل دریافت کر رہے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جیسے دونوں کے درمیان مِیلوں فاصلہ ہو۔
دفعتاً غوث چائے کا ٹرے لئے اندر داخل ہوا۔
’ تجھے کس گدھے نے اس وقت چائے لانے کو کہا تھا؟‘ اسد صاحب کی گرجدار آواز فضا میں ارتعاش پیدا کر گئی۔ غوث سہما سہما ہاتھ میں ٹرے لئے اُلٹے پاوں لَوٹنے لگا۔
’ جانتا ہے اِس وقت کیا بجا ہے؟‘
’ یہی کوئی بارہ بجے ہیں صاحب ‘
’ رات کے بارہ بجے کون بے وقوف چائے پِیئے گا۔‘
’ کل اِسی وقت آپ ہی نے پی تھی حضور ‘
’ باتیں نہ بنا ، بھاگ یہاں سے اُلّو کا پٹّھا۔‘
’ اس سے زیادہ مجبوری اور کیا ہو سکتی ہے ہاجرہ کہ ہم غوث کو نکال باہر نہیں کر سکتے۔ وہ دن بدن حدود سے باہر ہوتا جا رہا ہے مجھے یقین ہے ، غوث کو بھی اِس واقعہ کا عِلم ہے۔‘
’ آپ خواہ مخواہ بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ، بھلا غوث جیسے بے ضرر آدمی سے کوئی خدشہ ہو سکتا ہے؟ ‘
’ میں تو ہوا سے بھی ڈرنے لگا ہوں۔‘
’ آپ حوصلہ سے کام لیجئے۔ دُنیا میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔‘
باہر ہوائیں تیزی سے چل رہی ہیں۔۔ بادل گرج گرج کر برس رہے ہیں۔
’ اب آپ سو جائیے‘ ہاجرہ نے نڈھال آواز میں کیا۔
’ نیند کس کم بخت کو آتی ہے۔ میں نے کئی راتیں کروٹیں بدلتے ہوئے کاٹی ہیں میں سمجھتا ہوں نیند کی نعمت مجھ سے چھن چکی ہے۔‘
یہ باہر دبے دبے انداز میں کون دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ مجھے یہ آواز کچھ مانوس سی لگ رہی ہے۔‘
’ یہ آپ کا وہم ہے میں کہتی ہوں آپ سو جایئے آپ کا دماغ مُنتشر ہے۔‘
’ اتنی رات گئے بھلا کون آئے گا؟‘
’ کیا فرزانہ گھر آ چکی ہے؟‘
’ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ فرزانہ نے مُدّت سے باہر جانا چھوڑ دیا ہے۔ وہ تو اب اپنے کمرے سے بھی باہر نہیں نکلتی ہے، یقین نہ آئے تو خود چل کر دیکھ لیجئے۔‘
’ یقین بھروسہ اعتماد ۔۔ کتنے خوبصورت الفاظ ہیں یہ۔ اِن مقدّس الفاظ کی یوں مِٹّی پلید نہ کرو۔‘
’ پلیز ، سو جایئے نا۔۔ کل پھر اِس سلسلہ میں آپ سے بات ہو گی۔‘ ہاجرہ نے پھر ایک بار محبّت میں ڈُوب کر کہا۔
’ کیا آسمان کے اُفق پر کل سُورج بھی نمودار ہو گا۔۔ مگر سُورج تو روز ہی طُلوع ہوتا ہے۔۔ لیکن کبھی کبھی آسمان کے کلس پر صرف چُبھتی ہوئیں شعاعیں ہی رہ جاتی ہیں اور سورج مُنہ چھُپائے نہ جانے کہاں رُو پوش ہو جاتا ہے۔
’ اب آپ سو جائیے نا پلیز۔‘
’ سو جاؤں ۔۔۔ کہاں ۔۔۔ کیسے ۔۔۔ کس طرح ۔۔۔ دیکھو پھاٹک کے دروازے لَرز رہے ہیں ، کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔‘
’ یہ سَراسر آپ کا وہم ہے ۔۔ آپ ذہنی خلفشار میں مُبتلا ہیں۔ خدا کے لئے آپ آرام کیجئے ۔۔۔ رات کافی جاچکی ہے۔‘
’ وہ دیکھو پھاٹک کے قریب کوئی کھڑا ہے۔ میں اس چلتے پھرتے سائے کو خوب جانتا ہوں۔ اس بدمعاش سے کہہ دو کہ وہ اس گھر سے اور کیا لینا چاہتا ہے ؟‘
’ پھاٹک کے پاس تو کوئی بھی نہیں ہے۔ ہاں مُلتانی صاحب کا کتّا ضرور ہے کیا آپ کو کتّے اور انسان میں فرق معلوم نہیں ہوتا؟‘
’ میں مُلتانی کو بھی جانتا ہوں اور اس کے کتّے کو بھی۔‘
اچانک بغلی کمرے سے فرزانہ کی دبی دبی سِسکیوں کی آواز اُبھری : ’ میں قیدی نہیں ہوں بد چلن نہیں ہوں ۔۔۔ مجھے فریب دیا گیا۔۔۔ وہ آئے گا ضرور آئے گا ‘۔۔۔۔ چند بے رَبط جُملے ہوا کے دوش پر اُڑنے لگے اور سارا گھر گُونجنے لگا۔
’ اس نے شاید کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے میں اب جاتی ہوں۔‘ یہ کہہ کر ہاجرہ نیچے اُتر آئی اور بستر پر گِرتے ہی نیند نے جیسے اس پر افسوں پھُونک دیا۔
صبح کی سُپیدی نمودار ہو چکی ہے۔ ہاجرہ اپنے کمرے میں نِڈھال سی پڑی ہے گُزرتے جاڑوں کی نرم اور ملائم دھوپ دریچوں کو پھلانگتی ہوئی آنگن میں رقص کناں ہے اسد صاحب کا بستر خالی پڑا ہے۔ ایش ٹرے میں سگریٹ کا ٹکڑ ا بھی تک جل رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے وہ ابھی کہیں باہر گئے ہوں۔ دروازے کے قریب بھی سگریٹ کے کئی ٹکڑے پڑے ہیں۔ کمرے کی فضا میں گھُٹن ہے۔غوث کمرے کو جھاڑو لگاتا ہوا مُنہ میں بڑ بڑا رہا ہے۔ ’ دن بھر میں پتہ نہیں کتنے سگریٹ پھُونک دیتے ہیں صاحب ، پھر کریں گے بھی کیا فکر دُور ہو تو کیسے ۔۔ اچھا خاصا گھر اُجڑ کر رہ گیا ۔۔۔ صاحب کے ناشتے کی تو کسی کو فِکر ہی نہیں ہے‘ ۔۔۔ غوث دل ہی دل میں کوفت اُٹھاتا ہوا فرزانہ کے کمرے میں دبے پاوں داخل ہوا۔
’ بی بی جی صبح ہو چکی ہے۔‘ اس نے بمشکل حلق سے آواز نکالی۔
اس نے دیکھا۔ ہاجرہ مسہری پر بال بکھرائے بے سُدھ سو رہی ہے۔
سوتے میں عورت اتنی اچھی کیوں لگتی ہے۔ اس کے دماغ میں ایک بیہودہ سا سوال گُونجا۔ لیکن ساتھ ہی دماغ کے کسی کونے سے ایک آواز آئی
’ ابھی تجھے آنگن صاف کرنے کے بعد برتن بھی مانجھنے ہیں مردُود۔‘
’ دھُت تیری کی ، یہ تو روز کی آفت ہے۔‘
غوث نے دیکھا۔ بی بی جی کے سلیوز لیس بلاؤز کے کنارے سے ان کی بغلیں جھانک رہی تھیں اور ساڑی بے ترتیب انداز سے گھُٹنوں کے اُوپر تک چڑھ آئی تھی۔ اور اب وہ ہاجرہ کے کمرے میں آ کر جیسے پچھتا رہا تھا۔ اس پچھتاوے میں ایک عجیب سی خوشی کا عنصر بھی شامل تھا۔ وہ کھڑا کھڑا ہاجرہ کی گوری گوری پِنڈلیوں کو گھُورتا رہا۔ بغلوں کے سُرمئی بالوں کو دیکھ کر اس کے جِسم میں کپکپی سی پیدا ہو گئی۔ وہ کمرے سے پلٹ کر باہر آیا تاکہ وحشت دُور ہو۔ اس کا دِل بُری طرح کانپ رہا تھا۔
جب وہ پہلے اَس گھر میں آیا تھا تو اس نے اس قِسم کی کیفیت کبھی محسوس نہیں کی تھی ، لیکن اِدھر دو چار برس سے وہ اپنی ذات میں ایک خاص قِسم کی تبدیلی محسوس کر رہا تھا اس کا جی خواہ مخواہ کسی لڑکی سے بات چیت کرنے کو چاہتا تھا۔ اس کے قُرب کی لذّت سے آشنا ہونا چاہتا تھا۔لیکن یہ جذبہ جھاڑو جھٹکا اور برتنوں کی صفائی میں یوں دَب کر رہ گیا تھا، جیسے ڈیزل انجن کے نیچے کنکریٹ کبھی کبھی یہ جذبہ سَر اُٹھاتا بھی تو اسد صاحب کی گرج دار آواز اسے اس بات کا مفہوم سمجھا دیتی کہ وہ اس گھر میں دو ٹکے کا نوکر ہے۔
اس نے ناشتہ کب پکایا ۔۔۔ دن کب گزرا ۔۔۔۔ اُسے خیال ہی نہ آیا۔
رات کافی جاچکی تھی ، لیکن اسد صاحب ابھی گھر نہیں لوٹے تھے۔۔ ہاجرہ ان کے انتظار میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ فرزانہ کے کمرے کی لائٹ آف تھی۔ غالباً وہ روز کی طرح آج بھی جلد ہی سو گئی تھی۔
’ غوث ممکن ہے تھوڑی دیر بعد صاحب آئیں، آہٹ پاتے ہی دروازہ کھول دینا اب مجھے نیند آ رہی ہے ، پتہ نہیں کہاں مر جاتے ہیں سمجھا یا نہیں بیوقوف ‘
’ ہاں سمجھ گیا بی بی جی۔‘
’ کیا سمجھا خاک ذرا بستر کی چادر بدل دے۔ اور وہ چنبیلی کے پھُول سَرہانے رکھدے میرے سَر میں شدید درد ہو رہا ہے۔‘
’ تو پھر اناسین کی گولیاں کھا لیجئے بی بی جی۔‘
’ بیچ میں مت بول میں جو کہتی ہوں کان کھول کر سُن۔‘
جب غوث نے ہاجرہ کے غُصّے کے پارے کو چڑھتے ہوئے محسوس کیا تو جَھٹ سے مسہری پر نئی دھُلی ہوئی چادر بچھا دی اور سلیقے سے پھُول بکھیر دیئے۔
جب وہ چادر بچھا کر کمرے سے جانے لگا تو ہاجرہ نے پوچھا: ’ جانتا ہے تجھے یہاں آ کر کتنے برس ہوئے ہیں ۔۔۔ پورے پندرہ برس مگر پھر بھی تُو گھامڑ اور گاو دی ہی رہا کوئی کام سلیقے سے نہیں کرتا۔ پتہ نہیں آج کل تیرا دھیان کہاں رہتا ہے۔ چند دنوں سے محسوس کر رہی ہوں تجھ میں ایک عجیب سی تبدیلی آ گئی ہے۔ پہلے تو مہینوں تاکید کے باوجود تجھے نہانا بھی بار لگتا تھا اب روز ہی پانی کا خُون کرنے لگ گیا ہے۔‘
’ آپ ہی نے تو صفائی کی تاکید کی تھی بی بی جی۔‘
’ کی تو تھی مگر تُو روز چوروں کی طرح حمام میں بیٹھ کر اپنی نیکر کیوں دھویا کرتا ہے؟‘
نیکر اگر گندہ ہو بی بی جی ، آپ مجھے کان پکڑ کر باہر نہ کر دیں گی؟‘
ہاں ہاں یہ بھی ٹھیک ہے ، صفائی بے حد ضروری ہے ، گندگی سے مجھے نفرت ہے۔ اچھا اب جا کر اپنے کمرے میں سوجا ، شاید صاحب آج رات نہیں آئیں گے۔‘
’ نہیں بی بی جی ، اگر میری آنکھ لگ گئی اور صاحب نے کھٹکھٹایا تو مجھ پر بے بھاؤ کی پڑے گی ، آپ سو جایئے میں جاگتا رہوں گا۔‘
’ مگر مجھے بھی نیند نہیں آ رہی ہے۔‘
’ اِس سوال کا جواب غوث کے پاس نہیں تھا۔ وہ تو صرف اسد صاحب کی آمد کا منتظر تھا۔
کمرے میں سے اچانک ہاجرہ کی آواز اُبھری۔
’ غوث جاگ رہا ہے نا‘
’ ہاں بی بی جی۔‘
’ تھوڑی دیر میرا سَر دبا دو پھر ورانڈے میں جا کر سو جانا۔ اب صاحب نہیں آئیں گے۔‘ ہاجرہ نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
ہاجرہ کے کمرے میں بیڈ لیمپ جَل رہا تھا۔بیڈ لیمپ کی دھیمی اور ہلکی روشنی میں ہاجرہ کا چہرہ بڑا ہی پُر اسرار لگ رہا تھا۔
غوث کمرے میں چُپکے سے یوں داخل ہوا جیسے وہ چوری کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ابھی غوث نے ہاجرہ کی پیشانی پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ باہر دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔
’ بی بی جی شاید صاحب آ گئے ہیں، میں ابھی پھاٹک کھول کر آتا ہوں۔‘
’ یہ اسد صاحب نہیں ہیں ، مُلتانی صاحب کا کتا ہو گا۔ عجیب خارشی کتا ہے رات ہوتے ہی پھاٹک سے سَر ٹکراتا ہے۔ایک دن سَر ٹکرا کر یوں ہی مر جائے گا۔ مگر اسے ایک ہڈی بھی یہاں سے نہیں مِلے گی۔ اُونگھ کیا رہا ہے ، سَر دباتا کیوں نہیں ‘
’ اوہ توبہ تیرے ہاتھ کتنے غلیظ ہیں ، مردُود کہیں کا ۔۔۔ ہاتھ تک صاف نہیں کرتا ، تیرے تیرے ہاتھوں سے پیاز کی بُو آ رہی ہے،جا ہاتھ صاف کر کے آ۔ ٹیبل پر لیکمی سوپ دھرا ہے۔‘‘
غوث نے جب لیکمی سوپ کی ٹکیہ اُٹھائی تو اُسے عجیب سی خوشبو آئی۔ وہ صابن کو ہاتھ میں لئے بڑی دیر تک سُونگھتا رہا۔ جیسے وہ صابن کو نہیں کسی کنواری دوشیزہ کے بدن کو سَونگھ رہا ہو۔
جب وہ ہاتھ دھوکر ہاجرہ کو کمرے میں داخل ہوا تو اُس نے ڈانٹتے ہوئے کہا : ’’ کہیں پورا صابن تو ختم نہیں کر دیا۔‘‘
’’ نہیں بی بی جی ، دیکھ لیجئے۔‘‘ غوث نے صابن دکھاتے ہوئے کہا۔
’’ سُن مجھے گندگی سے نفرت ہے مجھے صاف سُتھرے لوگ پسند آتے ہیں اگر کبھی میں نے تجھے گندے لباس میں دیکھا تو کان پکڑ کر گھر سے باہر کر دوں گی۔‘‘
غوث آہستہ آہستہ ہاجرہ کا سر دباتا رہا۔ اس کا دِل بلّیوں اُچھل رہا تھا۔ سر دباتے ہوئے اُسے یوں لگ رہا تھا، جیسے کسی نے اُس کے گلے میں پھانسی کا پھندا لگا دیا ہو۔
’’ غوث ۔۔۔۔ ایک سرد دبی ہوئی آواز کمرے میں گُونجی۔
’’ سچ سچ بتا تو روز صبح ہوتے ہی چوروں کی طرح نیکر ہاتھ میں تھامے حمام کی طرف کیوں جاتا ہے؟‘‘
’’ کیا بتائیں بی بی جی۔‘‘ اس کی آواز جیسے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔
’’ ہاں ۔ کہہ بھی تو۔‘‘
’’ بس بی بی جی ۔ جی چاہتا ہے ہمیشہ نہائیں دھوئیں۔‘‘
’’ کل بھی نہائے گا نا؟‘‘
’’ نہانا میرے ہاتھ میں تھوڑا ہی ہے بی بی جی، کیا پتہ کل نہانے کی نوبت ہی نہ آئے۔‘‘
’’ پھر وہی بات ، جانتا نہیں میں صفائی کو پسند کرتی ہوں۔‘‘
غوث کے ناقِص دماغ میں ہاجرہ کی کوئی بات سمجھ میں نہ آئی۔
پھر دفعتاً باہر پھاٹک کی زنجیر بجی : ’’ غوث اے غوث ‘‘
یہ اسد صاحب کی آواز تھی۔ جونہی ہاجرہ نے اسد صاحب کی آواز سُنی اچانک بستر سے اُٹھ بیٹھی اور باہر جا کر پھاٹک کی زنجیر کھول دی۔
اسد صاحب کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی۔ بال چہرے پر بکھر آئے تھے اور شیروانی کا دامن کئی جگہ سے چاک چاک ہو گیا تھا اور ہاتھوں پر کہیں گہری اور کہیں ہلکی خراشیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔
’’ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے، کیا کسی سے لڑ جھگڑ کر آئے ہو‘‘؟
’’ بھلا اِس عمر اور ان حالات میں کیا کسی سے جھگڑا کر سکوں گا۔ اُس کم بخت ملتانی کے کتے نے اچانک راستے میں مجھے دبوچ لیا۔میں نے لاکھ کوشِش کی مگر اُس بیہودہ کتے نے میرا پیچھا نہ چھوڑا۔ جب سے میں نے اُس پر لاٹھی چلائی ہے تب سے وہ میرا دُشمن ہو گیا ہے۔‘‘
’’ پریشان نہ ہویئے معمولی سے زخم ہیں ، میں ابھی آئیوڈین لے آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے سے آئیوڈین کی شیشی لے آئی اور زخموں پر آئیوڈین کا پھاہا رکھ دیا۔
اسد کے مُنہ سے ’سی‘ کی آواز نِکل گئی۔
’’ تھوڑی سی تکلیف بھی آپ برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ ایک تکلیف یا مُصیبت ہو تو آدمی برداشت کرے ارے ہاں ایک خاص بات میں تمہیں کہنا ہی بھُول گیا۔آج بازار میں اچانک اشفاق سے ملاقات ہو گئی۔‘‘ اسد نے اپنی پھٹی ہوئی شیروانی کو اُتارتے ہوئے کہا۔
’’ فرزانہ کے تعلق سے کوئی بات بھی ہوئی۔‘‘ہاجرہ نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ بہت سی باتیں ہوئیں مگر شادی ہونے تک مجھے کوئی بھروسہ نہیں۔ میں نے صاف صاف اُسے بتا دیا کہ محلّہ میں بعض شریف زادے ایسے بھی ہیں جنھیں اپنی آنکھ کا شہتیر تو نظر نہیں آتا ، مگر وہ دوسروں کی آنکھ کا تِنکا آسانی سے دیکھ لیتے ہیں۔ یہ لوگ خواہ مخواہ ہمیں بدنام کرنے کے لئے تمہارے کان بھریں گے لیکن تم ان کی پرواہ نہ کرنا یہ ایکدم کمینے لوگ ہیں اور ہمارے دشمن بھی ،۔ اِس پر اشفاق نے کہا ، میں ایسے کچّے کان کا آدمی نہیں ہوں جو افواہوں کو صداقت سمجھ لے۔میں ایسے نِیچ لوگوں کو اپنے پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔ میری شادی ہو گی تو فرزانہ سے ہی ہو گی۔ مگر اس کے لئے کچھ وقت چاہیئے،۔۔۔
۔۔۔’’ جب اس نے مُہلت چاہی تو میرا سانس پھُول کر رہ گیا۔ مگر تھوڑی دیر بعد میری گھبراہٹ جاتی رہی ۔۔۔ بدایوں میں اس کی کچھ پراپرٹی کا جھگڑا ہے، اس سلسلے میں اس نے بدایوں سے لَوٹنے کے بعد ہی شادی کا وعدہ کیا ہے۔ وہ وہاں غالباً کوئی ایک ماہ رہے گا۔ ایک ماہ کوئی ایسی بڑی مُدّت بھی تو نہیں ہے۔‘‘
’’ اگر اِس دوران وہ اپنا ارادہ بَدل دے تو‘‘ ۔۔۔ ہاجرہ نے متفکرانہ انداز میں کہا۔
’’ یہ تو وقت ہی بتلائے گا ، ہاں اُس نے یہ بھی کہا کہ جس کالج میں فرزانہ نے تعلیم پائی ہے، اُس نے وہیں سے گریجویشن کیا ہے۔ وہ فرزانہ کو جانتا ہے لیکن فرزانہ اُسے نہیں جانتی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اُس کے ماں باپ نہیں ہیں۔ ورنہ کوئی باپ اپنے بیٹے کو ایسی لڑکی کے پلّے باندھنا نہیں چاہے گا۔‘‘
’’ بس رہنے بھی دیجئے اپنی تقریر‘‘
’’ کیا ناراض ہو گئی ہو؟‘‘ یہ کہہ کر اسد صاحب اپنے کمرے کی طرف بڑھے جب ان کی نگاہیں مسہری پر پھیلے ہوئے چنبیلی کے پھُولوں پر گئیں تو وہ معنی خیز انداز میں مُسکرائے اور دیر تک پیار سے ہاجرہ کے گورے گورے رُخساروں پر اپنی اُنگلیاں پھیرتے رہے۔ پھر کچھ بَن نہ پڑا تو چُپکے سے اپنے کمرے میں جا کر سو گئے۔
پھر ایک شام اسد صاحب بازار سے گھر لَوٹ رہے تھے کہ اُنھیں اچانک سامنے سے ملتانی آتا ہوا دکھائی دیا۔وہ اس کی صورت تک دیکھنے کے روادار نہیں تھے۔ لیکن وہ سامنے اِس انداز سے آ کر کھڑا ہو گیا تھا جیسے وہ انھیں خواہ مخواہ چھیڑنا چاہتا ہو۔ اس وقت اس کے چہرے پر ایک عجیب قِسم کی مسکراہٹ رقصاں تھی ، ایسا لگتا تھا کہ وہ کوئی خوشخبری سُنانے کے ساتھ ہی ان کے سینے میں زہر آلُود خنجر گھونپ دینا چاہتا ہو، اسد صاحب کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ وہ پھٹی پھٹی حیران کن نگاہوں سے مُلتانی کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ ایک لمحہ کے لئے انھیں گُمان گزرا کہ اس میں اس کی کہیں کوئی خاص چال تو نہیں ہے۔ وہ مُلتانی کو برس ہا برس سے جانتے تھے۔ مُلتانی ہی وہ پہلا آدمی تھا جس نے فرزانہ اور اطہر کے اسکینڈل کو ہوا دی تھی۔ محلہ کا کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جس نے فرزانہ کی بُرائی نہ کی ہو۔ حالانکہ پڑوسی اور دوست ہونے کے ناطے وہ اخلاقاً چُپ بھی رہ سکتا تھا لیکن اس کی زبان قینچی کی طرح چلا کرتی تھی۔
یہی وہ باتیں تھیں جس نے اسد اور مُلتانی کے درمیان نفرت کی ایک دیوار کھڑی کر دی تھی اور آج مُلتانی سینہ تانے اس دیوار کو ڈھا دینے پر تُلا ہوا نظر آتا تھا۔
’’ غصّہ تھُوک دیجئے اسد صاحب۔دشمنی اور نفرت نے کسی کو کیا دیا ہے۔ میں اپنے کئے پر سخت نادم ہوں۔میں نے آپ کے ساتھ جو کمینگی کی ہے وہ یقیناً ناقابل معافی ہے۔ جب تک مجھے آپ معاف نہ کر دیں گے مجھے چَین نصیب نہ ہو گا۔یوں سمجھ لیجئے مُلتانی نے آج نیا جَنم لیا ہے۔وہ اس وقت آپ کے سامنے دشمن کے بھیس میں نہیں دوست کے رُوپ میں کھڑا ہے۔ آپ چاہیں تو اُسے گلے لگا لیجئے یا دھُتکار دیجئے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سَر جھُکائے یوں کھڑا ہو گیا جیسے بادشاہ کے حضور میں کوئی خادم ؛ اسد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ مُلتانی اتنا گھگھیا بھی سکتا ہے۔ اچانک ایک بہت بڑے دشمن نے آپ ہی آپ گھُٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ اپنی برتری اسی میں ہے کہ اسے معاف کر دیا جائے۔ اگر اس وقت مُلتانی کو دھُتکار دیا جائے گا تو وہ ضرور اپنی اس تضحیک کا بدلہ لے گا۔ اسد کے اندر کے انسان نے جیسے گہرائیوں میں سے کہا۔ لیکن عقل نے اِس استدلال کو صاف ٹھکرا دیا۔
’’ مُلتانی ایک سازشی اور بدمعاش آدمی ہے ، اگر پِچھلی باتوں کو بھُول کر اُسے گلے لگا لیا جائے تو وہ گلے کا ہار ہو جائے گا۔آہستہ آہستہ پھر وہ اپنے پَیر ٹِکا لے گا۔ اس کا گھر میں آنا جانا زیادہ ہو جائے گا ، اور ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ ‘‘
بہتر یہی ہے کہ اسے معاف نہ کیا جائے ، خواہ اس کے نتائج آئندہ کچھ ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
ملتانی ابھی تک اسد کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کی پلکوں پر آنسووں کے چند قطرے کانپ رہے تھے۔ اسد نے عزم و ارادے کے بند کو تھامنے کی بہت کوشش کی لیکن دل آخر پسیج گیا اور انھوں نے آگے بڑھ کر اُسے گلے لگا لیا۔ آناً فاناً ملتانی سڑک سے یوں غائب ہو گیا جیسے اسے متاعِ عزیز مل گئی ہو۔
جب وہ چلا گیا تو اسد کو احساس ہوا کہ اُسے روک کر اپنے گھر لے جانا چاہئیے تھا۔ بہر حال یہ واقعہ کچھ اس تیزی سے ہوا کہ ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
وہ راستہ بھر ملتانی کے متعلق سوچتے رہے۔ان کے ذہن کے پردے پر ماضی کے کئی واقعات ایک ایک کر کے اُبھر نے لگے۔
دس برس پہلے جب اسد نے حیدرآباد کے خرابے میں پہلی مرتبہ قدم رکھا تھا تو اس وقت انھیں جاننے والا کوئی نہ تھا۔ابتدا میں تو وہ حسینی لاج میں رہے۔ مگر فیملی کے ساتھ انہیں لاج میں رہنا پسند نہیں تھا۔ انھیں مکان کی شدید ضرورت تھی۔ مگر مکان کا مِلنا دشوار تھا۔ایسے میں ملتانی فرشتے کی طرح ان سے آ مِلا تھا۔
’’ آپ کوئی فکر نہ کریں میں کل ہی آپ کو مکان دلوا دوں گا۔ کرایہ بھی سو کے اندر ہو گا۔ میں بھی جب پہلے پہل یہاں آیا تھا تو مجھے بھی ایسی ہی پریشانی ہوئی تھی۔‘‘
’’ انسان انسان کے کام نہ آئے تو بھلا اور کون آئے گا؟‘‘
اس کے بات کرنے کے انداز میں بڑی ہی نرمی اور شائستگی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے شرافت اسی پر آ کے ختم ہو گئی ہو۔گھر دلوانے سے لے کر سامان جمانے تک اس نے ہر طرح سے اسد کی مدد کی۔ وہ بار بار یہی کہتا تھا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے آواز دیجئے۔ اس کا گھر اسد کے مکان سے لگا ہوا تھا۔ وہ شام کا بیشتر حصّہ اس کے ہاں گزارتا تھا۔ اتفاق سے کبھی وہ نہ آئے تو اسد خود اس کے گھر چلے جایا کرتا تھا اُسے یاد ہے اس نے پہلی بار اپنی بیگم سے ملاتے ہوئے مجھ سے کہا تھا۔
اسد صاحب یہ جمیلہ ہے ، جو میری ویران زندگی میں بہار بن کر آئی ہے ورنہ اِس بھرے پُرے گھر میں میں تنہا رہتے رہتے بیمار سا ہو چلا تھا۔ ‘‘ وہ واقعی بہار میں کھلنے والے ایک شگفتہ پھول کی طرح لگ رہی تھی۔
بعد میں اسے پتہ چلا کہ جمیلہ ملتانی کی بیوی نہیں بلکہ داشتہ ہے۔
’’ بھابی کوئی کام ہو تو کہئیے ، فرزانہ کے لئے کوئی ٹیوٹر کا انتظام کیا بھی یا نہیں۔‘‘
’’ یہ کریپ کی گرین ساری آپ کے جسم پر بڑی بھلی معلوم ہو رہی ہے۔‘‘
’’ میں بھی جمیلہ کے لئے ایسی ہی ساری خرید لاؤں گا۔ بھابی کپڑوں کے سلیکشن میں آپ کا جواب نہیں۔ بھئی واہ کیا combination ہے۔‘‘
پھر جب وہ کھانا کھانے بیٹھ جاتا تو ایک ایک نوالہ پر ہاجرہ کے پکوان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے مِلایا کرتا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ گھر پر چھانے لگا۔ اس کی شخصیت میں کچھ ایسی گہرائی تھی کہ ہر شخص اس کی ہاں میں ہاں ملانے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔ وہ دراصل انسان کی نفسیات کا کچھ اِتنا ماہر تھا کہ اسے کہاں اور کس جگہ کیسی بات کرنا چاہیئے وہ اس گُر سے واقف تھا۔ عورتوں کی نفسیات کو تو وہ جیسے پی گیا تھا۔ پھر اس کے بات کرنے کا انداز اِتنا دِل نشین ہوتا تھا کہ آدمی اس سے کبھی بور ہونے نہیں پاتا۔
اُس کا اونچا پورا قد ، بڑی بڑی نڈھال سی خوبصورت آنکھیں۔ سیاہ گھنگھریالے بال ، سُرخ و سفید رنگ سے بھی وہ بڑا بانکا سا لگتا تھا۔ تیس سے اوپر تو یقینی اس کی عمر تھی۔
اسد صاحب راستہ چلتے چلتے جب ایک راہ گیر سے ٹکرائے تو اُنھیں احساس ہوا کہ وہ بے مقصد کافی دور آ چکے ہیں ۔ اب وہ حمایت نگر کے چوراہے پر کھڑے سوچ رہے تھے۔ اُنھیں تو L.I.C کے آفس جانا تھا تاکہ بیمہ کی رقم کی تاریخ معلوم کر سکیں، بیس ہزار کی رقم کوئی معمولی رقم تو نہیں جس کے لئے آدمی کوشاں نہ رہے۔
لیکن یکے بعد دیگرے ان کے دماغ میں پھر ایک بار پچھلے واقعات آتے رہے ہاجرہ کے ساتھ ملتانی کیرم کھیل رہا ہے۔ وہ ہاجرہ سے کہہ رہا ہے۔
’ بھابی ، آپ میں اور فرزانہ میں اتنی مشابہت ہے کہ کوئی اجنبی دیکھ لے تو یہی سمجھے گا کہ آپ فرزانہ کی بڑی بہن ہیں ۔۔۔ بھابی یہ مٹھائی میں نے بطورِ خاص شاہی حلوائی سے آپ کے لئے منگوائی ہے‘‘۔۔۔
۔۔۔ ’’ یہ کانجی ورم کی ساری میں نے جمیلہ کے لئے خریدی ہے اور یہ رہی آپ کی ساری۔ یہ بلاوز کا پیس ویسے مجھے جچا تو نہیں ، تاہم میں نے خرید لیا ہے، آپ کو اگر ٹھیک معلوم ہو تو رکھ لیجئے۔‘‘ ہاجرہ نہیں نہیں کہتے ہوئے اسے خوشی خوشی قبول کر رہی ہے۔
وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے۔۔۔ اُسے احساس ہو رہا ہے کہ اس گھر کی ایک ایک چیز پر ملتانی کی شخصیت اثر انداز ہو رہی ہے۔ ہاجرہ کو اس سے پیار ضرور ہے لیکن اس کا سارا دھیان ملتانی کی طرف ہے۔
’’ آج ملتانی صاحب نہیں آئے تو گھر کیسا سونا سونا لگ رہا ہے۔ آج دم کے کباب بنانے چاہئیں۔‘‘ ملتانی صاحب کہہ گئے ہیں۔
ملتانی صاحب نے فرزانہ کے لئے ایک نیا ٹیوٹر مقرر کر دیا ہے۔ وہ خوبصورت نوجوان روز گھر آ رہا ہے۔ وہ جب بھی گھر آتا ہے تو سینٹ سے سارا گھر مہک اُٹھتا ہے، وہ کبھی ٹوئیڈ کا بڑھیا سُوٹ پہنے ہوئے آتا ہے تو کبھی پھولوں والا شوخ بُش شرٹ اس کے لباس کی شوخی سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ پڑھانے میں کم اور باتوں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے۔ وہ فرزانہ کے رُوم میں بیٹھا رہتا ہے۔
وہ اس ٹیوٹر کو نکال کر کوئی دوسرے ٹیوٹر کا انتخاب کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن ہاجرہ کو یہ ٹیوٹر ہر لحاظ سے پسند ہے۔کیونکہ ٹیوٹر کا انتخاب ملتانی نے کیا ہے۔
وہ ملتانی سے کہہ رہا ہے: ’’ بھئی کوئی دوسرا ٹیوٹر کیوں نہیں ڈھونڈ لاتے؟‘‘
’’ یہ لباس سے ٹیوٹر سے کہیں زیادہ فلم ایکٹر معلوم دیتا ہے۔‘‘
ملتانی جواباً ہنستا ہوا کہہ رہا ہے۔
’’ میں اطہر سے واقف ہوں۔ بڑا ذہین لڑکا ہے۔ ایم ۔ اے میں Distinctionلیا ہے اور چال چلن کا بھی اچھا ہے۔ آپ فکر نہ کیجئے۔‘‘
بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ پھر ایک دن اچانک اطہر غائب ہو جاتا ہے۔ فرزانہ کچھ دن کالج جاتی ہے اور پھر گھر بیٹھ جاتی ہے۔ وہ دن بہ دن ایک نامعلوم سی خلش میں گرفتار نظر آتی ہے۔ اس کے چہرے کی شادابی آہستہ آہستہ ختم ہوئی جا رہی ہے۔
رات کے سنّاٹے میں کبھی کبھی اس کی سسکیوں کی آواز سُنائی دیتی ہے۔ کبھی کبھی وہ نیند میں بڑبڑاتی ہے۔ میں خود کشی کر لوں گی۔ میں زندہ رہنا نہیں چاہتی۔
ملتانی کے بیان کے مطابق اطہر چار سال کے لئے لندن چلا گیا ہے۔ اُسے وہاں فیلو شَپ ملا ہے۔ وہ چار سال بعد پھر ہندوستان لوٹے گا۔
جمیلہ عرصہ دراز کے بعد پھر ملتانی کے پاس آ گئی ہے۔ اب ملتانی کا وقت دو حِصّوں میں بٹ چکا ہے۔ کبھی وہ جمیلہ کے ساتھ گھومتا ہے اور کبھی اپنا وقت اُس کے ہاں گزارتا ہے۔
پھر وہ بھیانک منظر بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ فرزانہ وامٹنگ کر رہی ہے اور ساتھ ساتھ سِسکیاں بھی بھر رہی ہے۔ وہ ہاجرہ کے ساتھ لیڈی ڈاکٹر کے پاس اُسے لے جا رہا ہے۔ ہاجرہ چُپ ہے۔ جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔
فرزانہ کے چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی ہے۔ لیڈی ڈاکٹر کہہ رہی ہے یہ تو پرگننسی کی علامت ہے۔ اس کے ساتھ ہی محسوس ہو رہا ہے جیسے اس کا دماغ اب پھٹ جائے گا اور وہ پاگل ہو کر چیخ مارے گا۔ یہ میری اولاد نہیں ہے۔ یہ تو کوئی اور ہے۔
ہاجرہ تنہائی میں لیڈی ڈاکٹر سے کچھ باتیں کر رہی ہے۔ لیکن وہ جواباً مسلسل انکار میں سر ہلا رہی ہے۔ وہ فرزانہ کو لئے مختلف ڈاکٹروں کے گھر چکر لگا رہا ہے۔
آخر کار اطہر کے دیئے ہوئے کھلونے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ فرزانہ کی صحت کافی تباہ ہو چکی ہے۔ وہ کچھ اتنی کمزور اور نحیف ہو گئی ہے کہ اسے دیکھتے ہی گلا گھونٹنے کی بجائے رحم کھانے کو جی چاہتا ہے۔
ملتانی ہر چیز سے واقف ہے۔ وہ کبھی ہاجرہ کو دلاسا دے رہا ہے تو کبھی فرزانہ کو مغموم پاکر اُس کا دِل بہلا رہا ہے۔
ہاجرہ ، ملتانی سے کہہ رہی ہے۔ فرزانہ نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ہماری ناک کٹ کر رہ گئی ہے۔
’’ صبر و تحمل سے کام لیجئے بھابی ، بھول آدمی ہی سے ہوتی ہے۔ پھر جوانی اور محبت میں آدمی کیا نہیں کرتا۔‘‘
ملتانی کے دلاسوں اور اس کی باتوں کو وہ سُن رہا ہے۔ ملتانی کے چلے جانے کے بعد وہ ہاجرہ سے کہہ رہا ہے : ’’ ملتانی ایک لوفر اور بدمعاش قسم کا آدمی ہے ، میں نہیں چاہتا کہ وہ کل سے یہاں آئے۔‘‘
’’ یہ آپ مجھ سے کیوں کہہ رہے ہیں ۔ آپ خود بھی تو اسے یہاں آنے سے منع کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ مگر اس نے ہمارے ساتھ ایسا کیا بُرا سلوک کیا ہے۔‘‘
’’ اس نے اچھا سلوک یہی کیا ہے نا کہ ایک بدمعاش کو ٹیوٹر کے رُوپ میں ہمارے گھر تعریفوں کے پُل باندھ کر لے آیا۔‘‘
’’ اس میں اس بیچارے ملتانی کا کیا دوش ؟‘‘
’’ اُس بدمعاش کو بیچارہ کہتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی ؟‘‘
’’ ہاجرہ رو رہی ہے ۔۔۔ احتجاج کر رہی ہے کہ وہ آئندہ اس سے تمیز سے بات کرے ورنہ اس کے نتائج ٹھیک نہیں ہوں گے۔ وہ اسے ایک طرح سے دھمکی دے رہی ہے۔ اسے اپنے گھر کی دیواریں گرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں ۔ ایسے میں اچانک ملتانی داخل ہوتا ہے۔ اس کے سر پر غُصّہ کا بھوت سوار ہے اور سامنے ہاجرہ مغموم کھڑی ہے۔ اس کی پلکیں آنسووں سے بھیگی ہوئی ہیں۔
وہ پوچھ رہا ہے: کیا ہوا بھابی، یہ آپ کی آنکھ میں آنسو کیسے؟‘‘
’’ آخر آپ بھابی کو آئے دن کیوں رلاتے ہیں؟‘‘
وہ غُصہ کی آگ میں سلگتا ہوا ملتانی سے کہہ رہا ہے۔
’’ ابے وہ بھابی کے خیر خواہ ، یہاں سے چلا جا، ورنہ بُرا ہو گا۔‘‘
ملتانی غیض و غضب کے عالم میں اُلٹے پاوں واپس جاتا ہے۔
پھر اسد کے سامنے ایک ٹیکسی کھڑی تھی اور خاکی وردی پہنا ہوا نوجوان ڈرائیور غُصّے سے کہہ رہا تھا:
’’ کیا مرنے کا ارادہ ہے بابو جی ۔۔ یہ سڑک ہے ، آپ کا گھر نہیں۔‘‘
اسد صاحب نے یکبارگی چونک کر اپنے جسم کو جھٹکا ، جیسے ابھی ابھی خواب سے بیدار ہوئے ہوں۔
شام کو جب وہ گھر لوٹے تو اُن کا جسم پھوڑے کی مانند دُکھ رہا تھا۔ ہاجرہ باورچی خانے میں بیٹھی چائے بنا رہی تھی۔ اور فرزانہ نل کے قریب بیٹھی چائے کی پیالیاں دھو رہی تھی۔ شاید غوث کہیں چلا گیا تھا۔
’’ مُدتوں بعد آج میں ماں بیٹی کو بیک وقت کام کرتے دیکھ رہا ہوں ۔ خیر تو ہے۔ غوث کہاں مرگیا ہے۔‘‘ اسد نے برآمدے میں آ کر کہا۔
’’ غوث کو میں نے نکال دیا ہے۔ وہ بدمعاش بدتمیزی پر اُتر آیا تھا۔‘‘
’’ اب دوسرا نوکر یہاں کہاں ملے گا ‘‘
’’ جیب میں پیسے ہوں تو ایک نہیں ہزار نوکر ملتے ہیں۔‘‘
’’ تھوڑی دیر بعد فرزانہ جب چائے کی ٹرے تھامے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو اسد نے پیار میں ڈوب کر کہا:بیٹی تم اتنی مغموم کیوں رہتی ہو؟ کبھی کبھار سیر و تفریح کے لئے باہر چلی جایا کرو۔ اگر یوں بند کمرے میں پڑی رہو گی تو ایک دن سخت بیمار ہو جاؤ گی۔‘‘
مدتوں بعد باپ کی زبان سے ہمدردی کے دو بول سُن کر فرزانہ جیسے باؤلی سی ہو کر رہ گئی۔ اور اس کی آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہہ نکلے۔ شاید وہ ضبط نہ کر سکی۔
’’ ارے تم تو رو رہی ہو، پگلی کہیں کی ، لو چائے پیو۔‘‘
’’ ہاجرہ وہاں چولھے کے پاس کیا کر رہی ہو، تمہاری چائے یہاں ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘‘
’’ ارے فرزانہ ، تم رو کیوں رہی ہو۔‘‘ ہاجرہ نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا: ’’ کیا انھوں نے تم سے کچھ کہا ہے؟‘‘
’’ نہیں امّی ، ایسی کوئی بات نہیں۔ بس جی بھر آیا اور آنسو نکل پڑے۔‘‘
’’ اچھا اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔‘‘
فرزانہ جب اپنے کمرے میں چلی گئی تو ہاجرہ نے اسد صاحب سے پوچھا۔
’’ اشفاق بدایوں سے کب لوٹ رہا ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اپنے وعدہ سے پِھر گیا ہے۔‘‘
’’ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دیکھو زندگی کیا کچھ کر دکھاتی ہے۔ارے ہاں ، ہاجرہ میں ایک اہم بات تم سے کہنا ہی بھول گیا۔ آج ملتانی نے مجھ سے صلح کر لی۔ مجھ سے معافی چاہی اور اپنے کئے پر رونے لگا۔ میرا دل پسیج گیا اور میں نے اُسے معاف کر دیا۔ یہ کہہ کر اسد نے ہاجرہ کے چہرہ کی طرف دیکھا۔ لیکن ہاجرہ نے یہ خبر ایسے سنی جیسے کوئی خاص بات ہی نہ ہوئی ہو۔ اس کا چہرہ ردّ عمل سے خالی تھا۔
’’ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ آئندہ کیا گُل کھلاتا ہے۔‘‘ اسد نے اپنی بات آگے بڑھائی۔
ہاجرہ اب بھی چُپ تھی۔ جیسے اس تعلق سے وہ کچھ بھی سننا نہ چاہتی ہو۔
پھر اچانک باہر سے کسی نے دستک دی۔ اسد نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا ملتانی سرمئی رنگ کا نیا بش شرٹ اور گِرے کلر کا پینٹ پہنے کھڑے تھا۔۔۔ اس کے ہونٹوں میں سگار دبا ہوا تھا۔
اسے اندر بلایا جائے یا اس سے باہر ہی ملاقات کی جائے۔ اسد کے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے پہلے ملتانی سگار کو پیروں تلے دباتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
دوسرے دن صبح جب اسد نے ملتانی کے گھر پر دستک دی تو وہ انھیں دور ہی سے دیکھ کر دوڑا دوڑا آیا۔
’ اسد صاحب آئیے تشریف لائیے۔ میں آپ کی کیا خاطر کر سکتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے نوکر کو آواز دی اور آواز کے ساتھ ہی سفید شرٹ اور نیکر پہنا ہوا ملازم ’’ ہاں صاحب ‘‘ کہتا ہوا داخل ہوا۔
’ دیکھ کچھ اچھے سے بسکٹ اور چائے فوری لے آنا۔‘‘
’ ابھی آیا صاحب۔‘‘ کہہ کر نوکر چلا گیا۔
ب اسد صاحب کے سامنے چائے کا ٹرے تھا اور ہمہ قسم کے قیمتی بسکٹ ملتانی نے چائے کا پیالہ اسد صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: ’’ کل میں نے جاتے ہوئے آپ کے گھر آواز دی تھی۔ شاید آپ اور بھابی گھر پر نہیں تھے ، اس لئے کسی نے جواب نہیں دیا۔‘‘
’ ہاں میں کل کافی رات گئے گھر لوٹا۔‘‘
’ بھابی اور فرزانہ تو ٹھیک ہیں نا۔‘‘
’ ہاں سبھی ٹھیک ٹھاک ہیں۔‘‘
رے آپ تو بسکٹ لے ہی نہیں رہے ہیں۔ ‘‘ ملتانی نے بسکٹ کی پلیٹ اسد کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
’ ہاں اسد میں بھول جاؤں گا۔ کل میں بدایوں جا رہا ہوں۔ اشفاق سے مل کر شادی کی تاریخ بھی طے کر لوں گا۔ نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیئے۔ بہتر تو یہی ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ چلیں۔‘‘ ملتانی نے اصرار کیا۔
’ ویسے میں چلتا لیکن رشتے کے ناطے میرا بدایوں جا کر خاص اس سے ملنا ٹھیک نہیں لگتا۔ اب تم جا رہے ہو ، یہی بہت ہے۔‘‘
’ کیا سوچ رہے ہو ملتانی ؟‘‘ یہ اسد کی آواز تھی۔
ملتانی کا ذہن کہیں اور تھا۔ اُس نے چوکتے ہوئے کہا۔
’ کچھ کہا آپ نے مجھ سے؟‘‘
’ یہی کہ تم اچانک کس گہری سوچ میں ڈوب گئے ہو۔‘‘
’ نہیں نہیں ، ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ سوچ رہا تھا کہ گجر دم کس طرح ٹرین کیچ کر سکوں گا۔ سحر خیز تو ہوں نہیں۔‘‘
’ صبح کی بجائے شام کو چلے جانا۔‘‘
’ شام کی ٹرین کا تو میرے ذہن میں خیال ہی نہیں رہا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آپ ہی آپ اپنی بے وقوفی پر ہنسنے لگا۔
’’ جمیلہ آجکل کہاں ہے، بہت دنوں سے اسے میں نے دیکھا نہیں۔‘‘
’’ محترمہ کو لانے ہی کے لئے بدایوں جا رہا ہوں۔ تنہا رہتے رہتے طبیعت اوب چکی ہے۔‘‘
’’ تو اب مجھے اجازت ہے۔‘‘ اسد نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’ میں نے آپ کا کافی وقت لیا۔‘‘
کافی دنوں بعد ملنے کی وجہ سے ملتانی قدم قدم پر تکلف برت رہا تھا۔ مگر اسد کے ملنے کے انداز میں یہ بات نہ تھی۔
دوسرے دن شام کو اسد نے دیکھا کہ ملتانی کے گھر کے سامنے ٹیکسی کھڑی ہوئی ہے اور ملازم موٹر کی ڈکی میں سامان رکھ رہا ہے۔
’’ یہ آپ کھڑکی سے لگے باہر کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ ہاجرہ نے پیچھے سے آواز دی۔
’’ ملتانی بدایوں جا رہا ہے وہ وہاں اشفاق سے بھی ملے گا۔‘‘
مگر اسد کو جواب سننے کی نوبت ہی نہ آئی۔ اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ہاجرہ جاچکی تھی۔
صبح اسد نے گھر سے نکل کر کچھ شاپنگ کی۔ پھر انھیں اچانک خیال آیا کہ انھیں آج L.I.Cبھی جانا ہے۔چوراہے پر دو رکشائیں خالی کھڑی تھیں۔ اور رکشہ والے آپس میں بیٹھے دھول دھپّا کر رہے تھے۔ جونہی ان لوگوں نے اسد کو قریب آتے دیکھا، ان کی طرف دوڑ پڑے۔ ان میں سے ایک نے کہا:
’’ آئیے صاحب L.I.Cبلڈنگ۔‘‘
اسد کو حیرت ہوئی کہ رکشہ والے نے کس طرح پہچان لیا کہ اسےL.I.Cجانا ہے۔
پھر رکشہ تیزی سے سڑک پر چل رہی تھی۔ رکشہ والے نے گلے میں ریشمی رومال باندھ رکھا تھا اور اس کی آنکھوں پر سستے قسم کا چشمہ چڑھا ہوا تھا۔ چوراہا پار کرتے ہی ایک لمحہ کے لئے اس نے رکشہ روکی۔ ماچس سے چار مینار سگریٹ جلائی اور پھر رکشہ چلانے لگا۔
اسد کو رکشہ والے کی یہ حرکت بڑی ناگوار گزری۔ پھر اس نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لے کر اسد صاحب سے پوچھا:
’’ کیا صاحب فرزانہ بی بی نے کالج جانا بند کر دیا ہے؟‘‘
’’ تمہیں ان باتوں سے کیا مطلب۔بکواس نہ کرو۔ رکشہ چلاؤ ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے صاحب ‘‘ رکشہ والے نے سنبھل کر کہا۔
پھر L.I.Cکی خوبصورت عمارت کے قریب پہنچ کر اس نے رکشہ روک دی۔ اسد نے اس کے ہاتھ میں بارہ آنے تھما دیئے، رکشہ آگے بڑھ گئی۔
آج ایل، آئی ،سی کی عمارت میں لوگوں کا کافی اژدہام تھا۔ شاید ایل، آئی ، سی والوں نے بونس کا اعلان کیا تھا۔ جن لوگوں نے بہت پہلے پالیسی لے رکھی تھی وہ آج خوش خوش دکھائی دے رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے بیمہ کے سلسلے میں منتظم سے بات کر سکے۔ انھیں اس سلسلے میں دو بار آنے کی ضرورت تھی۔ جب وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آئے تو ان کی نگاہیں ایک جانے پہچانے چہرے پر جم گئیں۔ اجنبی نے بھی اسد کو نیچے سے اوپر تک دیکھا جیسے وہ انھیں پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’ میں بھول نہیں رہا ہوں تو آپ کا نام اسد ہے نا مجھے رضی کہتے ہیں۔‘‘
’’ کوئی اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے میں آپ ہی کا ہم محلہ تھا۔ کبھی کبھار سرِ راہ آپ سے بات چیت بھی ہو جاتی تھی۔‘‘
’’ ہاں ہاں مجھے یاد آگیا۔‘‘ اسد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ مگر انھیں پچھلی کوئی بات بھی ٹھیک طرح یاد نہیں تھی۔
’’ بچیوں کی شادی تو ہو چکی ہو گی ‘‘
’’ میری تو ایک ہی بچی ہے۔‘‘
’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بچی کے بعد آپ کے گھر کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے، بھلا سا نام تھا اس کا۔‘‘
’’ فرزانہ ۔‘‘
’’ ہاں فرزانہ ۔ مجھے بھی خدا نے بغیر مانگے کئی بچے دے دیئے۔ دو لڑکیاں تھیں میں نے ان کی شادی کر دی۔ایک لڑکا لندن میں SETTLEہو گیا ہے، ایک مِڈل ایسٹ میں ہے اور ایک نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے۔ بس دُکھ ہے تو اسی بات کا ۔ تین چار ذاتی مکان ہیں جن کا معقول کرایہ آ جاتا ہے۔‘‘
’’ کہیں میں آپ کا وقت تو خراب نہیں کر رہا ہوں۔‘‘ اجنبی نے قدرے شرمندگی سے کہا۔
’’ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں چلتے چلتے باتیں کریں گے مجھے ذرا وقت پر گھر پہنچنا ہے۔‘‘
اسد نے رضی سے کسی نہ کسی طرح پیچھا چھڑا لیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے شام کے پانچ بج چکے تھے۔ ہاجرہ بستر پر اُداس لیٹی ہوئی تھی اور فرزانہ کے کمرے کا دروازہ بھیڑا ہوا تھا۔ جونہی ہاجرہ نے اسد کو دیکھا چپکے سے اُٹھ کر ڈرائنگ روم میں آئی۔
’’ غضب ہو گیا۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ بدایوں سے اشفاق کا خط آیا ہے۔اس نے لکھا ہے کہ یہ رشتہ اسے نا منظور ہے۔ یہ رہا خط۔‘‘
’’محترم
مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ
فرزانہ کی زندگی میں داخل ہوں۔ میں نے شادی نہ کرنے
کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ اس میں میرے حالات کو بھی دخل ہے
اُمید کہ آپ میری اس صاف بیانی پر بُرا نہیں مانیں گے۔
آپ کا
اشفاق ‘‘
اسد کی نگاہیں اشفاق کے خط پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ایک ایک لفظ کو بغور پڑھ رہے تھے۔ ان کے چہرے کا رنگ فق سا ہو کر رہ گیا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ یہ ضرب کچھ اتنی گہری تھی کہ ان کے سارے حوصلے پست ہو کر رہ گئے تھے۔
’’ فرزانہ کو اس بات کا پتہ نہیں چلنا چاہیئے۔‘‘ ہاجرہ نے متفکرانہ انداز میں کہا۔ ورنہ وہ صدمہ سے بیمار ہو جائے گی۔‘‘
’’ مجھے ایک بات سمجھ میں آئی ہے کیوں نہ ہم اس شہر کو چھوڑ دیں اور بیمہ کی رقم ملتے ہی کہیں اور جا بسیں۔‘‘
’’ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے شہر میں ہر شخص کو اتنی فرصت ہے کہ وہ فرزانہ کے تعلق سے معلومات فراہم کرتا پھرے۔ یہ بات تو صرف محلہ ہی میں عام ہے۔ شہر چھوڑنے سے بہتر ہے کہ ہم اس محلہ ہی کو چھوڑ دیں۔‘‘
باہر کسی کی جانی پہچانی آواز آئی : ’’ کیا ہم آ سکتے ہیں؟‘‘
اسد نے دیکھا یہ ملتانی تھا جو پھاٹک سے لگا کھڑا تھا۔
’’ اوپر آ جایئے۔‘‘
ملتانی کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہاجرہ اپنے کمرے سے جاچکی تھی۔
’’ ارے ملتانی بدایوں سے کب لوٹے ؟‘‘
’’ آج ہی لوٹا ہوں اور تنہا ‘‘
’’ مگر تم تو جمیلہ کو ساتھ لانے والے تھے۔؟‘‘
’’ اس کا اچانک مزاج بگڑ گیا، اس لئے ساتھ نہ لا سکا۔ ہاجرہ بھابی نظر نہیں آ رہی ہیں۔‘‘
’’ اندر اپنے کمرے میں ہوں گی۔‘‘
فرزانہ ٹھہرو، اوپر کہاں جا رہی ہو،وہاں جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
ملتانی نے ہاجرہ کی آواز سُن لی ، اسے یوں لگا جیسے اس کی تحقیر کی جا رہی ہو۔
’’ جب کبھی میں اشفاق کے گھر گیا، وہاں تالا پڑا ہوا پایا،مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی بات سے پھر گیا ہے۔ فرزانہ کو زیادہ دیر گھر میں بٹھائے رکھنا بھی مناسب نہیں ہے۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ملتانی اچانک اُٹھ کھڑا ہوا اور چلا گیا۔
دن ہفتوں سے گزر کر مہینوں میں تبدیل ہوتے گئے لیکن فرزانہ کی شادی کہیں بھی طے نہ پا سکی۔ اسد کو بھی ملتانی سے ملے ہوئے کئی دن گزر چکے تھے اس کے گھر پر تالا پڑا ہوا تھا۔ شاید وہ پھر ایک بار اپنی بیوی سے ملنے بدایوں چلا گیا تھا۔
جب دو ماہ گزر گئے تو اسد نے سمجھ لیا کہ اب ملتانی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ لیکن ایک دن انھوں نے دیکھا کہ اس کے مکان کا پھاٹک کھلا ہوا ہے اور وہ ہاتھ میں بیگ لیئے باہر نکل رہا ہے۔ انھیں یقین تھا کہ وہ سیدھا گھر آئے گا، لیکن وہ نہیں آیا۔ آٹھ دن یونہی گزر گئے۔
پھر ایک دن صبح ایل ۔آئی۔سی کی جانب سے انھیں ایک لیٹر ملا کہ کارروائی کی یکسوئی ہو چکی ہے۔ وہ بیمہ کی رقم چند ضروری سرٹیفکیٹس پیش کرنے کے بعد حاصل کر سکتے ہیں۔
اس خط کو پاکر اسد کو یوں لگا جیسے انھوں نے نیا جنم پا لیا ہو۔
اب وہ پیسوں کے بل بوتے پر فرزانہ کی شادی کہیں بھی جلد طے کر سکتے تھے۔
دوسرے دن مسرّت کے نشے میں چُور اسد ایل۔آئی۔سی کی عمارت میں داخل ہوئے۔ ان کے ہاتھوں میں اب تک کی دی ہوئی درخواستوں اور رسیدوں کا پلندہ تھا جنھیں وہ پیش کر کے اپنی رقم حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن ایل۔ آئی۔ سی کے ڈائرکٹر نے انھیں پھر ایک بار یہ کہہ کر مایوس کر دیا کہ کچھ ٹکنیکل خامیاں رہ گئی ہیں جنھیں چھان پھٹک کرنے کے بعد ہی رقم دی جا سکے گی۔
اسد کے چہرے پر یکبارگی اداسی چھا گئی۔ ایل۔ آئی۔سی کی عمارت کی سیڑھیاں اترتے ہوئے انھیں یوں لگا جیسے وہ کسی قبرستان سے اپنے عزیز کو دفنا کر لوٹ رہے ہوں۔
وہ گھر کب آئے انھیں یاد تک نہ تھا۔
’’ کیا رقم مل گئی ؟ ہاجرہ نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ نہیں کارروائی بنتی بنتی اچانک بگڑ گئی۔ رقم ملے گی ضرور ، لیکن کب اور کس وقت یہ میں نہیں جانتا۔‘‘
’’ پہیلیوں میں بات نہ کیجئے ۔ صاف صاف مجھے بتایئے۔‘‘
’’ میرا دماغ نہ چاٹو ، میرا موڈ اس وقت بے حد خراب ہے۔‘‘ اسد نے جھلّاتے ہوئے کہا۔ ہاجرہ چپ ہو کر رہ گئی۔ لیکن اس کی آنکھوں میں اچانک آنسو امڈ آئے۔
باہر ملتانی کی آواز آ رہی تھی: کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں؟‘‘
قبل اس کے کہ اسد کچھ کہے ہاجرہ چپ چاپ ڈرائنگ روم کی سیڑھیاں اترتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
’’ ارے بھئی کیا ہم آ سکتے ہیں؟‘‘ ملتانی کی آواز دوبارہ گونجی۔
’’ آ بھی جاؤ یار۔‘‘ اسد نے بیزار لہجے میں کہا۔
’’ اسد صاحب شاید آپ کو اس بات کا پتہ نہیں کہ مجھے بدایوں سے آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے مگر اپنے کاروبار میں ایسا مصروف تھا کہ آپ سے تک نہ مل سکا۔‘‘
’’ بھابی نظر نہیں آ رہی ہیں کیا بات ہے؟‘‘ ملتانی نے کھڑکی کے نیچے دیکھتے ہوئے کہا۔
اسد کو پتہ نہیں ملتانی کا اس طرح سے نیچے دیکھنا کیوں پسند نہیں آیا۔
’’ میں یہاں بیٹھا ہوا ہوں تم اُدھر کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
اسد کے اس چُبھتے ہوئے جملے نے ملتانی کو جیسے چونکا دیا۔
اُس نے گھگھیاتے ہوئے کہا:
’’ میں آپ کے پاس ایک خوش خبری لے کر آیا ہوں پہلے مُنہ میٹھا کیجئے تو سُناؤ ں۔‘‘
’’ تمہارا مُنہ تو ہمیشہ میٹھا ہی رہتا ہے تمہیں مٹھائی کی کیا ضرورت؟‘‘
’’ آپ کی باتوں سے لگ رہا ہے جیسے آپ نے کسی سے لڑائی کی ہو ، کہیں آپ نے بھابی کو بُرا بھلا تو نہیں کہہ دیا ؟‘‘
’’ بھابی ، بھابی ۔۔۔ کوئی اور بات بھی تو کرو، کیا خوشخبری لے کر یہاں آئے ہو ۔ یہی ناکہ تم نے فرزانہ کی شادی کی بات کہیں طے کر لی ہے تمہیں اس سلسلے میں غم کھانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’ آپ کی آنکھیں انگارے کی طرح سرخ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو بخار ہے۔ آپ آرام کیجئے میں چلتا ہوں۔‘‘ ملتانی مارے بوکھلاہٹ کے کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا۔
اسد نے اسے جاتا ہوا دیکھ کر بھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ انھیں رات ایک پل بھی نیند نہیں آئی۔صبح جب وہ بیدار ہوئے تو انھیں سارا بدن ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
نیچے ہاجرہ چولھے میں گھسی ہوئی ناشتہ تیار کر رہی تھی۔ اور فرزانہ نل کے قریب بیٹھی رات کے جھوٹے برتن مانجھ رہی تھی۔
جب ہاجرہ ناشتہ کی کشتی لیئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تو شاید اسد کو رات والی غلطی کا احساس ہوا۔ جب وہ ناشتہ ٹیبل پر لگا کر جانے لگی تو اسد نے اس کی ساڑھی کے ریشمی پلو کو محبت سے تھامتے ہوئے کہا:
کیا ناراض ہو گئی ہو ہاجرہ؟‘‘
ہاجرہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’ اِن دنوں ۔ ذہن بڑا ماو ف ہے۔ اب یہی دیکھو نا کل خوامخواہ میں نے تم پر غصّہ اتارا۔ اگر مجھ سے کبھی کبھار غلطی ہو جائے تو معاف کر دیا کرو۔
ہاجرہ کے قدم جیسے رک گئے۔
’’ ہاجرہ ایک بات پوچھوں۔ ملتانی کے تعلق سے تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
اسد کے اس عجیب و غریب سوال سے جیسے بھونچال سا آگیا۔
ہاجرہ غصّہ سے تمتماتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ مجھ سے جواب سننا چاہتے ہیں نا آپ تو سن لیجئے کہ وہ آپ کا دوست ہے ایک دم لفنگا اور غنڈہ۔ مجھے اس کی صورت سے نفرت سی ہو گئی ہے۔ اور ساتھ ساتھ آپ سے بھی۔ جب میں نے اسے اچھا آدمی سمجھا تو آپ نے مجھے غلط روشنی میں دیکھا۔ جب میں نے آپ سے کہا کہ اس سے کہہ دیجئے کہ وہ یہاں نہ آئے تو آپ نے فرزانہ کی آڑ لے کر اس سے صلح کر لی۔ وہ یہاں کیوں آتا ہے اس کا یہاں کیا دھرا ہے۔ وہ ڈرائنگ روم کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا آنگن میں للچائی ہوئی نگاہیں کیوں ڈالتا ہے۔ وہ آخر اس گھر کو کیا سمجھتا ہے۔ اک ذرا سی بھول کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ناجائز فائدہ اٹھائے۔‘‘ ہاجرہ غصّہ سے لال بھبھوکا ہو کر کہہ رہی تھی۔
’’ میں نے کل ہی اس حرکت پر اس سے احتجاج کیا ہے۔ وہ شاید یہاں پھر نہ آئے۔‘‘ اسد نے جواباً کہا۔
’’ وہ آئے گا اور ضرور آئے گا۔‘‘
’’ میں اس کی ٹانگ توڑ کر رکھ دوں گا۔‘‘
’’ مگر وہ پھر بھی آئے گا، اس کی روح اس گھر میں منڈلاتی رہتی ہے۔‘‘
’’ کیسی باتیں کرتی ہو ہاجرہ ، میں نے محض فرزانہ کے لئے یہ سب کچھ برداشت کیا ہے۔ لیکن برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔‘‘
نیچے فرزانہ کے کانوں میں اسد کی آواز ٹکرا رہی تھی۔وہ آپ ہی آپ مُنہ ہی مُنہ میں بڑبڑا نے لگی۔ اس کا جی چاہا کہ یہ آوازیں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں۔ اس کا ذکر کبھی اس گھر میں نہ ہو۔ صبح سے شام تک کسی نہ کسی نوعیت سے گھر میں اس کا ذکر ہوتا ہی رہتا ہے۔کبھی ابّا ٹھنڈی سانس بھی لیتے تو اسے احساس ہوتا جیسے وہی اس کی ذمہ دار ہو۔ یہ لوگ کیوں میری شادی کی فکر میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں۔ ابّا کی بوکھلاہٹ امی کی بے چینی نے یہ بات سب پر ظاہر کر دی ہے کہ مجھ میں کھوٹ ہے۔
’’ فرزانہ یہ دیواروں سے کیا باتیں کر رہی ہو؟‘‘ یہ ہاجرہ کی غصیلی آواز تھی۔
’’ پھر میں کس سے باتیں کروں امی۔۔۔ آپ لوگ تو کبھی سیدھے مُنہ مجھ سے بات بھی نہیں کرتے۔ میں اس گھر میں تو جیسے بالاقساط مر رہی ہوں۔ میں نے ایک بھیانک غلطی کی مجھے اس کا اعتراف ہے۔ لیکن وقت بے وقت اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جب زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو آپ اور ابّا حل نہیں کر پاتے تو خوامخواہ مجھے موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ کیا آپ لوگ میرے اور ملتانی کے ذکر کے بغیر جی نہیں سکتے؟‘‘
’’ بے حیا اپنے نام کے ساتھ ملتانی کا ذکر کرتے ہوئے تجھے شرم نہیں آتی ‘‘
’’ نہ میں نے ان سے کبھی کوئی ساری بخشش لی ہے اور نہ کوئی بلاؤز کا کپڑا۔‘‘
’’ بدتمیز اب تو نے آگے کچھ کہا تو گُدّی میں سے زبان کھینچ لوں گی۔‘‘
’’ کیا کانوں میں روئی کا پھاہا رکھ لیا ہے، سن نہیں رہے ہو، تمہاری لاڈلی نے ابھی ابھی کیا کہا ہے؟‘‘
’’ کیا ہم آ سکتے ہیں؟‘‘ باہر پھاٹک پر ایک مانوس سی آواز گونجی۔ لیکن گھر کے شور میں جیسے دب کر رہ گئی۔
کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں ؟‘‘ آواز پھر ابھری۔
’’ کیا بھئی ہم آسکتے ہیں؟‘‘ تیسری مرتبہ یہ آواز کچھ اس طرح گونجی جیسے کوئی پہاڑ کی بلندی سے آواز دے رہا ہو۔
کیا بھئی ہم چلے جائیں؟‘‘ جمیلہ کی مہین سی آواز فضا میں گونجی۔
ہاجرہ نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔ جمیلہ سلک کی خوبصورت ساری میں ملبوس بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ ملتانی گِرے کلر کا ٹوئیڈ کا سوٹ پہنے ہوئے تھا۔ وہ بھی بڑا اسمارٹ لگ رہا تھا۔
’’ شائد یہ لوگ سو رہے ہیں چلیئے اندر چلیں۔‘‘ جمیلہ نے ملتانی سے کہا۔ اور وہ دونوں اندر داخل ہو گئے۔
جمیلہ نے ہاجرہ کو سلام کرتے ہوئے کہا: ’’ کیا بھابی مہمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ تمہیں پکارتے پکارتے گلا خشک ہو گیا ہے ، اور تمہاری بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ کیا بتاؤ ں۔ کیا خفا ہو؟‘‘
’’ نہیں تو‘‘
’’ مگر یہ تو کہہ رہے تھے کہ تم ان سے خفا ہو ، بات چیت بند کر دی ہے۔‘‘ جمیلہ نے ملتانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
ہاجرہ نے ملتانی کی طرف خاص انداز سے دیکھتے ہوئے کہا:’’ اگر انھوں نے کہا ہے تو ٹھیک ہی کہا ہو گا۔‘‘
’’ پگلی کیا کوئی بھابی اپنے دیور سے یوں ناراض ہو جایا کرتی ہے۔ اچھا فرزانہ کہاں ہے؟‘‘
’’ وہ ڈرائنگ روم میں اسد صاحب کے ساتھ بیٹھی ہے۔‘‘
’’ اچھا ذرا میں اوپر ہو آتی ہوں۔‘‘ جب جمیلہ اوپر جانے کے لئے کمرے سے باہر آئی تو ملتانی وہیں ٹھہرا رہا۔
’’ بھابی میں اتنا بُرا تو نہیں ہوں۔ میں نے آپ کے ساتھ ایسا کیا برا سلوک کیا ہے جو آپ مجھ سے نفرت کرنے لگی ہیں۔ کچھ مجھے بھی تو معلوم ہو۔ میں محبت کا بھکاری ہوں بھابی، جہاں کہیں یہ بھیک مجھے مل جاتی ہے، میں کاسہ لئے وہاں آ دھمکتا ہوں۔ بس یہی میرا قصور ہے۔ اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ جلد ہی یہ محلہ چھوڑ دوں۔‘‘ یہ کہہ کر ملتانی روہانسا ہو گیا۔
’’ ارے آپ تو عورتوں کی طرح رونے لگے۔‘‘ کہنے کو تو ہاجرہ نے کہہ دیا لیکن خود اس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
’’ ارے بھابی تم خود بھی رو رہی ہو۔ بخدا بھابی۔ میں آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ آپ ہی کیا، میں تو کسی بھی عورت کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا، یہ میری کمزوری ہے۔‘‘
یہ کہہ کر ملتانی نے جیب سے رومال نکالا اور ہاجرہ کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو پونچھ دیئے۔
ملتانی کا خوشبو میں بسا ہوا رومال جب اس کی بھیگی ہوئی پلکوں سے مس ہوا تو اسے یوں لگا جیسے ملتانی اس کا منہ بولا دیور ہی نہیں اس کا شوہر بھی ہے۔‘‘ ایک لمحہ کے لئے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اور آنِ واحد میں اس خیال کو اس نے جھٹک دیا۔۔۔ اب ملتانی ہاجرہ کے بالکل قریب کھڑا تھا اور ہاجرہ کانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہی تھی۔
’’ جائیے اوپر اسد صاحب سے مل آئیے جمیلہ بھی وہیں ہے۔‘‘
جب وہ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر پہنچا تو وہاں فرزانہ ، جمیلہ اور اسد کسی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے۔
اوپر قہقہے گونج رہے تھے اور نیچے ہاجرہ کو تنہائی ڈس رہی تھی۔
ہاجرہ کے آنسو پونچھتے وقت ملتانی بے خیالی میں اپنا ریشمی رومال وہیں چھوڑ گیا تھا۔ ہاجرہ نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے رومال اٹھایا ۔ رومال سے سینٹ کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ وہ رومال کو بڑی دیر تک سونگھتی رہی۔
پھر اچانک ملتانی نیچے اتر آیا۔ بھابی اوپر آیئے نا۔مدتوں بعد اسد صاحب نے ہنسی کو گلے لگا یا ہے۔‘‘
’’ میں نیچے ہی ٹھیک ہوں ملتانی ۔ مجھے ستاؤ نہیں ، دیکھو یہ تمہارا ہی رومال ہے نا؟‘‘
رومال تو ایک معمولی شے ہے بھابی۔ میں نے اس گھر میں جو چیز چھوڑی ہے کیا وہ یونہی روندی جائے گی۔ میرا دل کہہ رہا ہے بھابی ، میں یہاں سے چلا بھی جاؤں گا تو شاید آپ مجھے بھلا نہ سکیں گی۔ میں سچ کہہ رہا ہوں نا بھابی؟‘‘
ہاجرہ چپ تھی۔ اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لہرا رہی تھی۔
’’ ایک بات سنئیے بھابی۔ میں نے ابھی ابھی فرزانہ کے تعلق سے اسد سے بات کی ہے۔ مارکٹ سے آگے ایک انسٹی ٹیوٹ ہے جسے جمیلہ کی ایک سہیلی چلا رہی ہے۔ وہاں دوسو پچاس روپے کی ایک ملازمت خالی ہے۔ لڑکیوں کو چند گھنٹے پڑھانا اور لوٹ آنا بس یہی کام ہے۔ میں سمجھتا ہوں فرزانہ کا دل یہاں لگ جائے گا۔‘‘
’’ پھر آہستہ آہستہ کہیں نہ کہیں فرزانہ کا رشتہ بھی ہو جائے گا۔‘‘
’’ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ مگر اسد صاحب نے اس سلسلے میں کیا کہا۔‘‘ ہاجرہ نے بے تابی سے پوچھا۔
’’ انھوں نے اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘
’’ اور فرزانہ کی کیا مرضی ہے؟‘‘
’’ فرزانہ بھی خوش خوش دکھائی دیتی ہے۔ کل فرزانہ کو آپ رائل انسٹی ٹیوٹ بھیج دیجئے۔‘‘
یہ کہہ کر ملتانی نے جمیلہ اور اسد کو آواز دی۔
دوسرے دن فرزانہ نے کپڑے تبدیل کیئے۔۔ ابّا ، امی سے اجازت لی، اور انسٹی ٹیوٹ کی طرف چل پڑی۔
دوپہر میں ملتانی نے اسد کے گھر آواز دی۔ اسد کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ ہاجرہ بستر پر لیٹی ہوئی کوئی ناول پڑھ رہی تھی۔
’’ ارے بھئی کیا ہم آ سکتے ہیں۔‘‘ ایک مانوس سی آواز ہاجرہ کے کانوں سے ٹکرائی۔ اس نے بستے سے اُٹھ کر آواز دی : ’’ اندر آ جائیے ملتانی صاحب۔‘‘
’’ آداب عرض ہے بھابی، کیا اسد گھر پر نہیں ہیں؟‘‘
’’ وہ بازار گئے ہوئے ہیں، شائد تھوڑی دیر بعد لوٹیں۔‘‘
’’ تو پھر میں چلتا ہوں‘‘۔
’’ کیا کوئی خاص کام ہے؟‘‘
’’ کوئی خاص کام تو نہیں ہے پھر بھی۔‘‘
’’ کم از کم چائے تو پی کر جائیے۔‘‘
’’ چائے تو پی لوں گا، لیکن ایک شرط پر۔‘‘۔۔
’’ وہ کیا شرط ہے کچھ معلوم بھی تو ہو؟‘‘
’’ آپ کے ہاتھوں کی بنائی ہوئی لذیذ چائے کو میں بھلا کیسے سکتا ہوں۔ لیکن اس بار آپ کو میرے ہاتھ کی بنائی ہوئی چائے پینی پڑے گی۔‘‘ یہ کہہ کر ملتانی نے آگے بڑھ کر چولھے پر چائے کی کیتلی رکھ دی۔
’’ دیکھ رہی ہو بھابی کیتلی میں پانی کیسے کھول رہا ہے ‘‘
’’ نیچے راکھ کی تہ میں آگ کے جو شعلے ہیں۔‘‘
’’ اب چائے کی پتی ڈال دینی چاہیئے۔‘‘
’’ یہ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو، چائے تو آپ بنا رہے ہیں۔‘‘ ہاجرہ نے سنجیدگی سے کہا۔
ملتانی نے چائے دانی میں چائے کی پتی کے تین چمچے ڈالے۔ جب چائے پوری طرح تیار ہو گئی تو اس نے چائے کی پیالی ہاجرہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ بھابی میرا خیال ہے میں نے چائے ٹھیک ہی بنائی ہے۔‘‘ ملتانی نے چائے کا گھونٹ حلق کے نیچے اتارتے ہوئے کہا۔
ہاجرہ نے پیالی تھام کر چائے کی ایک چسکی لی۔ واقعی ملتانی نے بڑے غضب کی چائے بنائی تھی۔
’’ جب چائے بنانے والا خود مطمئن ہو تو اسے دوسروں کی رائے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے۔‘‘
دراصل ہاجرہ چائے سے ہٹ کر ملتانی سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ملتانی چائے ختم کرتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ بھابی اب میں چلتا ہوں، شام کو پھر آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
جب وہ چلا گیا تو ہاجرہ نے سوچا، عجیب آدمی ہے۔ یا تو گھنٹوں باتیں کرتا ہے یا کبھی ہوا کے جھونکے کی طرح گھر میں داخل ہوتا ہے اور اسی انداز سے واپس لوٹ جاتا ہے۔
جب مہینے کی پہلی تنخواہ فرزانہ کو ملی تو اس نے دوسو پچاس روپے کے کرارے نوٹ ہاجرہ کی خدمت میں بصد ادب پیش کئے۔ ہاجرہ نے ماں ہونے کے ناطے بڑی شفقت سے فرزانہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پیار میں ڈوب کر کہا۔
’’ باو لی ، ان روپوں کے لئے تھوڑا ہی میں نے تمہیں نوکری کے لئے بھیجا ہے دراصل میں چاہتی تھی کہ تمہاری زندگی میں تھوڑا بہت چینج آئے۔ گھر کی چار دیواری میں پڑی پڑی تم بیمار سی ہو گئی تھیں نا ، اس لئے۔‘‘
ہاجرہ کے بے حد اصرار پر اس نے پچاس روپے اپنے جیب خرچ کے لئے رکھ لئے اور بستر پر جا کر لیٹ گئی۔
ادھر ملتانی کئی دنوں سے غائب تھا۔ شاید وہ پھر بدایوں چلا گیا تھا۔ گو اب گھر میں پہلے جیسے حالات نہیں رہے تھے، لیکن ہاجرہ نہیں چاہتی تھی کہ ملتانی کے تعلق سے وہ خود کوئی بات چھیڑے۔
پھر ایک دن اسد نے ہاجرہ سے پوچھا:
’’ بھئی یہ ملتانی آخر کہاں گیا ہو گا۔ کہیں وہ پھر بدایوں تو نہیں چلا گیا۔ بڑا پیار ہے ان دونوں میں۔ وہ جمیلہ کے بغیر ایک پل بھی سکون سے نہیں رہ سکتا۔‘‘
’’ خیر چھوڑیئے ان باتوں کو، آٹھ بج چکے ہیں۔ مگر فرزانہ ابھی تک گھر نہیں لوٹی ہے، جا کر کیفیت لیجئے۔‘‘ ہاجرہ نے تشویشناک لہجے میں کہا۔
’’ اوہ تم خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ فرزانہ اب بچی نہیں رہی۔ کسی وجہ سے دیر ہو گئی ہو گی۔‘‘ ابھی اسد نے جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ فرزانہ اندر داخل ہوئی۔ اسد نے ہاجرہ کی طرف دیکھا اور فرزانہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
ایک دن ہاجرہ نے سوچا، کیوں نہ فرزانہ کا انسٹی ٹیوٹ دیکھ لیا جائے وہ اس خیال سے گھر سے نکل پڑی۔ اسے انسٹی ٹیوٹ کا پتہ لگانے میں بڑی دقّت ہوئی۔ ایک سنسان سی گلی پار کرنے کے بعد سامنے ایک بیڑی کا کارخانہ تھا جہاں بے شمار مزدور بیٹھے بیڑی کے پتوں کو صاف کر رہے تھے۔ اس سے ذرا پرے ایک اور لانبی گلی تھی جو گھومتی ہوئی شاہراہ کی طرف نکلتی تھی۔ ہاجرہ کی نظر جب رائل انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ کی طرف گئی تو اس کے قدم اچانک رک گئے۔ انسٹی ٹیوٹ کیا تھا ایک بنگلہ نما مکان تھا ، جس کے اطراف و اکناف باڑھ لگی ہوئی تھی۔ برآمدے میں ایک گوری چٹی معمر عورت بیٹھی ہوئی پان چبا رہی تھی۔ اس کی آکھوں سے خمار جھلک رہا تھا اور کپڑوں سے عطر کی تیز خوشبو آ رہی تھی۔ پہلی نظر میں ہاجرہ کو یہ عورت کچھ عجیب سی لگی۔ وہ پان یوں چبا رہی تھی جیسے بکری گھاس کھا رہی ہو۔
’’ یہ رائل انسٹی ٹیوٹ ہے نا۔‘‘ ہاجرہ نے اس اجنبی خاتون سے پوچھا۔
’’ جی ہاں اس محلہ میں یہی ایک انسٹی ٹیوٹ ہے جسے میں برسوں سے چلا رہی ہوں۔ مجھے گوہر سلطانہ کہتے ہیں۔ میں اس ادارہ کی مالک بھی ہوں اور پرنسپل بھی۔ فرزانہ ابھی ابھی گھر واپس گئی ہے۔‘‘
ہاجرہ حیران سی رہ گئی۔
’’ مگر یہ آپ نے آج انسٹی ٹیوٹ کو جلدی چھٹی کیوں دیدی؟‘‘
’’ ہاں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ وہ تو لڑکیوں پر منحصر ہے۔ مجھے ہر حال میں ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ‘‘ پھر اس نے گلا پھاڑ کر کلثوم کی ہانک لگائی۔
ایک پندرہ سولہ برس کی سانولے رنگ کی لڑکی بال بکھرائے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
’’ اری کم بخت کہاں مر جاتی ہے ذرا چائے تو لے آ۔‘‘
اس تکلف میں نہ پڑئیے۔ مجھے اس وقت گھر جلد پہنچنا ہے۔ پھر کبھی ادھر آنا ہوا تو چائے ضرور پی لوں گی۔‘‘یہ کہہ کر ہاجرہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
گوہر نے بھی زیادہ اصرار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ ’’ آپ کی مرضی‘‘ کہہ کر چپ ہو گئی۔
ہاجرہ راستہ چلتے ہوئے بھی سوچ رہی تھی۔ یہ گوہر سلطانہ کیسی عورت ہے۔ چہرے مہرے سے تو بڑی کائیاں معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایک آدھ ملاقات میں ہی صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہی تو ہے۔ وہ ان ہی خیالات میں ڈوبی ہوئی جب گھر میں داخل ہوئی تو اس نے دیکھا فرزانہ اپنے بستر پر نڈھال پڑی سو رہی ہے۔
اوپر اسد کے کمرے میں دبے دبے قہقہوں کی آواز گونج رہی تھی۔ ہاجرہ نے گھڑی میں ٹائم دیکھا۔رات کے دس بج چکے تھے۔ اس کے ذہن میں ایک بات آئی۔شائد ملتانی اوپر بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن ملتانی کی آواز اور اس کے قہقہوں سے ہاجرہ آشنا تھی۔
تھوڑی دیر بعد اسد ایک سانولے سلونے نوجوان کے ساتھ نیچے اترے اسے باہر جا کر خدا حافظ کہا۔
’’ یہ سلیم تھا۔۔۔۔ تم نے اس لڑکے کو دیکھا ہاجرہ ؟‘‘ اسد نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں دیکھا ہے۔‘‘
’’ بظاہر تو اچھا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
’’ یہ ایل۔آئی۔ سی میں اکاو نٹنٹ ہے اور ایم کام بھی۔ دہلی سے تبدیل ہو کر یہاں آیا ہے۔ باتوں باتوں میں مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ دور کے ناطوں سے ہمارا عزیز بھی ہے۔ ارے تم تو جماہیاں لے رہی ہو، شاید تمہیں نیند آ رہی ہے جاؤ، سو جاؤ ۔‘‘ یہ کہہ کر اسد اوپر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ادھر فرزانہ کی ذات میں ایک تبدیلی آ گئی تھی۔ پہلے وہ افسردہ اور ملول سی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن اب اس کی رنگت نکھر آئی تھی۔ اب وہ بات بھی کرتی تو یوں لگتا جیسے اس کے دل میں ہر لحظہ پھول کھل رہے ہوں۔
فرزانہ کی اس تبدیلی سے ہاجرہ گو خوش تو تھی لیکن تہ در تہ اس کے ذہن میں گمان پرورش پا رہے تھے۔ بظاہر کوئی بات ابھی تک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ہاجرہ کے دل کے اندر پرورش پانے والے خیال نے اسے چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ بالآخر ایک دن ہاجرہ نے فرزانہ سے پوچھ ہی لیا۔
’’ کیا ملتانی تجھ سے انسٹی ٹیوٹ ملنے آتے ہیں؟‘‘
اس عجیب و غریب سوال نے فرزانہ کو چونکا دیا۔ پھر فرزانہ کی آواز گونج رہی تھی۔
’’ یہ سچ ہے کہ ملتانی کے طفیل میں مجھے یہ ملازمت ملی۔ یہ سروس بھی میں نے آپ کے کہنے پر قبول کی ہے۔ ورنہ مجھے اس کی صورت سے نفرت ہے۔ مجھے تو وہ خاصا فراڈ آدمی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
فرزانہ کے اس جواب کے بعد ہاجرہ کے دل میں شک اور شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ اس نے نفرت کے جذبہ کی تہ تک پہنچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
شاید وہ یہ بات بھول گئی کہ راکھ کے ڈھیر کے نیچے دبی ہوئی کئی چنگاریاں بھی ہوتی ہیں جو کسی وقت بھی ہوا کے ذرا سے جھونکے کے ساتھ شعلوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔
عجیب و غریب بات تو یہ تھی کہ پہلی ہی نظر میں ملتانی نے فرزانہ کو پسند کر لیا تھا۔ اور فرزانہ بھی اس کی شخصیت سے مرعوب ہو چکی تھی۔ فرزانہ کی محبت کا روپ دنیا کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ملتانی اس کے باپ کے ملنے والوں میں سے ہے وہ اسے دل دے بیٹھی تھی۔
ہاجرہ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ پچھلی رات شدّتِ جذبات میں ملتانی کی بانہوں میں آ گئی تھی۔ چاہت کی گرمی شبنمی بوسوں سے ہمکنار ہو گئی تھی۔
اور ملتانی نے والہانہ انداز میں اس سے کہا تھا:
’’ تم میری ہو فرزانہ ۔ میں تمہیں پاکر کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا۔‘‘
جواب میں وہ چپ سی رہ گئی تھی۔ صرف اس کی انگلیاں ملتانی کے چوڑے چکلے سینے پر چلنے لگی تھیں اور ملتانی اس پر چھکا ہوا ، اس کے رخساروں کو پیار سے تھپتھپا رہا تھا۔
آج اسد کے ہاتھ میں دہلی سے آیا ہوا ٹیلیگرام تھا۔وہ پریشانی میں ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے۔ صفدر جنگ ہاسپٹل میں ان کی چھوٹی بہن کو شریک کروا دیا گیا تھا۔ وہ موت اور زیست کی کش مکش سے دوچار تھی۔
ہاجرہ نے فوری اٹیچی میں کپڑے جما دیئے اور پہلی بار اسد سے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’ کیا یہ ممکن نہیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟‘‘
’’ فرزانہ یہاں اکیلی نہیں رہ سکتی۔ تمہیں ساتھ لے چلنے کا مطلب ہے کہ فرزانہ کو بھی ساتھ لیا جائے۔ مناسب تو یہی ہے کہ میں تنہا ہی جاؤ ں۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے اٹیچی سنبھالی اور باہر نکل کھڑے ہوئے۔
ہاجرہ اور فرزانہ نے انھیں دروازے تک جا کر خدا حافظ کہا۔
اسد نے جاتے جاتے کہا:
’’ میں ایک دو ہفتوں میں لوٹ آؤں گا۔ فرزانہ کا خیال رکھنا۔‘‘
دوسرے دن فرزانہ گھر میں ہی پڑی رہی۔جب ہاجرہ نے پوچھا کیا آج وہ انسٹی ٹیوٹ نہیں جائے گی تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
باہر دروازے پر کوئی پکار رہا تھا۔
’’ کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں۔‘‘
ہاجرہ کے کان اس آواز سے آشنا تھے۔ اسے یوں لگا، جیسے یہ آواز جھرنے سے پھوٹ رہی ہو۔
اس نے باہر جا کر دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا۔ ملتانی آخر کہاں چلا گیا؟دو مرتبہ ہی تو اس نے آواز دی تھی۔ اس کی ا س بے نیازی پر اسے کوفت سی ہونے لگی تھی۔ کچھ دیر تو اسے توقف کرنا چاہیئے تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے غلط سنا ہو اور وہ آیا ہی نہ ہو۔ نہیں نہیں اس کے کان کبھی دھوکہ نہیں کھا سکتے وہ ضرور آیا تھا۔ اس نے آواز بھی دی تھی۔ اس آواز کو وہ بھلا کیسے بھلا سکتی ہے۔
پھر وہ برآمدہ پار کرتے ہوئے فرزانہ کے کمرے میں داخل ہوئی۔ فرزانہ کی نگاہیں کتاب کا احاطہ کیئے ہوئے تھیں۔ وہ کچھ پڑھ رہی تھی۔
’’ فرزانہ ابھی ابھی تم نے باہر کسی کی آواز تو نہیں سنی؟‘‘
’’ ہاں سنی تو تھی۔‘‘
’’ کون تھا وہ ؟‘‘
’’ میں کیا جانوں؟‘‘
’’ کہیں وہ ملتانی تو نہیں تھا؟‘‘
’’ شاید وہی ہو۔‘‘ فرزانہ نے بیزار لہجے میں کہا۔
ہاجرہ گہری سوچ میں ڈوب کر رہ گئی۔
’’ کیا بھئی ہم آ سکتے ہیں، کیا ہم آ سکتے ہیں؟ در و دیوار سے یہ آواز اسے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ باہر کھڑے کھڑے ، دور ہی دور سے آواز کیوں لگاتا ہے۔ وہ بغیر کچھ کہے گھر میں کیوں نہیں چلا آتا ہے۔ اس نے اسے تنگ کرنے کی کیوں ٹھان رکھی ہے؟ ۔۔۔
پھر ہاجرہ کے اندر کی عورت نے کہا ۔۔ وہ بیاہتا ہے ، ایک جواں سال لڑکی کی ماں ہے، اسے اس عمر میں ایسی باتیں تو نہیں سوچنا چاہیئے اسد صاحب اس کے شوہر ہیں، جیون ساتھی‘‘
پھر وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔۔۔
شوہر ایک مریل بیمار سا بد شکل آدمی جو چوری چھپے معجون کی گولیاں کھاتا ہے۔۔ جو مہینوں اس کے قریب نہیں آتا اور قریب آتا ہے تو یوں ڈرتا ہے جیسے وہ اسے دبوچ لے گی۔۔۔۔
اس نے برسوں پہلے اس زندگی سے طوعاً و کرہاً سمجھوتہ کر لیا تھا۔ وہ کسی وقت بھی پکار پکار کر کہہ سکتی تھی کہ اسے اسد سے محبت نہیں ہے ۔۔۔ لیکن کبھی اس نے زبان نہیں کھولی تھی
ملتانی سے ملنے سے پہلے کبھی اس کے ذہن میں یہ بات پیدا نہیں ہوئی تھی۔لیکن آج اس کی زندگی کے سامنے ایک نیا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔موجوں کی یہ تلاطُم خیزی آنے والے ایک بڑے اور ہولناک طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ اور وہ اس وقت کی منتظر تھی جب وہ اپنے آپ کو ، اپنی شخصیت کے ہر بُنِ مُو کو طوفان کی آغوش میں سونپ دے۔
لیکن ہاجرہ ہوا کے اس رخ کو پوری طرح سمجھ نہیں سکی تھی جو اس کے پہلو سے ہوتا ہوا فرزانہ پر جا کر ختم ہوتا تھا۔
دوسرے دن جب فرزانہ انسٹی ٹیوٹ چلی گئی تو وہ بھرے گھر میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگی۔ اس کی چھٹی حِس کہہ رہی تھی کہ آج ملتانی ضرور آئے گا ہر آہٹ پر اسے ملتانی کے آنے کا گمان گزرتا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی۔۔۔
اور پھر رات کی سیاہی چاروں طرف پھیل گئی۔۔۔۔
جب گھڑی نے رات کے ٩ بجائے تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ میز کی دراز سے تالا نکالا اور باہر کے دروازے پر تالا لگادیا۔
ایک لمحہ کے لئے اُسے احساس ہوا ۔۔۔ اگر اس دوران فرزانہ گھر پر تالا پڑا ہوا دیکھ لے تو پریشان ہو جائے گی۔
نہیں نہیں اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے ۔۔۔۔۔
کچھ دیر اور اس کا انتظار کرنا چاہیئے۔۔
اس نے تالا کھول دیا اور پھاٹک ہی سے قریب اِدھر سے اُدھر ٹہلنے لگی۔
آدھ گھنٹہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا۔ ۔۔ لیکن فرزانہ نہیں آئی۔۔۔۔۔ اُسے آٹھ بجے گھر میں رہنا چاہیئے تھا۔
آخر وہ کہاں مر گئی ؟
وہ غصے سے پیچ و تاب کھاتی ہوئی پھاٹک کے باہر نکل آئی۔ تالے میں چابی گھمائی۔ ایک بار اسے اچھی طرح دیکھا اور چل پڑی۔
اب اس کے قدم رائل انسٹی ٹیوٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔
وہ اپنا سارا غصہ فرزانہ پر نکالنا چاہتی تھی۔ کوفت اور غصہ کے عالم میں اسے یہ بات بھی یاد نہ رہی کہ رائل انسٹی ٹیوٹ کا فاصلہ اس کے گھر سے بہت زیادہ ہے۔
جیسے تیسے جب وہ انسٹی ٹیوٹ پہنچی تو وہاں گوہر سلطانہ آرام کرسی پر بیٹھی جھولا جھول رہی تھی۔ اس کے ہونٹوں کی محراب سے سرخ سرخ دانت بڑے بھدے اور کریہہ دکھائی دے رہے تھے۔
’’ کیا فرزانہ آج انسٹی ٹیوٹ آئی تھی؟‘‘ ہاجرہ نے بظاہر غصّے کو پیتے ہوئے پوچھا۔
لیکن اس کے چہرے سے یہ بات صاف عیاں ہو رہی تھی کہ آج اس کا موڈ ضرورت سے زیادہ بگڑا ہوا تھا۔
’’ ہاں آئی تھی اور ملتانی کے ساتھ چلی بھی گئی۔ شاید وہ پھر یہاں نہ آئے بعض لوگ نئی زندگی کے زینے پر چڑھنے کی خواہش ہی میں سیڑھیاں گنتے رہ جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چپ چاپ ایک ہی جست میں اسے پار کر جاتے ہیں۔ ۔۔ ۔فرزانہ بھی اُن ہی میں سے ایک تھی‘‘۔۔۔۔
گوہر سلطانہ نے اطمینان سے پان کی پیک کو اگالدان کی نذر کرتے ہوئے کہا۔
ہاجرہ یہ سن کر چکراسی گئی۔۔۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا منڈلا رہا تھا۔ قریب تھا کہ وہ گِر پڑتی لیکن گوہر سلطانہ نے اسے سنبھال لیا۔
’’ گھبراؤ نہیں میم صاحب ۔۔۔ زندگی میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔ فرزانہ جاتے جاتے تمہارے لئے یہاں جگہ چھوڑ گئی ہے ۔۔ تم چاہو تو اس کی جگہ پُر کر سکتی ہو‘‘
ہاجرہ نے غیض و غضب کے عالم میں اس کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ رسید کیا۔ لیکن وہ ہنستی رہی۔۔۔۔ قی قی ۔۔۔۔ قی قی ۔۔۔۔ اس کے میلے سرخ اور کریہہ دانت اس کا منہ چڑاتے رہے۔ ہاجرہ کی آنکھوں میں خُون اتر آیا۔ وہ تیزی سے چورا ہے پر آئی ٹیکسی لی اور گھر آ گئی۔
اب وہ اپنے بستر پر اوندھے منہ پڑی سسکیاں لے رہی تھی۔باہر وہی مانوس آواز اس کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔۔
’’ ارے بھئی کیا ہم آ سکتے ہیں ‘‘ ؟
وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے پھاٹک تک آئی اور اچانک گِر پڑی۔
باہر دور دور تک کوئی نہ تھا۔