جنازہ قبرستان میں دَھرا تھا۔
جینے کی قیمت ادا کرتے ہوے مرنے والے نے شائد یہ کبھی نہ سوچا ہو کہ مرنے کے بعد بھی اُسے حساب چُکانا ہے۔
جنازے کے ساتھ کل چار آدمی تھے۔ ایک نوجوان جو نہرو شرٹ پہنے ہوے تھا۔ چہرے سے بڑا گمبھیر دکھائی دے رہا تھا۔ دوسرا آدمی جو ایک بوسیدہ کوٹ پہنے ہوے تھے بار بار جیب سے بِیڑی نکال کر لمبے لمبے کش لے رہا تھا۔ وہ ٹیڑھی میڑھی قبروں سے ذرا پَرے یوں کھڑا تھا جیسے مرنے والے سے کبھی اس کا خاص تعلق نہ رہا ہو۔ تیسرا آدمی کسی پُرانی قبر کا کتبہ پڑھنے میں مُنہمک تھا۔ اس کا ایک پاوں قبر کے سینے پر تھا اور دوسرا کتبہ کے مُنہ پر وہ بھی مرنے والے سے لاتعلق سا لگ رہا تھا چوتھا آدمی جو عُمر رسیدہ تھا ، جنازے کے قریب چُپ چاپ بیٹھا تھا۔
اندھیرے میں سب کے چہرے بڑے پُر اسرار لگ رہے تھے۔
صَدیوں پُرانے قبرستان کی ٹیڑھی میڑھی قبریں مُنہ پھاڑے نعش کو نِگلنے کے لئے بے چَین تھیں۔ قبرستان کے اطراف جنگلی خود رَو پودوں کے سِینے میں چھُپے ہوے جھینگروں کی آواز سے تیسرا آدمی کچھ بے چین سا لگ رہا تھا۔ لیکن سب سے بڑی پریشانی اس پانچویں آدمی کی تھی جو تہبند باندھے ہوئے مسلسل کھُردری زمین پر کدال چلا رہا تھا۔ گو وہ اپنی عُمر سے کچھ زیادہ ہی ہوشیار دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ پریشان بھی تھا کہ آج مسلسل کدال کی ضرب کے باوجود زمین نے اپنا مُنہ کیوں بند کر لیا ہے۔ ایک جہاں دیدہ گورکن کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ زمین سے اس کا رشتہ ٹُوٹ رہا تھا۔ مِٹی میں دَھنسے ہوے پتھروں نے شاید طئے کر لیا تھا کہ اس بوڑھے گورکن کو آج شکست دی جائے جو صدیوں سے انھیں لہُو لہان کر رہا ہے۔مسلسل کدال چلاتے چلاتے وہ اب کافی تھک چکا تھا۔ اُس کا سانس پھُولا ہوا تھا اور جِسم پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ اس کے چہرے پر سینے کے بالوں پر بے شمار ریزے جمع ہو گئے تھے جنھیں علیٰحدہ کرنے کی اُسے ذرا بھی فرصت نہ تھی۔ وہ اپنے کام میں یوں جُتا ہوا تھا جیسے آج یہ قبر نہیں کھودی گئی تو اُسے اپنے پیشے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ وہ اب بھی کوشِش کے آخری سرے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا لیکن ایسا لگ رہا تھا کوشِش کے اس آخری پَھل کا مزا چکھنے سے پہلے وہ مَر جائے گا۔
اس نے اپنی زندگی میں طرح طرح کی قبریں کھودیں۔ بھانت بھانت کے مُردوں کو مِٹّی کے مُنہ میں ٹھونسا ۔ لیکن یہ عجیب جنازہ تھا جسے مِٹّی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پہلے آدمی نے تھک ہار کر گورکن کی طرف اپنی نڈھال آنکھوں سے یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ظالم آخر قبر کب کھودے گا۔
دوسرا آدمی ابھی تک پے درپے بِیڑیاں پِینے ہی میں مشغول تھا۔ نہ اُسے جنازے کے دفن ہونے کی فِکر تھی اور نہ گورکن کی آخری کوشِش کی۔ سب سے عجیب بات تھکے ماندے نڈھال گورکن نے جو محسوس کی وہ ان چار آدمیوں کی خاموشی تھی۔ بظاہر یوں لگتا تھا جیسے اس نعش سے ان کا کوئی سرو کار نہ ہو۔ ایک دوسرے سے بھی وہ اسی طرح بے خبر تھے۔
وہ اس سے یہ سوال بھی نہیں کر رہے تھے کہ قبر کب تک تیار ہو جائے گی۔ گورکن کو یہ لوگ بڑے عجیب سے لگے۔ اُسے اب یہ بھی یاد نہ رہا تھا کہ ان چاروں بھلے مانسوں میں سے کس نے اُسے قبر تیار کرنے کو کہا تھا۔ شاید خاموشی ان کی زبان ہو۔ خاموشی ان کا احتجاج ہو اور سکوت ان کی گالیاں ہوں۔ وہ چاروں آدمی قبرستان میں بھُوتوں کی طرح لگ رہے تھے۔ تیسرا آدمی سارے کتبوں کی تاریخوں کو حِفظ کرنے کے بعد اب اُسی کتبے کے پاس آ کر اُپ چاپ ٹھیر گیا تھا۔ اس عالم میں وہ اور بھی پُر اسرار لگ رہا تھا۔ چوتھا آدمی اب جنازے سے ٹیک لگائے بیٹھے اُونگھ رہا تھا جیسے وہ سونے کی نا کام کوشش کر رہا ہو۔
اب گورکن کے ہاتھ شَل ہو چکے تھے
وہ اُکتا سا گیا تھا
اُس نے ذرا سا دَم لینے کے لئے سارے ماحول کا جائزہ لیا۔
ہر آدمی بدستور اپنی سوچ میں گُم تھا۔
وہ نڈھال سا قبر پر چِت لیٹ گیا۔
ہوا کے سَرد جھونکوں میں اسے لوری کی آواز سُنائی دی۔
اُسے لگا جیسے ہوا کے سَرد جھونکے اُسے تھپک تھپک کر سُلا رہے ہوں۔
اُس نے محسوس کیا
جیسے وہ خواب کی وادی میں آہستہ آہستہ اُتر رہا ہو۔
اُسے کب نیند آئی ، کچھ خبر نہ تھی۔
جب اس کی آنکھ کھُلی تو وہ گھبرا یا گھبرایا اس ادھوری قبر کی طرف دَوڑا۔
لیکن اُسے یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ قبر بالکل تیار تھی اور ایک تازہ نعش اُس میں دھنسی ہوئی تھی۔ اس نے گھبرا کر وحشت زدہ انداز میں چیخ ماری۔ ’ ذرا ادھر آنا بھائی لوگ‘
مگر بھائی لوگوں میں اب تیسرا آدمی ہی باقی تھا۔
تیسرے آدمی نے قبر میں جھانکتے ہوے شکستہ لہجے میں کہا؛
’ ارے یہ تو یہاں پہلے ہی سے موجود تھا ‘