رات کے آخری سُلگتے ہوئے لمحوں میں کوئی اسے دونوں شانوں سے جھنجھوڑ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں لیکن اسے احساس ہو رہا تھا جیسے کوئی اُسے جگا رہا ہے۔ اس پر کچھ جاگنے اور سونے کی سی کیفیت طاری تھی۔وہ آج ایک طویل سفر سے لَوٹ کر گھر آیا تھا۔ نیند کا وہ پنگوڑا جس میں وہ کسی معصوم بچّے کی مانند میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا اچانک شاہدہ کی چیخ سے نیچے آ رہا۔ وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ بیڈ لیمپ کی مدّھم روشنی میں شاہدہ کا جِسم بُری طرح کانپ رہا تھا۔ وہ سہمی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ڈر اور خوف نے اس کی زبان پر تالے ڈال رکھے تھے۔ وہ کچھ دیر اسے ٹُکر ٹُکر کے گھورتی رہی اور پھر اچانک اس سے ایسے لِپٹ گئی جیسے کوئی اسے ہمیشہ کے لیے خالد سے جُدا کرنا چاہتا ہو۔ اس کا دل اب بھی بلیوں اُچھل رہا تھا۔ وہ خود بھی ایک عجیب کیفیت سے دوچار تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔
’ شاہدہ تم ڈر گئی ہو دیکھو یہاں کوئی بھی تو نہیں ہے۔ کچھ کہو میری جان تمہیں آخر ہو کیا گیا ہے۔ ‘ مگر اس کی زبان ساکت تھی۔ پتہ نہیں اس کے ذہن میں کیا بات آئی کہ اس نے زور سے شاہدہ کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا اور شاہدہ نے بہ دِقّت تمام اِتنا کہا :
’ حمام میں کوئی نہا رہا ہے ‘
وہ جو اپنے آپ کو کافی نڈر سمجھتا تھا اِس جملے کو سُن کر کانپ گیا۔ تھوڑی دیر پہلے اسے گھر کی فضا ساکت و سامت دکھائی دے رہی تھی۔ اب اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے واقعی نل کی ٹُونٹی کھول دی ہو۔اب اسے واضح طور پر احساس ہو رہا تھا جیسے کوئی شخص حمام میں گھُسا نہا رہا ہے اور باضابطہ جِسم پر جھاگ اُڑاتا پانی سے لُطف اندوز ہو رہا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ سردی کے باعث اس کے مُنہ سے شُو شُو کی آواز نِکل رہی ہے۔ اس نے خود پر قابو پانے کی شعوری کوشِش کی۔ اس نے آگے بڑھ کر دیکھا حمام کی دیوار سے لگے ہوئے تار پرسے ایک ہاتھ آگے بڑھا اور اچانک شرٹ تار سے غائب ہو گیا۔ وہ بُت بناکھڑا رہا۔
’ ارے بھئی خالد کھڑے کھڑے کیا تماشہ دیکھ رہے ہو ۔ میں سَردی سے مَرا جا رہا ہوں ذرا تولیہ تو دے دو۔‘
اس کے قدم جیسے زمین میں دھنس کر رہ گئے۔
یہ اُس کے بڑے بھائی سے مِلتی جُلتی آواز تھی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ صبح جب وہ بستر سے بیدار ہوا تو شاہدہ اس سے کہہ رہی تھی رات کو نیند میں آپ کافی بڑبڑا رہے تھے۔ میں تو مارے خوف کے آپ سے لِپٹ گئی تھی۔وہ بڑی دیر تک اپنی آنکھوں کو مَلتا رہا۔ اُس نے اپنے اطراف و اکناف کی ایک ایک چیز کا جائزہ لیا اور اُٹھ کر بیڈ رُوم سے باہر آیا۔ شاہدہ اُسے پھَٹی پھَٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ سفید شرٹ حمام کی دیوار سے لگے ہوئے تار پر لَٹکا ہوا تھا اور نَل کی ٹُونٹی بدستور کھلی ہوئی تھی۔
’ کیا رات تم نے حمام میں کچھ کپڑے دھوئے تھے؟ ا ُس نے شاہدہ سے پوچھا۔
’ مجھے یاد ہے نل کی ٹُونٹی میں نے بند کر دی تھی۔ شاید کسی خرابی کے باعث وہ کھل گئی ہو۔‘
’ بات یہ ہے شاہدہ رات کو میں ڈر گیا تھا۔ یہ خوف بھی عجیب شئے ہے۔ یہ خوف پتہ نہیں انسان کا تعاقب کب تک کرتا رہے گا۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ گھُپ اندھیری راتوں میں تنہا کسی آوارہ کی مانند گھومتا پھر رہا ہوں۔ لیکن مجھ جیسے نِڈر آدمی کو بھی کل رات خوف کے سائے نے ڈرا دیا۔‘
’ ہو سکتا ہے آپ کے لاشعوری میں موت کے خوف نے کسی طرح جگہ پالی ہو و رنہ آپ جیسا آدمی یوں نہ گھبراتا۔‘
’ موت سے تو سبھی ڈرتے ہیں کیا تمہیں موت سے خوف نہیں آتا؟‘
’ نہیں ذرّہ برابر بھی نہیں۔ میں انسانوں سے گھبراتی ہوں اور خاص طور پر آپ کے بڑے بھائی سے جن کی بڑی بڑی سُرخ آنکھوں کو دیکھ کر پہلی بار مجھے وحشت کا سا احساس ہوا تھا۔‘
’ تمہیں بھائی جان سے خواہ مخواہ کد سی ہو گئی ہے۔ ان بے چاروں کا مُدّت سے کوئی خط بھی نہیں آیا۔ بہت دن پہلے سارنگ پُور سے آنے والے ایک کنٹراکٹر نے مجھے اِطلاع دی تھی کہ وہ آج کل بیمار سے رہنے لگے ہیں اور ان کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن ملازمت کی مصروفیت ایسی ہے کہ مجھے بھائی جان کو جا کر دیکھنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ لیکن یہ احساس ہی کیا کچھ کم ہے کہ میں آج نہیں تو کل ان سے مِلنے سارنگ پُور ضرور جاؤں گا۔ لیکن میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں اس بھاگتی دَوڑتی زندگی کی مصروفیت اِس احساس کا بھی گلا نہ گھونٹ دے۔‘
’ چلئیے ناشتہ تیار ہے۔‘ شاہدہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے پلیٹوں پر نظر دوڑائی۔ سب سے پہلے اس نے آملیٹ کے قَتلے اُٹھائے۔ پھر تھوڑے سے توقف کے بعد وہ سلائِس پر جیلی لگا کر کھانے لگا۔
شاہدہ نے ابھی کچھ کھایا ہی نہ تھا کہ وہ اچانک اُٹھ کھڑا ہوا۔
’ بڑی تیزی سے آپ نے ناشتہ ختم کر دیا۔ میرا ساتھ تو دیا ہوتا۔‘
’ تمہارا ساتھ تو جنم جنم کاہے۔ پھر یوں بھی مجھے ذرا جلدی جانا ہے چیف انجینئر نے بُلوایا ہے۔‘
’ چیف انجینئر سے آپ اِتنا ڈرتے کیوں ہیں ؟‘ شاہدہ نے چوٹ کی۔
’ وہ میرا باس ہے اس لیئے ڈرتا ہوں۔ ‘ وہ چاہتا تو یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ اس کی ڈیوٹی ہے۔‘
اُس نے تیزی سے اسکوٹر نکالی اور شاہدہ کے کانوں نے اسکوٹر کی گڑگڑاہٹ سُنی۔ پھر یہ آواز آہستہ آہستہ فضا میں گُونجتی ہوئی اچانک غائب ہو گئی۔
پھر وہ کمرے سے اُٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آئی۔ بڑی دیر تک مختلف زاویوں سے اپنے چہرہ کا جائزہ لیا۔ شیشے میں آنے والے عکس نے جیسے چُغلی کھائی ’پگلی تُو تو خاصی خوبصورت ہے‘۔شام کو جب وہ گھر لَوٹا تو شاہدہ نے بڑی بے چینی سے کہا "How Free was my valley" کا آخری دن ہے چلیئے ہاتھ مُنہ دھو لیجئے چل کر پکچر دیکھیں گے‘ ۔
’ شاہدہ میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میرا مُوڈ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہے‘۔
’ سُنا ہے بڑی خوبصورت پکچر ہے ، دیکھ لو گے تو مُوڈ بھی ٹھیک ہو جائے گا چلئے نا پلیز ‘ یہ کہہ کر اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے شانوں میں حمائل کر دیئے۔پھر چارو نا چار خالد کو سپر ڈالنی پڑی۔
جس وقت وہ سینما ہال میں داخل ہوئے تو پردے پر کاسٹ دکھائی جا رہی تھی۔ شاہدہ خوش ہو گئی کہ اسے شروع سے پکچر دیکھنے کو مِل رہی ہے۔ لیکن خالد کا عالم کچھ اور ہی تھا۔وہ صرف شاہدہ کی خوشنودی کے لئے یہاں بادلِ ناخواستہ آیا تھا۔
شاہدہ پکچر دیکھنے میں کچھ ایسی مَحو تھی کہ اسے بغل میں بیٹھے ہوئے خاوند کی طرف دیکھنے کی فرصت نہ مِلی۔ تھوڑی دیر بعد جب شاہدہ نے دیکھا تو خالد اُونگھ رہا تھا۔
’ اجی جناب آپ پکچر دیکھنے آئے ہیں یا محض آرام کرنے۔ اور اگر آرام ہی کرنا تھا تو گھر کیا بُرا تھا۔‘
اس نے قدرے جھینپ کر اپنی آنکھیں مَلیں۔ پھر شاہدہ سے مخاطب ہو کر کہا ’ پتہ نہیں آج سارے بدن پر تھکن کیوں طاری ہے؟‘
جب پکچر ختم ہوئی تو وہ شاہدہ کا ہاتھ تھامے باہر آیا۔
’ بڑی خوبصورت فلم ہے کیوں کیا خیال ہے آپ کا ؟‘
’ واقعی اچھی پکچر ہے۔‘ یہ کہہ کر اس نے اسکوٹر پر ہاتھ رکھے اور شاہدہ بڑے والہانہ انداز میں سِیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔ سردی کافی بڑھ گئی تھی۔ اس نے کانوں پر رومال باندھا اور اپنے دونوں ہاتھ خالد کی کمر میں حمائل کر دیئے۔ اِس بار اُسے خالد کی کمر میں ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ شاید خود اس کا جِسم ٹھنڈا تھا۔ جب اسکوٹر کی رفتار تیز ہو گئی تو اُس کے ہاتھوں کی گِرفت اور مضبوط ہو گئی۔ اب راستہ چلنے والوں کو یوں لگ رہا تھا جیسے ہیرو ہیروئن پر کوئی خوبصورت سِین فلمایا جا رہا ہو۔
گھر پہنچنے تک رات کے دس بج چکے تھے۔ خالد نے ایک طویل جماہی لی۔ اُسے نیند آ رہی تھی۔ اسے کپڑے تبدیل کرنا بھی بار معلوم ہو رہا تھا۔ اُس نے لیٹے ہی لیٹے وارڈ روب سے کپڑے نکالنے کی کوششِ کی۔
شاہدہ کی نگاہ جب اس پر پڑی تو اس نے پیار بھرے الفاظ میں کہا:
’ بڑے کاہل ہیں آپ چلیئے ایسے ہی لیٹے رہئیے میں کپڑے نکالے دیتی ہوں‘۔
پھر شاہدہ نے سلیپنگ سُوٹ اُس کے ہاتھ میں تھما دیا تو وہ اُ سے پہن کر بستر پر دراز ہو گیا۔
صُبح جب اس کی آنکھ کھُلی توا س کا سارا بدن پھوڑے کی مانند دُکھ رہا تھا۔ دِل پر ایک عجیب سا بوجھ طاری تھا۔ کافی سو جانے کے باوجود اسے احساس ہو رہا تھا جیسے کسی نے اُسے کچّی نیند سے اُٹھا دیا ہو۔ دھوپ کافی نِکل آئی تھی ۔ اس نے جب گھڑی میں وقت دیکھا تو اُسے حیرت ہوئی کہ آج اتنی جلد دس کس طرح بج گئے۔ جب وہ کندھے پر تولیہ ڈالے غسل خانے کی جانب بڑھا تو شاہدہ نے طنزاً اُس سے کہا :
’ بھئی اتنی سحر خیزی بھی ٹھیک نہیں ذرا اور سو لیتے۔‘
’ طَنز کے تِیر ہی چلاتی رہو گی یا ناشتہ بھی دو گی۔‘
’ پہلے نہا تو لیجئے۔ آپ یہ تو دیکھ ہی رہے ہیں کہ پَراٹھے پکا رہی ہوں۔‘
جب وہ نہا کر کمرے میں داخل ہوا تو دفعتاً اُس کے کانوں نے ڈاکیہ کی آواز سُنی۔ دروازے کی چوکھٹ کے پاس خط پڑا ہوا تھا اور پوسٹ مین سامنے والے مکان پر کھڑا کوئی اور خط ڈلیور کر رہا تھا۔
اس نے تیزی سے لفافہ چاک کیا۔
برا در عزیز خالد میاں طُول عمرہٗ
بہت عرصے سے تم سے نہ ملاقات ہوئی نہ تم نے مجھے یاد کیا اور نہ ہی میں نے قصور نہ تمہارا ہے اور نہ میرا وقت اور زمانہ ہی کچھ ایسا تیز رفتار ہے کہ سمت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ منزل کو پانا تو دُور کی بات ہے۔ اب یہی دیکھو نا کہ مَیں سخت علیل ہوں اس کی تمہیں اطلاع ہی نہیں ۔ ایک مقامی ڈاکٹر کے زیرِ علاج ہوں۔ اس نے گُردوں کا مرض بتلایا ہے۔ بہر حال کچھ چل چلاؤ کا معاملہ ہے۔ اگر تم مناسب سمجھو اور تمہیں وقت مِل جائے تو فوری اس طرف کا رُخ کرو۔ کیا محبت ٤۰ میل کا فاصلہ بھی طَے نہیں کر سکتی ؟
کبھی تمہارا
جمیل
اُس کی نگاہوں کے سامنے خط کے حروف تیزی سے گھُوم رہے تھے وہ بڑی تیزی سے باہر نِکل آیا۔ شاہدہ نے دروازے کی چوکھٹ تک آ کر کہا
پِلیز ناشتہ تو کرتے جائیے آخر ایسی کیا آفت آ گئی ہے ‘ مگر اُس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
سارنگ پُور کافی دُور تھا۔ ٹرین کے لئے بھی اسے دو گھنٹے انتظار کرنا تھا۔ لیکن معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اُس نے نُکڑ سے ٹیکسی لی۔ ٹیکسی مختلف راستوں کو پھلانگتی ہوئی سارنگ پُور پہنچی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا
گھر کے عَین سامنے ببلو گھروندا بنائے مِٹی میں ہاتھوں کو گھُما رہا تھا نیر بازو کھڑی اُسے چمکار رہی تھی۔
’ چاچا آ گئے ۔‘ نیر خالد کو دیکھ کر خوشی سے ناچنے لگی۔
جب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی۔
’ دیکھو یہ کیسا آدمی ہے اِسے اب بھائی یاد آیا ہے۔‘
اسے یوں لگا جیسے سرِ بازار کسی نے اُس کا مُنہ نوچ لیا ہو۔
جمیل بھائی بستر پر نیم بیہوشی کے عالم میں پڑے ہوئے تھے۔ وہ ہڈیوں کا ایک پنجر ہو کر رہ گئے تھے۔ اسے اپنے بھائی کو اِس عالم میں دیکھ کر بڑا دُکھ ہوا۔ آج اس کے ذہن کے دریچوں سے بہت سی باتیں بہت سی یادیں سر اُونچا کیئے جھانک رہی تھیں۔
جب اسے شروع شروع ملازمت ملی تھی۔ اُس وقت جمیل بھائی کی مالی حالت بڑی خستہ تھی۔ بھابی مرچکی تھیں۔ وہ نیر اور ببلو کو لے کر چند دنوں کے لئے اس کے ہاں آ گئے تھے۔
جب چاہت حَد سے سِوا ہو جاتی ہے تو جا و بے جا اُمیدیں سر نکالا کرتی ہیں یہی حال کچھ جمیل بھائی کا تھا
اور وہ خود کو جیسے ننگا کرنا نہیں چاہتا تھا۔
’ اچھا ہوا تم آ گئے۔ ورنہ یہ خلش بھی میرے لئے دوسری موت ہوتی کہ تم مجھے دیکھنے نہیں آئے۔ مجھے اپنی فِکر نہیں۔ فِکر ہے تو بس اتنی کہ میرے اُٹھ جانے کے بعد نیر اور ببلو کا کیا حال ہو گا۔ مَیں تم سے کیا توقع رکھ سکتا ہوں تم تو ایک ایسے آدمی ہو جس نے مجھے نہانے کے لئے کسی وقت تولیہ تک نہیں دیا تھا۔‘
ایسا لگتا تھا جیسے وہ یہ کہے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ پھر وہ ٹیکسی میں ایسے آ گرا جیسے مُدت سے سویا نہ ہو۔ ٹیکسی ڈرائیور جو اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھے اُونگھ رہا تھا ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھا۔’ ڈرائیور کار تیز چلاؤ اور تیز ‘
کار کی سُوئی ساٹھ اور ستّر میل کے درمیان بھاگ رہی تھی۔ لیکن وہ اِس رفتار سے مطمئن نہ تھا اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے موت اس کا تعاقب کر رہی ہے اگر وہ ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا فوری گھر نہ پہنچے گا تو مر جائے گا۔