صبح و مسا بھری ہوئی سگریٹ کے کش لگا کر زندگی بھر ستم کشِ سفر رہنے والا درِ سفلگی پر ہنہنانے والا غاصب تسمہ کش تُلا جاروب کش بھی کوہِ ندا کی صدا سن کر ساتواں در کھول کر مسائلِ زیست کی غیر مختتم کشا کش سے دامن چھڑا کر بالآخر زندگی بازی ہار گیا اور عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گیا۔ مکر وال کی رذیل طوائف قفسی کی شادی تو رمنو بھڑوے سے ہوئی مگر اس طوائف نے تُلا جاروب کش کو بچپن ہی سے اپنے سپنوں کا راجا، مہا جاروب کش اور چُلّو میں اُلّو بن جانے والا بادہ کش بنا لیا تھا۔ تلا جاروب کش کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں میں سیاہ رنگ بھر کے انھیں قباحت، کراہت، ذلت، تخریب، نحوست، بے غیرتی، بے ضمیری اور بے حیائی کے سب استعاروں کا منبع بنا دیتا ہے۔ نائکہ قفسی نے جب رمنو سے شادی کر لی تو تُلا جاروب کش بھی ایک کانڈی وال سے ایک نوجوان نت لڑکی بھگا لایا۔ اس نت لڑکی نے قفسی کے قحبہ خانے سے دُور ایک گھر میں بسیرا کیا۔ وقت بڑی تیزی سے گزرتا رہا۔ تلا جاروب کش کے چھے بیٹے پیدا ہوئے۔ نت عورت نے اپنے بیٹوں کو محنت اور جفا کشی سے زندگی بسر کرنے کی تربیت دی۔ تلا جاروب کش اگرچہ قفسی کے زر و مال کے خفیہ دفینے کے سب راز جانتا تھا مگر اُس نے قحبہ خانے کی رذیل طوائف قفسی کو کبھی یہ احساس تک نہ ہونے دیا کہ وہ اس کی خست و خجالت اور مکر و فریب کو پرکھ چکا ہے۔ تلا جاروب کش اپنی محبوبہ قفسی کے سامنے محبت کی ایسی اداکاری کرتا کہ وہ اس کی ہر بات مان لیتی۔ وہ اکثر چوری چھپے اپنی نت بیوی سے ملنے چلا جاتا اور قفسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ مکروال کی عیار مہترانی قفسی اس شہر ناپرساں کی ایسی بد نام کسبی تھی جس کے خاندان نے نسل درنسل قحبہ خانے کے دھندے سے زر و مال بٹورا۔ گرد و نواح کے علاقوں سے تعلق رکھنے والی ہر دیو داسی، ڈومنی، رقاصہ، مغنیہ اور طوائف اس سے لُوٹ مار اور جنسی جنون کے ڈھنگ سیکھتی تھی۔ اس کا تعلق ٹھگوں کے اُس خاندان سے تھا جس کے مورث ادنیٰ اُجرتی بد معاش بے رحم سلسلہ وار قاتل درندے جمعدار بہرام ٹھگ (1765-1840) نے اپنی زندگی میں نہایت سفاکی سے مجموعی طور پر نو سو (900) نہتے مظلوم انسانوں کی زندگی کی شمع بجھا دی تھی۔ اسی شقی القلب ٹھگ خاندان کے تربیت یافتہ ایک اور بد نام ٹھگ فرنجیا (Feringeea) کے گروہ نے ٹھگی کی بتیس (32) پر تشدد وارداتوں میں ایک سو پانچ مسافروں کو لوٹنے کے بعد موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ چیتھڑوں میں ملبوس اپنی دھُن میں مگن حال مست مجذوب تُلا جاروب کش کے ساتھ چار عشروں پر محیط اپنے گہرے تعلقات کے بارے میں نائکہ قفسی یہ بات بر ملا کہتی:
تُلا تُلا پکارتے میں تو ہو گئی آپ ہی تُلا
جھَلا کر گیا قفسی کو وہ اوڑھ کے چیتھڑا جھُلا
وہ کوٹھا جس میں نائکہ قفسی اور اس کی پروردہ طوائفوں نے اپنے مکر کا جال بچھا رکھا تھا اُسے شہر کے واقف حال لوگ ’در و بامِ کرگساں‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ در و بام کرگساں میں جن بدنام بھوتوں اور ڈائنوں کی خیالی تصاویر آویزاں تھیں ان میں ناصف بقال، زدخورو لُدھڑ، نعمت خان کلانونت، نظام سقہ، لال کنور، زہرہ کنجڑن اور اینی بونی شامل ہیں۔ مکروال کی مکار، کینہ پرور اور لومڑی مزاج رذیل طوائف قفسی کی رقاصہ اور مغنیہ بیٹی صبوحی کلموہی جب جعل سازی کے مرض (Imposter Syndrome) میں مبتلا ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ عیاش اور جاہل مطلق حسینہ رواقیت کی داعی بن بیٹھی۔ مکروال کی گلیوں کی یہ دھُول اپنے زعم میں اپنی کریہہ صورت کو پھُول، گوبر میں لتھڑی متعفن کونپل خود کو پیپل اور مردار خور کرگس اپنی ذات کو نرگس قرار دیتی۔ قفسی اپنی بیٹی صبوحی کے بارے میں کہتی کہ میرے قحبہ خانے کی ایک نوجوان مہترانی اپنے عشرت کدے کی نگہبانی اور صفائی ستھرائی تو کسی حد تک کر سکتی ہے مگر مجھ جیسی نو سو چوہے کھا کر گنگا جانے والی گربہ کونے کھدروں، کھنڈرات اور غاروں میں پھنسے کوڑا کرکٹ کے بارے میں ہر نوجوان گناہوں میں لتھڑی بھیگی بلی سے کہیں زیادہ آگہی رکھتی ہے۔ ماہرین نفسیات نے صبوحی کلموہی کا طبی معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ مریضہ میں جو متعدد علامات ایک ساتھ ظاہر ہوئی ہیں ان میں عیاری، مکاری، ٹھگی، دُزدی، جعل سازی، پیمان شکنی، محسن کشی، سادیت پسندی، ہوس زر، خود غرضی، طوطا چشمی، خود رائی اور خود ستائی شامل ہیں۔ اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صبوحی کلموہی کی زندگی کی راتیں لُوٹ مار، ہوسِ زر اور فریب کاری کی کشمکش میں گزریں۔
قحبہ خانے کی بدنام نائکہ قفسی کی لے پالک بیٹیوں سونی، ظلی، گوشی، سموں، شباہت، شعاع، پونم، روبی اور صبوحی نے خرچی سے کروڑوں روپے بٹورے اور ملک کے کئی بڑے شہروں میں کھربوں روپے مالیت کے کئی عشرت کدے بنا لیے۔ اپنے زن مرید شوہر رمنو سے بدگمانی اور باز پرس کے خوف سے قفسی نے اپنی ساری جائیداد اپنے بچپن کے راز داں اور عاشق نامراد تلا جاروب کش کے نام کرا دی تھی۔ تلا جاروب کش کو قفسی گھڑے کی مچھلی سمجھتی تھی اور اس پر اندھا اعتماد کرتی تھی۔ رمنو، ایاز، جھابو اور تُلا جاروب کش ایسے بھڑوے تھے جو قفسی کے قحبہ خانے میں کالا دھن کمانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے تھے۔ ضمیر اور جسم کے سودے، منشیات، جنس و جنوں، رقص و موسیقی اور اغوا برائے تاوان کے قبیح دھندے اور مکر کے پھندے تیار کرنا بدنام نائکہ قفسی کا وتیرہ تھا۔
تُلا جاروب کش اپنے ہاتھ میں جھاڑو تھام کر اس انداز میں کوچہ و بازار کا رخ کرتا جس طرح ماہر شکاری بندوق تھام کر شکار کی تلاش میں جنگل کا رخ کرتا ہے۔ تُلا جاروب کش نگری نگری پھرتا وہ صرف گلیوں کی صفائی ہی نہیں کرتا تھا بل کہ اہلِ ثروت کے گھروں کا صفایا بھی اِس انداز سے کرتاکہ کسی کوکانوں کان خبر نہ ہوتی۔ مکروال ایسا شہر نا پرساں تھا جہاں کے پیشہ ور مسخرے، اچکے، شہدے، بھانڈ، بھڑوے، لچے، تلنگے، ٹھگ، اجرتی بد معاش اورقاتل سب کے سب رمنو، ایاز، جھابو اور تُلا جاروب کش کے باج گزار تھے۔ یہ گروہ کچھ عرصہ کالا باغ میں مقیم رہا وہاں سے بے نیلِ مرام نکلنے کے بعد ان ڈاکوؤں نے مکروال کا رخ کیا اور سادہ لوح لوگوں کو سبزباغ دکھا کر لوٹنا شروع کر دیا۔ کالی دیوی کی سبز قدم پجارن قفسی کی زبان بھی کردار کی طرح کالی تھی۔
اپنی عیاش بیوی کے تابع رہنے کا عادی رہنے والے رمنوکی زندگی کو قفسی نے غم کے افسانے میں بدل دیا۔ اس عیار نائکہ اور مکار چھنال نے پہلے تو اپنی بیٹیوں کواپنے قحبہ خانے میں بٹھایا اور یہ چمن سیکڑوں مرتبہ لُوٹا گیا۔ بے شمار کالے بھنوروں نے جب ان طوائف زادیوں کی اُٹھتی جوانی کا رس نچوڑ لیا اور ان کا حسن و جمال زوال کا شکار ہو گیا تو عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے نوجوانوں سے ان کی منھ مانگی قیمت وصول کر کے ان کے ساتھ ان ادھیڑ عمر کی طوائف زادیوں کا بیاہ کر دیا۔ قفسی کی بیٹیاں جہاں بھی گئیں وہاں اُنھوں نے خفیہ طور پر اپنا قبیح کاروبار اور آبائی دھندا بھی جاری رکھا۔ جب رمنو کے اعضا مضمحل ہو گئے تو اِس کے ساتا روہن نے بھی اسے تنہا چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ ضعیفی میں کئی بیماریوں نے رمنو کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ دوسری طرف قفسی نہایت ڈھٹائی سے کہتی کے ابھی تو وہ جوان ہے۔ مہمانوں کے سامنے قفسی جب اپنے بیمار شوہر کی بے توقیری، توہین، تذلیل اور تضحیک کرتی تو شہرکے اہلِ درد دِل تھام لیتے۔ اپنی بیوی کے بدلتے تیور دیکھ کر رمنو پیچ و تاب کھانے لگتامگرمجبوریِ حالات نے اسے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بیماری اور بے روزگاری نے رمنو کو زود رنج اور جھگڑالو بنا دیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قفسی کے منحوس قحبہ خانے میں روز جوتیوں میں دال بٹتی تھی۔
گرمیوں کی ایک شام تھی قفسی کے قحبہ خانے میں سب مست بند قبا سے بے نیاز ساز کی لے پر رقص کر رہے تھے۔ بھڑوے رقصِ مے کو تیز تر کر کے اپنی تشنگی کی تسکین کر رہے تھے۔ حالات سے نا خوش و بیزار دُور بیٹھے رمنو نے اپنی بد معاش بیوی قفسی کو سمجھاتے ہوئے کہا:
’’ہم اپنی بیٹی حسین و جمیل بیٹی صبوحی کی سو سے زائد مرتبہ منگنی کر کے سادہ لوح لوگوں سے بے پناہ زرو مال بٹور چکے ہیں۔ اس بار ہمارا شکار میرادیرینہ دوست منشی کرم دادہے۔ اپنے بڑے بیٹے کی اچانک وفات نے اس بوڑھے معلم کو زندہ در گور کر دیا ہے۔ ہم نے اس کی پنشن، بیمہ کی رقم اور ساری جمع پونجی ہتھیا لی ہے۔ اگر اس سے فریب کیا گیا اور صبوحی کی شادی اس کے چھوٹے بیٹے سے نہ کی تو اجل کے وار سہنے والا دل گرفتہ معلم کرم داد جیتے جی مر جائے گا۔ میری مانو جتنی جلدی ہو سکے صبوحی کا بیاہ کرم داد کے چھوٹے بیٹے سے کر دو۔ تقدیر کے ستم سہہ کر آلامِ روزگار کے ہاتھوں اُجڑنے والے کرم داد جیسے لوگ حالات کی قبروں کے کتبے کی صورت ہوتے ہیں۔ مظلوم کرم داد سے فریب کاری کرنا ایسی کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے جو اُسے تباہ کر دے گی۔ کرم داد کی زندگی میں گریہ و زاری کے سوا کیا ہے؟ اسے مارنا تو مرے کو مارنے کے مترادف ہے۔‘‘
’’اونہہ! تمھاری بیماری ہمارے لیے ذلت و خواری بنتی چلی جا رہی ہے۔‘‘ قفسی نے نفرت اور حقارت سے اپنے بیمار شوہر کو دیکھا اور غراتے ہوئے اس سے کہا ’’صبوحی تو میرے قحبہ خانے اور چنڈو خانے کے لیے سونے کی چڑیا ہے۔ اگر یہ اُڑ گئی تو یہاں ہر طرف دھُول اُڑنے لگے گی۔ میرے قحبہ خانے کو خرابے میں بدلنے کی تمھاری خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ کوئی احمق ہی ہو گاجوسونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو بے رحم قصاب کے سپر کر دے گا۔‘‘
’’یہ مت بھولو کہ اکہتر سالہ ضعیف استاد منشی کرم داد کے ہم پر بہت احسان ہیں۔ اس نے صبوحی کی تعلیم اور ملازمت کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ اگر کرم داد صبوحی کا چار سو صفحات کا مقالہ ’ اردوزبان اور دکنی زبان کا ارتقا ‘ نہ لکھتا تو جامعہ اودھ سے صبوحی کو ایم۔ فل اردو کی ڈگری کبھی نہ ملتی۔ اسی ڈگری کی وجہ سے صبوحی کو جامعہ ایودھیا میں اردو لسانیات کی پروفیسر لگا دیا گیا ہے۔ اب تو اس کی پانچوں گھی میں ہیں، ہمارا دھندہ اور پھندہ بھی جاری رہے گا اورہم منشی کرم دادا کو بھی تسلی دے سکیں گے ورنہ شہرکے سب واقف حال لوگ یہی کہیں گے کہ ہم نے ایک ضعیف استادکو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اپنی چربہ سازی، جعل سازی، کفن دُزدی اور جسارت سارقانہ پر نادم ہونے کے بجائے غرور کرناتمھاری اور صبوحی کی بے حسی اور بے ضمیری کی علامت ہے۔‘‘
’’اب زیادہ باتیں بنانے کی ضرورت نہیں، تم ناحق منشی کرم داد کی حمایت کر رہے ہو۔‘‘ قفسی نے اپنے بیمار شوہر کو ڈانٹتے ہوئے کہا ’’میری چندے آفتاب چندے ماہتاب بیٹی صبوحی تو سال 2019 ء کی حسینۂ عالم ٹونی این سنگھ (Toni-Ann Singh)سے بھی کہیں بڑھ کے حسین ہے۔ اس کے لیے نئی بگاٹی لا وائٹر نوائر ڈیبٹس(Bugatti La Voiture Noire Debuts)کار، سوکنال کی کوٹھی، فارم ہاؤس، وسیع زرعی اراضی، پانچ کلو سونا اور چار سو قیمتی ملبوسات کی ہماری مانگ یہ بوڑھا معلم کیسے پوری کرے گا؟ تم نے سمدھی، میں نے سمدھن اورصبوحی نے بہو کی اداکاری کر کے اس بوڑھے معلم سے ’ اردوزبان اور دکنی زبان کا ارتقا‘ جیسے مشکل موضوع پر ایم۔ فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھوا لیا۔ اب رات گئی اور اس کے ساتھ ہی کرم داد کے بیٹے کے ساتھ صبوحی کی منگنی کی بات گئی والا معاملہ ہے۔ میں اس شہر کے حاسد اور کینہ پرور لوگوں کی بے سر و پا باتوں سے بالکل نہیں ڈرتی۔ یہ تومحض ایک ڈرامہ تھا جس میں پہلے سے طے شدہ سکرپٹ کے مطابق ہم سب بہت اداکاری کر چکے اب تم کرم داد کو چلتا کرو۔ اگر تم نے اُس بوڑھے معلم سے ہماری جان نہ چھڑائی تو میں تُلا جاروب کش سے کہہ کر پہلے تو کرم داد کے گھر میں جھاڑو پھروا دوں گی اور اس کے فوراً بعد اپنے اس خنجر آزما رفیق کے ذریعے اِس بڈھے کو شہر خموشاں میں بھجوا دوں گی جہاں وہ ردائے غم و حسرت و یاس اوڑھ کر لمبی تان کر سوئے گا۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسا ظلم ہر گز نہ کرنا، تُلا جاروب کش تو اُجرتی بد معاش اور کرائے کا قاتل ہے۔ اُس ڈریکولا نے کئی بے گناہ انسانوں کو تمھارے کہنے پر موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اس پر رحم کرو اور اسے پریشاں حالی و درماندگی کے عالم میں انتقام کی چکی کے پاٹوں میں پیسنے سے باز رہو۔ جس مس ورلڈ کا تم نے ابھی نام لیا ہے وہ تئیس (23) سال کی ہے جب کہ تمھاری بیٹی صبوحی اب تک زندگی کی اکتیس (31) بہاریں اور عشاق کی لمبی قطاریں دیکھ چکی ہے۔‘‘ خست، خفت اور خجالت کا پیکر رمنو بھڑوا اپنی اہلیہ سے دھیمے لہجے میں مخاطب تھا ’’اپنے مطالبات کو اس قدر طول نہ دو، ذرا دامن اور بندِ قبا پر بھی نظر ڈال لو۔ بوڑھا معلم کرم داد اپنی زندگی میں کسی خوشی کو دیکھنے کے لیے اب تک بڑی قربانیاں دے چکا ہے۔ اب تو میں یہ کام تکمیل تک پہنچا کے دم لوں گا۔ ‘‘
’’جب تک میرے دم میں دم ہے میں تمھیں دم نہ لینے دوں گی۔‘‘ قفسی نے غیظ و غضب کے عالم میں غراتے ہوئے کہا ’’جو شخص بھی صبوحی اور میری راہ میں دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔ آج کے بعد کرم داد کے بیٹے کے ساتھ صبوحی کی منگنی کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے ختم سمجھو۔ میں صبوحی کی نئی منگنی کروں گی اور اس کے لیے نیا جہان آباد کروں گی۔ جب سے صبوحی نے جامعہ ایودھیا میں منصب سنبھالا ہے ملک کے بڑے بڑے تاجر، کارخانہ دار، اعلا عہدے دار اور جاگیردار مجھ سے مسلسل رابطہ کر ہے ہیں۔ اب میں تیل اور تیل کی دھار نہیں دیکھوں گی بل کہ صبوحی کے حسن بے پروا کی مار اور اس کے عشوہ و غمزہ و ادا کے وار دیکھوں گی۔ اب تو آنے والا وقت ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ کون ہے جو میری خورشید جمال صبوحی کے جان لیوا وار کی تاب لا سکے۔ اس کی چاہت میں اس کے شیدائی سب کچھ وار دیں گے۔‘‘
’’تم نے تو مرسی براؤن کا روپ دھار لیا ہے اور تمھارا خاتمہ بھی اسی چڑیل کی طرح ہو گا۔ اپنے ان مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے تمھیں میری لاش پر سے گزرنا ہو گا۔‘‘ بیمار اور لاچار رمنو نے آہ بھر کے کہا ’’بے درد کو کسی کے درد کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ میں آج ہی کرم داد کو سب حقائق بتا دوں گا اور اس کا سامان بھی لوٹا دوں گا۔ فریب کاری، عیاری، مکاری اور عقوبت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ تم نے تو آدم خور چڑیل اور خون آشام ڈائن کو بھی مات دے دی ہے۔ مکر وال کی چڑیل صبوحی تو خون آشامی میں وینس کی چڑیل سے بھی آ گے نکل گئی ہے۔ اس جعلی منگنی اور فریب کاری میں کرم داد کو جس ذہنی مشقت، اذیت و عقوبت کا سامنا کرنا پڑا اس کا مداوا تو ممکن ہی نہیں البتہ جو زر و مال تم نے اس سے بٹور لیا ہے وہ تو اسے واپس کر دو۔‘‘
’’ہاں میں اور میری بیٹی صبوحی دونوں آدم خور چڑیلیں اور ڈائنیں ہیں!‘‘ قفسی نے چیختے ہوئے کہا ’’خضاب آلود بڈھے کھوسٹ اور ناکارہ تھوتھے چنے تم اس وقت گھنا بج رہے ہو، میں بہت جلد تمھیں عبرت کی مثال بنا دوں گی۔‘‘
رمنو نے اپنی بے بسی اور قفسی کی ہوس کے بارے میں منشی کرم داد کو آگاہ کرنے کی غرض سے اُسے اپنے پاس بلایا اور کہا:
’’کرم داد! میں بہت شرمندہ ہوں کہ اب تک زندہ ہوں۔ قفسی اور صبوحی پر میرا بس نہیں چلتا اب وہ میرے کیے گئے عہد و پیمان سے منحرف ہو گئی ہیں۔ ان چڑیلوں کے مکر کی وجہ سے تمھاری سب محنت اکارت گئی اور اُمیدوں کی فصل غارت چلی گئی۔ تم بلا شبہ آج کے سیزر ہو اور صبوحی نے بروٹس کا کردار ادا کیا ہے۔ تم سے ایم۔ فل۔ اردو کا تحقیقی مقالہ لکھوا کر احسان فراموشی، بے غیرتی، بے ضمیری اور محسن کشی کی شرم ناک مثال قائم کر کے صبوحی نے اپنا منھ کالا کیا ہے۔‘‘
کرم دادا نے خاموشی سے رمنو کی باتیں سنیں اور دامن جھاڑ کر وہاں سے ایسے اُٹھا جیسے کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے۔ منشی کرم داد بار بار پُر نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتا اور دل ہی دل میں اپنے خالق کے حضور التجا کرتا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ ظلم کا سلسلہ بالآخر ختم ہو گا اوردرندے ہر حال میں اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچیں گے۔ ہر فرعون، نمرود اور ڈائر کی ہلاکت اور تباہی نوشتۂ تقدیر ہے۔ وہ وقت دُور نہیں جب قفسی کے قحبہ خانے کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ ظلم کی رات ختم ہو گی اور الم نصیب و جگر فگار طلوع صبح بہاراں کا منظر دیکھیں گے۔
اُدھرقفسی نے یہ تہیہ کر لیا کہ اپنے ناکارہ شوہر سے نجات حاصل کر کے کسی اور نوجوان کو اپنے دام فریب میں پھنسا لے۔ اپنی عیار بیٹی صبوحی کے مشورے سے قفسی نے اپنے شوہر کو اپنی راہ سے ہٹانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ رمنو یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ مصیبت کی اِس گھڑی میں اُس کے ہر چارہ گر نے طوطا چشمی کو شعار بناتے ہوئے چارہ گری سے گریز کی راہ اختیار کر لی ہے ورنہ اس کے درد و کرب لا دوا ہر گز نہیں۔ رمنو کے دِل کے گلشن میں خزاں کے سیکڑوں مناظر کا مسموم ماحول دیکھ کر مرغانِ باد نما اور فصلی بٹیروں نے جب لمبی اُڑان بھر لی تو ایک دن شدید علالت کے باوجود رمنو تنہا علاج اور دوا کی غرض سے شہر کے ایک خیراتی ہسپتال کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک ایک تیز رفتار کار سڑک سے گزری اور رمنو کو کچلتی ہوئی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ رمنو کو ابتدائی طبی امداد کے لیے مقامی ہسپتال کے شعبہ حادثات میں پہنچایا گیا مگر جسم پر لگنے والے شدید زخموں اور سر کی چوٹ کے باعث اس کا دمِ آخریں بر سر راہ تھا۔ قفسی فوراً ہسپتال پہنچی اور شوہر کے سرہانے بیٹھ کر مگر مچھ کے آنسو بہانے لگی۔ سردیوں کی ایک یخ بستہ شام تھی رمنو نے آخری ہچکی لی اور قفسی نے اپنے نوجوان آشنا سے پہلی سرگوشی کی۔ اس کے نئے آشنا نے متعلقہ شعبے سے رمنو کی موت کا میڈیکل سرٹیفکٹ بنوا لیا۔ اگلی صبح قفسی نے زندگی کا بیمہ کرنے والی کمپنی سے حادثاتی موت کا ڈبل کلیم حاصل کرنے کے کاغذات جمع کرا دئیے۔ چند روز بعد جب اس ڈائن کو ایک کروڑ روپے کا کلیم مِل گیا تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائی۔
’’یہ بہت عجیب بات ہے کہ میں چونسٹھ سال کی عمر میں تم جیسے کڑیل نوجوان سے تیرہویں مرتبہ شادی کر رہی ہوں، قفسی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’تمھاری اُٹھتی جوانی دیکھ کر مجھے اپنا گزرا ہوا وہ زمانہ یاد آ رہا ہے جب میں پہلی بار کسبی بننے سے پہلے کنواری تھی۔ تم اس لیے خوش ہو کہ تمھاری تو یہ پہلی شادی ہے۔ آج میرے اور تمھارے پیار کے حالات دیکھ کر حاسد اور منافق درندے میری شادی کے بارے میں یہی کہیں گے کہ بوڑھی گھوڑی لال لگام! ہا ہا ہا۔‘‘
’’تم جانتی ہو کہ اس وقت میں سولہ سال کا ہوں اور یہ میری پہلی شادی ہے۔‘‘ نوجوان جھابو نے مسکراتے ہوئے قفسی کو اپنے بازوؤں میں تھام لیا اور کہا ’’تم نے ابھی میری اُٹھتی جوانی کا ذکر کیا ہے، اب میں تمھارے قدموں میں بیٹھ کر سب کچھ نچھاور کر دوں گا۔ جو بھی تیرے آستاں سے اُٹھتا ہے پھر اسے کہیں بھی بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔‘‘
جھابو کے والدین کا شمار شہر کے متمول ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ جھابو کا باپ جھلا جھکیار زندگی کے بیمہ کے کاروبار سے وابستہ تھا۔ اس نے کالا دھن کمانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ ایک زمانہ تھا جب اپنی اہلیہ کی موت کے بعد جھلا جھکیار قفسی کے قحبہ خانے میں دادِ عیش دینے کے لیے بلا ناغہ سر شام پہنچ جاتا۔ عالمِ پیری میں کثرت مے نوشی اور جنسی جنون کے باعث جھلا جھکیار کے اعضا مضمحل ہو گئے اور وہ فالج کے عارضے میں مبتلا ہو کربستر تک محدود ہو گیا۔ جھلا جھکیار کی بیماری کے اس عرصے میں قفسی اکثر جھلا جھکیار سے ملنے اس کے گھر چلی آتی۔ قفسی کے ساتھ شادی کے بعد جھابو نے اپنے بوڑھے اور بیمار باپ کو ٹھکانے لگا دیا۔ اب جھابو ہی اپنے باپ کی تمام جائیداد کا واحد مالک تھا۔ جھلا جھکیار کی موت پر قفسی نے ٹسوے بہاتے ہوئے کہا:
’’جھلا جھکیار بہت رحم دل شخص تھا۔ اس نے بے سہاروں کو سہارا دیا اور غریبوں کی مدد کی۔‘‘
اپنے شوہر رمنو کا کام تمام کرنے اور کرم داد کو محرومیوں اور مایوسیوں کی بھینٹ چڑھا کر قفسی نے سکھ کا سانس لیا۔ جھلا جھکیار کی سب جائیداد اب قفسی اور اس کی عیاش بیٹی صبوحی کے تصرف میں تھی۔
جو شخص بھی ان عادی دروغ گو ٹھگوں کے نرغے میں پھنستا اُسے جان کے لالے پڑ جاتے۔ طرب یا تعب تقدیر ہر صورت میں ان الم نصیبوں کی پیشانی پر اِن کے منتشر ہونے کا سبب درج کر دیتی۔ گلشن ہستی میں گل نو شگفتہ کی صورت میں مہکنے والے پھول ان کی لوٹ مارے کے باعث خار و خس کی صورت میں دھول میں پڑے ملتے۔ اپنی نوجوان بیٹی صبوحی کو جب نائکہ قفسی نے نتھلی پہنائی تو جھابو اور صبوحی کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگی:
’’میں نے اپنی بیٹی صبوحی کو قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں زر و مال بٹورنے کے سب حربے سکھا دئیے ہیں۔ وہ اعلا تعلیم یافتہ اور ماہر پیشہ ور طوائف ہے۔ میری طرح اس نے بھی ہمیشہ غم گسار، ایثار پیشہ، مخلص اور ہمدرد رفیقہ کا روپ دھار کر سادہ لوح لوگوں کو فریب دیا ہے اور انھیں جی بھر کر لُوٹا ہے۔ ہم ایک جنگل میں رہتے ہیں اور یہاں جنگل کا قانون ہی پوری شدت سے نافذ ہے۔ ہمیں یہاں من مانی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خرچی کی کمائی کے لیے کرگسی نگاہ، چغد جیسی نحوست، زاغ و زغن جیسی حرام خوری، طوطے جیسی بے وفائی، لومڑی جیسی مکاری، عقرب جیسی نیش زنی اور ناگ جیسا زہر درکار ہے۔‘‘
صبوحی نے اپنی ماں کی باتیں سن کر اثبات میں سر ہلایا اور کہا: ’’عیاش، مغرور اور بگڑے ہوئے سرمایہ دار نوجوانوں کی جیبیں خالی کرانے کے لیے میں اپنی ترکش کا ہر تیر چلا سکتی ہوں۔ وہ مجھے نوچتے اور بھنبھوڑتے ہیں تو میں بھی ان کی میراث میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑتی۔ میں نے نئے انداز اپنا کر اور ہر سوانگ رچا کر اس قدر زر و مال جمع کیا کہ پرانی طوائفیں میری بڑھتی ہوئی مقبولیت اور شہرت کی چڑھتی ہوئی پتنگ کو دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ میں نے اپنی لوٹ مار میں مکر و فریب، عشوہ و غمزہ و ادا، عریانی و فحاشی کے حربوں کو منظم انداز میں اپناتے ہوئے اپنے عشرت کدوں کے لیے زر و مال جمع کیا۔ میرے سامنے فہم و فراست اور معاملہ فہمی کے داعی سب باون گزے دیکھتے ہی دیکھتے بونے بن جاتے ہیں۔ میں اس قدر زہریلی ناگن ہوں کہ میرا ڈسا تو پانی بھی نہیں مانگتا۔‘‘
’’تم سچ کہتی ہو صبوحی تم نے تو ہتھیلی پر سرسوں جما دی ہے۔‘‘ قفسی نے اپنی بیٹی صبوحی کی پیٹھ پر تھپکی دی اور اکڑتے ہوئے کہا ’’یہ لطائف یا قیافہ ہر گز نہیں بالکل سب کی معلومات میں اضافہ ہے کہ قحبہ خانے کے دھندے کی ماہر کسبی نائکہ کی پروردہ بیٹی بھی عیار حرافہ اور جنسی جنون میں مشاق طوائف ہی ثابت ہوتی ہے۔ منشیات، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری سے کا لا دھن کمانے والے دولت و ثروت کے لحاظ سے میرے قدموں کی دھُول ہیں اور مجھے گل چھرے اُڑاتے دیکھ کر بے حد ملول ہیں۔ اتنا مال تو چور، ڈاکو، لٹیرے، قاتل، بھتہ خور اور در انداز بھی اتنا مال نہیں لُوٹ سکے جتنا میں نے اپنی زندگی میں لُوٹا ہے۔‘‘
’’سال 2020ء کے آغاز میں میری عمر اکتیس سال ہے اور میں نے بارہ سال کی عمر میں نتھ کھلوائی۔‘‘ خراباتیان خرد باختہ کی پروردہ صبوحی نے باؤلی کتیا کی طرح غراتے ہوئے کہا ’’اس وقت شہر کا ہر نوجوان دولت مند میرا شیدائی اور میری زلفوں کا اسیر ہے۔ اب تک میری جائیداد کی مجموعی مالیت اربوں سے بڑھ کر کھربوں تک جا پہنچی ہے۔‘‘
شہر کے لوگ حیران و پریشان تھے کہ صبوحی کے گھر میں سونے کی کان نکلی ہے یا اسے کوئی طلسمی چراغ مِل گیا ہے جو وہ اس قدر مال دار بن گئی ہے۔ کچھ عرصے سے صبوحی اور قفسی کے ساتھ جھابو کا روّیہ بدل رہا تھا۔ دوسری طرف صبوحی اور قفسی بھی جھابو کو کباب میں ہڈی سمجھنے لگی تھیں۔ ہوس اور حرص کی آگ ہوش و خرد کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ خفتہ آتش فشاں کے مانند ایک لاوا تھا جو اندر ہی اندر اُبل رہا تھا اور کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا۔ تلا جاروب کش انبوہ مہوشاں اور ہجوم کرگساں کے جذبات سے آگاہ تھا۔ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ قفسی اور صبوحی کے مکر کی چالوں سے سیکڑوں گھر بے چراغ ہو گئے اور ہزاروں نوجوان در بہ در اور خاک بہ سر ہو گئے۔ سردیوں کی ایک شام تھی جھابو ایک مقامی ہوٹل سے کھانے کے دو پیکٹ لایا۔ مقامی ہوٹل سے جھابو کھانے کے جو دو پیکٹ لایا تھا وہ اُس نے قفسی کی ہدایت کے مطابق باورچی خانے میں رکھ دئیے تھے اسی اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی اور جھابو تیزی سے باہر نکلا تا کہ یہ معلوم کر سکے کہ اس وقت کون ہے جو اتنا زور سے دروازہ پیٹ رہا ہے۔ جھابو باہر نکلا تو یہ دیکھ کر اس کے پاؤں تلے سے زمیں نکل گئی کہ چھے نقاب پوش مسلح ڈاکو باہر دروازے پر کھڑے تھے۔ انھوں نے جھابو کو اپنی گرفت میں لے لیا اور اپنی ویگن میں ڈال کر تیزی سے دُور نکل گئے۔ قفسی نے اپنی بیٹی صبوحی کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور کہا:
’’ایسا معلوم ہوتا ہے سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے۔ میں نے نت نگر کے چھے نت نوجوانوں کو جھٹ منگنی پٹ بیاہ کا جھانسہ دے کر قابو کیا ہے اور نواحی گاؤں نت نگر کے وہی چھے نت نوجوان جھابو کے پیچھے لگا دئیے ہیں۔ میں نے بڑی راز داری سے شہر کے ایک ضعیف پنساری سے زہر کی پڑیا خریدی اور اسے باورچی خانے میں رکھ دیا ہے۔ یہ زہر ایک گھنٹے کے بعد اثر کرتا ہے اور اس زہر کا کوئی تریاق بھی نہیں۔‘‘
’’کڑی کمان کا تیر کبھی خطا نہیں ہوتا۔‘‘ صبوحی نے دانت پیستے ہوئے کہا ’’جھابو تو یہاں کے کھانے ڈکار کر غرانے لگا تھا اب تک وہ ٹھکانے لگ چکا ہو گا۔ گزشتہ کئی ماہ سے وہ مجھے گھورتا رہتا تھا اور پاس بُلاتا تھا۔ یہ چھے نت بھائی جب جھابو کا کام تمام کر کے واپس آئیں گے تو ان کی ضیافت کی جائے گی۔ ان کے کھانے میں تمھاری لائی ہوئی زہر کی وہ پڑیا ڈال دوں گی جو میں نے باورچی خانے میں مسالحے کی دراز میں رکھی ہے۔‘‘
’’اب اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ان چھے نوجوان نت بھائیوں کو کھانا کھلا کر فوراً چلتا کرو تا کہ یہ اپنے گھر پہنچ کر اپنی شادی کی تیاری کریں۔‘‘
پردے کے پیچھے تلا جاروب کش مایوسی، محرومی اور اضمحلال میں ڈُوبا سب باتیں سُن رہا تھا۔ وہ ان رذیل طوائفوں کے سفاکانہ منصوبے سے آگاہ ہو گیا اوردِل ہی دِل میں ان کی چال کو ناکام بنانے کی تدبیر سوچنے لگا۔ اچانک قفسی نے کفن پھاڑ کر غراتے ہوئے کہا:
’’تُلا جاروب کش! تم کہاں ہو؟ جلدی یہاں آؤ۔‘‘
تلا جاروب کش فوراً قفسی اور صبوحی کے کمرے میں پہنچا۔ کمرے کی دیوار پر دو کریہہ چھپکلیاں لڑ رہی تھیں، اچانک ایک چھپکلی نے دوسری چھپکلی کو نیچے گرا دیا۔ باہر درختوں پر چغد کی آواز سُن کر وہ چونکا، حیرت و حسرت کے عا لم میں وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ قفسی نے غصے سے کہا:
’’آج چھے نوجوان مہمان یہاں آ رہے ہیں ہم نے ان کے لیے کھانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ اب یہاں کھڑے میرا منھ کیا دیکھ رہے ہو؟جاؤ اور ہمارے لیے وہ کھانا گرم کر کے لاؤ جو جھابو نے باورچی خانے میں رکھا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ تم تو ندیدے پیٹو ہو مگر پریشان نہ ہونا مہمان ابھی پہنچنے والے ہیں جو کھانا مہمانوں سے بچے گا وہ مہمانوں کے چلے جانے کے بعد ہمیشہ کی طرح تمھیں ہی مِلے گا۔‘‘
تلا جاروب کش کھانا گرم کر کے لایا اور صبوحی کی بتائی ہوئی پڑیا بھی مسالحے کے خانے سے نکال کر اسی کھانے میں اُنڈیل دی۔ صبوحی اور قفسی نے جھابو کا انتظار کیے بغیر جی بھر کر کھانا کھا لیا۔ کھانا کھاتے ہی دونوں طوائفوں کی حالت بگڑنے لگی اور دونوں رذیل طوائفیں ایک گھنٹے کے بعد تڑپ تڑپ کر مر گئیں۔ دونوں کی ناک اور کانوں سے خون بہہ رہا تھا جس کی رنگت سیاہ تھی اور منھ سے متعفن جھاگ بہہ رہا تھا۔ اگلی صبح جھابو کا ڈھانچہ بستی کے نواحی جنگل میں پایا گیا جنگلی درندوں نے لاش کو اُدھیڑ اور کھدیڑ کر ناقابل شناخت بنا دیا تھا۔ ہڈیوں پر باقی رہ جانے والا گوشت حشرات الارض اور ملخ و مُور کے جبڑوں میں تھا۔ چشمِ فلک نے عبرت سرائے دہر کا یہ منظر بھی دیکھا کہ قفسی کے عشرت کدے میں نئی پریوں کا اکھاڑا سج گیا ہے اور راجہ اندر بھی نئے ہیں۔ پاس ہی ضعیف قحبہ گر تلا جاروب کش جھاڑو تھامے گھوم رہا تھا اس کے پاس چھے نوجوان سر جھکائے کھڑے تھے۔ قفسی اور صبوحی کی ہلاکت کے بعد تلا جاروب کش مطمئن و مسرور تھا اور اس کے چہرے پر کوئی ملال نہ تھا۔ بے ضمیروں کے اب بھی وارے نیارے تھے صرف قحبہ خانے اور چنڈو خانے کا نام بدل گیا تھا۔ بڑے دروازے پر پہلے جہاں ’در و بام کرگساں‘ کی تختی لگائی گئی تھی اس کی جگہ اب وہاں جلی حروف میں ’چغد بسیرا‘ لکھا تھا۔ زاغ و زغن، بوم و شپر اور کرگس پھر سے یہاں نئے اور دل کش پھندے سجا کراور رندے تھام کر اپنا دھندہ شروع کر چکے تھے۔ قفسی اور صبوحی کے دفینے کے بارے میں اب کسی کو کچھ معلوم نہیں سنا ہے کہ قفسی اور صبوحی کے دفینے کا راز تلا جاروب کش نے اپنے چھے بیٹوں کو بتا دیا تھا جنھوں نے کئی من سونا، چاندی کے زیورات اور ہیرے جواہرات ٹھکانے لگا دئیے۔
٭٭٭