ناچیز عطا اللہ خان ساجدؔ آپ کی خدمت اَقدس میں اَپنا فن پیش کرنے سے پہلے اسلام علیکم عرض کرتا ہے۔
ہم نے تو کروٹٹوں میں جوانی گذار دی حسرت سے بزمِ غیر کا دَر دیکھتے رہے
وہ جنبش نقاب کا منظر نہ پوچھیے کیا دِیکھنا تھا اَپنا جگر دِیکھتے رہے
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی جانے کوئی دِیوانہ سمجھے کوئی سودائی
نغموں کا بھرم ٹوٹا میخانے کا دَر چُھوٹا جب ساز چھڑا کوئی آواز تیری آئی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جان سے گذر جاؤں
کُل بلایاں جنگل دِیاں آ لاش سسی تے گہیاں
دِیکھ کے لاش سسی دِی کوں حیران کھلوندیاں رہیاں
سسی آکھیا بے شک کھاؤں میکوں میں تاں دَعوت دِیندی پئی
دو اَکھیں میڈیاں محفوظ رَکھا اِے رَاہ کیچ دَا دِیندیاں پئی یاں
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جان سے گذر جاؤں اِس آس پہ زندہ ہے اَب تک تیرا شیدائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
اِلزام ہر ایک ہنس کے ہم نے سہا بیگانہ ہونے نہ دی چاہت کی ہم نے کبھی رُسوائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
کبھی تو لائے گی بادِصبا پیغام تیرا ہوا کے رُخ پہ نشمین بنا رکھے ہیں
تو آئے تجھے دِیکھوں اور جاں سے گذر جاؤں
ہزاروں خوائشیں اِیسی کہ ہر خوائش پہ دَم نکلے بہت نکلے میرے اَرمان لیکن پھر بھی کم نکلے
خدا کے وَاسطے زاہد اُٹھا نہ پردہ کعبے سے کہیں ایسا نہ ہو یہاں بھی وہی کافر صنم نکلے
اِلزام ہر ایک ہنس کے ہم نے سہا بیگانہ
ہونے نہ دی چاہت کی ہم نے کبھی رُسوائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
رات گے تک گائل نغمے کرتے ہیں اعلان یہاں
یہ دُنیا ہے سَنگ دِلوں کی کوئی نہیں اِنسان یہاں
اور بھیک میں بھی مانگوں تو کوئی پیار نہ ڈالے جولی میں
بِن مانگے مِل جاتے ہیں رُسوائی کے سامان یہاں
اِلزام ہر ایک ہنس کے ہم نے سہا بیگانہ
ایک شنہشاہ نے دُولت کا سہارہ لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق
او میری محبوب کہیں اور مِلا کر مُجھ سے بزم شاہی میں غریبوں کا گذر کیا مان لے
بول نہ بول اے جانے والے سُن تو لے دِیوانوں کی اَب نہیں دِیکھی جاتی ہم سے یہ حالت اَرمانوں کی
دِل کے نازک جذبوں پر رَاج ہے سونے چاندی کا یہ دُنیا کیا قیمت دِے گی سادہ دِل اِنسانوں کی
نغموں کا بھرم ٹوٹا میخانے کا دَر چُھوٹا
وقت و اَرمان و یاس رہتا ہے دِل اَکثر اُداس رِہتا ہے
تُم تو غم دِے کے بھول جاتے ہو ہم کو اِحسان کا پاس رِہتا ہے
غلط ہو آپ کا وعدہ کبھی خدا نہ کرے مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی
نغموں کا بھرم ٹوٹا میخانے کا دَر چُھوٹا
جب ساز چھڑا کوئی آواز تیری آئی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
کسی حسین سے لپٹنا اَشد ضروری ہے حلال عید تو ہم دَم ثبوتِ عید نہیں
نہیں نبھا کی نیت تو باخبر کر دے بچت یہ ہے کہ محبت اَبھی شدید نہیں
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جان سے گذر جاؤں
اِس آس پہ زندہ ہے اَب تَک تیرا شیدائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
میری وہ ہے مثال کہ جیسے کوئی دَرخت دُنیا کو چھاؤں بخش کر خود دُھوپ میں جلے
ساجدؔ بنا رہا تھا خلاؤں میں اُس کی شکل پھر سوچنے لگا کہیں دُنیا نہ دِیکھ لے
اِلزام ہر ایک ہنس کے ہم نے سہا بیگانہ
ہونے نہ دی چاہت کی ہم نے کبھی رُسوائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
مُجھے تسلیم ہے تُو نے محبت مجھ سے کِی ہو گی زمانے نے مگر اِظہار کی معلت نہ دی ہو گی
میں اَپنے آپ کو سُلگا رَہا ہوں اِس توقع پر کبھی تو آگ بھڑکے گی کبھی تو روشنی ہو گی
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جان سے گذر جاؤں
ہوئی ختم جب سے وہ صحبتیں میرے مشغلے بھی بدل گے کبھی روئے شام کو بیٹھ کر کبھی میکدہ کو ٹہل گے
تیرا ہاتھ ہاتھ سے چُٹ گیا تو لکیریں ہاتھ کی مِٹ گئی جو لکھا ہوا تھا مِٹ گیا جو نصیب تھے وہ بدل گے
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جان سے گذر جاؤں
شالا تینوں نظر نہ لگے کدھرے بہڑیاں نظراں دِی پلکاں ہیٹھ لکہو کے رَکھ لئی سجناں میں تیری تصویر
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جان سے گذر جاؤں
اِس آس پہ زِندہ ہے اَب تَک تیرا شیدائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی
اِک دِل تے ہزار دلیلاں آونڑ تے دَس کہڑیاں کہڑیاں سوچاں
اِک وچوڑا میکوں تیں سوہنڑیں دَا تے دُوجا ساڑ مکایم لوکاں
ہجر فراق تیڈے وِچ ماہی میڈے دُکھاں نے لائیاں ہِن جوکاں
قسم خدا دِی میکوں تیں باجوں سارا لوک مریندا اَے ٹوکاں
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جاں سے گذر جاؤں
خبراً رَسیدے اِم شب کہ نگار خاہی آمد سرے من فدائی رائے کہ سوار خاہی آمد
ہما ہو آنے چہرا سرے خود نہادا برکت با اُمید آ کے رُوزے بشکار خاہی آمد
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جاں سے گذر جاؤں
دِیکھ ہوا وَفا دِی اِیتھے کہنا پہگیا مینوں
مینوں ہُنڑ کوئی یار نہ آکھے نہ میں یار کِسے دَا
پیون کولوں توبہ رَبا کردَاں پر تُو وی کر اِک وَعدہ
حال بُرا نہ میں جیا کرسی وِچ سنسار کِسے دَا
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جاں سے گذر جاؤں
اَپنٹریں اَپنٹریں نال نصیباں بھر لیندے سَب جولی
بھریا ہویا ڈُل جاندا اِے شو وِچ کار کِسے دَا
وِیکھ ہوا وَفا دِی اِیتھے کہنا پہ گیا مینوں
مینوں ہُن کوئی یار نہ آکھے نہ میں یار کِسے دَا
پین کولوں توبہ رَبا کردا تے تُو وی کر اِک وَعدہ
حال بُرا نہ میں جیا کرسی وِچ سَنسار کِسے دَا
تو آئے تُجھے دِیکھوں اور جان سے گذر جاؤں اِس آس پہ زِندہ ہے اَب تَک تیرا شیدائی
اُن کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی