میں 10 بجے اپنے فیملی کونسلنگ سنٹر پہنچی تو دیکھا کہ ویٹنگ ہال میں ایک 30-32 سالہ دراز قد، گوری رنگت والی، دبلی پتلی سی خاتون ملگجا سا برقعہ پہنے بیٹھی تھی۔ اس کے پیروں کے پاس چاول کا خالی تھیلا رکھا تھا، جس میں اس نے غالباً کچھ کپڑے ٹھونس رکھے تھے۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر میں سمجھ گئی کہ اس پر اس کے شوہر نے اس قدر ظلم ڈھایا ہو گا کہ اس کی جان کے لالے پڑ گئے ہوں گے اور وہ خود کو بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل گئی ہو گی۔
مجھے دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اشارے سے سلام کیا۔ میں بھی جواب میں سر کو خفیف سی جنبش دیتے ہوئے اپنے کیبن میں داخل ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنی اسسٹنٹ جوہی کو آواز دیتی وہ خود ہی اس خاتون کے رجسٹریشن فارم کے ساتھ کیبن میں داخل ہو گئی۔
’’تہنیت …. یہ رہا اس کا رجسٹریشن فارم۔ وہ بھوکی تھی، میں نے اسے ناشتہ کروا دیا ہے۔ آپ اس کے ساتھ سیشن شروع کر سکتی ہیں۔‘‘ جوہی نے فارم کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’جوہی! آج کل تم بہت اسمارٹ ہو گئی ہو۔‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی تو وہ ’’تھینک یو میڈم!‘‘ کہتی ہوئی باہر چلی گئی۔
میں فارم پر نظریں دوڑا ہی رہی تھی کہ وہ اپنا تھیلا سنبھالے ڈرتے جھجکتے میرے کیبن میں داخل ہو گئی۔ اس کے چہرے پر دہشت اور خوف کے آثار نمایاں تھے۔
’’بیٹھ جاؤ!‘‘ میں نے کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ وہ اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کو مسلسل دبا رہی تھی، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ شدید اضطرابی کیفیت سے دو چار ہے۔
’’میرا نام رفیعہ نوشین ہے۔ تم مجھ سے اپنا درد بانٹ سکتی ہو۔ میں نے اس کے ہاتھوں پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے۔
’’میڈم! میرے بچوں کی جان خطرے میں ہے۔ انہیں بچا لو میڈم! وہ درندہ ان کے ساتھ کچھ بھی کر سکتا ہے۔‘‘ اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ’’میں تمہارا درد سمجھ سکتی ہوں، کیونکہ میں خود ایک ماں ہوں۔ حوصلہ رکھو! خدا ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہم تمہارے بچوں کو خطرے سے باہر نکالنے کی پوری کوشش کریں گے، لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب تم ہمیں ساری تفصیل بتاؤ۔‘‘ میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا تھا، اور اسے دلاسہ دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
بعض خواتین اتنی مجبور و بے بس ہوتی ہیں کہ انہیں آنسو بہانے کے لیے کسی کا کاندھا تک نصیب نہیں ہوتا، اور جب انہیں کاندھا ملتا ہے تو پھر وہ اس کاندھے کے سہارے اپنے درد کا دریا بہا دیتی ہیں۔ کافی دیر تک رونے سسکنے کے بعد اس نے خود کو کچھ ہلکا محسوس کیا تو ٹشو پیپر سے چہرہ صاف کرتی ہوئی اپنی داستان کرب سنانے لگی۔
’’میری شادی کو 16 سال ہو گئے۔ میرے 4 بچے ہیں۔ بڑی بیٹی انیسہ 14 سال کی ہے، ایک 12 سالہ بیٹا ہے جو دماغی طور پر کمزور ہے، ٹھیک سے بول نہیں پاتا، ایک 7 سالہ بیٹی ہے جو تھیلیسیمیا سے متاثر ہے، اسے ہر مہینے میں دو مرتبہ خون چڑھانا پڑتا ہے، اور ایک چھوٹی بیٹی ہے جس کی عمر 5 سال ہے۔‘‘
’’کچھ ابارشنس بھی ہوئے تھے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔ یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جو خواتین کی جسمانی و ذہنی صحت کا پتہ دیتا ہے، ساتھ ہی اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور تناؤ کا مظہر بھی۔
’’ہاں تین حمل ساقط ہو گئے، ورنہ تو میرے 7 بچے ہوتے۔ اس نے جواب دیا۔‘‘
’’شوہر کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’بیوی بچوں پر ظلم کرنا ہی عبدل کا پیشہ ہے۔‘‘ اس نے میرے سوال کا جواب جس کڑواہٹ سے دیا تھا، میرا دل چاہ رہا تھا کہ اس کے فارم میں شوہر کے پیشہ کے خانے سے لفظ ’’ڈرائیور‘‘ ہٹا کر ’’ظالم‘‘ لکھ دوں۔
’’ہے تو ڈرائیور، لیکن دن رات نشے میں دھت رہتا ہے۔‘‘
’’کون سا نشہ کرتے ہیں؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’گٹکا، سگریٹ اور شراب کا عادی تو ہے ہی، ساتھ ہی عورت کے نشہ کی لت بھی ہے۔ اسے ہر روز ایک نئی عورت اور نیا جسم چاہیے۔‘‘ اس کے لہجہ میں کراہیت تھی۔
’’کیا تم اسے جسمانی طور پر مطمئن نہیں کر پاتی ہو؟‘‘ میں وجہ جاننا چاہ رہی تھی۔ ’’میڈم! میں نے اس کی جنسی تسکین کا ہمیشہ خیال رکھا۔ رات میں، دن میں، یہاں تک کے جن دنوں میں قربت سے منع کیا گیا ہے، ان دنوں میں بھی اس نے مجھے استعمال کیا۔ روزوں میں، ایام حیض میں، زچگی کے دنوں میں، اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی زبردستی خود کو اس کے حوالے کرتی رہی، کہ وہ بھٹک نہ جائے، اس کے باوجود عبدل کے ہوس کی بھوک نہیں مٹی، اور وہ زانی بن گیا۔‘‘ وہ پھر سے رونے لگی تو میں نے اسے رونے دیا۔ میں چاہتی تھی کہ اس کے سینے میں دہکتا ہوا سارا لاوا بہہ نکلے۔
’’جب بھی میں اس بات پر اعتراض کرتی تو اس کا جواب ہوتا، ہمیشہ گھر کے کھانے سے انسان اوب جاتا ہے۔ ذائقہ بدلنے کے لئے باہر کا رخ کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس میں کیا حرج ہے؟ اس کی یہ بد فعلی میرے لئے نا قابل برداشت تھی، اس کے باوجود اپنے بچوں کی خاطر خون کے گھونٹ پی کر میں یہ سب کچھ سہتی رہی۔ اس لیے کہ میں لا وارث ہوں۔ میرا کوئی نہیں ہے، جس سے میں کچھ کہہ سکوں، یا عبدل کے خلاف آواز اٹھا سکوں۔ انتہا تو تب ہوئی جب وہ غیر عورتوں کو گھر لانے لگا، یہ دیکھ کر میرا خون کھولنے لگا۔ بچّے مجھ سے سوال کرنے لگے کہ بابا دوسری عورتوں کو گھر کیوں لاتے ہیں؟ اور بند کمرے میں ان کے ساتھ کیا کرتے رہتے ہیں؟ بچوں کے سوالوں سے میں شرمندہ ہو جاتی اور ان سے نظریں ملا کر بات کرنا بھی میرے لئے دشوار ہو جاتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ بحالت مجبوری مجھے یہ کہنا پڑا کہ وہ بند کمرے میں عورتوں کا شیطان اتارتے ہیں، تبھی تو چیختی رہتی ہیں۔ اس شخص کی ان ذلیل حرکتوں سے میں دن رات کڑھتی رہتی۔ میرا دل، جگر سب چھلنی ہو گیا تھا۔ مجھے اس سے نفرت ہونے لگی۔ میں اس کا چہرہ بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔ گھر میں ہر طرف بدکاری کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ عجیب سی گھٹن کا احساس ہو رہا تھا۔ ایک دن اسی جھلاہٹ کی وجہ سے میں اس پر برس پڑی اور کہہ دیا کہ میں اب اس گھر میں کسی بھی غیر عورت کو داخل نہیں ہونے دوں گی۔ دونوں میں اس بات کو لے کر کافی ہنگامہ ہوا۔‘‘
’’یہ تم نے صحیح کیا۔ برائی کے خاتمے کے لئے آواز اٹھانا ضروری ہے۔‘‘ میں نے اسے سراہا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ کہانی دلچسپ موڑ لے چکی تھی، اور میں سب کچھ جاننا چاہتی تھی۔
’’کچھ دنوں تک تو عبدل خاموش رہا، لیکن پتہ نہیں کیوں اس کی خاموشی مجھے کسی طوفان کا اشارہ دے رہی تھی۔ میری بڑی بیٹی انیسہ اقامتی اسکول کی نویں جماعت کی طالبہ ہے۔ تعطیلات میں کبھی کبھار دو چار دنوں کے لئے گھر آ جاتی ہے۔ اس دن بھی وہ ایک ہفتہ کے لیے گھر آئی تھی۔ شام کے وقت دالان میں بیٹھی اپنی چھوٹی بہنوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ عبدل نشہ میں دھت دالان کے کونے میں بیٹھا بڑی عجیب سی نظروں سے انیسہ کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کی نظروں میں بسی شیطانیت کو بھانپ لیا۔ ایک خیال بجلی کی مانند میرے ذہن میں کوند گیا۔ میں کانپ اٹھی اور فوراً لڑکیوں کو کمرے کے اندر جانے کے لئے کہا۔ یہ دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہو گیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ تم نے لڑکیوں کو اندر کیوں بھیج دیا؟
ایک باپ کی آنکھوں میں اپنی اولاد کے لئے ہمیشہ شفقت ہوتی ہے، لیکن تمہاری آنکھوں میں تو مجھے ان کے لئے بھی ہوس ہی دکھائی دے رہی ہے۔ اس لیے میں نے انہیں اندر بھیج دیا۔‘‘ میں نے اسے صاف صاف بتا دیا۔
’’دیکھو تہنیت! گھر میں جب کچھ خاص چیز پکتی ہے تو سارا گھر اس کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے، اور بھوک کی اشتہا میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ میں اس گھر کا سرپرست ہوں، اس لحاظ سے گھر میں پکی ہوئی چیز کے پہلے نوالے کا حقدار تو میں ہی ہوا ناں؟‘‘
’’کیا کہا؟ … پہلا نوالہ…‘‘ اسی کے ساتھ تہنیت نے ایک زناٹے دار تھپڑ عبدل کے گال پر جڑ دیا۔
’’ذلیل… کتّے … کمینے بے شرم! تیرے ذہن میں یہ خیال آیا کیسے؟ اپنی بیٹی کے بارے میں ایسا کہتے ہوئے تو زمین میں دفن کیوں نہیں ہو گیا؟‘‘ میں دیوانہ وار چیخنے لگی۔ غصہ کے مارے میرا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا تھا۔
’’تو نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا۔ اپنے شوہر کو مارنے کی ہمت کیسے کی تو نے؟ اب تو اس گھر میں رہنے کے لائق نہیں۔‘‘ عبدل طیش میں آ گیا۔ اس نے تہنیت کو چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے، مارتے ہوئے گھر کے باہر دھکیل دیا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
’’کھولو… دروازہ کھولو…‘‘ میں زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی، لیکن جواب ندارد! میں نے بچوں کو آواز دی لیکن ان کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ شاید عبدل نے بچوں کو بھی ان کے کمرے میں بند کر دیا ہو۔ میں روتی ہوئی دروازہ کے پاس بیٹھی رہی کہ شاید کوئی پڑوسی میری اس حالت کو دیکھ کر مدد کے لیے آ جائے، لیکن کوئی نہیں آیا۔ سب عبدل کی شیطانی فطرت سے واقف تھے اور اس کے گھریلو معاملات میں دخل اندازی سے ڈرتے تھے۔ کچھ دیر بعد اس نے دروازہ کھولا اور یہ تھیلا میری جانب پھینک دیا جس میں کچھ کپڑے اور فون رکھا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ والے تھیلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں نے تھیلا اٹھایا اور انجانی ڈگر پر چل پڑی۔ کہاں جاتی؟ ایسا کوئی نہیں تھا جو مجھے سہارا دیتا۔ اس لئے میں درگاہ شریف چلی گئی، اور رات وہیں قیام کیا۔ دوسری صبح جب عبدل کا نشہ اترا تو اس نے مجھے فون کیا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ میں نے رات کہاں گزاری؟ لیکن میں اسے بتانا نہیں چاہتی تھی کہ میں کہاں ہوں۔ اگر بتا دیتی تو وہ آتا اور پھر مجھے جبراً اس جہنم میں لے جاتا جہاں جانے سے تو کنویں میں ڈوب مرنا بہتر تھا۔ دو دن بعد دوبارہ اس کا فون آیا، کہنے لگا ’’جو بھی ہوا بھول جاؤ اور گھر لوٹ آؤ، بچے تمہیں بہت یاد کر رہے ہیں۔‘‘
میں نے صاف انکار کر دیا، اور بتا دیا کہ اب میں دوبارہ کبھی اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی جہاں دن رات بد کاری ہوتی ہو۔ اس بات پر وہ چراغ پا ہو کر کہنے لگا ’’لگتا ہے تم نے اپنا ٹھکانہ کسی عاشق کے پاس بنا لیا ہے۔ اپنے بچوں کو بھی لے جانا اسی کے پاس۔‘‘ اور پھر اس نے غصہ سے فون کاٹ دیا۔
میں جانتی تھی کہ بچوں کو پالنا اس کے بس کی بات نہ تھی، نہ ہی بچے وہاں محفوظ تھے، لیکن میں مجبور تھی، خود میرا کوئی ٹھکانہ نہ تھا تو بچوں کو کہاں رکھ سکتی تھی؟ دل مسوس کر رہ گئ اور دعا کرنے لگی کہ اللہ پاک کوئی سبیل نکالے۔ دو دن بعد عبدل نے یہ ویڈیو مجھے بھیجا۔ اس نے فون میرے آگے رکھ کر ویڈیو چلا دیا۔ جس میں ایک 5 سال کی معصوم سی لڑکی کو ایک درندہ صفت انسان بے تحاشہ مار رہا تھا۔
’’یہ میرا شوہر عبدل ہے۔‘‘ اس نے مارنے والے انسان کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا۔
’’اور یہ میری چھوٹی بیٹی رئیسہ۔‘‘ تہنیت نے اس معصوم سے چہرے والی لڑکی کی جانب اشارہ کیا، جو زار و قطار روئے جا رہی تھی۔ اس کے گالوں پر مار کے نشان بھی نمایاں تھے۔
’’خود تو گھر چھوڑ کر چلی گئی سالی! اور ان پِلّوں کو میرے حوالے کر گئی۔ دیکھ! میں تیرے بچوں کی کیا درگت بنا رہا ہوں۔ یہ تو کچھ بھی نہیں، اگر تو واپس نہیں آئی تو ان کی چمڑی ادھیڑ دوں گا۔‘‘ عبدل سرخ آنکھوں اور زہریلے لہجے سے دھمکی دے رہا تھا۔
’’اُف اتنا ظلم! اور وہ بھی اس معصوم سی لڑکی پر جو کہ خود اس کی اولاد ہے؟‘‘ مجھے بہت تعجب ہو رہا تھا۔
’’اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد میں نے بھی اسے فون کر کے یہی کہا تھا کہ تم کیسے باپ ہو جو اپنی اولاد پر ایسا ظلم ڈھاتے ہو، کچھ تو شرم کرو۔‘‘ اس پر اس نے کہا تھا ’’میں تو ہوں ہی بد معاش، اگر تم کو اپنی اولاد کی پرواہ ہے تو تم آ کر انہیں لے جاؤ، یا پھر اپنا پتہ بتاؤ، میں انہیں تمہارے پاس لا کر چھوڑتا ہوں۔‘‘ ’’تم نے بچوں کو اپنے پاس کیوں نہیں بلایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میڈم! ابھی تو خود میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میں بچوں کو اپنے ساتھ کیسے رکھ سکتی ہوں؟ اس نے اپنی مجبوری ظاہر کی۔‘‘
’’تم نے کسی سے مدد کیوں نہیں مانگی؟‘‘
’’میں دن بھر درگاہ کے احاطہ میں حیران پریشان ماری ماری ادھر سے ادھر گھومتی رہتی، اور وہاں آنے والی خواتین سے اپنے مسائل بتاتی۔‘‘ یہ سوچ کر کہ شاید کہیں سے کوئی حل نکل آئے، لیکن مایوسی ہی ہاتھ آئی۔ دو دن بعد عبدل نے ایک اور ویڈیو بھیجا تھا۔ اس نے وہ ویڈیو بھی چلا کر میرے سامنے رکھ دیا تھا، جس میں عبدل تمام بچوں کو پیروں سے بری طرح مار مار کر گھر سے باہر نکال رہا تھا، اور بچے خوفزدہ حالت میں ایک دوسرے سے چپکے ہوئے روئے جا رہے تھے۔ عبدل اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا ’’تو گھر نہیں آئی نا اس لئے تیرے بچوں کو بھی گھر سے نکال رہا ہوں۔ وہ کہاں جائیں گے یا کہاں رہیں گے مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں، لیکن میں انہیں اور برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا تھا۔ اور پھر ویڈیو میں بچے ماں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’امّی! بابا نے ہمیں گھر سے نکال دیا ہے۔ وہ ہم پر بہت ظلم کر رہے ہیں۔ کل تو ہم نے انہیں چاقو بھی تیز کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہماری جان بہت خطرے میں ہے۔ کسی بھی طرح ہمیں یہاں سے لے جاؤ۔‘‘ وہ بلک بلک کر رو رہے تھے یہ دیکھ کر تو گویا میرے بھی رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
تہنیت نے دوبارہ کہنا شروع کیا۔ ’’ویڈیو دیکھ کر میں بہت رونے لگی۔ تبھی ایک خاتون میرے پاس آئی، مجھے دلاسہ دیا اور اس سنٹر کا پتہ دیا تو میں یہاں چلی آئی۔‘‘ اس کی درد بھری داستان یہاں تک پہنچ چکی تھی۔
’’اتنا سب کچھ ہو گیا اور تم نے پولیس کی مدد بھی نہ لی، آخر کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ عبدل نے مجھے دھمکی دی تھی کہ اگر میں نے اس کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی تو وہ ہم سب کا قتل کر دے گا، اور پولیس بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کیوں کہ بقول اس کے عبدل نے پولیس والوں کو بھی پہلا نوالہ کھلا کے پال رکھا ہے۔‘‘
’’تہنیت! ان گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے کی تمہیں بالکل بھی ضرورت نہیں۔ اب ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اطمینان رکھو! تم اور تمہارے بچوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘
’’لیکن کیسے؟‘‘ اس کے دماغ میں ڈھیر سارے سوال تھے، اور خوف کہ کہیں اسے یا اس کے بچوں کو کچھ ہو نہ جائے۔ ہم نے 1098 چائلڈ ہیلپ لائن کی مدد سے بچوں کو ان کے گھر سے رہا کروا کر محفوظ ہاسٹل میں پہنچا دیا گیا، اور تہنیت کو سرکاری ویمن ہوم میں داخل کروا دیا۔ عبدل پر کیس فائل ہو گیا۔ اب عدالتی کاروائی مکمل ہونے تک ماں اور بچے وہیں محفوظ رہیں گے، جہاں انہیں رکھا گیا ہے۔
سوالات
(1) کتنے بچے اور ان کے والدین چائلڈ ہیلپ لائن 1098 اور اس کی خدمات سے واقف ہیں؟
(2) سلم علاقوں میں سماجی مسائل پر شعور بیدار کرنا، اور ان مسائل کے حل میں ان کی مدد کرنا؛ یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ اور کیوں؟
(3) اس کیس اسٹڈی میں تہنیت کی مدد کے حوالے سے پڑوسی کس قسم کا کردار نبھا سکتے تھے؟
٭٭٭