کیا ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کے لیے عارضی رہائش گاہوں کی ضرورت نہیں، جہاں وہ کچھ دن سکون سے رہ کر تناؤ سے آزاد ہوں اور اپنے مستقبل کے بارے میں بہتر فیصلہ لے سکیں!
انیلا میرے سامنے والی کرسی پر براجمان تھی۔ گود میں 8 ماہ کا گول مٹول صحت مند بچہ تھا، جس کے گال پر کاجل کا بڑا سا ٹیکہ لگا ہوا تھا۔ میں نے جب اسے پچکارا تو وہ کھکھلا کر ہنسنے لگا۔ میں نے ٹیبل پر رکھے ٹافی باکس میں سے ایک ٹافی نکال کر اسے دی تو وہ ٹافی کے ریپر کو کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی ایک خاتون کیبن میں داخل ہوئی اور اس بچے کو اٹھا کر باہر لے جانے لگی۔
’’یہ……….؟‘‘
’’میری ماں ہے ……..‘‘ اس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتے ہوئے کہا۔
انیلا کی عمر 20۔ 22 سال ہو گی۔ پر کشش صورت اور گوری چٹی رنگت، لیکن اداس چہرہ۔
’’میڈم! کیا عورت ٹشو پیپر ہوتی ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتی، اس نے مجھ سے ہی سوال کر ڈالا۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
’’نہیں تو! عورت تو رحمت ہے۔ اللہ کے طرف سے نعمت ہے۔ دیکھو تمہارے قدموں تلے تو جنت ہے۔ تم ماں جو ہو۔‘‘
میں نے اسے دلاسہ دینا چاہا۔
’’اگر میں رحمت ہوتی تو وہ میری قدر کرتا۔ نعمت ہوتی تو شکر ادا کرتا۔ جنت تو خیر آخرت کی بات ہے، لیکن فی الحال اس نے میری زندگی جہنم بنا کر رکھ دی۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے بھی روکا نہیں اور لاوا بہتا رہا۔
’’پانی……۔‘‘جب اس کے دل کا سارا غبار نکل گیا تو میں نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
وہ دھیرے دھیرے پانی کے گھونٹ حلق سے نیچے اتارنے لگی اور پھر اس نے کہنا شروع کیا:
’’میری ماں نے 20 سال میں میری شادی ایک ایسے شخص سے کر دی جو شادی کے لائق ہی نہیں تھا۔ نتیجہ 6 ماہ کے بعد ہی اس نے مجھے طلاق دے دی۔ یہ میری شادی شدہ زندگی کا پہلا المیہ تھا۔ میں نے فیشن ڈیزائننگ کا کورس کیا تھا۔ طلاق کے بعد اپنے اخراجات کی بھر پائی کے لیے میں ایک بوٹیک میں ماہانہ دس ہزار تنخواہ پر ملازم ہو گئی۔ اسی بوٹیک میں وقاص نامی ٹیلر کام کرتا تھا۔ وہ مجھے پسند کرنے لگا نے۔ اس نے مجھ سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں تو ابھی پہلی شادی کے دھوکے سے نکل بھی نہیں پائی تھی اور نہ ہی ذہنی طور پر عقد ثانی کے لیے تیار تھی، اس کے باوجود اس نے میرے گھر پہنچ کر میری ماں کو منا لیا تھا۔
’’تم وقاص سے نکاح کیوں نہیں کر لیتیں؟‘‘ ایک دن شام کو بوٹیک سے گھر واپس لوٹتے ہی ماں نے سوال کیا۔
’’وہ تمہارے حالات سے واقف ہے۔ کنوارا ہوتے ہوئے طلاق شدہ لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے۔ اس سے اچھا رشتہ تمہیں کہاں ملے گا؟‘‘
ماں وقاص سے میرے نکاح کروانے کے لیے بضد تھیں۔ والد اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ میرے دو بھائی یومیہ مزدوری پر کام کرتے ہیں۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں، اس میں ان کا گزارہ ہی مشکل سے ہوتا ہے۔ وہ اپنی گھر گرہستی میں مصروف ہیں۔ ماں کو یہی فکر لاحق تھی کہ ان کے بعد میرا کیا ہو گا؟
میں انہیں مختلف وجوہات کا واسطہ دے کر انکار کرتی رہی۔ لیکن وہ اپنی تدابیر اور حکمت عملی سے مجھے وقاص سے نکاح کرنے کے لیے راضی کرنے میں کامیاب ہو ہی گئیں۔
میرا اور وقاص کا نکاح ہو گیا اور ہم دونوں پر مسرت زندگی گزار رہے تھے۔ شادی کے کچھ دنوں بعد میں حاملہ ہو گئی، جس سے ہماری خوشیوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ میری طبیعت میں کسل مندی رہنے لگی۔ الٹیاں بھی بہت ہو رہی تھیں تو وقاص نے مجھ سے ملازمت ترک کروا دی اور بھر پور آرام کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے بھی ان کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے ملازمت ترک کر دی تھی اور اپنی صحت پر توجہ مرکوز کرے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن بھی آ گیا جب میں نے اپنے بیٹے ابرار کو جنم دیا۔ مجھے لگا جیسے مجھے دنیا جہاں کی ساری خوشیاں مل گئی ہوں۔
لیکن یہ خوشیاں اس دن عارضی ثابت ہوئیں۔ جس دن وقاص نے یہ انکشاف کیا کہ اس نے دوسرا نکاح کر لیا ہے۔ مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وقاص ایسا بھی کر سکتا ہے۔ کیوں کہ میں نے وقاص کو وہ سب دیا تھا، جس کا وہ متمنی تھا۔ بے لوث محبت، خدمت، عزت، اور اولاد نرینہ۔ اس کے باوجود دوسرا نکاح کرنے کی وجہ، میری سمجھ سے بالا تر تھی۔
’’آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ میں نے اپنے سینے میں پرندے کی طرح پھڑپھڑاتے ہوئے اور دل پر قابو رکھتے ہوئے وقاص سے کہا۔
’’جھوٹ……؟ کیا ضرورت ہے، جھوٹ کہنے کی!‘‘
’’چلو میں تمہیں اس سے ملواتا ہوں۔‘‘ وقاص کا لہجہ پراعتماد تھا۔
میں نے ابرار کو ماں کے پاس چھوڑا اور ہم وقاص کی دوسری بیوی بدیلہ سے ملنے کے لیے نکل پڑے۔
وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گیا، جو ہمارے گھر سے بہت اچھا تھا، بالکل امیروں کے گھر کی طرح۔
بدیلہ سانولی سلونی، دبلی پتلی میری ہم عمر خاتون تھی۔ جب وقاص نے اس سے میرا تعارف کروایا تو وہ آگ بگولہ ہو گئی۔
’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسے میرے گھر میں لانے کی؟‘‘
اس ڈائن نے تو تمہیں مجھ سے چھین لیا تھا۔ اب کیا ہڑپنے آئی ہے؟‘‘
وہ چیخنے لگی اور میں حیرانی سے اس کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم دونوں میں خوب بحث و تکرار ہوئی۔ گالی گلوچ ہوئی۔ بد دعاؤں کا تبادلہ ہوا۔ اس کے بعد جو حقیقت مجھ پر عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ ’’وقاص کا مجھ سے عقد ثانی تھا۔ اس نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا کہ وہ کنوارہ ہے۔ بدیلہ اس کی پہلی بیوی ہے۔ اس نے کہہ دیا کہ میں وقاص سے خلع لے کر اسے آزاد کر دوں۔‘‘
’’اور وقاص؟ وہ کیا چاہتا تھا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ ’’وہ کیا چاہے گا میڈم! ٹشو پیپر تو میں تھی نا۔ جس طرح ٹشو میں کوڑا لپیٹ کر پھینکا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح میرے بچے کو میرے آنچل میں لپیٹ کر وہ مجھے سر راہ چھوڑنا چاہتا ہے۔ ہم سے دست برداری حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘
وہ دوبارہ جذباتی ہو گئی تھی اور آنکھیں پھر سے اشک بار ہو گئیں!
اس نے ٹشو پیپر کا لفظ اس طرح استعمال کیا تھا کہ مجھے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے ٹشو پیپر دیتے ہوئے بھی جھرجھری سے محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے اپنا پرس کھول کر رو مال نکالا اور اسی سے اپنے آنسو خشک کرنے لگی۔
’’چائے پیو گی؟‘‘ میں نے رخ بدلنا چاہا۔
’’نہیں ! اب تو بس زہر پینے کا من کرتا ہے۔‘‘ اس کا لہجہ بڑا تلخ تھا۔
’’میں نے وقاص سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی تھی کہ دھوکہ دینے کے باوجود میں نے اسے معاف کر دیا۔ تاکہ وہ دونوں بیویوں کو اپنے ساتھ رکھے اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔ بدیلہ تو لا ولد ہے۔ لیکن میرے پاس تو پیارا سا بیٹا ہے، جس کی کفالت اس کی ذمہ داری ہے۔ اسے اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ لیکن اس کا فیصلہ اٹل تھا کہ اسے مجھ سے خلع ہی لینا ہے۔
لاک ڈاؤن کے جس دور میں مردوں کے لیے کفن میسر نہیں ہو رہا تھا۔ لوگ نئے کپڑے کیا خریدتے، لہٰذا وقاص کا کام بند ہو چکا تھا۔ بدیلہ چونکہ مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی ہے، کپڑوں کی تجارت بھی کرتی ہے، لہٰذا وقاص اس کے پیسوں پر راج کر رہا ہے۔
’’اب آگے کے لیے کچھ سوچا تم نے؟‘‘
میں جاننا چاہتی تھی کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟
میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود شادی کے لیے اس نے مجھے مجبور کیا تھا۔ اس کے باوجود اسے اگر میرا ساتھ منظور نہیں تو وہ مجھے طلاق دے اوربچہ کا نان نفقہ بھی۔ میں اسے خلع نہیں دوں گی۔ مجھے اپنا اور اپنے بچے کا حق چاہیے۔ اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ میں نے اس کی ہمت بندھائی کہ اس کا فیصلہ بالکل صحیح ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس سلسلے میں اس کی مدد کر سکیں۔
اسی دوران اس کی ماں ابرار کے ساتھ واپس آ گئی تھی۔
’’میڈم سن لی نا آپ نے اس کی کہانی۔‘‘ ماں کے لہجے میں درد تھا۔
’’میں تو بیوہ ہوں۔ خدا نے مجھ سے میرا شوہر چھین لیا۔ لیکن کم از کم میری بیٹی کو تو اس خوشی سے محروم نہ کرتا۔ شاید اس کی قسمت میں شوہر کا سکھ ہی نہیں لکھا۔ اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔
ایسا نہ کہیں، مایوسی کفر ہے۔ اللہ کی مصلحت وہی جانے۔ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے خدا کے پاس آپ کی بیٹی کے لیے کوئی بہترین متبادل ہو گا جس سے ہم ابھی بے خبر ہیں۔‘‘
میں نے انہیں تسلی دے کر گھر بھیج دیا۔
دو دن بعد وقاص کو فون کر کے جب میں نے اسے کونسلنگ سینٹر آنے کی دعوت دی تو اس نے صاف انکار کر دیا۔ وہ ہماری تنظیم سے خوفزدہ تھا۔ اس نے کہا کہ وہ اس بات کا فیصلہ شرعی نظام کے مطابق کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لیے وہ مذہبی ادارہ (نام مخفی) کو جائے گا اور وہیں اس سے اس مسئلہ کا حل نکالا جائے گا۔
میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ہماری تنظیم بھی شرعی قوانین کے مطابق ہی مصالحت کرواتی ہے۔ وہ ایک مرتبہ آ کر ہم سے مل تولے۔ لیکن وہ اس بات کے لیے ہر گز راضی نہیں تھا۔
انیلا مذہبی ادارہ جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہ بار بار مجھ سے یہی کہہ رہی تھی کہ ’’وہاں خواتین کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ انہیں ٹھیک سے سنا نہیں جاتا اور فیصلے مرد وں کے حق میں ہوتے ہیں۔‘‘
مجھے اس کی باتوں پر بڑا تعجب ہوا۔
’’تم یہ بات کس بنیاد یہ بات پر کہہ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھ ہی لیا۔
’’میرے پڑوس میں ایک لڑکی ہے۔ اس کا شوہر بھی اسے جبراً خلع کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ جب کہ وہ اپنے شوہر کو خلع نہیں دینا چاہتی تھی۔ اسے بھی اسی ادارہ میں بلایا گیا تھا۔ جب وہ واپس آئی تو خلع ہو چکا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہاں اسے ڈرا دھمکا کر خلع کے کاغذات پر جبراً دستخط کروائے گئے۔ جب اس کے ساتھ ایسا ہوا تو اس بات کا کیا یقین ہے کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہو گا؟
مذہبی ادارہ کے متعلق اس کے نظریہ کا پس منظر میں جان گئی تھی۔ میں نے کہا: ’’تم وہاں جاؤ اور اپنے موقف پر قائم رہو۔ تمہیں اپنی مرضی سے فیصلہ لینے کا حق ہے۔ کوئی تمہیں زبردستی خلع لینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘
دو چار دن بعد وہ دوبارہ میرے سامنے موجود تھی۔
’’میڈم! اس ادارے میں ویسا ہی ہوا، جیسا میں نے سنا تھا۔ انہوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھ سے ہی خلع لینے کو کہتے رہے اور میں انکار کر کے لوٹ آئی۔‘‘
میں نے دوبارہ وقاص سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے یہ کہہ کر فون کاٹ دیا کہ ’’اگر انیلا کو مذہبی ادارہ کا فیصلہ منظور نہیں تو، اس کی مرضی۔ وہ چاہے تو عدالت میں مقدمہ دائر کرے۔ جو کرنا ہے کرے لیکن مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔ آئندہ سے مجھے فون نہ کریں !‘‘
میں نے انیلا سے کہا کہ ’’اب ایک ہی صورت ہے کہ تمہارے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر دیں۔ ہمارے پاس مفت وکیل کی خدمات فراہم ہیں۔ پیسوں کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں اپنا اور اپنے بچے کے نان نفقہ کے لیے لڑنا چاہیے۔ ‘‘
’’فیصلہ ہونے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کم از کم دو سال یا پھر اس سے زیادہ!‘‘
’’دو سال! تب تک میرا گزارہ کیسے ہو گا؟‘‘
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’اللہ پر بھروسہ رکھو۔ کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آئے گی۔‘‘ میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔
’’انیلا تمہاری کیس شیٹ تیار ہو گئی ہے۔ تمہارے دستخط ہو جائیں تو ہم کیس فائل کر دیں گے۔‘‘ میں نے انیلا کو فون پر اطلاع دی۔
’’نہیں میڈم! مجھے کوئی کیس نہیں لڑنا ہے۔ مانا کہ آپ مفت وکیل کی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن عدالت کے چکر کاٹنے کے لیے بھی تو سواری خرچ چاہیے۔ میں تنہا معصوم بچے کو لے کر بھی نہیں جا سکتی۔ ماں کو بار بار ساتھ لے جاؤں تو کام کا ناغہ ہو گا، جس سے ان کی ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان کی تنخواہ پر تو ہمارا گزارہ ہے۔ میں نے خود کو حالات کے حوالے کر دیا ہے۔ جو ہو گا دیکھا جائے گا۔‘‘
انیلا نے ہار مان لی تھی!
سوالات
1۔ وقاص نے نکاح نامے میں عقد ثانی کی جگہ عقد اولیٰ لکھا۔ انیلا کو دھوکہ دیا اس کے لیے کون ذمہ دار؟
2۔ اسلام ایک سے زائد نکاح کی اجازت دیتا ہے، عدل کی شرط کے ساتھ، جس کے لیے بھی انیلا تیار تھی، جب وقاص نے اپنی پسند سے دونوں شادیاں کیں تو پھر دوسری بیوی کے ساتھ یہ نازیبا سلوک کیوں؟
3۔ جب اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے تو وقاص انیلا کو طلاق دے سکتا تھا۔ انیلا سے جبراً خلع کی مانگ کرنا کیا درست ہے؟
4۔ انیلا ایک فیشن ڈیزائنر ہے۔ جو اپنے ہنر کے ذریعہ اپنی کفالت کر سکتی ہے۔ لیکن اب اس کے کاندھوں پر اپنے 8 ماہ کے بیٹے کی ذمہ داری بھی ہے۔ انیلا کی ماں بھی گھروں میں جھاڑو لگانے اور برتن دھونے کا کام کرتی ہے۔ وہ بھی اپنے نواسے کو نہیں سنبھال سکتی۔ اس لیے بچہ دو ڈھائی سال کا ہونے تک انیلا کہیں بھی ملازمت نہیں کر سکتی۔ ان حالات میں اس کا گزارہ کیسے ہو گا؟
4۔ مذہبی ادارے نے جس بات کے لیے انیلا کو مجبور کیا، کیا وہ صحیح ہے؟
5۔ حکومت کی جانب سے ایسی مصیبت زدہ خواتین کے لیے شیلٹر ہومز ہیں، جہاں خواتین کو رکھا جاتا ہے۔ لیکن وہاں گدھے گھوڑے سب کو ایک ہی چابک سے ہانکا جاتا ہے۔ یعنی وہاں رہنے والی خواتین کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، انہیں سوریہ نمسکار کرنا ہی ہے۔ کھانے سے پہلے وہی منتر پڑھنا ہے، جو انہیں پڑھایا جاتا ہے۔ حرام حلال کی تمیز کے بغیر جو غذا فراہم کی جا تی ہے، وہ کھائیں ہا پھر بھوکے رہیں۔
اسی طرح کے دیگر غیر اسلامی امور کو Uniformity کے نام پر انجام دینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ کیا ایسے ماحول میں مسلم خواتین کا رہنا مناسب ہے؟
٭٭٭
ماخذ:
https://haadiya.in/category/%DA%A9%DB%8C%D8%B3-%D8%A7%D8%B3%D9%B9%DA%88%DB%8C
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید