اس نے بائیں ہاتھ سے اپنے پیٹ کو پکڑ رکھا تھا، دھیرے دھیرے چلتے ہوئے وہ میرے کیبن میں داخل ہوئی۔
’’السلام علیکم!‘‘ اس نے سیدھا ہاتھ اٹھا کر مجھے سلام کیا۔
’’وعلیکم السلام‘‘
’’بیٹھ جاؤ!‘‘ میں نے کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ فوراً بیٹھ گئی اور اپنی سانسیں درست کرنے لگی۔ اس کے ساتھ اس کی ماں بھی تھی۔ اس نے بھی سلام کیا اور وہ بھی کرسی پر بیٹھ گئی، اور میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اس نے کہنا شروع کر دیا۔
’’میڈم! میری بیٹی حاملہ ہے۔ اس کا چھٹا مہینہ چل رہا ہے، اور اس کی ساس ہسپتال کی فائل ہمیں دینے سے انکار کر رہی ہے۔‘‘
’’بڑی عجیب بات ہے۔ بہو کے علاج کی فائل سے ساس کو بھلا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ جو وہ فائل نہیں دے رہی ہے۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’فائدہ کی کوئی بات نہیں، انھیں تو میری ماں سے بدلہ لینا ہے۔‘‘ زینت غصہ سے بول پڑی۔
’’بدلہ؟ کس بات کا بدلہ؟‘‘
’’در اصل شروع سے ہی میری ساس کی ضد تھی کہ میرا علاج اور ڈیلیوری کسی بڑے نامی گرامی پرائیویٹ ہسپتال میں ہو۔ سرکاری ہسپتال میں نہیں۔‘‘ زینت نے وجہ بتائی۔
’’ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ ابھی تک ہم شادی کا قرض ہی ادا نہیں کر پائے تھے کہ زچگی کا خرچ آن پڑا، کیسے اور کہاں سے ہو گا یہ سب؟ یہی سوچ کر حسب استطاعت میں زینت کا علاج سرکاری ہسپتال میں کرواتی رہی۔ اس کی ساس کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ فی الحال تو علاج یہاں ہونے دیں۔ زچگی کے وقت دیکھا جائے گا۔‘‘ زینت کی والدہ کی آواز میں مجبوری جھلک رہی تھی۔
’’جب تم اپنی میکے جا رہی تھیں اس وقت فائل نہیں لے گئیں تھیں؟‘‘ میں نے زینت سے پوچھا۔
’’گود بھرائی کی رسم کے بعد جب میں زینت کو اپنے گھر لا رہی تھی، تب زینت اپنی فائل ڈھونڈنے لگی تو فائل مل ہی نہیں رہی تھی۔ رات زیادہ ہو رہی تھی تو زینت کی ساس نے کہا کہ تم اب جاؤ میں کل ڈھونڈ کر بھیج دوں گی، اور ہماری غلطی بس اتنی تھی کہ ہم نے ان کی بات پر بھروسہ کر لیا۔‘‘ زینت کی والدہ کو اس بات کا بہت افسوس تھا۔
’’دوسرے دن فون کیا تو وہ مجھ سے جھگڑنے لگیں کہ ان کے منع کرنے کے باوجود ہم نے زینت کا علاج اب تک سرکاری ہسپتال میں کروایا اور ڈیلیوری کا کارڈ بھی وہیں کا بنوایا۔‘‘
’’میں نے انھیں اپنے حالات بتانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ نہ کچھ سننا چاہتی تھیں نہ ہی سمجھنا۔ انھوں نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔‘‘
’’زینت! اس بارے میں تم نے اپنے شوہر سے بات کی تھی؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’ہاں! کئی مرتبہ میں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی، وہ ہر وقت یہی کہتے کہ ہمارا پہلا بچہ ہے، اس لیے میرا علاج بڑے پرائیوٹ ہسپتال میں ہی ہونا چاہیے۔ سرکاری ہسپتالوں میں تو بہت لاپرواہی ہوتی ہے۔ ان ہسپتالوں سے بچوں کے چوری ہونے اور بچوں کی تبدیلی کے بھی کئی واقعات سننے میں آتے ہیں۔‘‘
’’حادثے کبھی کبھار ہوتے ہیں۔ ہمیشہ اور ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتے۔‘‘
’’ہاں! وہ یہ بات مانے تب ناں!‘‘
’’بتاؤ ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
’’میڈم! کسی بھی طرح سے ہمیں وہ ہسپتال کی فائل دلوا دو، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘ زینت کی ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔
میں نے زینت کے شوہر رفیق کو فون ملایا۔
’’کون ہے؟‘‘ لہجہ بڑا تلخ تھا۔
میں نے اپنا تعارف پیش کر کے اس سے گزارش کی کہ اسے اپنی بیوی کی فائل دے دینی چاہیے، تاکہ اس کا علاج ہو سکے۔
’’آپ نہ تو ہماری رشتہ دار، نہ جان نہ پہچان، نہ ہی ہماری شادی میں شریک تھیں، تو پھر آپ ہمارے نجی معاملہ میں دخل دینے والی ہوتی کون ہیں؟‘‘ وہ جہالت پر اتر آیا تھا۔
’’کسی خاتون کے اپنے ہی اگر اس کا حق تلف کرتے ہیں تو پھر اس کے حقوق کے حصول یابی کے لیے غیروں کو میدان میں اترنا پڑتا ہے۔‘‘ میں نے بھی تلخی سے جواب دیا۔
’’ہاں ہاں سمجھ گیا۔ آپ لوگ این جی او والی ہو ناں، اس لیے ہمیشہ حق کی بات کرتی رہتی ہو، وہ بھی صرف عورتوں کے حقوق کی۔ مرد تو بے چارہ لگتا ہے کہ نا حق ہی پیدا ہوا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، آپ حق کی بات کر رہی ہو ناں تو یوں ہی سہی، چلیے یہ تو بتائیے کہ کون ساحق کھا لیا میں نے زینت کا؟ ویسے بھی میں اس کا شوہر ہوں اور وہ میری بیوی۔ یہ ہم دونوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ آپ کو ہمارے بیچ میں دخل اندازی کا حق کس نے دیا؟‘‘ وہ بے جا بحث کرنے لگا۔
’’کتنی بار بتانا پڑے گا کہ میں کون ہوں؟ اور حدیث بھی تو ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ اس طرح تو میں زینت کی بہن ہوئی، اور اسی ناتے سے میں تم سے بات کر رہی ہوں۔ یہ اس کی صحت اور تم دونوں کی اولاد کا معاملہ ہے، سمجھے؟ زینت کی فائل اس کے گھر پہنچا دینا۔ اسے کل ہسپتال جانا ہے۔ اس کا چیک اپ ہے، اور ٹیکہ بھی لگوانا ہے۔‘‘ میں نے زور دے کر کہا۔
’’ٹھیک ہے، ان شاء اللہ۔‘‘ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
’’زینت! اب اطمینان سے گھر جاؤ، شام یا پھر کل صبح تک رفیق تمہارے گھر پر فائل پہنچا دے گا۔‘‘ میں نے زینت کو دلاسہ دیا۔
’’کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ لا کر دے گا؟ اور اگر نہیں لایا تو؟‘‘ اس کا انداز غیر یقینی تھا۔
’’یقین تو نہیں، امید ضرور ہے، اور اگر نہیں لایا تو ہمارے پاس پلان بی ہے۔‘‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’پلان بی؟‘‘ اس نے استفہامیہ نظروں سے میری جانب دیکھا۔
’’وہ تو کل ہی پتہ چلے گا۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ماں اور بیٹی دونوں واپس چلی گئیں۔
دوسرے دن صبح 11 بجے زینت کا فون آیا کہ فائل اس تک نہیں پہنچی۔ اس کا ڈر سچ ثابت ہوا۔ میں نے رفیق کو فون لگایا تو پتہ چلا کہ اس نے مجھے بلاک کر دیا ہے۔ مختلف فونس کے ذریعہ کالز کی گئیں۔ کوئی جواب نہیں ملا۔ شاید اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ انجانے نمبر کی کوئی بھی کال ریسیو نہیں کرے گا۔ ہمارا خدشہ جو لگا ہوا تھا۔ اب ہمیں پلان بی پر عمل کرنا تھا۔
پلان کے مطابق ایک گھنٹہ بعد انجم (اس علاقے کی آشا ورکر) زینت کے سسرال پہنچ گئی۔ اس نے اپنا تعارف پیش کر کے کہا کہ زینت کا علاج ان کے ہیلتھ سنٹر پر ہو رہا ہے۔ آج اس کو چیک اپ کے بعد ٹیکہ لگانا تھا، لیکن اس کے پاس میڈیکل فائل ہی نہیں تھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ آپ کے پاس ہے۔ ڈاکٹر نے وہ فائل منگوائی ہے۔ آپ براہ مہر بانی وہ فائل میرے حوالے کر دیں۔
زینت کی ساس نے فائل انجم کو دینے سے صاف انکار کر دیا۔ کہنے لگیں: ’’اپنی ڈاکٹر سے کہنا کہ زینت کی ڈیلیوری پرائیویٹ ہسپتال میں کروانا ہے۔ ان کے پاس نہیں۔ اس لیے اب انھیں اس فائل کی کوئی ضرورت نہیں پڑنے والی۔‘‘ اس نے نہایت بے رخی سے کہا۔
’’کیا آپ اپنی بہو کے والدین کی مالی حالت سے واقف نہیں؟ وہ لوگ غریب ہیں، پرائیویٹ ہسپتال میں ڈیلیوری نہیں کروا سکتے۔ آپ ان کے بارے میں بھی تو کچھ خیال کریں۔‘‘ انجم نے انھیں احساس دلانا چاہا۔
’’ان سے زیادہ تو مجھے تم پریشان لگ رہی ہو۔ یہ سب چھوڑو اور اپنا کام سنبھالو۔ ان لوگوں کو ہم سنبھال لیں گے۔‘‘ ساس نے گردن اکڑا کر جواب دیا اور انجم کو وہاں سے خالی ہاتھ لوٹا دیا۔
’’میڈم! انجم رپورٹنگ، پلان بی ناکام ہو گیا۔‘‘ انجم نے فون پر بتایا۔ میں نے انجم سے بات کر کے فون رکھا ہی تھا کہ زینت کا فون آ گیا۔
’’میڈم! کیا میری فائل نہیں ملے گی؟ فائل نہیں ہونے کی وجہ سے مجھے ٹیکہ بھی نہیں دیا گیا۔‘‘ زینت مایوس ہو گئی تھی۔
’’مایوس مت ہو زینت! میں کچھ اور سوچتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے دلاسہ دیا۔
’’میڈم! ہم بہت امید لے کر آپ کے پاس آئے تھے۔ میری پھوپھی زاد کا مسئلہ بھی آپ ہی نے سلجھایا تھا۔ اسی نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا تھا۔‘‘ اپنے مقصد میں کامیابی ملتی نظر نہیں آتی تو پھر لوگ حوالے دینا شروع کر دیتے ہیں، انھیں لگتا ہے کہ حوالہ سے کام ضرور بن جائے گا۔
’’دعا کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو، تم حق پر ہو تو جیت یقیناً تمہاری ہی ہو گی۔‘‘ اس کے ساتھ ہی میں نے فون رکھ دیا، اور اپنے میز کی دراز سے کرین بیریز کا ڈبہ نکالا اور انہیں کھاتے ہوئے پلان سی کے بارے میں سوچنے لگی۔
اس بار میں نے زینت کی ساس کو فون لگایا۔ اس نے فون اٹھایا تو تمہیدی گفتگو کے بعد میں نے کہا: ’’آپ نے ڈیلیوری کے لیے زینت کو اس کی والدہ کے پاس کیوں بھیجا؟ آپ اسے اپنے گھر میں رکھ کر اپنی پسند کے ہسپتال میں علاج کروا لیتیں تو بہتر تھا۔‘‘ میری بات سن کر وہ چراغ پا ہو گئیں اور کہنے لگیں: ’’لڑکی کی پہلی ڈیلیوری کی ذمہ داری اس کے والدین کی ہے تو میں بھلا اسے اپنے پاس کیونکر رکھتی؟‘‘
’’آپ سے یہ کس نے کہا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کسی کے کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو صدیوں سے چلتا ہوا رواج ہے۔ میری ماں نے میری ڈیلیوری کی تھی، میں نے اپنے بیٹیوں کی ڈیلیوری کی، خاندان، رشتہ دار سب کے پاس ایسا ہی تو ہوتا ہے۔‘‘ اس نے عمومی نظریہ پیش کیا۔
’’میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میری بہو بھی ڈیلیوری کے لیے اپنے والدین کے گھر چلی گئی تھی، اس لیے کہ ڈیلیوری کے دوران بہو کی خدمت کرنا ساس پر فرض نہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی طرف سے مجھے کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچے، لیکن حاملہ ہونے کے بعد پہلے مہینے سے ڈیلیوری تک میرا بیٹا ہی اپنی بیوی کو چیک اپ کے لیے ہسپتال لے جاتا تھا، اور ڈیلیوری کا سارا خرچ بھی اسی نے اٹھایا، کیونکہ شریعت کے مطابق لڑکی کی ڈیلیوری و دیگر اخراجات کی ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے، نا کہ اس کے والدین پر۔‘‘
’’اچھا! آپ کی بات چھوڑیے، آپ کے بیٹے واحد ہیں جنھوں نے ایسا کیا، ہر کوئی تو نہیں کرتا ناں، اور پھر والدین تو بیٹی پر خرچ کرتے ہی ہیں۔ اس میں غلط کیا ہے؟‘‘ اسے میری بات ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی۔
’’پہلی ڈیلیوری کو لڑکی کے والدین کی ذمہ داری سمجھنا اور ان پر مالی بوجھ ڈالنا یہ نہ صرف غلط ہے بلکہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔‘‘ میں نے اسے قائل کرنے کی ایک اور کوشش کی۔
’’ٹھیک ہے، ابھی تو میرا بیٹا گھر پر نہیں ہے۔ وہ آئے گا تو میں اس سے بات کرتی ہوں۔ خدا حافظ!‘‘
’’ایک بات دھیان سے سن لیں! اور اپنے بیٹے کو بھی بتا دیں۔ کل تک اگر زینت کی میڈیکل فائل اس تک نہیں پہنچی تو پھر مجھے قانونی کار روائی کرنی پڑے گی۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ فون رکھتی، میں نے اسے آگاہ کیا۔
’’آپ قانون کو بیچ میں کیوں لا رہی ہیں؟‘‘ پولیس کا نام سن کر وہ گھبرا گئی تھی۔
’’اب کیا کریں؟ میں تو ایسا بالکل بھی نہیں چاہتی۔ آپ لوگ ہی فائل نہیں دے کر مجھے پولیس کی مدد لینے پر مجبور کر رہے ہیں۔‘‘
’’آپ ایسا کچھ مت کریں۔ رفیق کے گھر آتے ہی میں فائل بھیج دیتی ہوں۔‘‘ اس نے دبے دبے لہجہ میں کہا، اور فون رکھ دیا۔
رات کے گیارہ بجے زینت کا میسیج آیا۔
’’میڈم! آپ کا بہت بہت شکریہ، میری فائل مجھے مل گئی۔‘‘ اس کی آواز سے اس کی خوشی ظاہر ہو رہی تھی۔‘‘
’’الحمد للہ! اطمینان رکھو! ہمارے پاس پورے دو ماہ کا وقت ہے۔ دو ماہ کے عرصہ میں ہم لوگ تمہارے شوہر کی ذہن سازی کریں گے۔ اسے دین سے جوڑ کر شوہر کے حقوق و فرائض کے بارے میں تربیت دیں گے، تاکہ تمھاری ڈیلیوری کا خرچ بھی تمہارا شوہر ہی ادا کرے۔ ان شاء اللہ!‘‘
’’سچ میڈم! کیا ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟ یہی ہونا بھی چاہیے۔ تم دعا کرو، میں کوشش کرتی ہوں۔ کامیابی اللہ کے ہاتھ ہے۔‘‘
’’ضرور میڈم! میں دعا کروں گی، اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ کو مٹھائی بھی کھلاؤں گی۔‘‘ وہ خوشی سے باؤلی ہو رہی تھی۔
’’ان شاء اللہ! اپنا خیال رکھنا! اللہ حافظ!‘‘
سوالات
(1) کیا قدیم رسم و رواج کو اپنانا ضروری ہے؟
(2) ظلم و تشدد اور نا انصافی کو فروغ دینے والی ایسی روایتوں کو ختم کرنے میں سب سے زیادہ مؤثر کردار کون ادا کر سکتا ہے؟ اور کیسے؟
(3) کالجز اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے ساتھ قدیم روایات اور ان سے ہونے والے فائدے / نقصانات پر مذاکرے کرنا کہاں تک ممکن ہے؟ اگر ہاں تو کیسے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
٭٭٭