میں اپنے کاؤنسلنگ آفس میں بیٹھی اخبار کا مطالعہ کر رہی تھی کہ ایک 19 سالہ لڑکی میرے کیبن میں داخل ہوئی۔ ’’رملہ…‘‘ اس نے رجسٹریشن فارم میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’بیٹھ جاؤ!‘‘ میں نے کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ بیٹھ گئی۔ وہ بہت پریشان اور الجھی الجھی سی لگ رہی تھی۔ میں اس کی نجی تفصیلات جاننے کے لیے رجسٹریشن فارم کا مطالعہ کرنے لگی۔
’’میڈم! جب خدا اپنے بندوں کو معاف کر سکتا ہے تو بندے ایک دوسرے کو معاف کیوں نہیں کر تے؟‘‘ اس نے بغیر کسی تمہید کے سوال کر دیا تھا۔
’’ہمارے مذہب میں غلطیوں کی معافی مانگنا اور دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دینا بہت اچھا عمل سمجھا جاتا ہے، اسی لیے قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’اللّٰہﷻ معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
لیکن ہمارے معاشرے میں عوام نے معافی مانگنا اور معاف کرنا دونوں کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے، اس لیے معاف نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ میں نے توقف کیا ہی تھا کہ وہ بول پڑی: ’’میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ میری شادی کو صرف چار ماہ ہوئے۔ شادی کے دوسرے دن سے ہی میری ساس نے یہ امید لگا رکھی تھی کہ میں ان کا پورا گھر سنبھال لوں گی۔ تین وقت گرما گرم کھانا پکا کر دسترخوان پر چن دوں گی۔ گول گول چاند جیسی روٹیاں پکاؤں گی۔ مہمانوں کا استقبال اور میزبانی کروں گی۔ ساس سسر کی خدمت کروں گی، ان کے پیر دباؤں گی، انھیں تین وقت کی دوائیں دوں گی وغیرہ وغیرہ، جب کہ میں تو ابھی اپنا گھر چھوٹنے کا غم بھی بھلا نہیں پائی تھی۔ میں تو سسرالی رشتہ دار اور ان کے مزاجوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی، خود کو ان کے ماحول میں ڈھالنے کی سعی کر رہی تھی، لیکن میرے سسرال والے مجھے اس کا موقع ہی دینا نہیں چاہتے تھے۔ وہ پہلے تو میرے ہر کام میں نقص نکالتے پھر اس بات کے لیے میرے والدین کو مورد الزام ٹھہرا کر ان کی تربیت پر سوال کھڑے کرتے۔ ان کا یہ سلوک اور رویہ میرے لیے بہت ہی تکلیف دہ تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے آنسو بہنے لگے۔
’’تمھارے شوہر کا رویہ کیسا تھا؟‘‘ میں نے جاننا چاہا۔
’’وہ اپنے والدین کے فرمانبردار بیٹے ہیں، اس لیے میرے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر چپ رہنا ان کا شیوہ تھا، اور ہمیشہ مجھ سے یہی کہتے کہ میں اپنے والدین کے خلاف ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ کبھی کبھی انسان کسی ایک رشتے کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے کہ دوسرے رشتے ریت کی طرح مٹھی سے پھسلنے لگتے ہیں۔‘‘
’’کیا تم نے اس بارے میں اپنے والدین کو بتایا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’نہیں، شادی کے فوراً بعد میں اپنے مسائل انھیں بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے اپنی خاص سہیلی روبینہ سے اس معاملہ میں مشورہ کیا۔‘‘
’’کیا مشورہ دیا اس نے؟‘‘ میرا تجسس جاگا۔
’’اس نے مجھے مشورہ دیا کہ تمھاری ساس کو بہو سے زیادہ ایک ایسی ملازمہ کی ضرورت تھی جو مفت میں سارے گھر کا کام کرے اور ان کی خدمت بھی، جو کہ تم کر رہی ہو۔ اس کے باوجود ان کا روکنا ٹوکنا، طعنہ دینا، تمہاری بے عزتی کرنا؛ یہ سراسر ظلم ہے، اور تمہارا شوہر خاموش تماشائی بن کر اس ظلم کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ کیا فائدہ ایسے رشتے کا جہاں نہ تمہاری اہمیت ہے نہ عزت، بہتر ہے کہ خلع لے کر قصہ ختم کرو۔‘‘
’’کیا؟ خلع کا مشورہ دیا اس نے تمھیں؟ وہ بھی شادی کے چوتھے ہی مہینے میں؟‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ہاں وہ جان گئی تھی کہ سسرال میں مجھے زندگی کا خوشیوں بھرا ماحول نہیں مل رہا ہے۔ ایسے دم گھٹتے حالات میں رہنے سے تو بہتر تھا کہ میں علیٰحدہ ہو جاتی۔‘‘ اس لیے اس نے یہ مشورہ دیا۔
’’روبینہ کی عمر کیا ہے؟ اور وہ کیا کرتی ہے؟‘‘ رملہ کے لیے دی گئی تجویز سے مجھے لگا تھا کہ روبینہ ایک نا تجربہ کار لڑکی ہے، اس لیے اس نے رملہ کو ایسی تجویز دی تھی، جس سے زندگی سنورنے کے بجائے بگڑ جائے۔
’’وہ میری ہم عمر ہے۔ ہم کلاس میٹ تھے۔ دسویں جماعت کے بعد میری شادی ہو گئی، اور روبینہ بے کار میں اپنا وقت گزاری رہی ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔
’’میں نے روبینہ کی تجویز پر عمل کرنے کا ٹھان لیا اور شوہر سے خلع کا مطالبہ کرنے لگی۔‘‘
’’تم نے والدین سے اس بارے میں بات کی تھی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’روبینہ کی بات میرے دماغ میں اس طرح گھر کر گئی تھی کہ میں اپنے فیصلے پر اٹل تھی۔ لہٰذا، میں نے اپنے والدین سے کہہ دیا کہ میں مزید اس گھر میں نہیں رہ سکتی، اور مجھے خلع لینا ہے۔ یوں میرا خلع ہو گیا۔ اس کے بعد جب میں گھر آئی اور عدت کی مدت کی تکمیل کر رہی تھی تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے بہت ہی جلد بازی سے کام لیا۔‘‘
’’مجھے اپنے کیے پر بہت پچھتاوا ہونے لگا۔ میں دوبارہ اس رشتہ کو استوار کرنا چاہتی تھی، جسے میں ختم کر کے آئی تھی۔ تب میں اپنے والدین کے ساتھ سسرال پہنچی، اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا، اور گڑ گڑا کر ان سے معافی بھی مانگی، لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ یہی کہتے رہے کہ جس زعم سے تم نے خلع لیا تھا اسی زعم سے زندگی گزارو۔ اب ہمارے نہ دل میں تمھارے لیے کوئی جگہ ہے نہ ہی گھر میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’لیکن مجھے اپنے شوہر سے محبت ہے، مجھے واپس اسی کے پاس جانا ہے۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ آپ پلیز ان سے بات کر کے مجھ سے دوبارہ نکاح کرنے پر انھیں راضی کروا دیں۔ میں تا حیات آپ کے لیے دعا گو رہوں گی۔ اس نے میرے پیر پکڑ لیے تھے۔‘‘ میں نے منع کرتے ہوئے اسے اٹھایا۔ تسلی دی اور دو دن بعد آنے کو کہا تاکہ اس دوران میں اس کے شوہر اور سسرال والوں سے ثالثی کر سکوں۔ ٹھیک دو دن بعد وہ دوبارہ میرے سامنے موجود تھی۔ آنکھوں میں امید کے دیے جگمگا رہے تھے۔
’’کیا کہا ان لوگوں نے؟‘‘ اس نے بے صبری سے پوچھا۔ ’’تمہیں بتاتے ہوئے اچھا تو نہیں لگ رہا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بہت کوشش کے باوجود نہ تو تمہارے شوہر اس ضمن میں بات کرنے کے لئے تیار ہیں نہ ہی سسرال والے۔ ان کا یہی کہنا ہے کہ ’’جب لڑکی نے خلع لے کر رشتہ ہی ختم کر دیا تو بات کرنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے؟‘‘
’’آپ نے انہیں بتایا نہیں کہ میں اپنے غلط فیصلہ پر شرمندہ ہوں اور بہت پچھتا رہی ہوں‘‘
’’کہا تو تھا ان کا جواب تھا کہ ’اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت‘!
اس دوران رملہ کے والدین بھی کیبن میں داخل ہو گئے تھے۔ ان کے چہرے پر بھی حزن و ملال نمایاں تھا۔
’’میڈم! اپنی بیٹی کی زندگی کو بچانے کے لئے ہم ان کے پیر چھو کر معافی مانگنے کے لئے تیار ہیں۔ بس آپ انہیں ایک موقعہ دینے کے لئے تیار کر دیجئے‘‘
’’آپ آج ان معافی مانگنے کے لئے تیار ہیں۔ جب کہ وہ لوگ کچھ سننے یا سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں!‘‘
’’کاش! رملہ کے اس اقدام سے پہلے آپ اسے سمجھاتے، یا اسے جلد بازی میں کسی اور کی تجویز پر فوری عمل کرنے سے روکتے یا ان کے سسرال والوں سے مصالحت کی بات کرتے تو صورت تو شاید یہ نوبت ہی نہ آتی‘‘
’’اب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ ہم جبراً کسی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے۔ رشتے آپسی رضا مندی اور محبت کی بنیاد پر ٹکے رہتے ہیں‘‘۔
بہر کیف میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود رملہ اسی بات پر بضد تھی کہ اسے اسی شوہر کے ساتھ رہنا ہے۔ وہ کسی اور سے دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے۔ اگر تم یہی چاہتی ہو تو ایسا ہی کرو۔ خلع لینے کے بعد تم اسی شوہر سے کبھی کبھی دوبارہ نکاح کر سکتی ہو۔ لہٰذا تم اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرو۔ انٹر میں داخلہ لو۔ اور جب کبھی تمہارا شوہر تم سے تجدید نکاح کرنا چاہے تم اس سے نکاح کر لینا یا پھر کسی اور سے بھی عقد ثانی کر سکتی ہو۔ جیسا بھی تم مناسب سمجھو۔ اس دوران تمہاری تعلیم بھی جاری رہے گی۔ اور اپنی زندگی کے بارے میں اطمینان سے فیصلہ لینے کا وقت بھی ملے گا۔ ہو سکتا ہے اس دوران تمہارا فیصلہ بدل جائے‘‘
’’وہ مجھ سے تجدید نکاح کے لئے مان تو جائے گا نا؟ رملہ نے سوال کیا
’’اپنے فیصلوں کو ہمیشہ اللہ کے سپرد کر دینا چاہئے۔ کیوں کہ اس نے ہمارے لئے جو پلاننگ کر رکھی ہے۔ اس میں یقیناً ہماری بھلائی ہوتی ہے۔ تم اپنا کام کرو باقی اللہ کے حوالے کر دو‘‘۔
’’شاید آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ میں آج ہی جا کر کالج میں داخلہ لے لیتی ہوں۔‘‘
رملہ اور اس کے والدین جا چکے تھے۔ میں سوچنے لگی کہ اسلام نے رشتوں کو جوڑنے کی تعلیم دی ہے، ترک تعلق اور دوریاں اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے۔ نکاح کا رشتہ ایسا پاکیزہ رشتہ ہے جس کے ذریعہ دو افراد میں اور دو خاندانوں میں ایک تعلق پیدا ہوتا ہے، اس کے ذریعہ گھر آباد ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات قائم ہوتے ہیں، اور یہ خداوند عالم کا ایک حکیمانہ نظام ہے۔ اس کیس میں والدین کا لڑکی کے سسرال والوں سے مکالمہ کا فقدان اور شوہر کی بے جا خاموشی ترک تعلق کا سبب بنی!
سوالات
1) خلع کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لئے عمائدین کو کس قسم کے اقدامات کرنا چاہئے؟
2) کیا جماعتوں میں ایسی کمیٹیوں کا قیام ضروری ہے جو شادی سے پہلے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کرے۔
3) کیا لڑکیوں کو خلع اور طلاق ثلاثہ کے احکامات سے واقف کروانا ضروری ہے؟
٭٭٭