میں اپنے کیبن میں بیٹھی ایک کیس کا تجزیہ کر رہی تھی کہ صدیقہ سہمی سہمی سی ہاتھ میں رجسٹریشن فارم تھامے میرے کیبن میں داخل ہوئی۔ اس کے پیچھے اس کی ماں بھی موجود تھی۔
’’آپ کچھ دیر باہر انتظار کریں۔ میں تنہائی میں صدیقہ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ بعد ازاں ضرورت پڑنے پر آپ کو بھی اظہار خیال کا موقع دیا جائے گا۔‘‘ اس سے پہلے کہ صدیقہ کی والدہ کیبن کے اندر داخل ہوتیں، میں نے انہیں روک دیا تھا۔
میری بات سن کر وہ چلی تو گئیں، لیکن چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آ رہے تھے۔ میرے لیے یہ ضروری تھا، کیونکہ زیادہ تر لڑکیاں اپنی ماؤں کے سامنے اپنے خیالات، جذبات، احساسات اور حقائق بتانا پسند نہیں کرتیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ وہ اپنی ماؤں کے ساتھ جو کچھ بھی شیئر کریں گی وہ انہیں منفی انداز میں لیں گی۔ ان کے جذبات کی پرواہ کیے بغیر اس کے بارے میں ناگوار تاثرات قائم کریں گی۔
صدیقہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’میری شادی کو یوں تو چار سال ہو گئے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ میری شادی صرف چار ماہ کی ہے، کیونکہ شادی کے صرف چار ماہ بعد میرے شوہر دبئی واپس چلے گئے، جہاں وہ کسی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔‘‘ میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اس نے بولنا شروع کر دیا تھا۔ شاید اس کے دل و دماغ میں اتنا درد پنہاں تھا جس کا اظہار ناگزیر تھا۔
’’شوہر کے جانے کے بعد تم کہاں رہتی تھیں؟ سسرال میں یا میکہ میں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’میں چاہتی تو تھی کہ میرے شوہر کرار کے جانے کے بعد میں میکہ میں رہوں، لیکن سسرال والوں نے بھیجنے سے صاف منع کر دیا۔ ساس کا کہنا تھا کہ شادی کے بعد لڑکی کا اصل گھر تو اس کا سسرال ہوتا ہے، اور میکہ میں انہیں بطور مہمان 2-4 دن کے لیے ہی جانا چاہیے۔‘‘ ہمم ’’ممممم…!‘‘ میں نے سر کو خفیف سی جنبش دی۔
’’میرے شوہر اور میری ماں نے بھی اس بات کی تائید کی، اور مجھے سسرال میں رہنے پر مجبور کیا۔ اس دوران میں حاملہ بھی ہو گئی تھی، میری طبیعت بوجھل رہنے لگی۔ الٹیاں بھی ہو رہی تھیں۔ مجھے بار بار ہسپتال جانے اور مختلف ٹیسٹ کروانے کی ضرورت تھی۔ ساس نے خود کو اس ذمہ داری سے بچانے کے لیے مجھے ڈیلیوری تک کے لیے میکہ بھیج دیا۔ اس وقت میں جو اپنے میکہ آئی تو پھر گڑیا کی پیدائش کے تین ماہ بعد ہی سسرال گئی۔ میرے سسرال میں ایک کنوارہ دیور بھی ہے۔ وہ جب بھی اپنے کام سے لوٹتا اس کے لیے کھانا چائے وغیرہ دینے کی ذمہ داری ساس نے مجھے سونپ دی تھی، کیونکہ گھر میں ساس کے علاوہ کوئی دوسری خاتون موجود نہیں تھی، اور ساس کا ماننا تھا کہ گھر سنبھالنا، سب کا خیال رکھنا بہو کی ذمہ داری ہے۔ اسی لیے بہو گھر میں قدم رکھتے ہی ساس گدی نشین ہو جاتی ہے۔ جب بھی میں دیور کو کھانا وغیرہ دیتی تو وہ عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتا، جیسے اپنی آنکھوں سے میرے جسم کی اسکیننگ کر رہا ہو۔ میں اپنے آپ کو سمیٹتی، جلد سے جلد اس کی نظروں سے دور ہو جاتی، لیکن وہ کسی نہ کسی بہانے سے مجھے بلاتا، مجھ سے مذاق کرتا۔ اس کی یہ حر کت مجھے بری لگتی لیکن میری ساس کو بالکل بھی برا نہیں لگتا۔ جب بھی میں ان سے شکایت کرتی کہ امّی! دیکھیے تو، صارم (دیور) کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ وہ ہنس کر کہتیں کہ تمہارا بھائی نہیں کرتا کیا؟ وہ بھی تو تمہارے بھائی جیسا ہے۔ ان کی اس بات سے اس کی نازیبا حرکات کو مزید تقویت ملتی۔ گڑیا جب میری گود میں ہوتی تو اسے گود سے لینے کے بہانے وہ میرے جسم کو چھونے کی کوشش کرتا۔‘‘
’’اس بات کا ذکر تم نے اپنے شوہر سے نہیں کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کئی بار سوچا کہ اس بارے میں انہیں بتاؤں گی، پھر یہ خیال آتا کہ کرار نے میری بات کا یقین نہیں کیا تو کیا ہو گا؟ کرار اگر ساس اور دیور سے اس بابت پوچھیں گے تو وہ تو صاف انکار کر دیں گے اور اس بات کو جھوٹ قرار دیں گے، تب میں کیا کروں گی؟ انہی خدشات کی وجہ سے میں نے کرار سے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔ ایک رات جب گرمی اپنے شباب پر تھی۔ بجلی چلی گئی۔ گڑیا بھی بے چین ہو رہی تھی۔ کمرے میں بہت زیادہ گھٹن ہونے لگی تو میں نے اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولا، تاکہ کچھ تو حبس دور ہو، اور ہاتھ کا پنکھا جھیلتے ہوئے گڑیا کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اچانک ایک آہٹ ہوئی اور میرے منہ پر کسی نے ہاتھ رکھا میں بری طرح چونک گئی۔ سخت آواز میں کہا ’’خاموش! کوئی آواز مت نکالنا ورنہ تمہارا اور تمہاری بیٹی دونوں کا گلا گھونٹ دوں گا۔‘‘
میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ کوئی اور نہیں صارم تھا۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی آنکھوں میں اس رات کا خوف آج بھی دکھائی دے رہا تھا۔
’’اس نے حیوانیت کی حد پار کر دی میڈم!‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’کسی سے آپ نے ذکر نہیں کیا۔۔؟‘‘
’’کیسے کرتی، اس نے کمرے سے جاتے جاتے اس نے مجھے دھمکی دی کہ ’’اگر اس بات کا ذکر میں نے کسی سے کیا تو وہ میری زندگی کا آخری دن ہو گا۔‘‘ میں خوف کے مارے تھر تھر کانپنے لگی، میری زبان گنگ ہو گئی، میرا ذہن ماؤف ہو گیا، میں کیا کرتی؟ تکیہ منہ پر رکھے صبح تک روتی رہی۔‘‘
’’کسی کو اس بات کی خبر نہیں ہوئی؟‘‘
’’بالکل بھی نہیں ہوئی۔ اس حادثہ کے بعد میرا وہاں رہنا محال ہو گیا تھا۔ میں ماں کے پاس جانا چاہتی تھی، لیکن ساس مختلف بہانوں کے ذریعہ مجھے جانے سے روک رہی تھی۔ بہت تگ و دو کے بعد بیماری کا بہانہ بنا کر میں ماں کے گھر جانے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔‘‘ میں نے ٹھنڈی سانس لی۔
’’جب میں نے اپنی ماں کو پوری روداد سنائی تو ان پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہیں تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ گھر کا فرد ہی گھر کی عزت پر ہاتھ ڈال سکتا ہے۔‘‘
’’یہ ایک حقیقت ہے صدیقہ کہ زنا بالجبر کے واقعات میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار ہی ملوث ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے تحقیق کا نکتہ پیش کیا۔
’’بھائی نے کہا کہ یہ بات مجھے فوراً اپنے شوہر کو بتانی چاہیے، اور میں نے انہیں فون پر سب کچھ بتا دیا۔ پہلے تو کرار کو میری بات پر یقین ہی نہیں آیا۔ جب میں نے کلام پاک کی قسم کھائی تو انہوں نے انکشاف کیا کہ صارم اسی قسم کا اوباش نوجوان ہے، جس کے پہلے بھی دو تین لڑکیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، اور وہ لڑکیاں بھی جب حاملہ ہو گئیں تو ان کا حمل بھی ساقط کروایا تھا۔ مجھے تعجب ہو رہا تھا کہ ان ساری باتوں کا ذکر کرار اتنی آسانی سے کر رہا تھا جیسے کوئی عام سی بات ہو۔ اس نے مجھے دلاسہ دیا کہ اس سلسلے میں وہ اپنے گھر والوں سے بات کرے گا۔ دوسرے دن کرار کا فون آیا تو اس کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔ وہ مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے جو کچھ بھی اس سے کہا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے۔ زانی صارم نہیں بلکہ میں ہوں، کیونکہ میں نے ہی اسے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی تھی۔ اس بات پر مہینوں ہم دونوں میں بحث و تکرار ہوتی رہی۔ وہ مجھ سے اس گناہ کا ثبوت مانگتا، جس کا گواہ کالی رات اور خدا کے سوا کوئی نہ تھا، اور پھر اسی بحث و تکرار کے دوران ایک دن وہی ہوا، جس کے خوف کی تلوار میرے سر پر لٹک رہی تھی۔ اس نے فون پر مجھ سے تین الفاظ کہہ کر ہمارے رشتہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ میں ایک حادثہ کے اثر سے باہر بھی نہیں نکل پائی تھی کہ مجھ پر دوسرا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں باڑھ دوباہ آ گئی تھی۔
’’اللہ محفوظ رکھے ایسے رشتوں سے جو رشتوں کی رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘
’’صدیقہ! تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس پر انسانیت بھی شرمسار ہو جائے۔ میں تمہارا دکھ سمجھ سکتی ہوں۔ حوصلہ رکھو خدا مظلوموں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ ان شاء اللہ۔ بتاؤ تم کیا چاہتی ہو؟‘‘
’’میڈم! مجھے انصاف چاہیے۔ اس زانی کو اس کے جرم کی سزا ضرور ملنی چاہیے، تاکہ مستقبل میں کوئی دیور اپنی بھابھی کے ساتھ ایسا حیوانی سلوک نہ کرے۔ کسی عورت کی عزت اس کے گھر میں نہ لٹے جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔‘‘
’’صدیقہ! تم پریشان نہ ہو ہم اس ملزم کو اس کی کوئی کی سزا ضرور دلائیں گے۔ اس پر زنا بالجبر کا مقدمہ دائر کریں گے۔‘‘ میں نے اسے دلاسہ دیا۔
’’میڈم! صرف اسے ہی نہیں کرار کو بھی اس کے کوئی کی سزا ملنا چاہیے۔ ایک تو اس نے سچ کو قبول نہیں کیا۔ دوسرے بغیر کسی معقول وجہ کے فون پر طلاق دے دی۔ اس پر بھی مقدمہ ضرور کیجے گا۔‘‘ اس کا لہجہ بہت ہی سخت تھا۔
’’ہاں، سزا تو دونوں کو ملنی چاہیے۔ میں نے اسے تسلی دی تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔‘‘
سوالات
(1) شوہر کی غیر موجودگی میں بیوی کا ایسے سسرال میں رہنا کیا ضروری ہے؟ اگر ہاں تو اس کی حفاظت کا ذمہ دار کون ہو گا؟
( 2) خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے آپ انفرادی طور پر کیا کر سکتے ہیں؟
(3) کیا ہمیں اسکولی نصاب میں ’’اخلاقیات‘‘ کے موضوع پر خصوصی مضمون متعارف کرنے کی ضرورت ہے؟
4) دیور اور دیگر نامحرم رشتوں سے بے تکلفی کی قباحتوں کا شعور پیدا کرنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جا سکتی ہے۔؟
٭٭٭