’’میرا نام زہرا ہے۔‘‘
اس کا سر جھکا ہوا تھا اور نظریں فرش پر ٹکی تھیں۔
’’میرا نام رفیعہ ہے۔‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’جی جانتی ہوں۔ بہت کچھ سنا ہے آپ کے بارے میں۔ اسی لیے چلی آئی۔‘‘ اس نے کنکھیوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن آج تو ….. میں تمہیں سننا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے اسے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ پتہ نہیں آپ میرے بارے میں کیا سوچیں؟‘‘
اس کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔
’’زہرا…..تم مجھے اپنا دوست سمجھو۔ بلا جھجک وہ سب کچھ سنا دو، جو تم سنانا چاہتی ہو۔ تم مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہو۔‘‘
میں نے اس کو بھروسہ دلایا۔
’’میری شادی کو 12 سال ہو گئے۔ میرے شوہر شرابی ہیں اور نشہ کی حالت میں مجھ پر ہر قسم کا ظلم کرتے ہیں۔‘‘ اس نے کہنا شروع کیا۔
’’ہر قسم کے ظلم سے مراد…..؟‘‘ میں تفصیل جاننا چاہتی تھی۔
’’گالی گلوچ، مارنا پیٹنا، ڈھکیلنا، ہاتھ موڑنا، گلا دبانا، بال نوچنا، بے عزت کرنا ….. اور…..‘‘
اس کے آگے وہ بول نہیں پائی۔ کیوں کہ اس کی آواز بھرا گئی تھی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ جب آنسو نکلتے ہیں تو اِن میں صرف نمک اور پانی نہیں ہوتا، اِن میں ماضی کی تکلیفیں، حال کا دکھ درد، اپنوں کے ستم، چاہنے والوں کی بے اعتباری، حقوق کی پامالی اور نہ جانے کیا کیا احساسات اور جذبات چھپے ہوتے ہیں۔
’’کب سے یہ سب سہہ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’11 سال سے …..!شادی کے بعد ایک سال ہی ہم سکون سے رہے ہوں گے۔ جب میری بیٹی دلشاد پیدا ہوئی تو میں شاد تھی، لیکن میرے شوہر ناشاد۔ کیوں کہ انہیں بیٹا چاہیے تھا، بیٹی نہیں۔‘‘
اس کی آنکھوں میں درد نمایاں تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ ایک مسلمان مرد کس طرح بیٹی کی پیدائش پر ناراض ہو سکتا ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: لا تَکْرَہوا البَناتِ۔ فإنَّہُنَّ المُؤْنِساتُ الغَالِیاتُ۔ ’’اپنی بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو، کیوں کہ وہ تو پیار کرنے والی اور قابلِ قدر (یعنی اہمیت کی حامل) ہوتی ہیں۔‘‘
’’دلشاد کے بعد اللہ نے مجھے دو لڑکوں سے بھی نوازا۔ تب حیدر (میرے شوہر) کچھ دن خوش رہے، لیکن پھر ظلم کا وہی سلسلہ جاری رہا اور میں روز ان کا ظلم یہی سوچ کر سہتی رہی کہ آج نہیں تو کل وہ سدھر جائیں گے۔ لیکن برسوں گزرنے کے بعد بھی ان میں سدھار نہیں آیا، بلکہ بگاڑ ہی آتا گیا۔‘‘
اس کے لہجہ میں مایوسی تھی۔
’’حیدر کے مسلسل ظلم سے میں تنگ آ چکی تھی۔ مر مر کر جی رہی تھی۔ میرے جسم کے کئی حصوں پر نیلے نشان موجود تھے۔ جو مجھے یاد دلاتے رہتے کہ میں کتنی کربناک زندگی گزار رہی ہوں۔ مجھے حیدر کی شکل سے بھی نفرت ہونے لگی اور میں ان سے دور رہنے لگی۔ میری دوری ان سے برداشت نہیں ہوتی تو وہ بپھر اٹھتے اور جارحانہ رویہ اختیار کرتے۔ بچوں کے سامنے مجھے ذلیل کرتے۔ نتیجتاً یہ سارا ظلم لا شعوری طور پر معصوم بچوں کے ذہن کو متأثر کر رہا تھا۔ بچے ڈر کے مارے سہم جاتے۔ وہ جب بھی مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتے، میرا جی چاہتا کہ میں بھی اپنا ہاتھ اٹھا لوں، ان کا منھ نوچ لوں یا پھر انہیں کاٹ کھاؤں۔‘‘
مرد، عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم کرتا ہے۔ جسمانی طور پر عورت کم زور ہو سکتی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ وہ اگر پلٹ وار نہیں کرتی تو محض اس کی مجبوریوں کی وجہ سے، جو اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ اور مرد اسی بات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ جس پر وہ ظلم کر رہا ہے اس میں بھی جان ہے۔
’’شوہر کے سدھار کی امید میں تم اتنے طویل عرصہ سے خود پر ہونے والے ظلم کو برداشت کر رہی تھیں۔ پھر اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ تم نے اس کے خلاف آواز بلند کی؟‘‘
میں اس پہلو کی تلاش میں تھی جس نے زہرا کی قوت برداشت کو للکارا تھا۔
’’پانچ سال پہلے میرے شوہر نے دوسری شادی کر لی۔‘‘ اس نے انکشاف کیا۔
میں نے اس سے وجہ نہیں پوچھی۔ کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ ہمارے سماج میں ایسے مردوں کی کمی نہیں، جو بغیر کسی خاص وجہ کے عقد ثانی کرتے ہیں اور دونوں بیویوں میں سے کسی کے ساتھ بھی عدل نہیں کر پاتے۔
’’مجھے حیدر کے عقدِ ثانی سے بہت تکلیف پہنچی، جو کہ غیر متوقع اور غیر ضروری تھا۔ جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ میں تناؤ کا شکار ہو گئی۔ اس تکلیف میں مزید اضافہ اس وقت ہوا، جب انہوں نے اپنی دوسری بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والی بیٹی کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کی اور ایک ڈبہ ہمارے پاس بھی لے آئے اور بہت ہی خوشی سے کہنے لگے کہ: ’ماجدہ کو بیٹی ہوئی ہے۔ یہ مٹھائی اسی خوشی میں تقسیم کی جا رہی ہے۔‘ یہ سن کر میرا پارہ چڑھ گیا۔‘‘
’’جب ہماری پہلی بیٹی احمدی پیدا ہوئی تھی تو حیدر ناراض ہو گئے تھے اور میں نے حسبِ روایت بتاشے بانٹنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے کہا تھا کہ انہیں بتاشے بانٹنے میں شرم محسوس ہوتی ہے، لڈو ہوتے تو فخر سے بانٹتے۔‘‘
اس نا انصافی اور امتیازی سلوک سے میرا خون کھولنے لگا۔
’’ابّا! میں نے اکثر امی کو یہ کہتے سنا ہے کہ میری پیدائش پر آپ بالکل بھی خوش نہیں تھے۔ لیکن آج آپ کی دوسری بیوی کے ہاں لڑکی پیدا ہونے پر اتنی زیادہ خوشی اور مٹھائی کی تقسیم ایسا کیوں ابّا؟ کیا وہ بہت خاص ہے؟ کیا وہ مجھ سے الگ ہے؟‘‘
میری 11 سالہ بیٹی احمدی، جو بچپن سے اپنے والد کے ظالمانہ سلوک کو دیکھ رہی تھی، اچانک سوال کر بیٹھی۔
احمدی کے اس سوال نے جہاں مجھے چونکا دیا، وہیں میرے شوہر کو اچنبھے میں ڈال دیا۔ اس عمر کی لڑکی سے اس قسم کا سوال غیر متوقع تھا۔ ان کی حیرت شرمندگی میں تبدیل ہوئی۔ شرمندگی غصہ میں بدل گئی اور پھر وہ پھٹ پڑے۔
’’تم ابھی بچی ہو۔ تمہیں ہمت کیسے ہوئی اپنے والد سے اس قسم کا سوال کرتے ہوئے؟ اپنا منھ بند رکھنا، ورنہ طمانچے لگانے پڑیں گے۔‘‘
’’تم اپنی من مانی کرتے رہو اور دوسرے سوال بھی نہ کریں۔ ہم نے خاموش رہ کر خود پر بہت زیادتی کی ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ اب ہم چپ نہیں رہیں گے اور حق تلفی پر آواز ضرور اٹھائیں گے۔‘‘ میں نے بھی ڈٹ کر جواب دیا۔
اس کے بعد ہم دونوں میں خوب جھگڑا ہوا۔ اسی دوران حیدر نے کہا کہ ’’تم بہت بد زبان ہو گئی ہو۔ زبان کھینچ لوں گا تمہاری یا پھر گلا ہی دبا دینا بہتر ہو گا۔‘‘
’’اتنا سننا تھا کہ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میری سانسیں دھونکنی کی طرح چلنے لگیں اور میں بھاگتی ہوئی کچن میں گئی۔ واپس پلٹی تو میرے ہاتھ میں چاقو تھا، جس کی مدد سے میں نے فوراً شوہر کے پیٹ میں وار کر دیا۔‘‘
یہ سن کر میرے ہاتھ سے قلم چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ میں ناقابلِ یقین نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’میں نہیں جانتی کہاں سے مجھ میں اتنی ہمت آ گئی تھی کہ میں نے اپنے بچاؤ کے لیے حیدر پر وار کر دیا تھا۔ چاقو اس کے پیٹ میں دھنس گیا تھا اور خون کے چھینٹے میرے منھ پر ہولی کے سرخ رنگ کی طرح بکھر گئے۔ حیدر کے پیٹ سے بہنے والی خون کی دھار کو دیکھ کر میرے حواس کھونے لگے اور میں بے ہوش ہو گئی۔ ہوش آیا تو میں پولیس اسٹیشن کے لاک اپ میں تھی۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا، جن میں ہتھکڑی ہونے کی امید تھی، لیکن وہ آزاد تھے۔‘‘ میں دم بخود اپنے سامنے بیٹھی ایک خاتون مجرم کی داستان سن رہی تھی۔
’’میڈم! میں مجرم ہوں۔ میں اقرار کرتی ہوں کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ لیکن حیدر نے کئی مرتبہ مجھ پر جان لیوا حملہ کیا تھا۔ پتہ نہیں کس مٹی کی بنی ہوں کہ ہر بار بچ گئی۔ اس بار مجھے لگا کہ وہ میرا کام تمام کر دے گا۔ اس لیے میں نے اس پر وار کیا۔ مجھے اپنا بچاؤ کرنا ضروری تھا، ورنہ وہ شرابی میری گردن بھی کاٹ سکتا تھا۔‘‘
اس کی آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا۔ اسے جہاں اپنے گناہ کا احساس تھا وہیں کہیں یہ اعتماد بھی تھا کہ اس نے جو کچھ کیا وہ حفظ ماتقدم کے طور پر کیا تھا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میرا تجسس بڑھ رہا تھا۔
’’پھر مجھے بتایا گیا کہ حیدر زندہ ہیں۔ ان کے پیٹ کی سرجری ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے مجھے معاف کر دیا ہے اور مجھے کسی بھی قسم کی سزا دینے سے منع کیا ہے۔‘‘
اس نے بتایا تو مجھے تعجب ہوا کہ اس قسم کا شخص جو بغیر کسی وجہ کے بیوی پر ظلم کرتا ہے اور اب جب کہ اس کے پاس معقول وجہ بھی تھی، اس کے باوجود اس نے اپنی بیوی کو معاف کیسے کر دیا؟
’’زہرہ تمہارے شوہر کا یہ جذبہ تو قابل تعریف ہے کہ تمہارے جان لیوا حملے کے باوجود اس نے تمہیں معاف کر دیا۔ شاید وہ تمہیں معاف کر کے اپنی غلطیوں کا کفّارہ ادا کرنا چاہتا ہو۔‘‘
میں نے اندازہ لگایا۔
’’وہ….. اور کفّارہ….. نہیں میڈم! اس کا مجھے معاف کرنا بھی ایک سازش تھی۔‘‘
اس کے لہجے میں طنز تھا۔
’’کیسی سازش…..؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’حیدر نے مجھے معاف کر دیا اور پولیس کو کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کرنے سے منع کر کے سب کی نظروں میں مہان بن گیا۔‘‘
’’اور میں ….. میں ….. اپنے بچاؤ کے لیے وار کر کے سب کی نظروں میں گناہ گار ہو گئی۔ مجھے کسی کو کچھ بھی سنانے کا موقع دیے بغیر میرے بھائی کے پاس بھیج دیا گیا۔ جہاں میرے تینوں بچے پہلے سے موجود تھے۔ سماج کے کسی بھی فرد نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ میں نے وار کیا تو اس کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ سب مجھ سے نفرت کرنے لگے اور دور بھاگنے لگے، بلکہ خوفزدہ بھی تھے۔ انہیں لگتا کہ میں کسی بھی وقت کسی پر بھی وار کر سکتی ہوں۔‘‘
اس کی آواز ڈوب رہی تھی۔
’’زہرہ! لوگ کسی بھی انسان کو دیکھ کر یا مل کر اس کے بارے میں رائے قائم کر لیتے ہیں، جو کہ غلط ہے۔ کسی بھی انسان کے بارے میں رائے قائم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ خود کو اس کی جگہ پر رکھیں۔ اس کے سارے دکھ جی کر دیکھیں۔ اس کی اذیتیں سہہ کر دیکھیں۔ ان راستوں پر سفر کر کی دیکھیں، جن پر اس نے سفر کیا ہے۔ وہ سب لڑائیاں لڑ کر دیکھیں جو بظاہر اس نے اپنے لیے لڑی ہوں، مگر پس منظر کچھ اور ہو۔ لڑائیاں سب کی الگ ہوتی ہیں۔ راستے الگ ہوتے ہیں اور آزمائشیں الگ ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے ہم نے زندگی گزاری ہو مگر اسے زندگی نے گزارا ہو۔‘‘
’’آپ نے سچ کہا۔ کوئی میری زندگی جیے تو جانے کہ میں نے کیا کیا سہا ہے اور کیسے سہا ہے؟‘‘
میں اس کے لفظوں میں چیخوں کو محسوس کر رہی تھی۔
’’سرجری کے بعد حیدر بالکل ٹھیک ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے اور مجھے فون کر کے سسرال واپس آنے کے لیے کہا ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں سسرال واپس جانے کے نام سے ہی مجھ پر خوف طاری ہو رہا تھا۔ میں اس ماحول میں دوبارہ واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ سسرال کے نام سے ہی مجھے وہ واقعہ یاد آ جاتا، جس نے مجھے مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔‘‘
اسی دوران میرے ماموں زاد بھائی ہمارے گھر آئے تھے۔ ان سے جب میں نے ذکر کیا کہ میں واپس اپنے سسرال جا رہی ہوں تو وہ ایک دم اچھل پڑے اور کہنے لگے:
’’نا….. نا….. تم واپس ہر گز مت جانا۔ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔‘‘
میں نے غیر یقینی انداز میں انہیں دیکھا تو انہوں نے واضح کیا کہ ان کا ایک دوست حیدر کا بھی جگری یار ہے۔ اس کے ذریعے پتہ چلا کہ حیدر نے مجھے اس لیے معاف کیا کہ وہ مجھ سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ خود اپنے ہاتھوں سے مجھے سزا دینا چاہتا ہے اور بالکل اسی طرح مجھ پر وار کرنا چاہتا ہے جیسا میں نے اس پر کیا تھا۔ تبھی اس کو سکون ملے گا اور اس کے بدلے کی آگ بجھے گی۔
اگر پولیس مجھے سزا دیتی تو اسے اس بات کا موقع کہاں ملتا؟ اس لیے وہ یہ گھناؤنی چال چل رہا تھا اور یہی اس کا اصلی روپ بھی تھا۔
میں سوچنے لگی پتہ نہیں لوگ رشتوں کو دکھ دینا کب چھوڑیں گے؟
کب چہرے بدلنا چھوڑیں گے؟
اپنے رشتوں کے سامنے کچھ اور، پیچھے کچھ اور ہونا کب چھوڑ یں گے؟
کیا انہیں اس وقت سے ڈر نہیں لگتا جب لوگوں کی چیخیں رب کے عرش تک پہنچ جائیں گی؟
زہرا نے سڑ سڑ کرتی ناک کو رو مال سے صاف کیا اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی:
’’جب مجھے ان کی اصلیت کا پتہ چلا تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اب اس گھر میں کبھی واپس نہیں جاؤں گی نہ ہی اس انسان کے ساتھ زندگی گزاروں گی، جس کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے تحفظ کے بجائے جان کا خطرہ محسوس ہو۔ لہٰذا میں نے حیدر سے کہہ دیا کہ مجھے اس سے خلع چاہیے۔
’’اور اس نے صاف انکار کر دیا ہو گا؟‘‘
میں درمیان میں بول پڑی۔
’’جی بالکل…….!‘‘
’’کیا آپ مجھے اس سے خلع لینے میں مدد کر سکتی ہیں؟ میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی نا ہی اپنے بچوں کو اس کی ڈگر پر چلنے دے سکتی ہوں۔‘‘
ہاں! جہاں تم پر روز ظلم ہوتا ہو، جہاں تمہاری جان خطرہ میں ہو، جہاں تمہارے بچے نفسیاتی دباؤ میں جی رہے ہوں، جہاں ایک عورت 12 سال تک ظلم برداشت کرنے کے بعد علیحدگی کا فیصلہ کرتی ہو، تو ہم اس کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ہم تمہاری مدد ضرور کریں گے تاکہ تم ایک پر سکون زندگی گزارتے ہوئے اپنے بچوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کر سکو جہاں وہ کھل کر جئیں اور دین و دنیا میں سرخرو ہوں۔
1۔ الحمد اللہ ہمارے معاشرہ میں دینی مدارس اور مساجد کافی تعداد میں موجود ہیں۔ کیا یہ دونوں مقامات شراب کی لت سے نجات کا مرکز نہیں بن سکتے؟
2۔ ایسے مرد حضرات کی اصلاح کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے جو لڑکی کی پیدائش پر نا خوش ہوتے ہیں؟
3۔ خواتین بھلے ہی جسمانی طور پر کم زور ہوں، کیا ان کی قوت ارادی اور خود اعتمادی کو کم سمجھ کر ان پر ظلم و ستم کرنا جائز ہے؟
4۔ گھروں میں بچوں پر ہونے والے نفسیاتی اثرات کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ انہیں اس میں مبتلا ہونے سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
5۔ کیا گیارہ سالہ لڑکی کا اپنے والد سے نا انصافی پر سوال کرنا مناسب ہے؟ یہ موقع اسے کس نے فراہم کیا؟ ہمارے معاشرہ میں ایسی کتنی لڑکیاں ہیں جو سوال کرنے کی ہمّت رکھتی ہیں؟
سوالات
مرد، عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم کرتا ہے۔ جسمانی طور پر عورت کم زور ہو سکتی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔ وہ اگر پلٹ وار نہیں کرتی تو محض اس کی مجبوریوں کی وجہ سے، جو اسے ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ اور مرد اسی بات کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ جس پر وہ ظلم کر رہا ہے اس میں بھی جان ہے۔
٭٭٭