افتخار عارف کے اب تک چار شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔”مہرِدو نیم“،”حرفِ باریاب “ ، ”جہانِ معلوم“ اور”شہر، علم کے دروازے پر“یہ چاروں مجموعے اب تھوڑی سی نئی ترتیب کے ساتھ یکجا کرکے ایک ساتھ چھاپ دئیے گئے ہیں اورچار مجموعوں کے اس مجموعہ کا نام ہے”کتابِ دل و دنیا“۔
ایک بار دوستوں کے ساتھ لفظ عیش کی حدود و قیودکا ذکر ہو رہا تھا تو ایک دوست نے کہا کہ انسان کا جو طبعی میلان ہواس کے مطابق اسے کام مل جائے تو فی زمانہ یہ بہت بڑا عیش ہے۔یہ تعریف دل کو لگی تو میرے ذہن میں کئی نام آئے لیکن سرسری گزرتے گئے اور پھر افتخار عارف کے نام پر آکر نظر ٹک گئی۔ ادبی دنیا میں اس نوعیت کا مثالی عیش افتخار عارف کو نصیب ہوا ہے اور انہوں نے اس سے تخلیقی سطح پر بھرپور فائدہ اُٹھایا ہے۔مختلف سرکاری علمی و ادبی اداروں میں انہیں شایانِ شان کام ملتے گئے۔انہوں نے اپنے فرائض منصبی سے بھی ممکنہ حد تک انصاف کیا اور ان اداروں سے تعلق کے باعث اپنے اندر کے تخلیق کار کو اظہار کے لیے مناسب مواقع فراہم کیے۔یوں ان کے شعری ممکنات کھل کر سامنے آتے گئے۔
جہاں تک افتخار عارف کی شاعری کی اہمیت کا تعلق ہے،میرا خیال ہے وہ ”مہرِ دو نیم“ کی اشاعت سے پہلے ہی نہ صرف اہلِ ادب کو پوری طرح متوجہ کر چکی تھی بلکہ اپنا معترف و گرویدہ بھی کر چکی تھی۔”مہرِ دو نیم “سے لے کر ”کتابِ دل و دنیا“تک صرف افتخار عارف کے شعری ممکنات ہیں جو مزید نمایاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔افتخار عارف کی بنیادی پہچان ان کی غزل ہے۔یہ غزل اپنی روایت اور جدید غزل کی درمیانی سرحد پر اس طرح نمایاں ہے کہ دونوں طرف اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
کوئی جنوں، کوئی سودا نہ سر میں رکھا جائے
بس ایک رزق کا منظر نظر میں رکھا جائے
ہر اک سے پوچھتے پھرتے ہیں تیرے خانہ بدوش
عذابِ دربدری کس کے گھر میں رکھا جائے
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا،ہماری ہجرت کیا
اب بھی توہینِ اطاعت نہیں ہو گی ہم سے
دل نہیں ہو گا تو بیعت نہیں ہو گی ہم سے
حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے
سمندر اس قدر شوریدہ سر کیوں لگ رہا ہے
کنارے پر بھی ہم کو اتنا ڈر کیوں لگ رہا ہے
ہم نے چپ رہنے کا عہد کیا ہے اور کم ظرف
ہم سے سخن آراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
کھیل تماشا بربادی پر ختم ہوا
ہنسی اُڑا کر بازی گر خاموش ہوئے
زعمِ حشمِ جُبہ و دستار بھی دیکھ آئیں
آئے ہیں کہ گرتی ہوئی دیوار بھی دیکھ آئیں
راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا!
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
دل پاگل ہے روز نئی نادانی کرتا ہے
آگ میں آگ ملاتا ہے پھر پانی کرتا ہے
آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے
خاک کو خاک کی پوشاک سے خوف آتا ہے
رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل ایماں
امتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے
جواب آئے نہ آئے سوال اُٹھا تو سہی
پھر اُس سوال میں پہلو نئے سوال کے رکھ
ایک ہم ہی تو نہیں ہیں جو اٹھاتے ہیں سوال
جتنے ہیں خاک بسر شہر کے سب پوچھتے ہیں
میں ایسے خواب کی پاداش میں معتوب ٹھہرا
جو ساری عمر بے تعبیر رہنے کے لیے ہے
اے اجرِ عظیم دینے والے!
توفیقِ گناہ چاہتا ہوں
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
قلم آلودۂنان و نمک رہتا ہے پھر بھی
جہاں تک ہو سکے آزاد رکھنا چاہتے ہیں
ہم بھی سوچیں گے دعائے بے اثرکے باب میں
اک نظر تو بھی تضادِ منبر و محراب دیکھ
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ کب پردہ گرے گا کب تماشا ختم ہوگا
تیر و شمشیر کی شہ پاکے اچھلتے ہوئے لوگ
یہ ہیں رسوائے زمانہ انہیں نامی نہ سمجھ
میں ایک سلسلۂآتشیں میں بیعت تھا
سو خاک ہو گیا نام و نشاں کے ہوتے ہوئے
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی ہوئی عمر
سانس اکھڑتی ہے نہ زنجیرِ ہوس ٹوٹتی ہے
یہ میرے دشمن یونہی تو پسپا نہیں ہوئے ہیں
کوئی تو ہے لے رہا ہے جو انتقام میرا
شہرِ جاں بخش ہمیں تُو تو حقارت سے نہ دیکھ
جیسے بھی ہیں تری آغوش کے پالے ہوئے ہیں
غزلوں سے یہ اشعار کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے میں اپنے موجودہ موڈاور کیفیات کے مطابق کرتا گیا ہوں۔تاہم صرف ان اشعار سے بھی افتخار عارف کی غزل کے موضوعاتی تنوع کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اس غزل کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔بعض لکھنے والوں نے کوئی نکتہ آفرینی کی ہے تو بعد والوں نے اس نکتہ آفرینی سے اختلاف کرکے بات سے بات نکالنے کا ہنر دکھا دیا ہے۔یہ نسخہ میرے لیے بھی کارگر ہو سکتا ہے لیکن میں کوئی تنقیدی کاری گری دکھانے کی بجائے صرف افتخار عارف کی غزل پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنا کافی سمجھتا ہوں۔
بابِ عقیدت میں جتنی دینی شاعری شامل ہے وہ دینی شاعری ہو کر بھی ادب کے اعلیٰ معیار کی حامل ہے۔
بات صرف عقیدے اور عقیدت تک نہیں رہتی بلکہ اس میں اس عہدکے المیوںکی گونج ایک دعائیہ آہنگ پیدا کر دیتی ہے۔ ویسے بھی دعاافتخار عارف کی زندگی اور شاعری میںایک مضبوط ستون کی طرح موجود ہے،جس نے ان کی زند گی اور شاعری کو مضبوط سہارا دے رکھا ہے۔عقیدت سے مملو شاعری نظمیہ ہے لیکن اس پر افتخار عارف کی غزل کا مزاج پوری طرح حاوی ہے۔بلکہ افتخار عارف کی دوسری نظمیں ،آزاد نظمیں ہوتے ہوئے بھی حقیقتاً غزل ہی کے زیرِاثر ہیں یا غزل کی توسیع ہیں ۔ وہ جدید نظم بہت اچھی کہتے ہیں لیکن اس کے ڈانڈے راشد اور میرا جی کی نظم کی بجائے اقبال اور فیض کی نظم سے ملتے ہیں۔ اقبال اور فیض کی نظمیں بھی غزل کی روایت کے زیر اثر رہی ہیں اور اسی روایت کی توسیع کرتے ہوئے ان کی نظموں میں ظاہر ہوئی ہیں۔کہیں کہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ اقبال اور فیض کی نظمیہ روایت سے ہٹ کر اخترالایمان کی نظمیہ روایت کو چھوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں،جو خود اقبال کی نظم اور راشد و میرا جی کی نظم کے درمیان اپنی الگ پہچان بناتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان کی سیاسی علائم پر مبنی نظموں کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انہیں میڈیا کے حالاتِ حاضرہ کے سیاسی و عالمی حوالوں سے بھی سنایا جاسکتا ہے،اور مختلف اینکر پرسنز کے ذریعے سنایا جاتا رہتا ہے۔یہ کوئی ادبی خوبی والی بات تو نہیں لیکن جب ”گفتگو عوام سے ہے“ توپھر ایسی نظموں کا بلکہ ساری شاعری کا میڈیا پر سنایا جانا اور پسند کیا جانابھی بہر حال ایک اضافی خوبی بن جاتا ہے۔
”کتابِ دل و دنیا“افتخار عارف کا اب تک کا شعری اثاثہ ہے لیکن یہ”کلیاتِ میر“ یا کلیاتِ منیر“نہیں ہے۔الحمد للہ افتخار عارف زندہ بھی ہیں اور تخلیقی لحاظ سے بدستور متحرک بھی۔سو اس کتابِ دل و دنیا کے نئے ایڈیشنز میں ابھی مزید اضافوں کی امیدکی جانی چاہیے۔ میں اسلام آباد سے بھیجے جانے والے اس خوبصورت تحفہ کے لیے افتخار عارف کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ”کتابِ دل و دنیا“کا اپنی محدود دنیا میں تہہ دل سے خیرمقدم کرتا ہوں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جدید ادب جرمنی۔ شمارہ :۱۶،جنوری تا جون ۲۰۱۱ء)