سلطان جمیل نسیم۱۹۳۵ءمیں آگرہ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۵۱ءمیں انہوں نے اپنا پہلا افسانہ لکھا۔انہیں لکھتے ہوئے لگ بھگ ساٹھ سال ہو گئے ہیں۔میری پیدائش ۱۹۵۲ءمیں ہوئی تھی۔گویا میری کل عمر سے بھی سلطان جمیل نسیم کی قلمی عمرزیادہ ہے۔سلطان جمیل نسیم نے جب لکھنا شروع کیا اس وقت اردو ادب میں دو تین بڑی توانا لہریں چل رہی تھیں۔ایک طرف تقسیم بر صغیر کے بعد کے انسانی المیہ کو دونوں طرف کے شاعر اور ادیب اپنے اپنے انداز سے بیان کر رہے تھے اور اس حوالے سے کئی بڑی کہانیاں لکھی جا رہی تھیں۔دوسری طرف ترقی پسند تحریک کی گھن گرج نے انقلابی اقدارکو متعارف کرانا شروع کر دیاتھا۔پھر اسی ترقی پسند تحریک کے دوش بدوش اور کہیں اسی کے اندر سے جنم لیتی ہوئی منٹو جیسی حقیقت پسندی تھی جس نے پرانی اقدار والے ماحول میں ایک کہرام برپا کر رکھا تھا۔ایک اور طرف سے ادب میں پاکستانیت کے خدو خال کی بات شروع ہو رہی تھی۔سو اس لحاظ سے بڑی ادبی گہما گہمی کا ماحول تھا جس میںسلطان جمیل نسیم کے لکھنے کی ابتدا ہو رہی تھی۔
ایسے پُر شور،پُرزورادبی ماحول کے باوجود سلطان جمیل نسیم نے جب لکھنا شروع کیا تواپنا ایک دھیما لہجہ اختیار کیا۔وہ ملک کی ادلتی بدلتی سیاسی صورتحال سے بھی با خبر رہے،مزدور،کسان اور غریب سے بھی انہیں ہمدردی رہی،انسانی اقدار ان کے پیش نظر رہیں،جنس کو انہوں نے شجرِ ممنوعہ نہیں سمجھا لیکن جنسی چٹخارے سے کہانی کو مقبول بنانے کی کاوش نہیں کی۔وہ ادبی تحریکوں اور ادبی مباحث سے پوری طرح با خبر رہ کر کسی خاص نظریاتی راہ پر چلنے کی بجائے ان راہوں کے ساتھ ساتھ یاآس پاس اپنی راہ خود تراشنے اور اس پر گامزن رہنے میں بہتر محسوس کرتے اور اسی طرح انہوں نے ساٹھ برس اردو ادب کی خدمت میں گزار دئیے۔ مذکورہ بالا تمام ادبی رویوں اور تحریکوں کے دوران جب جدید افسانے کا دور آیا اور اس میں علامتی کے ساتھ تجریدی افسانے کی بڑے پیمانے پر پذیرائی کی جانے لگی،سلطان جمیل نسیم تب بھی اپنے آپ میں مگن رہے۔مقبول ہونے کے کسی کارگر شارٹ کٹ کی چکا چوند نے بھی انہیں مرعوب نہیں کیا اور وہ مزے مزے سے اپنی راہوں پر چلتے رہے۔
سلطان جمیل نسیم کے ساتھ قصۂجدید و قدیم لکھتے وقت میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ تو اپنے عصر کے سارے ادبی رویوں سے باخبرہو کر اوران کے مثبت پہلوؤں سے متاثر ہو کر بھی کسی ایک طے کردہ نظریاتی لائن پر نہیں چلے تو انہیں قدیم اور جدید کے کس خانے میں رکھا جائے۔میں جو آج کے دور سے کافی حد تک قدم بقدم ہو کر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں،زمانے کی برق رفتاری کے سامنے میری اپنی بھی یہ حالت ہے کہ:
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا
تو سلطان جمیل نسیم کو قدیم اور جدید کے کس فریم میں رکھا جانا چاہیے۔اس دور کو مابعد جدید کہنا مشکل ہے۔اردو میں ”مابعد جدید“ کہنا تو مشکل بھی ہے اور مذاق بھی ۔سو قدیم و جدیدکی کوئی نشان دہی کرنے کی بجائے کہہ سکتا ہوں کہ سلطان جمیل نسیم کی تحریروں میںان کی زندگی کے سارے زمانے یکجاہو گئے ہیں۔
سلطان جمیل نسیم کی مجموعی شخصیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مجھے ایک ادبی شخصیت کی یاد ضرور آتی ہے۔اور وہ ہیں میرزا ادیب۔میرزا ادیب بہت ہی بھلے مانس ادیب تھے۔ادبی مدیر کی حیثیت سے اردو ادب کی کئی نامور شخصیات کو متعارف کرانے میں ان کا بہت سارا حصہ شامل ہے۔صحرا نور د کے خطوط اور صحرا نوردکے رومان ان کے اپنے دور کی سحر انگیز نگارشات تھیں۔میرزا ادیب اور سلطان جمیل نسیم میں سب سے بڑی قدرِ مشترک بھل منسئی ہے۔ذاتی زندگی سے لے کر اپنی تحریروں تک ایک خاص شائستگی، تہذیب اور وقار کو دونوں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے۔دونوں نے افسانے بھی لکھے اور ڈرامے بھی اور دوسری ریڈیائی تحریریں بھی۔دونوں نے بچوں کے ادب کے لیے قابلِ ذکر کام کیا۔اس ساری ہم آہنگی کے ساتھ دونوں کو لاہور اور کراچی کی اُن مقامی تہذیبوں کا نمائندہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے ،جو ہمارا سرمایۂافتخار تھیںاورجو اَب ان دونوں شہروں سے مٹتی جا رہی ہے۔
ابھی تک سلطان جمیل نسیم کے افسانوں کے چار مجموعے اور ڈراموں کا ایک مجموعہ شائع ہوا ہے۔بچوں کے لیے دو ناول بھی چھپ چکے ہیں۔ان پر ایم اے کی سطح کے دو مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ اکرام بریلوی نے ”سلطان جمیل نسیم کے افسانے تنقید اور تجزیہ“کتاب لکھی کر چھاپ دی ہے۔”جدید ادب“ نے ان کا ایک گوشہ شائع کیا ہے جس میں میرزا ادیب،انتظار حسین،مشفق خواجہ،اسلم فرخی،ڈاکٹر انور سدید،خالد سہیل کے مضامین اور وزیر آغا،جوگندر پال،شوکت صدیقی،محمد خالد اختر،ممتاز مفتی،عرش صدیقی،منشا یاد،محمد علی صدیقی،نسیم درانی،حسن منظر،آغا سہیل،احمد ہمدانی، جیتندر بلو،غلام عباس،شفیق الرحمن،احمد ندیم قاسمی،رشید امجد،قیصر تمکین ،محافظ حیدرکے تاثرات شامل ہیں۔یہ ایک بھر پور خراجِ تحسین ہے جو سلطان جمیل نسیم کے ادبی کام کا اعتراف ہے۔
جہاں تک میں سلطان جمیل نسیم کے ادبی مزاج کو سمجھ سکا ہوں،وہ اپنے کام کی تحسین کیے جانے پر خوش تو ہوتے ہیں لیکن دوسروں سے ا یسا کچھ لکھوانے میں بھاگ دوڑ نہیں کرتے۔البتہ ایک معاملہ میں انہیں دوسروں سے کہتے سنا ہے۔وہ معاملہ بھی اپنی جگہ ایک خوبصورت خوبی بن گیا ہے۔جو رسالہ بھی ان سے ان کی تخلیقات کی فرمائش کرتا ہے،اسے اپنی تخلیق بھیجیں یا نہ بھیجیں لیکن اپنے والدِ گرامی صبا اکبر آبادی کا کلام ضرور بھیجیں گے۔مجھے ان کا یہ انداز اتنا بھایا ہے کہ ہمیشہ ان کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔شاید اپنے والدصاحب کو یاد رکھنے کی ایسی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ انہیں کسی تقاضا کے بغیر اردو کی ادبی دنیا سے بھر پور پذیرائی مل رہی ہے۔ ماں کی دعا کی تو ساری دنیا معترف ہے،سلطان جمیل نسیم نے باپ کی دعا کا جلوہ بھی دکھا دیا ہے۔
سلطان جمیل نسیم کی شخصیت اور تحریروں میں قدیم ادبی و تہذیبی روایات کی بہت ساری مثبت قدریں بھی موجود ہیں اوروہ جدید دور کے عصری رجحانات سے بھی پوری طرح واقف ہیں اور مقدور بھر ان سے استفادہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ان کا سارا ادبی کام گم ہوتی ہوئی اقدار اور ایک نیا جنم لیتی ہوئی اقدار کے زمانی سنگم پرمعرضِ وجود میںآیا ہے،تخلیق و تحریر ہوا ہے۔سو ان کے ہاں ان کی زندگی میں آئے ہوئے سارے زمانوں کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں اور سرگوشیاں سنی جا سکتی ہیں۔
سلطان جمیل نسیم کے ایک قاری کی حیثیت سے ان کے بارے میں میں یہ تاثرات لکھ کر مجھے دلی خوشی ہو رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ روزنامہ ”ہمارا مقصد “دہلی۔۳۰اگست ۲۰۱۰ء)