مغربی دنیا میں مقیم اردو شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعدادمجلسی ،میڈیائی اور تقریباتی شاعروںاور ادیبوں پر مشتمل ہے۔لیکن گنتی کے چند ایسے شاعر اور ادیب بھی ہیں جو ہر طرح کی تقریباتی چمک دمک سے بے نیاز ہو کر اپنے آپ میں مگن ادبی کام کیے جا رہے ہیں۔عبداللہ جاوید کا شمار گنتی کے ان چند ادیبوں میں ہوتا ہے۔مجھے بناوٹی اور اداکاری جیسا انداز اختیار کرنے والے شاعر اور ادیب کبھی اچھے نہیں لگے۔بعض اچھے بھلے جینوئن شاعر و ادیب بھی جب خود کو بناوٹی طریقوں سے پوز کرنے لگتے ہیں تو ان پر افسوس ہوتا ہے۔عبداللہ جاوید سے رابطہ ہوا اور ان کی تخلیقات پڑھنے کا موقعہ ملا تو محسوس ہوا کہ ادب کے بناوٹی درویشوں کے ہجوم سے پرے سچ مچ کوئی ادبی درویش مل گیا ہے۔جو صلہ و ستائش کی تمنا سے بے نیاز اپنا کام کیے جا رہا ہے۔ان کی شاعری اور افسانہ نگاری دونوں نہایت اعلیٰ معیار کی حامل ہیں۔میں نے ان کے معیاری ادبی کام کی قدروقیمت کا اندازہ کرتے ہوئے ”جدید ادب“میں ان کا گوشہ چھاپنے کا ارادہ کیا توان کی طرف سے بڑا بے ساختہ قسم کا خط موصول ہوا۔اس خط کا ایک حصہ یہاں درج کررہا ہوں:
” سنا ہے آپ میرا گو شہ چھاپ رہے ہیں۔یہ نہیں کہ میں ان سب چیزوں سے بے نیاز ہوں۔میں بھی سب کی طرح آدمی ہوں۔قلم کار بھی ہوں ۔ نہ ہی سادھو سنت ہوں نہ تارکِ دنیاپیر‘ فقیراور یہ جو1970 سے‘ مشاعروں ‘ مذاکروں سے توبہ کی اور ایک کونہ پکڑا سو اس کے پیچھے ساتھی قلم کاروں کی آپا دھا پی‘ ٹانگ گھسیٹی‘ خود تشہیری ‘ اور خود سا ختہ اور نام نہاد اکا برینِ ادب ‘ نقّا دا نِ کرام اور گدّی نشینا نِ ادارہ ہائے ادب کی غلط بخشیاں‘ اور گروہ نوا زیاں اور بقول ڈاکٹر احسن فارو قی ” اپنے گھوڑے یا گھوڑی کو آگے لگا نے “کی نفسیات رہی ۔مجھے اس سے ا نکار نہیں کہ یہ سب بھی بندے بشرکے ضمیر میںازل سے شا مل ہے لیکن آٹے میں نمک کی حد تک ہوں تو کوئی مجھ سا لکھنے وا لا در گذر کر جا ئے لیکن نمک میں آٹا ہو جا ئیں تو کیا کرے۔۔؟ خود گذر جا ئے ۔۔ میں بھی قریب قریب گذر ہی گیاتھا لیکن شعروادب کی شراب” چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کا فر لگی ہوئی “ کے مطابق جان سے لگی رہی ‘ ۔“
(اقتباس از مکتوب عبداللہ جاوید بنام حیدر قریشی محررہ ۱۸ستمبر۲۰۰۸ء)
اس خط میں جن تلخ سچائیوں کا اشارا دیا گیا ہے،ان کی نشان دہی کے بعد میرے دل میں عبداللہ جاوید کی ادبی عزت و تکریم میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔عبداللہ جاوید بہت سینئر لکھنے والے ہیں۔اردو کے موقر و معتبر ادبی جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔بنیادی طور پر شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔اپنی ادبی سوجھ بوجھ کے مطابق تھوڑے بہت تنقیدی مضامین بھی لکھے ہیں جو بعض نام نہاد نقادوں کی تنقیدی بے بصیرتی سے بدرجہا بہتر ہیں۔گاہے گاہے کالم نگاری بھی کرتے ہیں اور اخباری ضرورت کے مطابق ہلکے پھلکے مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔
عبداللہ جاوید کی شاعری بے ساختہ پن،روانی اور سہل ممتنع کی خوبیوں سے لبریز ہے۔ان کے چند اشعار سے ان کی شاعری کے عمومی انداز کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
جس کو بھی دی صدا ، وہ بڑی دیر سے ملا
جو بھی بھلا لگا ، وہ بڑی دیر سے ملا
ملتے گئے جو لوگ وہ دل کو نہیں لگے
جس سے بھی دل لگا ، وہ بڑی دیر سے ملا
ہم عدالت میں بھی سچ کہتے رہے
اور جھوٹا فیصلہ ہونے دیا
آپ چھوٹے رہ گئے جا وید جی
او ر لوگوں کو بڑا ہونے دیا
عصرِ حاضر کو غرض شہرت سے ہے فن سے نہیں
ہم عبث عرض ہنر میں تھے کھلا مدّت کے بعد
عبداللہ جاوید کی غزل میں عالمی صورتحال کا ذکر بھی عمدگی کے ساتھ اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔بلکہ وہ عصری عالمی صورتحال سے اوپر اٹھ کران مناظر کو تاریخ اور وقت کے سیلِ بے کراں کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔
امن ہے بغداد میں چاروں طرف
فاختہ اُ ڑتی ہے تلواروں کے بیچ
مانگئے جاوید اب مشرق کی خیر
گھرِ گیا مغر ب کے ہتھیا روں کے بیچ
اک سیلِ بے پناہ کی صورت رواں ہے وقت
تنکے سمجھ رہے ہیں کہ وہم و گماں ہے وقت
تا ریخ کیا ہے وقت کے قدموں کی گرد ہے
قوموں کے اوج و پست کی اک داستاںہے وقت
عبداللہ جاوید کی نظموں میں بھی اسی لب و لہجہ کو اختیار کرتے ہوئے بات کی گئی ہے۔ان کی ایک نظم ”لفظ لکھتے رہو“ سے ان کی نظم نگاری کا اندازہ بھی کیا جا سکتا۔
لفظ لکھتے رہو
انگلیاں او ر قلم
اپنے خونِ جگر میں
ڈبو تے رہو
لفظ لکھتے رہو
اپنے چھوٹے بڑے درد و غم
اور چھوٹی بڑی ، جھوٹی ، سچّی خوشی
بھولی بھٹکی خوشی
دوسروں کے غموں اور خوشیوں سے
آمیز کر تے ہوئے
ساتھ جیتے ہوئے ،ساتھ مرتے ہوئے
عصرِ حاضر کے فرعون و قا رون کے
روپ ،بہروپ کو
مکر کی چھاﺅں کو ، جبر کی دھوپ کو
دیکھتے بھالتے۔۔
اور تا ر یخ کے
آئینے میں عیاں
آنسوﺅں سے رچا
خو ں میں ڈوبا ہوا
جدلیاتِ زمان و مکاں کا بناعکسِ نو دیکھتے ۔۔
اپنے لفظوں میں
فقروں میں
مصرعوں میں ، شعروں میں
حرف اور صوت کی
سب خفی و جلی
ظاہری ، باطنی
صورتوں میں
سمو تے رہو
لفظ لکھتے رہو!
عبداللہ جاوید کی شاعری میں سادہ بیانیہ میں لطیف علامتی پیرایہ اختیار کیا گیا ہے۔ان کی غزل ہو یا نظم اپنے بیانیہ کے اندر معنی کے کئی رنگ لیے ہوتی ہے۔یہی صورت ان کی افسانہ نگاری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔وہ کہانی کو سادہ بیانیہ کی صورت پیش کرتے ہیں لیکن کہانی کے اندر سے علامتی پیرایہ از خود ابھرتا چلا آتا ہے۔اس حوالے سے یوں تو ان کی کئی کہانیوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے لیکن میں یہاں بطور خاص ان کے افسانہ”میری بیوی“کا ذکر کروں گا۔ یہ افسانہ ایک طرف دنیا کی سپر پاورکی جنگی حکمت عملی کے ایک گوشے کو وا کرتی ہے دوسری طرف امریکی فتوحات کے نتیجہ میں اس کے اپنے معاشرے میں پیدا ہوتی ہوئی نفسیاتی بے چینی کو اجاگر کیا گیا ہے اور تیسری طرف ایک امریکی کا اپنے جہاز کو اپنے ہی گھر سے ٹکرا دیناایک انوکھی معنویت سامنے لاتا ہے۔اس کی عدم موجودگی کے باعث جنگی اس کی بیوی کسی اور سے مراسم قائم کر لیتی ہے اور اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ اپنی بیوی اور اس کے دوست کو ہلاک کرنے کے لیے اپنا جہاز اپنے ہی گھر سے ٹکرا دیتا ہے۔لیکن ایسا وہ کرتا نہیں،بلکہ ایسا سوچتا رہتا ہے۔کہانی کی بنت اتنی عمدہ اور کسی ہوئی ہے کہ کہیں سے سیاسی نوعیت کی کہانی کا احساس نہیں ہوتا۔ایک انسانی المیہ کے طور پر کہانی شروع سے انجام تک پہنچتی ہے۔یہ کہانی عبداللہ جاوید کی نمائندہ کہانی ہی نہیں اردو کی بہترین کہانی بھی ہے۔اکیسویں صدی کی عالمی صورتحال کے پس منظر میں اردو میں جتنی کہانیاں لکھ گئی ہیں ان میں سے پانچ کہانیوں کا انتخاب کیا جائے تو یہ کہانی ان میں شمار کی جائے گی۔
ان کی ایک اور کہانی”آگہی کا سفر“روحانی نوعیت کی ایک پر اسرار کہانی ہے۔روحانیت کے اسرار سے بھری یہ کہانی اپنے بیانیہ کے باوجود علامتی سطح پر گہری ہوتی گئی ہے۔اس کہانی کو بھی عبداللہ جاوید کی بہترین کہانیوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔ان کی باقی کہانیاں بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میںاس کے مذہبی حوالے سے عقائد کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے ۔تاہم روحانیت کے اسرار ایک سطح پر جا کر معتقدات کی سطح سے بہت بلند ہوجاتے ہیں۔عبداللہ جاوید اپنی بعض دوسری تحریروں میں بھی اور اس افسانہ میں بھی روحانیت کے سفر میں معتقدات کی سطح سے برتر روحانی مقام پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
عبداللہ جاوید اپنی شاعری اور افسانہ نگاری میں جس معیار کے ساتھ سامنے آتے ہیں،وہ معیار ان کی دوسری تحریروں میں بھی ایک کم از کم اچھی صورت میں موجود رہتا ہے۔کینیڈا میں رہتے ہوئے اور وہاں کی مجلسی چکاچوند سے الگ تھلگ رہتے ہوئے انہوں نے جو ادبی کام کیا ہے اور جس معیار کا کام کیا ہے ،وہ مغربی دنیا کے عام مجلسی اردو ادیبوں کی سطح کا نہیں ہے بلکہ اس کی ادب کی مین سٹریم میں اہمیت بنتی ہے۔اردو ادب میں عبداللہ جاوید کا شمار ان ادیبوں میں ہوگا جن کا کام کسی مغربی خطے کے اردو ادب کے تعلق سے نہیں بلکہ اردو ادب کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھتا ہے۔
ادبی شعور رکھنے والے اس حقیقت کا بخوبی ادراک کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ روزنامہ” ہمارا مقصد“ دہلی ۳۱اگست ۲۰۱۰ء)