(جمیل الرحمن کے حوالے سے)
ادبی در انداز عمران بھنڈر کے بارے میں جب میرا پہلا مضمون”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“منظر عام پر آیا تو اس کی مخالفت کے لیے میدان میں اترنے والے سارے احباب کو شمس الرحمن فاروقی صاحب سے نیاز مندی کے شرف کا دعویٰ تھا۔ان میں اشعر نجمی اور جمیل الرحمن پیش پیش تھے۔ان لوگوں نے ”فیس بکی مجمع بازی“کا جو تماشا لگایا میں نے اس کی روداداپنے دوسرے مضمون ”عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی“میں یک جا کر دی۔یہ سارا ریکارڈ انٹرنیٹ پر بہت پہلے آچکا تھا اور اس سب کے باوجود جمیل الرحمن اپنے اسی شور کی حد تک رہے۔لیکن جیسے ہی میں نے انٹرنیٹ پر برپا ہونے والی اپنی ساری بحث کو جدیدادب کے شمارہ نمبر ۱۸میں شائع کیا تو مذکورہ کیمپ میں کھلبلی مچ گئی۔اور ایک بار پھر ان لوگوں نے بے تکے پروپیگنڈہ کی بنیاد پر افواہ سازی شروع کر دی۔انٹرنیٹ پر میں نے پہلے بھی دخل اندازی سے گریز کیا تھا۔اس بار بھی گریز کیا۔
اشعر نجمی نے جب مجھے اپنی ہفوات کا پلندہ ای میل سے بھیجا تو میں نے انہیں لکھا تھا کہ انٹرنیٹ کی باتیں جب آپ اپنے رسالہ اثبات میں شائع کریں گے تب ان کا مکمل جواب دوں گا۔جواباً اشعر نجمی نے لکھا کہ ”یہ اعزاز اب آپ کو ملنے سے رہا“۔اس جواب میں انہوںنے ایک طرح سے اعتراف کر لیا کہ ان کی فضولیات صرف پروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے۔ادب سے ان کا اتنا بھی تعلق نہیں ہے کہ اسے ”اثبات“ میں شائع کر سکیں۔ ان کی ساری پروپیگنڈہ بازی سے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے اس بیان کی ایک بار پھر توثیق ہوئی جوانہوں نے مجھے پروپیگنڈہ کرنے والے منفی کرداروں کی جانب سے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی نسبت لکھا تھا:
” ”یہ بھی غور فرمالیجیے کہ اس مضمون کی اشاعت سے آپ کے پرچے کی ساکھ اور آپ کی ساکھ پر اثر پڑ سکتا ہے۔لوگ کہیں گے کہ کل تک تو آپ بھنڈر کو اٹھائے اٹھائے پھر تے تھے اور آج کیا ہوا جو اس میں اتنی برائیاں ثابت کی جا رہی ہیں۔نارنگ کے حامی یہی کہیں گے کہ قریشی صاحب کا جھگڑا کسی اور ہی بات پر ہوا ہوگا۔کچھ ذاتی مفادات کا تصادم ہوگا۔اب قریشی صاحب اسے یہ رنگ دے رہے ہیں۔میں جانتا ہوں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے“ (شمس الرحمن فاروقی بنام حیدر قریشی ۱۶جولائی ۲۰۱۱ء)
فاروقی صاحب میرے بنیادی مضمون کی حقیقت جانتے اور مانتے ہیں لیکن اشعر نجمی اور جمیل الرحمن ان کی نیازمندی کا دم بھرتے ہوئے جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے طور پر مسلسل افواہ سازی سے کام لے رہے ہیں، ویسے فاروقی صاحب کے برعکس سی ایم نعیم صاحب کا مشورہ زیادہ اہم اور صائب تھا۔ان کے بقول:
”آپ نے ان کے مضامین چھاپے تھے ،اس لیے یہ فرض بھی آپ پر عائد ہوتا تھا۔آپ کی دیانت داری کا یہی تقاضہ تھا۔ نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا ناخوشی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔“
میرے جس مضمون کی اشاعت سے مجھے روکا گیا تھا،میں نے اسے ادبی دیانت داری کا تقاضا سمجھتے ہوئے شائع کر دیا۔اس کے بعد اشعر نجمی اور جمیل الرحمن نے جتنی افواہ سازی سے کام لے کر فاروقی صاحب کی بیان کردہ ”جھوٹ اور پروپیگنڈہ “والی بات سچ ثابت کی،اس کے لیے بہت کچھ ادب کی تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہو گیا ہے۔اسے بار بار دہرانا مناسب نہیں ۔
عجیب اتفاق ہے کہ۲۲دسمبر۲۰۱۱ءکو مجھے اشعر نجمی نے اپنی ہفوات کا پلندہ ای میل سے بھیجا اور جس کے اثبات میں ”ناقابلِ اشاعت“ہونے کا بالواسطہ اقرار بھی کر لیا،اللہ کی شان کہ جن دنوں میں مجھے اشعر نجمی کی ای میل اور اپنے لکھے کے ناقابلِ اشاعت ہونے کا اقرار ملا انہیں دنوں ہی میں مجھے ایک دوست کی جانب سے ایک ای میل ملی جس کا عنوان تھا”اثبات کی نفی“۔میرے نزدیک یہ ناقابلِ اشاعت ہی نہیں ناقابلِ بیان بھی ہے۔اس میں اشعر نجمی کی ذاتی زندگی کے حوالے سے بعض نہایت افسوس ناک اور دردناک باتیں لکھی ہوئی تھیں۔اگر وہ باتیں محض پروپیگنڈہ تھیں تو جس نے بھی وہ کام کیا ہے میرے نزدیک انتہائی بے شرم انسان ہے۔اشعر نجمی اس کے خلاف کچھ کرنا چاہیں تو میں تہہ دل سے ان کا ساتھ دوں گا۔لیکن اگر اس ای میل میں درج بعض سنگین نوعیت کی باتیں واقعی سچ ہیں تو میرے نزدیک اشعر نجمی قابلِ رحم انسان ہیں۔عین انہیں دنوں میں مجھے اس ای میل کا ملنا ،شاید قدرت کی طرف سے تسلی کا اشارا تھا کہ جو لوگ تمہارے منہ لگ رہے ہیں،ان کی اصل حقیقت یہ ہے۔
اشعر نجمی ایک اور لحاظ سے بھی ہمدردی کے لائق ہیں۔اپنے قریبی ادبی احباب میں وہ یہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کی حمایت میں لڑائیاں ہم لڑتے رہتے ہیں لیکن جب کسی سیمینار یا کانفرنس کی نوبت آتی ہے تو فاروقی صاحب ہماری جگہ بعض دوسرے ادیبوں کے نام تجویز کردیا کرتے ہیں۔اسی طرح کچھ عرصہ پہلے انہوں نے تگ و دو کرکے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔شمس الرحمن فاروقی صاحب کو مدعو کیا گیا۔وہاں انہوں نے ،اشعر نجمی کے رسالہ کی تقریب ہی میں اس تشویش کا اظہار کیا کہ ادبی رسائل کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔مجھے رسالہ دیکھنا اورسنبھالنا پڑتا ہے۔پتہ نہیں میرے بعد رسالے کا کیا حال ہوگا۔روئے سخن اشعر نجمی کی طرف تھا یا کسی اور کی طرف،وہ خود بہتر بتا سکتے ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اشعر نجمی نے کسی کے آگے اس تقریر کا رونا بھی رویا ہے۔
اس سب کچھ کے باوجودمیرا اشعر نجمی سے کوئی جھگڑا نہیں،میرا سارا معاملہ ادبی درانداز،نام نہاد فلسفی اور جعلی مفکر عمران بھنڈر سے ہے۔اس کے معاملہ میں میری بنیادی رائے سے شمس الرحمن فاروقی صاحب پوری طرح متفق ہیں۔
”ذہنِ جدید“ میں بھنڈر صاحب کو”نوجوان فلسفی“کہا گیا تھا،یہ بات میری نظر سے نہ گزری تھی۔کاتا اور لے دوڑی اسے کہتے ہیں۔آپ نے بھنڈر صاحب کی خوب خبر لی ہے۔۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نارنگ کے سرقوں کو آشکار کرنے کے سوا بھنڈر کا کوئی کام کسی خاص قدر کا حامل نہیں۔جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔۔بھنڈر کو لوگ اب بھول رہے تھے،کیونکہ ان کی دلیلوں کے باوجود نارنگ کا کچھ بھی نہ بگڑا تھا۔“ شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)(۱۶جولائی ۲۰۱۱ء)
اشعر نجمی ،جمیل الرحمن اور ہمنوا جس بات پر میرے خلاف ”افواہ سازی سے کام لے کر جھوٹا پروپیگنڈہ“کر رہے ہیں،وہ بات تو شمس الرحمن فاروقی بھی مان رہے ہیں۔پھر فاروقی صاحب کے لیے محبت کی مٹھاس اور میرے لیے نفرت کا زہر، یہ دوہرا معیارکیوں ؟
جدید ادب کے شمارہ نمبر۱۸میں احسان سہگل صاحب کا ایک مضمون شائع کیا گیا تھا۔”جمیل الرحمن کی چالیس سالہ شاعری کا سفر اور نتیجہ“۔اس پر جمیل الرحمن نے”مغلوب الغضب“ہو جانے کی حد تک شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔اس سلسلہ میں پہلی ضروری وضاحت یہ ہے کہ یہ مضمون سہ ماہی”ترسیل“ ممبئی کے شمارہ جولائی تا ستمبر۲۰۰۹ءمیں چھپ چکا ہے۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۸جنوری ۲۰۱۲ءمیں اسے شائع کیا گیا ۔”’ترسیل “میں اشاعت کے اڑھائی سال بعد جدید ادب میں مضمون چھپنے پر جمیل الرحمن جس طرح سیخ پا ہوئے ہیں وہ میرے لیے حیران کن ہے۔یہ مضمون مجھے چار سال پہلے بھیجا گیا تھا۔اس میں بیان کردہ اغلاط کی نشان دہی تو بڑی حد تک درست تھی لیکن مضمون کا لہجہ خاصا سخت تھا۔میں نے احسان سہگل صاحب سے دو تین باتیں کیں۔پہلی تو یہ کہ مضمون کا لہجہ ادبی ہونا چاہیے ۔ دوسری یہ کہ مضمون میں جہاں خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے وہیں اس کی خوبیوں کا بھی تذکرہ ہونا چاہیے۔ورنہ مضمون یک طرفہ ہو کر رہ جائے گا۔ان باتوں کے ساتھ میں نے ان سے یہ بات بھی کی کہ مغربی دنیا میں پہلے ہی جینوئن لکھنے والے بہت کم ہیں۔بھرتی کے لکھنے والوں اور جعلی لکھنے(لکھوانے) والوں کی بھرمار ہے۔ایسے میں اگر جینوئن لکھنے والوں کو ہی زد پر رکھا گیا تو اس سے بھرتی کے لکھنے والوں اور جعلی لکھنے(لکھوانے) والوںکی مزید حوصلہ افزائی ہو گی۔
میری پہلی دو باتوں کے مطابق احسان سہگل صاحب نے اپنے مضمون پر نظر ثانی کی اورمجھے کچھ عرصہ کے بعد پھر بھیج دیا۔میری تیسری بات سے انہوں نے اتفاق تو کیا لیکن اپنے اختلافی مضمون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔اس سارے رابطہ کے دوران ان کا مضمون”ترسیل“ ممبئی میں چھپ گیا تو مجھے”جدید ادب“ میں اس کی اشاعت روکنے کا ایک ہلکا سا جواز مل گیا۔تاہم جب جمیل الرحمن نے بغیر کسی علمی و ادبی جواز کے عمران بھنڈر کی مابعد جدیدیت کی حمایت کے نام پر میرے خلاف نازیبا مہم شروع کی اور مجھے اس کا سارا ریکارڈ درست کرکے چھاپنا پڑا،تو مجھے مناسب لگا کہ احسان سہگل صاحب کا وہ مضمون بھی شائع کردوں جس پر انہوں نے میرے کہنے پر نظر ثانی کی تھی۔
”ترسیل“انڈیا سے چھپتا ہے لیکن اس کے مدارالمہام انگلینڈ میں ہی ہوتے ہیں۔جمیل الرحمن بھی انگلینڈ میں ہوتے ہیں۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ مضمون کے جس ورشن میںخاصی سخت زبان اختیار کی گئی ہے ،اس کی اشاعت پر تو جمیل الرحمن نے گہری خاموشی اختیار کر لی۔ لیکن جس ورشن میں نہ صرف ادبی زبان استعمال کی گئی بلکہ ان کی شاعری کے بعض مثبت پہلوؤں کا اعتراف بھی کیا گیا،اس پر وہ بھڑک اٹھے۔اس سے دو ہی نتیجے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔یا تو ”جدید ادب“اتنا اہم ادبی رسالہ ہے کہ اس میں مضمون چھپنے سے ان کی ادبی حیثیت متزلزل ہو گئی ہے۔اور یا پھر انہیں وہ عزت راس نہیں آئی جوان کے یے ”ترسیل“ کے مقابلہ میں”جدید ادب “ میں ملحوظ رکھی گئی۔
احسان سہگل صاحب کے مضمون کے دوسرے ورشن کی اشاعت کے بعد جمیل الرحمن نے انہیں کچھ جواب دینے کی کوشش کی۔اس پر جواب الجواب کا سلسلہ چلا،ادبی بحث اچھے پیرائے میں چلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔لیکن پھر صرف یہ کہہ کر بحث سے فرار اختیار کر لیا گیا کہ احسان سہگل نے قتیل شفائی کی سند پیش کی ہے اور وہ تو محض فلمی شاعر ہیں۔بے شک قتیل شفائی فلمی شاعر ہیں لیکن وہ ادبی شاعر بھی ہیں اور ان کی فلمی شاعری کا بھی ایک ادبی معیار ہے۔قتیل شفائی کی طرح ساحر لدھیانوی بھی جتنے اچھے فلمی شاعر ہیں اتنے ہی اچھے ادبی شاعر بھی ہیں۔مجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی سے لے کرگلزار اور ندا فاضلی تک کتنے ہی فلمی شاعر ہیں جو جتنے اہم فلمی شاعر ہیں،اس سے زیادہ اہم ادبی شاعر ہیں۔جمیل الرحمن اور اشعر نجمی جیسے سینکڑوں شاعر مل کر بھی ان میں سے کسی ایک شاعر کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے۔خصوصاً ایسے لوگ جو فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کرکے ناکام ہو چکے ہوں،انہیں ایسے جید شعراءکے بارے میں ایسی نا مناسب بات نہیں لکھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ بنیادی بحث سے غیر متعلق بات ہے لیکن فریق ثانی کی اداؤں کو دیکھتے ہوئے یہاں اتنی وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔
یہاں ریکارڈ کی درستی کے طور پریہ بتانا چاہتا ہوںکہ لندن کے جس مافیا کے ہم نوا بن کر جمیل الرحمن نے کسی زمانے میں میرے خلاف محاذ میں ایک کارندے کا کردارادا کیاتھا،اسی کے” نقاد“ کے ساتھ بعد میں ان کا پنگا ہو گیا۔انہوں نے ایک کچا پکا سا مضمون بھی لکھ لیا(مندرجات مجھے فون پر سنائے تھے)۔مجھ سے چھاپنے کا ذکر کیا،میں نے کہا آپ مضمون بھیجیں تو پھر کچھ کہہ سکوں گا۔لیکن ایک طرف غصہ ،دوسری طرف ڈر اور خوف والی احتیاط۔اپنے جوابی مضمون کی خود ہی تعریفیں کرتے رہ گئے لیکن اسے آج تک کہیں بھی چھپوانے کی جرات نہیں کر سکے۔
اسی طرح جمیل الرحمن کی کتاب چھاپنے والے پبلشر نے اپنے رسالہ میں ہی جمیل الرحمن کی شعری اغلاط کی نشان دہی کرنے والا ظفر اقبال کا خط شائع کیا تھا۔اس پر جمیل الرحمن خاصے بھڑکے رہے۔مجھ سے اس معاملہ کا رونا رویاتو میں نے کہا کہ ظفر اقبال کے اعتراضات اور اپنے جواب سارے ایک ساتھ بھیج دیں تو میں ”جدید ادب“ میں چھاپ دوں گا۔ پہلے انہوں نے وعدہ کیاکہ میں بھیجتا ہوں لیکن پھر متذبذب ہو گئے،اور کہنے لگے اس شخص کے پاس ذرائع ابلاغ ہیں،وہ پھر زیادہ مخالفت کرے گا۔میں تب سے ہی جمیل الرحمن کی حق پرستی اور بہادری کا قائل ہوں۔
جمیل الرحمن نے بعض ایسی باتیں چھیڑی ہیں جن کے بارے میں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میرا مزاج ان باتوں والا نہیں ہے،لیکن چونکہ ان کا مقصد افواہ سازی سے کام لے کر گرد اڑانا تھا سو وہ اپنی صلاحیت کے مطابق یہ کارخیر کرتے گئے ہیں۔ایسی افواہوں اور باتوں کے سلسلہ میں ہلکی سی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
ڈاکٹر رشید امجد نے کوئی ادبی انتخاب مرتب کیا،اس میں جمیل الرحمن کہیں بھی دکھائی نہیں دئیے تو انتخاب سے اپنی غیر حاضری کو انہوں نے میرا قصور قرار دے دیا ۔ڈاکٹر رشید امجد میرے سینئیر ادیب ہیں اور اسی نسبت سے ان سے نیازمندی کا شرف حاصل ہے۔جوگندر پال کے بعد میں ان کی افسانہ نگاری سے متاثر ہوا تھا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ان کے کسی ادبی انتخاب میں ان پر اثر انداز ہو تا ہوں۔جس انتخاب میں جمیل الرحمن اپنی محرومی کا رونا رو رہے ہیں،میں نے ابھی تک اسے دیکھا تک نہیں۔جمیل الرحمن ہی سے معلوم ہوا تھا کہ اس انتخاب میں میری تخلیقات تو شامل ہیں لیکن جمیل الرحمن کی کوئی چیز شامل نہیں ہے۔اگر رشید امجد یا کوئی بھی مرتب کسی انتخاب میں جمیل الرحمن کو شامل نہیں کرتاتو کیا یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اس کے خلاف آواز بلند کروں؟
جمیل الرحمن نے جب میرے آگے اس بات کا رونا رویا تھا تو میں نے انہیں صاف کہا تھا کہ آپ اس پر اپنا موقف لکھ کر بھیج دیں،اگرچہ جدید ادب میں ایسے معاملات کو نہیں چھیڑا جاتا پھر بھی میں آپ کا خط چھاپ دوں گا۔ اس کے بعد جمیل الرحمن کا فرض تھا کہ اپنا موقف مجھے لکھ کر بھیجتے۔لیکن انہوں نے ویسے ہی یہ کام بھی نہیں کیا جیسے اس سے پہلے لندن کے ”نقاد “اورظفر اقبال کے بارے میں زبانی باتیں تو کرتے رہے لیکن عملاً کچھ لکھ کر چھپوانے کی جرات نہیں کی ۔
اردو دنیا میںمختلف ادبی انتخاب چھپتے رہتے ہیں،کسی میں مجھے شامل کر لیا جاتا ہے تو جان کر اچھا لگتا ہے۔لیکن کسی میں نظر انداز کیا جاتا ہے تو بالکل برا نہیں لگتا۔جس انتخاب میں مجھے شامل کیا جاتا ہے،میں ان کے حصول کے لیے بھی زیادہ تگ و دو نہیں کرتا۔جس بندے کا اپنا یہ حال ہو وہ جمیل الرحمن جیسے شاعر کے لیے کوئی بھی کاروائی کس لیے کرے گا؟،جبکہ جمیل الرحمن آج تک کسی معیاری ادبی انتخاب میں کبھی بھی شامل نہیں کیے گئے۔اگر نعوذباللہ جمیل الرحمن کو نظر انداز کرنے والوں کے خلاف لکھنا مجھ پر واجب قرار دے دیا گیاتو صرف رشید امجد ہی نہیں مجھے تو ہر انتخاب کے مرتب کے خلاف لکھنا پڑے گا۔جمیل الرحمن آنکھیں کھول کر دیکھیں اور سمجھیں کہ انہیں کبھی بھی کسی معیاری ادبی انتخاب میںشامل نہیں کیا گیا۔یہ سامنے کی ادبی حقیقت ہے۔
یہاں کانفرنسوں اور سیمینارس کے حوالے سے بھی واضح کرتا چلوں کہ میں نے کبھی ان کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی۔پہلی اہمیت اپنے ادبی کام کو دی ہے اور اپنے لکھے پر اعتماد کیا ہے۔اس کے بعد کوئی کسی کانفرنس میں کسی تقریب میں عزت کے ساتھ بلاتا ہے تو سر آنکھوں پر!۔۔نہیں بلاتا تو وہ اپنے گھر خوش، ہم اپنے گھر خوش۔ایک بار جمیل الرحمن نے ایک طرح سے شکوہ کیا تھا کہ مجھے کسی کانفرنس یا سیمینار میں نہیں بلایا جاتا۔میں نے تب بھی انہیں یہی کہا تھا کہ اپنے لکھے پر اعتماد ہو تو کسی کانفرنس اور سیمینار کی طلب نہیں رہتی۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جمیل الرحمن اور اشعر نجمی دونوں اس معاملہ میں شاکی ہیں۔
ادبی انتخاب اور کانفرنسوں کی طرح ادبی انعامات کا معاملہ ہے۔اس سلسلہ میں جمیل الرحمن کے نازیبا اعتراضات کا جواب لکھنا بھی اپنی توہین سمجھتا ہوں۔مجھے پہلے دن سے اس کا ادراک ہے کہ یہ میرا میدان نہیں ہے۔تاہم یہاں اتنا ضرور لکھنا چاہوں گا کہ مجھے امریکہ سے نیر جہاں نے ایک بار اپنے سووینئیرز کا ایک بھاری بھر کم پیکٹ بھیجا تھا اور ساتھ لکھا تھاکہ:
”حیدر صاحب۔سلام مسنون از راہِ کرم ان مجلوں کے بارے میں مجھے ضرور اپنی رائے سے آگاہ کیجئے گا۔آپ کی رائے ہمارے لئے بہت اہم ہو گی۔اسے ہم اپنی فائل میں بطور انعام رکھیں گے“ آپ کی نیّر آپا ۷اپریل ۲۰۰۸ء
انعامات بانٹنے والی کسی معزز خاتون کی فرمائش پوری کر دینا کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن میں نے اس سے محض اس لیے احتراز کیا کہ کہیں میرے تبصرہ یا مضمون سے کسی ”حسنِ طلب“کی غلط فہمی نہ پیدا ہو جائے۔سو میں نے ان مجلات پر تبصرہ کرنے سے احسن طور پر معذرت کر لی۔
جمیل الرحمن نے ڈاکٹرپرویز پروازی اور نعیمہ کو بلا وجہ اس معاملہ میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔میرا خیال ہے جمیل الرحمن بلاوجہ ان دونوں کو مزید خراب نہ کریں ان کے بارے میں جو کچھ آن ریکارڈ آچکا ہے وہی کافی ہے۔افسانوں کے باب میں آئزک عظیموف والے افسانے کا نعیمہ لوگ خود اعتراف کر چکے کہ بیٹا اسکول سے کہانی سن کر آیا تھا اور اسی پر کہانی لکھ دی گئی اور اب اس کے آخر میں ”ماخوذ“ لکھ دیں گے۔ دوسرے افسانے کا جواب گول کر گئے۔اس سرقہ کی تفصیل پی ایچ ڈی کے مقالات میں بھی آچکی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اتنا کافی ہے۔تاہم اگر جمیل الرحمن اسی طرح طعنہ زنی سے کام لیتے رہے تو میرا کیا ہے ان کا مطبوعہ مجموعہ”کربِ ذات“ بھی سکین کرکے آن لائن کیاجا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ جمیل الرحمن انہیں اس معاملہ میں نہ گھسیٹیں۔
پرویز پروازی اور جمیل الرحمن کے بارے میں جو کچھ لکھ چکا ہوں،وہ اقتباس اپنے مضمون ”عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی“ میں پورے حوالوں کے ساتھ دے چکا ہوں۔ وہ تین حوالے یہاں بھی درج کر رہا ہوں۔
۱۔(”جدید ادب“ جرمنی شمارہ نمبر ۹۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ئ۔صفحہ نمبر ۱۷۹،۱۸۰۔”عمرِ لاحاصل کا حاصل “صفحہ نمبر۴۹۰،۴۹۱،۔۔یادوں کا باب ”روح اور جسم“)
۲۔(”جدید ادب“ جرمنی شمارہ نمبر ۱۰جنوری تا جون ۲۰۰۸ء۔صفحہ نمبر ۶۔بہ عنوان ”ایک چھوٹی سی وضاحت“)
۳۔(یادوں کا باب ”زندگی در زندگی“۔مطبوعہ ”جدید ادب “جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۶۔جنوری تا جون ۲۰۱۱ء)
ان حقائق کے ہوتے ہوئے جمیل الرحمن ایک بار پھر از خود میری طرف آئے تھے۔اب وہ سمجھتے ہیں کہ میں بلاوجہ ان کے اور ڈاکٹر پرویز پروازی کے خلاف لکھتا رہتا ہوں تو تجاہلِ عارفانہ کی انتہا ہے۔آپ اور پرویز پروازی میرے خلاف جس غلیظ مہم کا حصہ رہے تھے،وہ آپ دونوں کی ادبی زندگی کے ریکارڈ پر رہے گی۔چونکہ آپ نے خود ڈاکٹر پرویز پروازی کا ذکر چھیڑا ہے توان کے کزن منیرالدین احمد کاپروازی کے بارے میں بیان کردہ ایک واقعہ بھی یہاں درج کر دینا مناسب لگتا ہے۔یہاں یہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر پرویز پروازی اپنے کزن منیرالدین احمد کی افسانہ نگاری پر ایک توصیفی مضمون لکھ کر اسے ”اوراق“ اور ”ادبِ لطیف“میں شائع کرا چکے ہیں،تو ان کے وہی کزن ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”پرویز پروازی تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں بی اے کے آخری سال میں تھا۔اس کو سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک کرنے کے بعد ایک سال تک کالج میں داخلہ نہ مل سکا تھا،اس لیے اسے ربوہ کے فضلِ عمر ہسپتال میں کلرکی کرنی پڑی تھی۔البتہ اسے وہاں سے جلدہی جواب مل گیا۔جس کے سبب ماموں احمد خاں نسیم کو اس کی پڑھائی کے لیے اپنے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو مرزا ناصر احمد سے بات کرنی پڑی تھی،جو تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل تھے۔پروازی کو ہسپتال سے جواب اس لیے ملا تھاکہ ایک روز اس کو اپنے افسرِ اعلیٰ ڈاکٹر مرزا منور کے دستخطوں کی نقل کرتے ہوئے کسی نے دیکھ لیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ اس کا ارادہ کسی قسم کی دھاندلی کرنے کا نہ تھا بس یونہی بیکار بیٹھے ہوئے وہ قلم چلا رہا تھاجیسے دوسرے لوگ ایسے میں کوئی تصویر بناتے ہیں یا یونہی کاغذ پر ٹیڑھی سیدھی لکیریں کھینچتے ہیں۔البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ اس زمانے میں ایک شخص کے زیر اثر تھا جوصدر انجمن احمدیہ کا کارکن تھا اور حسابات میں گڑ بڑکرنے کے سبب ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔اس نے بھی اپنے افسرِ اعلیٰ کے جعلی دستخطوں سے رقم غصب کی تھی۔“
(ڈھلتے سائے از منیرالدین احمد۔باب:جامعتہ المبشرین کی کہانیاں)
سو مناسب ہوگا کہ جمیل الرحمن بلاوجہ پرویز پروازی کو اپنے کسی مفاد پرستانہ جھگڑے میں گھسیٹ کر مزید خراب نہ کریں۔
جمیل الرحمن نے اپنی طرف سے رعونت کے ساتھ لکھا ہے میں نے اس بار غلط لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے۔قطع نظر اس سے کہ جمیل الرحمن جو اپنے معاملات میں لندن کے نقاد اور ظفر اقبال کے معاملہ میں آج تک دبکے بیٹھے ہیں،میں اعتراف کرتا ہوں کہ بے شک میں نے بھنڈر جیسے برخود غلط بندے پر ہاتھ ڈالا ہے اور ایسا ہاتھ ڈالا ہے کہ اس کے پاس میرے سات نکات کے جواب میں ایک بھی دلیل اور ٹھوس جواب نہیں ہے،علمی و ادبی دنیا میں اسے اب جو ذلت مل چکی ہے وہ اس کا مقدر ہے۔اب جمیل الرحمن جیسے لوگ بھی خود کو غلط ثابت کرنے کے لیے از خودگھس آئے ہیں تو ان کی قسمت ہے۔
ایک مزے کی بات یہ ہے کہ مجھ پر حملہ کرتے ہوئے جمیل الرحمن کئی بار مجھ پر ویسے ہی اعتراض کرتے ہیں جیسے غالب پر کیے جاتے رہے۔پچھلی بار انہوں نے لکھا تھا یہ حیدر کون ہے؟اور مجھے غالب والا جواب ہی لکھنا پڑا کہ کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا۔(”عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی“)اس کے بعداحسان سہگل کے اعتراضات کے معقول جواب دینے کی بجائے میری شاعری پر اعتراض کر دئیے ہیں۔ان میں معنی نہ ہونے کا اعتراض بھی شامل ہے۔اسے پڑھ کر مجھے بے اختیار غالب ہی کا جواب یاد آگیا نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی۔خدا کا شکر ہے کہ اس دور میں مغلیہ سلطنت قائم نہیں ہے وگرنہ جمیل الرحمن استادِ شاہ ہوتے اور میرا وہی حال ہوتا جو غالب کا ہوا تھا۔لیکن پھر بھی غالب سے کسی نوعیت کی نسبت بھی میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔جمیل الرحمن اپنی استادی میں خوش رہیں۔
سرشت اس کی قصیدہ ،غزل مزاج مِرا
یہاں مجھے جمیل الرحمن کے ایک قریبی دوست حنیف تمنایاد آگئے۔انہوں نے ایک بار جمیل کو ہی مخاطب کر کے کہا تھاکہ۔۔۔ساری زندگی شاعری کے نام پر نعرہ بازی کرتے رہے ہو۔پہلے تم کیمونسٹ بنے اور ایک سیاسی جماعت کے لیے شاعری کے نام پر نعرے لکھتے رہے۔پھر مومن بنے اور جماعت کے نام پر نعرے لکھ رہے ہو۔آخر شاعری کب کروگے؟ میں نے حنیف تمنا کو سمجھایا تھا کہ ایسی شاعری میں کوئی حرج نہیں۔یہ بھی ایک دنیا ہے۔ہر مذہب و مسلک کی دنیا میں ایسی شاعری کی ایک خاص اہمیت ہے۔اور ایسے شاعر کی بھی اہمیت ہوتی ہے۔یہ الگ بات کہ اسے عقیدے کے پیمانے پر دیکھا جاتا ہے۔ادب کے پیمانے سے نہیں۔ان ساری باتوں کا جمیل الرحمن کو بخوبی علم ہے۔
میرے خلاف پروپیگنڈہ میں جمیل الرحمن نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ مجھے خطوط لکھنے اور فون کرنے میں احتیاط سے کام لیا جائے،کیونکہ میں بعد میں ان خطوط کو شائع کر دیتا ہوں۔اس سلسلہ میں میرا موقف یہ ہے کہ کسی کے نام لکھے گئے خطوط ہوں،ای میلز ہوں یا ٹیلی فون کالز۔۔آپ جو بات کریں سچائی کے ساتھ کریں اور اس کو تسلیم بھی کریں تو کسی احتیاط کی ضرورت نہیں۔وگرنہ منافقانہ خط لکھنا اور فون پر کچھ کہنا،حقیقت میں کچھ اور ہونا۔توایسا کرنے والے ”۔۔۔دوست“ احتیاط ہی کریں تو اچھا ہے۔
یہاں واضح کر دوں کہ کسی ادبی تنازعہ کی صورت میں جب حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جائے تو میں دستیاب مواد میں سے حقائق ضرور پیش کرتا ہوں۔تاہم میں نے آج تک کسی دوست کی طرف سے اس تاکید کے بعد کہ یہ خط میری امانت ہے، امانت میں آج تک خیانت نہیں کی۔کوئی ایک دوست یا دشمن مجھ پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ اس نے مجھے کوئی بات امانتاًبتائیلکھی اور میں نے اس بات کو افشا کر دیا۔نجی خطوط کے حوالے سے یہی میرا موقف اور زندگی بھر کا طرزِ عمل ہے۔
جمیل الرحمن نے پیدائشی روحانیت کا طنز بھی فرمایا ہے۔روحانیت ہر روح کا روحِ اعظم سے اپنا اپنا تعلق ہے۔جمیل الرحمن کی روح کو اُس سے کیااور کیسا تعلق ہے؟ مجھے اس پر کسی سوال یا اعتراض کی ضرورت نہیں ہے۔میرابھی ایک روح کی حیثیت سے کچھ نہ کچھ تعلق تو روحِ اعظم سے بنتا ہے،اسے آپ کیوں سوہانِ روح بناتے ہیں؟
جمیل الرحمن بھول گئے انہوں نے تجدید دوستی میری یادوں کے اس باب سے کی تھی جو” رہے نام اللہ کا“ کے عنوان سے چھپا تھا۔لیکن اب انہوں نے مکر جانے کا طے کر لیا ہے تو تب بھی یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ گناہ گار لوگوں کی باتیں ہیں آپ صالحین و مومنین کیوں اپنی جان ہلکان کرتے ہیں۔
نعوذ باللہ، نعوذ باللہ مجھے کسی روحانیت کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔میں انسان ،کائنات اور خدا کے بارے میں اپنی ذ ہنی حد تک غور و فکر ضرور کرتا رہتا ہوں۔اس غور و فکر کے اثرات و ثمرات میری تحریروں میں موجود ہیں۔میرے نزدیک سچا خواب توایک طوائف بھی دیکھ سکتی ہے۔اس کے باوجود اب اس موضوع پر بات شروع ہوئی ہے تو جمیل الرحمن کی دلچسپی کے لیے لکھ رہا ہوں کہ میں نے اپنا مضمون”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“ابھی مکمل نہیں کیا تھا اور میں نے ایک خواب دیکھا۔خواب یہ تھا کہ بھنڈر زمین پر گرا پڑا ہے،اس کی حالت خاک آلود اور نہایت ذلت ناک ہے،اور اس کی مریضانہ حالت دیکھ کر مجھے بھی کچھ ترس آرہا ہے۔ یہاں تک تو میرا خواب تھا۔اب اس سے پہلے کا منظر بھنڈر کے خواب میں دیکھیے۔میں نے جب اپنا خواب انگلینڈ کے ایک دوست کو سنایا تو وہ حیران رہ گیا اور اس نے بتایا کہ دو تین روز پہلے بھنڈر نے خواب دیکھا تھا کہ وہ آسمان سے بڑی تیزی کے ساتھ زمین پر گرتا چلا جا رہا ہے۔تو جناب بھنڈر نے جو خواب دیکھا تھا اس کا دوسرا حصہ خدا نے مجھے دکھا دیا۔اب آپ خود بھنڈر سے تصدیق کر لیں کہ واقعی اس نے یہ خواب دیکھا تھا یا نہیں۔میں نے تب ہی ایک دو دوستوں کو اس سارے معاملہ سے آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن اس پر کسی پیدائشی روحانیت کا طنز فرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ایسا ہم ،آپ، سب کے ساتھ کبھی نہ کبھی ہو جایاکرتاہے۔یہ ہماری زندگی کے کشکول میں اُس کی طرف سے تھوڑی سی بھیک ملی ہوتی ہے۔لیکن کوئی اس کے نتیجہ میں کسی دماغی فتور میں مبتلا ہو جائے تو اس کے لیے روحانی تباہی کا موجب بھی بن جاتی ہے۔سو میرے معاملہ میں اطمینان رکھیں کہ آپ کے طنز کے باوجود میں کسی دماغی فتور میں مبتلا نہیں ہورہا۔
ہاں تحدیثِ نعمت کے طور پر خدا کے فضل و احسانات کا ذکر کرنامجھے ہمیشہ اچھا لگا ہے۔میرے جیسے بے سروسامان بندے کو جب بھی کسی نے زد پر رکھنا چاہا،خدا نے اپنے خاص فضل سے ضرور نوازا۔ اب دیکھ لیں،اس وقت بھی بھنڈر کی ہم نوائی میں جمیل الرحمن نے جو کچھ کیا اس کے نتیجہ میںخدا نے میرے ساتھ کیسا سلوک فرمایا،یہاں چندایسے فضل و احسانات کا ذکر کر دیتا ہوں،جوشاید جمیل الرحمن کے لیے معمولی باتیں ہوں لیکن یہ سب فضل و احسان والے ادبی واقعات میری زندگی میں پہلی بارہوئے ہیں۔
۱۔ان دوستوں کی مخالفانہ کاروائیوں کے بعد غیر متوقع طور پر وکی پیڈیاپر میرے نام کا صفحہ بن گیا۔
۲۔جدید ادب کا بھی وکی پیڈیا پر صفحہ بن گیا۔
۳۔اور تو اور میری کتاب”عمرِ لاحاصل کا حاصل“کا بھی وکی پیڈیا پر الگ صفحہ بن گیا۔یہ غیر معمولی اعزاز ہے۔اور میرے لیے ابھی تک ناقابلِ یقین۔
۴۔مجھے غیر متوقع طور پر ایشیاٹک سوسائٹی کلکتہ کی جانب سے فیض سیمی نار میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔نہ صرف مجھے آنے جانے کا کرایا دیا گیا بلکہ ناقابلِ یقین صورتِ حال میں ویزہ کے حصول میں خصوصی مدد کی گئی۔
۵۔غیر متوقع طور پر مجھے اس سیمی نارکی افتتاحی تقریرکرنے کا اعزاز بھی دیا گیا،جبکہ پہلے یہ تقریر شمس الرحمن فاروقی صاحب نے کرنا تھی۔
۶۔اسی سفر میں مجھے کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ہونے والے ٹیگور سیمی نار میں شرکت کا موقعہ بھی ملا اور فیض سیمی نار کی طرح میں اس سیمی نار کے پریذیڈیم میں بھی شامل رہا۔
۷۔مسلم انسٹی ٹیوٹ کلکتہ، روزنامہ عکاس کلکتہ اور اردو دوست ڈاٹ کام تینوں اداروں کی جانب سے الگ الگ میرے اعزاز میں عمدہ ادبی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔محض ادبی تقریبات کا ہونا کوئی اہم بات نہیں ہے کہ ہمارے ”بین الاقوامی شاعرو ادیب“خود منظم طور پر اپنے اعزاز میں ایسی تقریبات کراتے رہتے ہیں۔میرے ساتھ یہ ساری تقریبات کسی فرمائش،کسی اشارے کے بغیر از خود ہوتی گئی تھیں۔
۸۔دہلی میں دو دن کے لیے رکا تو وہاں بھی غالب انسٹی ٹیوٹ نے ایک تقریب برپا کر دی۔
یہ ساری تقریبات اور خدا کے سارے فضل و احسانات اس نوعیت کے ہیں کہ ان پر ابھی تک حیران ہوں۔میں ان کی خواہش بھی نہیںکرتا اور خدا اتنا کچھ عطا بھی کر دیتاہے اور اس طریقے سے جمیل الرحمن جیسے ”کرم فرماؤں“ کو بہت کچھ کہہ بھی دیتا ہے۔
کہتا ہے یہ تو بندۂعالی جناب ہے
مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے
جمیل الرحمن نے بھنڈر کی علمیت کا رعب جمانے کی بچکانہ کوشش بھی کی ہے۔پنجابی فلموں کا بڑک مارنے والا انداز اختیار کرتے ہوئے بھنڈر کو عالم فاضل قرار دیناانہیں کو مبارک ہو۔ایم اے انگریزی میں فلسفے کا ایک پرچہ ہونے کی بنا پر فلسفی اور پی ایچ ڈی بن بیٹھنے والا یہ شخص معمولی سے علم و فضل کا مالک بھی ہوتا تو ایسی حرکت کرنا تو کجا،ایسا سوچتا بھی نہیں۔بھنڈر کے نام نہاد علم و فضل کے بارے میں میری رائے وہی ہے جوجمیل الرحمن کے ادبی استاد شمس الرحمن فاروقی صاحب کی ہے۔اسے پھر دہرا دیتا ہوں۔
”ذہنِ جدید“ میں بھنڈر صاحب کو”نوجوان فلسفی“کہا گیا تھا،یہ بات میری نظر سے نہ گزری تھی۔کاتا اور لے دوڑی اسے کہتے ہیں۔آپ نے بھنڈر صاحب کی خوب خبر لی ہے۔۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نارنگ کے سرقوں کو آشکار کرنے کے سوا بھنڈر کا کوئی کام کسی خاص قدر کا حامل نہیں۔جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔۔بھنڈر کو لوگ اب بھول رہے تھے،کیونکہ ان کی دلیلوں کے باوجود نارنگ کا کچھ بھی نہ بگڑا تھا۔“ شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)(۱۶جولائی ۲۰۱۱ء)
بس یہی ہے بھنڈر کے علم و فضل کی حقیقت۔
جمیل الرحمن کا اصل دکھ یہ ہے کہ بھنڈر کا جو حشر میرے ہاتھوں ہوا ہے،اس کے نتیجہ میں صرف ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو فائدہ پہنچے گا۔وہ ہر الزام سے بری ہو جائیں گے۔اس معاملہ میں اپنا موقف اپنے پہلے مضامین میں وضاحت کے ساتھ بیان کر چکا ہوں۔یہاں اتنا لکھنا کافی ہے کہ بھنڈر کے مجموعی کردار کے تناظر میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ پر لگائے گئے الزامات پر نظر ثانی کرنا ضروری ہو گیا ہے۔۔۔۔چونکہ اب لڑائی جھگڑے والی پہلی فضا نہیں رہی،اس لیے اگر یہ نظر ثانی کے بعد بھی درست ثابت ہوں توتب بھی انہیں وحشیانہ مخالفت کی بجائے اردو کے ان سارے بڑے ادیبوں کے سرقات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے جو ادب کی تاریخ میں محفوظ ہیں اور جن کی دوسری خدمات سے انکار ممکن نہیں۔
اپنی بات سمیٹنے سے پہلے جمیل الرحمن کو احساس دلانا چاہتا ہوں کہ ان کی حیثیت خود اپنے ادبی حلقے میں کس نوعیت کی ہے۔اشعر نجمی کے رسالہ اثبات میں معید رشیدی کا ایک مضمون شائع ہوا۔اس پر جمیل الرحمن نے اپنے مزاج کی تیزی دکھاتے ہوئے نامناسب ردِ عمل ظاہر کیا۔اس کا جواب ”اثبات“ میں معید رشیدی نے لکھا۔میں معید رشیدی کے ردِ عمل کے چند اقتباسات یہاں یکجا کر رہا ہوں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خود ان کے اپنے ادبی حلقہ میں ان کی کیا ادبی حیثیت اور وقعت ہے۔
ایک خط اثبات کے لیے:معید رشیدی
”آزادیِ اظہارکوقرینے سے گہراتعلق ہے۔قرینے کی عدم موجودگی، اظہار کوجھنجلاہٹ کاغبار نکالنے کا آلۂکار بنادیتی ہے۔’اثبات‘کے شمارہ:8میں’بازیچہ ٔ اطفال کی ایک مثال‘(جمیل الرحمن)اس کاعمدہ نمونہ ہے۔اب سوال یہ ہے کہ معترض نے اعتراض کیوں کیا؟تو سنیے:
”اس مضمون کی حیثیت کے مد نظر اسے نظرانداز بھی کیاجاسکتاتھااگراس کاآغاز و اختتام جناب شمس الرحمن فاروقی کے حوالے اور اس جملے سے نہ ہوتا....“(ص:149)
کیوں صاحب، کہاں گئی آپ کی ایمانداری؟اگرنفس مضمون سے آپ کواختلاف ہے تو بلاخوف ایک ایماندار قاری کی حیثیت سے اپنا احتجاج علمی اور معروضی انداز میں درج کیجیے۔اگربات فاروقی صاحب کی نہ بھی ہوتی ،تب بھی آپ کے قلم کوخاموش نہیں رہناچاہیے تھا۔آپ کے ہرلفظ سے مصلحت اور چاپلوسی کی بوآرہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ فاضل معترض اسے ’کسی شعلہ بیان سیاسی راہنماکی جذباتی تقریر‘ (ص:148)قراردیتے ہیں۔یاتوانھیں تحریراورتقریرکافرق نہیں معلوم۔یاپھراپنی معصومیت(اندھی عقیدت/مصلحت) میں وہ شعلہ بیانی اورسیاسی تقریرکامطلب ہی نہیں سمجھناچاہتے۔یہی وجہ ہے کہ جوجی میں آتاہے،لکھتے جاتے ہیں۔شعلہ بیانی اورسیاسی تقریرکااطلاق موصوف کے اسلوب پرضرور ہوتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ہند وپاک میں ’اثبات‘کی مقبولیت کااندازہ اہل ذوق کوہے۔اتنے بڑے حلقے سے میرے مضمون پرکوئی ردعمل نہیں آیا۔اگرآیاتوانگلینڈ سے۔رد عمل دیکھ کرخوشی ہوئی۔پڑھ کرافسوس ہواکہ میرے مضمون کامطالعہ موصوف نے ایک خاص عینک سے کیاہے۔اردوادب میںاس خاص سائکی نے اپناسایہ جتنا گہراکیاہے،اسے میں ادبی طاعون سے تعبیرکرتاہوں۔ایسی ذہنیت کوسنجیدہ مکالمے کے بجائے ،کشتی کامیدان درکارہے۔ایسے لوگوں کوادب لکھنے کے بجائے کسی پارٹی سے ٹکٹ لے کرالیکشن لڑناچاہیے۔خداکے لیے ادب کوسیاست کااکھاڑانہ بنایئے۔یہی وہ شعبہ بچاہے جہاں روح کوغذاملتی ہے۔ضمیرکی پرورش ہوتی ہے۔ادب کو ادبی معیار وںپرپڑھناچاہیے،جدیدیت اورمابعدجدیدیت کی عینک سے نہیں۔موصوف اگر میرامضمون بغورپڑھتے توشاید انھیں اپنی توانائی اورروشنائی بربادکرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔۔۔۔۔۔۔جس ادبی معاشرے میں کسی رائے کوحتمی سمجھاجاتاہو،سوچ پرقدغنیں لگائی جاتی ہوںاوراظہار خیال پرلٹھ لے کر پل پڑنے والے ادبی غنڈے بستے ہوں ،وہاں بھی لفظ گونگانہیں ہوتا!۔“(اثبات شمارہ نمبر ۹)
ان اقتباسات کا ایک ایک لفظ عبرت انگیز ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس میں جمیل الرحمن کی پوری نفسیات کھول کر دکھا دی گئی ہے۔یہ کارِ خیر انہیں کے حلقہ کے ایک دوست کے ذریعے اوران کے عزیز دوست اشعر نجمی کے رسالہ اثبات میں انجام دیا گیا۔جدید ادب میں احسان سہگل کا جو مضمون شائع کیا گیا تھا،اس میں علمی نکات بے شک اٹھائے گئے تھے لیکن اس مضمون کا لب و لہجہ دوستانہ تھا۔اس کے باوجود جمیل الرحمن کو اس کی اشاعت پر”غیرت“آگئی،لیکن لندن کے نقاد،ظفر اقبال کے اعتراضات اوراپنے ہمنوا اشعر نجمی کے رسالہ ”اثبات“ میں اپنی ایسی مرمت پر جمیل الرحمن کی” غیرت “کہاں چلی گئی؟
آخر میں اتمام حجت کے طور پر بھنڈر سے متعلق اپنے گزشتہ مضامین کے تناظر میں سات بنیادی نکات کو ایک بار پھردہرا رہا ہوں۔یہ سات سوال نہیں بلکہ وہ سات آسمان ہیں جن کی بلندی سے بھنڈر بڑی تیزی کے ساتھ گرا اور گرتا چلا گیااوراب خاک آلود حالت میں نہایت ذلت کے ساتھ زمین پر پڑا ہوا ہے۔
۱۔عمران شاہد بھنڈر نے2007ءمیں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوعPostmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ءسے لے کر جون 2011ءتک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔
۲۔خود کو شعبۂتعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂتعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂتعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفیسرلگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟
۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود” نوجوان فلسفی“ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ”نابغہ“ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔
۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔
۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔
۶۔عمران شاہد بھنڈر جو سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے خود ہی اپنی تعریف میں اوراپنے مخالفین کی مذمت میں مضامین لکھتے رہے ہیں،اس بارے میں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر ان کا کم سن بیٹا ہے۔بچے کی قانونی حیثیت کیا ہے،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن عمران بھنڈر ابھی تک خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتے رہے ہیں،تو دوسروں پر غلیظ اور جھوٹے حملے کرنے سے پہلے غیر شادی شدہ باپ کی حیثیت سے انہیں اپنی اخلاقی حیثیت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔
۷۔”نوجوان فلسفی“ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔
آخری نکتہ کے سلسلہ میں وضاحت کر دوں کہ اردو کے اچھے اور معیاری ادب کا وہ جو بھی انتخاب کریں،اس کا مطالعاتی جائزہ پیش کرتے وقت ان پر پابندی ہو گی ۔وہ اپنے ایم اے کے نصاب والے مفکرین کانٹ،ہیگل،مارکس اور دریدا کا کوئی ذکر نہیں کریں گے۔اردو ادب کا مطالعہ مذکورہ مفکرین کے حوالوں کے بغیر ہونا چاہیے۔یہ کھلی حقیقت ہے کہ ایم اے کے ان نصابی ناموں کے علاوہ انہیں کچھ آتا ہی نہیں ہے۔یہ میری طرف سے پوری ادبی دنیا کے سامنے بھنڈر صاحب کو چیلنج ہے۔یہ سنجیدہ اور عملی تنقید کا کام کرکے ہی وہ کسی شمار میں آئیں گے۔متعدد ادیبوں نے اردو میں ترجمہ بلا حوالہ یا سرقات و جعلسازی کی نشان دہی کی ہے لیکن محض یہ کام کسی کو نقاد ثابت نہیں کرتا ۔ان ناقدین اور محققین کی شناخت کسی کے سرقہ کی نشان دہی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس کام کی بنیاد پر ہے جو عملی تنقید کے طور انہوں نے پیش کیا ہے۔“
(مطبوعہ ادبی ایڈیشن روزنامہ ”انصاف“شمارہ ۱۴ستمبر ۲۰۱۱ء)
باتیں تو بہت ہیں جو میرے مضامین میں جواب طلب موجود ہیں،تاہم جمیل الرحمن میں جرات ہے تو بھنڈر سے ٹو دی پوائنٹ ساتوں نکات کا جواب لکھوائیں۔میںان سات نکات کے جواب پر ہی اصرار کر رہا ہوں۔اور جمیل الرحمن کو مزید احساس دلانے کے لیے صرف ایک نکتہ کہ وہ بھنڈرکو کم از کم ساتویں نکتہ کی بنیاد پر ادبی مضامین لکھنے کی طرف ہی لے آئیں۔اس شخص کی ساری ادب فہمی کھل جائے گی۔
مجھے افسوس ہے کہ جمیل الرحمن کے نازیبا اور بالکل غیر ضروری ردِ عمل کے باعث،ان کے جھوٹے پروپیگنڈہ اور افواہ سازی کی حقیقت ظاہر کرنے کے لیے مجھے چند خاص خاص باتوں کا جواب لکھنا پڑا۔بحیثیت شاعر میں اب بھی انہیں یورپ کے ان معدودے چند شعراءمیں شمار کرتا ہوں،جو جعلی شاعروں، متشاعروں سے بالکل الگ ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔