سات ستمبر ۲۰۱۱ءکے روزنامہ”انصاف“کے ادبی ایڈیشن میں محمد اعظم وڑائچ صاحب کا کالم میں نے توجہ سے پڑھا۔وہ عام طور پر ہلکا پھلکا اور طنزیہ و مزاحیہ قسم کا کالم لکھا کرتے ہیں۔جبکہ اس کالم کا موضوع نہایت حساس اور تحقیقی نوعیت کا ہونے کے باعث سنجیدگی اور بہت زیادہ تحقیقی رویے کا طالب تھا۔وڑائچ صاحب نے میرا موقف واقعتاً پوری طرح پڑھ کر یہ سب کچھ لکھا ہوتا تومجھے ان کے ان تاثرات سے بھی کوئی افسوس نہ ہوتا۔یہ کالم آدھے ادھورے مطالعہ کا غماز ہے۔جدید ادب جرمنی میں کسی بھی گروپ کی ترجمانی نہیں کی جاتی۔نئے پرانے لکھنے والوں میں سے جو بھی اپنی تخلیقات بھیجتے ہیں ،اگر وہ رسالے کے مزاج کے قریب ہوں تو انہیں احترام کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے۔اس لیے کسی کو چھاپنا اور کسی کو نہ چھاپنا والی بات مناسب نہیں ہے اور محض سنی سنائی کو آگے بڑھانے جیسی ہے۔
بھنڈر صاحب کے بدتہذیبی پر مبنی رویے کی وجہ سے ان سے میرا تعلق بہت پہلے کا ٹوٹ چکا تھا۔میں ایک ہی وقت میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا تھا،اس لیے ان کے معاملہ میں احتیاط سے کام لے کر خاموشی اختیار کرنا لازم تھا۔جہاں تک ادبی طور پر سوچ کے واضح فرق کا تعلق ہے اس کا اظہار میری طرف سے اور میرے دوستوں کی طرف سے”اختلافی نوٹ“ کی صورت میں شروع سے ہی کیا جارہا تھا۔اس سلسلہ میں میرے پہلے مضمون ”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“میں بہت سارے اقتباسات دے کر اس حقیقت کو واضح کیا جا چکا ہے۔یہ مضمون سچ مچ میں پڑھ لیا ہوتا تو اس قسم کے اعتراضات گھڑنے کی نوبت نہ آتی کہ ہم مل کر جدید ادب میں” کاروائیاں“ کرتے تھے۔ایک متضاد سوچ کے حامل کو ہم نے رسالے میں جگہ دی، اس کی واضح وجہ تھی،سرقہ اور جعل سازی میرا اہم مسئلہ ہے اور میں گزشتہ بارہ برسوں سے یورپ میں بیٹھ کریہ کام کر رہا ہوں اور حسبِ توفیق یار لوگوں سے گالیاں کھا رہا ہوں۔ سو جب بھنڈر صاحب نے ترجمہ بلا حوالہ کے نام پر کچھ لکھا تو میں نے اپنے معمول کے مطابق اسے اہمیت دی۔تاہم میں نے دیکھا کہ وہ سو صفحات لکھتے ہیں تو اس میں سے بمشکل دس صفحات کام کے نکلتے ہیں۔چنانچہ میں ان سے بیزار ہو گیا تھا۔پھر ان کی بد تمیزی کے بعد(اس کا سارا ذکر میرے پہلے مضمون میں آچکا ہے)ان سے بالکل قطع تعلق کر لیا تھا۔اس کے باوجود ان کو جب بھی کسی طرف سے مار پڑتی تو پھر بھاگ کر میرے پاس آتے۔اس کی ایک تازہ مثال اِسی برس کی ہے۔جب نظام صدیقی صاحب نے ایک مضمون میں ان کی ٹھیک ٹھاک مرمت کی تو پھر میری طرف بھاگے۔۱۳جنوری ۲۰۱۱ءکو مجھے ای میل بھیجی،اس میں نظام صدیقی کا مضمون بھیجا اور ساتھ لکھا کہ اقبال نوید اس کا جواب لکھنے کو تیار ہے۔میں نے تب بھی ان کو جھٹک دیا تھا۔
”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“ریلیز کیے جانے کے بعد مجھے سنجیدہ ادبی شخصیات کی طرف سے اچھا ردِ عمل موصول ہوا،اس سارے ردِ عمل کو یکجا کرتا جا رہا ہوں۔شائع بھی کرتا جا رہا ہوں۔اسی دوران بھنڈر صاحب نے سرقہ کے الزام سے اپنی بریت کے لیے ایک چالاکی سے کام لینا چاہا ۔تب میں نے”بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“ نامی وضاحت میں ان کی اصلیت مزید کھول دی۔انٹر نیٹ پر جو ہنگامہ برپا رہا۔اس میں میری شمولیت نہیں تھی۔ڈاکٹر فریاد آزر اور ارشد خالد نے وہاں کچھ اچھے جواب دئیے۔وہاں ہونے والی بحث کا جتنا میٹر مجھے دوستوں نے فارورڈ کیا،اسے سامنے رکھ کر میں نے ایک اور مضمون مکمل کر لیا ہے جس کا عنوان ہے”عمران بھنڈر کا سرقہ اور جعل سازی“۔یہ پہلے مضمون جیسا ہی مدلل،مربوط اور طویل مضمون ہے جس میں ہر بات شواہد کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
میرے پہلے مضمون کے جواب میں عمران بھنڈر صاحب دیر تک سکتہ کی حالت میں رہے،جب ہوش میں آئے تو ڈاکٹر وزیر آغا،ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر جیسے صاحبانِ علم کے خلاف زہر اگل کر سمجھ لیا کہ میری طرف سے پیش کیے گئے حقائق کا جواب دے دیا ہے۔میں بھنڈرصاحب کو اس لائق نہیں سمجھتا کہ وزیر آغا اور انور سدید کے مقابلہ میں ان کا ذکر بھی کروں۔اعظم وڑائچ صاحب نے بھی کسی رنگ میں یہی بات کہی ہے۔تو پھر بھنڈر صاحب نے ابھی تک جواب کہاں دیا ہے۔ناصر عباس نیر صاحب کو میں نے بھنڈر صاحب کے بے تکے الزام سے آگاہ کیا تھا،انہوں نے تب ہی مجھے یہ عالمانہ جواب لکھ کر بھیجا تھا۔میں نے اسے انٹرنیٹ پر نہیں دیا کیونکہ وہاں میں سنجیدہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے لیے مناسب ماحول نہیں دیکھتا۔وہاں سماجی تعلقات کے حوالے سے اچھی گنجائش ہے سو سماجی تعلقات بنتے ٹوٹتے رہنےچاہئیں۔اب چونکہ اخبار میں ناصر عباس نیر کے بارے میں بھی بغیر کسی ثبوت کے بات کر دی گئی ہے تو ان کا وہ جواب یہاں درج کر دینا مناسب ہے جو انہوں نے میرے استفسار پر لکھا تھا:
”میں اپنے اور اپنے مضامین کے خلاف لکھی گئی تحریروں کا جواب دینے کا قا ئل نہیں ہوں، اس لیے کہ بہ قول منیر نیازی:
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
مگر عمران بھنڈر نامی ایک نو وارد لکھنے والے نے میری ایک تحریر پر سرقے کا بہتان لگایاہے۔موصوف اس علمی مرتبے کا حامل نہیں کہ اس کی باتوں پر دھیان دیا جائے، مگر بہتان اس قسم کا ہے کہ اردو ادب کے قارئین میں غلط فہمیاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، اس لیے نہایت اختصار کے ساتھ اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
راقم نے چند سال پہلے ڈاکٹر وحید قریشی کے ارشاد کی تعمیل میں ساختیات اور مابعد جدیدیت پر کتابیں مرتب کی تھیں جو مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،لاہورسے شایع ہوئی تھیں۔ان کتابوں میں ان تنقیدی نظریات کی اصطلاحات کی فرہنگ بھی شامل کی گئی تھی۔ یہ فرہنگ بعض رسائل میں بھی چھپی۔ ان اصطلاحات میںآئیڈیالوجی بھی شامل تھی جو ادراک میں شایع ہوئی۔ فرہنگ ہمیشہ تالیف ہوتی ہے۔فرہنگ کے مشمولات ،مقالہ نہیں ہوتے۔ راقم دونوں کی رسمیات اور آداب سے واقف ہے اور ہر دو میں ان کا مقدور بھر لحاظ رکھتا ہے۔راقم نے ہر اصطلاح کے آخر میں ان کتابوں کے حوالے دیے ،جن سے استفادہ کیا گیا ۔آپ جانتے ہیں بہتان ہمیشہ کسی منفی جذبے کے تحت لگایا جاتا ہے اور اس جذبے کی زد پر آکرآدمی اصل باتوں کو چھپاتا یا انھیں مسخ کرتا ہے۔جمعہ جمعہ آٹھ دن کے اس ادیب نے بھی یہی کچھ کیا ہے۔یہ بات نہیں بتائی کہ وہ جن کتابوں سے سرقہ ثابت کر رہا ہے،ان کی پوری تفصیل ہر اصطلاح کے آخر میں دی گئی ہے۔وہیں سے وہ ان کتابوں کے ناموںسے واقف ہوا ہے۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں کہنا۔“ (ناصر عباس نیربنام حیدر قریشی)
ناصر عباس نیر صاحب کی اس وضاحت کے بعد اب میری گزارش یہ ہے کہ جو دوست ان سارے حقائق کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں،وہ میرے مذکورہ بالا مضامین اور دوسرے میٹرکو تحقیقی زاویے سے مطالعہ کریں اور پھر جو بھی لکھیں میں اس کا احترام کروں گا۔یہ بات خلافِ واقعہ ہے کہ بھنڈر صاحب نے مجھ پر گوجرانوالہ میں کوئی مقدمہ کر دیا ہے۔یہ ان کا چھوڑا ہوا شوشہ ضرور ہے لیکن وہ کہیں بھی میرے خلاف مقدمہ کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں۔میرے حوالے سے احمدی اور بہائی سلسلہ کی باتوں کا ان ادبی معاملات سے کیا تعلق ہے؟مجھے افسوس ہے کہ میں ان ساری باتوں کے پیچھے اپنے اُن”احمدی کرم فرماؤں“ کے چہرے صاف دیکھ رہا ہوں۔جنہوں نے وڑائچ صاحب کو یہ باتیں فیڈ کی ہیں(کرائی ہیں)۔ عجیب بات ہے کہ ہم دنیا بھر میں اپنی مظلومیت کا ذکر بھی کرتے ہیں اور کہیں کوئی ذاتی عناد ہو توپاکستانی ماحول کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے وہاں اپنے ہی بندوں کے بارے میں ایسی ایکسپلائے ٹیشن بھی پورے ایمانی جوش و خروش کے ساتھ کر لیتے ہیں۔میں ان” جلوہ“ افروزدوستوں کی بلند ”پروازی“ کی داد دیتا ہوں ۔خدا ان سب کوستیہ پر قائم رکھے اور آنند عطا کرے۔لیکن کمال کی بات ہے کہ ایک طرف میرے لیے احمدی اور بہائی کے تمغے ہیں تو دوسری طرف مجھے طالبان میں سے بھی قرار دیا جارہا ہے۔میں ان ساری باتوں پر ہلکا سا مسکرا سکتا ہوں۔لیکن ان سب کا ادب سے ادبی معاملات سے کیا تعلق ہے ؟۔
مزید کسی لمبی بحث سے بچنے کے لیے یہاں اپنے دونوں مضامین کے خلاصۂکلام کے طور پر سات نکات پیش کر دیتا ہوں۔عمران بھنڈر کے پاس ان کا کوئی سیدھا سادہ اور شریفانہ جواب ہے تو سامنے لائیں۔
خلاصۂکلام:
۱۔عمران شاہد بھنڈر نے2007ءمیں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوعPostmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ءسے لے کر جون 2011ءتک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔
۲۔خود کو شعبۂتعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂتعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂتعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟
۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود” نوجوان فلسفی“ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ”نابغہ“ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔
۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔
۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔
۶۔عمران شاہد بھنڈر جو سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے خود ہی اپنی تعریف میں اوراپنے مخالفین کی مذمت میں مضامین لکھتے رہے ہیں،اس بارے میں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر ان کا کم سن بیٹا ہے۔بچے کی قانونی حیثیت کیا ہے،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن عمران بھنڈر ابھی تک خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتے رہے ہیں،تو دوسروں پر غلیظ اور جھوٹے حملے کرنے سے پہلے غیر شادی شدہ باپ کی حیثیت سے انہیں اپنی اخلاقی حیثیت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔
۷۔”نوجوان فلسفی“ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔
آخری نکتہ کے سلسلہ میں وضاحت کر دوں کہ اردو کے اچھے اور معیاری ادب کا وہ جو بھی انتخاب کریں،اس کا مطالعاتی جائزہ پیش کرتے وقت ان پر پابندی ہو گی ۔وہ اپنے ایم اے کے نصاب والے مفکرین کانٹ،ہیگل،مارکس اور دریدا کا کوئی ذکر نہیں کریں گے۔اردو ادب کا مطالعہ مذکورہ مفکرین کے حوالوں کے بغیر ہونا چاہیے۔یہ کھلی حقیقت ہے کہ ایم اے کے ان نصابی ناموں کے علاوہ انہیں کچھ آتا ہی نہیں ہے۔یہ میری طرف سے پوری ادبی دنیا کے سامنے بھنڈر صاحب کو چیلنج ہے۔یہ سنجیدہ اور عملی تنقید کا کام کرکے ہی وہ کسی شمار میں آئیں گے۔متعدد ادیبوں نے اردو میں ترجمہ بلا حوالہ یا سرقات و جعلسازی کی نشان دہی کی ہے لیکن محض یہ کام کسی کو نقاد ثابت نہیں کرتا ۔ان ناقدین اور محققین کی شناخت کسی کے سرقہ کی نشان دہی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس کام کی بنیاد پر ہے جو عملی تنقید کے طور انہوں نے پیش کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ ادبی ایڈیشن روزنامہ ”انصاف“شمارہ ۱۴ستمبر ۲۰۱۱ء)