میں نے جب اپنا مضمون”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“ لکھا تھا تو ایک ولولہ انگیز قسم کی کیفیت ضرور تھی۔اسی کیفیت نے اس مضمون کو اتنا مدلل اور مربوط طور پر لکھنے کی توفیق دلائی۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ مضمون بعض ادبی حلقوں میں اس حد تک زلزلہ انگیز ثابت ہو گا۔مضمون کی اشاعت کے بعد انٹر نیٹ کی دنیا میں بھونچال سا آگیا۔تاہم یہ سارا بھونچال اشعر نجمی صاحب اور جمیل الرحمن صاحب کا برپا کردہ تھا۔نتیجہ یہ نکلا کہ دوسرے دوستوں کو بھی اس حوالے سے اپنے اپنے موقف کے مطابق اظہارِ خیال کرنا پڑا۔اس سلسلہ میں خاص طور پر ڈاکٹر فریاد آزر اور ارشد خالدصاحبان نے بڑا مدلل ردِ عمل پیش کرکے سارے زلزلہ اور طوفان کو چائے کی پیالی میں اٹھایا جانے والا طوفان ثابت کر دیا۔ مجھے جتنا ریکارڈ مل رہا ہے اس میں سے نسبتاً معیاری حصے الگ کر رہا ہوں ۔وہ معیاری اختلاف کرنے والے ہوں یا اتفاق کرنے والے۔بعض دوست جنہیں ایک معیار کی حد میں دیکھا تھا انہیں ان کی حدکی سطح سے گرتا ہوا بھی دیکھ رہا ہوں۔اسی طرح اس دوران بعض دوستوں نے جو فیس بُکی مجمع بازی شروع کی ہے اس کا بھی لطف لے رہا ہوں ۔اب اس ساری صورتِ حال کا جائزہ لے کر ساری بحث کو سمیٹوں گا،ایک ایسا مضمون لکھا جا سکے گا جسے لکھنے کا ارادہ پہلے میرے ذہن میں بالکل نہیں تھا۔
جب میں نے اپنا مضمون ”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“مکمل کر لیا تھا تو سب سے پہلے شمس الرحمن فاروقی صاحب کو بھیجا تھا اور ان سے ان کی رائے اور مشورہ مانگا تھا۔انہوں نے عنایت کی مجھے اپنی رائے اور مشورے سے نوازا۔انہوں نے اپنے خط میں ایک خدشہ کا اظہار کیا تھا۔وہ انہیں کے الفاظ میں یہاں پیش کر رہا ہوں۔
”یہ بھی غور فرمالیجیے کہ اس مضمون کی اشاعت سے آپ کے پرچے کی ساکھ اور آپ کی ساکھ پر اثر پڑ سکتا ہے۔لوگ کہیں گے کہ کل تک تو آپ بھنڈر کو اٹھائے اٹھائے پھر تے تھے اور آج کیا ہوا جو اس میں اتنی برائیاں ثابت کی جا رہی ہیں۔نارنگ کے حامی یہی کہیں گے کہ قریشی صاحب کا جھگڑا کسی اور ہی بات پر ہوا ہوگا۔کچھ ذاتی مفادات کا تصادم ہوگا۔اب قریشی صاحب اسے یہ رنگ دے رہے ہیں۔میں جانتا ہوں کہ حقیقت کچھ اور ہے۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے“۔(شمس الرحمن فاروقی بنام حیدر قریشی ۱۶جولائی ۲۰۱۱ء)
اس کے جواب میں ۱۷جولائی کی میری ای میل میں فاروقی صاحب کی خدمت میں یہ الفاظ لکھے گئے:
”میں نے جو لکھا ہے اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جس پر مجھے شرمندگی ہو۔نہ ہی جوابی الزام تراشیوں میں میرے حصہ میں کوئی ایسا ادبی الزام و اقدام ہے جس پر مجھے ندامت ہو۔بلکہ کسی اعتراض کی صورت میں مزید کئی حقائق بھی سامنے لائے جا سکتے ہیں جو تب سے ہی میرے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔“
مضمون کی اشاعت کے بعد محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خدشہ کے مطابق اعتراضات تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے احباب نے کرنا تھے لیکن عجب ماجرا ہواکہ بجائے نارنگ صاحب کے دوستوں کے خود شمس الرحمن فاروقی صاحب کے قریبی احباب نے نہ صرف اس پر طوفان کھڑا کیا بلکہ عین وہی اعتراض کیے جن کا ذکر فاروقی صاحب اپنے خط میں کر چکے تھے۔نہ صرف وہی اعتراض کیے گئے بلکہ فاروقی صاحب کے اپنے الفاظ کے مطابق” میں جانتا ہوں کہ حقیقت اور ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لئے کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی،صرف افواہ اڑانا کافی ہوتا ہے“جھوٹ اور پروپیگنڈہ کی بنیاد پر افواہ سازی سے پوری طرح کام لیا گیا۔میں یہ سوچتا رہ گیا کہ خدشہ تو فاروقی صاحب کا لفظ بلفظ درست ثابت ہوا لیکن مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایسا نارنگ صاحب کے دوستوں نے نہیںکیا ،شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوستوں نے کیا اور بڑے منظم طریقے سے کیا۔ مجھے اس ساری صورتِ حال پر ان دوستوں پر اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا فاروقی صاحب پر ہوا ۔مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ وہ مجھے خدشہ سے آگاہ کر رہے تھے یا بالواسطہ طور پر کسی رنگ میں دھمکی دے رہے تھے۔ شاید وہ خود ہی اس بارے میں کچھ بتا سکیں۔
اشعر نجمی اور جمیل الرحمن دونوںفاروقی صاحب کے کتنے قریب ہیں اس کے لیے کسی نشان دہی کی ضرورت نہیں ہے۔ادبی بنیادوں پر ایسی قربت کو میں برا نہیں جانتا۔لیکن اگر فیض پانے والے دوست ایسے کارندے کا کردار ادا کرنے لگیں،جس کے فرائض میں کسی دلیل کو پتھر سے توڑنے کی مشقت شامل ہو تو یہ کوئی اچھا رویہ نہیں رہتا۔نارنگ صاحب کےحامیوں نے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا تھا جس کا سب سے زیادہ نقصان ڈاکٹر نارنگ صاحب کو اٹھانا پڑا۔اب یہ طرزِ عمل اشعر نجمی اور جمیل الرحمن نے اختیار کر لیا ہے اور اس کا نقصان علمی و ادبی سطح پر بہر حال فاروقی صاحب ہی کو پہنچے گا۔
جہاں تک جعلی پی ایچ ڈی اسکالر،جعلی شعبہ تعلیم سے وابستہ استاد،اور سارق عمران بھنڈر صاحب کا تعلق ہے،ان کے بارے میں پہلے پوری صراحت کے ساتھ جو کچھ لکھ چکا ہوں اس میں سے بیشتر باتوں کے گواہ خود اشعر نجمی اور جمیل الرحمن صاحبان رہے ہیں۔اس کے باوجود انہوں نے نہ صرف ان باتوں کے معاملہ میں بد دیانتی کی حد تک تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا بلکہ انتہائی جارحانہ انداز میں ایسی افواہیں اڑائیں اور ایسی افسوسناک الزام تراشیاں کیں اور کرائیں کہ ان کا جواب دیتے ہوئے بھی ندامت کا احساس دامن گیر رہے گا کہ یہ کیا لوگ ہیں اور ان کی کیا تہذیب اور اخلاقیات ہے۔
پہلے اشعر نجمی صاحب کے حوالے سے چند حقائق پیش کردوں۔جب نارنگ صاحب کے حامیوں کے ساتھ میری جنگ اپنے عروج میں داخل ہو رہی تھی(وہ جنگ ۹۰فی صد میں نے اپنے بل پر لڑی تھی اور اس کا پورا ریکارڈ عکاس کے نارنگ نمبر اور میری کتاب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت میں محفوظ ہے۔)عین اس وقت بھی نہ صرف عمران بھنڈر صاحب کے ساتھ میری بول چال بند تھی بلکہ ان کے بارے میں میرے وہی خیالات تھے جن کا اظہار میں اپنے مضمون”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“میں کر چکا ہوں اور تب حیران کن حد تک اشعر نجمی صاحب ، عمران بھنڈر صاحب کے مقابلہ میں نہ صرف مجھ سے اتفاق کر رہے تھے بلکہ میرے رویے کو سلام بھی پیش کر رہے تھے۔ اس حوالے سے بہت ساری ای میلز میرے ریکارڈ میں محفوظ ہیں یہاں صرف چند ای میلز کے اہم حصے ایک تسلسل میں پیش کر دیتا ہوں۔
میری ای میل اشعر نجمی صاحب کے نام:
”برادرم اشعر نجمی صاحب! سلام مسنون
عمران شاہد بھنڈر صاحب کا معاملہ یوں ہے کہ ایک تو طویل لکھتے ہیں پھر اس میں مسلسل اضافے کرکے ایک ہی فائل کو بار بار تبدیل کرکے بھیجتے ہیں۔مجھے انہوں نے ایک بار خط کی طرز پر ایک مضمون بھیجا جوجدید ادب شمارہ ۱۱کے ۱۹صفحات پر مشتمل تھا۔حسبِ عادت انہوں نے پھر اس میں بھی اضافہ کیااور مجھے نئی فائل بھیج دی۔چونکہ ہر شمارہ کی ان پیج فائلز کو ایک ہی فولڈر میں جمع کرتا ہوں۔ اس لیے ان کی دونوں فائلز ایک ساتھ موجود تھیں اور شامل کرتے وقت آخری فائل کی بجائے اس سے پہلے والی فائل شامل ہو گئی۔ رسالہ چھپنے کے لیے جا چکا تھا جب ان کا فون آنے پر میں نے انہیں بتایا کہ آپ کا خط ۱۹صفحات پر محیط ہوگیا ہے تو علم ہوا کہ نیا خط تو ۲۹صفحات پر محیط ہونا چاہیے تھا۔جب دوبارہ جانچ کی تو علم ہوا کہ لاسٹ کی بجائے سیکنڈ لاسٹ فائل چھپ رہی ہے۔اب عمران شاہد کا مطالبہ تھا کہ رسالہ کی اشاعت رکواؤں اور یا تو ان کے خط کا لاسٹ ورشن چھاپوں یا پھر خط ہی نکال دوں۔رسالہ ایجوکیشنل والوں کے پاس نہ صرف جا چکا تھا بلکہ چھپ بھی چکا تھا اور بائنڈنگ کے مراحل سے گزر رہا تھا۔جب میں نے معذرت کی تو ان کا تحکمانہ انداز حیران کن تھا۔انہوں نے مجھے ای میل بھیجی کہ اس خط کی اشاعت ان کے خلاف سازش ہے اور یہ کہ آج سے ادب کی دنیا سے اپنا نام ختم سمجھوں۔میں نے ان کی وہ ساری ای میلز سنبھال رکھی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کا وہ انداز آج بھی پڑھتا ہوں تو گھن آتی ہے۔یہ میں نے بہت اختصار سے لکھا ہے،وگرنہ بیچ میں ایک دو اور بے ہودہ ای میلز کا ذکر بھی آتا ہے۔تب میں نے انہیں اتنا لکھا کہ ہمارا تعلق تو اب ختم سمجھیں البتہ میں چاہوں گا کہ ابھی ہماری لڑائی دنیا کے سامنے نہ آئے ورنہ نارنگ صاحب کے لیے تماشہ بنانا آسان ہو جائے گا۔
دوستی کے دنوں میں بھی میں نے شمارہ ۱۰میں جدیدیت پر ان کے حملوں پر اپنے تحفظات کا اظہار آن ریکارڈ کیا تھا اور روحانی اقدار کو مجہولیت کہنے پر اپنے شمارہ نمبر ۱۱کے اداریہ میں اظہار خیال بھی کیا تھا۔۔۔۔میں نے علمی ، ادبی و تہذیبی انداز میں نہ صرف ان کی دہریانہ باتوں سے اختلاف کیا بلکہ ان کا رَد ان کے مادی ذہن کے مطابق بھی کیااور کہیں بھی تحکمانہ انداز یا تضحیکی انداز اختیار نہیں کیا۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔میری دانست میں جو شخص بار بار اپنی علمیت جتاتا ہے اور دوسروں کی تضحیک کرتا ہے وہ زیادہ دیر تک آگے نہیں جا سکتااور بالآخر بے برکتی کا شکار ہوجاتا ہے۔عمران شاہد میں یہ” خوبی “بدرجۂاتم موجود ہے۔ان میں ایک اور” خوبی“ جو میں سمجھ سکا ہوں یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی کے نوٹس ، اور نئے مطالعہ کو بھی کسی نہ کسی طور اپنے مضامین میں نہ صرف گھسیٹ لاتے ہیں بلکہ وہی مطالعہ خوامخواہ مضامین کی بے جا طوالت کا باعث بنتا جاتا ہے۔فضیل جعفری ۱۹۹۷ءمیں لکھ چکے ہیں کہ نارنگ صاحب جن کتابوں کے حوالے درج کر رہے ہیں لگتا ہے انہوں نے اصل کتابیں مطالعہ نہیں کیں اور عمران اب ناقدین پر اعتراض کر رہے ہیں کہ کسی نے کیوں اس طرف دھیان نہیں دیا۔اسی طرح ہمارے مقتدر ناقدین کی گراں قدر علمی خدمات کو محض چند جملوں سے رد کردینا بجائے خود متکبرانہ انداز ہے۔بس ان کی اصل خوبی یہی ہے کہ پی ایچ ڈی سے پہلے اردو میں مابعد جدیدیت پر جو کچھ پڑھا تھا وہ اصل کتابوں کو پڑھنے کے بعد انہیں یاد آتا گیا اور نارنگ صاحب کے بھید کھلتے گئے۔ان کا اب تک کا ادبی کام یہی ہے کہ انہوں نے نارنگ کے سرقوں کو سب کے سامنے رکھ دیا ہے۔یہ بھی بڑا اعزاز ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ باقی کے معتبر اور قابلِ احترام ناقدین کی کسی ثبوت کے بغیر بے حرمتی شروع کر دی جائے۔
آج بہت سارے کاموں میں مصروف رہا ہوں۔لیکن اب رات گئے آپ کو میٹر بھیجنے کی بجائے یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔عمران صاحب سرقوں کے حوالے سے جتنا کام کر رہے ہیں وہی ان کا ابھی تک کا اصلی کام ہے۔باقی باتیں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی بجائے کوزے کا دریا بنانے والی ہیںیہ باتیں صرف آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام آپ کا مخلص حیدر قریشی ۲۸فروری ۲۰۰۹ء“
عمران بھنڈرصاحب کے پی ایچ ڈی کا ذکر اس لیے شامل ہے کہ تب تک ہمیں وہ یہی دھوکہ دے رہے تھے کہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔اب تو یہ بات بھی ان کی جعلسازی ثابت ہو چکی ہے۔بہر حال ان کی اس جعلسازی سے سرِ دست قطع نظر کرتے ہوئے،اس میل کے جواب میں آنے والی اشعر نجمی صاحب کی ای میل کا متعلقہ حصہ پیش کرتا ہوں۔
”میں نے آپ کا ان پیج کا خط پڑھا۔مجھے یہ بہت پہلے سے احساس توہو چلا تھا کہ آپ دونوں کے درمیان کچھ دوریاں آچکی ہیں،لیکن اس کا اظہار کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا کیونکہ یہ بالکل ذاتی قسم کا معاملہ ہے۔لیکن اب جب آپ نے پوری کہانی بتائی تو میں نے ایک بار میں ہی اس کی صداقت پر یقین اس لیے کر لیا کہ اُن تمام تجربوں سے میں بھی گزر رہاہوں،جس سے آپ گزر چکے ہیں۔طوالت کے علاوہ بار بار نظر ثانی عمران صاحب کی کمزوریاں ہیں۔انہوں نے جو کچھ پڑھا ہے وہ سب ایک ہی مضمون میں وہ سمونے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو طوالت اور پیچیدگی کا سبب بن جاتی ہیں۔آپ جیسا کہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے آپ کو ای میلز لکھ کر بڑے غیر مناسب انداز میں اپنا احتجاج درج کرایا،تو میں اُن ای میلز کو ضرور دیکھنا چاہوں گا۔
اشعر نجمی یکم مارچ ۲۰۰۹ء“
میں نے اشعر نجمی کی اس میل کے نتیجہ میں انہیں وہ ای میلز بھیج دیں جو بدزبانی پر مشتمل تھیں۔وہ میلز پڑھنے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے مجھے لکھا:
”شکریہ اس بات کے لئے کہ آپ نے مجھے حقیقت سے آگاہ کیا تاکہ میں مستقبل میں خود کو اس طرح کی بد تمیزیوں سے محفوظ رکھ سکوں۔لیکن ایک بات تو میں ابھی بول دیتا ہوں کہ میں فطرتاً سوفٹ سپوکن ہوں لیکن جب اس طرح کا معاملہ آجاتا ہے تو میں اپنے حریف کو اگلا وار کرنے کا موقعہ بھی نہیں دیتا۔دعا کریں کہ میرے ساتھ ایسی حرکت کوئی نہ کرے کہ اس میں حرکت کرنے والے کا ہی نقصان ہے۔آپ کے تحمل اور برداشت کومیں سلام کرتا ہوں ۔آپ طبعاً شریف آدمی ہیں،اس لیے آپ نے اتنا کچھ ہوتے ہوئے بھی عمران کو معاف کر دیا“
(اشعر نجمی کی ای میل ۲مارچ ۲۰۰۹ء)
عمران بھنڈر کو معاف کر دینے والی بات پر میں نے اشعر نجمی کو جو ای میل بھیجی اس کا ایک حصہ بھی پیش کیے دیتا ہوں۔
”میں نے عمران کو معاف نہیں کیا،بس خاموشی اس لئے اختیار کی ہے کہ نارنگ کے سامنے تماشا بنا تو وہ اپنی چوریوں سے بری ہو جائیں گے اور الٹامذاق ہم لوگوں کا اُڑے گا۔جدید ادب میں تو ان کے دوبارہ چھپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جہاں تک سرقوں کی نشان دہی کا تعلق ہے وہ بات پوری ہو چکی۔اس سے آگے ادبی منظر نامے پر عمران کی نگاہ بہت محدود ہے۔سینئرز کو پڑھے بغیرہر کسی کو نارنگ کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں،جو بجائے خود بد تہذیبی ہے۔میرا خیال ہے کہ سرقے کا باب مکمل کرکے آپ ان کی دوسری تحریروں کے لئے اپنے معیار اور رسالے کے مزاج کو فوقیت دیں۔“
(میری جوابی ای میل بنام اشعر نجمی ۲مارچ ۲۰۰۹ء)
ان چند ای میلز سے ایک تو یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عمران بھنڈر کی ذاتی نوعیت کی بد تمیزی سے لے کر ان کی تحریروں میں پائی جانے والی عمومی بد تہذیبی تک میری رائے شروع سے وہی تھی جو ”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“مضمون میں میری طرف سے نسبتاً صراحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے۔دوسرا یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اشعر نجمی صاحب ان معاملات میں بڑی حد تک مجھ سے متفق تھے۔یہ ساری باتیں شئیر کرنے کے بعدمیں نے اپریل ۲۰۰۹ءمیں انہیں سہ ماہی دستک ہوڑہ میں چھپے اپنے ایک خط سے آگاہ کیا۔یہ خط عمران بھنڈر کی ادبی ( غیر ادبی) پیدائش سے دس سال پہلے شائع ہوا تھااور اس میں میری طرف سے مابعد جدیدیت کے حوالے سے کچھ باتیں کی گئی تھیں۔اس خط کو پڑھنے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے اپنی ۴اپریل ۲۰۰۹ءکی ای میل میں مجھے لکھا:
”اس خط میں پوسٹ ماڈرن ازم کے تعلق سے جو سٹینڈ آپ نے شروع میں لیا تھا،وہ آج بھی قائم ہے“
اب عمران بھنڈر کی جعلسازیوں اور سرقہ کے دفاع میں انتہائی حد تک جاتے ہوئے انہوں نے ”جدید ادب“کی ادبی حیثیت پر بھی حملے کیے اور کرائے ہیں اور بحیثیت ادیب میری حیثیت کو بھی زد پر رکھا ہے کیونکہ اس کے بغیر عمران بھنڈر کی جعلسازیوں اور سرقہ سے توجہ ہٹائی نہیں جا سکتی تھی۔”جدید ادب“کے بارے میں میری طرف سے بارہا لکھا جا چکا ہے،کہا جا چکا ہے کہ جب تھوڑے بہت وسائل میسر ہوتے ہیں تو میں رسالہ جاری کر لیتا ہوں۔اس کے اجراءکو میں کوئی ادبی خدمت قرار نہیں دیتا کیونکہ رسالہ نکال کر ادب کی خدمت کرنے والے پہلے ہی بہت ہیں۔میں اپنی ادبی زندگی بسر کر رہا ہوں اور اس ادبی زندگی میں ادبی رسالہ”جدید ادب“ بھی شامل ہے۔کسی کو اچھا لگتا ہے تو اس کی محبت ہے،کسی کو اچھا نہیں لگتاتو اسے اپنی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہے۔تاہم اشعر نجمی صاحب کو یہ ضرور یاد دلانا چاہوں گا کہ وہ مجھ سے جدید ادب میں چھپی ہوئی نگارشات بھی منگوا کر اپنے رسالہ میں چھاپتے رہے ہیں،اور ایسی نگارشات فراہم کرنے پر میرا شکریہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔
جہاں تک میری ادبی حیثیت کا تعلق ہے ،میں کبھی نہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوا ہوں اور نہ ہی خودکو مایوس کن کیفیت میں پایا ہے۔ادبی طور میں جتناہوں مجھے اس کا پوری طرح ادراک ہے۔اس کے لیے خدا کا شکر گزار رہتا ہوں کہ اس نے مجھے صلاحیتیں عطا فرمائیں اور انہیں بروئے کار لانے کی توفیق بخشی۔اگر ساری دنیا بھی مجھے رد کر دے توبھی مجھے اطمینان ہے کہ خدا نے جتنامجھے بنایا ہے اتنا تو میں نے رہنا ہی ہے۔یہاں اشعر نجمی صاحب کی ایک ای میل پیش کرکے اس موضوع کو سمیٹتا ہوں۔میری کتاب”عمرِ لاحاصل کا حاصل“ ملنے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے لکھا:
”ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس سے آپ کی کتاب ملی۔اس کتاب نے زخم پر مرہم کا کام کیا۔اب تک میں آپ کی شاعری کا قتیل رہا ہوں لیکن اس کلیات میں شامل آپ کی نثر نے مجھے مبہوت کر دیا ہے۔ خاص کر آپ کے افسانے تو بہت خوب ہیں۔پتہ نہیں کیوں ہمارے نقادوں کو اس پر گفتگو کرنے کی توفیق نہیں ہوئی؟“
(اشعر نجمی کی ای میل بنام حیدر قریشی ۹مارچ ۲۰۰۹)
یہ چند حوالہ جات اشارہ ہیں۔اشعر نجمی صاحب نے انٹر نیٹ پر جو طوفان برپا کیا اور کرایا ہے ،ان میں سے بیشتر حملوںکا سنجیدہ اور مدلل جواب ان حوالوں میں آگیا ہے۔میں چاہتا ہوں کہ جوابی طور پر میں اشعر نجمی صاحب کی وہ زبان استعمال نہ کروں جو عمران بھنڈر کی تقلید میں انہوں نے اختیار کر لی ہے۔ ہاں وہ ادبی رسائل میں جو کچھ اور جیسا بھی لکھیں گے اس کا بھرپور جواب ضرور ان کی خدمت میں پیش کروں گا۔انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ میں جب بھی کسی پر ہاتھ ڈالتا ہوں تو پکا ہاتھ ڈالتا ہوں۔
اب شمس الرحمن فاروقی صاحب کے دوسرے نیازمند جمیل الرحمن صاحب کے سلسلہ میں بھی چند حقائق پیش کردینا مناسب ہے تاکہ اس معاملہ میںان کاکردار بھی ادبی طور پرپورے سیاق و سباق کے ساتھ محفوظ رہے۔پہلے میری کھٹی میٹھی یادوں” کے ایک باب سے ایک اقتباس:
”مجھ پر آنے والے تکلیف دہ دنوں میں سے ایک وہ عرصہ تھا جب بے وزن شعری مجموعے رکھنے والوں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں نے مل کر میرے خلاف غلیظ مہم شروع کی تھی۔اس تمام عرصہ میں بھی میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا۔میرے خلاف مہم چلانے والے اس لائق نہیں کہ میں ان کے ناموں سے اپنی یادوں کے اس سلسلہ کو آلودہ کروں۔ان کا ذکر کسی اور جگہ پر ہی کافی رہے گا لیکن دو شخصیات اس غلیظ کھیل میں ایسی بھی شریک ہوئیں،جن کا صدمہ مجھے آج بھی ہے۔یہ شخصیات تھیں (تب)سویڈن میں مقیم ڈاکٹر پرویز پروازی اورہالینڈ میں مقیم جمیل الرحمن ۔دونوں صاحبان نے میرے جرمنی پہنچنے کے بعد مجھے خود ڈھونڈا اور خود مجھ سے رابطہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔جمیل الرحمن نے جب میرا اتہ پتہ ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا تب انہوں نے ادبی حوالے سے مجھے تعریف کی حد تک جوکچھ کہا،اسے درج کرنا مناسب نہیں ہے۔لیکن جب وہ پرویز پروازی کے کہنے پر میرے خلاف غلیظ مہم کے سپاہی بنے تو مجھے دلی صدمہ ہوا۔وہ جس طرح کی حرکتیں ہالینڈ سے لے کر ہندوستان اور پاکستان تک کرآئے تھے،مجھے ساتھ کے ساتھ ان کی رپورٹ مل رہی تھی۔اس مہم کے بعد کئی بار جمیل الرحمن کے فون آتے رہے۔میں نے انہیں ان کی کسی زیادتی کا احساس تک نہیں دلایا لیکن ان کے ساتھ کبھی گرمجوشی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔انسان کتنا ہی زیادتی کر لے اگر اس کی فطرت میں تھوڑی بہت نیکی کی رمق ہو تو ضمیر کچوکے ضرور لگاتا ہے۔چنانچہ ایک بار جمیل نے خود ہی کھل کر معذرت کی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا صرف استاد،شاگرد کے رشتے کی وجہ سے کیا۔میں نے تب بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔وقفے وقفے سے آٹھ دس بار ٹیلی فون کرنے کے بعد ایک بار انہوں نے گلہ کیا کہ وہ اتنی بار مجھے فون کرچکے ہیں جبکہ میں انہیں فون نہیں کر رہا۔میں نے تب بھی بات کو ٹال دیا۔اس سے اگلی بار جب جمیل الرحمن کا فون آیا تو مجھ پر برہمی کا اظہار کرنے لگے کہ میں ہر بار فون کرتا ہوں۔آپ فون نہیں کرتے۔تب میں نے اتنا جواب دے دیا کہ میں نے کب آپ سے کہا ہے کہ آپ مجھے فون کیا کریں؟اس دن کے بعد سے ان کا کوئی فون نہیں آیا یعنی وہ بھی ہیں آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے “ ٭
(”جدید ادب“ جرمنی شمارہ نمبر ۹۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ئ۔صفحہ نمبر ۱۷۹،۱۸۰۔”عمرِ لاحاصل کا حاصل “صفحہ نمبر۴۹۰،۴۹۱،۔۔یادوں کا باب ”روح اور جسم“)
یادوں کے باب میں یہ ذکر چھپنے کے بعد جمیل الرحمن صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا،اس رابطہ کا حال بھی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔یادوں کے اسی باب کے آخر میں لکھا ہے:
”٭ میری یادوں کا یہ باب جدید ادب کے شمارہ: ۹میں چھپنے کے لئے پریس میں جا چکا تھا جب مجھے ایک مدت کے بعد پھر جمیل الرحمن کا فون آ گیا۔ان کا فون آنے سے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔میں نے انہیں کھل کر بتا دیا کہ میں نئے باب میں آپ کا ”ذکرِ خیر“ کر چکا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں،آپ نے جو لکھا،میں کچھ نہیں کہوں گا۔ان کے ساتھ مختلف ادبی موضوعات پر بات ہوئی۔”رہے نام اللہ کا!“کے مندرجات انہیں بہت پسند آئے تھے۔اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتے رہے۔سائنس،مذہب اور ادب کی اپنی اپنی خود مختاری کے ساتھ تینوں کے ربطِ باہم پر دلچسپ باتیں ہوئیں۔بحیثیت شاعر میں نے ان کی خوبیوں کو مانا ہے،خامیوںکا انہیں خود بخوبی علم ہے۔میں جمیل الرحمن سے اپنی شدید ناراضی کے دنوں میں بھی اپنے مضمون”یورپی ممالک میں اردو شعرو ادب:ایک جائزہ“میں نہ صرف ان کا ذکر کر چکا ہوں بلکہ انہیں یورپ کے ان معدودے چند شعراءمیں شمار کیا ہے ،جو اردو شاعری کی نام نہاد بین الاقوامیت سے قطع نظر، اردو کی مین سٹریم یا ادب کے مرکزی دھارے کے اہم شعراءکے ہم پلہ ہیں۔ نجی سطح پر جو دکھ تھا وہ ان کی دوبارہ ٹیلی فون کال آنے پر ہونے والی کھلی اور دو ٹوک گفتگو نے دور کر دیا ہے۔شاید بہت ساری غلط فہمیاں عدم رابطہ کے باعث بھی ہو جاتی ہیں۔اللہ انہیں خوش رکھے۔
(ح۔ق)
(”جدید ادب“ جرمنی شمارہ نمبر ۱۰۔جنوری تا جون ۲۰۰۸ء۔صفحہ نمبر ۶۔
بہ عنوان ”ایک چھوٹی سی وضاحت“)
اس تجدید دوستی کے بعدجمیل الرحمن صاحب پر ایک کڑا وقت بھی آیا اور ایک دوست کی حیثیت سے میں ان کی جو ڈھارس بندھا سکتا تھا،وہ میں نے بندھائی۔اس کا کچھ ذکر ریکارڈ پر موجود ہے اور پیش ہے:
” اسی دوران ہالینڈ سے لندن شفٹ ہوجانے والے دوست جمیل الرحمن کا فون آیا تواپنے بعض مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اتنے جذباتی ہو گئے کہ خودکشی کی بات کرنے لگے۔میں نے انہیں سمجھایاکہ میں پاکستان میں ایک بار ایسی کیفیت سے گزرا ہوں لیکن اب تو خدا کا فضل ہی فضل ہے۔پھر ان پر جو خدا کے فضل اور احسانات ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دلائی اور کہا کہ ہم بامراد لوگ ہیں،نامراد نہیں ہیں۔ سوخودکشی کا سوچنا بھی خدا کی ناشکری میں شمار ہوگا۔مجھے خوشی ہے کہ ایک نازک مرحلہ پر میں ایک دوست کے لیے زندگی بخش اچھی باتیں کر سکا اور اس کے لیے وقتی طور پر سہی سکون کا موجب بنا۔“
(یادوں کا باب ”زندگی در زندگی“۔مطبوعہ ”جدید ادب “جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۶۔جنوری تا جون ۲۰۱۱ء)
ان تین اہم اقتباسات سے جمیل الرحمن صاحب کے اور میرے درمیان تعلق کی نوعیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے اور ان کی ادبی شخصیت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اسی دور میں جب وہ تجدیدِ دوستی کر چکے تھے،ڈاکٹر نارنگ صاحب کےحامیوں کے ساتھ معرکہ برپا ہوا۔جمیل الرحمن صاحب فون پر تو باتیں کرتے رہے لیکن عملی طور پر انہوں نے عمران بھنڈر کے حوالے سے ایک لفظ تائید میں نہیں لکھا اور میری معرکہ آرائی کے وقت بھی انہیں تحریری طور پر ایک لفظ لکھنے کی توفیق بھی نہیں ملی۔ بس ٹیلی فون پر زبانی جمع خرچ کی حد تک باتیں کر لیا کرتے تھے۔اسی دوران جب عمران بھنڈر کی بد تمیزی اور بدزبانی والی ای میلز کا سامنا کرنا پڑا تو میں نے جمیل الرحمن صاحب کو ساری صورتِ حال سے آگا ہ کیا۔انہوں نے عمران بھنڈر کے خلاف سخت لفظ استعمال کیے اور کہا کہ میں کسی اور کی گارنٹی نہیں دیتا لیکن اگر ایسے خبیث شخص کے ساتھ لڑنا پڑا تو میں آپ کے ساتھ رہوں گا۔میں نے تب ہی انہیں بتا دیا تھا کہ جب تک نارنگ صاحب کے حامیوں والا محاذ بند نہیں ہوتا،میں دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔ہاں جب بھی یہ محاذ بند ہوا میں عمران بھنڈر صاحب کے سارے قرض چکاؤں گا،تب آپ ساتھ دے دیجیے گا۔لیکن شاید جمیل الرحمن صاحب کی قسمت میں ہمیشہ جعل سازی اور سرقہ کی زد میں آئے ہوئے لوگوں کی حمایت کرنے والے لوگوں کے حلقہ میں شامل رہنا ہی لکھا ہوا ہے ۔اب جب ان کے وعدہ کے ایفا کا وقت آیا تو ساتھ دینا تو درکنار وہ کھل کر مخالفین کی صف میں کھڑے تھے۔ لگ بھگ دس سال پہلے کی طرح اس بار بھی کمین گاہ میں جمیل الرحمن صاحب موجود تھے۔یقیناً انہیں اپنا وعدہ بھول گیا ہوگا لیکن شایدیہ ان کے ادبی مقدر کی بات تھی،اور ان کی ادبی شناخت میں شامل رہنا تھی۔
جمیل الرحمن صاحب کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کسی فورم پرعمران شاہد بھنڈر کا بے دلیل جوابی مضمون”وزیر آغا گروپ کے روایتی ہتھکنڈے“شائع کیاتو اس کے جواب میں ارشد خالد صاحب نے میرا وضاحتی بیان بھی وہاں پوسٹ کر دیا۔وہ بیان انہوں نے عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد کے شمارہ نمبر ۱۴، ستمبر۲۰۱۱ءمیں شائع کر دیا ہوا ہے۔یہاں اسے پیش کر دیتا ہوں۔
بسلسلہ فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی
(عمران شاہد کاعذرِ لنگ اور اس کی اصل حقیقت)
میرے مضمون ”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“ کو ادبی حلقوں میں بھر پور پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔اس کے جواب میں ابھی تک نام نہاد” نوجوان فلسفی“ کو پوائنٹ در پوائنٹ جواب دینے کی ہمت نہیں ہوئی۔البتہ اپنی بدنامی پر پردہ ڈالنے کے لیے بد زبانی سے لبریز ایک تحریر”وزیر آغا گروپ کے روایتی ہتھکنڈے “ کے نام سے بعض ادیبوں کو بھیجی ہے۔اس میں ایک تو بات کو اصل موضوعات سے الگ کرنے کی کوشش کی ہے اور اصل حقائق کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔صرف ایک علمی نکتہ پر اپنی صفائی دینے کی کوشش کی ہے اور صفائی دیتے ہوئی بد زبانی کی انتہا کر دی ہے۔تاہم وہ صفائی صرف حیلہ جوئی ہے۔
میرے مضمون میں عمران شاہد بھنڈرکے سرقہ کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کے مضمون کا پورا حوالہ دیا گیا ہے۔مضمون”ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی“ از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ ”دی نیشن“۔لندن۔22مارچ 2007ءکا حوالہ۔بھنڈرصاحب کی جانب سے اخبار میں چھپنے والے اس مضمون میں کہیں بھی وہ وضاحتیں نہیں ہیں جو وہ اپنی کتاب کے حوالے سے دے رہے ہیں۔میں نے ان کی کتاب کا حوالہ دے کر سرقہ نشان زد نہیں کیا بلکہ ان کے ۲۰۰۷ءمیں مطبوعہ مضمون پر ساری بات کی ہے۔اعتراض اخبار کے مضمون پر کیا گیا ہے، جواب میں تین سال کے بعد چھپنے والی کتاب کی بنیاد پر وضاحت کی جا رہی ہے۔
(اضافی نوٹ:)”یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی تین سال پہلے چوری کرے اور تین سال کے بعد سب سے آنکھ بچا کر چپکے سے مالِ مسروقہ کو واپس اسی جگہ رکھنے کی کوشش کرے۔“
اہلِ ادب نام نہاد نوجوان فلسفی سے پوچھیں کہ اخبار میں ۲۰۰۷ءمیں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ہوا ہے یا نہیں؟۔۔۔تین سال کے بعد کتاب میں کیا لکھا اور کیا نہیں لکھا،اس سے مجھے غرض نہیں۔دی نیشن لندن کے 22 مارچ 2007 ءکے شمارہ میں چھپنے والے مضمون میں سرقہ ثابت شدہ ہے۔ چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد!
جہاں تک نام نہاد نوجوان فلسفی کی دوسری باتوں اور غیر متعلقہ ہفوات کا تعلق ہے،اس کا جواب دینے کے لیے ان کی” مادری زبان“ میں بات کرنا پڑے گی جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔میرے مضمون میں درج ہرالزام، واقعہ اور بیان مبنی بر صداقت ہے۔نام نہادنوجوان فلسفی ایک الزام سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو کئی اور الزامات بھی اُن پر آ پڑیں گے۔میرے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔باقی قانونی چارہ جوئی کی دھمکی عمران بھنڈر کی گیدڑ بھبکی ہے۔اور ان کے مذکورہ مضمون کی زبان خود ان کی علمی و ادبی حیثیت کو اجاگر کر رہی ہے۔
میں اپنے مضمون کا پارٹ ٹو دھیرے دھیرے لکھ رہا ہوں،اس میں عمران شاہد بھنڈر کے مزید سرقے پیش کر وں گا۔انشاءاللہ! حیدر قریشی (تحریر کردہ: ۹اگست ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بیان کے سامنے آنے کے بعد جمیل الرحمن نے اپنے اسی فورم پر بار بار اعلان کیا کہ عمران شاہد بھنڈر اس کا جواب لکھیں اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ اُن کے جواب کے بعد اس موضوع پر اور کچھ نہیں شائع کیا جائے گا۔اس پر ارشد خالد صاحب نے ایک دوسرے فورم میں اچھا لکھا کہ جمیل الرحمن نے سنگ و خشت مقید ہیں او ر سگ آزاد کا منظر دکھا دیا ہے۔بہر حال جمیل الرحمن صاحب کی سرتوڑ کوشش کے باوجود عمران شاہد بھنڈر کو جرات نہیں ہوئی کہ اپنے سرقہ کی صفائی دے سکتے،انہوں نے وہاں خاموشی اختیار کر لی اور تاحال میرے اس بیان کے جواب میں انہوں اپنے نام سے ایک لفظ نہیں لکھا۔جب بار بار بلانے کے باوجود عمران بھنڈر صاحب کو وہاں کوئی جواب دینے کی جرات نہیں ہوئی تو جمیل الرحمن صاحب نے از خود فیصلہ فرمادیا کہ یہ حیدر قریشی کون ہے ؟ (کوئی بتلاؤکہ ہم بتلائیں کیا! )اور ساتھ عمران بھنڈر کی ساری جعلسازیوں اور سرقہ کو معصومانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
عمران بھنڈر صاحب کے بارے میں ذرا آگے جا کرتفصیلی بات ہو گی ،یہ سب کچھ برسبیلِ تذکرہ آگیا ہے۔بات ہو رہی تھی نارنگ صاحب کے حامیوں کے ساتھ معرکہ آرائی کی۔عکاس کے نارنگ نمبر اور میری کتاب”ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت“کی اشاعت کے ساتھ وہ معرکہ سر ہو گیا۔لیکن جب وہ معرکہ سر کر لیا گیا عکاس کا نارنگ نمبر بھی چھپ گیا، میری کتاب بھی چھپ گئی تو پھر ایسے لگا جیسے کسی جلوس کے آگے دوسرے لوگ اپنے جھنڈے اور بینر لے کر آگئے ہیں۔اب جمیل الرحمن،زبیر رضوی اوراشعر نجمی اس معرکے کے میرِ کارواں ہیں۔(سب کہو سبحان اللہ!)
یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ جب نارنگ صاحب کے حامیوں کے ساتھ گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا،تب نہ زبیر رضوی کہیں دکھائی دے رہے تھے،نہ جمیل الرحمن کو عملاً ہماری حمایت میں ایک لفظ بھی لکھنے کی توفیق مل رہی تھی اور اشعر نجمی صاحب”اثبات :۳میں جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کی کہانی چھاپنے کے بعد ، عین گھمسان کی جنگ کے دنوں میں کسی نا معلوم وجہ سے لگ بھگ سال بھر کے لیے انڈر گراؤنڈ چلے گئے تھے۔انڈر گراؤنڈ کا لفظ اس لیے لکھا ہے کہ وہ کسی سے بھی رابطہ میں نہیں آرہے تھے۔خود شمس الرحمن فاروقی صاحب نے ان دنوں بعض احباب کو یہ بتایا کہ سنا ہے نارنگ صاحب نے انہیں کوئی فلم لکھنے کا کام دلا دیا ہے اس لیے وہ غائب ہو گئے ہیں۔(حالانکہ یہ بات غلط تھی۔لیکن ایسی سچوایشن میں بھی فاروقی صاحب کا شک نارنگ صاحب پر ہی گیا)ان بعض احباب میں جمیل الرحمن بھی شامل ہیں جنہیں فاروقی صاحب نے یہ بات کہی تھی اور مجھے بھی انہوں نے بتایا تھا۔تو یہ سارے لوگ جو گھمسان کی جنگ کے وقت پتہ نہیں کہاں غائب تھے،اب یہ سارے اس معرکہ کے ہیرو ہیں اور جمیل الرحمن جیسے دوست کو بھی یہ لکھنے کا اعزاز نصیب ہوا کہ یہ حیدر قریشی کون ہے؟
نارنگ صاحب کے حامیوں کے ساتھ معرکہ آرائی کے دوران مجھ پر مسلسل یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ میں شمس الرحمن فاروقی صاحب کے لیے کام کر رہا ہوں اور گویا ان کا ایسا کارندہ ہوں جیسے جمیل الرحمن اور اشعر نجمی ہیں۔ اسی بنیاد پر نصرت ظہیر صاحب کے ساتھ جو لڑائی ہوئی اس میں فاروقی صاحب کو جی بھر کے ملامت کی گئی ۔ میں نے ان کے جواب میں اصل موضوع پر فوکس رکھا اور فاروقی صاحب کا کسی قسم کا دفاع نہیں کیا۔حالانکہ محض مجھے فاروقی گروپ کا بندہ قرار دے کر ان کے خلاف جو کچھ لکھا گیا تھا وہ خاصا تکلیف دہ تھا اور مجھے کئی بار یہ احساس ہوا کہ معاملات نارمل ہو جائیں تو فاروقی صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تلافی کی کوئی صورت نکالوں گا۔ بات سیدھی سی تھی کہ نارنگ صاحب کے حامیوں کے ساتھ جو معرکہ برپا ہوا اس کے دوران ایک ورکنگ ریلیشن شپ فاروقی صاحب کے ساتھ ضرور بن گئی تھی۔ان کے بعض دوستوں کے ساتھ بھی یہی صورت بنی لیکن حقیقتاً ان کے گروپ کا کارندہ ہو کر ان کے لیے کام کرنے والی کوئی بات نہیں تھی۔اب یہی الزام تراشی مسلسل فاروقی صاحب کے کارندوں کی طرف سے کی جا رہی ہے کہ بھنڈر صاحب کے خلاف میری ساری کاوش اس لیے ہے کہ میں نارنگ صاحب کے ساتھ مل گیا ہوں۔یہ اتنا ہی سچ ہے جتنا نارنگ صاحب کے دوستوں کی طرف سے لگایا جانے والا الزام سچ تھا اور اتنا ہی جھوٹ ہے جتنا نارنگ صاحب کے احباب کی طرف سے لگایا گیا الزام جھوٹ تھا۔ورکنگ ریلیشن شپ تب بھی تھوڑی بہت قائم ہوئی تھی۔اب بھی اگرنارنگ صاحب کے دوستوں کے ساتھ اُتنی ورکنگ ریلیشن شپ بن جائے تو مجھے یقیناً اس انوکھی مخالفت کا مقابلہ کرنے میں سہولت ملے گی ۔جس کے لیے ڈرایا تو یہ گیا تھا کہ نارنگ صاحب کے ساتھی ایسا کہیں گے لیکن وہ سب کچھ خود فاروقی صاحب کے ساتھی مل کر کہہ رہے ہیں۔
میں نے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے ناول پر ایک مضمون لکھا تھا۔اس کے اختتامی حصہ میں میرے ایک دو جملے فاروقی صاحب نے ”سبقِ اردو“ میں چھاپنے سے پہلے از خود حذف کر دئیے۔
حذف شدہ جملے یہ تھے:
”انہوںنے خود نئے لکھنے والوں کو اس راہ پر لگائے رکھا جہاں کئی فنکار ادبی خود کشیاں کر گئے۔لیکن جب آپ بہ نفسِ نفیس تخلیقی اظہار پر آئے تونہ صرف جدیدیت سے بالکل الگ ہوتے دکھائی دئیے بلکہ موضوع سے لے کر اسلوب تک ہر سطح پر کلاسیکل بن گئے۔دوسروں کے ساتھ جو ہوا سو ہوا۔۔۔“۔
جب ”سبقِ اردو“میں میرا مضمون شائع کیا گیا اور اس میں سے یہ حصہ حذف کر دیا گیا تو یہ احساس ضرور ہوا کہ حذف کرنے سے پہلے مجھ سے بات کر لی جاتی تو اچھا تھا۔تاہم میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری بات درست ہونے کے باوجود اگراس ناول پر مضمون میں شامل نہ ہو تو پھر بھی ناول کا مطالعہ متاثر نہیں ہوتا۔ جب نصرت ظہیر صاحب نے اس مسئلہ پر اعتراض کیا تو ظاہر ہے مجھے اس کا دفاع کرنا تھا سو میں نے کیا۔تاہم بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جملے حذف کر دینے کے باوجود فاروقی صاحب کے من میں کہیں کوئی رنجش سی رہ گئی ہے۔اس کا اظہار بعض صورتوں میںسامنے آتا رہا ۔اگرچہ یہ بہت ہی چھوٹی سطح کی باتیں ہیں۔پھر بھی اب پیش توکرنی ہی پڑیں گی۔ میں نے ان سب کو دیکھا ضرور۔دوسری طرف کی قلبی کیفیات کو سمجھنے کا اندازہ بھی کر لیا لیکن اس کا اظہار کرنابہت ہی چھوٹا سا لگ رہا ہے۔یہ سب کرنے والوں کو ایسا نہیں لگا تو ان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ان اقدامات کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ایک ویب سائٹ نظر سے گزری:
http://urduindia.wordpress.com/2007/09/29/faruqis-urdu-novel-kai-chand-the-sar-e-aasman/
اس میں فاروقی صاحب کے ناول کا انگریزی میں تعارف کرایا گیا تھا۔صاف دکھائی دیتا ہے کہ انگریزی میں لکھنے والا ان کا اپنا بندہ ہے۔ناول کے تعارف کے طور پر جو کچھ لکھا گیا اس کا بیشتر حصہ میرے مضمون سے اخذ کیا گیا تھا لیکن اس میں کہیں میرا حوالہ نہیں دیا گیا۔چنانچہ میں نے فوری طور پر اسی ویب سائٹ پر کومنٹس کے سیکشن میں رومن اردو میں ہی اپنے یہ تاثرات درج کر دئیے۔
”اس تبصرہ میں مذکورہ ناول پر میرے مضمون کا ایک بڑا حصہ شامل کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ میرا نام مینشن نہیں کیا گیا۔کیا اتفاقاً ایسا ہوا ہے یا جان بوجھ کر میرا تجزیہ تو شامل کیا گیا ہے مگر نام حذف کر دیا گیا ہے؟ “۱۵مئی ۲۰۰۸ء
یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ ناولوں پر اب تک میرے جتنے مضامین چھپ چکے ہیں ان میں عمومی طور پر میرا انداز یہ رہتا ہے کہ میں سب سے پہلے ناول کا خلاصہ یا مختصر کہانی پیش کر دیتا ہوں۔یہی انداز میں نے فاروقی صاحب کے ناول کے سلسلہ میں اختیار کیا۔ان کے ناول کی کہانی بہت زیادہ بکھری ہوئی تھی۔اسے مربوط طور پر پیش کرنا بجائے خود خاصا مشقت طلب کام تھا۔اس ناول پر لکھے گئے مضامین میں سب سے پہلے میرا مضمون شائع ہوا جس میں ناول کا خلاصہ کر دیا گیا تھا۔جب ایک بار کہانی مربوط ہو کر سامنے آجائے تو پھر اس میں کچھ کمی بیشی کرکے دوسرا خلاصہ تیار کرنا آسان ہوجاتا ہے۔چنانچہ میرے مضمون کی اشاعت کے بعد بعض ایسے مضامین پھر پڑھنے کو ملے جن میں تھوڑی کمی بیشی کے ساتھ ناول کا خلاصہ درج کیا گیا تھا۔یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ ناول کی بکھری ہوئی کہانی کو مربوط کرکے یکجا کرنے کا کام بہر حال سب سے پہلے مجھ سے ہوا تھا۔ میرے مضمون کی اشاعت سے پہلے ناول پر جتنے مضمون چھپ چکے تھے کسی میں بھی ناول کا خلاصہ درج نہیں تھا۔
انگریزی ویب سائٹ پر فاروقی صاحب کے ناول کے اسی تعارف میں ایک جگہ میری طرف سے یہ الفاظ شامل کیے گئے۔
such is his mastery in depicting the sexual encounters and love scenes that if the novel was written in modern Urdu, it would have sold by lakhs, says Haider Qureshi, an eminent poet. As it is a novel about Indo-Islamic culture and Mughals, the finest couplets of Urdu and Persian poetry abound in the book.
اس کا اردو ترجمہ شب خون خبر نامہ شمارہ اگست تا دسمبر ۲۰۰۸ءمیں ان الفاظ میں کیا گیا:
”حیدر قریشی(an eminent poetکا ترجمہ غائب ہے) کا کہنا ہے کہ اس ناول میں جنسی معاملات کو اس قدر ماہرانہ انداز لیکن مرصع زبان میں پیش کیا گیا ہے کہ اگر اسے اکیسویں صدی کی زبان میں لکھا جاتا تو اس کی فروخت لاکھوں تک پہنچتی۔ہند اسلامی تہذیب اور مغل طور طریقوں کی عکاسی کے سبب سے ناول میں فارسی کے شعر بھرے ہوئے ہیں۔“
ناول پر مطبوعہ میرے مضمون میں شامل میرے اصل الفاظ یہ ہیں:
”جنسی عمل کی منظر کشی میں شمس الرحمن فاروقی کی جزئیات نگاری کی مہارت اپنے کمال پر دکھائی دیتی ہے۔اگر انہوں نے ناول کو آج کے عہد کی اردو میں لکھا ہوتا تو صرف جنسی جزئیات نگاری کے باعث ناول ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا ۔“
ہاتھوں ہاتھ لیا جانا اور لاکھوں تک فروخت ہونا اپنے اپنے حساب کی بات ہے۔
اور یہ جملہ تو میں نے کہیں بھی نہیں لکھا ۔۔۔”ہند اسلامی تہذیب اور مغل طور طریقوں کی عکاسی کے سبب سے ناول میں فارسی کے شعر بھرے ہوئے ہیں۔“
کہا جا سکتا ہے کہ شب خون خبر نامہ نے تو انگریزی سائٹ کی تحریر کا ترجمہ دیا تھا۔لیکن مجھے اس بات پر اصرار ہے کہ انگریزی میں لکھنے والا بھی ان کا ہی کوئی نیازمند ہے۔ نیزاگر انگریزی میں کچھ غلط لکھا ہوا تھا تو فاروقی صاحب کے لیے اس کی درستی کرنا یا اسے نظر انداز کرنا مشکل نہ تھا۔بہر حال جو میں نے لکھا تھا اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے طویل حصہ میں میرا حوالہ تک نہیں دیا گیا اور جو میں نے نہیں لکھا تھا وہ بلا وجہ مجھ سے منسوب کر دیا گیا۔تاہم اس قسم کی باتوں سے اندازہ ہوتا رہا کہ مجھ پر جن کا کارندہ ہونے کا جھوٹاالزام ہے وہ مجھ سے کس حد تک خوش ہیں۔
یہی صورتِ حال اشعر نجمی صاحب کے ہاں بھی نمایاں ہو رہی تھی۔کہاں یہ کہ وہ” جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲کی کہانی“کو اہتمام کے ساتھ چھاپ رہے تھے اور کہاں یہ کہ کسی نے سرقہ اور جعلسازی کے خلاف جدید ادب کا ذکر کردیا تو باقی سارا لکھا چھاپ دیا لیکن جدید ادب کی توصیف والا جملہ حذف کر دیا۔رفیع رضا کے تاثرات فیس بک پر لگے ہوئے تھے جس میں انہوں نے سرقہ کی روایت کے مستحکم ہونے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کے لیے مسلسل جہاد کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔اور اپنے خط کے آخر میں یہ اعتراف کیا:
”جدید ادب رسالہ جو حیدر قریشی صاحب کی ادارت میں جرمنی سے شائع ہوتا ہے، انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے ۔اس جہاد میں سبقت لے جاچُکا ہے ۔“
اشعر نجمی صاحب نے وہ سارے تاثرات ”اثبات“ شمارہ نمبر ۵۔۴میں شائع کیے بس یہ آخری جملے حذف کر دئیے۔میں ان ساری چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو اور ایسی ہی دیگر حرکتوں کو اپنے ان کرم فرماؤں کی محبت میں شمار کرتا ہوں۔
عمران بھنڈر صاحب کے سرقہ اور جعلسازی کے حوالے سے بحث انٹرنیٹ کے کئی فورمز تک پھیلی۔ایک فورم پر ڈاکٹر فریاد آزر اور ارشد خالد نے بڑے مدلل طریقے سے اشعر نجمی اور جمیل الرحمن اور ان کے فیس بُکی دوستوں کی گرفت کی۔اس فورم پرفریاد آزر نے اشعر نجمی کے جواب میں بڑی پھڑکتی ہوئی میل پوسٹ کی۔اس کے ساتھ ہی اس فورم کی انتظامیہ نے بحث کو بند کرنے کا اعلان بھی کر دیالیکن پھراپنے ہی اعلان کو رد کرکے اور اشعر نجمی کو ترجیح دے کرایک بار پھر اشعر نجمی کے تاثرات شائع کر دئیے گئے۔پہلے ڈاکٹر فریاد آزر کے تاثرات پیش ہیں۔
”اشعر نجمی صاحب کی محبت ہے کہ بار بار مجھے ایک بات یاد دلا رہے ہیں اور اور بار بار جعلساز اور سارق عمران بھنڈر کے بے جان دفاع کے لیے جان ہلکان کر رہے ہیں۔اس سلسلہ میں بار بار ان کا ایک ہی سوال ہے کہ ڈاکٹر گوپی چند کے بارے میں یہ اعتراف کرو۔بھائی! جس اعتراف پر آپ اتنا زور دے رہے ہیں،آپ اس میں کوئی ذاتی دشمنی نبھا رہے ہیں؟اگر آپ کو واقعی سرقہ اور جعلسازی سے دلچسپی ہے تومولانا حالی،شبلی نعمانی،علامہ نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محی الدین زور،حامداللہ افسرسے لے کر سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر سلیم اختر،ملک حسن اختراور وقار عظیم تک نقادوں کی ایک جید کھیپ ہے جن پر کسی نہ کسی رنگ میں سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کا الزام لگا ہوا ہے۔آپ نے باقی سب کے معاملے میں بھی اتنی ہی پھرتی اور دلچسپی دکھائی جتنی اب ڈاکٹر نارنگ کے بارے میں دکھا رہے ہیں؟کیا ان سب کے بارے میں جاننے کے بعد آپ ان کے حوالے سے بھی اتنی ہی ایمانداری کے ساتھ اور اتنی ہی تیزی کے ساتھ سرقہ یا ترجمہ بغیر حوالہ کا مسئلہ اُٹھائیں گے؟۔ان سب سے نمٹ لیں پھر نارنگ صاحب کے حصہ میں جو ملامت آئی اسے بھی اسی تناظر میں دیکھ لیجیے گا۔ ڈاکٹر فریاد آزر“
2011/8/29 fariyad azer <[email protected]>
اور اب اس مدلل بیان کا انتہائی کمزور اور نہایت بودا جواب جو اشعر نجمی صاحب کو خصوصی سہولت دے کر شائع کیا گیا،اس کے چند اہم حصے بھی دیکھ لیں۔
”فریاد آزر صاحب!میں خدا حافظ بول کر دوبارہ اس لیے ”بزمِ قلم“میں حاضر ہو گیا ہوں،کیونکہ اس کے بعد آپ کا جو جواب آیااس کا متن اور اسلوب دونوں چغلی کھا رہے تھے کہ قلم آپ کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ میں منتقل ہو چکا ہے۔ممکن ہے کہ اب یا تو آپ کے” استادِ محترم“ نے خود کمان سنبھال لی ہو یا پھر نارنگ صاحب کا کوئی تنخواہ بردار حق نمک ادا کر رہا ہو۔ورنہ آپ خود بھی جانتے ہیں کہ اتنے سدھے ہوئے فقرے تو آپ کے فرشتے بھی نہیں لکھ سکتے۔۔۔۔۔۔ایک ہی سانس میں آپ مولانا حالی،شبلی نعمانی،علامہ نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محی الدین زور،حامداللہ افسر، سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر سلیم اختر،ملک حسن اختراور وقار عظیم کا نام گنواتے ہیں۔مجھے علم نہیں کہ ان ناموں کو زبان پر لانے سے پہلے آپ نے وضو کیا تھا یا نہیں؟۔۔۔۔۔نارنگ صاحب کے پاس کوئی ایسا مرد ہی نہیں بچا جو خم ٹھونک کر سامنے آئے اور اپنی بات اپنی زبان سے کہے۔سب کے سب برقعہ پہنے ادھر اُدھر آسیب بن کر گھوم رہے ہیں“اشعر نجمی 8/30/11
ڈاکٹر فریاد آزر کی دلیل اور اشعر نجمی کے وضو کرنے والے فرمان میں کتنی ادبی سچائی اور طاقت ہے اس کا فیصلہ اہلِ ادب اور خاص طورپر اہلِ تحقیق خود ہی کرتے رہیں گے۔تب ارشد خالد نے ٹیلی فون پربڑ ا عمدہ جملہ کہا کہ اگر فاروقی صاحب پر ایسا کوئی الزام لگ گیا توپھر اسے تو وضو کرکے نہیں بلکہ غسل کرکے لکھنا پڑے گا۔جس قسم کی بحث انٹرنیٹ پر چل پڑی تھی،اس میں خود فاروقی صاحب کے سارے کارندے پورے تال میل کے ساتھ ایک دوسرے سے رابطہ میں تھے۔اور مختلف ناموں سے لکھ بھی رہے تھے، لکھوا بھی رہے تھے۔جب بحث مناظرانہ صورت اختیار کر رہی ہو تو ایک دوسرے سے رابطہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔اصل چیز تو وہ دلائل ہوتے ہیں جو فریقین کی جانب سے پیش کئے جا رہے ہوتے ہیں۔ڈاکٹر فریاد آزر نے اگر کسی سے کوئی صلاح مشورہ کیا بھی ہو تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔اصل چیز ان کے دلائل ہیں اور ان کے جواب میں اشعر نجمی صاحب نے جو لکھا ہے،اسی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کون اصولی بات کر رہا ہے اور کون جان چھڑانے کے لیے الزام تراشیوں کا سہارا لے رہا ہے۔اشعر نجمی صاحب کی الزام تراشی کے جواب میں یہاں ادبی طور پر بھی اور انٹرنیٹ پر موجود برقعہ پوشوں کے حوالے سے بھی دو اہم مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
میں نے اپنے مضمون ”فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی“ میں واضح کیا تھا کہ اقبال نوید اور سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے عمران شاہد بھنڈر خود لکھتے ہیں۔اس الزام کے بعد ظاہر ہے ان لوگوں کو اس کی مدلل تردید کرنے کی جرات نہیں تھی،اس لیے ان کے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ دوسروں پر ایسا الزام لگانا شروع کردو۔ جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے لیے بقول شمس الرحمن فاروقی صاحب ویسے بھی کسی بنیاد کی ضرورت نہیں ہوتی۔بس افواہ اڑا دیجیے اور اطمینان کر لیں کہ آپ پر لگا الزام دھل گیا۔
۲۷اگست ۲۰۱۱ءکو اسی فورم پر حسین چوہان نام کا ایک برقعہ پوش وارد ہوا۔اس کی غلیظ پوسٹ عمران شاہد کی مخصوص بد زبانی کو ظاہر کر رہی تھی۔اس پر ارشد خالد نے فوراً نوٹس لیتے ہوئے وہیں پر یہ لکھا:
”انٹرنیٹ پر حسین چوہان کے نام سے جو میل جاری کی گئی ہے یہ سو فی صد عمران شاہد بھنڈر خود ہے۔اس بارے میں تحقیق کرا لی جائے۔ننانوے فی صد نہیں پورے سو فیصد یہ حسین چوہان، عمران شاہد بھنڈر خود ہے۔اب جبکہ عمران شاہد کے انگلینڈ کے پرانے ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں جو اپنا نام استعمال کرانے پر راضی تھے تو عمران نے فرضی ای میل آئی ڈیز بنانے شروع کر دئیے ہیں۔اس پر ایک نیم پاگل کا لطیفہ یاد آتا ہے۔جس نے ایک دوکان پر جاکر پوچھا کہ یہ فرج کتنے کا ہے؟ تو دوکاندار نے جواب دیا کہ یہ تمہیں نہیں بیچنا۔وہ مختلف بھیس بدل بدل کر دوکان پر جاتا رہا اور ہر بار پوچھتا کہ یہ فرج کتنے کا ہے اور ہر بار بھیس بدلا ہونے کے باوجود دوکاندار کہتا کہ یہ تمہیں نہیں بیچنا۔آخر اس نے پوچھا کہ تم کیسے پہچان لیتے ہو کہ بھیس بدل کر میں ہی آیا ہوں۔اس پر دوکاندار نے کہا کہ جسے تم فرج کہہ رہے ہو وہ واشنگ مشین ہے۔اس سے زیادہ کیا لکھوں؟
ارشد خالد“ 8/27/11
جیسے عمران بھنڈر صاحب کا پردہ فاش ہوا ان لوگوں نے ارشد خالد کے چبائے ہوئے نوالے آزمانے کا رویہ اپنا لیا۔اب انہیں ارشد خالد میں حیدر قریشی دکھائی دینے لگا،ڈاکٹر فریاد آزر میں نارنگ صاحب دکھائی دینے لگے۔
اس فورم پر علمی طور پر کھلی شکست کھانے کے بعد اشعر نجمی صاحب نے اپنا آخری حربہ آزما لیا۔ان کا اس فورم میں خاصا نہیں، خاصے سے زیادہ عمل دخل ہے،چنانچہ انہوں نے ڈاکٹر فریاد آزر کے دلائل کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے ان کی فورم سے ممبر شپ ہی ختم کرا دی۔ (چند روز کے بعد وہ ممبر شپ جزوی طور پر بحال کی گئی،اور اشعر نجمی کے جواب میں لکھی گئی جوابی میلز کو شائع نہیں کیا گیا)اپنے فورم پر جمیل الرحمن صاحب نے بھی سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد کا فیصلہ صادر فرمایا تھا۔ اور دوسرے فورم پر اشعر نجمی صاحب نے بھی بہ انداز دگریہی کر دکھایا۔لیکن دونوں صاحبان کے یہ اقدام کس اعتراف کی نشان دہی کرتے ہیں؟
بعض بہت ہی کمزور اور بے تکے قسم کے اعتراضات بھی کسی نہ کسی رنگ میں سامنے آئے ہیں ۔ان میں سے ہر ایک کا جواب دینا مناسب نہیں۔ہاں کسی ادبی رسالہ میں ایسے اعتراضات شائع ہوئے تو پھر ان کا پورا جواب دیا جائے گا۔یہاں صرف اشعر نجمی صاحب اور عمران بھنڈر صاحب کے پروپیگنڈہ نما دو نہایت نا معقول اعتراضات کا جواب دے دیتا ہوں۔
جب ارشد خالد صاحب نے شمس الرحمن فاروقی صاحب، محمدعمر میمن صاحب اور سی ایم نعیم صاحب کے تاثرات انٹرنیٹ فورمز پر پیش کیے تو اشعر نجمی صاحب نے حقیقت جانتے ہوئے بھی شرارت کے طور پر کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی۔اور سوال کیا کہ یہ خطوط تو حیدر قریشی کے نام تھے،آپ کو کیسے مل گئے۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ”ردِ عمل“ کے عنوان سے میں بہت سارے احباب کے تاثرات ریلیز کر چکا ہوں جو خود اشعر نجمی صاحب کو بھی مل چکے تھے،جس کا ثبوت میرے پاس محفوظ ہے۔دوسری بات یہ کہ ارشد خالد صاحب اپنے عکاس میں میرا مضمون اور سارا ردِ عمل ایک ساتھ ستمبر۲۰۱۱ءکے شمارہ میں شائع کر رہے تھے۔عام احباب کو ریلیز کیے جانے کی بنیاد پر بھی اور اپنے رسالہ میں چھاپنے کی بنیاد پر بھی ان کی جانب سے ایسے خطوط کی اشاعت میں اچنبھے کی بات کونسی تھی؟ہر چند ارشد خالد صاحب نے خود بھی یہ وضاحت دو فورمز پر کر دی ہوئی ہے تاہم میں یہاں اس لیے اس کا ذکر کرہا ہوں تاکہ اس حلقہ کے منفی پروپیگنڈہ کی نوعیت اور حقیقت سامنے آسکے۔
دوسرا فرمان عمران بھنڈر صاحب کا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے خطیر رقم دے کر گوجرانوالہ کے ایک روزنامہ افکارِ جہاں میں اپنا مضمون شائع کرایا ہے۔قطع نظر اس سے کہ میرے پاس ادارہ افکارِ جہاں گوجرانوالہ کے ساتھ مراسلت کی ساری ای میلز محفوظ ہیں اور موقع محل کی مناسبت سے انہیں کبھی شائع بھی کیا جا سکتا ہے۔تاہم یہ واضح کر دوں کہ گوجرانوالہ کے افکار جہاں اور کولکاتا کے روزنامہ عکاس، دونوں اخبارات کو ایک پیسہ بھی نہیں دیا گیا۔دونوں طرف یہ مضمون ادبی محبت کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔گوجرانوالہ کے اخبار میں مضمون چھپوانے کی ایک خاص وجہ بھی ہے۔عمران بھنڈر صاحب نے عام طور پر خود کو ایک سیاسی گھرانے کا فرد ظاہر کرکے یہ تاثربنایا ہوا ہے کہ گوجرانوالہ میں ان کا بہت زیادہ اثررسوخ ہے،وہ جو چاہیں وہاں کر سکتے ہیں۔ افکار جہاں میں مضمون چھپوا کر میں نے ایک متکبر کا تکبر توڑا ہے۔ڈاکٹرظہور احمد اعوان صاحب مرحوم نے میرے بارے میں ایک بار لکھا تھا کہ حیدر قریشی شیر کو اس کی کچھار میں جا کر للکارتا ہے۔اگر وہ زندہ ہوتے تو شاید اب کچھ اس قسم کی بات لکھتے کہ حیدر قریشی اگر شیر کو اس کی کچھار میں جا کر للکارتا ہے تو گیدڑ کی بھی اس کے اصل ٹھکانے پر جا کر چھترول کرتا ہے۔مجھے احساس ہے کہ یہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے لیکن عمران بھنڈر کے مجموعی کردار کے تناظر میں ابھی بھی کم ہے۔
اب نام نہاد نوجوان فلسفی کا ذکرِ خیرشروع ہوا ہے توان کی بھی چند باتیں ہو جائیں۔موصوف نے براہِ راست میرے اہم سوالات کے جواب سے مکمل گریز کیاہے۔ڈاکٹر وزیر آغا ،ڈاکٹر انور سدیداور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے خلاف بد زبانی کرکے یہ گمان کر لیا کہ میرے سوالات اور پیش کردہ حقائق سے نجات مل گئی۔اشعر نجمی اور جمیل الرحمن کی ملی بھگت سے بلا ئے ہوئے فیس بُکی ساتھیوں نے اس قسم کے اعتراضات کو اچھالا کہ اگر بھنڈر صاحب نے پی ایچ ڈی نہیں کی تو کیا ہوا۔اور اگر وہ بے روزگار ہیں تو کیا ہوا۔یہ کوئی اعتراض ہیں۔اگر واقعی صرف ایسی ہی بات ہوتی کہ عمران بھنڈر صاحب پر محض یہ اعتراض کیا جاتا کہ وہ پی ایچ ڈی کیوں نہیں ہیں اور یہ کہ وہ کہیں شعبہ تعلیم میں استاد کیوں نہیں ہیں تویقیناً یہ بے جا اعتراض ہوتے۔وہ صرف گریجوایٹ بھی ہوتے تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا،وہ شعبہ تعلیم کی بجائے کسی اور شعبہ میں ملازمت کرتے،یا ویسے ہی بے روزگار ہوتے تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوتا۔اعتراض کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ۲۰۰۷ءسے پوری اردو دنیا کو دھوکا دے رکھا ہے کہ وہ ”پوسٹ ماڈرن لٹریری تھیوری“کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔جبکہ انہوں نے پی ایچ ڈی کے لیے اپنی رجسٹریشن ہی نہیں کرا ئی۔تو جب ایک کام شروع ہی نہیں کیا تو اس کا جعلی تاثر کیوں قائم کیا۔مسئلہ ڈگری لینے یا نہ لینے کا نہیں ،مسئلہ جعل سازی کا ہے۔وہ اس معاملہ میں جعل سازی کے مرتکب ہوئے ہیں۔یہی معاملہ شعبہ تعلیم سے وابستگی کے بیان میں ہے۔دونوں باتیں جھوٹ ہیں اور اپنا جعلی تاثر قائم کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں۔
عمران شاہد بھنڈر نے خود اور مختلف آئی ڈیز کے ذریعے بھی جو جواب دینے کی کوشش کی ہے ،وہ محض گالی گلوچ ہے،اس کا دلائل اور شواہد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں نے خلاصۂکلام میں چھ اہم نکات ابھارے تھے لیکن عمران شاہد بھنڈر کی بد حواسی نے ایک ساتویں نکتہ کو بھی اہمیت دے دی ہے۔جب عمران شاہد بھنڈر نے حسین چوہان کے نام سے بد زبانی شروع کی تواس میں میری گھریلو زندگی کے بارے میں جھوٹ کے پلندے لکھنا شروع کیے ۔میری ازدواجی زندگی پر جب بھی کسی ایسے کرم فرما نے کوئی غلط بات کی ہے، بعد میں اتہ پتہ کرنے پر وہ خود گھریلو زندگی کی مسرتوں سے محروم ایک لڑکھڑاتا ہوا انسان ظاہر ہوا۔میں کسی کی ازدواجی زندگی کی ناکامی پر خوش نہیں ہوتا۔عمران بھنڈر کی ازدواجی زندگی بھی ایسی ہی ناکام ہے۔اسی لیے انہوں نے اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے اس قسم کی باتیں کی ہیں۔تاہم میں بھنڈر صاحب سمیت ایسی باتیں کرنے والے سارے کرم فرماؤں کی باتوں پر غصہ نہیں کروں گا۔مجھے حقیقتاً ان سب سے ہمدردی ہے۔اور دعا کرتا ہوں کہ ان کی زندگیوں میں میری ازدواجی زندگی جیسی آدھی خوشیاں ہی آجائیں تو شاید اس معاملہ میں ان کی ساری فرسٹریشن ختم ہو جائے ۔
بھنڈر صاحب نے ارشد خالد کے بارے میں ”بنک کا چپڑاسی“ جیسے اہانت آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔اس سے ارشد خالد کا کچھ نہیں بگڑا البتہ عمران شاہد بھنڈر کا نچلے طبقے سے ہمدردی رکھنے والامارکسزم ضرور ظاہر ہو گیا ہے۔میں مارکسسٹ نہیں ہوں لیکن یہاں اس بات کا اظہار فخریہ کرنا چاہوں گاکہ جب میں خانپور کی سڑکوں پرہوائی چپل پہن کر گھوما کرتا تھا،ارشد خالداُس زمانے میں موٹر سائیکل رکھتا تھا۔تب سے ہماری دوستی قائم ہے۔ ہر دوسرے موڑ پر مفادات کے چکر میں چکر چلانے والے لوگ زندگی میں ایک بھی ایسا دوست نہیں بنا پاتے جسے تیس یا چالیس سال کے بعد بتا سکیں کہ ہم اتنے عرصہ سے دوست ہیں اور وہ دوستی آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ انگلینڈ کے سرکاری کاغذات میں عمران بھنڈر صاحب کی جتنی انکم درج ہے،ارشد خالد کی پاکستان میں رہتے ہوئے سرکاری کاغذات میں اس سے زیادہ انکم ہے۔عمران بھنڈر صاحب کتنے قابلِ رحم ہیں کہ ان کے دامن میں نہ کوئی قابلِ فخر فیملی رشتہ ہے اور نہ ہی کوئی طویل دورانیہ کا دوست۔
بات ہو رہی تھی عمران بھنڈر صاحب کے بارے میں ساتویں اہم نکتے کی۔حسین چوہان کے فرضی نام سے عمران بھنڈر صاحب کی بد زبانی عروج پر تھی ،وہ تہذیب اور شائستگی سے بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔تب ارشد خالد نے عمران بھنڈر کے لہجے میں انہیں جواب دیتے ہوئے سلمان شاہد بھنڈر کے نام کے راز سے ہلکا سا پردہ سرکایا۔پہلے ارشد خالد کا عمران بھنڈر اسٹائل میں(جیسا منہ ویسی چپیڑکے مطابق)جواب پڑھ لیں:
”عمران شاہد بھنڈر عرف حسین چوہان !تم کہاں سے گر کر ذلت کے کس مقام پر پڑے ہو پھر بھی تمہیں احساس نہیں ہو رہا۔جب تمہاری جعلسازی کے راز کھل گئے تو اب دوسروں پر الزام تراشی کر رہے ہو۔تمہارا سرقہ اور پی ایچ ڈی کی جعل سازی،شعبہ تعلیم سے وابستگی کا ڈرامہ ،سلمان شاہد کا فریب سب کھل گیا ہے تو اب ہم پر ہی اپنے کرتوت کے الزام لگا رہے ہو۔تمہارے جعلی آئی ڈیز کے بارے میں کیسے پتہ چل جاتا ہے ،اس کا اقبال نوید سے پوچھو۔اقبال نوید سے یہ بھی پوچھو کہ یہ خبر کیسے نکل گئی کہ سلمان شاہد بھنڈر تمہارا چھوٹا بھائی نہیں بلکہ بیٹا ہے۔لیکن تم تو انگلینڈ میں خود کو غیر شادی شدہ کہتے ہو تو یہ بیٹے کا کیا ماجرا ہے۔اس سے زیادہ تمہیں کیا جواب دوں؟تم ذلت کی جس گہرائی میں گر چکے ہو وہاں سے تمہیں اب کوئی بھی نہیں نکال سکتا۔
ارشد خالد“ 8/29/11
ساتواں نکتہ یہ نکلا کہ سلمان شاہد ان کا بیٹا ہے لیکن وہ خود کو انگلینڈ میں غیر شادی شدہ بتاتے ہیں۔شادی کے بغیر بیٹا۔۔۔کہاں کیا چکر ہے؟چنانچہ جیسے ہی یہ بات سامنے آئی عمران بھنڈر عرف حسین چوہان کی آگ اگلتی زبان یک دم صلح جو ہو گئی۔دوسروں کے گھروں کے بارے میں نہایت بے حیائی کے ساتھ یک سر جھوٹ لکھنے والے عمران بھنڈر صاحب کو جیسے ہی اپنے کسی خفیہ سچ کا سامنا کرنا پڑا تو ایک دم شائستگی کا ڈرامہ شروع کر دیا۔اس کے جواب میں موصوف نے یہ پوسٹ شائع کی۔
”محترم خواتین وحضرات
آئیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا بند کریں۔اور ایک صحت مند علمی و ادبی مکالمے کی جانب بڑھیں۔میں نے برطانیہ کے ایک ریڈیو اسٹیشن پر جدلیات اور مابعد جدیدیت کے تعلق کے بارے میں ایک انٹرنیشنل مذاکرے کا اہتمام کیا ہے۔اس کے تمام تر اخراجات میں خود ادا کروں گا۔میں نے سوچا ہے کہ ایک ہی پلیٹ فارم پر عمران شاہد بھنڈر،گوپی چند نارنگ،حیدر قریشی اور ناصر عباس نیرکو اکٹھا کیا جائے۔اور مابعد جدید تھیوری کے بارے میں ریڈیو پرتجزیاتی مباحثہ کرایا جائے۔یہ مذاکرہ لائیو ہوگا۔اس میں یہ سب احباب حصہ لیں۔اس مکالمے کو پوری دنیا میں ریڈیو پر سنا جا سکے گا۔احباب خود فیصلہ کریں گے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔کس کے پاس کتنا علم ہے۔دوسروں کی کتاب کو سامنے رکھ کر کتاب لکھنا آسان ہے۔انہی موضوعات پر لائیو مباحث میں سب کی علمیت کا پول کھل جائے گا۔میری ان تمام احباب سے گزارش ہے کہ وہ اپنی رضامندی کااظہار کریں تاکہ بات آگے بڑھ سکے۔مذاکرے کا موضوع ہوگا”مابعد کانٹین ازم جنم لینے والی اثباتی جدلیات،منفی جدلیات اور اس کا مابعد جدیدیت سے تعلق“۔حیدر قریشی کے لیے اپنی علمیت کو ثابت کرنے کا یہ بہترین موقعہ ہے۔مجھے امید ہے کہ وہ اسے ضائع نہیں کرے گا۔آپ کا حسین“ 8/29/11
اس سے ان کی کمزوری کھل کر سامنے آ گئی،سو اب یہ جاننا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ عمران بھنڈر صاحب جب اپنی حمایت اور اپنے مخالفین کی سرکوبی کے لیے اپنے کمسن بیٹے سلمان شاہد بھنڈر کا نام استعمال کرتے رہے ہیں،خود کو غیر شادی شدہ بھی جتاتے رہے ہیں ،تو غیر شادی شدہ باپ ہونے میں کیا بھید ہے؟۔اگر یہ سوال عمران بھنڈر کو بد تہذیبی ترک کرکے قلمی طور پر مہذب بنا سکتا ہے تو اس سوال کو مسلسل اٹھاتے رہنا چاہیے۔سو میںخلاصۂکلام کو دہراتے ہوئے اب چھ نکات کی بجائے سات نکات کے طور پر پیش کروں گا۔کسی بد تہذیب اور بے لگا م کوتہذیب سکھانے اور لگام دینے کے لیے یہ نکتہ ابھارتے رہنا ضروری ہو گیا ہے۔سو چھ نکاتی خلاصۂکلام کو ساتویں نکتہ کے اضافہ کے ساتھ یہاں درج کر رہاہوں۔ان سب کا جواب عمران بھنڈر صاحب پر ابھی تک قرض ہے۔اور کسی تھرڈ کلاس نوعیت کی الزام تراشی اور گالی گلوچ کے ذریعے ان سے نجات ممکن نہیں ہے۔ترتیب وار جواب دینے کی صورت میں ہی ان سے نجات ملے گی ورنہ یہ ساتوں نکات ان کی پیشانی پر لکھے رہیں گے اور چمکتے رہیں گے۔
خلاصۂکلام:
۱۔عمران شاہد بھنڈر نے2007ءمیں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوعPostmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ءسے لے کر جون 2011ءتک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔
۲۔خود کو شعبۂتعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂتعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂتعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟
۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود” نوجوان فلسفی“ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ”نابغہ“ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔
۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔
۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔
۶۔عمران شاہد بھنڈر جو سلمان شاہد بھنڈر کے نام سے خود ہی اپنی تعریف میں اوراپنے مخالفین کی مذمت میں مضامین لکھتے رہے ہیں،اس بارے میں اب یہ بات کھل گئی ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر ان کا کم سن بیٹا ہے۔بچے کی قانونی حیثیت کیا ہے،ہمیں اس سے غرض نہیں ہے لیکن عمران بھنڈر ابھی تک خود کو غیر شادی شدہ ظاہر کرتے رہے ہیں،تو دوسروں پر غلیظ اور جھوٹے حملے کرنے سے پہلے غیر شادی شدہ باپ کی حیثیت سے انہیں اپنی اخلاقی حیثیت کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔
۷۔”نوجوان فلسفی“ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔
ادبی در اندازعمران بھنڈرصاحب کے بارے میں بعض دوستوں نے دلچسپ پیرائے میں اس حقیقت کو ابھارا ہے کہ موصوف اپنے نصابی مطالعہ سے باہر آئیں تو ان کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔اگر ان پر یہ پابندی عائد کر دی جائے کہ آپ نے کانٹ،ہیگل،مارکس اور دریدا کے ذکر کے بغیر کچھ لکھنا ہے تو موصوف ایک سطر بھی شاید نہیں لکھ سکیں گے۔اگر کبھی کوئی دوست اور عمران بھنڈر کے خیر خواہ انہیں اس راہ پر لے آئے کہ مذکورہ فلسفیوں اور دانشوروں کا ذکر کیے بغیر یہ کچھ لکھنے کے قابل ہو جائیں تو اسے بھی اچھا آغاز سمجھا جا سکتا ہے۔اردو ادب کا اپنی پسند کا ایسا انتخاب کرنے کی عمران بھنڈر کو آزادی ہے جسے وہ اپنی دانست میں اعلیٰ اردو ادب میں شمار کر سکیں۔پھر ان منتخب فن پاروں پر وہ مضامین لکھنا شروع کریں اور کانٹ سے دریدا تک اپنے نصابی مطالعہ والے مفکروں کے حوالوں کے بغیر مضامین لکھنا شروع کریں تو اردو دنیا پر پوری طرح کھل جائے گا کہ عمران بھنڈر صاحب کس پائے کے نقاد ہیں۔یا یہ کہ نقاد ہیں بھی یا نہیں۔لیکن مجھے معلوم ہے عمران بھنڈر اس سنجیدہ کام سے فرار کے لیے سو بہانے تراش لیں گے کیونکہ یہ ان کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں!
بات ہو رہی تھی عمران بھنڈر عرف حسین چوہان کے صلح جو بیان اور مکالمہ کی دعوت کی۔ موصوف نے جس طرح صحت مند علمی مکالمہ کی ریڈیائی دعوت دی ہے،اس میں بھی وہی ان کے اندر گوجرانوالہ کے دھوتی پہنے ہوئے پہلوان والا انداز شامل ہے۔تہذیب اور تمیز کے ساتھ لکھ سکیں تو ریڈیائی مکالمہ(ڈرامہ)کے مقابلہ میں قلمی مکالمہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔مقصد علمیت بگھارنا نہیں ہوتابلکہ موضوع کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لا کر ان پر مزید غور وفکر کرنا ہوتا ہے۔عمران بھنڈر جس انداز میں اپنی علمیت بگھار رہے ہیں اس سے مجھے یونان کے ایک دانشور کی بات یاد آگئی۔عمران بھنڈر،حسین چوہان،سلمان شاہد اور اقبال نوید(اصل میں چاروں ایک ہیں)جیسے لوگ مل کر اس دانشور کے پاس گئے اور اس سے کچھ پوچھنے اور ڈسکس کرنے لگے۔اُس بھلے آدمی کو ان چاروں کی اصلیت اور علم کا اندازہ تھا،اس نے کہا کہ بھائی مجھے تو کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔اس پر” اِن چاروں“ جیسے لوگوں نے طنزاً مسکراتے ہوئے کہا جب ہمیں بھی معلوم نہیں اور تمہیں بھی معلوم نہیں تو ہم میں اور تم میں کیا فرق ہوا؟
اس پر اس دانشور نے متانت کے ساتھ جواب دیا:فرق یہ ہے کہ مجھے اس کا ادراک ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا،جبکہ تم لوگوں کو اس کا ادراک بھی نہیں ہے کہ تم کچھ نہیں جانتے۔
تو عمران بھنڈر صاحب!جس دن آپ کو یہ ادراک ہو گیا کہ آپ واقعتاً زندگی ،فلسفہ اورادب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اس دن آپ کے علمی اور ادبی سفر کا آغاز ہو جائے گا۔اب دیکھتے ہیں کہ آپ کب تک اس سفر کا آغاز کرپاتے ہیں۔
اس مہذب چیلنج میں”مابعد کانٹین ازم جنم لینے والی اثباتی جدلیات،منفی جدلیات اور اس کا مابعد جدیدیت سے تعلق“کا موضوع حسین چوہان نے از خود منتخب کیا ہے۔اس موضوع سے ہی میری اس بات کی ایک بار پھر تصدیق ہو گئی کہ عمران بھنڈر ابھی تک اپنے ایم اے کے نصابی کنویں میں ہی موٹر سائیکل چلا رہے ہیں۔وہی کانٹ،اس کے بعدجدلیات کے حوالے سے خود بخود ہیگل آئے گا،پھر کارل مارکس،اور مارکس کے بعد دریدا ۔۔۔اور پھر اردو والوں کے بارے میں وہی باتیںجو گزشتہ مضمون میںپہلے بتاچکا ہوں۔اس کے باوجود اگر وہ ”تمام تر اخراجات“میں مدعو کردہ چاروں احباب کے لیے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں تو ہم ان کی زیارت کی خاطر ہی سہی ضرور آئیں گے۔اچھا ہوگا کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب اور اشعر نجمی صاحب کو بھی مدعو کر لیں۔سب مل کرآپ کا ریڈیو اسٹیشن ہی دیکھ لیں گے۔
عمران بھنڈر صاحب کو فیس بک اور انٹرنیٹ کی دنیا سے ہٹ کر اعلیٰ علمی و ادبی شخصیات کس انداز سے دیکھ رہی ہیں ،وہ بیشتر ردِ عمل الگ سے چھپ گیا ہے(مزید موصولہ ردِ عمل بھی چھپتا رہے گا) تاہم اس کی جھلک کے طور پر یہاں دو اہم ادبی شخصیات کے تاثرات تبرک کے طور پر شامل کر رہا ہوں۔عمران بھنڈر اپنے آپ کو اس آئنہ میں دیکھیں اور اپنی اصل شناخت کو سمجھیں۔
”مجھے ۔۔۔ بھنڈر صاحب کا وہ مضمون پڑھنے کااتفاق بھی ہوا ہے جو انھوں نے حیدرقریشی صاحب کی حقیقت بیانی سے برانگیختہ ہو کر لکھا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے آج کے معاشرے میں ہر شخص” جھوٹ “کو لے اڑتا ہے۔ اور سچ سننے سے گریز کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ” شاہ دولہ کا چوہا“ بھی سر پر تاج زر نگار پہنائے جانے پر فخر کرتا ہے۔ اور اپنی حقیقت کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔ حیدر قریشی صاحب نے ایسے ہی لوگوں کے خلاف تیغ برّاں ہونے کا ثبوت دیا ہے۔“
ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Thank you for sending this "ne'mat-e ghair mutaraqqiba." I read the whole article right away and felt immense pity for the man. Much as I admire your zeal in exposing such impostors, I also feel that your time is far too precious to be wasted on such non-entities. When the controversy was hot, I frequently thought of joining the fray and throw in my two-cents worth, but something prevented me. In retrospect I feel I rightly saved myself from a wasteful undertaking. But I also think that such impostors need to be exposed and cut down to their size. Somebody has to do it, even if it is wasteful, even if the culprit is a non-entity, and you are doing it. We must all be grateful to you:
سب پہ جس بار نے گرانی کی اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
But I cannot call you a "natavan."So keep on with the good work .
Warmly, m u memon
محمد عمر میمن۔(امریکہ)
شمس الرحمن فاروقی صاحب کے نادان دوستوں نے اس معاملہ میں اتنی بد حواسی کے ساتھ ٹانگ کیوں اڑائی کہ فاروقی صاحب کے اس خدشہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہونے دی جس کا ذکر شروع میں کر آیا ہوں۔اس کی بنیادی وجہ سرقہ یا جعلسازی کے خلاف صحت مندرویہ نہیں بلکہ صرف اس گروپ کی نارنگ دشمنی ہے۔ماتم کرنے والے دوستوں کا زیادہ شور اس بات پر ہے کہ عمران شاہد بھنڈر صاحب کی اصلیت ظاہر کرکے اس سارے کام کو غارت کر دیا گیا ہے جو ان کے مضامین کی صورت میں نارنگ صاحب کے خلاف یکجا ہوا تھا۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب ہوں یا شمس الرحمن فاروقی صاحب،زبیر رضوی صاحب ہوں یا علی جاوید صاحب۔۔۔ان سب کی ہندوستانی فضا میں باہمی چپقلش ان کے ذاتی یا مقامی نوعیت کے نیم مفاداتی اور نیم ادبی معاملات ہیں۔مجھے نہ ان میں کوئی دخل دینا ہے اور نہ مجھے ان معاملات میں دلچسپی ہے۔یہ کئی برسوں سے چلتی آرہی مناقشت ہے،جس سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں۔جب میرا نارنگ صاحب کے نادان دوستوں کے ساتھ معرکہ چل رہا تھا اور ان مذکورہ بالا احباب میں سے بعض لوگ میرا حوصلہ بڑھا رہے تھے تو مجھے اندازہ تھا کہ ان لوگوں کو سرقہ یا جعل سازی کے موضوع سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے بلکہ انہیں صرف اپنی نارنگ دشمنی سے غرض ہے۔اس کے باوجود میرے لیے ان کی حوصلہ افزائی بہر حال کچھ نہ کچھ تقویت کا موجب بنی۔تاہم میرے پیش نظر تب بھی بنیادی اہمیت سرقہ اور جعل سازی کے موضوع کو حاصل تھی اور اب بھی میری نظر میں شخصیات کا تقدس کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور اس کے لیے کسی کے فائدہ اور نقصان کو میں نے کبھی مطمح نظر نہیں بنایا۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب پر ترجمہ بلا حوالہ کا جو الزام ہے اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔تاہم اب اگرمولانا حالی،شبلی نعمانی،علامہ نیاز فتح پوری،ڈاکٹر محی الدین زور،حامداللہ افسر، سجاد باقر رضوی،ڈاکٹر سلیم اختر،ملک حسن اختراور وقار عظیم جیسے معتبر نام بھی ترجمہ بلا حوالہ کے سلسلہ میں سامنے آگئے ہیں اور عمران بھنڈر کی جعلسازیاں اور سرقہ بھی سامنے آگیا ہے تو یقیناً نارنگ صاحب پر لگے الزام کو بھی اس مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے اور دوستی و دشمنی کی سطح سے بلند ہو کر دیکھنا چاہیے۔اگر بیس پچیس لوگوں نے ملتا جلتا کام کیا ہے تو سب کے ساتھ ایک اصول کے تحت سلوک کیا جاناچاہیے۔مذکورہ بالا جید ناموں کے سامنے آنے کے بعد اب میرا موقف بالکل سیدھا سادہ سا ہے۔جن لوگوں نے اردو ادب میں کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہے،ان کے مجموعی کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔کسی پر ترجمہ بلا حوالہ کا الزام ہے تو اسے کسی تعصب اور ترجیح کے بغیر پرکھنا چاہیے۔پھر اگر یہ کمزوری ثابت ہو جاتی ہے تب بھی اس کی دوسری خدمات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔کمزوری کو ظاہر کیا جانا چاہیے لیکن دوسری خدمات کاانکار نہیں کیا جانا چاہیے۔مولانا حالی سے لے کر آج کے ادیبوں تک یہ رویہ ہر ایک کے لیے یکساں طور پر اختیار کیا جانا چاہیے۔یہ نہیں کہ کسی کا نام لینے کے لیے وضو کی شرط رکھ دینا اور کسی پر ذاتی رنجشوں اور کدورتوں کی گندگی اچھالتے جانا،یہ کوئی علمی اور تحقیقی رویہ نہیں ہے۔
میں نے بھنڈر صاحب کے بارے میں اپنے اولین مضمون کے سلسلہ میں بعض اہم دوستوں کی رائے لی تھی۔سی ایم نعیم صاحب نے اپنی ای میل میں بڑی صاف گوئی سے بھنڈر کے سلسلہ میں لکھا تھا کہ:
”آپ نے ان کے مضامین چھاپے تھے ،اس لیے یہ فرض بھی آپ پر عائد ہوتا تھا۔آپ کی دیانت داری کا یہی تقاضہ تھا۔ نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا ناخوشی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔“
میں سی ایم نعیم صاحب کے موقف کو اصولی موقف سمجھتا ہوں اور اسی کے مطابق میرا پہلا مضمون سامنے آیا تھا۔جس طرح نارنگ صاحب کے احباب کی خوشی یا نا خوشی اس اصولی معاملہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی ویسے ہی فاروقی صاحب کے نادان دوستوں اور دوسرے محض نارنگ دشمن احباب کا ماتم بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔اس قسم کے علمی و ادبی معاملات کو تحقیقی اصولوں کے مطابق اور مجموعی ادبی تناظر میں شخصیات دشمنی کی سطح سے بلند ہو کر دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ میرے مضمون کے نتیجہ میں نارنگ صاحب پر لگے الزام کی اہمیت متاثر ہوئی ہے،ان کا یہ تاثر درست نہیں۔میرے مضمون سے صرف عمران بھنڈر کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ادب میں در اندازی کرنے والے کی نشان دہی ہوئی ہے اور اسے تمیز اور تہذیب کے دائرے میں لانے کی ایک کاوش ہوئی ہے۔جہاں تک نارنگ صاحب پر لکھے ہوئے عمران بھنڈر کے مضامین کا تعلق ہے،خود شمس الرحمن فاروقی صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ عمران بھنڈر کی دلیلوں سے نارنگ صاحب کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔سو مجھ پر غصہ اتارنے والوں کو فاروقی صاحب پر اپنا غصہ اتارنا چاہیے۔ عمران بھنڈر کے حوالے سے میرے نام لکھے گئے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے خط کا متعلقہ اقتباس یہاں درج کر دیتا ہوں۔
”جب ان کی کتاب مجھے ملی تھی تو میں نے کسی کو لکھا تھاکہ اس میں نارنگ کے خلاف جو کچھ ہے اس کے علاوہ باقی معمولی اور ژولیدہ بیانی کا شکار ہے۔اشعر نجمی نے جب ان کا مضمون چھاپا تھا تومیں نے ان سے کہا تھا کہ بھنڈر کوزیادہ جگہ اب مت دو۔ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔بھنڈر کو لوگ اب بھول رہے تھے،کیونکہ ان کی دلیلوں کے باوجود نارنگ کا کچھ بھی نہ بگڑا تھا۔“
شمس الرحمن فاروقی(الہٰ آباد)
یہ انٹرنیٹ پر اٹھائے جانے والے طوفان کی کچھ روداد اور پس منظر میں موجود چند حقائق تھے جو میں نے پیش کر دئیے ہیں۔غمگسارانِ بھنڈر نے مزید طوفان اٹھایا تو اس کا جواب بھی اسی طرح کے مضمون کی صورت میں مزید دلائل کے ساتھ پیش کروں گا۔بہتر ہوگا کہ غم گسارانِ بھنڈر، اُن سے کہہ کر میرے خلاصۂکلام کے ساتوں نکات کا ترتیب وار جواب دلوائیں۔انٹرنیٹ کے گروپس اور فیس بک وغیرہ پر ایسی بحث میں شرکت کرنا میرے لیے وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔سو یار لوگ وہاں جو چاہے موج کرتے رہیں۔
میں ایک وقفہ کے بعد ان کے سارے لکھے کا اسی طرح جائزہ پیش کردیا کروں گا۔یار زندہ صحبت باقی۔
(تحریر کردہ ۴ستمبر ۲۰۱۱ء)
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ نمبر ۱۸۔جنوری ۲۰۱۲ء)