(عمران شاہد بھنڈر کی مضحکہ خیزیاں،جعل سازیاں اور سرقہ)
علم و ادب کی دنیا میں کبھی کبھار سامنے کی صورتحال کے عقب میں بھی بعض حقائق موجود ہوتے ہیں جن کے سامنے آنے کے بعد سامنے کی صورتحال کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے۔یہ مضمون اسی سلسلہ میں لکھا جا رہا ہے۔مضمون کا عنوان بے شک چٹ پٹاہے لیکن کسی قسم کی سنسنی خیزی کے بغیر میں سیدھے سادے انداز میں اپنی بات کروں گا اورنفسِ مضمون سے منسلک مختلف حقائق کو، جہاں ان کے بیان کرنے کی ضرورت ہو گی بیان کرتا جاؤں گا۔عنوان چٹ پٹا ہونے کا سبب ہمارے فلاسفر صاحب خود ہیں جن کی مضحکہ خیزی کے باعث یہی عنوان مناسب لگا۔
میں ذاتی طور پر ادب میں سرقہ اور جعلسازی کے خلاف ایک عرصہ سے متحرک ہوں۔لگ بھگ1999ءسے۔مغربی دنیا میں سرکاری امداد پر زندگی گزارنے والے لوگ بھی آمد و خرچ کی سطح پر خود کفیل اور پاکستانی حساب سے خوشحال ہوتے ہیں۔چنانچہ وسائل کی دستیابی و خوشحالی کے باعث یہاں کے جعلی اور سارق شاعر وں اور ادیبوں کا ٹولہ ہمیشہ میرے خلاف متحد رہا ہے اور اپنی ذہنی پستی کے لحاظ سے جو کچھ میرے خلاف کر سکتا ہے کرتا رہا ہے ۔تمام تر مخالفت کے باوجود میں نے سرقہ اور جعل سازی کو بے نقاب کرنے کا اپنا کام جاری رکھا۔(اس وقت بھی انڈیامیں جوگندر پال کے افسانے کا سرقہ کرنے والے ایک کردار پر کام ہو رہا ہے)۔
اسی دوران مجھے کہیں سے بھنک پڑی کہ عمران شاہد بھنڈر نامی کسی صاحب نے ”پاکستان پوسٹ“انگلینڈ میں کوئی مضمون لکھا ہے جس میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی بعض تحاریر کو مغرب سے ترجمہ بلا حوالہ قرار دیا گیا ہے۔میں نے مضمون اور مضمون نگار کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ یہ مضمون ماہنامہ”نیرنگِ خیال“راولپنڈی کے سالنامہ2006ءمیں بھی چھپ چکا ہے اور یہ کہ موصوف انگلینڈ میں کہیں پڑھتے ہیں۔اس دوران مجھے ”نیرنگِ خیال“ میں مطبوعہ مضمون ایک دوست نے فراہم کر دیا۔ مضمون بہ عنوان ”گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں“ میں ترجمہ بلا حوالہ اقتباسات کے ساتھ ظاہر ہو رہا تھا اس لیے عنوان کے ڈھیلے پن کے باوجود مجھے مضمون مناسب لگا اور میں نے مضمون نگار عمران شاہد بھنڈر کو تلاش کرکے ان سے رابطہ کیا۔انہیں اسی مضمون کو کچھ مزید لکھ کر جدید ادب کے لیے بھیجنے کو کہا۔ انہوں نے اپنے مضمون کو اسی عنوان کے ساتھ نہ صرف چند مزید اقتباسات شامل کرکے دوگنا کر دیا بلکہ اپنے تعارف کے طور پر ایک خصوصی نوٹ بھی ساتھ بھیج دیا۔میں نے اپنے نوٹ میں اس میں سے صرف ایک حصہ شامل کیا جس کے مطابق موصوف برمنگھم یونیورسٹی سےPostmodern Literary Theory کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔(یہ اطلاع غلط تھی،تاہم اس کا انکشاف بعد میں ہوا اور اس پر مزید بات آگے چل کر ہوگی)۔جدید ادب کے شمارہ نمبر9 میں جیسے ہی موصوف کا مضمون شائع ہوا،علمی و ادبی حلقوں میں اس کا فوری نوٹس لیا گیا اور مختلف اخبارات و رسائل نے اس مضمون کے بلاحوالہ ترجمہ والے حصوں کو نمایاں طور پر شائع کیا۔ (موصوف کے چھیڑے ہوئے دوسرے مباحث میں عمومی طور پر کسی نے دلچسپی نہیں لی)۔
تب تک میرے ذہن میں اتنا تھا کہ ڈاکٹر نارنگ صاحب اس مضمون کو پڑھ کر کچھ اس قسم کا خط لکھ دیں گے کہ اس مضمون میں جن حوالہ جات کی غیر موجودگی کا ذکر ہے میں انہیں دیکھتا ہوں اور کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اس شکایت کا ازالہ کردوں گا۔یہ ایک ادبی سلیقہ کی بات ہوتی اورمسئلہ بڑی حد تک یہیں پر ختم ہوجاتا۔ لیکن اس موڑ پر آکر دو خرابیاں ہوئیں۔ایک تو نارنگ صاحب نے اس قسم کی یا کسی بھی قسم کی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی۔دوسرے میرے ایک دوست جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے نارنگ صاحب کی حمایت میں ایک مضمون لکھ ڈالا۔انہوں نے نارنگ صاحب کی محبت میں مضمون لکھا ہوگا لیکن یہ نادان دوستی کانمونہ تھا۔اس کے جواب میں عمران شاہد بھنڈر سے مضمون لکھوانا پڑا۔اس بار پھر عمران شاہد نے اپنے مزید تعارف کے طور پر بہت کچھ لکھ بھیجا جس میں سے میں نے اتنا حصہ شامل کیا:
” انہوں نے 2004ءمیں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ ، برمنگھم سے ”انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم“ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 2006ءمیں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے ”انگلش لٹریری سٹڈیز“ میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ عمران بھنڈر نے اپنا مختصر مقالہ جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ کے فلسفہ جمالیات پر تحریر کیا اور فائنل مقالہ بیسویں صدی کی روسی تنقید پر لکھا جس میں انہوں نے لیون ٹراٹسکی کے نظریہ ادب کا ہےئت پسندوں کے نظریات سے تقابلی جائزہ لیا۔اس وقت وہ پی ایچ ڈی کے مقالے پر کام کررہے ہیں۔“(جدید ادب :10) ۔۔۔(عمران شاہد بھنڈر صاحب کے فراہم کردہ اس تعارفی نوٹ کے بارے میں بھی آگے چل کر ایک ساتھ بات ہو گی)۔
جاوید حیدر جوئیہ کے مضمون کے جواب میں لکھتے ہوئے موصوف اتنے رواں ہوئے کہ مضمون چھپ جانے کے بعد بھی مزید اقتباسات تلاش کراتے رہے۔اس سلسلہ میں ایک شخصیت کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جس نے مغربی کتابوں کے اقتباسات اور نارنگ صاحب کی کتاب کے اقتباسات پر کافی کام کیا۔محنت میں کسی اور کا حصہ شامل تھا لیکن اس کا پھل بھنڈر صاحب اکیلے کھا رہے تھے۔خیر یہ ان دونوں کا آپس کا معاملہ ہے۔عمران بھنڈر نے اس شخصیت کی محنت کا فراخدلانہ اقرار نہیں کیا تو یہ ان کا اپنا ظرف ہے۔بات ہو رہی تھی ان کے رواں ہو جانے کی۔چنانچہ جدید ادب کے شمارہ نمبر10کے بعد شمارہ نمبر 11 کے لیے بھی انہوں نے سرقات کے تناظر میں ایک مضمون فراہم کر دیا۔اس مضمون سمیت ان کے ایسے سارے مضامین میں سرقات کی نشان دہی بہت کم ہوتی ہے اور دوسرا رطب و یابس بہت زیادہ ہوتا ہے۔میں ان کے اس انداز سے تنگ تھا۔پہلے تو میں نے شمارہ نمبر10میں ہی لکھ دیا تھا کہ:
”جہاں تک دوسرے اشوز کا تعلق ہے ذاتی طور پر میں عمران شاہد کے مقابلہ میں جاوید حیدر جوئیہ سے زیادہ قریب ہوں۔لیکن یہاں ان پر ساری توجہ مرکوز کرنا نفسِ مضمون” بلا حوالہ ترجمہسرقہ“ کی طرف سے توجہ ہٹا کردر حقیقت دوسرے مباحث میں الجھا دینا ہے ۔“ (جدید ادب شمارہ نمبر10۔صفحہ نمبر206)
لیکن ان کی زود گوئی اور فضول گوئی کا سلسلہ دراز تر ہوتا چلا گیا،چنانچہ ان کی بعض فضولیات کے جواب میں شمارہ نمبر گیارہ کا اداریہ بھی لکھنا پڑا جس میں ان کا نام لیے بغیر ان کے مادہ پرستانہ خیالات کا ردپیش کیا گیا۔میں انہیں شروع سے ہی سمجھاتا آ رہا تھا کہ اپنی بات کو کم سے کم الفاظ میں بیان کرنا چاہیے۔بلکہ دوستانہ انداز میں انہیں یہ تک کہا تھا کہ بندہ اگر دریا کو کوزے میں بند نہیں کر سکتا تو کوزے میں سے دریا کا منظر دکھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ بہر حال شمارہ نمبر گیارہ ہی میں مطبوعہ عمران کی بعض طویل فضولیات کے جواب میں نہایت اختصار کے ساتھ لکھا ہوا اپنا اداریہ یہاں بھی درج کیے دیتا ہوں۔
”ادب میں سامنے کی حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت تک رسائی کی تخلیقی کاوش ایک طرح سے صوفیانہ رویہ رہا ہے۔موجود مادی کائنات کے پارٹیکلزکی تہہ میں اس کے عقبی بھید موجود ہیں لیکن تاحال سائنس پارٹیکلز سے کوارکس (کلرز) تک پہنچ کر رُک جاتی ہے اور اس سے آگے اس کے ہونٹوں پر بھی ایک حیرت انگیز مسکراہٹ ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارے جو صاحبانِ علم مادی دنیا سے ماورا کسی حقیقت کو مجہولیت سمجھتے ہیں،انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ماورائیت کی پرچھائیوں کو مس کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والے صاحبانِ علم اپنے علم کی حد کو کائنات کے بھیدوں کی آخری حدنہ سمجھیں۔ ایسے احباب کو ان کے مادی ذہن کے مطابق ہی بتانا مناسب ہے کہ انسانی دماغ کی کار کردگی کو دیکھیں تو اس کا 10 فی صد ہی ابھی تک کارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے۔اس10 فی صد دماغی کارکردگی نے انسان کو کتنی حیرت انگیز ترقیات کے دور تک پہنچا دیا ہے۔اس سے دماغ کا جو 90 فی صد حصہ بظاہر خاموش پڑا ہے،اس کی بے پناہی کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اچھے تخلیق کاروں کو اس90 فی صد سے کبھی کبھار جو کچھ ملتا ہے،اس کا اندازہ تخلیق کار ہی کر سکتے ہیں۔سو ماورائیت تو ہمارے باہربے پناہ کائنات سے لے کر ایٹم کے اندر اس کے بلڈنگ بلاک کی تلاش تک مسلسل موجود ہے۔اور انسانی دماغ کا 90 فی صد خاموش حصہ بجائے خودہمارے اندرماورائیت کی کارفرمائی کا زبردست ثبوت ہے۔
ماورائیت کے نام پر یا صوفیانہ رمزیت کے نام پر اگر بعض لوگ سطحی یا بے معنی تحریریں پیش کر رہے ہیں تو اس نقلی مال کا مطلب بھی یہ نکلتا ہے کہ اصل بھی موجود ہے۔اصل کرنسی ہوتی ہے تو اس کی جعلی کرنسی بنانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں۔حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت کی جستجو رکھنے والوں کو ایک طرف تو مذہبی نظریہ سازوں کا معتوب ہونا پڑتا ہے دوسری طرف وہ لوگ بھی ان کے در پَے رہتے ہیں جو بظاہر خود کو مذہبی نظریہ سازی کے استحصالی طرز کا مخالف کہتے ہیں۔لیکن عجیب بات ہے کہ حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت اور زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں جاننے کی کوشش کرنے والوں کو دونوں طرف کے لوگوں سے ایک جیسی ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مذہبی نظریہ سازوں کے مخالف ترقی پسند وں کا رویہ تو بعض اوقات خود مولویانہ طرزِ عمل سے بھی زیادہ مولویانہ ہوجاتا ہے۔امید ہے ہمارے ایسے صاحبانِ علم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے۔“
شمارہ نمبر 11 کے اداریہ میں جہاں میں نے ان کے خیالات سے اپنی بیزاری کو علمی سطح پر دلیل کے ساتھ ظاہر کیا،وہیں انہیں عملاً یہ بھی بتایا کہ اپنی بات کو کم سے کم الفاظ میں کہنے کا سلیقہ کیا ہوتا ہے۔ایک اور خرابی جو بھنڈر صاحب میں تکلیف دہ حد تک تھی وہ یہ تھی کہ ایک مضمون کو تین سے چار بارتک اضافوں کے ساتھ بھیجتے چلے جاتے تھے۔ایک بار مضمون بھیجا۔میں نے محنت کرکے اسے رسالہ کے سائز میں سیٹ کر لیا تو پھر نئی فائل بھیج دی کہ پہلا ورشن رہنے دیں،یہ ورشن شامل کر لیں۔ایسا تین سے چار بار تک ہوجاتا تھا۔چنانچہ میں نے طے کر لیا کہ ان کا یہ رطب و یابس شمارہ نمبر گیارہ کے بعد بالکل نہیں چھاپوں گا۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب موصوف نے مدیر جدید ادب کے نام ایک طویل مکتوب لکھا۔میں نے اسے مضامین کے حصہ میں شامل کر لیا۔حسبِ معمول اس میں بھی بار بار اضافہ کرکے نیا ورشن بھیجا جا رہا تھا۔ایک ہی نام کی ملتی جلتی فائلز میں سے جو مجھے تازہ ترین لگی میں نے شامل کر لی۔رسالہ چھپنے کے لیے نہ صرف جا چکا تھا بلکہ پبلشر کی طرف سے رسالہ چھپ کر بائنڈنگ کے مرحلہ سے گزرنے کی اطلاع بھی آچکی تھی۔ اس دوران بھنڈر صاحب نے اپنے خط کا ذکر کیا تو میں نے بتایا کہ یہ خط انیس صفحات پرپھیلا ہوا ہے۔تب موصوف چونکے اور کہنے لگے کہ یہ آپ نے پہلا یا دوسراورشن چھاپ دیا ہے۔نیا ورشن تو مزید بہت سارے صفحات پر مشتمل تھا۔ساتھ تقاضا کرنے لگے کہ انیس صفحات پر مشتمل خط کی بجائے اس کا اضافہ شدہ نیا ورشن شامل کیا جائے۔میں نے بتایا کہ رسالہ چھپ چکا ہے تو اصرار کرنے لگے کہ رسالہ دوبارہ چھپوا لیں۔میں نے صاف انکار کر دیا،البتہ انہیں مضامین والے حصہ کی فائل بھیج دی کہ اسے دیکھ کر اطمینان کر لیں۔میں نے یہ سب کچھ دوستانہ انداز سے کیا تھا لیکن یہاں ایک اور فتنہ کھڑا ہو گیا۔موصوف کو کسی کا مضمون اپنے خط سے پہلے دیکھ کر حفظ مراتب کا خیال آگیا اور آگ سی لگ گئی۔خط کے ورشن کا مسئلہ بیچ میں رہ گیا اور اپنے خط کو آخر میں شامل کرنے پر نہ صرف شدید طور پر بگڑ گئے بلکہ ایک خاتون کے ای میل آئی ڈی سے مجھے غلیظ گالیوں کی میلز بھیجنا شروع کر دیں۔میں وہ ساری ای میلز اشعر نجمی کو فراہم کر چکا ہوں۔اس بارے میں مزید کچھ نہیں لکھتا بس اتنا کہ ان صاحب کی شخصیت اور کردارکا یہ رخ اتنا گھناؤنا اور مکروہ تھا کہ اب بھی سوچتا ہوں تو گھن آتی ہے۔حفظ مراتب کے حوالے سے البتہ یہ وضاحت کرنا چاہوںگا کہ جدید ادب میں مدیر جدید ادب کے نام کسی طویل خط کا انتخاب کرکے اسے مضامین کے حصہ میں عموماً آخر میں ہی لگایا جاتا ہے۔پھر ان مارکسسٹ مولانا کو تو میں نے ویسے بھی ہمیشہ آخری حصہ میں چھاپا تھا۔ان کی ایک ہی اہمیت تھی کہ وہ ترجمہ بلا حوالہ کے اقتباسات آمنے سامنے لا رہے تھے۔اور بس!
بہر حال میں جوپہلے ہی ان کے رطب و یابس سے تنگ آیا ہوا تھااب بالکل طے کر لیا کہ ان کے ”افکارِ عالیہ“ کو جدید ادب میں شائع نہیں کرنا۔ان کے مضامین میں بار بار اضافہ سے مجھے ان کے اصل مسئلہ کا بھی اندازہ ہو گیا۔جب میں نے1972تا 1974ءکے دورانیہ میں ایم اے اردو کی تیاری کی تھی تب ”اقبال کا خصوصی مطالعہ“کے تحت اقبال کے فلسفۂخودی اور اسی پس منظر میں فلسفۂزمان و مکان کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے کا موقعہ ملا۔مجھے یاد ہے اس وقت ایسے لگتا تھا کہ میں علم سے لبا لب بھر گیا ہوں اور مجھے خان پور میں ایسے دوستوں کی تلاش رہتی تھی جن کے ساتھ اپنے سارے پڑھے ہوئے پر گفتگو کر سکوں۔یہ ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت ہوا کرتی تھی لیکن ایم اے کر لینے کے بعد جب ان موضوعات پر مزید مطالعہ کا موقعہ ملا تو اپنے لبا لب بھرنے کی بجائے خالی ہونے کا احساس ہونے لگا۔تب اندازہ ہوا کہ وہ نصابی نوعیت کی طالب علمی کا کرشمہ تھا، اپنا پڑھا ہوا چھلکنے کو بے تاب ہوا کرتا تھا۔اپنے ذاتی تجربہ کے حوالے سے میں بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ عمران شاہد بھنڈر اپنی یونیورسٹی کے نصابی مطالعہ کے باعث ویسی ہی کیفیات سے گزر رہے تھے۔کسی نصابی مطالعہ کے بعد،کسی اسائنمنٹ کے بعد یا پروفیسرسے گفتگو کے بعد جو نئی باتیں ان کے سامنے آتی تھیں،وہ اس سارے پڑھے اور سنے ہوئے کو بھی اپنے مضمون میں کسی نہ کسی طور شامل کرنے لگتے تھے۔
ان کی ذات کی حد تک یہ معاملہ رہتا تو کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن جب وہ چھپے ہوئے رسالہ کو دوبارہ چھاپنے کا مطالبہ”غنڈہ گردی“ کے انداز میں کرنے لگے اور وہ بھی اس لیے کہ ان کی ہفوات سے بھر پور باتوں کا اضافہ شاملِ اشاعت کیا جائے توان کے طرزِ عمل اور مکروہ ذہنیت کے بارے میں بڑے سخت الفاظ ذہن میں آتے ہیں۔میں تو آج تک خود کو طالب علم سمجھتا ہوں(یہ کوئی انکساری والی بات نہیں واقعتاً محض ایک طالب علم ہوں لیکن صرف کسی ایک فلسفے یا علم کے کسی ایک رُخ کا نہیں بلکہ اپنی استعداد کے مطابق جو کچھ سامنے آتا ہے ،اچھا لگتا ہے اور پلے پڑتا ہے اس کو مزید سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں) اور ہمہ وقت علم کی دنیا میںکچھ نہ کچھ سیکھنے میں لگا رہتا ہوں۔ عمران شاہدبھنڈر کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں اپنے ایم اے کے دوران جو کچھ پڑھا،وہ ان سے ٹھیک سے ہضم نہیں ہوا اور وہ پہلے ہلے میں ہی خود کو فلاسفر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہو گئے۔ اس زعم کا حال ذرا آگے چل کر۔۔۔۔ابھی واقعات کو ان کے زمانی تسلسل میں ہی بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
شمارہ نمبر11کی اشاعت کے بعد اور شمارہ نمبر12 کی اشاعت کے دوران ڈاکٹر نارنگ صاحب نے اچانک شدید ردِ عمل ظاہر کر دیا۔میں اسے حالات و واقعات کے تناظر میں بد قسمتی کہوں گا کہ وہ تب متوجہ ہوئے جب میری طرف سے معاملہ مکمل طور پر سمیٹا جا چکا تھا۔تب انہوں نے غیر ضروری طور پر شمارہ نمبر ۱۲پر ایک طرح سے سنسر شپ نافذ کرادی۔مجھے اس کے نتیجہ میں جدید ادب کے شمارہ نمبر 12 کی کہانی لکھنا پڑ گئی۔اس کے بعد بھی میں ایک طرح سے صبر کرکے بیٹھ گیا تھا۔لیکن جب میرے مضمون کے ردِ عمل میں لندن کے ایک نازیبا شخص نے غلیظ قسم کا مضمون لکھا اور اسے”ادب ساز“ جیسے معقول جریدے نے شائع کرنے کی نا معقولیت کی تو پھر میرے دوستوں نے اور میں نے طے کر لیا کہ اب پوری جوابی کاروائی کی جانی چاہیے۔عکاس کا ڈاکٹر نارنگ نمبر ہماری طرف سے اسی کا جواب تھا۔لیکن عکاس کی بات بعد میں۔
پہلے یہاں عمران شاہد بھنڈر کی شخصیت اور کردار کا ایک اور رُخ بھی سامنے لاتا چلوں۔جن دنوں میں ہم لوگ ابھی مل کر چل رہے تھے،اور جدید ادب کے ذریعے موصوف کو خاصی پروجیکشن مل رہی تھی، عین انہیں دنوں میں موصوف کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ لندن کے اس نازیبا شخص سے پینگیں بڑھا رہے ہیں جس کے مضمون کے شدید ردِ عمل میں ہم نے بعد میںعکاس کا نارنگ نمبر چھاپا تھا۔یہ بات میرے لیے حیران کن ہی نہیں افسوس ناک بھی تھی۔بے شک ادبی معاملات میں کسی سے رابطہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔لیکن جب معاملہ باقاعدہ جنگ و جدل جیسی صورت اختیار کر رہا تھا عین ان دنوں میں دوسری طرف ساز باز کرنا بجائے خود انسانی کردار میں غداری کی سرشت کی نشان دہی کرتا ہے۔یہ بات اب ثابت ہو چکی ہے کہ جس کو بھی عمران شاہد بہت زیادہ ٹیلی فون کالز کرتے ہیں بعد میں اسی کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔اس کی ایک نہیں، دو نہیں ،کئی مثالیں موجود ہیں۔جو شخص اپنے استاد ابن حسن کے بارے میں بھی الٹی سیدھی بات کرنے پر آجائے اس کے بارے میں مزید کیا کہا جائے۔بہر حال میرے سامنے ایک مشکل اور پیچیدہ صورتحال تھی ایک طرف عمران شاہد بھنڈراپنی سرشت سے مجبور ہو کر ساز باز کر رہے تھے،دوسری طرف نارنگ صاحب کی طرف سے دباؤپڑ گیا تھا ۔ تیسری طرف نارنگ صاحب کے نادان دوستوں نے ان کی حمایت کے نام پر ایک طوفان کھڑا کر دیا جو بہر حال خود ان کے اور نارنگ صاحب کے خلاف ہی گیا۔ میں اس محاذ آرائی کے سارے کرداروں کواور ساری صورتحال کو ممکنہ حد تک حکمت کے ساتھ نمٹ رہا تھا،جو اندر اور باہر دونوں طرح کے مخالفین کے ساتھ درپیش تھی۔خدا کا شکر ہے کہ وہ مرحلہ اپنے انجام کو پہنچا۔میں اپنے علمی و ادبی محاذ پر سرخ رو رہا۔
شہرت طلبی کے لیے اپنی دھوکہ باز سرشت کے باوجودعمران بھنڈر کو عکاس کے نارنگ نمبر میں ہماراساتھ دینا پڑا کیونکہ وہ لندن کے جس شخص کے ساتھ مل کر میرے خلاف ساز باز کر رہے تھے اسی نے اس سازباز کی بعض باتیں ظاہر کرکے ہمارے مارکسسٹ مولانا کے کردار کے دہرے پن کو ظاہر کر دیا تھا اور اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ عکاس کے نارنگ نمبر میں ہمارا ساتھ دیتے۔وہ جس حد تک ساتھ دے سکتے تھے دے رہے تھے اور ہماری طرف سے میرے دوستوں نے ان کے مصلحت پسندانہ ساتھ کے باوجود ان کی ادبی حیثیت کے بارے میں دو ٹوک اور کھلی باتیں اسی نمبر میں لکھ دیں۔
ڈاکٹر نذر خلیق جو عکاس کے ڈاکٹر نارنگ نمبر کے مہمان مدیر تھے اور جن کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی“ کے موضوع پر تھا،انہوں نے اپنے مہمان اداریہ میں عمران شاہد کی بہت ساری غلط فہمیوں(در اصل خوش فہمیوں)کے بارے میں برملا طور پر لکھا کہ:
”یہاں اس امر کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے کہ عمران شاہداپنے مضامین میں گوپی چند نارنگ کے سرقوں کی نشاندہی کے علاوہ جن دوسرے متعلقات میں جاتے ہیں وہاںپر ان کے سرقوں کی نشاندہی کی داد دینے کے باوجود ان سے اختلاف کرنا پڑتا ہے۔جدید ادب (شمارہ نمبر10 صفحہ نمبر206) میں حیدر قریشی نے بھی(نمبر ہذا ص 41پر) اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔اور یہاں بھی ان تحفظات کا اظہار ضروری ہے ۔ مثلاً فضیل جعفری صاحب نے دس سال پہلے سے یہ لکھ رکھا ہے کہ گوپی چند نارنگ جن کتابوں کے حوالے دے رہے ہیں لگتا ہے انہوں نے وہ اصل کتابیں پڑھی نہیںہیں۔بعض دیگر ناقدین بھی یہ بات اپنے اپنے انداز میں کئی برس پہلے سے کہہ چکے ہیں۔جیسے سکندر احمد نے انہیں”ادنیٰ ترین تراجم کی بد ترین مثال “ قرار دیا۔احمد ہمیش نے ”انگریزی متن کے ناقص تراجمُ “ سے موسوم کیا۔اسی طرح ہمارے بہت سارے ناقدین نے مابعد جدیدیت کی محض رپورٹنگ نہیں کی۔اس قسم کے بیانات سے عمران شاہد بھنڈرکے اردو میں مطالعہ کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے وہ اپنی نصابی حدود میں جو کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں،اگر وہ ان کا پی ایچ ڈی کا موضوع نہ ہوتا تو وہ اپنے کسی اور سبجیکٹ تک ہی محدود ہوتے۔ ڈاکٹر وزیر آغانے مابعد جدید مغربی تصورات سے بحث کرتے ہوئے محض رپورٹنگ نہیں کی۔’مصنف کی موت‘ کے تصور کو مکمل طور پر رد کیا‘متن کی اہمیت کو شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔فضیل جعفری اور وزیر آغا وغیرہ کی یہ صرف دو مثالیں ہیں۔اردو تنقید و ادب میں مزید کئی مثبت اور روشن مثالیں موجود ہیں۔سب کچھ منفی نہیں ہے۔اسی طرح عمران کے بعض دوسرے مباحث پر بھی ہمارے تحفظات ہیں۔خصوصاً جہاں ایسی غیر متعلقہ باتوں کی بھرمار ہے جن کا سرقہ کی نشاندہی کے بنیادی مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اور جو ان کے یونیورسٹی نوٹس اور نصابی نوعیت کے مواد پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران شاہد اردو تنقید میں اور کوئی کتنااہم کام کر لیں لیکن گوپی چند نارنگ کے سرقوں کو بے نقاب کرناان کاسب سے اہم کام اور یہی ان کی ادبی شناخت رہے گا۔“
عمران بھنڈر کے ایسے دعوے کہ یہ کام صرف انہوں نے ہی سر انجام دیا ہے،اس اداریہ میں اسے رد کر دیا گیا تھا۔ان سے یہ سب کچھ اس لیے سرزد ہوا کہ یہ ان کے نصابی مطالعہ کا حصہ بنا تھا۔پھر اس سلسلہ میں ایک اور شخصیت نے اقتباسات کی تلاش میں ان کی بہت زیادہ مدد کی،جس کا فراخدلانہ اعتراف کرنے کی بجائے عمران نے اپنی روایتی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔تاہم ان کے بنیادی کام کے سلسلہ میں بھی یہ اضافہ کر دوں کہ ناصر عباس نیر کے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں بھی اس موضوع کے مطابق نارنگ صاحب کے بعض اقتباسات اور حوالہ جات شامل تھے۔صرف نارنگ صاحب ہی کے نہیںان کے مقالہ میں تو بیس سے زائد ناقدین کرام کے اس نوعیت کے ترجمہ بلا حوالہ کے شواہد پیش کیے جا چکے ہیں جبکہ ہمارے مارکسسٹ مولانا عمران بھنڈر صرف ایک نقاد کے حوالے پیش کرکے ہی اپنے آپے سے باہر ہو گئے اور پورے اردو ادب کو للکارنے لگے۔اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔عمران کے چھیڑے ہوئے دوسرے مباحث کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نذر خلیق نے بجا طور پر ان کے ہاں اردو میں مطالعہ کی کمی کا ذکر کیا۔صرف مطالعہ کی کمی ہی نہیں ان کی ادب فہمی پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگتا ہے۔میں اس حوالے سے ذرا آگے چل کر بات کروں گا۔
عکاس کے اسی نمبر میں مدیر عکاس ارشد خالد نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی حمایت میں لکھے گئے ایک مکتوب نما مضمون”کرگس کا جہاں اور ہے۔۔۔۔“کوشائع کیا تھا۔یہ مضمون شمیم طارق کا لکھا ہوا تھا۔اس مضمون میں شمیم طارق نے عمران بھنڈر کے بارے میں بڑی عمدہ رائے دی تھی،ان کے بقول:
”عمران شاہد بھنڈر کو آپ نے دونوں شماروں میں جگہ دی ہے مگر ان کے دونوں مضامین پڑھ کر آنکھوں میں اس بوڑھی عورت کی شبیہ گھوم جاتی ہے جو اپنی گٹھری سنبھالتی ہے تو خود گر جاتی ہے اور خود کو سنبھالتی ہے تو گٹھری گر جاتی ہے۔ موصوف موضوع پر قابو رکھنے کے بجائے موضوع کے سامنے بے قابو ہوگئے ہیں۔“
اس مضمون کو شائع کرتے ہوئے ارشد خالد نے ترجمہ بلا حوالہ والے صرف ایک نکتے پر اختلاف کرتے ہوئے شمیم طارق کے باقی مضمون سے لفظ بلفظ اتفاق کیا اوراپنے نوٹ میں لکھ دیا:
”اس مضمون میںعلامہ اقبال پرعمر ان شاہد کے نامناسب اعتراضات کے جواب میں شمیم طارق نے بجا طور پر گرفت کی ہے۔میں اس معاملہ میں شمیم طارق سے لفظ بلفظ متفق ہوں،“
نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد کسی حد تک توقع کے مطابق گھمسان کا رن پڑا۔ارشد خالد ،ڈاکٹر نذر خلیق اور سعید شباب کی ہر ممکن مددتو میرے ساتھ رہی،تاہم دوستوں کی اخلاقی اور تھوڑی بہت ممکنہ مدد کے باوجودبڑی حد تک مجھے یہ لڑائی چاروں طرف سے اکیلے ہی لڑنی پڑی۔ عمران بھنڈر نے اس معاملہ میں معنی خیز خاموشی اختیار کیے رکھی۔صرف ایک موقعہ پر عمران بھنڈر نے اقبال نوید کے نام سے ایک جوابی مضمون لکھا تھا جو ظفر اقبال کے کالم کا جواب تھا۔یہاں یہ واضح کر دوں کہ اقبال نوید انگلینڈ میں مقیم شاعر ہیں لیکن انہیں مابعد جدید مباحث کا کچھ بھی علم نہیں ہے ۔ان کے نام سے جو کچھ بھی چھپا ہے وہ سارے کا سارا عمران بھنڈر کا اپنا لکھا ہوا ہے۔اس کے باوجود وہ اپنی خوشی سے استعمال ہوتے ہیں تو ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی عمران بھنڈر کا ان کے نام سے لکھا ہوا انہیں کا مان لیتے ہیں۔لیکن سلمان شاہد کے نام سے جو مضامین چھپے ہیں وہ سب عمران شاہد کے اپنے لکھے ہوئے ہیں۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مجھے عمران بھنڈر نے بتایا تھا کہ سلمان شاہد میرا چھوٹا بھائی ہے اور جدید ادب بھیجنے کے لیے سلمان شاہد کا گوجرانوالہ کا ڈاک کا پتہ بھی دیا تھا لیکن جب ان کے آبائی شہر گوجرانوالہ میں ان کے قریبی احباب سے ذکر ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ ایڈریس تو ان کا ہے لیکن سلمان شاہدنام کا ان کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ہمیں ان کی ذاتی زندگی اور اس کے معاملات سے کوئی غرض نہیں۔اس سے بھی غرض نہیں ہے کہ سلمان شاہد بھنڈر حقیقت میں کون ہے؟ اس کا عمران شاہد بھنڈر سے در اصل کیا رشتہ ہے؟لیکن اس بات سے غرض ضرور ہے کہ سلمان شاہدبھنڈر کے نام سے عمران کی حمایت یاان سے اختلاف کرنے والوں کی مذمت کے طور پرلکھے گئے تمام مضامین عمران شاہد کے اپنے ہی لکھے ہوئے ہیں۔یہ صورتحال اقبال نوید کے نام کو استعمال کرنے سے یکسر مختلف ہو جاتی ہے۔اقبال نوید بہر حال ایک شاعر ہے،جبکہ سلمان شاہد سرے سے کوئی لکھنے والا ہے ہی نہیں۔ سواقبال نوید کے نام کی طرح سلمان شاہد کے نام سے عمران بھنڈر کی حمایت اور ان سے اختلاف کرنے والوں کی مذمت والے مضامین بھی عمران بھنڈر نے خود لکھے ہیں۔ایسے مضامین عمران بھنڈر کی تعریف تک محدود رہیں تو ان کی معصوم خواہش کا احترام کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ کسی کے خلاف ان ناموں کو استعمال کرتے ہیں تو علمی و ادبی سطح پر یہ بات مناسب نہیں رہتی۔عظمت کے کسی مصنوعی سنگھاسن پر بیٹھ کر دوسروں کے نام سے لوگوںکے خلاف لکھنے سے بہتر ہے کہ عمران بھنڈر خود ایسے مضامین لکھا کریں۔
عکاس کے ڈاکٹر نارنگ نمبر کی اشاعت کے بعد کی جنگ کا سارا حال میری کتاب”ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت“میں شامل ہے اور وہ سب معاملات اب ادب کی تاریخ کے سپرد ہیں۔
2010ءمیں عمران بھنڈر کی پہلی کتاب ”فلسفہ ما بعد جدیدت“کے نام سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب کا بنیادی سبب تو نارنگ صاحب کے ترجمہ بلاحوالہ کا موضوع ہی تھا لیکن حسبِ معمول اس میں دوسرا رطب و یابس زیادہ ہے۔لیکن اس سے بھی بڑا تماشہ یہ ہوا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد عمران شاہد بھنڈر نے باقاعدہ فلسفی ہونے کا دعویٰ کرڈالا ہے۔فلسفہ کو اپنا موضوع قرار دے کر بندہ مشاعروں کے شاعروں جیسی حرکتیں کرے تو ویسے بھی اچھا نہیں لگتا۔موصوف نے کتاب چھپنے کے بعد اس کی رونمائی کا پورا اہتمام کرایا اس کے لیے ان کی بھاگ دوڑ کی پوری داستان ہے۔اس تقریب کی روداد چھپنے لگی تو اپنے نام کے ساتھ ”نوجوان فلسفی“کا اضافہ کرایا۔ پاکستان گئے تو وہاں خاصی تگ و دو کے بعد اپنا ایک انٹرویو شائع کرایا،جو22 دسمبر2010ءکو ایک روزنامہ میں شائع ہوا۔اس میں بھی اپنے آپ کو خود ہی فلسفی قرار دے کر گفتگو فرمائی۔اخباروں میں ایک دو خبریں چھپوائیں تو ان میں اپنے نام کے ساتھ نوجوان فلسفی یا نوجوان اسکالر کے الفاظ اہتمام کے ساتھ لکھوائے۔اب ذہنِ جدید کے ایک حالیہ شمارہ(نمبر 58) میں بھی عمران شاہد بھنڈر کے بارے میں تعارفی طور پرجو کچھ لکھا گیا ہے اس میں سے دو باتیں قابلِ ذکر ہیں۔ایک تو یہی کہ ۔۔نوجوان فلسفی۔۔ اور دوسری یہ کہ آپ انگلینڈ میں شعبۂتعلیم سے وابستہ ہیں۔پہلی بات مضحکہ خیز ہے اور دوسری بات یکسر جھوٹ۔
پہلے تو میں اپنے فلسفی کی نوجوانی کا ذکر کروں گا جس نے شیلا کی جوانی کو بھی مات دے دی ہے۔۴۰سال کی عمر کے بعد خود کو نوجوان لکھنا جراتِ رندانہ کی طرز پر جرأتِ فلسفیانہ ہی کہی جا سکتی ہے۔ہر چند فلمی دنیا میں کم عمر اداکار کو بڑی عمر کا اوربڑی عمر کے اداکار کو کم عمر دکھایا جاتا ہے اور فلمی دنیا میں اس قسم کی رنگ بازی چلتی رہتی ہے،لیکن اس گانے کی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ کترینہ کیف تو ابھی ۳۰برس کے لگ بھگ ہی ہے اور اس مناسبت سے شیلا کی جوانی والی بات درست اور قابلِ فہم ہے لیکن40 سال سے اوپر ہو کر ”نوجوان فلسفی“ کی یہ کمال کی فلسفیانہ نوجوانی ہے ۔فلسفی بن بیٹھنے پر بات بعد میں،پہلے شعبۂتعلیم سے ان کی وابستگی کی حقیقت بھی بتا دی جائے۔”ذہنِ جدید“ میں چھپنے کی تاریخ تک آپ کہیں بھی نہ لیکچرر ہیں ،نہ ٹیچر ہیں حتی ٰ کہ کسی پرائمری اسکول میں بھی نہیں پڑھا رہے۔اگر پرائمری اسکول کے طالب علموں سے لے کرکالج کے سٹوڈنٹس تک کو بطور طالب علم شعبۂتعلیم سے وابستہ سمجھ لیا جائے تو ہمارے نوجوان فلسفی ابھی اس نوعیت کی بھی کوئی وابستگی نہیں رکھتے۔ڈبل ایم اے کرکے بیکار پھر رہے ہیں۔انٹرنیشنل براڈ کاسٹ جرنلزم میں ایم اے کیا ہوا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں نئے نئے چینل کھل رہے ہیں لیکن افسوس ہمارے فلسفی کو ابھی تک اس شعبہ میں جاب نہیں مل سکی۔اسی طرح انگلش لٹریری سٹڈیزمیں ایم اے کرکے انہیں کوئی لیکچرر شپ یا ٹیچنگ جاب بھی نہیں مل سکی تو اس سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا اندازہ ہوتا ہے اور افسوس ہوتا ہے۔لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہے تو جھوٹ بتا کر اور جعل سازی سے کام لے کر کیوں اپنا جعلی تاثر قائم کر رہے ہیں؟
اور اب فلسفی بن بیٹھنے کا معاملہ!
مجھے عمران بھنڈر اپنے تعارف کے طور پر جو کچھ لکھ کر بھیجتے رہے اس میں بہت سارا جھوٹ شامل تھاجو بعد میں ظاہر ہوا۔میں شروع میں شمارہ نمبر9 اور10میں دئیے گئے ان کے تعارف کے حوالے سے ذکر کرچکا ہوں۔2007ءمیںان کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابقPostmodern Literary Theory کے موضوع پر موصوف پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔نظام صدیقی نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ عمران بھنڈر ابھی تک پی ایچ ڈی نہیں کر سکے،جبکہ ہمارے ساتھ مذاق یہ ہوا ہے کہ موصوف تو ابھی تک پی ایچ ڈی شروع ہی نہیں کر سکے۔انہوں نے جھوٹی اطلاع فراہم کی تھی۔ابھی تک ان کی پی ایچ ڈی کی رجسٹریشن ہی نہیں ہوئی۔سو ابھی تک،اس وقت تک موصوف کسی قسم کی کوئی پی ایچ ڈی نہیں کر رہے۔ایم اے کے سلسلہ میں جدید ادب شمارہ 10میں ان کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق ” 2004ءمیں یونیورسٹی آف سینٹرل انگلینڈ ، برمنگھم سے ”انٹرنیشنل براڈکاسٹ جرنلزم“ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 2006ءمیں انہوں نے اسی یونیورسٹی سے ”انگلش لٹریری سٹڈیز“ میں ایم اے کی دوسری ڈگری حاصل کی۔“ سو ایم اے سے آگے ابھی موصوف نے کچھ نہیں کیا۔بس ”دس جماعت پاس ڈائریکٹ حوالدار“ کی طرح ایم اے کرکے” ڈائریکٹ فلسفی “ہو گئے ہیں۔M.A. English Studies کو اردو میں ” ایم اے فلسفۂانگریزی ادب“کر کے وہ فلسفی بن سکتے ہیں تو پھر دنیا کا ہر ایم ایس سی سائنس دان ہے اورM.A. English Studies کرنے والا ہر طالب علم فلسفی۔موصوف کے فلسفی بن بیٹھنے سے بہت کچھ یاد آرہا ہے۔ایک تو اپنے بزرگوں سے سنے ہوئے ایک معروف کردار”بابافلاسفر“کے کئی جملے اور دلچسپ واقعات۔برمنگھم میں بھی کچھ دوست ایسے موجود ہیں جو” نوجوان فلسفی“ عمران بھنڈرکو بابا فلاسفر کے گفتنی و ناگفتنی قصے سنا سکتے ہیں۔دوسرا اس نوجوان فلسفی کے برمنگھم یونیورسٹی میں استادڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ کے وہ تاثرات یادآرہے ہیں جو انہوں نے میرے افسانوں پر رائے دیتے ہوئے لکھے تھے۔”نوجوان فلسفی“ کے استاد لکھتے ہیں:
Haider Qureshi’s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.
Dr. Derek Littlewood (Birmingham, ENGLAND.)
ڈاکٹر ڈیرک کے تاثرات سے مجھے خوشی ضرور ہوئی لیکن میں کسی ایسے خبط کا شکار نہیں ہوا کہ خود کو فلسفی افسانہ نگار سمجھنے کی خوش فہمی میںمبتلا ہو جاؤں۔زندگی میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے جو مختلف اثرات خود پر مرتسم ہوئے ہیں ، جہاں جہاں داخلی طلب سامنے آئی ان کا اظہار ممکنہ حد تک سلیقے سے کر دیا ۔1983ءمیں شائع شدہ میرا افسانہ”روشنی کی بشارت“نیطشے کی تمثیل کے ایک اقتباس سے شروع ہوتا ہے اور اس افسانہ میں میری طرف سے نیطشے کے مشہور اعلان کو باطل ثابت کیا گیاہے۔لیکن یہ سب کچھ نہ کسی مولویانہ طریق سے کیا ہے نہ کسی نوجوانی سے بھرپور فلسفیانہ طریقے سے ۔بس اپنی حیثیت کے مطابق جتنی تخلیقی حد تھی اسی کے مطابق ایک افسانہ تخلیق کر دیا۔ادب کی دنیا میںہر لکھنے والے کے اپنے مطالعہ ،مشاہدہ اور تجربات کی اپنی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ مشاہدات اور تجربات کے وسیع جہان ہیں تو مطالعہ کا جہان بھی بہت وسیع ہے۔ مطالعہ کے دائرہ میں ادب،مذہب (اپنے وسیع تر مفہوم میں) ،سائنس(فلسفہ اسی کی ایک شاخ ہے)،تاریخ ،اقتصادیات وغیرہا کا ایک ایسا جہان ہے جس میں کئی جہان آباد ہیں۔اب کون کس حد تک کس خطہ تک جاتا ہے ،یہ اس کے مزاج اور دلچسپی پر منحصر ہے۔لیکن کسی ایک یا ایک سے زائد جہانوں کی سیاحت کرنے والا اپنے ”حاصل سیاحت “کی بنا پر کسی دوسرے کی سیاحت اور سفر کو کھوٹا قرار نہیں دے سکتا۔ہر کسی کا اپنا اپنا ادبی سفر ہے اور اس سفر کا حاصل وہ تحاریر ہیں جو لکھنے والے نے ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دی ہیں۔لیکن کسی ایک خطے کی سیر کرنے والے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس دیار میں نہ آنے والوں پر یا اس کے بارے میں جانکاری نہ رکھنے والوں پر زبانِ طعن دراز کرے۔
فلسفہ فی ذاتہ سائنس کے مختلف علوم میں سے ایک ہے۔تصوف،تاریخ ،نفسیات، طبیعات، اقتصادیات ، فلسفہ ۔۔۔۔کوئی ادیب ان سے اور ایسے ہی دیگر علوم سے تھوڑا بہت بہرہ ور ہے اور اس کے اثرات اس کی تخلیقات میں دکھائی دیتے ہیں تو یہ اس کی اضافی خوبی ہے۔لیکن اگر کوئی ان میں سے کسی میں دلچسپی رکھتا ہے کسی میں دلچسپی نہیں رکھتا تو یہ اس کی ترجیحات کا معاملہ ہے۔کسی شعبہ سے عدم دلچسپی کو ادب کے دیار میں لاعلمی قرار دے کر جہالت سے جوڑنا بجائے خود ایک جاہلانہ رویہ ہے۔ اگر کوئی صوفیانہ خیالات کا تخلیقی اظہار کرتا ہے اور تصوف کے علم کی کتابیں لکھنے والے کوئی صاحب مقاماتِ تصوف کی اشکال و تشریحات میں بحث کو الجھانا چاہیں تو اس کا ادب سے کوئی تعلق نہ ہو گا۔کوئی شاعری میں حساب کتاب کی بات کرے اور اقتصادیات کا کوئی طالب علم اس پر ٹیکنیکل اعتراض شروع کر دے اور پھر یہ طعنہ زنی کر دے کہ اسے تو اقتصادیات کی مبادیات کا بھی علم نہیں۔جی ڈی پی کی شرح کا پتہ تک نہیں ہے تو اس نے حساب کے علم کو کیوں مَس کیا۔غالب کی ایک ہی غزل میں دو مختلف جہانوں کی سیاحت موجود ہے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
ایک شعر میں تصوف کی دنیا موجود ہے تو دوسرے شعر میں سائنس کے سوال اٹھائے گئے ہیں۔اب کوئی مولانا جیسا بندہ تصوف اور سائنس کی دنیاؤں میں ہوتا تو یہاں بھی اعتراض کرتا کہ غالب کو نہ تو صوفیانہ تجربہ ہوا نہ ہی انہیں جملہ گیسز اور پانی کا فارمولا تک معلوم تھا۔پھر وہ کیوں بلا وجہ اس قسم کے شعر کہہ رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے اور آن ریکارڈ ہے کہ عمران بھنڈر کے ہاں مابعد جدیدیت کا نصابی نوعیت کا کچا پکا مطالعہ ہی بکھرا ہوا ہے۔اردو تنقید میں کسی فن پارے کی تفہیم کے انہوں نے کوئی اچھے نمونے پیش نہیں کیے۔اقبال کی نظم کا ایسا فضول مطالعہ پیش کیا جسے شمیم طارق نے ادھیڑ کر رکھ دیا۔ ایک تقریب میں فیض احمدفیض پر مضمون پڑھ آئے اوربعد میں فیض کے اشعار ڈھونڈ کرمضمون میں فٹ کرتے رہے۔ یہ تنقید نہیں ہوتی ”منجی پیڑھی ٹھکا لَو“قسم کی مضمون نگاری ہوتی ہے۔اور تو اور مغربی تنقید کے بارے میں بھی ان کی معلومات کا دائرہ بالکل محدود ہے۔مغربی تنقید کے پس منظر اور اس کے مختلف ادوار کے حوالے سے انہوں نے کوئی قابلِ ذکر معلومات تک فراہم نہیں کی۔بس اپنی نصابی حد کے ”کنویں“کے اندرنصابی علم و فضل کی موٹر سائیکل چلا کر کرتب دکھا رہے ہیں اور اسی کو سب کچھ سمجھ کر پوری اردو دنیا کو لعنت ملامت بھی کیے جا رہے ہیں۔ ریکارڈ میں لانے کے لیے بتا دوں کہ عمران شاہد بھنڈر کے نام سے سب سے پہلا مضمون لندن کے ایک مقامی اخبار میں 27جنوری 2005ءمیں شائع ہوا تھا۔اس مضمون کے عنوان سے عمران کی نفسیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔یہ منصور آفاق کے ساتھ کسی اختلاف کی بنا پر لکھا گیا مضمون تھا ،اور ان کے نام میں آفاق کی مناسبت سے انہیں ”فاقے“ کے نام سے للکارتے ہوئے”کم آن فاقے“ کے زیر عنوان شائع کیا گیا تھا۔مجھے یہ مضمون رابطہ ہونے کے بعد موصوف نے بھیجا تھا۔میرا آج تک منصور آفاق سے کسی نوعیت کا رابطہ نہیں رہا،اس کے باوجود میں نے عمران بھنڈر کو شروع میں ہی کہا تھا کہ یہ عنوان بہت ہی نا مناسب ہے۔اور اس سے مضمون نگار کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیںہوتا۔کسی اور شخصیت کے ساتھ ایک بار اسی مضمون کے بارے میں بات ہوئی تو میں نے کہا تھا کہ عنوان سے ہی ایسا لگتا ہے جیسے گوجرانوالہ کا کوئی پہلوان لنگر لنگوٹ کے بغیر دھوتی کے ساتھ اکھاڑے میں اتر آیا ہواور دھوتی کو آدھا اوپر کرکے،لنگوٹ جیسا باندھ کر اپنے مخالف کو للکار رہا ہو ۔اس میں ادب والی کوئی بات نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پہلے مضمون کے عنوان سے لے کر اب تک کے ان کے مستعار افکار تک میں یہی پہلوان گیری کا انداز نمایاں ہے۔
پہلوان گیری کے ساتھ خوشامدانہ توصیف میں غیر معمولی انداز اختیار کرجانا بھی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔انگلینڈ کے ایک مقامی اخبار کی31مارچ 2006ءکی اشاعت میں انور مغل کے بارے میں مضمون میں لکھتے ہیں:”گزشتہ دنوں زندگی اور موت کی پیکار میں برمنگھم کی ایک عظیم علمی و ادبی اور سماجی شخصیت موت کو کچھ ایسے ہی انداز میں شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔۔۔“۔اہلِ ادب بخوبی جانتے ہیں کہ عمران بھنڈر کے ممدوح کیسی” عظیم علمی و ادبی“شخصیت ہیں۔ اس لطفِ ارزانی پر اب کیا کہا جا سکتا ہے ۔
اگر انہیں ادب کی تفہیم کا اوسط درجہ کا شعوربھی نصیب ہے تو وہ اردو کے کلاسیکی ادب سے لے کر اب تک کے ادوار میں سے نظم و نثر کا کچھ ایسا انتخاب کر لیں جو ان کے نزدیک عمدہ ادب میں شمار ہوتا ہو۔پھر ان منتخب تخلیقات کا ادبی مطالعہ پیش کریں اور اس انداز سے پیش کریں کہ اردو ناقدین کی بازگشت معلوم نہ ہو۔ان کی تنقید نگاری کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔بطور نقاد ان کی حیثیت کا تعین بھی کسی نہ کسی حد تک ہو ہی جائے گا۔ورنہ اپنی نصابی حدود میں مابعد جدیدفکر کی کچی پکی تشریحات پیش کرکے آپ فلسفی تو کیا اردو کے اچھے نقاد بھی نہیں کہلا سکتے۔احتشام حسین سے لے کر محمد علی صدیقی تک ترقی پسند نقادوں نے تنقید کے نام پر جو کچھ لکھا ان سے اختلاف کی کتنی ہی گنجائشیں ہوں لیکن ان سب کا ادب کی فہم کا اپنا اپنا ایک معیار تھا۔عمران بھنڈر کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پلے ابھی تک اردو ادب کی فہم کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے۔ان سے کہیں زیادہ تو سجاد ظہیر کے ہاں اردو ادب کی تفہیم کے بہتر معیار اور نمونے مل جاتے ہیں۔اسی لیے میں اصرار کر رہا ہو ں کہ موصوف اردو ادب کا ایک اپنا پسندیدہ انتخاب کرکے ان کی تفہیم و تعبیر مضامین کی صورت میں پیش کریں۔میں ابھی سے اندازہ کر سکتا ہوں کہ موصوف کیا گل کھلائیں گے۔
اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے مارکسسٹ مولانااور بقلم خود فلسفی فی ذاتہ فلسفہ سے کس حدتک واقف ہیں۔چونکہ انہوں نے ایم اے کا مختصر مقالہ کانٹ کے حوالے سے لکھا تھا سو ان کی اب تک کی تحریریں اٹھا کر دیکھ لیں۔کانٹ سے بات شروع ہو گی،ہیگل سے ہوتی ہوئی مارکس تک آئے گی۔(اپنے فائنل مقالہ کی مناسبت سے بیسویں صدی کی روسی تنقیدکے کچھ اشارے بھی دیتے جائیں گے)وہاں سے دریدا تک پہنچیں گے اور پھر اردو ادب کے خلاف دریدہ دہنی شروع کر دیں گے۔دریدہ دہنی کی صرف ایک مثال:
”اردو دنیا کے ادباءکی اکثریت بد دیانتی،بد اخلاقی اور بے ہودگی کے حصار میں ہے۔“
کیا شاہانہ انداز ہے! قہربرپا کریں تو اردو ادباءکی اکثریت کو بد دیانت،بد اخلاق اور بے ہودہ قرار دے دیں اور لطفِ ارزانی پر آئیں تو امین مغل صاحب عظیم علمی و ادبی شخصیت قرار پاجائیں۔
مولانا نے اردو والوں کے بارے میں دعویٰ فرمایا ہے کہ
”یہ لوگ فلسفۂجدیدیت کو نہیں سمجھ سکے تو ما بعد جدیدیت ان کی سمجھ میں کیسے آسکتی ہے۔“
اس دماغی فتور پر موصوف کے ساتھ کسی قسم کی بحث کرنا وقت کا زیاں ہے لیکن انہیں ایک مشورہ ضرور دینا ہے کہ فلسفی بھائی صاحب! اردو دنیا تو بہت بری اور بے خبر ہے، آپ اپنی یہی شاہکار کتاب انگریزی میں ترجمہ کریں اور مغربی دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ اہلِ مغرب کو علم ہو کہ آپ جیسے بقلم خود فلسفی نے فلسفۂما بعد جدیدیت میں کیا گراں قدر اضافے کیے ہیں۔اور انہیں اندازہ ہو کہ ان کے درمیان ایک فلسفی پیدا ہو چکا ہے۔جب موصوف نے اردو کتاب چھاپنے کا ارادہ کیاتھا تو ان کے والد صاحب نے افسوس کے ساتھ کہا تھا کہ تمہیں انگلینڈ میں اردو کا ادیب بننے کے لیے بھیجا تھا؟۔سو جب وہ اپنی اسی کتاب کو انگریزی میں شائع کریں گے تو جہاں مغربی دنیا کو ایک نئے فلسفی کی بشارت ملے گی وہیں ان کے بزرگ بھی کچھ مطمئن ہوجائیں گے کہ چلو جو کچھ بھی لکھ رہا ہے انگریزی میں تو ہے۔
اردو کی حد تک عمران شاہد بھنڈر کا ایک ہی ادبی حوالہ ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے ترجمہ بلا حوالہ کو نشان زد کیا۔ یہ ادبی حوالہ پاکستان پوسٹ اور نیرنگِ خیال کے سالنامہ میں چھپا تو مضمون اور مضمون نگار دونوں ہی ان شماروں میں دفن ہو کر رہ گئے۔”جدید ادب“ نے اس مسئلہ کو جھاڑ پونچھ کر ادبی دنیا کے سامنے پیش کیا تو اس کے بعد ادبی دنیا اس سے آگاہ ہوئی۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس معاملہ کو نارنگ صاحب کے نادان دوستوں نے غیر ضروری طول نہ دیا ہوتا تو بات پہلے مضمون کے ساتھ ہی ختم تھی۔اب جبکہ جنگ و جدل والی فضا نہیں ہے توعلمی و ادبی لحاظ سے مناسب ہو گا کہ اس سارے قضیہ کو اکیلے نارنگ صاحب پر فوکس کرکے دیکھنے کی بجائے ان سارے نقادوں کے تراجم بلا حوالہ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے جنہیں اردو ہی کے متعدد ادیب مختلف اوقات میں نشان زد کرتے رہے ہیں۔جن کا ایک بڑا حصہ ڈاکٹر نذر خلیق اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں یکجا کر چکے ہیں اور ان سے بھی آگے جا کر بیس سے زائدنئے پرانے نقادوں کے تراجم بلا حوالہ کو ڈاکٹر ناصر عباس نیر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ میں نشان زد کر چکے ہیں۔سارے چھوٹے بڑے نام یکجا کرکے اور سب کے استفادہ شدہ اقتباسات کو سامنے رکھ کرپھر جو مجموعی فیصلہ کیا جائے بجا ہو گا۔کسی نام پر خاموشی،کسی نام پر معذرت خواہانہ رویہ،کسی کے لیے استثنیٰ اور کسی کو ملامت یہ منافقت نہیں چلے گی۔میری جو معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے وہ نارنگ صاحب کے نادان دوستوں کی وجہ سے ہوئی ہے ورنہ علمی سطح پر جو نشان دہی ہونا تھی وہ ہو چکی۔اور تاریخ کے سپرد بھی ہو چکی۔سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کے موضوع پر اردو میں مجموعی طور پر جو ڈھیروں ڈھیرکام ہو چکا ہے،اس کے مجموعی تناظر میں ہی عمران شاہد بھنڈر کی صرف ایک نقاد کے بارے میں نشان دہی کو جانچا جائے گااور اس کی قدرو قیمت کا تعین کیا جائے گا۔ سو عمران بھنڈر کا یہ کام حقیقتاًبہت ہی جزوی نوعیت کا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند نقاد محمد علی صدیقی سے لے کر بعض انگریزی اردواخبارات میں چھپنے والے تبصروں تک میں تبصرہ نگاروں نے عمران کی کتاب پر لکھتے ہوئے ان کے ”ترجمہ بلا حوالہ “کے کام کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔
عمران بھنڈر کے واحد کام”ترجمہ بلا حوالہ“کی نشان دہی کو بھی اب شاید پہلے جیسی اہمیت نہ ملے،کیونکہ وہ خود بھی ترجمہ بلا حوالہ کا ارتکاب کر چکے ہیں۔اگر ان کے نزدیک یہ سرقہ ہے تو کیوں ہے؟۔سرقہ نہیں ہے تو کیا ہے؟یہاں ایک وضاحت کو دہرا دوں کہ میری انگریزی کا خانہ خالی ہے اور میں نے اس بات کو کبھی نہیں چھپایا۔تاہم عمران بھنڈر کے ایک سرقہ کو نشان زد کرنے کے لیے میں نے جی کڑا کر کے نہ صرف انگریزی کے متعلقہ مضامین تلاش کر کے پڑھ ڈالے بلکہ اس سلسلہ میں عمران کے برمنگھم یونیورسٹی میں استاد ڈیرک لٹل ووڈ سے برقی خط و کتابت کرکے شواہد تک رسائی حاصل کر لی۔انگریزی مطالعہ کے اس دلچسپ تجربے کے دوران مجھے1972ءکا زمانہ یاد آگیا جب اپنے بی اے کے امتحان کے لیے میں زورو شور سے اپنی ڈھیلی ڈھالی انگریزی کی تیاری کر رہا تھا۔خیر بات ہو رہی تھی عمران بھنڈر کے سرقہ یا ترجمہ بلا حوالہ کی۔
رولاں بارت کا ایک مضمونSoap-powders and Detergents پچاس کی دہائی میں اخبار میں چھپا تھا جو بعد میں ان کی کتابMythologiesمیں شامل کیا گیا۔اس پرCatherine Belsey نے اپنی کتابPoststructuralism: A Very Short Introduction میں تبصرہ کرتے ہوئے جو نکتہ ابھارا تھا،کیتھرین بیلسی کے اسی نکتہ کو عمران شاہد بھنڈر نے اپنے افکارِ عالیہ کے طور پر پیش کر دیا ہے۔پہلے رولاں بارت کے بارے میں عمران شاہد بھنڈرکا ترجمہ بلا حوالہ یا سرقہ کردہ ایک اقتباس دیکھ لیں:
”اپنے ایک اور مضمونSoap-powders and Detergents میں فرانسیسی معاشرے کی ایک انتہائی بنیادی نفسیاتی سرگرمی کو بورژواآئیڈیالوجی کے ہاتھوں عجیب طریقے سے فطرت میں بدلتے ہوئے دیکھتا ہے۔۔۔بارت نے یہ دکھایا ہے کہ فرانسیسی گھروں میں جراثیم کو مارنے اور معروض کو ماحولیاتی گندگی سے الگ کرنے کے لیے کس طرح پاؤڈر اور ڈیٹرجنٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔بورژوا حکمران اس عمل کو آفاقی سطح پر استوار کرتا ہے۔وہ تیسری دنیا کے ان لوگوں کو جو خوراک کی کمی کی وجہ سے بدصورت بن چکے ہیں،انہیں اپنی جلد پر لگی ہوئی گندگی کی مانند تصور کرتا ہے۔جس کو مٹایا جانا معا شرتی حسن کے لیے از حد ضروری ہے۔“(مضمون”ادبی نقاد رولاں بارتھ کی ’مائیتھالوجی‘میں آئیڈیالوجی“ از عمران شاہد بھنڈر۔مطبوعہ ”دی نیشن“۔لندن۔22مارچ 2007ء)
اس مضمون میں عمران نے بارت کے متن کو خوب مسخ کیا ہے۔پہلی بات تویہ صاف محسوس ہوتی ہے کہ عمران بھنڈر نے بارت کی کتابMythologies میں شامل مضمونSoap-powders and Detergentsکا مطالعہ ہی نہیں کیا۔وگرنہ وہ یہ نہ لکھتے کہ”اپنے ایک اور۔۔ ۔ ۔۔فطرت میں بدلتے ہوئے دیکھتا ہے۔“
بارت نے اس مضمون کا آغازستمبر 1954ءمیں پیرس میں ہونے والی پہلی ورلڈ ڈیٹرجنٹ کانفرنس کے ذکر سے کیا ہے،جس کے بعد پاﺅڈر اور ڈیٹرجنٹ کے اشتہارات نہایت کثرت سے سامنے آئے۔ اب وہ فرانسیسی معاشرے میں اس حد تک رائج ہوگئے ہیں کہ ان کا نفسیاتی تحلیلی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔بارت کے اصل اقتباس کا انگریزی ترجمہ دیکھیے:
These products have been in the last few years the object of such massive advertising that they now belong to a region of French daily life which the various types of psycho-analysis would do well to pay some attention to if they wish to keep up date.
اصل میں عمران بھنڈرنے کیتھرین بیلسی کی تعارفی نوعیت کی کتابPoststructuralism: A Very Short Introduction پر ہاتھ صاف کیا ہے۔اور خاصی صفائی سے کام لیا ہے(آخر سوپ پاﺅڈر اورڈیٹرجنٹ کا معاملہ تھا!)اس پیرا گراف کا پہلا جملہ بیلسی کی کتاب کے صفحہ 31 کے بعض جملوں کا چربہ اور سرقہ ہے: دیکھیے:
Because the form of ownership that determines the nature of our society is bourgeois, Barthes says, and it is the particular property of bourgeois ideology to efface itself.
جہاں تک آئیڈیالوجی کے فطرت میں بدلنے کا ذکر ہے تو آپ بیلسی ہی کا وہ جملہ پڑھ لیں جو متھ کے فطرت میں بدلنے سے متعلق ہے جسے ہمارے ”نوجوا ن فلسفی“ نے آئیڈیالوجی سے بدل دیا ہے ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
Myth,Barthes explains, converts histroy into nature .P 31
نتیجہ یہ ہے کہ اصل بات کچھ کی کچھ بن گئی ہے۔
اسی طرح عمران بھنڈر کہتے ہیں کہ”بارت نے یہ دکھایا ہے کہ فرانسیسی گھروں میںجراثیم کو مارنے اور معروض کو ماحولیاتی گندگی سے الگ کرنے کے لیے کس طرح پاﺅڈر اور ڈیٹرجنٹ کاا ستعما ل کیا جاتا ہے۔“
کسی متن کو مسخ کرنے کی اتنی سفاکانہ مثال شاید ہی کوئی ہو؟ بیلسی بے چاری نے واضح کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ ”مارنے“ اور ”الگ“ کرنے میں فرق پیش نظر رہے مگر عمران بھنڈراگر ان نازک علمی مسائل کی تفہیم کا ملکہ رکھتے اور ان سب باتوں کو انگریزی میں لکھتے تو آج مغربی دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہوتا ۔خیر،پہلے بارت اور پھر اس کے خیالات کا خلاصہ کیتھرین کی زبانی سنیے:
Chlorinated fluids, for instance, have always been experienced as assort of liquid fire, the action of which must be carefully estimated; otherwise the object itself would be affected, 'burnt'. The implicit legend of this type of product rests on the idea of a violent, abrasive modification of matter: the connotations are of a chemical or mutilating type: the product 'kills' the dirt. Powders, on the contrary, are separating agents: their ideal role is to liberate the object from its circumstantial imperfection: dirt is 'forced out' and no longer killed; in the Omo imagery, dirt is a diminutive enemy, stunted and black, which takes to its heels from the fine immaculate linen at the sole threat of the judgment of Omo
(Roland Barthes, Mythologies,Translated by Annette Lavers, 1972(1957), The Noondaz Press,New York)
بارت کہنا یہ چاہتے ہیں کہ پاﺅڈر اور ڈیٹرجنٹ ،Chlorinated fluids کے برعکس ،”مارتے “نہیں،معروض(یعنی کپڑے) کو اس پر لگے داغ سے آزاد اور الگ کرتے ہیں۔دیکھیے بیلسی کیا کہتی ہے۔
Traditional domestic cleaning products that use bleach or ammonia 'make war' on germs , or 'kill' dirt. By contrast what was new in the imagery of household detergents available for the first time just after the Second World War, was that they separated the dirt from the fabric decisively but wothout 'violence'..Their ideal role is to liberate the object from its circumstantial imperfection', Roland Barthes proposes,..
(Catherine Belsey, Poststructuralism Avery Short Introduction, 2002, Oxford Universty Press, London)
عمران بھنڈر کے اقتباس کا آخری جملہ ان کا اپنا اخذ کیاہوا نتیجہ ہے۔ بارت نے فقط فرانسیسی معاشرے میں بورژوا طبقے کا ذکر کیا ہے اور ظاہر ہے یہ مارکسی اصطلاح ہے اور مارکسی مفہوم ہی میںہے۔بیلسی کے مطابق بارت خود مارکسی نہیں تھا مگرپیرس میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سرد جنگ کے اُس زمانہ میں کسی دانشور کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ مارکسیت کو ملحوظ رکھے بغیر بات کرسکے۔
یہاںبرمنگھم یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے استادDr. Derek Littlewood جو عمران بھنڈر کے بھی استاد رہے ہیں،ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔اس اقتباس کی تلاش کے سلسلے میں انہوں نے ہی کیتھرین بیلسی کی طرف رہنمائی کی،وگرنہ میں جولیا کرسٹیو ا میں الجھا ہوا تھا۔ جولیا کرسٹیوا کی علمی سطح بہت بلند ہے جبکہ کیتھرین بیلسی کی مذکورہ کتاب انڈر گریجوایٹ یا گریجوایٹ لیول کی چیز ہے۔اور عمران بھنڈر کی دوڑ بھی نصابی حدود یا انٹرنیٹ پربا آسانی دستیاب مواد تک ہی ہے۔میرے استفسار پر ڈاکٹر ڈیرک لٹل ووڈ کی طرف سے 7 جولائی 2011ءکو جو ای میل آئی اس کا ایک حصہ بھی یہاں درج کر دیتا ہوں۔
Dear Haider,
It sounds more like Catherine Belsey than Julia Kristeva. But I imagine that it is a paraphrase rather than the actual words. You would be able to read Roland Barthes for yourself, perhaps. ‘Soap Powder and Detergent’ is a newspaper article from the 1950s reprinted in Barthes’s book Mythologies,
My best wishes Derek
یہ میں نے صرف اپنے” نوجوان فلسفی“عمران شاہد بھنڈرکے ایک مضمون کے ایک اقتباس کا سرقہ نشان زد کیا ہے اور اس پر اپنی غیر فلسفیانہ سوجھ بوجھ کے مطابق تھوڑی سی علمی بات کی ہے۔اگر انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ کرنے والے اہلِ ادب دلچسپی لیں تو عمران شاہد کی پوری کتاب سے ایسے بلا حوالہ ترجمہ کی متعدد مثالیں اور نوجوانی سے بھرپور” فلسفیانہ“ مضحکہ خیزیاں سامنے لائی جا سکتی ہیں۔اگر ہمارے ”نوجوان فلسفی“ نے ایسی ہیرا پھیریاں نہیں کیں تو اپنی بات کو پھر دہراتا ہوں کہ اپنی کتاب کے پاکستانی ایڈیشن کو من و عن انگریزی میں ترجمہ کرکے منظرِ عام پر لائیں۔انگریزی ادب والے یا تو ان کی قدر کرتے ہوئے ایک نئے اور نوجوان فلسفی کے ظہور پر خوشی کا اظہار کریں گے،یا پھر خود ہی ان سے نمٹ لیں گے۔
خلاصۂکلام:
۱۔عمران شاہد بھنڈر نے2007ءمیں اپنے آپ کو پی ایچ ڈی کا سکالربتایا،پی ایچ ڈی کے موضوعPostmodern Literary Theory تک کو چھپوا کراردو دنیا کو دھوکہ دیا، جعل سازی سے کام لیا ، اپنے جعلی علم کا رعب قائم کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ2007ءسے لے کر جون 2011ءتک ،انہوں نے پی ایچ ڈی کرنا تو درکنار ابھی تک رجسٹریشن بھی نہیں کرائی۔ یہ ادبی دنیا کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔واضح جعل سازی ہے۔
۲۔خود کو شعبۂتعلیم سے وابستہ کہنا بھی جعل سازی اور دھوکہ دہی ہے۔ اس وقت تو شعبۂتعلیم سے اس حد تک بھی وابستہ نہیں جتنا پرائمری کلاس کے کسی طالب علم سے لے کر کالج تک کا کوئی طالب علم بطور طالب علم وابستہ ہو سکتا ہے۔جبکہ شعبۂتعلیم سے وہ اپنی وابستگی تو ایسے ظاہر کر رہے ہیں جیسے کہیں لیکچرر یا پروفسیر لگے ہوئے ہوں۔ کیا وہ ایسے جعلی تعارف کے بغیر خود کو معزز محسوس نہیں کرتے؟
۳۔خود کو بقلم خود اور بزبان خود” نوجوان فلسفی“ کہلوانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔عمران بھنڈر مابعد جدیدیت کی درسی نوعیت کی طالب علمانہ تشریحات سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔اس میں بھی ان کا مطالعہ غیر ہضم شدہ ہے اور اس غیر ہضم شدہ کے اثرات جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ فلسفی کے لیے جس میلان اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سرے سے موجود نہیں۔اسی لیے شدت سے کہتا ہوں کہ موصوف اپنی یہ بچکانہ کتاب انگریزی میں چھپوائیں،مغربی دنیا کو بھی اس فلسفیانہ تماشے کا اندازہ ہو جائے گا۔اوراگر ہمیں اپنے ”نابغہ“ کو شناخت کرنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو یہ بھی دور ہو جائے گی۔ورنہ ہمارے فلسفی بھائی کی خوش فہمی تو ختم ہو گی۔
۴۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے ترجمہ بلا حوالہ کا معاملہ ادب کی تاریخ کے حوالے ہو چکا۔عمران کا یہی ایک کام ہے جس کاتھوڑا بہت ذکر کیا جا سکے گا ۔ان کے اس کام کوبھی ان دوسرے بہتر نقادوں اور دانشوروں کے کام کے تناظر میں ہی دیکھا جا سکے گاجومتعدد ادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کر چکے ہیں۔اور انہوں نے ایسی نشان دہی کرکے کوئی اچھل کود بھی نہیں کی۔یوں ایک مجموعی کار کردگی میں عمران بھنڈرپچاس یا سوادیبوں کے ترجمہ بلا حوالہ کی نشان دہی کیے جانے کا ایک پرسنٹ ہی داد سمیٹ پائیں گے ۔اس داد پرجتنا خوش ہو سکتے ہیں،ہوتے رہیں۔
۵۔عمران شاہد خود بھی کاری گری کے ساتھ سرقات کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک ثبوت پیش کر دیا گیا ہے۔
۶۔”نوجوان فلسفی“ ادب میں تخلیقی صلاحیت سے تو یکسر عاری ہیں ، ان کی ادب فہمی پربھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔جب تک وہ اردو ادب کا قدیم سے جدید تک ایک عمدہ انتخاب کرکے ، تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کرکے اپنی ادب فہمی کا ثبوت نہیں دیتے،وہ اس معاملہ میں ادبی طور پر خالی ہاتھ ہیں۔ ادب میں ان کی حیثیت ایک در انداز سے زیادہ کچھ نہیں۔(تحریر کردہ ۱۱جولائی ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔