(شمارہ نمبر ۱۹،جولائی تا دسمبر۲۰۱2ء)
میرا جی ۲۵مئی ۱۹۱۲ءمیں پیدا ہوئے اور۳نومبر۱۹۴۹ءمیں وفات پا گئے۔تقریباً ساڑھے سینتیس برس کی زندگی میں انہوں نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا۔جدید نظم میں اپنے سب سے زیادہ اہم تخلیقی کردارکے ساتھ انہوں نے غزل اور گیت کی شعری دنیاپر بھی اپنے گہرے نقش ثبت کیے۔ شاعری کے کچھ ہلکے پھلکے دوسرے نمونے بھی پیش کیے۔جو بظاہر ہلکے پھلکے لگتے ہیں لیکن اردو شاعری پر ان کے بھی نمایاں نقش موجود ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں کے اہم شاعروں کی شاعری کے منظوم ترجمے،نثری ترجمے،تنقیدی و تعارفی مضامین۔ایسے ایسے انوکھے کام کیے کہ اپنے تو اپنے،غیر بھی ان کی تقلید کرتے دکھائی دیں۔میرا جی اپنی طبیعت کے لا اُبالی پن کے باعث اپنی بہت ساری شاعری کو محفوظ نہ رکھ سکے۔جتنا سرمایہ جمع ہو سکا،اس میں میرا جی کی ذاتی کوشش سے کہیں زیادہ ان کے قریبی احباب اور بعض ناقدین و محققین کی نہایت مخلصانہ کاوشوں کو دخل رہا ہے۔
میرا جی سے بہت سارے لکھنے والوں نے کسی نہ کسی رنگ میں اکتساب کیا،فیض اُٹھایا لیکن عمومی طور پرغالباً ان کی عوامی مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے ،ان کے اعتراف میں بخل سے کام لیا۔یہ کوئی الزام تراشی نہیں ہے ،بس ادبی دنیا کے طور طریقوں کا ہلکا سا گلہ ہے۔۔صرف یہ احساس دلانے کے لیے کہ اگر کچھ فیض اُٹھایا ہے تو میرا جی کا تھوڑا سا اعتراف کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر کہیں سے کچھ سیکھنے کو مل جائے،کوئی رہنما نکتہ مل جائے،کوئی تحریک مل جائے اور اس ذریعہ کا فراخدلانہ اعتراف کرلیا جائے تو ایسا اعتراف نہ صرف قلبی خوشی اورذہنی اطمینان کا موجب بنتا ہے بلکہ اس کے نتیجہ میں ادبی زندگی کے با برکت ہو جانے کا احساس بھی ہوتا ہے۔
یہاںمیرا جی کے ساتھ ان کے دو ہم عصر شعراءکا ذکر کرنا ضروری ہے۔فیض احمد فیض پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک ناپسندیدہ ہونے کے باوجود عوامی سطح پر مقبول شاعر تھے۔اگرچہ ساحر لدھیانوی بھی ان سے کچھ کم نہیں ہیں لیکن بعض امتیازی اوصاف کی بنا پر انہیں بجا طور پر ترقی پسند تحریک کی سب
سے بڑی عطا کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ برس فیض صدی کا سرکاری طور پر اہتمام کیا گیا تو خوشی بھی ہوئی اور حیرانی بھی۔فیض احمد فیض کو شایانِ شان پذیرائی ملنے پر خوشی ہوئی اور اس بات پر حیرانی ہوئی کہ کیا اب وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول ہو گئے ہیں؟
کل تک ہم اس بات پر نازاں ہوا کرتے تھے کہ فلاں فلاں شاعروں اور ادیبوں کو سرکاری سطح پر ناپسند کیا جاتا ہے ،یہ بات تخلیق کار کے حق میں جاتی تھی۔ اب فیض بھی سرکاری دانشوروں اور سرکاری صوفیوں میں شمار ہونے لگے ہیں تو کچھ عجیب سا ضرور لگ رہا ہے۔تاہم تشویش کی کوئی بات نہیں، جلد ہی ہم اس کے عادی ہو جائیں گے۔
یہ اعتراف کرنا ضروری ہے کہ اندرونِ خانہ وجہ کچھ بھی رہی ہو فیض احمد فیض کی پذیرائی ان کا پرانا حق تھا(جو تاخیر سے ادا ہوا)اور یہ فیض کے لیے بھی اور اردو ادب کے لیے بھی نیک فال ہے۔
میرا جی کے ہم عصر اور ایک حد تک ادبی ہم مسلک ن م راشد کو بھی ایک عرصہ تک زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ان کی وفات پر ان کی میت جلائے جانے کے واقعہ کے بعد تو ادبی دنیا پر ایک عرصہ تک خاموشی چھائی رہی۔ادب پر معتقدات غالب آرہے تھے۔لیکن گزشتہ چند برسوں سے راشد فہمی کا سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہو رہا ہے۔یہ ادبی لحاظ سے نہایت خوشی کی بات ہے ۔فیض (۲۰۱۱ء)سے پہلے ۲۰۱۰ءمیں راشد کی صد سالہ پذیرائی کا خوشکن سلسلہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔لیکن یہاں ایک افسوس ناک خرابی کی نشان دہی کرنا ضروری ہے۔راشد کی حالیہ پذیرائی سے پہلے بڑے منظم طریقہ سے یہ بات راسخ کی گئی کہ راشد کی میت جلانے کے لیے ان کی کوئی وصیت نہیں تھی۔یہ ان کی دوسری بیوی کی سازش تھی۔وہ نہ صرف بڑے اعلیٰ درجہ کے مسلمان تھے بلکہ عالمِ اسلام کے لیے ان کے دل میں بڑا درد تھا۔قطع نظر اس سے کہ راشد کی طرح بعض اور ادیبوں ،فنکاروںنے بھی اپنی میت جلائے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا(بعض کی میتوں کو جلایا بھی گیا)۔اگرراشد نے وصیت نہیں کی تھی تو انہیں دنوں میں اس کی وضاحت آجانی چاہیے تھی۔سیدھی سی ادبی بات صرف یہ ہے کہ اگر راشد اچھے شاعر ہیں تو بے شک انہوں نے میت جلانے کی وصیت کی ہو ،تب بھی وہ اچھے شاعر رہیں گے۔اگر وہ اچھے شاعر نہیں ہیں تو بے شک انہوں نے اپنی میت جلانے کی وصیت نہ کی ہو،بے شک وہ اعلیٰ پائے کے مسلمان ہوں،وہ اچھے شاعر نہیں ہیں۔سو ان کے مقام کے تعین کی غرض سے تیس پینتیس برس کے بعد ان کی میت سوزی والی وصیت کی صفائی دینا مناسب نہیں ہے۔یہ خود تخلیق کار راشد کے ساتھ زیادتی ہے۔
کسی شاعر اور ادیب کے مقام کا تعین اس کی تخلیقات اور نگارشات کے ذریعے ہی کیا جانا چاہیے۔اگر اس میں مذہبی و مسلکی معاملات کو بنیاد بنا کرکسی تخلیق کار کامقام طے کرنے کے منفی رویہ کو فروغ دیا جانے لگا تو اس سے اردو ادب میں طالبانی رویہ فروغ پائے گا جو ادب کے لیے کسی زہر سے کم نہیں ہے۔
یہاں میرا جی کے ساتھ فیض احمد فیض اور ن م راشد کا بطور خاص ذکر کرنے کی وجہ ہے۔یہ تینوں شاعر ایک ایک سال کے فرق کے ساتھ ہم عصر تھے۔ان میں سے فیض اور راشد دونوں شاعر اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے اور اعلیٰ سماجی رتبہ کے حامل بھی رہے۔دونوں عملی زندگی میں نہایت ذمہ دار رہے۔دونوں نے میرا جی کے مقابلہ میں زیادہ عمر پائی۔فیض احمد فیض ۳۷برس کی عمر میں اور راشد۵۶برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ان کے بالمقابل میرا جی ساڑھے سینتیس سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ان دونوں کے برعکس میرا جی میٹرک بھی پاس نہ کرسکے،کوئی سماجی رتبہ انہیں نصیب نہ ہو سکا،وہ ذاتی زندگی میں بھی بڑی حد تک غیر ذمہ دار رہے اور دونوں دوسرے شاعروں کے مقابلہ میں عمر بھی بہت کم پائی۔اس کے باوجود ان تینوں کے مجموعی ادبی کام کو یک جا کیا گیا ہے تو میرا جی کا کام اپنے دونوں ہم عصر بڑے شاعروں سے کہیں زیادہ ہے۔بات صرف مقدار کی نہیں،معیار میں بھی میرا جی کسی سے ہیٹے نہیں ہیں۔جو لوگ میرا جی کے کلام کی تفہیم میں مشکل یا الجھن کا ذکر کرتے ہیں۔ان میں سے عوامی طرز کے اور ترقی پسند ادیبوں کے اعتراض کو تو ان کے فکری پس منظر کے باعث کسی حد تک مانا جا سکتا ہے،لیکن جو لوگ راشد فہمی میں کوئی الجھن محسوس نہیں کرتے اور میرا جی کی تفہیم میں انہیں الجھن پیش آتی ہے تو پھریہ میرا جی کے کلام کی ژولیدگی نہیں بلکہ یار لوگوں کے تعصبات ہیں۔ میرا جی کے ساتھ ہماری ادبی دنیا کے عمومی سلوک کو زیرِ بحث لاتے وقت اس نکتہ کو سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے۔اس سے تعصبات کم کرنے میں مدد ملے گی۔
میرا جی کو نظر انداز کیے جانے میں ہمارے معاشرے کی مروّج اور دہرے معیار کی حامل اخلاقیات کابھی بہت بڑا حصہ رہا ہے۔مغربی دنیا میں کسی بھی شاعر اور ادیب کی زندگی کے بارے میں جملہ کوائف صرف ریکارڈ کی حد تک بیان کیے جاتے ہیں۔اس میں اس قسم کی ساری باتیں بھی آجاتی ہیں جو ہمارے ہاں ظاہری سطح پر بہت بری سمجھی جاتی ہیں۔لیکن مغربی دنیا اس ریکارڈ کو اس کی ذاتی زندگی کی حد تک ایک نظر دیکھتی ہے ،پھر اس سے آگے بڑھ کر تخلیق کار کی تخلیقات کے ذریعے اس کوسمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ذاتی زندگی کا کوئی خاص حوالہ اگر موضوع بنایا بھی جاتا ہے تو صرف اس حد تک کہ اس سے فن پارے کے پس منظر کو سمجھنے کی وجہ سے اس کی تفہیم میں مدد مل رہی ہوتی ہے۔ذاتی زندگی کے ایسے کسی حوالے کو نہ رعائتی نمبر دینے کے لیے پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی قارئین کو فنکار سے متنفر کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم لوگ اپنے معاشرے کے دوہرے معیارکے عین مطابق ظاہری اخلاقیات کے تحت آنے والے کسی عیب پر رک کر رہ جاتے ہیں،اور پھر اس تخلیق کار کا سارا ادبی کام پس پشت چلا جاتا ہے۔
میرا جی بڑی حد تک اسی منفی رویے کا شکار ہوئے ہیں۔رہی سہی کسر ان کے ان دوستوں اور” کرم فرماؤں“ نے پوری کر دی جنہوں نے میرا جی کے فن پر توجہ دینے کی بجائے ان کی شخصیت کو مزید افسانوی بنا دیا۔بے شک ان کی شخصیت میں ایک انوکھی سِحِر انگیزی تھی،یاروں کی افسانہ طرازی نے میرا جی کے گرد ایسا ہالہ(جالا) بُن دیا کہ قاری ان کی تخلیقات سے بالکل غافل ہو گیا۔میرا جی کے دوستوں نے اس معاملہ میں نادان دوستی کا اور” کرم فرماؤں“ نے دشمنی کا کردار نبھایا۔
ایسا بھی نہیں کہ میرا جی کو یک سر فراموش کر دیا گیا ہو۔ان کے بارے میں منفی عمل کے ساتھ تھوڑا بہت مثبت کام بھی ہوتا رہا ہے۔ یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالات لکھے گئے،ان کی کلیات مرتب کرنے پر بہت خاص توجہ دی گئی، دوسرے ایڈیشن میں مزید اضافے سامنے لائے گئے۔انڈیا اور پاکستان سے ان پرتصنیف کردہ اور مرتب کردہ کتابیں شائع کی گئیں،ایک دو رسالوں نے ان کے نمبر یا گوشے بھی شائع کیے۔اس سال کہ میرا جی کی پیدائش کے سو سال پورے ہو گئے ہیں،پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو نے میرا جی سیمینار کا انعقاد کیا ہے۔ اوراب جدید ادب کا یہ شمارہ صد سالہ سال گرہ نمبر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
جدید ادب کے اس میرا جی نمبر میںان کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن کی مختلف جہات کو موضوع بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس سلسلہ میں بعض ایسے مطبوعہ مضامین کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے جومیرا جی کے فن کی تفہیم اور ادب میں ان کے مقام و مرتبہ کے تعین میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔نئے مضامین کے حصول کے سلسلہ میں ایک خوش کن پہلو یہ سامنے آیاکہ نئے لکھنے والوں نے اس میں گہری دلچسپی لی۔ جو مضامین موصول ہوئے ان میں سے بعض کمزور مضامین کوبھی تھوڑا بہت ایڈٹ کرکے شامل کر لیا گیا،مقصد یہ تھا کہ نئے لکھنے والے میرا جی کے مطالعہ میں دلچسپی لیں اور جس حد تک ان کی سوجھ بوجھ ہے اس سے کام لے کرانہیں سمجھنے کی کوشش تو کریں۔تاہم چند مضامین اتنے کمزورتھے کہ ایڈیٹنگ کے لیے بہت زیادہ وقت مانگتے تھے،انہیں شامل کرنے کی شدید خواہش کے باوجود میں انہیں شامل نہیں کرپایا۔ میں ان تمام مضمون نگار حضرات کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مضامین لکھے اور ان کے مضامین کو شامل نہ کر پانے پر ان سب سے معذرت کا طلب گار ہوں۔ ان مضامین کو کچھ ایڈٹ کرکے اور مضمون نگار دوستوں سے مشورہ کرکے بعد میں انہیں کہیں اور چھاپنے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
میرا جی نمبر کی تیاری کے لیے بہت سارے دوستوں نے خصوصی توجہ سے کام لے کر تعاون کیا۔کہیں مواد کی فراہمی کو ممکن بنایا گیا تو کہیں کمپوزنگ کی سہولت دی گئی۔تیکنیکی معاونت کی وجہ سے میری بہت ساری درپیش مشکلات دور ہوئیں۔تعاون کرنے والے احباب میں انڈیا سے ڈاکٹر انجم ضیاءالدین تاجی ،معید رشیدی اور نوجوان صحافی مطیع الرحمن عزیز، پاکستان سے ڈاکٹر نذر خلیق،ارشد خالد،طارق حبیب،ڈاکٹر عابد سیال اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا خصوصی شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔اٹلی سے ماسیمو بون نے میرا جی کی نظموں کے دوسری زبانوں میں تراجم کی راہ سجھائی،روس سے ڈاکٹر لدمیلا،جرمنی سے ڈاکٹر کرسٹینا اور ترکی سے ڈاکٹر خلیل طوق أر نے روسی، جرمن اور ترکی زبانوں میں تراجم کرکے دئیے، مصر سے ھانی السعید نے ،کینیڈا سے عبداللہ جاوید نے اور پاکستان سے ایوب خاور نے کئی مفید مشوروں سے نوازا۔اور ہر ممکن تعاون کیا۔ سو ان تمام احباب کے تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ان تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جن کے مضامین جدیدادب کے میرا جی نمبر میں شامل ہیں۔
جزاکم اللہ تعالی واحسن الجزائ!
میرا جی کی پیدائش کے سو سال پورے ہونے پر میری طرف سے یہ ایک چھوٹا سا تحفہ ہے۔امید کرتا ہوں کہ اس نمبر کی اشاعت کے بعد میرا جی کے مطالعہ کا رجحان بڑھے گا۔جیسے جیسے میرا جی کو زیادہ پڑھا جائے گا ویسے ویسے ان کی تفہیم کے امکانات کھل کر سامنے آتے جائیں گے۔انشاءاللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ ۲۰۱۴ءمیں میرے کولکاتا اور دہلی کے سفر کے باعث میرا جی نمبر تاخیر کا شکار ہو گیا۔و اپسی کے بعد کام مکمل کرنا چاہا تو میری صحت کے مسائل دامن گیر رہے۔اکتوبر۲۰۰۹ءسے جنوری ۲۰۱۰ءتک دو مرتبہ انجیو گرافی و انجیو پلاسٹی ایک ساتھ کی جا چکی ہے،جبکہ ایک ایک بارانجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی الگ الگ سے کی گئی۔گویا چار مہینوں میں چار بار دل کے ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ چکا تھا۔ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی ضروری ہے۔میں اسے ڈیڑھ سال سے موخر کرتا آرہا تھا۔لیکن۱۳جون ۲۰۱۴ءکو ڈاکٹر نے مزید مہلت دینے سے انکار کر دیا۔بمشکل ایک مہینے کی مہلت ملی کہ میرا جی نمبر کا کام تو مکمل کر لوں۔سو اب یہ رسالہ پریس میں بھیج رہا ہوں اور خود ۲۵جولائی کو ہسپتال میں داخل ہو رہا ہوں،پروگرام کے مطابق ۲۶جولائی کو دل کا یہ مرحلہ طے ہو گا۔دعا میں یاد رکھیے گا۔