امریکہ میں مقیم ریحانہ قمر کا بہت چرچا سننے میں آرہا تھا۔ان سے رابطہ ہوا تو ادبی حوالے کے علاوہ ذاتی طور بھی اچھا لگا۔میں نے ان کے ساتھ جرمنی میں ایک تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ان کی کتاب”ہم پھر نہ ملیں شاید“ ملی تو پڑھ کر حیرت ہوئی کہ یہ تو پروین شاکر سے آگے کی کوئی شاعرہ ہیں۔جرمنی میں آئیں ،تقریب ہوئی،رونق میلہ رہا۔۔۔۔بعد میں میری زندگی کی یہ ایک ادبی غلطی ثابت ہوئی۔جب میں ان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کر رہا تھا مجھے امریکہ سے افتخار نسیم نے ایک دو بار بتایا کہ یہ خود نہیں لکھتیں بلکہ لاہور میں عباس تابش انہیں لکھ کر دیتے ہیں۔میں ان کی بات نہیں مانا تو افتخار نسیم نے اتناکہا دیکھ لینا بعد میں جب اصلیت سامنے آگئی تو خود ہی پچھتاؤگے۔اس بات کے معاملہ میں افتخار نسیم ولی ثابت ہوئے۔ان کی بات سچ نکلی۔ بعد میں اصلیت کھل گئی۔جرمنی میں قیام کے دوران انہوں نے مجھ سے صرف ایک شاعر کے بارے میں فرمائش کی کہ اس کے اعزاز میں ایک تقریب جرمنی میں کرادوں ۔اس کے لئے پانچ سو ڈالر کی رقم دینے کی پیش کش بھی از خود کر دی۔(میں نے موقعہ پر ہی معذرت کر لی کہ اب ایسی تقریب کرانا مشکل ہے)۔پھر بھی انہوں نے غور کرنے کے لئے کہا۔میں نے بعد میں غور ضرور کیا لیکن اس بات پر کہ ریحانہ قمرنے صرف عباس تابش کے لئے ہی کیوں کہا؟
ایک اور بات جو مجھے کھٹکنے لگی۔۔۔جرمنی میں قیام کے پورے عرصہ میں بھی اور اپنے طویل دورانیہ کے ٹیلی فونز پر ہونے والی گفتگو کے دوران بھی انہوں نے کبھی ادب کی صورتحال پر کوئی گفتگو نہیں کی۔ادبی اشوزکا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔بس اپنی غزلیں سنا دیاکرتیں یا پھر دوسری گپ شپ۔میں ان کی غزل سنتے ہوئے پیچیدہ بحر کے باعث رُک رُک جاتا ۔اتنی عروضی مہارت پر حیرت ہوتی۔اسی دوران میں نے ان کی ایک زمین میں غزل کہی۔ان کی چار اشعار کی غزل ان کے شعری مجموعہ”ہم پھر نہ ملیں شاید“میں شامل تھی۔میں نے اس زمین میںآٹھ شعر کہے۔میں عام طور پر جن بحورمیں شعر کہتا ہوں یہ ان سے بالکل مختلف تھی اور سچی بات ہے اس بحر میں شعر کہتے ہوئے میں جیسے پسینے پسینے ہو گیا لیکن میں نے سارے کے سارے اچھے شعر نکالے۔
جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے تری چاہت میں مر جانا ضروری ہو گیا ہے
درختوں پر پرندے لَوٹ آنا چاہتے ہیں خزاں رُت کا گزر جانا ضروری ہو گیا ہے
نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اس دل پہ حیدر پرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا ہے
جب یہ غزل محترمہ کو سنائی تو انہوں نے اسے اتنا رواروی سے لیا کہ میں حیران رہ گیا۔جس نے خود اس بحر کو نبھایا ہو اُس کی تودوسرے کے ہر شعر کے ایک ایک لفظ پر نظر ہوتی ہے کہ اس نے کیسے اسے ادا کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہی غزل میں نے عباس تابش کو سنائی ہوتی تو وہ اس کے معائب اور محاسن کو ساتھ ساتھ دیکھتے جاتے۔شاعر اور غیر شاعر کے فرق کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب مجھے عباس تابش کا شعری مجموعہ”چاند کسی سے مت کہنا“مل گیا۔قطع نظر اس سے کہ ریحانہ قمر کے نام کے قمر اور عباس تابش کے مجموعہ کے چاند میں کسی روحانی نسبت کا اشارہ تو نہیں ہے ؟، مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ عباس تابش کی پسندیدہ بحور (جو میرے لئے کافی مشکل بحور ہیں۔شاید ہر شاعر کے اپنے مزاج سے ان بحور کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے)اور ریحانہ قمر کی بحور اصل میں دونوں ایک ہیں۔مجھے یاد آرہا ہے کہ انہیں دنوں میں غالباً لاہور کی کسی تقریب کی رپورٹنگ میں یہ بات آئی کہ ریحانہ قمر کی شاعری میں نسائیت ملتی ہے۔اور افتخار نسیم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہم نہ کہتے تھے کہ عباس تابش کی شاعری میں نسائیت پائی جاتی ہے۔
انہیں دنوں میں لالی چودھری کا ایک خط تخلیق لاہور میں شائع ہوا۔اس میں نام لئے بغیر بتایا گیا تھا کہ ایک شاعر نے ایک بھری محفل میں خود بتایا کہ مجھے فلاں خاتون نے اتنے ڈالرز دئیے ہیں کہ میرے لئے شاعری لکھو بھی اور اسے کتابی صورت میں چھپوا بھی دو ۔ میں نے ان شاعر اور شاعرہ کے بارے میں لالی چودھری اور نیر جہاں دو ذرائع سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ ”شاعرہ“ ریحانہ قمرہیں اور جس پاکستانی شاعر نے انکشاف کیا وہ عباس تابش ہیں۔نیر جہاں نے تو یہ بھی بتایا کہ جب میں نے عباس تابش کو اس ادبی بد دیانتی سے روکنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا توریحانہ کسی اور شاعر سے یہی کام کرا لے گی۔اس لئے مجھے ہی چار پیسے کما لینے دیں۔اور اب تو صرف عباس تابش ہی نہیں ہمارے ادب کے کتنے ہیں اچھے اور شاندار شعراءاس بُرے کام میں لگ گئے ہیں۔اور مغربی دنیا میں اردو کی نئی بستیاں زیادہ تر اسی طرح بسی ہوئی ہیں۔جو گنتی کے چند اچھے اورجینوئن لکھنے
والے ہیں وہ ایسی بستیوں سے پرے اپنی ذات کے ویرانوں میں ادبی مراقبہ کر رہے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر جب واضح ہوگیا کہ محترمہ خود شعر نہیں کہتیں تب میں نے انہیں کہہ دیا کہ آپ کو یا تو اپنی ہی بحور میں موقعہ پر قافیہ ردیف کی تبدیلی کے ساتھ وزن میں شعر کہنے کے ٹیسٹ سے گزر نا چاہئے یا پھر دوسروںسے لکھوا کر کتابیں چھپوانے کا سلسلہ بند کرنا چاہئے ۔ساتھ ہی میں نے کہا کہ میں نے آپ کے بارے میں جو مضمون پڑھا تھا اسے کہیں نہیں چھپوائیے وگرنہ مجھے معذرت کے ساتھ اعلان کرنا پڑے گا کہ اسے اب ترمیم کے ساتھ اصل شاعر عباس تابش کی شاعری پر میرا مضمون شمار کیا جائے۔مغربی ممالک میں شاعر بن جانے والے بہت سارے شعرا اسی طرح کے ہیں۔اس المیہ کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ ایک تو یہاں اصل اور نقل کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ دوسرے سارے جعلی شعراءاپنے مالی وسائل کے بل پر اپنے ”شاعر گروں“اور دوسرے چاہنے والوں کے ذریعے پھر خود اوریجنل شعراءکے خلاف گند اچھالنا شروع کر دیتے ہیں۔مسئلے کا آسان حل یہی ہے کہ جو لوگ مغربی دنیا میں بس جانے کے بعد ادھیڑ عمر میں جا کر یکایک شاعر بن گئے ہیں ان سب کا پاکستان اور انڈیا میں جانے پر ایک ٹیسٹ لیا جائے جس میں صرف اتنا دیکھا جائے کہ یہ وزن میں شعر کہہ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب ادب سے متعلق سرکاری اداروں میں بھی ایسے جعلی شعرا کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہونے لگی ہے۔یوں مختلف حکومتی شعبوں میں کرپشن کی جو داستانیں گزشتہ نصف صدی سے بنتی آرہی ہیں ان کی طرح اب ادب کے حکومتی شعبہ میں بھی ایسی کرپشن پھیلتی جائے گی۔ ریحانہ قمر اگر واقعی خود شعر کہتی ہیں اور ان کا اوریجنل شاعرہ ہونا ثابت ہوجائے تو میں نہایت شرمندگی کے ساتھ ان سے معافی مانگ لوں گا۔لیکن جو موجودہ صورت ہے اس کے مطابق وہ قطعاً شاعرہ نہیں ہیں اور انہیں ان بحور میں تو شعر کہنے کا پتہ ہی نہیں جو اِن کے شعری مجموعوں میں شامل ہیں۔ریحانہ قمر کے اس ذکر میں ان تمام شاعرات کو شمار کر لیا جائے جو جرمنی،انگلینڈ،ڈنمارک،امریکہ اور کینیڈا میں انہیں کی طرح دوسروں سے لکھوا کریا پھر بے وزن ،شعری مجموعے چھپوا چکی ہیں یا چھپوارہی ہیں۔
(کھٹی میٹھی یادوں کے باب”۔۔۔ادبی کائنات میں رنگ“ سے اقتباس)