ڈاکٹر ستیہ پال آنند اردو نظم کے حوالے سے ایک اہم نام سمجھا جاتا ہے۔ان کی بنیادی شناخت نظم کے حوالے سے ہی ہوتی ہے۔لیکن ان کی ادبی شخصیت کا ایک مخفی گوشہ حال ہی میں کھل کر سامنے آیا ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ سے تھوڑی تھوڑی افسانہ نگاری بھی کرتے رہے ہیں۔۱۹۴۹ءسے لے کر ۲۰۰۸ءتک انہوں نے جو افسانے لکھے،ان کا ایک انتخاب انہوں نے عمدگی کے ساتھ ادبی دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔”میرے منتخب افسانے“ کے نام سے چھپنے والے اس افسانوی انتخاب میں بائیس افسانے شامل کیے گئے ہیں۔
ابتدائی افسانوں میں ہندوستانی فضا کے ملے جلے موضوعات کے افسانے شامل ہیں تو بعد میں مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والی کہانیاں بھی شامل ہوتی گئی ہیں۔اپنی بدلتی ہوئی فضاکے اعتبار سے یہ ستیہ پال آنندکی ہجرت درہجرت کی کہانیاں ہیں۔پاکستان سے انڈیا اور انڈیا سے امریکہ و کینیڈا۔اپنی نظموں کے برعکس ستیہ پال آنند کی کہانیاں جدیدطرز میں نہیں لکھی گئیں،یہ عجیب سی بات لگتی ہے کیونکہ نظم نگاری میں ان کا طرزِ احساس جدیدتر ہے۔تاہم ان افسانوں کو پڑھنے کے بعد شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ایسی کہانیوں کو ایسے ہی لکھا جانا چاہیے تھا۔اپنے افسانوں میں یہ انداز اختیار کرکے ستیہ پال آنند بحیثیت افسانہ نگار کامیاب رہے ہیں۔
ان کا پہلاافسانہ”میرا نام انجم ہے“کسی طرح بھی منٹو کے ”کھول دو“سے کم معیار کا نہیں ہے۔تقسیمِ برصغیر کے موقعہ پر ہونے والے فسادات پر کئی اعلیٰ پائے کی کہانیاں لکھی گئی تھیں۔یہ کہانی بھی اعلیٰ پائے کی ہے اور ۱۹۴۹ءمیں لکھے جانے کے باوجود اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا جاناادبی زیادتی ہے۔
ستیہ پال آنند کے پاس اپنی کہانیوں کے لیے نہ تو موضوعات کی کمی ہے اور نہ کرداروں کی۔واقعات کے تسلسل میں بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی انہیں آتا ہے ”زود پشیماں“کے بوڑھے ہوں یا ”چیچوکی ملیاں کی شہزادی“کے پاگل،لال بادشاہ اور من بہادرکے بھولے اور کھرے کردار ہوں یا ”پتھر کی صلیب“کا مصور،ستیہ پال آنند اپنے کرداروں کو ابھارنے میں کامیاب رہے ہیں۔اگر نظم نگار ستیہ پال آنندکو بلاوجہ درمیان میں لانے کی کوشش نہ کی جائے تو افسانہ نگار ستیہ پال آنند کی اہمیت سے انکار کرنا مشکل ہو گا۔
(مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی۔شمارہ :یکم ستمبر۲۰۱۰ء
جدید ادب جرمنی ۔ شمارہ ۱۶،جنوری ۲۰۱۱ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔