ڈاکٹر ستیہ پال آنند سے میرا تعلق لاگ اور لگاؤدونوںطرح کا ہے۔ادبی رسائل میں تو انہیں ایک عرصہ سے پڑھ رہا تھا لیکن ان سے ادبی ربط میں اس وقت غائبانہ گہرائی آئی جب ان کے دو مختلف رویوں نے توجہ کھینچی۔پہلا رویہ لاگ کا تھا۔ستیہ پال آنند نظمیں کہتے ہیں لیکن غزل کو ہدفِ تنقید بنائے رکھتے ہیں۔اس لاگ میں لگاؤکا پہلو یوں ہے کہ غزل میں پیش پا افتادہ مضامین کی تکرارسے بچنے بچانے کے لیے ایسی تنقید ہوتی رہنی چاہیے تاکہ غزل میں صحت مند بہتری آسکے۔تاہم بنیادی مسئلہ لاگ والا ہی تھا کہ ستیہ پال آنند کمزور یا بری غزل لکھنے والوں سے تنگ آکر پوری اردو غزل ہی کو دریا برد کرنے پر تلے رہتے ہیں۔یہ رویہ غزل کے تاریخی اور مضبوط ترین ادبی کردار کے معترفین کے لیے بہر حال افسوسناک ہے۔دوسرا رویہ ان کا ایک معرکتہ الآراءمضمون تھا جو دہلی کے ایک ادبی رسالہ میں شائع ہوا تھا۔اس میں ستیہ پال آنند نے مغربی دنیا میں مشاعروں کی منفی صورتحال کو اجا گر کرنے کے ساتھ سُراور ناز و ادا کے ساتھ کلام سنانے والی”شاعرات“ کے لیے ”مجرا“جیسا لفظ بھی استعمال کیا تھا اور مغربی دنیا کی ادبی تقریبات میں شرکت کرنے والوں کے بارے میں اعداد و شمار کے ساتھ حقائق بیان کیے تھے۔ شرکاءکی بھاری اکثریت علمی و ادبی معلومات نہیں رکھتی تھی۔ ستیہ پال آنند کی پیش کردہ بہت ساری مثالوں میں سے صرف ایک مثال یہاں دوں گا کہ کشور ناہید کے بارے میں پوچھے جانے پر ”ادب کا ذوق رکھنے والے“ شرکاءنے انہیں گلوکارہ قرار دیا(یعنی کشور ناہید کے نام سے گلوکارہ ناہید اخترکے نام کے مغالطہ کا شکار ہوئے)۔یہ ہمارے گہرے لگاؤکی بات تھی۔لیکن ستیہ پال آنند نے اس میں لاگ نمایاں کر دیا۔میں آج تک ستیہ پال آنند والے اُسی موقف پر قائم ہوں اور اس کے لیے زیادہ تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں،جسے میں نے ستیہ پال آنندسے سیکھا تھا لیکن ستیہ پال آنند اپنے اس موقف سے عملی طور پر منحرف ہو چکے ہیں۔ احمد فراز اور دوسرے پاپولر شعراءپر ستیہ پال آنند ہمیشہ یہ اعتراض کرتے رہے کہ وہ ادب سے بالکل بے بہرہ خواتین کے جمگھٹے میں گھرے رہنے کو اپنی ادبی مقبولیت شمار کرتے ہیں۔لیکن افسوس کہ کہیں انہیں احمد فراز جیسے انداز کی سو فی صد نہ سہی پانچ سات فی صد بھی ایسی سہولت میسر آئی تو آپ بھی ویسے ہی اسے ادب کی ترویج اور اپنی ادبی مقبولیت شمار کرنے لگے۔ اور آپ کا لکھا ہوا سارا حق،سچ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ایک طرف عمدہ غزل کہنے والوں کو بھی غزل کے شاعر شمار کرکے ان کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو دوسری طرف بالکل بے وزن شاعرات کی غزلوں پر نہ صرف اصلاح دی جاتی ہے بلکہ کتاب کی اشاعت کے بغیر کتاب کی جعلی تقریب رونمائی جان بوجھ کر کرتے ہیں۔یہ صرف ایک مثال ہے جس کا میں اشارا دے رہا ہوں۔تاہم میں نے جس لاگ اور لگاؤکی بات کی ہے وہ کسی ایک واقعہ سے منسلک نہیں ہے بلکہ میرا لکھا ہوا ایک عرصہ سے آن ریکارڈآرہا ہے۔بطور ثبوت چند خاص مثالیں پیش ہیں
٭ میرا مضمون ”غزل بمقابلہ نظم“سہ ماہی شعرو سخن مانسہرہ کے غزل نمبر میں شائع ہوا تھا (۱)۔اس مضمون میں ستیہ پال آنند کے ماہنامہ شاعر ممبئی میں چھپے ایک مضمون کا مدلل جواب دیا گیا تھااور براہِ راست ستیہ پال آنندکا نام بھی نہیں لیا گیا تھالیکن روئے سخن از خود ظاہر تھا۔
اس کے علاوہ میری چند اور تحریروں میں یہ لاگ اور لگاؤان کے نام کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے۔چند اقتباسات حوالوں کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
٭ ”ان دنوں میں ستیہ پال آنند غزل کی مخالفت میں کھاتے کھتونیاں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔غزل کا سب سے بڑا عیب اور کمال یہ ہے کہ اس میں کسی کے خیال سے استفادہ کرنے والا یا سرقہ کرنے والا چھپ نہیں سکتا۔جبکہ نظم اور خاص طور پرجدید تر نظم میں اتنا گورکھ دھندا ہوتا ہے کہ عام طور پر نظم نگار کی کاری گری کی طرف دھیان ہی نہیں جا پاتا۔چونکہ جناب ستیہ پال آنند غزل کی مخالفت کرکے اپنی نظمیں کہہ رہے ہیں اس لیے ان کی ایک نظم اور ڈاکٹر وزیر آغا کی ایک نظم کے چند اقتباس بطور ایکسرے رپورٹ پیشِ خدمت ہیں:
ستیہ پال آنند کی نظم ”دھرتی پران“
(مطبوعہ :ماہنامہ کتاب نما نئی دہلی۔شمارہ جون ۱۹۹۹ء)
چاند کی بڑھیا اونگھ گئی کچھ دیر کو،لیکن جب جاگی تو اس نے دیکھا،دھرتی بالکل بدل گئی تھی۔۔۔۔سبز گھنے جنگل،نیلے ساگر،ندیاں نالے،جھیلیں،برفانی تودے،جھر جھر کرتے فواروں سے ابل ابل کر گرتے جھرنے،گھاس ،جھاڑیاں،دور تلک پھیلے میدانوں میں چرتے آزاد مویشی،پنکھ پکھیرو اور دو پائے،چونک گئی کچھ،کچھ گھبرائی چاند کی بڑھیا!۔۔۔وہ آڑی ترچھی ،بے ہنگم سی ریکھائیں،جو دھرتی کے بیٹے مل کر سرحد سرحد کھینچ رہے تھے۔دھرتی کے سینے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بانٹ رہے تھے۔۔۔۔بڑے بڑے ٹکڑے دھرتی کے،جن میں لاکھوں لوگ،قبیلے،نسل،رنگ اور قومیت کی بنیادوں پر اپنی ماں کو بانٹ رہے تھے۔۔۔۔۔یہ کیسا طوفان تھا ،جو اک چھتری کی مانند ہوا میںاونچا اُٹھتا،کھنب کی صورت دھرتی کے سینے سے اُبھرتا،شعلوں میں ملبوس کسی راون سا جلتا،میلوں اونچا،دور خلا تک اس کی جانب لپک رہا تھا!
ڈاکٹر وزیر آغا کی نظم”اک کتھا انوکھی“(مطبوعہ ۱۹۹۰ء)
اک جنگل تھا گھنی گھنیری جھاڑیوں والابہت پرانا جنگلجس کے اندر اک کُٹیا میںاپنے بدن کی چھال میںلپٹا اپنی کھال کے اندرگم صُمجانے کب سیکتنے جگوں سےپھٹے پرانے چوغے پہنیوہ اک خستہ بیج کی صورتبے سُدھبے آواز پڑا تھا!۔۔۔۔”اب تو اُٹھ جاآخری جُگ بھی بیت چکاسورج میں کالک اُگ آئیچاند کا ہالہ ٹوٹ گیادیکھ کہ گھاس جلی جھلسی ہیندیوں میں جل سوکھ گیا۔۔۔ ۔ اُس کے لب پرجاگ اُٹھی مُسکان رَسیلی بوجھل پلکوں کی درزوں سیجھانکااُس کے من کا اُجالااُس نے جیسیکروٹ لی ہیاور پوچھا ہے:کہاں ہوں میں ؟ کیا سَمے ہوا ہے؟؟۔۔۔۔یہ سب نسلی پاگل پن کی رکھشا میں ہیں!ساگر جس نے ان کیڑوں کو جنم دیا تھااب اک گندا جوہڑ بن کران کے اندر کے جوہڑ سیان ملا ہیساگر کا اپمان ہوا ہیساگر ماں ہےماں ہتھیااس کلجگ کا ایمان ہوا ہے!۔۔۔اور اب۔۔یہ سبگندے کیڑے جنگل پر بھی جھپٹ پڑے ہیںجنگل جس نے کتنا ان سے پیار کیا تھا۔۔۔۔آج وہی طوفان نئے انداز میں ہم پر ٹوٹ پڑا ہیلیکن اب کی بار یہ طوفاںاگنی کا ہیجلے ہوئے کیسرکے ڈنٹھلشعلوں کے گردابہوا کا شورگھنے بادل کے تن پردھڑ دھڑ پڑتیاگ کے دُرّیایک عجب کہرام بپا ہے۔۔۔۔
وزیر آغا نے انسان کے اندر اور باہر کو دو کردار بنا کر بات کی تھی،آنند صاحب نے چاند کی بڑھیا کو بیچ میں ڈال دیا ہے۔آنند صاحب کی اس نظم کے مزید ایکسرے بھی لیے جا سکتے ہیں لیکن پہلے اس ایکسرے سے تشخیص ہو جائے“ (ادبی خبرنامہ ”اردودنیا“جرمنی شمارہ نومبر ۱۹۹۹ء)
یہ ویسا ہی توارد ہے جیسا غزل کے مضامین میں پیدا ہوتا رہتا ہے۔مزید ایکسرے کی صورت میں مزید مثالیں بھی سامنے لائی جا سکتی ہیں۔
٭ ” اسی شمارہ میں (اوراق شمارہ جولائی اگست ۱۹۹۹ءمیں) علی محمد فرشی کے ماہیا نما ثلاثی کے مجموعہ ”دکھ لال پرندہ ہے“ پر ستیہ پال آنند کا مضمون شائع ہوا۔اردو ماہیے کی تحریک کے نتیجہ میں اب اگر مہاراشٹر، بہار یا راجستھان کے کسی ادیب سے بھی پوچھا جائے تو وہ پنجابی ماہیے کے بارے میں اتنی بات تو آسانی سے بتا دے گا کہ پنجابی ماہیے میں عمومی طور پر عورت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اسی بنیاد پر میں نے اپنی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ میں اس کے سرے ہندی گیت کی قدیم روایت سے بھی جوڑے تھے لیکن ستیہ پال آنند نے اپنے مضمون میں اسے ہندی گیت کی ”روایت کے برعکس“ لکھتے ہوئے ”مرد کی طرز سخن“ قرار دیا ہے جو علمی لحاظ سے حیران کن بات ہے۔“
مضمون”اوراق اور ماہیا“(مطبوعہ ”اوراق“ لاہور خاص نمبر، جنوری ۔ فروری 2000ء)
٭ ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں(تجزیاتی مطالعہ) مرتّب:بلراج کومل
صفحات:256 قیمت:180 روپے ناشر:پبلشرز اینڈ ایڈور ٹائزرز،دہلی
” جدید نظموں کے مطالعہ کا رواج جدیدتنقید کے زیرِ اثر شروع ہوا تھا۔قارئین کو نظم کی سمجھ نہیں آتی تھی سو اس مطالعاتی سلسلہ نے قاری کے لیے کچھ سہولت پیدا کر دی اور نکتہ آفرینی کی صورت بھی بن گئی۔مابعد جدیدیت نے اس نکتہ آفرینی کو رومال یا ٹوپی میں سے کبوتر نکال کر دکھانے کا کھیل بنا دیا۔اب مابعد جدیدیت کا گوپی چندنارنگ کے ہاتھوں جو انجام ہو چکاوہ علمی سطح پر عبرت کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔(مجلسی سطح پر نارنگ صاحب جتنا چاہے اپنا جی بہلا لیں،پر جتنا ہو چکا،بڑا عبرتناک ہے )میراجی اور راشد کے زمانے کے بعدسے اب تک جدیدنظم فہمی کا سلسلہ اتنا ہو جانا چاہیے تھا کہ نظم کا قاری خود اس سے لطف اندوز ہو سکے۔لیکن نظم کے تجز یاتی مطالعہ کے نام پر مضامین کا جوسلسلہ جاری ہے اس سے ایسا لگتا ہے جیسے نظم کے ساتھ ’ترکیب استعمال‘کا پرچہ لف کیا جا رہا ہو۔میں نے ستیہ پال آنند کی تیس نظموں کو پڑھ کر زیادہ لطف اُٹھایا ہے اور یہ نظمیں ایسی ہیں کہ نظم کے قاری کے لیے غیر ضروری مشکل پیدا نہیں کرتیں۔جن دوستوں نے نظموں کا تجزیہمطالعہ کیا ہے ان کاستیہ پال آنند کے تئیں اخلاص بر حق ہے لیکن شاید یہ دوسرے قارئین کی آزاداقرأت میں روک بھی پیدا کرتے ہیں۔بہر حال جو کام خلوص سے کیا جائے اس کی قدر کی جانی چاہیے،بس اس بنیاد پر ایسے تجزیاتی مطالعات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ یہ کتاب ستیہ پال آنند کی نظموںکی تفہیم میں عام قارئین کے لیے کسی نہ کسی طور ممدو معاون ثابت ہو گی۔(جدید ادب جرمنی۔جنوری تا جون ۲۰۰۹ء۔شمارہ نمبر ۱۲)
میرے اس انداز کے کھلے تبصروں پر ڈاکٹر ستیہ پال آنندنے کبھی قطع تعلق نہیں کیا۔ بلکہ ایسا لکھنے پر ہر بار رابطہ بحال رکھا۔اپنی تخلیقات سے نوازتے رہے۔جب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقات کی بات چلی تو اس بحث میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا عمومی رویہ ہماری حوصلہ افزائی کرنے والا تھا لیکن پھر پتہ نہیں کس مجبوری کے تحت یا کس کے اشارے پر انہوں نے اس پنگے میں ٹانگ پھنسا لی۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی اس بحث کی زد میں آگئے۔مجھے ستیہ پال آنند کی ایک مجبوری کا علم ہوا تو میں نے صرف سرقہ والے معاملہ کے اخلاقی حوالے تک ان کی گرفت کی لیکن ان کی مجبوری والے پہلو کوجاننے کے بعد خاموش رہنا مناسب سمجھا۔اس اشو کی آن ریکارڈباتیں مضمون”ڈاکٹر نارنگ کے سرقوں کے دفاع کی مہم۔اتفاقیہ یا منصوبہ بند کاروائی ؟ ‘ ‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔(۲)
٭ ”اس سال فروری کے مہینے میں امریکہ سے ستیہ پال آنند کی ای میل آئی کہ میں یورپ کا سفرکرنے والا ہوں۔ان کے ساتھ گزشتہ برس ایک علمی مجادلہ میں ہلکی سی تلخی ہوئی تھی۔میں نے جوابی کاروائی میں ان کی متعلقہ ای میلز شائع کرکے انہیں علمی و اخلاقی دونوں سطح پر خاموش کر دیا تھا۔یہ ساری روداد میری کتاب”ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت“میں محفوظ ہے۔اس سب کچھ کے باوجود ان کی ای میل آئی تو کچھ اچھا سا لگا۔سو میں نے انہیں لکھا کہ جب یورپ آرہے ہیں تو جرمنی سے بھی ہوتے جائیے۔ڈاکٹر آنند فوراً راضی ہو گئے۔ مجلسی سرگرمیوں سے تمام تر بے رغبتی کے باوجوداب مجھے ایک تقریب کا اہتمام تو کرنا تھا۔۔۔۔ چنانچہ ۲۴مارچ کو ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈکی زیر صدارت ڈاکٹر آنند کے اعزاز میں تقریب کامیابی کے ساتھ ہو گئی۔تقریب کے بعد ڈاکٹر آنند کوئی رسمی شکریہ کہنا تو کجا،مجھے خداحافظ کہے بغیرروانہ ہو گئے۔اگلے روز انہوں نے ہمبرگ میں کسی خاتون کی شاعری کی ایسی کتاب کی تقریب رونمائی کرنی تھی جو شائع ہی نہیں ہوئی تھی۔۲۳مارچ کی رات جب ڈاکٹر آنند میرے ہاں مقیم تھے وہ دیر تک اس خاتون کی شاعری کے مسودے پر اصلاح کا نیک فریضہ انجام دیتے رہے تھے۔ میں نے تب ہی انہیں دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اگر وہ کتاب کی اشاعت کے بغیر رونمائی کے ڈرامہ میں شریک ہوئے تو وہ ایک ادبی جرم کے مرتکب ہوں گے۔ لیکن انہیں اس تقریب میں شرکت کی جلدی تھی سو ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی تقریب سے فارغ ہوتے ہی ملے بغیر چلے گئے ۔ امریکہ واپس پہنچنے کے بعد بھی ان کی طرف سے کوئی رسمی ای میل تک نہیں ملی۔ شاید یہ ادبی تہذیب کا کوئی مابعد جدید رویہ ہو۔“
(یادوں کا باب”زندگی در زندگی“از حیدر قریشی۔۔۔مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۱۲۔ اگست ۲۰۱۰ء۔۔۔۔۔جدیدادب جرمنی شمارہ نمبر۱۶۔جنوری ۲۰۱۱ء)
یہ سارے حوالہ جات ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے ساتھ میرے لاگ اور لگاؤدونوں کا ثبوت ہیں۔ایسا لاگ اور ایسا لگاؤجس میں دو دہائیوں سے ایک تسلسل موجود ہے۔
انہوں نے ایک بار مجھے اپنی ایک پرانی غزل عنایت کی تھی۔
بھرے پرے میلے میں گئے تھے کس کے سہارے بھول گئے
کس کی انگلی مٹھی میں تھی ہم بے چارے بھول گئے
ہر چند اس غزل کو پڑھتے ہی میرا جی کی غزل” نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا“ یاد آتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ ستیہ پال آنند نے غزل کی مخالفت کرنے کا رستہ اختیار کرنے کی بجائے اپنی غزل کے سفر کو جاری رکھا ہوتا تو شاید غزل کے وہ امکانات کھل کر سامنے آجاتے جو میرا جی کی غزل میں موجود تھے لیکن ان کی غزل سے عدم توجہی کے باعث کھل کر سامنے نہ آسکے۔ بلاشبہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند جدید نظم کے ایک عمدہ شاعر ہیں۔ان کے افسانے ایک عرصہ سے چھپ رہے ہیںلیکن ناقدین قارئین نے افسانوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی۔حال ہی میں ان کے افسانوں کا ایک انتخاب ”میرے منتخب افسانے“کے نام سے شائع ہوا ہے۔یہ افسانے ۱۹۴۹ءسے لکھے جا رہے تھے،سو اپنے اسلوب کے اعتبار سے ان پر اُس زمانے کی چھاپ کا ہونا لازم تھا۔ڈاکٹر آنند کے افسانے سادہ بیانیہ پر مشتمل ہیں تاہم ان میں سے بعض افسانے بے حد پُر تاثیر ہیں۔”میرا نام انجم ہے“تو ایسا زبردست افسانہ ہے جسے منٹو کے ”کھول دو“ کے برابر رکھا جانا چاہیے۔ان کے افسانوں میں ایک کمی کا احساس ہوتا ہے کہ وہ جیسے تدریجاً جدید نظم کی طرف آتے گئے اس طرح جدید افسانے کی طرف نہیں آ سکے ۔ تجرباتی طور پر سہی ان کے دو چار افسانے تو ایسے ہونے چاہئیں تھے۔سو ایک ہی تخلیق کار کے ہاںنظم اور افسانے میں جدید اور روایتی بیانیہ کا جو گہرا فرق ہے،وہ بہر حال کھلتا ہے۔اس کے باوجود بحیثیت تخلیق کار ڈاکٹر ستیہ پال آنند ایک عمدہ تخلیق کار ہیں۔میں ان کی تخلیقی کامیابیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
ادبی دنیا میں اصولوں کے نام پر کہنا کچھ اور کرنا کچھ۔۔۔ان کی انسانی کمزوریاں ہیں۔تاہم مجھے خوشی ہے کہ وہ مشاعرہ بازی، تقریباتی رنگ بازی اور ادب میں(متشاعر ٹائپ) خواتین کے کردار کے حوالے سے اپنی بیان کردہ جن باتوں کو چھوڑ گئے ہیں ،میں آج بھی اُن پر قائم ہوں۔اور ان کے مضمون کے ذریعے ان کا سکھایا ہوا سبق آج خود انہیں یاد دلا رہا ہوں!
لیکن ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنی لکھی باتیں بھُولے نہیں ہیں،جنہیں سب کچھ یاد ہو انہیں یاد دلانے کا فائدہ ؟ ۔۔۔۔یاد دلانے کا کوئی فائدہ نہیں تو کچھ احساس ہی دلا دیا جائے۔
یہ مضمون احساس دلانے کی ایک کاوش ہے۔
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے تری بات!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مطبوعہ روزنامہ ہمارا مقصد دہلی شمارہ:۶ستمبر۲۰۱۰ء)