۲۰۱۱ءکا سال فیض احمد فیض کے نام سے منسوب کیا گیا۔فیض صدی کی مناسبت سے یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔اب سال ۲۰۱۲ءمیں ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتانے اسی تسلسل میں سیمینار کا انعقاد کرکے فیض صدی کومزید بامعنی کرنے کی کاوش کی ہے۔آج کے سیمینار میں گزرے سال کی فیض فہمی کو ایک نظر دیکھتے ہوئے مزید آگے کی طرف دیکھاجا سکتا ہے۔ گزشتہ برس فیض صاحب کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ان کے فن کے حوالے سے بھی خوبصورت باتیں کی گئیں اور ان کی فیض رساں شخصیت کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔فیض صاحب کی شاعری میں ترقی پسند روایت کے مطابق مزدور، کسان اور کچلے ہوئے طبقات کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے ساتھ انسان دوستی کی روایت بھی ملتی ہے۔انہیں شعوری طور پر مارکسی اور غیر شعوری طور پررومانوی بھی کہا گیا اور ان کے ہاں انجماد کو بھی نشان زد کیا گیا۔یہ حقیقت ہے کہ فیض صاحب آخر دم تک اپنے مارکسی نظریات پر کاربند رہے لیکن اسی کے دوش بدوش ان کی شخصیت میں صوفیانہ مزاج بھی دریافت کیا گیاجو ظاہر ہے ان کی انسان دوستی کے تناظر میں دیکھا گیا۔فیض صاحب کے ہاںمعاشرتی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ظلم،جبر اور نا انصافی کے خلاف دھیمی آنچ جیسے دھیمے احتجاج کی بھی تعریف کی گئی تو فیض صاحب میں جمالیاتی اقدار کی پاسداری کو بھی تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔ان کی زندگی کے بعض نسبتاً مخفی گوشے بھی تھوڑا بہت سامنے آئے۔فیض صاحب نے ایک زمانہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے کوشش کی تھی۔ان کے تیار کردہ سناپسز کا ریکارڈ بھی منظر عام پر آیا۔ اسے بلا شبہ تبرکات فیض میں شمار کیا جانا چاہیے۔فیض صاحب غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے تھے، آزادی کے بعد جب کبھی انگلینڈ میں اپنے پرانے باس کو ملنے جاتے تو فوجی وردی پہن کر جاتے۔دوسری طرف بہت زیادہ مشہور واقعہ فوجی بغاوت کا راولپنڈی سازش کیس ۔ ۔۔اس ناکام انقلاب میں فیض صاحب کا کیا اور کتنا کردار تھا،اس کا بھی انقلابی انداز میں ذکر رہا۔ کولکاتاکے ساتھ فیض صاحب کا تعلق مغربی بنگال کی مقتدر سیاسی جماعت سے نظریاتی ہم آہنگی کی حد سے کچھ آگے تھا۔فیض صاحب کو پاکستان سے نکلنا پڑا تو انہوں نے کولکاتا میں پروفیسر شپ کے حصول کے لئے کوشش کی۔اسے کولکاتا والوں نے اپنے لئے اعزاز جانا۔کولکاتا یونیورسٹی میں اقبال چئیر قائم کی جا رہی تھی،فیض صاحب کو اس کا پروفیسر بنانا طے ہوا۔ جیوتی باسو کے ساتھ اس حوالے سے کوئی رابطہ بھی ہوا۔لیکن پھر فیض صاحب کو بیروت میں فلسطینی کاز کو تقویت دینے والے رسالہ ”لوٹس“کی ادارت کی پیش کش ہو گئی اور وہ وہاں چلے گئے۔”لوٹس“کے فنڈز بند ہوئے تو رسالہ بھی بند ہو گیا اور فیض صاحب پاکستان واپس چلے گئے۔پاکستان واپسی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی فیض صاحب وفات پا گئے۔یہ ساری باتیں اور اسی طرح کی اور باتیں گزشتہ برس کی کتابوں اور مضامین میں سامنے آئیں۔فیض صاحب کی ذاتی و ادبی شخصیت زیادہ خوبصورتی کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی۔
ناقدین کرام کی جانب سے فیض صاحب کے کلام میں شروع میں ابھرنے والی نئی اور انوکھی تشبیہات و علامات کی توصیف کی گئی تو بعد میں ان کے ہاں در آنے والی اس تکرار کی نشان دہی بھی کی گئی کہ جس میں وہ اپنے لکھے کو دہرانے کے ساتھ،ماضی کے اہم اساتذہ کو بھی اپنے کلام میں فراخدلی سے کاماز کے بغیر دہرانے لگے تھے۔فیض صاحب پر بے شمار نیا لکھا گیاتو اس کے ساتھ ان کے بارے میں لکھے گئے پرانے مگر اہم مضامین کو بھی دوبارہ یکجا کرکے شائع کیا گیا۔ فیض صاحب کی شاعری کی تعریف و توصیف میںجو بے شمار لکھا گیا،اس میں چند مستثنیات کو چھوڑ کر زیادہ تر ایک جیسی باتوں کو دہرایا گیا جس نے یکسانیت سی طاری کی۔دراصل فیض صدی کی مناسبت سے بیشتر ایسے لوگوںنے بھی کتابیں لکھ ڈالیں،جن کے پیش نظر فیض صاحب پر کوئی سنجیدہ اور با مقصد کام کرنا نہیں تھا،بلکہ فیض صاحب جیسی فیض رساں شخصیت کی صدی کواپنی ذاتی شہرت کے لئے بیساکھی کے طور پر استعمال کرنا تھا۔چنانچہ ایسے لوگ پورا سال اپنی کتابیں سر پر اٹھائے ہوئے اس طرح خود ہی ان کی تقریبات کراتے رہے کہ لگتا تھا انہوں نے فیض صاحب پر نہیں لکھا بلکہ فیض صاحب نے ان پر کتاب لکھ دی ہے۔اس قسم کے بعض منفی رویوں کے باوجود مجموعی طور پر فیض صاحب کی ترقی پسند شخصیت کی عظمت کا خلوصِ دل کے ساتھ نہ صرف اعتراف کیا گیابلکہ اسے مناسب خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا۔
گزشتہ برس ایک بہت ہی چھوٹا سا کام مجھ سے بھی سرزدہوا۔ میں نے اپنے ایک مضمون”رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم:اصل ترجمہ نگار کون؟“ میں ایک انوکھے توارد کی نشان دہی کی تھی۔فیض احمد فیض کے شعری مجموعہ”سرِ وادیٔسینا“کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھاکہ ”سرِ وادیٔسینا“کے:
” آخر میں ’داغستان کے ملک الشعراءرسول حمزہ کے افکار‘ کے نام سے الگ سیکشن بنا کر ان کی ۹نظموں کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ان میں سے دو نظموں ”آرزو“ اور ”ایک چٹان کے لیے کتبہ“ کوچھوڑ کر باقی سات نظموں کا ترجمہ حیرت انگیز طورپرظ ۔انصاری کے ترجمہ سے لفظ بلفظ ملتا ہے۔ ظ ۔انصاری کی کتاب ”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ کے نام سے دارالاشاعت ماسکو کی جانب سے سال ۱۹۷۴ءمیں شائع ہوئی تھی۔ساتوں نظموں میں سے صرف ایک نظم جس کا عنوان فیض صاحب نے ”بھائی “لکھا ہے، اس نظم کے چوتھے مصرعہ میں ”تن پہ ردائے ماتم“کی جگہ ”تن میں ردائے ماتم“ درج ہے۔ لفظ”میں“ اور” پہ“کے فرق کے علاوہ باقی ساتوں نظمیں لفظ بلفظ ایک جیسی ہیں۔“
یہاں بڑی صراحت کے ساتھ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فیض صاحب کی ادبی عظمت کسی دوسرے شاعر کی نظموں کے ترجمہ نگارہونے کی بنا پر نہیں ہے۔ان کی اپنی پہچان ان کی اپنی شاعری ہے۔تاہم مذکورہ ترجمہ شدہ نظموں کا معاملہ تحقیق طلب ضرور ہے۔میں نے اس سلسلہ میں ماسکو میں اردو کی معروف استاد اور فیض صاحب پر بڑا اہم اور بنیادی نوعیت کا کام کرنے والی ڈاکٹر لدمیلا وسیلئیوا سے رابطہ کیا اور انہیں اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اپنی حیرانی ظاہر کرتے ہوئے میرے نام اپنی ای میل میں لکھا کہ دارالاشاعت ماسکو کے کسی مدیر یا منتظم کی غلطی سے شاید یہ ترجمے دونوں کتابوں میں لگ گئے ہوں۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ:
”پکی بات ہے کہ تراجم فیض صاحب کے ہیں۔اور بے شک ظ انصاری خود فیض کے تراجم پر اپنا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔۔۔۔۔لیکن مجھے بہت حیرت ہے کہ اس بات پر خود ظ صاحب نے شور کیوں نہیں مچایا تھا؟وہ تو اس سے بہت چھوٹی باتوں پر یہاں طوفان برپا کرتے تھے۔ہر صورت میں انہیں یہ کتاب دیر یا سویر ملی ہی تھی اور انہوں نے اس غلطی کو ضرور دیکھا ہو گا۔ہاں میرے لیے یہی ایک پہیلی ہے۔“ (ماسکو سے ڈاکٹر لدمیلا کی ای میل بنا م حیدر قریشی۔۱۷مئی ۲۰۱۱ءسے اقتباس)
یہ پہیلی ابھی تک پہیلی ہے،کیونکہ جہاں فیض صاحب کو کسی کی نظموں کے ترجمے کرکے کوئی اہمیت نہیں حاصل کرنا تھی ایسے ہی ظ انصاری صاحب جیسے ماہر ترجمہ نگار کو بھی فیض صاحب کے تراجم اپنے نام سے چھاپنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ان کے لیے تو ان ساری نظموں کاترجمہ کرلینا ایک دن کا کام تھا۔اگر ڈاکٹر لدمیلا کے حسنِ ظن کے مطابق دارالاشاعت ماسکو کے کسی مدیر یا اشاعتی منتظم سے غلطی ہوئی ہے تو فیض صاحب اور ظ صاحب کی دونوں کتابوں میں ایک جیسے تراجم کے چھپ جانے کے بعد غلطی کا احساس تو ہونا چاہیے تھااور اس کی تلافی اور وضاحت بھی ہو جانا چاہیے تھی۔
” سالِ فیض “کی مناسبت سے بھی اور” فیض صدی“ کے حوالے سے بھی فیضیات سے دلچسپی رکھنے والے محققین اور ناقدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تواردنما غلطی کے سلسلہ میں علمی سطح پر اور سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کریں۔سوویت یونین کے زمانے میں ماسکو کے شعبہ اردوسے تعلق رکھنے والے احباب ابھی زندہ موجود ہیں،ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔ظ۔ انصاری صاحب کے ماسکو میں قیام کے زمانہ کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور یہ خرابی کیسے رونما ہو گئی اس کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔”سرِ وادیٔسینا“ اور ”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ کی اشاعت کے باوجود دونوں طرف خاموشی کیوں رہی اس کا بھی پتہ چلنا چاہیے۔اس کام کے لیے فیض صاحب سے جذباتی محبت کرنے والوں سے زیادہ سنجیدہ تحقیق میں دلچسپی لینے والے ترقی پسند محققین بہتر کام کر سکیں گے اور یہ ان کی علمی و ادبی ذمہ داری ہے۔یہ کام علمی و تحقیقی تقاضوں کے مطابق ہو جائے تو فیض صدی پر موجودیہ علمی و تحقیقی قرض اتر جائے گا۔
فیض صاحب میرے جیسے سینکڑوں ،ہزاروں لکھنے والوں کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔ان کی شاعری پر ہر زاویے سے اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ میرے لیے فی الوقت کچھ نیا کہنا ممکن نہیں اور پرانے لکھے کو دہرانا اب کلیشے کی حد تک آچکا ہے،سو ان کی شاعری میں سے اپنی پسند کا ایک مختصراور سرسری سا انتخاب پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔پہلے فیض صاحب کے ابتدائی مجموعوں کی غزلوں کے چند اشعار:
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں تھی سحر بار بار گزری ہے
صبا نے پھر درِ زنداں پہ آکے دی دستک
سحر قریب ہے،دل سے کہو نہ گھبرائے
ہم سے کہتے ہیں چمن والے،غریبانِ چمن!
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
اُٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
دل سے تو ہر معاملہ کرکے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں اُن کے سامنے بات بدل بدل گئی
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂسحری ہمکلام کب سے ہے
بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
آخر میں فیض صاحب کی نظم ”کچھ عشق کیا،کچھ کام کیا“ پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا ،کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
۱۹۷۶ء
فیض صاحب کی شاعری کے نشیب و فراز ہوں یا ان کی فیض رساں شخصیت کے،ایک بات اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ فیض صاحب ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی عطا ہیں۔